تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

”یہ کیسی حقیقت ہے جو صرف آپ کو نظر آرہی ہے، کسی اور کو نہیں ۔”اسد نے ترشی سے کہا۔
”شہیر ہماری اولاد ہے۔”
”پھر اتنے سال ہم نے آپ دونوں میں سے کسی کی زبان سے اس کا ذکر کیوں نہیں سنا ؟۔”وہ باقاعدہ جرح کرنے لگا۔
”کیا ذکر کرتے؟یہ کہ ہمارا ایک بیٹا تھاجو پیدائش کے چند گھنٹوں کے بعد اغوا ہو گیا۔؟”شائستہ نے غصے سے کہا۔
”ہاں یہی بتا دیتے ۔ مگر اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ تو کہتے جس سے ہمیں آپ کی طرح یہ یاد رہتا کہ ہمارا ایک بھائی ہے جو زندگی میں کبھی نہ کبھی واپس آسکتا ہے۔”اسد نے جتایا۔
”ہم سے غلطی ہوئی ، ہم نے اس کا ذکر نہیں کیا، تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہمیں اس کا ذکرکرنا چاہیے تھا۔ ” شائستہ آہستگی سے بولی ۔
”یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے، جتنا آپ اسے بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔”اسد نے تیزی سے کہا۔
”آپ کی شادی میری پیدائش سے تقریباََ ایک سال پہلے ہوئی ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک سال میں شہیر بھی پیدا ہوا اور میں بھی ۔؟”
اسد نے جیسے انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا ۔ شائستہ کو ہارون کی خاموشی بری طرح کھلی۔
”شادی کی تاریخ غلط ہے۔ ”شائستہ نے بے اختیار کہا۔
”میں آپ کی اور پاپا کی فیملی سے اس سلسلے میں امریکہ میں ہی بات کر چکا ہوں ۔ دونوں فیملیز کا کہنا ہے کہ میں شادی کے ایک سال کے بعد پیدا ہوا ۔”کچھ دیر کے لیے شائستہ کچھ نہ بول پائی۔
”اور دونوں فیملیز کو میرے علاوہ کسی دوسرے بچے کی پیدائش اور اغوا کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔ ”
اسد اب ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہا تھا۔ ”اب یہ کیا مسٹری (راز)ہے، اسے کم ازکم میںتو حل نہیں کر سکتا اور نہ ہی میں اسے حل کرنا چاہوں گا۔ میں صرف اتنا چاہوں گا کہ آپ اپنی اس نام نہادگم شدہ اولاد کو ہماری زندگی سے باہر لے جائیں کیونکہ مجھے اور نایاب کو اس سوسائٹی میں رہتا ہے۔ اسے فیس کرنا ہے۔”
وہ جیسے کوئی حکم صادر کر رہا تھا۔ شائستہ اب چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے اس وقت وہ بالکل ہارون کمال لگ رہا تھا۔ آج سے کئی سال پہلے کا ہارون کمال جو اسی طرح اسے ڈکیٹ کیا کرتا تھا۔




اسے یاد آیا شہیر کی پیدائش پر ہارون کمال نے اتنی ہی رعونت کے ساتھ اسے زندگی سے نکال دینے کے لیے کہا تھا اور پھر اس کی زندگی سے نکال بھی دیا تھا۔ وہ اس وقت بے حد کمزورتھی ۔ ہارون کمال کے سامنے مزاحمت نہیں کر سکی۔ وہ آج اتنے سالوں کے بعد دوبارہ بے بس نہیں ہونا چاہتی تھی کہ ایک بار پھر سے شہیر کو اپنی زندگی سے باہر نکال پھینکتی۔
اسد اب خاموش کھڑا اس کے جواب کا منتظر تھا۔ شائستہ نے ایک بار ہارون کمال کو دیکھا۔ وہ بھی خاموش تھا، اسے آج کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ کام اسد بخوبی کر رہا تھا۔
فیصلہ کرنے میں اس بار شائستہ کو زیادہ دقت نہیں ہوئی۔
”تم ٹھیک کہتے ہو اسد !خاندان والے واقعی شہیر کے بارے میں نہیں جانتے ۔”
