تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

وہ اس بار بری طرح تپ گئی۔ اکبر صاحب نے تیز آواز میں اس سے کہا۔
”تمہارے اس ”جاننے” نے ہی تو سارا مسئلہ کھڑا کیا ہے۔ خود کو عقل کل سمجھنے والے لوگ زندگی میں بار بار ٹھوکر کھا کر گرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہی نہیں رہتے۔”
”آپ کیا سمجھانا چاہتے ہیں مجھے؟”
”تمہیں کوئی کیا سمجھا سکتا ہے۔ میں تو صرف خدا سے دعا ہی کر سکتا ہوں کہ وہ تمہیں کچھ عقل عطا کرے اور تم سیدھے رستے پر آجاؤ۔”
”بابا! مجھے کسی سیدھے رستے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں پہلے ہی سیدھے رستے پر ہوں اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ رستہ مجھے کہاں لے کر جائے گا۔ آپ کی ساری باتیں مجھے بے معنی لفظ لگتے ہیں اور مجھے افسوس ہوتا ہے کہ آپ یہ لفظ مجھ پر ضائع کرتے ہیں جسے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ جانے سے پہلے آپ کو ایک بار پھر کہہ رہی ہوں کہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔”
اس نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور پھر دروازہ کھول کر باہر چلی گئی۔ اس کے چلے جانے کے بعد بابا بہت دیر تک سر ہاتھوں میں لیے بیٹھے رہے تھے۔
٭٭٭




”پھر تم نے کیا سوچا اس بارے میں؟” مسعود علی نے منصور سے پوچھا۔
”بھائی جان! میں نے اس سارے منصوبے پر غور کیا ہے اور میں اس سے کافی مطمئن ہوں۔ ایک بڑا رسک تو ہے یہ، مگر پھر بھی میں یہ رسک لینے کے لیے تیار ہوں۔” منصور علی نے اپنی بات واضح کر دی۔ مسعود علی کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے منصور علی سے ہاتھ ملایا۔
”تم نے میرا سارا مسئلہ حل کر دیا۔ تم دیکھ لینا۔ ایک دن یہ بزنس تمہارے لیے کتنا منافع بخش ثابت ہوگا۔ جب تم مستقل پاکستان سیٹل ہو گئے تو تب تک یہ کاروبار مکمل طور پر اسٹیبلش ہو جائے گا اور تمہیں اسے سنبھالنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔”
”ہاں، اسی لیے تو میں نے اس فیکٹری میں سرمایہ لگانے کا سوچا ہے۔ ظاہر ہے ساری عمر باہر تو نہیں رہنا کبھی نہ کبھی تو واپس آنا ہی ہے۔ اچھا ہے ابھی سے کوئی بزنس یہاں بھی شروع کر دوں تاکہ جب واپس آنے کا سوچوں تو یہ پریشانی نہ ہو کہ واپس جا کر کروں گا کیا؟ کون سا کام شروع کرنا چاہیے۔” منصور علی نے اپنے بھائی سے کہا۔
”تمہیں بالکل فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں ہوں نا ہر چیز کی دیکھ بھال کرنے کے لیے۔ میں سب کچھ بہت اچھے طریقے سے طے کرلوں گا۔ تم بس وقتاً فوقتاً آکر معاملات دیکھتے رہنا۔ اس طرح ایک تو تمہیں فیکٹری کے بنیادی معاملات سے تھوڑی آگاہی ہو جائے گی اور پھر تمہیں بزنس کا بھی پتا چلتا رہے گا پھر جب تم واپس آکر فیکٹری سنبھالو گے تو تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔” مسعود علی نے منصور کو تسلی دی۔
”ہاں آتا جاتا تو میں رہوں گا، بھئی اب تو ویسے بھی زیادہ آنا جانا پڑے گا، کیونکہ ایک اور رشتے کا اضافہ ہو گیا ہے۔” منصور علی نے قہقہہ لگا کر کہا۔
