تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

”یہ فضول باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے۔”ثانی نے جیسے اس جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے قدرے ناراضی کے ساتھ کہا۔
” فضول باتیں نہیں کر رہا ہوں ثانی!میں نے واقعی نایاب کے ساتھ کورٹ میرج کر لی ہے۔”ثمر نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟”فاطمہ نے بے حد پریشانی کے عالم میں اس کو جھڑکا ۔
”امی!آپ جو بھی کہہ لیں مگر میں اس کے ساتھ شادی کر چکا ہوں اور ان حالات میں جو ہارون کمال کی فیملی نے ہمارے لیے پیدا کیے ہیں ، یہ شادی ضروری تھی۔ ”وہ کہہ رہا تھا۔
”تم واقعی سچ کہہ رہے ہو؟”ثانی کو ابھی بھی اس کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔
”میں آپ کو شادی کے کاغذات دکھا سکتا ہوں ۔”اس نے سنجیدگی سے کہا۔ ثانی اور فاطمہ نے بے اختیار ایک دوسرے کی طرف دیکھا فاطمہ کو لگا۔ اس کے کندھوں پر بوجھ کچھ اور بڑھ گیا ہو۔ نایاب سے کورٹ میرج کا مطلب کیا تھا۔ اس کی فیملی کے لیے کتنے اور مسائل کھڑے ہو سکتے تھے، وہ اچھی طرح اندازہ کر سکتی تھی۔
”مجھے اندازہ تو تھا کہ تم بے و قوف ہو مگر اتنے بے و قوف ہو ۔ اس کا مجھے پتا نہیں تھا۔
فاطمہ کو ثمر سے کچھ کہنا نہیں پڑا ۔ اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ثانی اس پر برس پڑی تھی۔
”نایاب ہارون کمال کی بیٹی ہے۔ ابھی اس کے ماں باپ کو اس شادی کا پتا نہیں ہو گا، پتا چلتا تو وہ صرف شہیر بھائی کو لے جانے کے لیے یہاں پولیس نہ لاتے بلکہ تمہارے لیے بھی لاتے۔”
”مجھے پولیس کا ڈر نہیں ہے ۔ نایاب اور میں بالغ ہیں ۔ قانوناََ شادی کر سکتے تھے، پولیس کیا کر سکتی ہے؟”ثمر نے کندھے اُچکا کر کہا۔
”نایاب ہمارا بیک گراؤنڈ جانتی ہے۔”ثانی کا اشارہ کس بیک گراؤنڈ کی طرف تھا، ثمر کے لیے سمجھنا دشوار نہیں تھا۔
”ہاں …وہ بہت پہلے سے جانتی ہے ۔”ثمر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔”اور اسے کسی چیز پر اعتراض نہیں ہے۔ وہ ان چیزوں کو بے معنی سمجھتی ہے۔”
”اس کے بے معنی سمجھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ”ثانی نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔”اس کے ماں باپ شہیر بھائی کو یہاں سے لے گئے ہیں اور تمہارا خیال ہے کہ وہ تمہیں اس طرح داماد کے طور پر قبول کر لیں گے جس طرح تم نے اپنے آپ کو خود ان پر مسلط کیا ہے۔”
”مجھے اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ مجھے قبول کرتے ہیں یا نہیں ۔”ثمر نے کندھے جھٹک کر کہا۔
”مجھے ان کی قبولیت کی سند نہیں چاہیے ۔”




”اب مجھ سے یہ مت کہنا کہ یہ تم نے نایاب کی محبت میں کیا ہے۔”ثانی نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
ثمر اس کی بات پر بے اختیار مسکرایا ۔ وہ واقعی اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔ وہ کسی طور بھی اسے سے چھپ نہیں سکتا تھا۔
”میں نایاب کو بہت پسند کرتا ہوں۔”ثمر نے محبت کا لفظ استعمال کیے بغیر اپنے لفظوں پرزور دیتے ہوے کہا۔
”تم اسے کتنا پسند کرتے ہو۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں اور میں یہ بھی اچھی طرح جانتی ہوں کہ یہ پسند یدگی کم از کم اتنی زیادہ نہیں تھی کہ تم اس طرح آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس سے کورٹ میرج جیسا کام کرتے ۔”
