تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

‘’کیا بات ہے فاطمہ! کیا ہوا ہے؟ کیوں رو رہی ہو اس طرح؟’’
آسیہ اسے اس طرح روتے دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ ان دونوں کی دوستی پچھلے چھ سال سے تھی۔ آسیہ بھی اسی اسکول میں پڑھاتی تھی جس میں فاطمہ پڑھاتی تھی مگر شادی کے بعد اس نے پڑھانا چھوڑ دیا۔ اس کا گھر فاطمہ کے گھر کے پاس تھا اور فاطمہ اکثر اس کے پاس جایا کرتی تھی۔ شادی کے بعد بھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ آسیہ کا شوہر دوبئی میں ہوتا تھا اور آسیہ زیادہ تر اپنے میکے ہی میں رہتی تھی۔ فاطمہ جب زیادہ پریشان ہوتی تو اس کے پاس چلی جاتی۔ وہ اس کا حوصلہ بندھاتی اسے تسلیاں دیتی اور فاطمہ کے ڈپریشن کو کم کرنے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔
فاطمہ سے دوستی بھی آسیہ نے خود ہی کی تھی، ورنہ فاطمہ نے خود پر ایسا خول چڑھایا ہوا تھا جس کے اندر جھانکنے کی کسی کو ہمت ہی نہیں ہوتی تھی اور جب آسیہ نے ہمت کرکے اس خول کے اندر جھانک لیا تھا تو اسے ایک بدزبان، لڑاکا لڑکی کے بجائے ایک سہمی ہوئی کمزور اور بزدل لڑکی نظر آئی تھی۔ اسکول میں سب ان کی دوستی پر حیران ہوتے تھے کیونکہ فاطمہ تو کسی کو اپنے پاس آنے ہی نہیں دیتی تھی اور اب وہ آسیہ کے آگے پیچھے پھرتی تھی۔
اس واقعہ کے دوسرے دن فاطمہ معمول کے مطابق اسکول گئی تھی اور پھر اسکول سے گھر جانے کے بجائے آسیہ کی طرف آگئی تھی اور اب وہ بلک کر رہ رہی تھی۔
‘’کیا ہوا ہے فاطمہ؟ دیکھو میں بہت پریشان ہو گئی ہوں۔ مجھے بتاؤ، کیا ہوا ہے تمہیں۔ گھر میں تو سب خیریت ہے نا؟” آسیہ واقعی بہت پریشان ہو گئی تھی۔
‘’دنیا میں سب کچھ ٹھیک ہے بس اگر کوئی ٹھیک نہیں ہے تو میں ٹھیک نہیں ہوں۔ آسیہ! اللہ تعالیٰ مجھ جیسے لوگ کیوں بنا دیتا ہے؟” وہ بلکتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی۔ ”دنیا میرے بغیر بھی مکمل تھی۔ میرے نہ ہونے سے بھی کسی کو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا پھر مجھے اپنے اور دوسروں کے لیے عذاب بنا کر کیوں بھیج دیا۔’’
‘’فاطمہ! چپ ہو جاؤ کیا ہوگیا ہے۔ کیوں اس طرح کی باتیں کر رہی ہو؟” آسیہ نے اسے چپ کروانے کی کوشش کی تھی۔




‘’مجھے بولنے دو آسیہ! مجھے کہنے دو۔ میں کہوں گی نہیں تو مر جاؤں گی۔ یہ کوئی زندگی ہے جو میں گزار رہی ہوں۔ سڑک پر پڑا ہوا پتھر تک مجھ سے بہتر ہے۔ وہ کم از کم ٹھوکر کو محسوس تو نہیں کرسکتا اور میں میں کیا ہوں۔ بوجھ، عذاب، مصیبت کس کو فائدہ ہے میرے وجود سے۔ کس کو فائدہ ہے۔ میں نہ اچھی بیٹی ہوں نہ اچھی بہن، نہ اچھی استاد، لوگ میری عزت نہیں کرتے۔ محبت تو دور کی بات ہے مجھ سے ہر کوئی بھاگتا ہے یوں جیسے میں گندگی ہوں، کچرا ہوں، میں کیا بن گئی ہوں آسیہ میں کیا بن گئی ہوں؟’’
آسیہ نے پہلی بار اسے اس طرح بے تحاشا روتے دیکھا تھا۔ وہ پریشان ہو گئی۔
‘’کون محبت نہیں کرتا تم سے، سب کرتے ہیں، میں بھی کرتی ہوں۔’’
