تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

وہ دونوں بہت دیر تک ایک دوسرے کو خاموشی سے دیکھتے رہے بھی پھر ثمر نے فاطمہ کو اپنے ساتھ لپٹالیا تھا۔ چھ فٹ سے نکلتے ہوئے قد کے ساتھ وہ ثمر کے صرف پیٹ تک آئی تھی اور اس وقت وہ ایک ننھی بچی کی طرح اس کے ساتھ لپٹ کر رو رہی تھی۔ ثمر اسے تھپک رہا تھا۔ بھیگے ہوئے چہرے کے ساتھ وہ اپنی آنکھوں کو بار بار پونچھتے ہوئے اسے تھپک رہا تھا۔
فاطمہ نے سب کچھ نہیں کھویا تھا۔ اس کی مٹھیاں پوری طرح سے خالی نہیں ہوئی تھیں ۔ وہ چند لمحے پہلے جس قیامت کے آنے سے ڈررہی تھی۔ وہ قیامت نہیں آئی تھی۔
”تمہیں کیسے پتہ چلا یہ سب کچھ ؟”بہت دیر رونے کے بعد فاطمہ نے اس سے پوچھا۔
”کیا یہ بتانا ضروری ہے؟”وہ تھکا ہوا تھا۔ فاطمہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ ثمر نے ایک گہر اسانس لیا۔
”نایاب نے بتایا مجھے یہ سب کچھ ۔ شائستہ نے اسے ہم لوگوں کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ اس نے فون کر کے مجھے بلایا اور مجھے یہ بتادیا کہ آج اس کی ممی شہیر کو یہاں سے لے جائیں گی۔ ”وہ کہہ رہا تھا۔
”میں قسم کھاتی ہوں ثمر!میں نے شہیر کو اغوا نہیں کیا ۔وہ …”فاطمہ نے بھر ائی ہوئی آواز میں اسے بتانے کی کوشش کی تو ثمر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے امی!مجھے یقین ہے آپ نے اس کو کہیں سے اغوا نہیں کیا مگر ہو سکتا ہے کسی اور نے اسے اغوا کیا ہو اور پھر بعد میں کسی نہ کسی وجہ سے اسے یتیم خانے میں داخل کروا دیا ہو جہاں سے آپ نے اسے لیا تھا۔ ”وہ تحمل سے اسے سمجھا رہا تھا۔
”مگر وہ کہتا ہے وہ اس یتیم خانے میں گیا تھا۔وہاں اس بچے کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے، وہ کل اسی لیے دیر سے آیا تھا کیونکہ وہ اس شہر گیا ہو اتھا۔ ”
ثمر یک دم چونک کر سیدھا ہو گیا۔ ”آپ کے پاس پیپرز تو ہوں گے جب آپ نے اس بچے کو گود لیا تھا۔ ؟”
”ہاں میرے پاس ہیں ۔ مگر وہ میرے نام پر نہیں ہیں ، میری دوست اور ا س کے شوہر کے نام پر ہیں۔”
”مگر پیپرز تو ہیں نا؟”
”ہاں ۔”
”ٹھیک ہے، آپ انہیں ڈھونڈیں …میں شہیر بھائی کو یہ پیپردکھاؤں گا۔ ”
ثمر نے فاطمہ سے کہا۔ فاطمہ نے عجیب نظروں سے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ نظر چر اکر جوتے کھولنے لگا۔ وہ اپنی بات کیوں نہیں کر رہا تھا۔ اپنے بارے میں کوئی بات کوئی سوال ؟اس نے اتنے آرام سے ، اس انکشاف کو کیسے لے لیا تھا کہ وہ کوڑے کے ایک ڈھیر پر پڑا ملاتھا۔
”میں نے ثانی کو کراچی سے بلایا ہے۔ بہت ضروری ہو گیاہے۔ اس کا یہاں آکر یہ سب کچھ جاننا ۔ ”وہ اسی طرح جوتے کھولتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ اس کی آواز میں چبھن تھی۔