وہ ترکی بہ ترکی کہہ رہی تھی۔
”تمہیں کچھ تو سوچنا چاہیے تھاثمر !”فاطمہ نے بہت دیر خاموش رہنے کے بعد مداخلت کی ۔””خو ا مخواہ کی مصیبت کو کیوں گلے میں ڈال لیا ہے تم نے۔”
”آپ نہیں چاہتیں شہیر بھائی واپس آجائیں ؟”ثمر نے فاطمہ کے مزید کچھ کہنے سے پہلے کہا۔
”تمہارے نایاب سے شادی کر لینے سے شہیر بھائی واپس آجائیں گے؟”اس سے پہلے کہ فاطمہ مزید کچھ کہتی ، ثانی نے اس کی بات کاٹ کر تیزی سے کہا۔
”ہاں …نایاب ان کو واپس آنے پر مجبور کرے گی۔ ”
”اور تم نے صرف اسے استعمال کرنے کے لیے اس سے شادی کر لی؟”ثانی کو یقین نہیں آیا۔
”میں نے تم کو بتایا ہے کہ میں اسے بہت پسند کرتا ہوں۔”ثمر نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”ثمر !اس حماقت سے باز آجاؤ ۔ اس کے ماںباپ کو پتا چل گیا تو وہ تمہارا حشر کردیں گے۔ تمہیں ان کے اثرورسوخ کا اندازہ نہیں ہے۔”ثانی نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔
”میں شادی کر چکا ہوں ثانی اور میں اب پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ جو ہوتا ہے ہونے دو ….”
وہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ ثانی اور فاطمہ بے یقینی سے اسے وہاں سے جاتا دیکھتی رہیں ۔دونوں کو یوں لگا تھا جیسے آزمائشوں کا سلسلہ دراصل اب شروع ہوا تھا۔
٭٭٭
نایاب سے کورٹ میرج کا قدم ثمر نے کسی وقتی جذباتیت میں آکر نہیں اٹھا یا تھا۔ شہیر اس گھر سے اس طرح نہ لے جایا جاتا تب بھی جلد یا بد یر ثمر ، نایاب کے ساتھ اپنے تعلقات کو کسی موڑ تک پہنچانے کی کوشش کرتا۔ نایاب پہلے دن سے اس سے محبت کا اظہار کر رہی تھی۔ مگر یہ صرف ثمر تھا جو مسلسل اس کوشش میں تھاکہ وہ کم ازکم اپنی جانب سے ایسا کوئی تاثر نہ دے جس سے نایاب کو یہ محسوس ہو کہ وہ بھی اس میں دلچسپی لے رہا تھا۔ مگر اس کی ایسی ہر کوشش نایاب نے بہت بری طرح ناکام کی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے اس بات میں بھی زیادہ دلچسپی نہیں تھی کہ ثمر کی طرف سے جواباََ کسی مثبت رد عمل کا اظہار ہو رہا تھا یا نہیں ۔ نایاب کمال پہلی نظر میں اس پر فریفتہ ہوئی تھی اور یہ صرف اس کے لیے پہلی نظر کی محبت نہیں تھی وہ اس وقت یہ بھی طے کر چکی تھی کہ اسے ثمر سے شادی کرنا تھی۔
اپنی پسندیدہ چیز کو ہر قیمت پر حاصل کرلینے کی عادت اس کو ماں اور باپ دونوں سے وراثت میں ملی تھی۔ اور ماں اور باپ کی طرح اسے چیزوںاور انسانوں میں کوئی زیادہ فر ق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ وہ ہارون کمال کے برعکس خود غرض نہیں تھی ۔ اس کی کچھ صفات ایسی تھیں جو ہارون اور شائستہ دونوں کو وقتاََ فوقتاََ ناراض کرتی رہتی تھیں ۔ وہ خود سر بھی تھی اور ہٹ دھرم بھی مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ امیر اور غریب کی اس روایتی طبقاتی تفریق پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ جو اس نے ہمیشہ اپنے ارد گرد موجود پائی تھی۔