‘’کوئی نہیں کرتا آسیہ! کوئی نہیں کرتا۔ محبت اس چیز سے کی جاتی ہے جس کی ضرورت ہو۔ میری کسی کو ضرورت نہیں ہے۔ پتا نہیں میں مر کیوں نہیں جاتی۔ میں ختم کیوں نہیں ہو جاتی۔’’
آسیہ کو اب اس پر رحم آنے لگا تھا وہ جان چکی تھی کہ کوئی غیر معمولی بات ہوئی ہے ورنہ فاطمہ اس طرح رویا نہیں کرتی تھی۔ وہ اسے بڑی دیر تک تسلی دیتی رہی پھر آہستہ آہستہ فاطمہ نے اسے سب کچھ بتا دیا۔
‘’میں وہاں نہیں رہنا چاہتی ہوں آسیہ! میں اب کبھی کسی قیمت پر بھی اس گھر میں نہیں رہنا چاہتی ہوں۔ میں وہاں سے چلی جانا چاہتی ہوں۔” وہ ایک ننھے بچے کی طرح اس کا ہاتھ تھام کر کہہ رہی تھی۔
‘’یہ آسان نہیں ہے فاطمہ! لڑکی ہوتے…’’
فاطمہ نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔ ”میں لڑکی نہیں ہوں آسیہ، میں لڑکی نہیں ہوں۔ میں بتیس سال کی عورت ہوں۔’’
‘’پھر بھی فاطمہ اکیلے رہنا آسان نہیں ہے۔ بتیس سال کی عمر وہ میچیورٹی کبھی نہیں لاتی جو ایک اکیلی عورت کو دنیا سے لڑنے کے لیے چاہیے۔” اس نے فاطمہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔
‘’مجھے لوگوں کی نظروں اور ٹھوکروں نے بہت میچیور کر دیا ہے۔ مجھے اکیلے رہنے میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا اور اگر آئے گا بھی تو میں اسے حل کر لوں گی۔’’
‘’فاطمہ! اس وقت تم جذباتی ہو رہی ہو، شاید غصے میں بھی ہو۔ اس طرح گھر سے چلے جانا آسان کام نہیں ہے۔ اول تو تمہارے گھر والے تمہیں کبھی گھر چھوڑنے ہی نہیں دیں گے اور اگر انہوں نے تمہیں گھر سے جانے دیا تو پھر دوبارہ کبھی وہ تمہیں وہاں نہیں آنے دیں گے۔ تم کیا ساری عمر ان کے بغیر رہ سکتی ہو؟” آسیہ اسے سمجھا رہی تھی۔
‘’ہاں میں رہ سکتی ہوں اور میں رہ لوں گی کچھ بھی مشکل نہیں رہے گا سب کچھ آسان ہو جائے گا۔ آسیہ! میں ایک بار پھر سے اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہوں جو میں اس گھر میں رہ کر نہیں کرسکتی۔ میں ایک اچھے انسان کے طور پر اس دنیا میں رہنا چاہتی ہوں وہ ان کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ میں ان کو نہیں بدل سکتی مگر خود کو بدل سکتی ہوں اور میں خود کو بدلنا چاہتی ہوں۔ میں ساری عمر اس طرح نہیں گزارنا چاہتی کہ لوگ مجھ سے خوف کھائیں۔ مجھ سے نفرت کریں۔” وہ بے بس ہو کر بولتی رہی۔ آسیہ کو اس پر ترس آنے لگا۔
‘’فاطمہ!اس طرح اکیلے تم نہیں رہ پاؤ گی، ایک وقت آئے گا جب تم بوڑھی ہو جاؤ گی پھر تمہیں یہ سب رشتے یاد آئیں گے۔ ان کی ضرورت پڑے گی پھر تم کیا کرو گی۔ محتاج بن کر زندگی کیسے گزارو گی۔ بڑھاپے میں کیا کرو گی۔’’
‘’میں نے سب کچھ سوچ لیا ہے۔ میں بڑھاپے میں اکیلی نہیں رہوں گی میں ایک بچہ گود لے لوں گی۔ اسے پالوں گی۔ وہ میرا سہارا بنے گا۔’’
آسیہ اس کی بات پر دم بخود رہ گئی تھی۔ ”تم پاگل ہوگئی ہو فاطمہ! کیسی باتیں کر رہی ہو۔ کیا ایسا ممکن ہے؟’’
‘’کیوں ممکن نہیں ہے، کیا لوگ بچے گود نہیں لیتے۔’’
‘’لیتے ہیں لیکن تم شادی شدہ نہیں ہو۔ تمہارا کوئی گھر بار نہیں ہے پھر تم عورت ہو بچہ کیسے گود لو گی اور کیسے پالو گی۔’’
