تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

اگلے چند گھنٹوں میں اس واقعہ کی خبر شادی کے اجتماع میں موجود خاندان کے تمام افراد کو ہو چکی تھی اور مختلف لوگ اس واقعہ پر مختلف انداز میں تبصرے کر رہے تھے۔
اس رات شائستہ کے گھر میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ وہ واقعہ اس کے گھر والوں کے علم میں بھی آچکا تھا۔ اگر ایک طرف وہ ہارون کمال کی جرأت پر سیخ پا تھے تو دوسری طرف وہ اس بات پر شاکڈ تھے کہ شائستہ نے وہ انگوٹھی اس کے منہ پر مارنے کی بجائے اس سے لے لی تھی۔
اپنے امی ابو کے پوچھنے پر اس نے جھوٹ بول دیا تھا کہ ہارون نے وہ انگوٹھی زبردستی اسے پکڑا دی تھی۔ اس نے اس بات سے انکار کر دیا تھا کہ ہارون نے وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ میں پہنائی تھی۔ وہ یہی کہتی رہی کہ اس نے وہ انگوٹھی گفٹ کے طور پر دی تھی۔ اس کے ماں باپ کے لیے یہ چیز بھی قابل قبول نہیں تھی۔
”وہ ہوتا کون ہے تمہیں تحفے دینے والا اور تم نے کیا سوچ کر اس سے تحفہ لیا۔ کیا تمہیں نہیں پتا کہ ہم لوگوں کا ان سے میل جول تک نہیں ہے۔” اس کی امی بہت غصہ میں تھیں۔
”امی! میں کیا کرتی… اس نے زبردستی…”
”زبردستی کی بچی… تمہیں وہ انگوٹھی اس کے منہ پر مارنی چاہیے تھی… اب پورے خاندان میں تمہارے اور اس خبیث کے بارے میں جو باتیں ہو رہی ہیں، وہ سنو جا کر… ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔” اس کی امی غم و غصہ سے بے حال ہو رہی تھیں۔
وہ بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ اپنے گھر والوں کے برعکس وہ نہ تو شرمندہ تھی اور نہ ہی پریشان بلکہ وہ اندر ہی اندر بے تحاشا خوش اور مسرور تھی۔




سترہ سال کی عمر میں وہ بھی ٹین ایج کے اس سراب کا شکار ہو چکی تھی۔ جس میں ہر چمکتی چیز سونا نظر آتی تھی اور اس وقت ہارون کمال اسے وہی سونا نظر آرہا تھا۔اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے برعکس اسے کبھی بھی تایا کا خاندان برا نہیں لگا تھا اور نہ ہی اس نے ان کے لائف اسٹائل پر کبھی کوئی اعتراض کیا تھا۔ بلکہ اندر ہی اندر وہ اپنے تایا کے خاندان سے بہت مرعوب تھی اور ان پر رشک بھی کرتی تھی۔ ان کے گھرانے کی آزاد خیالی جو اس کے ماں باپ کے لیے قابل نفرت تھی، اس کے لیے قابل رشک تھی۔
وہ تین بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ اس کی دو بہنوں اور ایک بھائی کی شادی ہو چکی تھی اور وہ خود ایف اے میں تھی۔ اس کے گھرانے میں پردے کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی، بلکہ پورے خاندان میں ہی سوائے تایا کے گھرانے کے… جہاں نہ صرف اس کی تائی بہت عرصہ پہلے پردہ ترک کر چکی تھیں۔ بلکہ ان کی دونوں بیٹیاں بھی ہر وقت بہت جدید تراش خراش کے ملبوسات میں ملبوس رہتی تھیں۔
ان کے گھر میں ہونے والی پارٹیز کا احوال سن کر جہاں اس کے ماں باپ تایا پر تنقید کرتے وہاں شائستہ اکبر کو تایا کا خاندان کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوئی مخلوق لگتا۔
ایسا نہیں تھا کہ اس کا اپنا گھرانہ کسی مالی ناآسودگی کا شکار تھا، مگر شائستہ کے لیے سب کچھ وہ آزادی تھی جو تایا کی بیٹیوں کو حاصل تھی… اسے اپنے بہن بھائیوںکے برعکس اپنے ماں باپ کی باتوں اور نصیحتوں میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی تھی بلکہ بعض دفعہ وہ چڑ جاتی تھی۔ اسے اس برقعہ سے نفرت تھی جو کالج جاتے ہوئے اسے اوڑھنا پڑتا تھا۔
ساٹھ کی دہائی کے ان آخری چند سالوں میں معاشرے میں بہت زیادہ تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ اور یہ تبدیلیاں نہ صرف لوگوں کی سوچ کو بدل رہی تھیں بلکہ ان کے رہنے سہنے کے طریقوں کو بھی بڑی حد تک متاثر کر رہی تھیں۔