”اچھا ہے آپ آتے جاتے رہیں گے تو ہمیں بھی اپنی بچیوں کی خیر خیریت کا پتا چلتا رہے گا ورنہ تو آپ بھابھی کو سال میں ایک بار ہی لے کر آتے ہیں۔” شبانہ نے اس کی بات پر مسکرا کر کہا۔
”نہیں اب تو میں آتی جاتی رہوں گی۔ سال میں دو تین چکر لگایا کروں گی لیکن صبغہ اور امبر کی اسکول کی چھٹیوں میں، کیونکہ اب بڑی ہو رہی ہیں دونوں، پڑھائی بھی ذرا مشکل ہوتی جائے گی۔” منیزہ نے شبانہ کی بات پر کہا پھر چاروں معمول کی باتوں میں مصروف ہو گئے۔
٭٭٭
”اماں میں نے سوچ لیا ہے اب وہ اس گھر میں نہیں آئے گی نہ ہی کوئی اسے منانے جائے گا۔ میں اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ ویسے بھی وہ کوئی کم عمر لڑکی نہیں ہے کہ آپ کو یا مجھے پریشانی ہو۔ تیس سال سے اوپر کی ہو چکی ہے۔ نوکری کرتی ہے اچھا ہے اسے خود اپنا گھر بنانے دیں اسے پتا تو چلے کہ یہ کتنا مشکل ہے۔ یہاں رہ کر تو اسے کسی احسان کی قدر ہی نہیں تھی۔ اسے اپنا شوق پورا کرنے دیں۔”
فاطمہ کے بھائی نے شام کو آکر ماں اور بیوی سے اس کے گھر چھوڑ جانے کا قصہ سن لیا تھا اور اس نے ماں سے صاف کہہ دیا تھا کہ اب وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے تو دوبارہ کبھی یہاں نہ آئے کیونکہ وہ اب اسے گھر نہیں آنے دے گا۔ لیکن چند دن گزرنے پر فاطمہ کی ماں کو تشویش ہونی لگی تھی۔ وہ ایک دن اس کے اسکول گئی تھی اور وہاں سے اسے پتا چل گیا تھا کہ وہ مسلسل اسکول آرہی ہے اور اپنی کسی دوست کے گھر رہتی ہے۔ پھر انہوں نے اپنے بیٹے سے بات کرنے کا سوچا تاکہ اسے ایک بار پھر گھر لایا جائے مگر اس نے صاف انکار کر دیا تھا۔ وہ اپنے سر پر یہ بوجھ دوبارہ لادنا نہیں چاہتا تھا۔
”مگر تم یہ سوچو کہ خاندان اور آس پڑوس والے کیا کہیں گے۔ ابھی تو زیادہ لوگوں کو یہ پتا نہیں ہے کہ وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے، مگر جب کچھ اور وقت گزرے گا تو سب کو ہی پتا چل جائے گا پھر لوگ بہت باتیں کریں گے کہ تم بہن کو پاس نہیں رکھ سکے۔ اسے گھر سے نکال دیا۔”
اس کی ماں نے اسے آنے والے دنوں کے بارے میں اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔
”مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ لوگ باتیں کریں گے تو میں ان کی باتیں سن لوں گا، مگر اسے دوبارہ اپنے گھر نہیں لاؤں گا۔ اس نے گھر نہیں چھوڑا ہے، وہ میرے لیے مر گئی ہے۔ سمجھیں، ہم نے اسے دفنا دیا ہے۔” اس کے بھائی کے غصے میں کمی نہیں آئی۔
”مگر بیٹا! تم دیکھو کہ لوگ بہت باتیں بنائیں گے۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ وہ اس کے گھر سے چلے جانے کے بارے میں کیا کیا کہیں گے، ہماری بہت بدنامی ہوگی۔”
”کچھ نہیں ہوگا اماں بالکل بھی کچھ نہیں ہوگا۔ اسے سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کس طرح تماشے کھڑے کرتی رہتی ہے۔ کون ہے جسے اس کی بدزبانی کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ سب کو ہم سے ہی ہمدردی ہوگی۔ اس لیے آپ یہ مت سوچیں کہ اس کے گھر سے چلے جانے سے کوئی آسمان سر پر ٹوٹ پڑے گا۔ اس گھر کے لیے اس کا وجود ضروری نہیں تھا۔ اچھا ہوا ہے کہ وہ خود ہی چلی گئی ہے ورنہ جس طرح کی اس کی حرکات ہیں۔ مجبوراً مجھے خود اس کو نکالنا پڑتا۔” اس کا بھائی قطعاً اس کی واپسی پر تیار نہیں تھا۔ اس کی ماں بیٹے کے تیور دیکھ کر چپ ہوگئی۔
