تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

”میرا نام…”اس عورت نے بالآخر مسکراتے ہوئے اپنی خاموشی توڑی۔
”میں جانتی ہوں۔”شائستہ نے کسی مسکراہٹ کے بغیر خشک لہجے میں اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”آپ بیٹھ جائیں ۔”
اس عورت نے شائستہ سے یوں کہا جیسے وہ میزبان تھی اور شائستہ وہا ں مہمان بن کر آئی تھی۔ شائستہ کو اس کا انداز برا لگا اور اس کا اگلا جملہ اس کے اندازے سے بھی زیادہ ۔
”یہ ساری باتیں بیٹھ کر کرنے والی باتیں ہیں، یوں کھڑے کھڑے کیا کہوں گی۔”اس عورت نے یوں کہا تھا جیسے وہ اپنے کسی مداح سے بات کر رہی ہو۔
شائستہ نے بیٹھنے کے بجائے بڑے جتانے والے انداز میں گھڑی دیکھی۔ ”مجھے اس وقت کہیں جانا ہے۔
موسیقی میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور…”
اس عورت نے بڑے اطمینان سے شائستہ کی بات کاٹی۔
”حیرت ہے، آپ کو دلچسپی نہیں ہے۔ آپ کے شوہر کو تو کسی زمانے میں بہت ہوا کرتی تھی مگر ان کو موسیقی کے جس ”حصے”سے دلچسپی تھی، اس کا تعلق راگ سے نہیں تھا۔
شائستہ نے آنکھیں سیکڑ کر اس عورت کو دیکھا۔ وہ کون سی پہیلیاں بُجھوا رہی تھی۔
”آپ کو ہارون کمال نے بلوایا ہے؟”شائستہ نے بالآخر پوچھا۔
”نہیں ۔ہارون نے بلوایا ہوتا تو آپ کی جگہ یہاں ہارون ہوتا۔ آپ سے مل رہی ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ہی سے ملنا چاہتی ہوں۔”اس عورت کا اطمینان قابل دید تھا۔
”مجھے کچھ جلدی ہے، آپ اگر مجھے یہ بتا دیں کہ آپ یہاں کس لیے آئی ہیں تو بہتر ہو گا۔ ”شائستہ نے کہا۔
”زندگی میں جلدی کبھی نہیں کرنا چاہیے ۔جلد بازی بہت بری عادت ہے۔ میں نے بھی ایک بار کی تھی۔ اب تک خمیازہ بھگت رہی ہوں ۔ آپ بیٹھ جائیں ، میںآپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میرے منہ کھولتے ہی آپ کی ہر مصروفیت ختم ہو جائے گی۔”
اس عورت نے سامنے میز پر رکھا پانی کا گلاس یوں اٹھا یا جیسے وہ پانی پینے کے لیے ہی وہاںآئی تھی۔ شائستہ نے بے اختیار دانت کچکچائے۔وہ اب اس کے لیے ناقابل پرداشت ہو رہی تھی۔ اس کا دل چاہا، وہ اس سے کہے کہ وہ بھی اس کے بارے میں جو جانتی ہے اگر اس کا انکشاف کر دے تو اس کے ہاتھوں کے بھی تو تے بھی اڑ جائیں ۔
”میرے پاس وقت نہیں ہے، آپ کو اگر کوئی لمبی بات کرنا ہے تو کسی اور دن تشریف لائیں اور براہ مہربانی اپائنٹمنٹ لے کر آئیں ۔”وہ واپس مڑتے ہوئے بولی، اس عورت نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔




”میرا ایک نام وہ ہے جو آپ جانتی ہیں اور جسے بتانے سے آپ نے مجھے روک دیا۔ میرا ایک نام اور بھی ہے اور یہ نام آپ کے شوہر جانتے ہیں۔”
شائستہ کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ یہ دوسری بار تھا کہ وہ ہارون کا ذکر کر رہی تھی ، کیوں ؟
”آپ ہارون کو جانتی ہیں؟”شائستہ نے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا۔
”اتنی اچھی طرح کہ کوئی دوسرا نہیں جانے گا، آپ بھی نہیں ۔”اس عورت نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ شائستہ کو وہ اور زہر لگی۔