”بہت تکلیف ہو گی اس کو یہ سب کچھ سن کر۔ بہت روئے گی وہ …”وہ اب سیدھا ہو گیا تھا۔ ”سب کچھ ٹھیک تھا ہماری زندگی میں سب کچھ مگر دنیا میں کسی کے گھر اس طرح نہیں ٹوٹتے جیسے ہمارا ٹوٹا ہے۔”




فاطمہ نے زندگی میں پہلی بار ثمر کو اس طرح دیکھا تھا۔ سنجیدہ اور شکست خوردہ۔ صرف چند لمحوں میں اس نے ثمر کو عمر کی بہت سی منزلیں طے کرتے دیکھ لیا تھا۔
”تمہیں مجھ سے کچھ نہیں کہنا۔ ”فاطمہ نے اس سے بھیگی آنکھوں کے ساتھ پوچھا ۔ ناجائز اولاد کے لیبل کو ہٹا کر اسے دنیا میں کھڑا ہونا سکھایا تھا۔ وہ اس سے یہ نہیں کہہ سکا کہ زندگی میں جو انکشاف اس کے سامنے اب ہو رہے ہیں ، وہ بہت سالوں سے ان چیزوں کے بارے میں شبہ کرتا آرہا تھا۔ وہ اس سے یہ نہیں کہہ سکا کہ اسے بہت بار اپنے اور اس کے رشتے کے بارے میں شبہ ہوا تھا، دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح وہ اس سے یہ بھی نہیں کہہ سکا کہ اسے اپنا گھر اور اپنی زندگی بہت بار ایک معمہ لگی تھی جس کے کچھ حصے اس کے لیے گمشدہ تھے اورآج سب کچھ ویسے ہی حل ہوا تھا جیسے اس کا اندازہ تھا۔ صرف یہ تھا کہ اس کے اپنے دجود کی حقیقت اتنی تلخ اور بھیانک ہو گی۔ وہ کبھی اس کو تصور میں نہیں لایا تھا۔
”کہنا ہے۔ ”اس نے ایک گہرا سانس لیا ۔فاطمہ نے سانس روک لیا۔
”یہ کہ میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں ۔”وہ بڑی روانی سے کہہ رہا تھا۔ ”اور اگر شہیر کی طرح ثانی بھی آپ کو چھوڑ کر چلی گئی تب بھی میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ اگر کبھی میری ماں میرے سامنے آکر کھڑی ہو گئی اور اس نے مجھے ساتھ چلنے کے لیے کہا ۔ میں تب بھی میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گا۔ہمیشہ۔”
فاطمہ کے ہونٹ کپکپانے لگے ۔ اس نے سوچا تھا، وہ روز قیامت تھا۔ مگر وہ اس کے لیے معجزوں کا دن بھی ثابت ہو رہا تھا۔
”شہیر واپس آئے گا؟وہ کچھ اور کہنا چاہتی تھی مگر اس نے کچھ اور کہا تھا۔ ثمر اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ بہت دیر تک وہ اسے دیکھتا رہا پھراس نے کہا۔
”آپ کو ہمیشہ اسی سے محبت رہی ہے ہمیشہ شہیر …”
فاطمہ نے بے قراری سے اس کے کندھے کو پکڑا ، وہ یک دم خاموش ہو گیا۔
”آجائے گا…کہا ں جائے گا؟چار دن رہ لینے دیں اس کو وہاں پر ۔ آجائے گا۔ آپ نے دیکھا نہیں اپنی ساری چیزیں لے کر نہیں گیا۔ ”ثمر نے پر سکون انداز میں کہا۔
”اس کی ماں نے اس سے کہا تھا کہ وہ یہاں سے زیادہ چیزیں لے کر نہ جائے ۔”فاطمہ نے بے تابی سے کہا۔
”پھر بھی آئے گا آکر کہے گا مجھے اپنا سامان لینا ہے۔ ”ثمر کے لہجے میں یقین تھا۔ فاطمہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔
٭٭٭