‘’میں پال لوں گی۔ میں نے سب کچھ سوچ لیا ہے ہر چیز طے کرلی ہے۔” فاطمہ کا لہجہ قطعی تھا۔
‘’فاطمہ! تم جس امید پر بچہ گود لینے کا سوچ رہی ہو۔ ضروری نہیں کہ وہ پوری بھی ہو۔ اپنا خون اپنا ہی ہوتا ہے یہ گود لیے بچے زندگی میں کسی کام نہیں آتے ان کا خون کا رشتہ نہیں ہوتا ہے اس لیے یہ اپنے والدین کی خواہشات کی پروا نہیں کرتے۔ بڑی آسانی سے ماں باپ کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ تمہارے ساتھ اگر ایسا ہوا تو تم کیا کرو گی؟” آسیہ اسے حقیقت پسندانہ طریقے سے سمجھا رہی تھی۔
‘’نہیں چھوڑے گا۔ وہ مجھے نہیں چھوڑے گا اور اگر چھوڑے گا تو بھی کیا ہوگا۔ اگر خون کے رشتوں نے مجھے چھوڑ دیا ہے تو اس کے چھوڑنے سے کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ مگر آسیہ! میں تم سے کہتی ہوں۔ میری بات یاد رکھنا، میرا بیٹا کبھی مجھے نہیں چھوڑے گا۔’’
آسیہ بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔ وہ تو جیسے سب کچھ طے کرکے آئی تھی پھر بہت دیر تک دونوں میں اسی موضوع پر بحث ہوتی رہی مگر کوئی حل نہیں نکلا۔ آسیہ اب بھی اسے سمجھا رہی تھی مگر وہ سمجھنے پر تیار نہیں تھی۔ سہ پہر کو وہ گھر چلی گئی۔ جانے سے پہلے وہ آسیہ سے ایک مطالبہ کر گئی تھی اور اس مطالبے نے آسیہ کو پریشان کر دیا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ آسیہ اسے کوئی بچہ گود لے دے اور آسیہ کو یہ کام پہاڑ جتنا بڑا لگ رہا تھا۔ چند دنوں تک اس کا شوہر باہر سے آنے والا تھا اور وہ اب اس الجھن میں گرفتار ہو گئی تھی کہ اس سے بات کیسے کرے گی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔
فاطمہ خود کوئی بچہ گود نہیں لے سکتی تھی کیونکہ وہ شادی شدہ نہیں تھی اور نہ ہی اسے اپنی فیملی کی سپورٹ حاصل تھی۔ یتیم خانے والے بہت سے اعتراضات کرتے اور فاطمہ ان سب اعتراضات کے جواب نہیں دے سکتی تھی۔ اس لیے اس سلسلے میں اس نے آسیہ سے مددمانگی تھی کیونکہ اگر آسیہ اور اس کا شوہر یتیم خانے سے بچہ گود لینے کی کوشش کرتے تو انہیں آسانی سے بچہ مل جاتا۔ مگر فاطمہ یہ سب جتنا آسان سمجھ رہی تھی یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔
٭٭٭
‘’بس تو بھائی صاحب! ہم اگلے ہفتے بچوں کی منگنی کر دیتے ہیں تاکہ خاندان میں سب کو علم ہو جائے۔’’
منصور علی نے بڑے پرجوش انداز میں کہا اور مسعود علی نے اس کی بات پر سر ہلا دیا۔
پاکستان آنے کے دوسرے ہی دن منصور علی نے اپنے بڑے بھائی اور بھابھی سے ان رشتوں کی بات کی تھی اور مسعود علی اور شبانہ کے دل میں جیسے لڈو پھوٹ پڑے تھے۔ سونے کی چڑیا ان کی کسی کوشش کے بغیر ہی ان کے ہاتھ آگئی تھی انہوں نے بغیر کسی پس و پیش کے یہ رشتے قبول کر لیے تھے اور اس بات نے جہاں خود انہیں اور شبانہ کو خوش کیا تھا وہاں منصور علی اور منیزہ بھی بہت مسرور ہو گئے تھے اور اب وہ چاروں منگنی کے فنکشن کو طے کر رہے تھے۔