کور ٹ میرج کا خیال ثمر کے سامنے پہلی بار کچھ عرصہ پہلے اس نے پیش کیا تھا۔ اور تب ثمر اس کی بات پر بے حد سٹپٹایا تھا بلکہ ناراض بھی ہوا تھا۔ شائستہ نے پہلی بار جب نایاب سے شہیر کے بارے میں بات کی تھی تو ثمر اور ثانی کا ذکر بڑی تحقیر کے ساتھ کیا تھا اور بڑی حقارت سے ان کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں بھی بتایا تھا۔ اس نے نایاب پر یہ بات بالکل واضح کر دی تھی کہ نایاب اور ہارون کسی بھی قیمت پر ثمر کے ساتھ اس کی شادی پر تیار نہیں ہوں گے ۔اس سے پہلے ان کے پاس ثمر کی غربت اور کلاس کا مسئلہ اٹھتا ۔ مگر اب ان کے پاس اتنی بڑی وجہ آگئی تھی ۔ کہ نایاب کو یہ خیال بھی محال لگتا وہ کسی طرح انہیں ثمر کے ساتھ اپنی شادی کے لیے تیار کر سکتی تھی اور یہ ساری وجوہات تھیں جنہوں نے اسے ثمر سے کورٹ میرج کا تذکرہ کرنے پر مجبور کیا۔ مگر ثمر کے شدید ردِعمل نے اسے وقتی طور پر خاموش کر دیا۔
شہیر کے گھر سے چلے جانے پر جب وہ پہلی بار ثمر کے بلانے پر اس سے ملی تو ثمر کی بات پر وہ دنگ رہ گئی تھی۔ اب وہ کورٹ میرج کی بات کر رہا تھا۔ ثمر کا خیال تھا، نایاب اس سے وجہ پوچھے گی مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس نے ایک لفظ کہے بغیراس کا پر پوزل قبول کیا تھا۔
دونوں نے یہ طے کیا تھا کہ کچھ عرصہ تک اس کورٹ میرج کو وہ دونوں خفیہ رکھیں گے اس کے بعد دونوں اپنی اپنی فیملیز کو ایک دوسرے سے شادی کے لیے مجبور کریں گے اور نہ ماننے پر وہ اپنی کورٹ میرج کے بارے میں انہیں بتادیں گے۔ مگر نایاب کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ثمر اس سے بہت پہلے ہی اپنی فیملی کو اس بارے میں آگاہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
شہیر والے واقعہ کے باوجود نایاب کو ثمر کے بارے میں کوئی خدشات نہیں تھے۔ اسے یقین تھا کہ یہ صرف اس کی محبت تھی جس کی وجہ سے ثمر اس سے اس طرح کورٹ میرج کررہا تھا اور اس کے لیے اتنا کافی تھا۔دوسری طرف ثمر نے نایاب کے ساتھ کورٹ میرج کا اتنا بڑا قدم اٹھا نے سے پہلے ہر طرح کے نتائج پر غور کیا تھا۔ بلاشبہ وہ نایاب کو ضرورت سے زیادہ پسندکرنے لگا تھا اور بلاشبہ اس کے لیے نایاب سے قطع تعلق کرنا ایک بے حد دشوار کام تھا مگر بہر حال وہ اس کی محبت میں اندھا ہو کر یہ قدم نہیں اٹھا رہا تھا۔
وہ نایاب سے شادی بہت سی دوسری وجوہات کی بنا پر کر رہا تھا اور ان میں سب سے بڑی وجہ شہیر ثوبان سمیع ہی تھا۔ وہ ہر قیمت پر اس رشتہ کو جوڑنا چاہتا تھا جو شائستہ کے ایک انکشاف نے توڑ دیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ ایک بھیدی کے بغیر وہ یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ نایاب کی صورت میں اسے وہ بھیدی مل گیا تھا۔
٭٭٭
شہیر کو شائستہ کے گھر آئے ہفتہ ہو گیا تھا اور وہ ان دنوں میں گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ شائستہ نے اگر چہ اس کی آمد کے پہلے ہی دن اسے اگلے دن سے ہارون کی فیکٹری جو ائن کرنے کی دعوت دی تھی مگر اگلے دن گھر کے ماحول میں ہونے والے تناؤ نے شہیر کو بے حد پریشان کر دیا تھا۔ شائستہ نے بھی دوبارہ اسے فیکٹری جوائن کرنے کے لیے نہیں کہا تھا اور خود شہیر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ شائستہ سے یہ کیسے کہے کہ وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے یوں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر وہ کتنے دن رہ سکتا ہے۔ شائستہ نے اس کے پرانے آفس خود ہی اس کا استعفٰی بھجوا دیا تھا اور اسے اس کے بارے میں بتا دیا تھا۔ مگر وہ اس تمام صورت حال سے مطمئن نہیں تھا۔