”ہارون بہت سی عورتوں کو جانتے ہیں ۔”شائستہ نے بڑے جتانے والے انداز میں کہا۔
”اور یہ ”جاننا”ان عورتوں کو بہت مہنگا پڑتا ہے۔”شائستہ چند لمحوں کے لیے اس جملے پر کچھ نہیں بول سکی۔
وہ اس عورت سے ایسا جملہ توقع نہیں کر رہی تھی۔
”آپ جیسی عورتوں کو بھی مہنگا پڑتا ہے؟”چند لمحوں کے بعد اس نے بے حد چبھتے ہوئے لہجے میں کیا۔ اس بار وہ عورت چند لمحوں کے لیے بول نہیں سکی۔
”میرے جیسی عورتیں …”وہ بڑبڑائی پھر کھلکھلا کر ہنسی۔ ”میں کیسی عورت ہوں ؟”اس نے بڑے استہزائیہ انداز میں شائستہ سے پوچھا۔
”آپ میرا وقت ضائع کر رہی ہیں ۔”شائستہ نے ہر لحاظ کو بلائے طاق رکھتے ہوئے کہا۔
”مگر میں ایسانہیں سمجھتی ۔”وہ عورت اب دیوار پر لگی ہارون کمال اور اس کی فیملی کی تصویر کو دیکھتے ہوئے بولی جس میں نایاب اور اسد بھی نظر آرہے تھے۔
”یہ بچے ہوں گے آپ کے ؟”اس نے کہتے ہوئے شائستہ کو دیکھا۔ اس کا انداز عجیب تھا۔ شائستہ کی سمجھ میں نہیں آیا ۔ وہ اب اس سے مزید کیا کہے۔ کیا یہ کہ…یہاں سے دفع ہو جاؤ…اور اس وقت یہی کہنا چاہتی تھی۔
”فیملی فوٹو ہے۔ ”اس عورت نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ۔ ”بڑی ادھوری فیملی ہے، اس میں کچھ اور چہرے بھی ہونے چاہئیں ۔جیسے شہیر کا… کیا خیال ہے؟”اس نے بے حد سنجیدہ انداز میں شائستہ سے پوچھا۔
یوں جیسے رائے لے رہی ہو۔
شائستہ کے سر سے پاؤں تک کوئی چیز گزری تھی۔
تو کیا وہ اسے شہیر کے بارے میں بلیک میل کرنے کے لیے آئی تھی اور وہ شہیر کے بارے میں کیسے اور کیا جانتی تھی۔
شائستہ اسے یہ سب کچھ نہیں کہہ سکی اس عورت کے اگلے جملے نے شائستہ کے سر پر جیسے آسمان گرا دیا تھا۔
”اور اس میں دو چہرے اور بھی ہونے چاہیئں ۔ ثمر اور ثانیہ ۔”وہ عورت شائستہ کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
وہ عورت شائستہ کو اب سر سے پاؤں تک دیکھ رہی تھی۔
”ثمر اور ثانیہ میری اولاد ہیں ۔ میری اور ہارون کی مگر میں اپنے لیے اس تصویر میں جگہ اس لیے نہیں چاہتی کیونکہ…”اس نے تھوڑا سا تو قف کیا پھر جملہ مکمل کر تے ہوئے بولی ۔ ”کیونکہ ہارون سے میری شادی نہیں ہوئی۔ ہارون اور دنیا کبھی مجھے زرقا کے نام سے جانتے تھے۔ ”وہ اب شائستہ کے پسینے سے بھیگے ہوئے چہرے کو رحم بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
”میرا خیال ہے، اب بیٹھ کر بات کرتے ہیں کیونکہ اب نہ آپ کو جلدی ہے ، نہ مجھے۔ ”
زرقا کو شائستہ سے بات کرتے ہوئے ہارون کے ساتھ اپنی آخری ملاقات یاد آرہی تھی جس کے بعد اس نے ایک لمبے عرصے کے لیے دنیا کا سامنا کرنا چھوڑ دیا تھا۔ طوائف نے ”دھوکا”کھایا تھا، وہ بھی عشق میں ۔اندازے کی غلطی ہی سہی مگر غلطی تو ہوئی تھی اس سے اور اس نے زندگی میں کبھی کسی غلطی کی اتنی بھاری قیمت نہیں چکائی تھی اور جب طوائف کو کسی چیز کی قیمت ادا کرنی پڑے تو وہ اسے دل اور دماغ سے نہیں نکالتی۔
زرقا نے بھی نہیں نکالا تھا۔ وہ بیس سال بعد واپس آگئی تھی۔
٭٭٭
”میں منصور انکل سے مل چکا ہوں۔ ”اسد تھوڑی دیر پہلے ہہی ہارون کے آفس میں آیا تھا۔ اور وہا ں آتے ہی ہمیشہ کی طرح اس نے بلا تمہید بات شروع کی ۔ ”ہارون کا جسم تن گیا تھا۔ مگر خود کو نارمل ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے بظاہر بڑے معمول کے انداز میں اسد کہا۔
