تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

اس نے اگلی کال نایاب کوکی ۔ کال کو فوراََ ریسیو کیا گیا۔
”شہیر بھائی کیسے ہیں ؟”ثمر نے رسمی علیک سلیک کے بعد پوچھا۔
”وہ ٹھیک ہیں اور گھر پر ہی ہیں ۔”نایاب آہستہ سے بولی ۔
”اسد بھائی کی پاپا اور ممی سے بہت طویل بات ہوئی ۔ مجھے نہیں پتا کہ ابھی انہوں نے کیا طے کیا ہے۔ کیونکہ میری ابھی تک اسد بھائی سے بات نہیں ہوئی۔ جیسے ہی ان سے بات ہوتی ہے میں تمہیں بتاؤں گی کہ انہوں نے کیا طے کیا ہے۔ ”وہ کہہ رہی تھی۔
”تم اگر شہیر بھائی سے بات کرنا چاہتے ہو تو میں کر واسکتی ہوں ۔”اس نے آفر کی۔
”نہیں نایاب !مجھے ان سے بات نہیں کرنی ، مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ کیا تم مجھ سے کہیں مل سکتی ہو؟”
”جب اور جہاں تم کہو۔ ”نایاب نے بے اختیار کہا۔”تمہیں پوچھنے کی ضرورت کب سے ہونے لگی۔”
ثمر نے اس کے سوال کا جواب نہیں دیا۔ پھر اس نے اسے وقت اور وہ جگہ بتائی۔ جہاں وہ اس سے ملنا چاہتا تھا۔
٭٭٭
اسد کچھ دیر پہلے منصور علی سے ملنے ہوٹل کے کمرہ میں آیا تھا۔ منصور نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ مگر اسد کو منصور کی حالت دیکھ کر دھچکا لگا تھا۔ بڑھی ہوئی شیو اور ملگجے کپڑوں میں سرخ آنکھوں اور بکھرے بالوں کے ساتھ وہ کہیں سے وہ منصور علی نہیں لگتا تھا، جسے اس نے اپنے باپ کے ساتھ کئی بار دیکھا تھا۔
منصور کو اس نے اس کے موبائل پر کال کی تھی اور یہ اس کا نمبر وہ بڑی کوشش کے باوجود بھی اپنے آفس سے حاصل نہیں کر پایا تھا، نتیجہ کے طور پر اسے منصور کے وکیل سے رابطہ کرناپڑا تھا۔ اور منصور کا کانٹیکٹ نمبر حاصل کرنے کی جدوجہد کے دوران اسے منصور کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو گیا تھا۔ رخشی اور اس کے درمیان ہونے والی طلاق اور اس کی فیکٹری پر ہونے والا قبضہ ، مگر اسے ان تمام چیزوں سے دلچسپی نہیں تھی۔ وہ منصور سے اس کی اور ہارون کمال کی ختم ہونے والی پارٹنرشپ کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ زندگی میںپہلی بار وہ ہارون اور شائستہ دونوں کو اپنے سامنے بے بس پا رہا تھااورامبر کو حاصل کرنے کا ایک سنہری موقع اس کے ہاتھ آگیا تھا۔
بات منصور نے شروع کی۔
”مجھے تمہیں یہاں دیکھ کر بہت خوشی ہورہی ہے اسد ، میں جانتا تھا ہارون کو جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا۔ ”
”انکل !مجھے پاپا نے نہیں بھیجا۔”اسد نے فوراََ اس کی غلط فہمی دور کی۔ منصور کو جیسے دھچکا لگا۔
”ہارون نے نہیں بھیجا ؟”
”نہیں ۔”میں اپنی مرضی سے آپ کے پاس آیا ہوں ۔ میری خواہش ہے کہ آپ اور پاپا کے درمیان یہ پارٹنرشپ اس طرح ختم نہ ہو، جو بھی وجوہات ہیں ، میں وہ جاننا چاہتا ہوں تاکہ معاملات کو بگڑنے سے بچا سکوں۔”اسد نے بڑی مفاہمت کے انداز میں کہا۔