وہ کالج میں لڑکیوں کے یونیفارم کی شرٹس میں ہونے والی نت نئی تبدیلیوں اور بالوں کے ہیئر اسٹائلز دیکھتی اور کڑھتی رہتی۔ کیونکہ اسے سادہ چہرے، سیدھی چٹیا اور ڈھیلے ڈھالے یونیفارم میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں تھی۔
اس کی بڑی دونوں بہنوں کی شادی ایف اے کے بعد ہوئی تھی اور وہ جانتی تھی کہ خود اس کی شادی بھی ایف اے کے بعد ہو جائے گی۔ اسے تعلیم میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی وہ خود بھی شادی ہی کرنا چاہتی تھی، مگر جس آزادی کی اسے خواہش اور چاہ تھی، وہ آزادی اسے شادی کے بعد بھی نہیں مل سکتی تھی۔ اس کی دونوں بہنوں کی شادیاں اگرچہ مالی طور پر آسودہ گھرانوں میں ہوئی تھیں۔ مگر وہ گھرانے اور اس کے دونوں بہنوئی اتنے ہی کنزرویٹو تھے جتنے خود اس کے بابا اور بھائی تھے اور وہ جانتی تھی کہ خود اس کے لیے بھی اس قسم کے گھرانے کا انتخاب کریں گے اور یہ چیز اسے کسی حد تک پریشان بھی کر رہی تھی۔
اس کی دونوں بہنیں اپنے گھروں میں بہت خوش تھیں اور وہ حیران ہوتی تھی کہ وہ اتنے گھٹن زدہ ماحول میں کس طرح خوش اور مطمئن ہیں؟شاید ہارون کمال اگر خود اس کی طرف اس طرح پیش رفت نہ کرتا تو وہ بھی اس کی طرف متوجہ نہ ہوتی، اگرچہ وہ بری طرح اس سے متاثر ہو چکی تھی۔ وہ بہت زیادہ خوبصورت تھا مگر اس خوبصورتی سے بڑھ کر جو چیز شائستہ کو اس کی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ وہ اس کے گھرانے کی آزاد خیالی تھی۔ اسے ہارون کمال کی شکل میں وہ روزن نظر آگیا تھا۔ جس کے ذریعے وہ اپنے گھرانے کی روایات، پابندیوں اور اخلاقیات سے فرار ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ اور غصے کے باوجود ہارون کمال کا خیال اس کے دماغ سے غائب نہیں ہوا۔
”پورے خاندان میں سے اگر اس نے مجھے چنا ہے تو مجھ میں یقینا کوئی ایسی بات تو ضرور ہوگی جو اور کسی میں نہیں تھی۔”
وہ بار بار سوچ رہی تھی۔ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھی کہ وہ بہت زیادہ خوبصورت ہے مگر پہلی بار کسی مرد نے اس کی خوبصورتی کو اس طرح سراہا تھا۔ ٹین ایج میں اس طرح کی ستائش انسان کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیتی ہے اور شائستہ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔
٭٭٭
تیسرے دن کمال عباس اپنی بیوی کے ساتھ اکبر عباس کے گھر موجود تھے۔ اکبر عباس اور ان کی بیوی نے خاصی رکھائی کے ساتھ ان کا استقبال کیا تھا۔ ہارون کمال والے واقعہ کے بعد ان کا دل کمال عباس کی طرف سے اور بھی کھٹا ہوگیا تھا۔ انہیں یقین تھا ہارون نے یہ حرکت ان ہی کے ایما پر کی ہوگی اور اس وقت ان کے اس خیال کی تصدیق ہوگئی تھی جب کمال عباس نے ہارون کے لیے شائستہ کا رشتہ مانگا تھا۔
اکبر عباس ان کی بات پر بھڑک اٹھے۔
”آپ نے اتنی بڑی بات کہنے کی ہمت کیسے کی… کیسے جرأت ہوئی آپ کو کہ آپ میری بیٹی کا رشتہ لینے چل پڑے؟”
”اتنے غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے اکبر! کیا تم نے بیٹی نہیں بیاہنی ہے۔ بیٹیوں والے گھروں میں کوئی بھی آسکتا ہے۔” کمال عباس ان کے غصہ سے بالکل متاثر ہوئے بغیر بولے۔
”مگر کسی حرام کمانے اور کھانے والے کو میرے گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے… نہ ہی میں کسی ایسے گھر میں اپنی بیٹی بیاہوں گا جو حرام کی کمائی سے بنا ہو۔”
کمال عباس کا چہرہ چند لمچوں کے لیے سرخ ہوا۔” میں پورے خاندان کو چھوڑ کر تمہارے گھر آیا ہوں اور تم…”
اکبر عباس نے ان کی بات کاٹ دی۔
”آپ خاندان میں جہاں چاہیں جائیں مگر اس مقصد کے لیے میرے گھر آنے کی زحمت دوبارہ نہ کریں۔”
”تمہیں مجھ پر اور میرے کاروبار پر اعترا ض ہے مگر میرے بیٹے میں کیا خامی نظر آرہی ہے؟” کمال عباس نے ہمت نہیں ہاری۔