کانسٹیبل فضل دین کے لیے وہ شام بے حد بری تھی۔ پہلی بری خبر اسے اپنے گھر سے ملی تھی جب اس کی بیوی نے فون پر بہت چہکتے ہوئے اس کو بتایا کہ وہ واپسی پر پھل لیتا آئے کیونکہ اس کی ساس صرف پندرہ دن کے بعد دوبارہ ایک ماہ کے لیے اس کے گھر رہنے آگئی تھی۔ وہ نیا نیا شادی شدہ نہ ہوتا تو اپنی بیوی کو فون پر صلواتیں سناتا جو شادی کے چھ ماہ میں اپنی ماں کے ساٹھویں دورے کی اطلاع اسے اس طرح پر جوش ہو کر دے رہی تھی جیسے وہ پہلی بار اس کے گھر آرہی ہو۔ مگر چونکہ وہ نیا نیا شادی شدہ تھا اور بیوی اس کی چہیتی تھی، اس لیے اس نے اس اطلاع پر اپنی بیوی سے زیادہ جوش کا اظہار کرتے ہوئے پھلوں کے ساتھ کچھ اور لانے کو پوچھا اور پھر بری طرح پچھتایا ۔ اس کی بیوی نے اگلے ہی سانس میں اسے دو تین اور چیزوں کے نام گنوادیے۔ فون رکھتے ہوئے وہ اندازہ لگانے میں مصروف تھا کہ اس وقت اس کی جیب میں کتنے پیسے تھے صورت حال کچھ حوصلہ افزا نہیں تھی۔ خاص طور پر اس وقت جب نہر کے قریب واقع اس پولیس اسٹیشن میں وہ صرف اکیلا ہی تھا۔ ایس ایچ او چھٹی پر تھا اور دوسرا کانسٹیبل کچھ دیر پہلے کسی کام سے باہر نکلا تھا۔
یہ اس بری شام کا صرف آغاز تھا۔ اگلی بری چیز وہ لاش تھی جو ایک بیگ میں اس آدمی نے ایک ریڑھے پر رکھ کر اس تک پہنچائی تھی۔ کانسٹیبل فضل دین جب تک اس آدمی کے ساتھ بیگ کا جائزہ لینے باہر آیا۔ ریڑھے والا غائب ہو چکا تھا۔ اس کو بے تحاشہ غصہ آیا وہ اس لا ش کو فوری طور پر قریبی ہاسپٹل پہنچانا چاہتا تھا ۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے اس آدمی کو بے بھاؤ کی سنائیں جو اس بیگ کو وہاں لایا تھا۔
”تجھ کو کہا کس نے تھا کہ تو نہر میں بانس ڈال کر یہ بیگ نکالتا پھرے ۔”
”وہ…وہ جی میں اس لڑکی کو بچانے کے لیے کودا تھا۔ ”اس آدمی نے کچھ گھبراتے ہوئے کہا۔
”کس لڑکی کو ؟”کانسٹبل فضل دین چونکا اور ایک بار پھر پچھتایا۔ ایک اور ٹانگہ تھانے کی حدود میں داخل ہو رہا تھا۔ ٹانگے پر بیٹھے ہوئے افراد میں ایک لڑکی بھی شامل تھی مگر اس کی حالت بے حد خراب تھی۔ ایک دوسری ادھیڑ عمر عورت اور مردنے اسے سہارا دے کر ٹانگے سے نیچے اتارا مگر وہ آگے چل نہیں سکی اور وہیں برآمدے میں بیٹھ گئی۔ ٹانگے کے اگلے حصے میں بیٹھے ہوئے مردبھی نیچے اتر آئے۔
”جی یہ لڑکی ہے، اس نے نہر کے پل سے چھلانگ لگائی تھی نہر میں ۔ ”اس آدمی نے کہنا شروع کیا۔
کانسٹبل فضل دین کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ان سب پر پھونک مارا کر انہیں وہاں سے دفعان کردے ۔ اس لڑکی اور اس بیگ کی وہاں موجودگی کا مطلب تھا کہ وہ رات گئے اپنے گھر پہنچتا۔اور اس صورت حال میں کہ اس کی ساس اس کے انتظار میں بیٹھی تھی۔