٭٭٭
”کیا بات ہے بیگم صاحبہ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی؟” ملازمہ نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔
وہ گھر کے اندر آتے ہوئے بائیں ہاتھ سے اپنی کنپٹی کو مسل رہی تھی۔ اس نے ملازمہ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے پرس کو اس نے صوفہ پر اچھال دیا اور پھر خود بھی صوفہ پر بیٹھ گئی۔ ملازمہ اب اس کے پاس آگئی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں، تم مجھے چائے کا ایک کپ لا دو۔” اس سے پہلے کہ ملازمہ اس سے دوبارہ وہی سوال کرتی اس نے اسے ہدایات دیں۔
”اچھا جی، میں ابھی لاتی ہوں۔” ملازمہ سر ہلاتی ہوئی تیز قدموں سے لاؤنج سے نکل گئی۔
شائستہ نے صوفہ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیں۔ ہر بار اپنے میکے سے آنے کے بعد اس کا یہی حال ہوتا تھا اور ہر بار وہ تہیہ کر لیتی کہ دوبارہ وہاں نہیں جائے گی، مگر ہر بار وہ دل سے مجبور ہو کر وہاں چلی جاتی۔
”کیا بات ہے بھئی، اس طرح کیوں بیٹھی ہو؟”
وہ ہارون کی آواز پر چونک اٹھی، وہ بریف کیس سینٹر ٹیبل پر رکھ رہا تھا اس نے گہری سانس لے کر پھر آنکھیں بند کرلیں۔ اسے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ ہارون کے آنے کا وقت ہو چکا ہے۔
”بس سر میں کچھ درد ہے۔” اس نے ہلکی آواز میں کہا۔
”تو یار، کوئی میڈیسن لے لیتیں یا پھر ڈاکٹر کے پاس چلی جاؤ۔” اس نے مشورہ دیا۔
”نہیں اب اتنا بھی درد نہیں ہے، ابھی چائے پی لوں گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔” ہارون کچھ دیر تک کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر بریف کیس اٹھاتے ہوئے بولا ”شیور!”
اس نے ایک بار پھر آنکھیں کھول دیں ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا ”جی!”
”آل رائٹ، میں بیڈ روم میں جا رہا ہوں۔ مجھے ابھی تھوڑی دیر میں ڈنر کے لیے کہیں جانا ہے۔”
وہ بریف کیس اٹھا کر اندر چلا گیا۔ وہ اسے جاتا دیکھتی رہی پھر لاشعوری طور پر اٹھ کر خود بھی اس کے پیچھے چلی آئی۔ وہ اس وقت واش روم میں جا چکا تھا۔ وہ بیڈ پر نیم دراز ہوگئی۔ وہ تھوڑی دیر بعد باہر نکلا تو کپڑے تبدیل کر چکا تھا۔ صوفہ پر بیٹھ کر اس نے بوٹ پہنے۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
”ہارون! میں آج بابا کی طرف گئی تھی۔” ہارون ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے کھڑا ٹائی کی ناٹ لگا رہا تھا جب اس نے کہا۔
”میں جانتا تھا یہ حالت تمہاری وہاں جانے کے بعد ہی ہوتی ہے۔” وہ ہمیشہ کی طرح باخبر تھا، بڑے نارمل طریقے سے ٹائی باندھتا رہا۔
”اگر بابا بیمار نہیں ہوتے تو میں کبھی وہاں نہیں جاتی۔”
”کیا ہوا ہے انکل کو؟” اس کا لہجہ اس بار بھی نارمل تھا۔
”وہی بلڈ پریشر اور ہارٹ پرابلم، مگر اس بار ہاسپٹل لے جانا پڑا اور کسی نے مجھے بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ جب میں نے شکایت کی تو بابا نے کہا کہ اچھا ہوا ہے کہ مجھے اطلاع نہیں دی گئی۔ پھر وہی باتیں، وہیں اقوال زریں، وہی نصیحتیں اور ہدایتیں میں یہ سب سنتے سنتے تھک گئی ہوں۔” اس کی آواز میں بیزاری جھلک رہی تھی۔