”یہ سب امبر کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ”منصورنے دانت پیستے ہوئے کہا۔ اسد ، امبر کا ذکر کرنا چاہتا تھا مگر اسے توقع نہیں تھی کہ اس ذکر میں منصور خود پہل کردے گا۔ اور وہ بھی اس لہجے میں ۔




”کیا مطلب؟”اسد نے بڑے محتاط انداز میں پوچھا۔ وہ توقع کر رہا تھا کہ منصور اب اسے بتائے گا کہ ہارون نے کس طرح اسد کی امبر کے لیے پسندیدگی کی وجہ کو بنیاد بناتے ہوئے اس پارٹنرشپ کو ختم کر دیا۔ مگر جو کچھ اس نے منصور کی زبان سے سنا اس نے اسد کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دی۔
”ہاں ، یہ سب کچھ امبر کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اسی نے ہارون کمال سے کہا ہے کہ وہ یہ پارٹنرشپ ختم کردے ۔
اس نے یہ سب کچھ کرنے کے لیے ہی ہارون سے شادی کی ہے۔ ”
”کیا…؟”اسد کے سر پر گویا کوئی دھماکہ ہوا۔ ”کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟کس امبر کی بات کررہے ہیں ؟”اسے لگا منصور یقیناََ کسی اور لڑکی کا تذکرہ کر رہا ہے۔
”میں اپنی بیٹی کی بات کر رہا ہوں ، جو میرے لیے آستین کا سانپ بن گئی ہے۔ ”منصور نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا۔ ”تم تو اچھی طرح جانتے ہو اسے ۔ کئی بار مل چکے ہو اس سے ۔”
وہ چند لمحے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں منصور کو دیکھتا رہا پھر بولا ۔
”امبر نے پاپا سے شادی کر لی ہے۔ ؟”
”ہاں …ہارون مانتا نہیں ہے، مگر ایسا ہی ہوا ہے۔ امبر کو اس نے اپنے فلیٹ پر رکھا ہوا ہے۔ اسی کے کہنے پر تووہ مجھے اس طرح تنگ کر رہا ہے۔” پارٹنر شپ کی بات اسد کے دماغ سے اڑن چھو ہو گئی تھی۔
”آپ کیا بات کر رہے ہیں ؟ایسا کچھ ہوتاتو ممی کو پتہ ہوتا۔ اورپاپا…امبر ان کی بیٹی کے برابر ہے، ضروری نہیں ہے کہ آپ نے بیٹی کی دوست کو بیٹی نہیں سمجھا ۔ اور اس سے شادی کر لی تو ہر مرد یہی کرے۔ ”منصور کو اس کی بات طمانچے کی طرح لگی۔
”میں امبرمیں انٹرسٹڈ تھا۔ میں امبر سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میرا باپ اس لڑکی سے شادی کرلے جس سے وہ میری شادی کرنے پر تیار نہیں تھا۔ ”
اسد کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔ مگر اپنے منہ سے نکلنے والے آخری جملے نے اسے یکدم ٹھٹکا دیا۔
”تو کیا پاپا اس لیے امبر سے میری شادی نہیں کرنا چاہتے تھے، کیونکہ وہ خود اس میں انٹرسٹڈ تھے۔ ”
منصور سے بات کرتے ہوئے اسے اپنی آواز بے حد کھوکھلی لگی۔ وہ ہارون کمال کو اچھی طرح جانتا تھا۔ ہارون خوبصورتی پر مرتا تھا اور امبر بے تحاشا خوبصورت تھی۔ منصور کے سامنے ہارون کا دفاع کرتے ہوئے بھی اسے خیال آرہا تھا کہ منصور جو کچھ کہہ رہاتھا وہ عین ممکن تھا۔ وہ بالکل ممکن تھا۔ اپنی بات مکمل کرتے کرتے اس کی آواز لڑ کھڑانے لگی تھی۔