لڑکی بری طرح کراہ رہی تھی اور اس کی حالت بہت خراب لگ رہی تھی۔ وہاں موجود لوگوں نے اس بیگ سے آتے ہوئے بدبو کے بھبھکوں کو بری طرح محسوس کیا تھا۔
”اس کو کھول کر دیکھیں تو سہی کہ اندر لاش کس کی ہے اور کس حالت میںہے ۔”بیگ لانے والے آدمی نے کہا۔
”کیوں تو کھولے بغیر اسے لے کر آگیا ہے یہاں ۔”
کانسٹیبل فضل دین نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا مگر اس کی پوری طرح توجہ اس لڑکی پر تھی جو بے حد خوب صورت اور کم عمر تھی۔ یک دم ہی اس کے بیزاری میں کچھ کمی ہوگئی تھی اور اس سے پہلے کہ یہ بیزاری مکمل طور غائب ہوتی۔ تھانے کی حدود میں ایک گاڑی داخل ہوئی تھی اور کانسٹیبل فضل دین کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی۔ وہ اس وقت ایک شلوار اور اس کے اوپر اپنی یونیفارم کی شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ یہ اس نواحی علاقے میں واقع تھانے کا اَن آفیشل یونیفارم تھا۔
وہ سو میٹر میں حصہ لینے والے کی طرح بھاگتا ہوا اندر تھانے میںگیا تھا۔ مگر اسے اپنی یونیفارم کی پتلون کہیں نظر نہیں آئی اور پھر اسے یاد آیا تھا کہ اس کی پتلون پہن کر دوسرا کانسٹیبل کچھ دیر پہلے قریبی تھانے میں گیا تھا۔ اسے اسی حالت میںباہر آنا تھا۔ مگر آنے سے پہلے وہ تھانے میں بچھی اس چار پائی کو اٹھا کر دیوار کے ساتھ کھڑی کرنا نہیں بھولا جس پر وہ کچھ دیر پہلے لیٹا آرام کر رہا تھا۔
کانپتے ہوئے وہ اسی حلیے میں اندر سے باہر نکل آیا تھا۔ ایس پی کے ساتھ اس کی جیپ سے نکلتے اس علاقے کے نئے اے ایس پی کا دل چاہا، وہ ایک ٹکر اس جیپ کو مارے اور دوسری کانسٹیبل فضل دین کو …وہ اس کے علاقے کا تیسرا تھانہ تھا جہاں سے شرٹ اور شلوار میں ملبوس پولیس اہلکار برآمد ہوا تھا۔ کانسٹیبل فضل دین نے پاس آکر اسی مضحکہ خیز حالت میںسیلوٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔ واحدذہانت جو اس نے کی تھی، وہ اپنے سر پر وہ ٹوپی پہننے کی تھی جو وہ اندر سے باہر آتے ہوئے ہڑبڑاہٹ میںلایا تھا۔ اے ایس پی کا دل اس ٹوپی کو دیکھ کر چاہا تھا وہ اسے جھانپڑ رسید کرے ۔ وہ اس کی زندگی کی بھی بدترین شام تھی۔ وہ اپنی پہلی تعیناتی پر پہلی بار ایس ایس پی کے ساتھ اچانک وزٹ پر نکلا تھا اور ہر تھانے کے اہلکاروں نے اس کے منہ پر کالک ملنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
ایس ایس پی نے تیز چبھتی ہوئی نظروں سے کانسٹیبل فضل دین کو دیکھا پھر اے ایس پی کو پھر کچھ کہے بغیر وہ آگے بڑھ کر ان لوگوں کے پاس چلا گیا جو وہاں کھڑے نظر آرہے تھے۔ چند ہی منٹوں میں وہ بیگ کے پاس سے گزرتا گزرتا رکا۔ اس نے بھی بدبو کے بھبھکے محسوس کیے۔ بے اختیار پلٹ کر اس نے کانسٹیبل فضل دین کو دیکھا۔
”اس میں کیا ہے؟”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!