شائستہ کے لہجے میں بے حد سکون تھا۔ ہارون کمال نے کچھ چونک کر اسے دیکھا ۔
”تم نے ٹھیک کہا کہ وہ کسی بچے کے اغواکے بارے میں بھی نہیں جانتے۔”وہ صوفے پر اطمینان سے بیٹھ گئی۔
ہارون کمال کی چھٹی حس اسے خبردارکرنے لگی ۔”وہ جان بھی کیسے سکتے تھے جبکہ ہمارا کوئی بچہ کبھی اغوا ہوا ہی نہیں ۔ ”
اسد نے شائستہ کو بے یقینی سے دیکھا ۔ اسے لگا شائستہ کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔
”شائستہ …”ہارون نے مداخلت کی ۔ شائستہ اب سگریٹ سلگا رہی تھی۔اور اس کا اطمینان قابل دید تھا۔
”اب مت روکو ہارون !اب وقت آگیا ہے کہ سب کچھ بتا دیا جائے ۔ آخر اسد ننھا بچہ نہیں ہے کہ کچھ سمجھ نہیں سکے گا۔ ”اس نے ہارون سے اس طرح کہا جیسے وہاں کوئی بڑی دوستانہ ماحول میں میں گفتگو ہو رہی تھی ۔
”تم بک بک بند کرو۔”ہارون نے بے اختیار اسے جھڑکا ۔ شائستہ کے انداز اس کو خوف میں مبتلا کر رہے تھے۔
اسے یاد نہیں آیا کہ اس نے آخری بار شائستہ سے کب خوف محسوس کیا تھا۔
”بک بک …؟”شائستہ بے اختیار ہنس دی۔ ”گھبرا ؤ مت ہارون !اسد تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔ وہ سب کچھ مجھے ہی کہے گا۔ یہ سب کچھ عورت ہی کی غلطی ہوتی ہے، مرد کی نہیں ۔”
وہ سگریٹ کا کش لگانے کے لیے رکی۔ قیامت آنے میں جیسے چند لمحے باقی رہ گئے تھے۔ ہارون کو یہی لگا تھا۔
”میں نے اور ہارون نے گھر والوں کی مرضی کے بغیر نکاح کر لیا تھا۔ ایسا کرنے کے لیے ہارون نے مجھ سے کہاتھا۔ تا کہ بعد میں گھر والے ہماری شادی کرنے پر مجبور ہو جائیں ۔”
”شائستہ …!”ہارون نے غراتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کی۔
”شٹ اپ ہارون !”وہ ذرا بھی مرعوب ہوئے بغیر جوابا ً بولی تھی۔
مگر اس سے پہلے کہ میں اپنے گھر والوں کو بتاپاتی، میں پریگننٹ ہو گئی۔ ”شائستہ نے بات جاری رکھی۔
اسد نے بے یقینی سے شائستہ اور ہارون کی طرف باری باری دیکھا۔ ہارون ہونٹ بھینچے ہوئے تھا۔
”ہم نے گھر والوں کو مجبور کیا کہ وہ ہماری شادی کر دیں ۔شادی ہو گئی مگر ہارون اس بچے کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھا۔ اس نے پہلے ابارشن کروانا چاہا، جب اس میں ناکامی ہوئی۔تو اس نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس بچے کو چھوڑ دوں ۔ ہم دوسرے شہر گئے۔ شہیر کی پیدائش وہیں ہوئی اور اس کے بعد ہم شہیر کو ایک یتیم خانے میں داخل کر واکر خاموشی سے واپس آگئے ۔ میں ایسا نہ کرتی تو ہارون مجھے چھوڑ دیتا۔ کیوں ہارون !یہی کہا تھا نا تم نے کہ تم مجھے طلاق دے دو گے؟”
ہارون کا دل چاہا، وہ اس کا منہ توڑ دے مگر وہ چپ چاپ وہیں کھڑا رہا۔ صوفے پر بیٹھی ہوئی عورت سے اب اسے کوئی رشتہ، کوئی تعلق محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اسد کی نظروں کی چبھن اپنے چہرے پر محسوس کر رہا تھا۔
”یہ ہے شہیر کی کہانی…وہ ناجائز اولاد نہیں ہے مگر میں نے اور ہارون نے اسے ناجائز اولاد ہی سمجھا ۔ ہم نکاح کے بعد رخصتی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ ملتے رہے تھے اور ہارون کو بعد میں …”
ہارون نے تلملا کر اس کی بات کاٹ دی۔