”ٹیک اٹ ایزی۔ یار! تم ان لوگوں کو بدل نہیں سکتیں، بعض لوگوں کے دماغ میں پیدائشی خرابی ہوتی ہے، تمہارے گھر والے بھی ان میں سے ہیں۔ ایسے لوگ ساری زندگی کتابیںپڑھ پڑھ کر گزار دیتے ہیں یا مصلح بن جاتے ہیں نام نہاد ریفارمر۔ جس کو دیکھیں، نصیحت کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور ان کو اس بات کی بھی پروا نہیں ہوتی کہ لوگوں کو ان کے لمبے چوڑے خطبوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ تمہارے بابا کہنے کو تو میرے چچا ہیں مگر ان میں اور میرے پاپا میں کبھی بھی، کچھ بھی کامن نہیں رہا۔ انکل تو ہمیشہ کسی یوٹوپیا میں رہتے رہے ہیں۔ میرے پاپا کو دیکھو، بزنس کو کہاں سے کہاں لے گئے ہیں اکٹھے ہی شروع کیا تھا نا سب کچھ۔ مگر تمہارے بابا ابھی بھی وہی ایک چھوٹی سی فیکٹری لے کر بیٹھے ہیں۔ زندگی بھر نہ انہوں نے خود ترقی کی ہے نہ اپنی اولاد کو آگے بڑھنے دیا ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ وہ تم سے جیلس ہیں تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ جانتے ہیں ناکہ تم زندگی میں آگے بڑھنے کے سارے گر سیکھ چکی ہو، تو اب انہیں تم سے خوف آنے گا ہے کہ اتنے لوگ اس شہر میں اکبر صاحب کو نہیں جانتے ہوں گے جتنے شائستہ کمال کو جانتے ہیں۔ مجھے تو بعض دفعہ حیرت ہوتی ہے کہ تم جیسی پروگریسو لڑکی کو اللہ نے اس گھر میں کیوں پیدا کر دیا۔”
اس کا سر درد آہستہ آہستہ غائب ہوتا جا رہا تھا۔ وہ اب ہارون کی باتوں پر مسکرانے لگی تھی، جو اپنے بال بناتے ہوئے مسلسل بول رہا تھا۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا وہ اپنے گھر سے جب بھی آتی پریشان ہوتی اور پھر ہارون اسے بڑی مہارت سے ہینڈل کرتا تھا۔
”تمہارے بابا کی یہی ساری باتیں ہیں۔ جنہوں نے ان کے اور ہمارے درمیان اتنی بڑی خلیج کھڑی کر دی ہے۔ میں اسی لیے ان کے پاس نہیں جاتا، پتا نہیں انہیں نظر کیوں نہیں آتا کہ دنیا میں ان ان نام نہاد اقدار کی ضرورت نہیں رہی۔ جن کے وہ علمبردار بن کر پھرتے رہتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی جو اتنے بڑے کرائسس کا شکار ہے وہ ان ہی لوگوں کی وجہ سے ہے۔ یہ خود لبرل ہوتے ہیں نہ دوسروں کو ہونے دیتے ہیں۔ ہر چیز میں مذہب کو لانے کے عادی ہیں ایمونشنل بلیک میلنگ نہیں کرتے، بلکہ مذہبی بلیک میلنگ کرتے ہیں۔ مغرب کو دیکھو انہوں نے مذہب کو ایک طرف رکھ دیا ہے اور کیا ہے جو ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ ذہن استعمال کرتے ہیں دل نہیں۔ ہمارے یہاں رونا ہی دل کا پڑا ہوتا ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ مذہب بھی دل سے تعلق رکھتا ہے۔ دماغ اور ذہن میں اس کی کوئی جگہ نہیں بنتی۔ مگر یہ لوگ اسی کا سہارا لے کر بلیک میل کرتے ہیں۔ تم انکل کی باتوں پر دھیان مت دیا کرو۔ ایک کان سے سنو، دوسرے سے نکال دو۔ وہ اپنی زندگی اپنے زمانے میں گزار چکے ہیں۔ یہ ہماری زندگی ہے اور ہمارا زمانہ ہے۔ ہم جانتے ہیں یہاں کس طرح رہنا ہے، کیسے زندگی گزارنی ہے۔”




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!