تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

اس نے ایک سگریٹ سلگا یا ، شائستہ نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ وہ چند لمحے پہلے اس عورت کو دھکے دے کر گھر سے نکالنا چاہتی تھی۔ وہ چند لمحے پہلے اسے جھوٹا کہہ کر اس کا منہ بند کرنا چاہتی تھی۔ مگر اس وقت اس لمحے وہ صرف خاموشی سے زرقا کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ اس وقت ہارون کا دفاع کرنے کیلیے جھوٹ نہیں بول پا رہی تھی۔ وہ اس وقت ہارون کو بچانا بھی نہیں چاہتی تھی۔
اس کے سامنے صوفے پر بیٹھی سگریٹ پیتی عورت اس سے آٹھ دس سال بڑی تھی اور یہ آٹھ دس سال آٹھ صدیاں بن کر اس کے چہرے پر تحریر تھے۔
زرقا وہاں میک اپ کے بغیر آئی تھی۔ اور اس کے چہرے پر جھریوں کا جال تھا اور چہرے کی ہر لکیر بتا رہی تھی کہ دنیا نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ جو کہانی چہرے کی لکیریں نہیں بتا پا رہی تھیں، وہ اس کی آنکھوں کی ویرانی اور وحشت بتا رہی تھی۔
”جب ہارون نے مجھ سے شادی سے انکار کیا تو پھر میں نے ایک سندھی وڈیرے سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ اس کی پہلے دو بیویاں تھیں اور بچے بھی۔ ”زرقا بول رہی تھی۔ ”مجھ سے عمر میں پچیس سال بڑا تھا، مگر میری آواز پر عاشق تھا۔ دولت اس کے پاس بھی بہت تھی۔ مگر ہارون پہ میرا دل آگیا تھا۔ خوا مخواہ خواب دیکھنے شروع کر دیے میں نے۔”اس نے سر جھٹکا جیسے ماضی کے بوجھ کو کندھوں سے جھٹک رہی ہو۔ شائستہ اسے یک ٹک دیکھے جارہی تھی۔
”میں چاہتی تھی ہارون کی اولاد کو طوائف یا دلال بناؤں ۔پھر کبھی ان کو ہارون کے پاس بھیجوں ۔ مگر میں ایسا نہیں کر سکی۔ وہ سندھی وڈیرا جان گیا تھا کہ میں کسی اور کے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ اس نے مجھے مجبور کیا کہ میں ابارشن کرالوں ۔جب یہ نہیں ہوا تو اس نے مجھے ایک عورت کے پاس ٹھہرادیا تاکہ وہ پیدائش کے بعد بچوں کو ٹھکانے لگا دے ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ میری پہلے سے کوئی اولاد ہو جو بعد میں اس کے لیے پریشانی پیدا کرے ۔ میرے ہاں جڑواں بچے ہوئے۔ جس عورت کے پاس مجھے رکھا گیا تھا اس نے بچوں کو بہت ساری افیم کھلائی اور پھر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا ۔ اس کے بعد میں اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گوٹھ چلی گئی۔ گانا بجانا سب کچھ پیچھے ہی رہ گیا۔ شوہر سے میری کوئی اولاد نہیں ہوئی مجھے اپنے بچے یاد آئے تھے۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے مجھے ان کی بد دعا لگ گئی ہے آخر اس سارے قصے میں ان کا کیا قصور تھا کہ انہیں مار دیا گیا۔ تب تک میں یہی سمجھتی تھی کہ وہ مر چکے ہیں۔ پانچ سال پہلے شوہر کی وفات کے بعد میں دوبارہ شہر آگئی۔




”ایک بار پھر میں نے پرائیویٹ محفلوں میں گانا شروع کر دیا ۔ اور پھر یہیں پر ایک دن اچانک میری اس عورت سے ملاقات ہوئی جس کے گھر میرے شوہر نے مجھے رکھا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ دونوں مرے نہیں تھے ۔ اسی رات کوڑے کے ڈھیر سے کسی عورت نے اٹھا لیا تھا۔ اور وہ دونوں بچ گئے تھے۔
میرے لیے معجزہ تھا یہ بے نام و نشان ہوتے ہوئے ایک دم جیسے نام اور نشان دونوں مل گئے تھے ۔ مجھے کچھ وقت لگا، لیکن میں نے فاطمہ اور ان بچوں کو ڈھونڈ لیا۔ شہیر کے بارے میں مجھے شک ہوا تھا۔ اس کا چہرہ ہارون کمال کا چہرہ تھا، میں نے بھی اسی آدمی سے معلومات لی تھیں جس سے آپ نے لی تھیں اور مجھے یقین تھا کہ اس آدمی نے آپ کو میرے بارے میںبھی بتا دیا ہو گا، شاید میرے اور ہارون کمال کے تعلق کے بارے میں بھی ، مگر یہاں مجھ سے اندازے کی غلطی ہو گئی۔