”یہ کافی ہے۔ تم جتنا رسوا مجھے کرنا چاہتی ہو، کر چکی ہو۔ مزید تقریر کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔”ہارون بے حد مشتعل تھا۔ ”یہ سب کچھ صرف میری وجہ سے نہیں ہوا تھا، تم بھی اس میں شریک تھیں ۔”
ہارون اب جیسے اسد کے سامنے صفائیاں دینے کی کوشش کررہا تھا جو بے حد خاموشی اور سرد مہری سے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔
”میں نے کب کہا کہ میں اس میں شریک نہیں تھی۔ ”شائستہ نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا ۔”تم ٹھیک کہہ رہے ہو کہ یہ سب کچھ میری مرضی سے ہوا تھا۔ میں نہ چاہتی تو تمہارے مجبور کرنے پر بھی یہ سب کچھ نہ کرتی، تمہیں تب ہی چھوڑدیتی مگر مجھ میں تب اتنا حوصلہ نہیں تھا۔ بہت بزدل تھی میں …”
”اپنے آپ کو اتنا معصوم اور کمزور ظاہر کرنے کی کوشش مت کرو ۔ تم اتنی معصوم ہوتیں تو تم اس طرح مجھے نہ پھانس لیتیں جیسے تم نے مجھے پھانسا۔”
اس سے پہلے کہ شائستہ کچھ کہتی، اسد نے مداخلت کی۔
”مجھے اس وقت یہاں کھڑے ہو کر آپ دونوں کے ماضی کے قصے سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ آپ دونوں نے جوکچھ کیا غلط کیا۔مجھے شہیر سے ہمدردی ہے۔ اس کے باوجود میں اسے اپنا بھائی بنا کر اس گھر میں نہیں برداشت کر سکتا آپ لوگ اسے واپس بھجوائیں مگر فنانشلی اس کی مدد کرتے رہیں۔”
”میں نے شائستہ سے یہی کہا تھا۔ ”ہارون نے بے اختیار کہا۔
”اور میں نے تمہیں بتا دیا ہے کہمیں ایسا کبھی نہیں کروں گی۔ ”شائستہ نے دو ٹوک ہو کر کہا۔ ”میں اسے اپنے گھر لے کر آئی ہوں ، میں اسے یہاں سے واپس کبھی نہیں بھیجوں گی۔ ”
”پھر آپ شہیر اور ہم میں سے ایک کا انتخاب کر لیں ۔”اسد نے اسی کے انداز میں کہا۔
”میرے سامنے اس طرح کے انتخاب مت رکھو جسے کرتے ہوئے ہم دونوں کو پچھتا نا پڑے ۔”شائستہ کے چہرے پہ بے حد سنجیدگی تھی۔
”یہ سب آپ نے اور پاپا نے شروع کیا ہے ۔ اگر کوئی پچھتا ئے گا تو وہ آپ دونوں میں سے ہی کوئی ہو گا۔ کم از کم میں نہیں ہو سکتا۔ ”اسد نے تلخی سے کہا۔
”ہاں یہ سب میں نے اور ہارون نے ہی شروع کیا ہے، اس لیے اسے مجھے اور ہارون کو ہی ختم کرنے دو۔”
شائستہ نے اسی سرد مہری سے جواب دیا۔
”ممی !میں آپ کو کوئی حماقت نہیں کرنے دوں گا۔”
”حماقت…؟کیسی حماقت ؟غلطی کا کفارہ حماقت نہیں ہوتی۔ ”
”آپ کی غلطی کا کفارہ میں اور نایاب ادا نہیں کر سکتے ۔”اسد کی آواز اس بار بہت بلند تھی۔
”تمہیں اور نایاب کو اس معاملے میں کون انوالو کر رہا ہے؟کم از کم میں تو نہیں کر رہی ۔”شائستہ نے دو بدو کہا۔
”آپ اسے اس گھر میں اور ہماری زندگیوں میں لے آئی ہیں ۔ کل کو جائیداد کا شریک بھی بنائیں گی اسے ۔”
”کل نہیں ، آج ۔”شائستہ نے اس کی بات کے درمیان میں کہا ۔”میں نے کبھی اسے اس جائیداد کے وارثوں سے الگ نہیں سمجھااور اب جب میں اسے اس گھر میں لے آئی ہوں تومیں اسے اس جائیداد میں اتنا ہی حصہ دوں گی جتنا تمہیں ملے گا۔”
”اور یہ میں کبھی نہیں ہونے دوں گا۔ ”یہ ہارون کمال تھا۔
”تم نے شہیر کو اس گھر میں لانے کی ضد کی ، میں نے مانی مگر جائیداد کے ٹکڑے کر کے میں اس طرح بانٹ نہیں سکتا۔”
”کیوں نہیں بانٹ سکتے، کیا وہ تمہاری اولاد نہیں ہے؟کیا وہ تمہاری جائز اولاد نہیں ہے۔َ”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!