تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

صبغہ کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔ ”کون ہے؟”اس نے اندر سے ایک بار پھر دروازے پر دستک دینے والے کے بارے میں پوچھا۔
”میں منصور ہوں ۔ دروازہ کھولو۔”منصور کی آوازمیں درشتی تھی مگر صبغہ کو اس درشتی کی پروا نہیں تھی۔ منصور کا وہاں ان کے دروازے پر آنا قابل یقین تھا اور خاص طور پر اس طرح کے حالات میں ۔
اس نے بڑی برق رفتاری سے دروازہ کھولا تھا۔ دہلیز کے پار منصور ہی کھڑا تھااور اسی حلیے میں جس میں چند دن پہلے اسے صبغہ نے دیکھا تھا بلکہ شاید اس سے کچھ بد تر حالت میں ۔ بکھرے بال ، بڑھی ہوئی داڑھی، سرخ آنکھوں اور ملکُجے کپڑوں میں وہ اپنی عمر سے دس سال بڑا لگ رہا تھا۔
اس نے صبغہ کے سلام کا جواب دیے بغیر اس کو ہاتھ بڑھا کر دروازے سے ایک طرف ہٹایا اور اندر آگیا۔
”منیزہ کہاں ہے؟”اس نے بلند آواز میں پوچھا ۔منیزہ تب تک اپنے کمرے سے باہر صحن میں آگئی تھیں اور صرف وہی نہیں ، رابعہ اور زارا بھی …مگر منصور کو سامنے دیکھ کر وہ تینوں اتنی ہکا بکا شایدنہ ہوتیں اگر منصور اپنے پہلے والے حلیے میں ہوتا مگر سامنے کھڑا ہو ا شخص اس نفیس انسان سے بے حد مختلف تھا جسے دنیا منصور علی کے نام سے جانتی تھی۔
”امبر کہاں ہے؟”منصور نے بے حد کر خت لب و لہجے میں منیزہ سے کہا۔
”پاپا ! میں نے آپ کو امبر کے بارے میں بتایا تھا۔ ”اس سے پہلے کہ منیزہ کچھ کہتیں ، صبغہ نے مداخلت کی۔
”مجھے بے و قوف بنانے کی کوشش مت کرو ۔ میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم ماں بیٹیاں میرے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہو۔”
منصور بلند آواز میں دھاڑا تھا۔
”تم اسی وقت یہاں سے چلے جاؤ ۔ یہ تمہارا گھر نہیں ہے۔ ”منیزہ نے جیسے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”تم ایک بے حد گھٹیا عورت ہو، تم نے مجھے تباہ کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو استعمال کیا ہے۔”منصور نے پہلے سے زیادہ بلند آواز میں کہا۔ رابعہ اور زارا صحن کی دیوار کے ساتھ لگی یک دم رونے لگیں ۔
”میری بیٹی نہیں …وہ تمہاری بیٹی تھی۔ اس نے وہ کیا جو اس نے باپ کو کرتے دیکھا۔ ”منیزہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔




”تم نے ایک طوائف کی طرح اپنی بیٹی کو استعمال کیا ہے۔ ”منصور نے منیزہ کو گالی دیتے ہوئے کہا۔ ”مگر تم نے غلط آدمی کے ساتھ ٹکر لی ہے۔ تم یہ سمجھتی ہو کہ منصور علی کو اس طرح تباہ کر دوگی تو یہ تمہاری بھول ہے، میں اس سے بہت پہلے تم لوگوں کو جان سے ماردوں گا۔”
محلے کے بہت سے گھروں کی چھتوں پر لوگ جمع ہونے شروع ہو گئے تھے۔ منصور کی آواز اس قدر بلند تھی، چھتوں پر کھڑی عورتیں بڑی دلچسپی کے عالم میں ان کے صحن میں جھانکتے ہوئے اس سارے منظر کو غور سے دیکھ رہی تھیں ۔
ساتھ والے گھر میں ثمر ، فاطمہ اور ثانی نے بھی برابر کے گھر میں ہونے والی گفتگو سنی تھی۔ فاطمہ کو بے اختیار تشویش ہوئی۔
”ثمر !آؤ ، ان کے گھر چلتے ہیں۔پتا نہیں کیا ہو رہا ہے، کون آکر اس طرح کی باتیں کر رہا ہے۔”
”میرا خیال ہے امی! یہ صبغہ کے والد ہیں ۔”ثانی نے مدھم آواز میں دوسری طرف سے آتی بلند آوازوں کو سنتے ہوئے کہا، جہاںاب منصور بے حد بلند آواز میں پاگلوں کی طرح گالیاں بک رہا تھا۔ وہ صرف منیزہ کو گالیاں نہیں دے رہا تھا بلکہ اپنی بیٹیوں کو بھی گالیاں دے رہا تھا۔