‘’تم نہیں جانتے منصور! تم نے میری کتنی بڑی خواہش پوری کر دی ہے۔” مسعود علی نے بڑی ممنونیت سے منصور سے کہا تھا۔
‘’آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں بھائی صاحب! یہ صرف آپ کی ہی نہیں ہماری بھی خواہش تھی بلکہ یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ نے ہماری بات مان لی ہمیں مایوس نہیں کیا۔” منصور علی نے ان کی بات کے جواب میں کہا۔
‘’منصور بھائی! خوش قسمتی تو یہ ہماری ہوگی کہ ہمارے گھر امبر اور صبغہ بہو بن کر آئیں گی۔ ہمارا رشتہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گا۔” اس بار شبانہ نے منصور کی بات کے جواب میں کہا تھا۔ منیزہ اور منصور دونوں شبانہ کی بات پر مسکرانے لگے۔
ایک ہفتے بعد بڑی دھوم دھام سے منگنی کی رسم ادا کی گئی تھی۔ منصور اور منیزہ نے دل کھول کر روپیہ خرچ کیا تھا۔ وہ جب بھی پاکستان آتے تو دو چار دعوتوں کا اہتمام ضرور کرتے تھے اور ان دعوتوں پر وہ پیسہ پانی کی طرح بہاتے تھے۔ اگر عام دعوتوں پر وہ اس طرح روپیہ خرچ کرسکتے تھے تو اپنی بیٹیوں کے لیے تو وہ اس سے بھی آگے بڑھ سکتے تھے۔ روپیہ خرچ کرنے میں مسعود علی نے بھی کنجوسی نہیں کی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سب کچھ جو وہ خرچ کریں گے یہ فیوچر انویسمنٹ ہوگی انہیں منصور علی سے اس کے بدلے بہت کچھ حاصل کرنا تھا۔ اس لیے انہوں نے بھی آنکھ بند کرکے روپیہ خرچ کیا تھا۔ صبغہ اور امبر کی منگنی کے لیے جو ملبوسات تیار کیے گئے تھے۔ ان پر سونے کے تاروں سے کام کروایا گیا تھا۔ حتیٰ کہ کھسوں پر بھی تلے کے بجائے سونے اور چاندی کے تاروں کا ہی کام کروایا گیا تھا۔ وہ ان دونوں کے لیے سونے کے بجائے ہیرے کے سیٹ لے کر گئے تھے۔ اس کے بدلے میں منصور علی نے دونوں لڑکوں کو ایک ایک لاکھ روپیہ دیا تھا اور شبانہ کو بیس تولے کے کنگن دیئے تھے۔ ان کے خاندان میں نسبت اور شادی اسی دھوم دھڑکے سے کی جاتی تھی اور روپیہ بھی اسی طرح لٹایا جاتا تھا مگر اس کے باوجود پورا خاندان ان دو نسبتوں سے بہت مرعوب ہو گیا تھا۔ ہر ایک کو ان چاروں بچوں کی قسمت پر رشک آرہا تھا۔
٭٭٭
‘’اسد کہاں ہے؟” ہارون کمال کو بریف کیس رکھتے ہوئے اچانک اس کا خیال آیا۔ ”وہ آیا کے پاس ہے ابھی سو کر اٹھا ہے۔ آیا اسے فیڈ کرا رہی ہے۔’’
شائستہ نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھے ہوئے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی ایک اور تہہ جماتے ہوئے کہا۔
‘’اب بخار ٹھیک ہوگیا ہے اس کا؟” اس نے شرٹ کے کف کھولتے ہوئے پوچھا۔
‘’ہاں۔ اب بخار اتر گیا ہے۔ آیا بتا رہی تھی صبح کافی دیر تک روتا رہا دودھ بھی نہیں پی رہا تھا۔ اس وقت بخار بھی تیز تھا لیکن سہ پہر تک اس کا بخار بھی اتر گیا اور دودھ پینے کے بعد وہ خاموشی سے سو گیا۔ میں نے کلب سے دو تین بار فون کرکے آیا سے اس کے بارے میں پوچھا جب اس کی طبیعت سنبھلی تب ہی میں نے تاش کھیلنا شروع کیا ورنہ پہلے تو میرا دل ہی نہیں لگ رہا تھا۔ بہت فکر مند تھی میں۔’’