”میں آپ کی بات پر یقین نہ کرنے کے باوجود پاپا سے اس سلسلے میں بات کروں گا۔ ”
”وہ انکار کر دے گا۔ ایسی شادیوں کا اعتراف کون کرتا ہے، ہر ایک شروع میں انکارہی کرتا ہے۔ ”منصور کو کہتے ہوئے یادآیا تھا کہ اس نے خود بھی یہی کیا تھا۔ رخشی سے اپنی شادی کو اسی طرح چھپایا تھا۔ آج وقت عجیب انداز میں آئینہ اس کے سامنے لے آیا تھا۔
اسد نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ اور پھر وہ تیزرفتاری سے اس کے کمرے سے نکل گیا۔ منصور کوآج پہلی بارسب کے سامنے ایک عجیب طرح کی ذلت کا احساس ہوا تھا۔ یا پھر یہ ذلت نہیں تھی۔ یہ کچھ اور تھا…اسے رخشی یاد آئی تھی اور اسے امبر یاد آئی تھی۔
٭٭٭
ثانی نے بے یقینی سے باری باری ثمر اور فاطمہ کو دیکھا ۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پائی کہ وہ اس سے نظریں چرا رہے تھے یا پھر نظریں ملانا نہیں چاہتے ہیں ۔ اس نے بے اختیار اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچیں۔مگر وہ اپنے جسم کی لرزش کو روک نہیں سکتی تھی۔ جو کچھ اسے بتایا گیا تھا۔ وہ ناقابل یقین تھا۔ ہولناک تھا، شرمناک تھا، مگر ”ناقابل یقین ”تھا ، وہIBAکے انٹری ٹیسٹ میں ٹاپ کر کے ملک کے سب سے اچھے اداروں میں سے ایک میں اسکالر شپ پر گئی تھی۔ وہ جیسے آسمان پر چلی گئی تھی۔ صرف چند سالوں میں اسے سب کچھ فتح کر لینا تھا۔ آسمان کی وسعتیں اس کی پہنچ میں تھیں۔ اور اب وہ کسی پر کٹے پرندے کی طرح دفعتاََ زمین پر آگری تھی۔
کوڑے کے ڈھیر پر چھوڑی جانے والی کسی کی ناجائز اولاد…اس کے منہ پر پوری دنیا نے جیسے کالک مل دی تھی۔ وہ جان سکتی تھی، ثمر کیوں اس سے آنکھیں چرارہا ہے۔ وہ سمجھ سکتی تھی فاطمہ کیوں اس سے نظریں ملانے سے اجتناب کر رہی ہے۔ کمرے کے اندر بیٹھے تینوں افراد کی نظروں میں اس وقت آگہی کی اذیت کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اور تینوں اس اذیت کو کسی دوسرے تک پہنچانے سے خائف تھے۔
”ثانیہ سمیع کو اپنا نام کاغذ کے ٹکڑوںکی طرح ہوا میں اڑتا محسوس ہوا ۔ کاغذ کے ننھے ننھے ہزاروں ٹکڑوں کی طرح …ہلکا…غیر اہم…بے حیثیت ……..معمولی۔
اس کے اندر شدید خواہش جاگی کہ یہ سب کچھ ایک خواب ہو ۔ بعض دفعہ سب کچھ خواب ہوتا بھی ہے۔ بھیانک خواب۔اس نے زندگی میں کئی بھیانک خواب دیکھے تھے، اور کئی باروہ ان سے جاگی تھی۔ مگر یہ کیا تھا؟
وہ اس سے پہلے اپنے ”گھر”پر اپنے ”گھروالوں ”کے ساتھ ہوتی تھی۔ وہ اس بار بھی ”گھر ”ہی آئی تھی۔ مگر یہ گھر اچانک ”مکان”میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اور ”گھروالے””لوگ”بن گئے تھے۔ اس کا ”بڑا بھائی ”اس کی زندگی سے نکل گیا تھا۔ اس کی ماں …”ماں”نہیں رہی تھی۔