چھتوں پر کھڑے لوگوں کے بیچ صحن میں اس طرح کی گالیا ں اپنے باپ کے منہ سے سنتے ہوئے صبغہ ذلت کے نئے مفہوم سے آشنا ہو رہی تھی۔ وہ …وہ منصور علی تھا جس کے منہ سے اس نے کبھی گالی تو کیا بلند آواز تک نہیں سنی تھی اور اب وہی منصور علی تھا جو ان کے لیے اس طرح کے الفاظ استعمال کر رہا تھا جو کوئی اپنی بیٹی کے لیے استعمال کرتے ہوئے شرم سے ڈوب مرتا ۔ اسے چھتوں پر کھڑے لوگوںکی پرواتھی نہ اپنی آواز کے بے حد بلند ہونے کی۔
”مگر صبغہ کے والد تو اس کی امی کو طلاق دے کر چھوڑ چکے ہیں پھر اب یہ یہاں اس طرح کیوں آگئے ہیں اور امبر کے بارے میں کیا جھگڑا ہورہا ہے۔ ”فاطمہ بے حد حواس باختہ ہو رہی تھی۔
”ثمر …میر ے ساتھ چلو…پتا نہیں کیا ہو رہا ہے۔”ثمر شاید انکار کرتا مگر فاطمہ اس سے پہلے ہی صحن کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی تھی۔ ثمر کو مجبوراََان کے پیچھے جانا پڑا ۔
”مجھے ہر قیمت پر امبر کا پتا چاہیے، ہر قیمت پر۔ ”منصور اسی طرح گالیاں بکتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”پاپا…ہم خود اسے ڈھونڈ رہے ہیں ، میں اس کو ڈھونڈنے کے لیے ہی تو آپ کے پاس آئی تھی۔ وہ ہارون سے شادی کرنے کے بعد اس کے ساتھ رہ رہی ہے۔ اس نے ہم سے رابطہ ختم کردیاہے۔ ”
صبغہ کانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی ۔ اس کا وجود پتے کی طرح لرز رہا تھا۔
”تم اب اپنا منہ بند کر لو اور یہاں سے چلے جاؤ۔ تم سے میرا اور میری بیٹیوں کا کوئی رشتہ نہیں ہے پھر کیا سمجھ کر تم یہاں اس طرح اندر آئے ہو۔”منیزہ نے منصور کے جواب میں کچھ کہنے سے پہلے کہا۔
”امبر کے ساتھ اگر ہمارا رابطہ ہوتا بھی تب بھی ہم تم سے اس کا رابطہ کبھی نہ کرواتے۔”
اس سے پہلے کہ منیزہ کچھ اور کہتی، صحن کا بیرونی دروازہ کھول کرفاطمہ اور ثمر اندر آگئے تھے۔ منصور نے پلٹ کر دروازے کی آواز پر انہیں دیکھا تھا پھر اس نے اپنی قمیض کی جیب میں ہاتھ ڈالا تھا۔ ثمر تب تک کچھ آگے آچکا تھا۔
”آپ کون ہیں اور یہاں اس طرح شور کیوں کر رہے ہیں؟”
ثمر نے کچھ سخت لہجے میں منصور سے کہا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، اس نے منصور کو اپنی جیب سے کوئی سیاہ چیز نکالتے دیکھا تھا۔ منصور ، ثمر کی بات کا جواب دیتے کے بجائے منیزہ کی طرف اپنا بازو سیدھا کر رہا تھا، یکدم ثمر سوچے سمجھے بغیر تیز رفتاری سے آگے بڑھااور اس نے منصور کو پوری قوت سے دھکا دیا۔
منصور کا نشانہ چوکا، فائر کی آواز کے ساتھ ہی صبغہ اور رابعہ ، زارا چلانے لگی تھیں ۔ گولی منیزہ کے بالکل قریب دیوار میں لگی تھی۔ وہ بے حس و حرکت شاک کے عالم میں کھڑی رہی تھیں۔ چھتوں پر چڑھے لوگوں میں یک دم سراسیمگی دوڑ گئی۔ منصور اوندھے منہ فرش پر گر ا بری طرح گالیاں بکتے ہوئے ثمر سے الجھ رہا تھا جو اس کے ہاتھ سے ریوالور چھیننے کی تگ و دو کر رہا تھا۔ چند منٹ اور لگے تھے پھر بیرونی دروازے سے چند اور لڑکے اندر آگئے تھے،ان سے پہلے ثانی حواس باختہ اندر آئی تھی۔
منصور سے ریوالور لینے اور اس پر قابو پانے میں زیادہ دیر نہیں لگی تھی۔ باہر سے آنے والے لڑکوں میں سے چند ایک نے بڑی بے رحمی کے ساتھ منصور کو چند ہاتھ جڑے تھے۔ منصور اب انہیں بھی گالیاں بک رہا تھا۔ صبغہ، زارا اور رابعہ اب منیزہ کے ساتھ چمٹی زاروقطار رو رہی تھیں اور منیزہ ابھی بھی اسی طرح ساکت کھڑی تھیں ۔ یوں جیسے انہیں یقین نہ آرہا ہو کہ یہ سب کچھ ان کے سامنے ہو رہا تھا۔ ثمر اور دو سرے لڑکے منصور کو اسی طرح دھکیلتے اور کھینچتے گھر سے باہر لے گئے تھے۔ ثانی نے بیرونی دروازے کو اندر سے بند کیا اور پھر سرا سیمہ کھڑی فاطمہ کے پاس آئی۔