اس آدمی نے مجھے یہ بتایا تھا کہ ہارون کمال کی بیوی فاطمہ اور اس کے بچوں کے بارے میں معلومات کر وارہی ہے۔ مگر اس نے شاید آپ کو زرقا اور ہارون کمال کے تعلق کے بارے میں نہیں بتایا۔ ”
زرقا نے چند لمحے تو قف کیا۔
”اس نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا تھا کہ ثمر اور ثانیہ تمہارے بچے ہیں میں نے باپ کے بارے میں نہیں پوچھا۔”
شائستہ نے مدھم آواز میں کہا۔ وہ بھی اب اپنے پرس سے ایک سگریٹ نکال کر سلگا رہی تھی۔
”تم اب چاہتی کیاہو؟”شائستہ نے سگریٹ کے پہلے کش کے بعد اس سے پوچھا ۔”پیسہ؟”
”زرقا بے اختیارہنسی ۔”پیسہ ، پیسہ ، پیسہ، کیا کرے گا انسان پیسے کا، جب اس کے اندر باہر ویرانی ہو۔ میرے شوہر نے میرے نام کچھ جائیداد چھوڑی تھی۔ پرائیویٹ محفلوں سے میں بہت کمالیتی ہوں ۔ میرا بینک بیلنس اچھا ہے۔ لیکن کیا کروں ، میں اس سب کو، جب میرے پاس رشتوں کے نام پر کچھ ہے ہی نہیں اور جو تھے انہیں میں نے اپنے ہاتھوں سے کھودیا …نہیں شائستہ ہارون کمال !میں پیسہ لینے آپ کے پاس نہیں آئی ، اب 50 سال کی عمر میں ، میں کیا لوگوں کو بلیک میل کروں گی۔ ”
وہ خاموش ہو کر سگریٹ کے کش لگانے لگی۔
”پھر …؟”شائستہ نے اسے دیکھا۔ ”کیا صرف مجھے یہ سب بتانے کے لیے یہاں آئی ہو؟”
”نہیں ، صرف اس لیے یہاں نہیں آئی۔ ”کچھ توقف کے بعد اس نے کہا۔”آپ نے فاطمہ کے ساتھ بڑا ظلم کیا۔”
”فاطمہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ ”شائستہ کا لہجہ یک دم روکھا ہو گیا۔
”جانتی ہوں مگر میں اس عورت کی دل سے قدر کرتی ہوں۔ اس نے میرے بچوں کو کوڑے سے اٹھا کر سینے سے لگا کر پالا ہے۔ ماں اور باپ بن کر ، صرف میرے نہیں آپ کے بچے کے لیے بھی اس نے بہت کچھ کیا ہے۔”
شائستہ کا جسم بے اختیار تن گیا۔
”تم میرے پاس فاطمہ کی وکیل بن کر آئی ہو؟”
”نہیں …وہ تو جانتی تک نہیں کہ …”زرقا نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”مجھ میں آپ جیسی ہمت نہیں ہے کہ اس کے سامنے جا کر جھوٹ بولتی اور اپنے بچے واپس مانگتی۔
طوائف ضرور ہوں میں مگر احسان فراموش نہیں ہوں۔”
شائستہ کو لگا جیسے زرقا نے اس کے چہرے پر تھپڑ مار دیا ہو۔
”اولاد اس کی جس نے جان لٹائی ہو۔”
زرقا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ایک بار پھر شائستہ کا دل چاہا کہ وہ اسے وہاں سے نکال دے۔
”میں تو ساری عمر اس کی جوتیاں سیدھی کروں تب بھی اس کا احسان نہیں اتار سکتی۔ بڑے گھرانے کی عورت اور ایک طوائف میں یہی فرق ہوتا ہے۔”
شائستہ کو لگا ۔ اسے ایک اور طمانچہ پڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، زرقا نے اپنی آنکھیں دوپٹے کے پلو سے رگڑتے ہوئے کہا۔
”یہ آپ کی بیٹی نایاب ہے نا؟”وہ ایک بار پھر دیوار پر لگی تصویر کو دیکھ رہی تھی۔ شائستہ کو لگا یہ سوال نہیں ہے۔
”ثمر کے ساتھ اس کی بہت دوستی ہے۔ دونوں یہ نہیں جانتے کہ یہ دونوں بہن بھائی ہیں ۔میں بھی چند ہفتے پہلے تک یہ نہیں جانتی تھی کہ نایاب آپ لوگوں کی بیٹی ہے۔ ورنہ وہ سب کچھ نہ ہوتا جواب ہو گیا ہے۔ ”
زرقا کا لہجہ اس بار تھکا ہوا تھا۔ شائستہ قدرے چونک گئی۔
”ہاں میں جانتی ہوں کہ نایاب ثمر میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ مگر اب یہ سب کچھ جاننے کے بعد میں اسے سمجھادوں گی۔”
شائستہ نے کہا، زرقا کچھ دیر چپ چاپ اس کو دیکھتی رہی۔ پھر اس نے کہا۔