شائستہ اب پرفیوم لگاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ”پہلے تو میرا دل چاہا میں کلب سے واپس آجاؤں لیکن بس پھر پتا ہی نہیں چلا۔ وقت کیسے گزر گیا۔ ویسے بھی آج کلب میں ممبرز کی میٹنگ تھی ورنہ میں شاید نہ جاتی۔’’
اس نے پرفیوم رکھتے ہوئے کہا۔ ”کیوں بھئی یہ جذباتیت کہاں سے آگئی ہے تم میں، ٹھیک ہے اسد کو بخار تھا مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ تم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مڈل کلاس عورتوں کی طرح اس کے پاس بیٹھ جاؤ۔ اپنی باقی مصروفیات کو نظر انداز کر دو۔’’
ہارون کمال نے شوز کے تسمے کھولتے ہوئے اس سے کہا۔
‘’نہیں، میں جذباتی تو نہیں ہو رہی بس ایسے ہی مجھے اس کا خیال آرہا تھا اور میں نے اس کے لیے کون سے کام چھوڑ دیئے ہیں، میں اپنے کاموں میں مصروف رہی تھی۔ ‘’
اس نے جیسے ہارون کمال کو وضاحت دی۔ وہ شوز کھولنے میں مصروف رہا۔
‘’شائستہ! بچوں کو ویسے بھی خود سے کچھ دور ہی رکھنا چاہیے۔ ماں یا باپ کی زیادہ توجہ انہیں خراب کر دیتی ہے۔ میں نے اسی لیے اسد کے لیے شروع سے آیا کا انتظام کر دیا ہے تاکہ تمہیں اس کی کوئی ذمہ داری نہ اٹھانی پڑے اور تم بے فکر ہو کر زندگی کو میرے ساتھ انجوائے کرسکو۔’’
ہارون کمال نے اس سے کہا۔ وہ خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی۔ اسے ہارون کی کسی بات پر اعتراض نہیں تھا۔ وہ اس کی باتوں کو نہ صرف دل سے مانتی تھی بلکہ ان پر عمل بھی کرتی تھی۔ اس وقت بھی وہ بڑے انہماک سے اس کی باتیں سن رہی تھی۔
‘’تم دیکھو۔ میرے پاپا نے ہمیشہ مجھے خود سے کچھ فاصلے پر رکھا اور اس فاصلے نے مجھے بہت مضبوط بنا دیا۔ تم خود دیکھ لو میں زندگی میں کتنا کامیاب ہوں اور میں چاہتا ہوں۔ یہی کامیابی میرے بیٹے کے حصے میں بھی آئے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب تم میری بات مان کر اسی طرح کرو جیسا میں چاہتا ہوں” وہ آہستہ آہستہ ایک بار پھر اس کی برین واشنگ کر رہا تھا۔
‘’تمہیں کیا لگتا ہے کیا میں تمہاری باتوں پر عمل نہیں کرتی؟” اس نے یک دم ہارون کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
‘’نہیں خیر میں نے یہ تو نہیں کہا۔ تم بات مانتی ہو، یہی تو… خوبی ہے تم میں۔ تم بحث نہیں کرتی ہو اور مجھے بحث کرنے والی عورتیں زہر لگتی ہیں۔ مرد کی بات ہر صورت میں ماننی چاہیے۔ وہ چاہے صحیح کہہ رہا ہو یا غلط عورت کو اس کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ اس پر کوئی پابندی لگانی چاہیے نہ اس کی کسی بات سے انکار کرنا چاہیے تم جانتی ہو شائستہ! یہ مڈل کلاس کی عورت کیوں اپنے شوہر کے دل میں کبھی جگہ نہیں بنا سکتی۔ صرف اس لیے کہ اس کلاس کی عورت بحث بہت کرتی ہے، بہت ویلیوز لے کر چلتی ہے، مرد کو اخلاقیات سکھانا چاہتی ہے، تم تصور کر سکتی ہو۔ آدمی کو بتانا چاہتی ہے کہ انہیں کیسی زندگی گزارنا چاہیے۔ گھر کے اندر کس طرح رہنا چاہیے اور باہر کس طرح رہنا چاہیے۔ مرد کو ان گھسے پٹے طور طریقوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ ہی اس فرسودہ قسم کی اخلاقیات کی۔ آج کی دنیا میں یہ دسویں صدی کی اخلاقیات مرد کو باندھ نہیں سکتیں۔’’