”میں نے تمہیں منع کیا تھا۔ ”اسد نے اس کی بات پر توجہ دیے بغیر اپنی بات جاری رکھی۔
”انہوں نے آپ پر الزام لگایا ہے کہ آپ اور امبر شادی کر چکے ہیں اور یہ سب کچھ آپ امبر کے کہنے پر کر رہے ہیں۔”
اسد بات ختم کر کے اب ہارون کے چہرے پر نظریں گاڑے ہوئے تھا۔ یوں جیسے سچ اور جھوٹ کو پرکھنا چاہتا ہو۔
”اب تمہیں اندازہ ہو اکہ میں کیوں اس کے ساتھ پارٹنر شپ ختم کر رہا ہوں۔”
ہارون کمال نے غصے سے کہا ۔ اسد کے سامنے غصہ دکھانا ضروری تھا۔ وہ اسی قسم کی بے ہودہ باتیں کرتا پھر رہا ہے’جب سے میں نے اس کے ساتھ پارٹنرشپ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ”
”مگر سوال یہ ہے کہ وہ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں ۔ کوئی نہ کوئی تو وجہ ہو گی، ورنہ وہ خوا مخواہ میں اپنی بیٹی کو آپ کے ساتھ انوالو کیوں کریں گے۔ ”
اسد کا لہجہ چبھتا ہوا تھا۔ ”اس کا دماغ خراب ہوگیا، ورنہ وہ واقعی ایسی باتیں نہ کرتا۔ مگر میں اس ساری صورتحال میں کیا کر سکتا ہوں ۔ سوائے اس کی بکواس کے جواب میں خاموشی کے۔ مگر ساری دنیا جانتی ہے کہ میں ایک اچھی زندگی گزار رہا ہوں ، شائستہ کے ساتھ… میں کیوں اپنے سے آدھی عمر کی لڑکی کے ساتھ اس طرح کا کوئی سلسلہ شروع کروں گا۔ ”
ہارون بے پناہ کوشش کے باوجود اپنے لہجے کو مدافعانہ ہوجانے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔
”آپ جانتے ہیں ناکہ میں امبر کو بے حد پسند کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔”اسد نے بے حد جتانے والے انداز میں اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے ہارون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا ۔
”اور میں انہیں ساری چیزوں کی وجہ سے تمہیں اس شادی سے روک رہا تھا۔ ”
”کن چیزوں کی وجہ سے ؟”اسد نے بے حد عجیب لہجے میں باپ سے پوچھا۔
”کیا میں ایک بار پھر تمہیں ہر چیز کی تفصیل بتانے بیٹھوں ؟”اس بار ہارون واقعی جھلا گیا۔
”نہیں ، مجھے تفصیل مت بتائیں ۔مجھے صرف یہ یقین دلادیں کہ آپ امبر کے ساتھ کبھی انوالو نہیں رہے۔”
”مائنڈیور لینگویج، تم باپ سے بات کر رہے ہو…مجھے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش مت کرو ، کسی ایسی لڑکی کے لیے جسے تم ٹھیک سے جانتے بھی نہیں ۔”
”ہاں۔میں اسے ٹھیک سے نہیں جانتا۔”اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔ ”مگر میں اس سے محبت کرتا ہوں ۔”
”اس ذہنی فتور سے تم اپنے آپ کو دورہی رکھو تو بہتر ہے۔”
ہارون کمال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا۔ انٹرکام بجا، ہارون نے ریسیور اٹھا کر سیکریٹری کی بات سنی، وہ اسے کسی اے ایس پی کی آمد کی اطلاع دے رہی تھی جو اس سے ملنا چاہتا تھا، ہارون کو حیرانی ہوئی۔
”کس سلسلے میں ملنا چاہتے ہیں وہ ؟”اس نے اسد کو دیکھتے ہوئے سیکریٹری سے پوچھا۔
”پتا نہیں سر!وہ کہہ ر ہے ہیں کہ یہ وہ آپ کو ہی بتائیں گے۔ ”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!