”آپ کے بیٹے میں کیا خرابی ہے؟ اس لفنگے کا نام میرے سامنے دوبارہ مت لیجئے گا… حرام کی کمائی پر پلنے والی اولاد وہی سب کچھ کرتی ہے جو اس نے کیا… پورے خاندان میں اس نے میری بیٹی کو بدنام کر دیا… سب کے سامنے کسی لحاظ، کسی شرم کے بغیر اس نے میری بیٹی کو انگوٹھی پہنائی… کیا سمجھا اس نے مجھے یا میری بیٹی کو… جن لوگوں میں غیرت ہو وہ اس طرح کے کام نہیں کرتے، اور میں اس کمینے کو اپنا داماد بنا لوں۔ وہ آپ کا بیٹا نہ ہوتا تو ایسی حرکت کے بعد میں اسے جان سے مار دیتا، اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں نے اسے صحیح سلامت چھوڑ دیا۔”
اکبر عباس بہت کم غصے میں آتے تھے مگر جب وہ غصے میں آتے تھے تو پھر انہیں ٹھنڈا کرنا خاصا مشکل کام ہوتا تھا اور اس وقت کمال عباس بھی اسی مشکل کا سامنا کر رہے تھے۔
”میں ہارون کی حرکت پر شرمندہ ہوں۔ اس سے غلطی ہوگئی، ابھی وہ نیا نیا باہر سے آیا ہے۔ اسے یہاں کے ماحول کا پتا نہیں ہے، میں اسے سمجھا دوں گا وہ ٹھیک ہو جائے گا دوبارہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گا۔”
”دوبارہ وہ ایسی حرکت کرے گا تو اپنے پیروں پر چل کر واپس نہیں جاسکے گا۔”
”اکبر! اتنا غصہ تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ ذرا سوچو، اس رشتہ کی وجہ سے دونوں گھرانے ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے۔ پچھلے بہت سے سالوں میں ہم دونوں کے درمیان موجود تعلق میں جو دراڑ آگئی ہے۔ شائستہ اور ہارون کا رشتہ اس دراڑ کو پر کر دے گا۔ تمہاری بیٹی میرے گھر بہت خوش رہے گی۔”
کمال عباس نئے سرے سے انہیں منانے کی کوشش کر رہے تھے مگر اکبر عباس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ”میرے اور آپ کے درمیان موجود رشتہ میں دراڑ آپ کے ان نظریات نے پیدا کی ہے۔ جنہیں آپ نے اپنی زندگی گزارنے کے لیے چنا ہے اور کوئی نیا رشتہ اس دراڑ کو پر نہیں کرسکتا… نہ آج، نہ ہی آئندہ کبھی، میں نے اپنی اولاد کو رزق حلال کھلا کر بڑا کیا ہے اور اب میں انہیں حرام کھانے کی عادت نہیں ڈالنا چاہتا۔ اس لیے آپ میرے گھر سے چلے جائیں اور اپنے بیٹے سے یہ بات کہہ دیں کہ میں اپنی بیٹی کو ساری عمر اپنے گھر تو بٹھا کر رکھ سکتا ہوں مگر اس جیسے شخص کے ساتھ شادی کبھی نہیں کروں گا۔”
اکبر عباس قطعی لہجے میں کہتے ہوئے اٹھ کر ڈرائنگ روم سے نکل گئے۔
٭٭٭
کمال عباس نے اپنے بھائی کی تمام باتیں بلاکم و کاست واپس گھر جا کر ہارون کو بتا دی تھیں۔
ہارون نے دو دن پہلے جب ان سے شائستہ کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے گھر رشتہ لے جانے کے لیے کہا تھا تو کمال عباس نے اکبر عباس کے متوقع ردعمل کے بارے میں پہلے ہی اسے مطلع کر دیا تھا۔ مگر ہارون پر ان کی اس تنبیہ کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ اس نے نہ صرف شائستہ کو انگوٹھی پہنائی تھی بلکہ انہیں اس کے گھر رشتہ لے کر جانے پر بھی مجبور کر دیا تھا۔
اپنے باپ کے منہ سے اس نے اکبر عباس کی ساری باتیں چہرے پر کوئی تاثر لائے بغیر بڑی خاموشی کے ساتھ سنی تھیں۔ اپنی بات کے اختتام پر کمال عباس نے اسے جیسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے… میرے بہت سے دوستوں کی بیٹیاں شائستہ سے بہتر ہیں۔ تم دیکھنا، ہم تمہارے لیے کیسی بیوی لے کر آتے ہیں، پورا خاندان دیکھے…”
ہارون کمال نے ان کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔ ”نہیں میری بیوی بن کر اس گھر میں صرف شائستہ ہی آئے گی۔”
”مگر اکبر اس رشتہ پر رضامند نہیں ہے۔” کمال عباس نے بیٹے کو یاد دلایا۔
”تو پھر کیا؟… اگر اکبر رضامند نہیں ہے تو تمہاری شادی شائستہ سے کیسے ہوسکتی ہے؟”
”شادی کے لیے صرف لڑکی کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ اس کے باپ کی نہیں… اور شائستہ رضامند ہے۔” ہارون نے عجیب سے لہجے میں کہا۔




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!