خاموشی کا ایک بہت طویل وقفہ کمرے میں آیا تھا۔ اتنا طویل کہ تینوں کو لگا جیسے آج کے بعد دوبارہ ان میں سے کوئی کبھی بولے گا ہی نہیں ۔ پھر ثانیہ نے ہی خاموشی توڑی تھی۔
”آپ کو یہ سب کچھ ہمیں بتا دینا چاہیے تھا۔”اس نے فاطمہ سے کہا۔ اسے اپنی آواز خود بہت اجنبی لگی۔ وہ اب سمجھ سکتی تھی۔ کہ ثمر کو کیا ہوا ہوگا۔
”کبھی نہ کبھی .آپ کو خود یہ سب کچھ ہمیں بتا دینا چاہیے تھا اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا ہمیں یہ سب بتاتا۔ ”
اس نے فاطمہ کی طرف دیکھے بغیر کہا ۔ اسے فاطمہ کی طرف دیکھتے ہوئے تکلیف ہو رہی تھی۔ وہ یک دم بے حد کمزور لگی تھی۔ اس کی آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں ۔ اس کی رنگت اور سیاہ ہوگئی تھی۔ اس کے جسم کی ہڈیاں پہلی دفعہ نمایاں لگنے لگی تھیں ۔ اور اس کی آنکھوں میں اس نے ایک عجیب سی کیفیت دیکھی تھی، جسے وہ اب نام دے سکتی تھی وہ خوف تھا۔ مزید کچھ کھو دینے کا خوف ۔ اور یہ ”مزید”کیا تھا؟
”ثانیہ …؟ثمر…؟یا پھر وہ گھر اور خاندان جو فاطمہ نے اتنے سالوں میں بنایا تھا، کسی چڑیا کی طرح ایک ایک تنکا اکٹھا کر کے۔ اور جب گھونسلہ بن گیاتھا۔تو اب وہ گھونسلہ آسمان سے زمین پر آن گرا تھا اور چڑیا بے تابی اور بے چینی سے دیوانہ وار اس گھونسلے کے اوپر ہوا میں پھڑ پھڑا رہی تھی۔
”انہوںنے ٹھیک کیا کہ نہیں بتایا ۔”اس سے پہلے کہ فاطمہ کچھ کہتی ثمر نے کہا تھا۔ ”میں بھی یہ چاہتا تھا کہ یہ سب کبھی مجھے پتا نہ چلتا۔ نہ کوئی شائستہ کمال ہماری زندگی میں آتی نہ ہمیں ہمارے ماضی کے بارے میں پتاچلتا۔
سب کچھ ویسے ہی چلتا رہتا جیسے پہلے چل رہا تھا۔”
ثمر کا اندز شکست خوردہ تھا۔ ثانی اپنے ہونٹ بھینچے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا وہ بھی یہی چاہتی تھی، فاطمہ بھی یہی چاہتی تھی…مگر واقعات صرف ہمارے چاہنے سے نہیں ہوتے۔
”اور مجھے آپ لوگوں کو ایک اور بات بھی بتانی ہے۔ ”کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ثمر نے کہا۔ فاطمہ اور ثانی نے بیک وقت سر اٹھا کر اسے دیکھا، اب اور کیا رہ گیا تھا۔
ثمر ان دونوںکی طرف پر سوچ انداز میںچند لمحے دیکھتا رہا یوں جیسے اسے لفظوں کی تلاش ہو ، پھر اس نے آہستہ سے کہا۔
”میں نے اور نایاب نے کورٹ میرج کرلی ہے۔ ”ثانی اور فاطمہ سانس نہیں لے سکیں۔
ثمر باری باری دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ ثانی کو ایک لخطہ کے لیے لگا کہ وہ مذاق کر رہا تھا۔
وہ مذاق کرتے وقت اسی طرح سنجیدہ نظر آتا تھا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!