”ان لوگوں کو اندر لے جاتے ہیں، یہاں سب دیکھ رہے ہیں ۔ ”اس کا اشارہ چھتوں پر موجود لوگوں کی طرف تھا۔ ثانی نے فاطمہ کا کندھا تھپکا۔ یوں جیسے اسے تسلی یا دلاسا دینے کی کوشش کررہی ہو پھر آگے بڑھ کر صبغہ کے پاس چلی آئی۔
”آنٹی کو اندر لے آؤ صبغہ! میں پانی لاتی ہوں ۔”اس نے صبغہ کی پشت کو تھپکتے ہوئے کہا۔
”وہ لوگ پاپا کو کہا ں لے کر گئے ہیں ؟”صبغہ نے روتے ہوئے ثانی سے پوچھا ۔
”پتہ نہیں ، شاید پولیس اسٹیشن ۔”ثانی نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ جب تک پانی لے کر کمرے میں آئی، فاطمہ منیزہ اور صبغہ کو اندر لے جا کر بٹھا چکی تھی۔ وہ لوگ اب اس طرح زاروقطار نہیں رورہی تھیں مگر اب منیزہ رو رہی تھیں ۔
بیرونی دروازے پر دستک کی آوازیں آنے لگیں۔فاطمہ اٹھ کر باہر چلی گئی۔ ثانی پانی کا گلاس منیزہ کو پکڑا کو خود صبغہ کے پاس بیٹھ گئی ۔ہر ایک اس قدر سراسیمہ تھاکہ کسی کو بھی بات شروع کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
”تم لوگوں نے ہماری جان بچائی، میں اس کے لیے تم …”ثانی نے صبغہ کی بات کاٹ دی۔
”اس کی ضرورت نہیں ۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم ٹھیک وقت پر تم لوگو ں کے گھر آئے۔ ہمیں توقع نہیں تھی کہ یہاں اتنا زیادہ جھگڑا ہو رہا ہے۔”
بات کرتے کرتے ثانی کی نظر ٹیبل پر رکھے ایک فریم پر پڑی ۔ وہ بات مکمل نہیں کر سکی۔ اسے لگا، وہ تصویر میں نظر آنے والے قہقہہ لگاتے ہوئے اس چہرے سے واقف تھی۔
”باہر محلے کی عورتیں تھیں، میں نے ان کو ابھی اندر آنے سے منع کر دیا ہے۔ ”
تب ہی فاطمہ اندر آگئی تھی۔ ثائی ابھی بھی اسی تصویر کو گھور رہی تھی، وہ چہرہ پہچان چکی تھی۔
٭٭٭
شائستہ نے ڈرائنگ روم میں بیٹھی اس عورت کو دیکھا جسے وہ چند لمحو ں میں پہچان گئی تھی۔ وہ عورت ڈرائنگ روم کے ایک صوفہ پر بڑے اطمینان سے بیٹھی تھی۔ یوں جیسے وہ اپنے گھر میں بیْٹھی ہو۔
مگر شائستہ کو اسے دیکھ کر کچھ زیادہ خوشگوار احساس نہیں ہوا تھا۔ وہ سمجھ نہیں سکی کہ وہ اس سے ملنے کیوں آئی تھی۔ اس نے نوکر کو اپنا نام نہیں بتایا تھا، صرف یہ کہا تھا کہ وہ شائستہ سے کسی بہت ضروری معاملے کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھی۔ اگر وہ اپنا نام اسے بتا بھی دیتی تو شائستہ کے لیے صرف نام سے اسے پہچاننا مشکل ہوتا مگر اب جب وہ اسے دیکھ رہی تھی تو اس کے لیے اسے شناخت کرنا مشکل نہیں تھا۔ اس کے باوجود کہ اسے موسیقی میں دلچسپی نہیں تھی اور اس کے باوجود کہ وہ شوبز کے حلقوں سے بہت دور تھی اور اس کے باوجود کہ اس گلوکارہ کو دنیا کسی اور نام سے جانتی تھی۔
صوفے پر بیٹھی عورت اسے دیکھ کر اٹھ کھڑ ی ہوئی۔
”بیٹھیں ۔”شائستہ نے کہا۔ اس نے اپنے لہجے میں کسی قسم کی کوئی گرم جوشی یا مروت لانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
شائستہ نے بہت گہری نظروں سے سامنے بیٹھی ہوئے عورت کو دیکھا۔ یہی کام سامنے بیٹھی عورت کر رہی تھی۔
شائستہ کو اس کی نظریں چبھیں ۔ وہ اس کے بارے میں وہ کچھ جانتی تھی کہ اگر منہ کھولتی تو سامنے بیٹھی ہوئی عورت وہاں سے بھاگ جاتی اور سامنے بیٹھی ہوئی عورت اس کے بارے میں جو کچھ جانتی تھی وہ شائستہ کے پیروں تلے سے زمین کھنیچ لینے کے لیے کافی تھا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!