”میں ہارون کمال کی فطرت رکھتی تو آج اس کا تماشا دیکھتی۔ دوسروں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے والے کو آج قدرت نے بہت بے بس کر دیا ہے۔ مگر مجھے صرف اپنے بیٹے کی پروا ہے صرف ثمر کی ۔میں نہیں چاہتی اس کی زندگی خراب ہو۔ اس لیے آپ کو بتانے آئی ہوں کہ ہارون کمال کی بیٹی نایاب نے ہارون کمال کے بیٹے ثمر کے ساتھ کورٹ میرج کر لی ہے۔ ”
شائستہ کی انگلیوں سے سگریٹ اس کی گود میں گر گیا تھا۔ شیفون کی ساڑھی کو وہ کہاں سے جلا رہا تھا، شائستہ کو پروا نہیں تھی۔ اس کے گھر کو آگ لگی تھی۔ وہ اس کو بجھانا چاہتی تھی۔
٭٭٭
وہ روشان منصور علی کی تصویر تھی۔ ثانی پہچاننے میں غلطی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ بلاشبہ وہی تھا اس کی کلاس کا سب سے عجیب لڑکا۔
”یہ روشان منصور علی ہے؟۔”ثانی نے صبغہ سے پوچھا۔ وہ بے اختیار چونکی ثانی کے منہ سے اس کا نام سن کر اسے جھٹکا لگا۔
”ہاں …یہ میرا بھائی ہے۔ مگر تم اسے کیسے جانتی ہو؟”
”بھائی ؟”اس بار حیرت کا جھٹکا ثانی کو لگا۔
”ہاں میرا اکلوتا بھائی۔”
”یہ آئی بی اے میں میرا کلاس فیلو ہے۔ ”ثانی نے اس تصویر کو مسلسل دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ کیوں عجیب و غریب تھا، ثانی کے لیے۔ اب یہ راز، راز نہیں رہا تھا۔ وہ تصویر اگرچہ پرانی تھی، مگر روشان کے چہرے میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔
”یہ پاپا کے ساتھ رہتا ہے۔ ”صبغہ نے رنجیدگی سے کہا۔
”مگر آپ کو اس سے رابطہ کرنا چاہیے۔اسے ان سارے حالات کا پتہ ہونا چاہیے۔”ثانی نے کہا۔
صبغہ اس بار خاموشی رہی۔ وہ ثانی کو وہ سب کچھ نہیں بتاناچاہتی تھی جس سے وہ گزری تھی۔ وہ ثانی کو روشان کی خود غرضی کے بارے میں بھی نہیں بتانا چاہتی تھی اور ثانی نے اس کی جھجک کو محسوس کر لیا تھا۔
”یہ آپ کا اکلوتا بھائی ہے، صبغہ ۔ آپ کو اس ساری صورت حال میں اس سے بات کرنا چاہیے، مجھے یقین ہے اسے ان تمام حالات کا پتہ نہیں ہو گا۔ ”ثانی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”ابھی آپ کے ابو پولیس کی حراست میں ہیں ۔کچھ عرصہ میں باہر نکل آئیں گے۔ پھر اگر انہوں نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو…؟”
صبغہ کی آنکھوں میں آنسو بہہ رہے تھے وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ اتنی کمزور نہیں تھی جتنی وہ اس وقت ہو گئی تھی۔ ثانی اسی کی ہم عمرتھی۔ مگر اس وقت وہ اسے بڑوں کی طرح سمجھا رہی تھی۔ اور وہ سننے پر مجبور تھی۔
”میرے پاس اس کا کانٹیکٹ نمبر نہیں ہے۔”صبغہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”یہ مسئلہ نہیں ہے، میں آپ کو اس کا کانٹیکٹ نمبر لادیتی ہوں۔”
”تمہارے پاس ہے ؟”صبغہ نے چونک کر کہا۔
”نہیں ہے تو نہیں ، مگر میں اپنے ایک دوسرے کلاس فیلو کو فون کر کے ابھی تھوڑی دیر میں اس کا نمبر لا سکتی ہوں۔لے آؤں؟”وہ صبغہ سے پوچھنے لگی ۔
صبغہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے شکست خو ردہ انداز میں سر جھکا لیا۔ ثانی اس کا کندھا تھپکتے ہوئے اٹھ کر چلی گئی۔
روشان کا کانٹیکٹ نمبر حاصل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی تھی۔ اس نے گھر آکر اپنے موبائل سے اپنے ایک دوست رضا کو کال کی، وہ اس کا کلاس فیلو تھا۔ اس کے پاس روشان کا نمبر تھا۔
پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں وہ ایک بار پھر صبغہ کے پاس تھی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!