وہ ایک بار پھر بات کرتے کرتے اس موضوع پر بولنے لگا تھا جس پر وہ اکثر بولتا تھا۔ شائستہ بہت غور سے اس کی باتیں سنتی رہی۔ وہ سمجھنا چاہ رہی تھی۔ وہ اب اور کیا چاہتا ہے اور کون سی آزادی اسے درکار ہے؟ وہ اپنی باتوں سے ہمیشہ اسے ہپنا ٹائز کرلیا کرتا تھا۔ اسے دلیل کے ساتھ بات کرنی آتی تھی اگر ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی شائستہ کمال جو اس کے عشق میں گرفتار تھی۔ وہ وہی کرتی جو وہ اسے کہتا۔
‘’پتا نہیں کیوں لیکن ہارون! بعض دفعہ مجھے لگتا ہے کہ تم مجھ سے خوش نہیں ہو، تمہیں مجھ میں کوئی نہ کوئی کمی ضرور نظر آئی ہے جسے تم ہر وقت ختم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہو۔’’
اس نے بہت عجیب سے انداز میں ہارون سے کہا تھا۔ وہ جواباً ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
‘’مجھے اگر تم میں کوئی کمی نظر آتی تو میں تمہیں چھوڑ دیتا۔ میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو کمیوں اور خامیوں کے ساتھ گزارا کرتے ہیں میں Perfectionist ہوں اور مجھے ہر چیز ہی پرفیکٹ چاہیے وہ چائے کا ایک کپ ہو یا بیوی۔ میں بہترین سے کم پر کمپرومائز کرنے والا نہیں ہوں۔ تم اب تک میرے ساتھ میری بیوی کی حیثیت سے ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مجھے تم میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ میں نے تمہیں اپنی زندگی میں بہت سوچ سمجھ کر شامل کیا تھا یہ کوئی جذباتی فیصلہ نہیں تھا۔ اس لیے تم اپنے ذہن سے ایسے احمقانہ اور فضول سوالات نکال دو۔ یہ سب کچھ جو تمہیں بتاتا رہتا ہوں یہ تمہارے ہی فائدے کے لیے ہے۔ کیا پراپر رہنمائی کے بغیر تم زندگی گزار لو گی اور وہ بھی میرے جیسے Perfectionist کے ساتھ؟ نہیں ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی لیے میں تمہیں گائیڈ لائنز دیتا رہتا ہوں تاکہ تمہیں یاد رہے کہ ہارون کمال کی بیوی کو کیسا ہونا چاہیے اور کیسی زندگی گزارنی چاہیے۔ میں چاہتا ہوں تم بھی میری طرح، ہارون کمال کی طرح سوچو زندگی کو صرف بسر نہ کرو بلکہ اسے جیو۔’’
وہ اب صوفے پر بیٹھ کر بڑی سنجیدگی سے اسے یہ سب سمجھا رہا تھا۔ وہ پہلے کی طرح خاموشی سے اس کی باتیں سن رہی تھی۔ اب اس کا سنگھار جو کچھ دیر پہلے جاری تھا رک گیا تھا۔
‘’مجھے تو دیر ہو رہی ہے۔ میں بھی اس وقت کس ٹاپک کو لے کر بیٹھ گیا۔ اس پر تو کبھی بھی لمبی بحث ہو سکتی ہے۔ اس وقت تو ہمیں پہنچنا ہے دعوت کے لیے۔ کیا تم تیار ہو؟’’
بات کرتے کرتے اس نے گھڑی دیکھی تھی اور یک دم جیسے اسے ہوش آ گیا تھا۔
‘’ہاں میں تو تقریباً تیار ہوں بس تمہیں ہی کپڑے بدلنے ہیں۔” شائستہ نے بات کا موضوع بدلتے ہوئے دیکھ کر اس سے کچھ اور نہیں کہا تھا بلکہ خود بھی بڑی صفائی سے بات بدل دی تھی۔ وہ اٹھ کر واش روم میں چلا گیا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!