فاطمہ ، شہیر یا ثانی تینوں میں سے کسی نے اس کے یہاں آنے کے بعد اس سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور شہیر ابتدائی غصے اور شاک سے نکلنے کے بعد اب بری طرح ہوم سک نیس کا شکار تھا وہ شائستہ کے ساتھ یہاں آتو گیا تھا مگر پچھلے کچھ دنوں سے وہ مسلسل فاطمہ اور اپنے گھر کے بارے میں سوچنے میں مصروف تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ان تینوں نے آسانی سے اسے یوں جانے دیا تھا، اسے اپنی زندگی سے نکال دیا تھا۔ ایک خیال آنے پر وہ ان سے برگشتہ ہوتا۔ دوسرا خیال آنے پر وہ ایک بار پھر ان کے لیے بے چین ہو جاتا۔
وہ اپنے سگے رشتوں کے لیے یہاں آیا تھا مگر اتنے دنوں میں شائستہ کے علاوہ کسی اور نے اس سے اچھے طریقے سے بات نہیں کی تھی۔ ہارون بے حدسرد تھا جبکہ اسد اور نایاب اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے تھے ۔ اسے نوکروں تک کا رویہ عجیب محسوس ہو رہا تھا۔
اس نے صرف ایک دن سب کے ساتھ ٹیبل پر شائستہ کی ضد اور اصرار پر کھانا کھانے کی کوشش کی تھی اور وہ اپنی اس کوشش پر بری طرح پچھتایا تھا۔ ٹیبل پر موجود کسی نے اچھی طرح کھانا نہیں کھایا تھا اور ایک ایک کر کے سب وقفے وقفے سے اٹھ گئے تھے۔ اگر چہ شائستہ نے اپنے رویے اور انداز سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ سب نارمل بات تھی مگر شہیر کو یہ نارمل محسوس نہیں ہوا تھا۔اس نے دوبارہ کبھی ٹیبل پر آنے کی زحمت نہیں کی اپنے کمرے میں ہی کھانا اور ناشتہ منگواتا رہا ۔ تمام دن وہ بے مقصد اپنے کمرے میں بیٹھا اپنے گھر کے بارے میں سوچتا رہتا ۔ وہ زندگی میں پہلی بار فاطمہ سے اتنے دن جدا رہا تھا اور مرد ہونے کے باوجود اسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ بے تحاشا یاد آئی ۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے اور اپنے گھر کو کس طرح چٹکی بجاتے میں اپنے ذہن سے نکال دے۔
شائستہ اپنے گھر لانے کے اگلے ہی دن اسے شاپنگ کے لیے مارکیٹ لے کر گئی تھی۔ چند گھنٹوں میں اس نے شہیر کو برانڈڈ چیزوں کی شاپنگ کرواتے ہوئے دو تین لاکھ خرچ کردیے تھے شہیر اپنے دل میں اس کے لیے تشکر کے جذبات پا رہا تھا مگر محبت ؟وہ ایک بار پھر شائستہ کے لیے محبت جیسا کوئی جذبہ محسوس کرنے میں بری طرح ناکام رہا تھا۔ شائستہ چاہتی تھی وہ اسے نایاب اور اسد کی طرح ممی کہنا شروع کر دے شہیر کی حتی الامکان کوشش ہوتی تھی کہ وہ شائستہ کو کم سے کم مخاطب کرے تاکہ ایسی نوبت ہی نہ آئے اور وہ اگر اسے مخاطب کرتا بھی تو ممی کہے بغیر آپ کہہ کر۔ شائستہ اس چیز کو بری طرح محسوس کرتی تھی لیکن وہ ہر بار خود کو یہ سوچ کر مطمئن کر لیتی کہ ابھی ابتدائی دن ہیں کچھ وقت لگے گا پھر وہ وہاں ایڈجسٹ ہو جائیگا۔ آخر کتنے دن وہ آپ جناب کا یہ رشتہ چلا سکتا تھا۔ مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہاں ایڈجسٹ ہونے کے بجائے شہیر روز بہ روز وہاں کی زندگی سے اوب رہا تھا۔وہ اپنا گھر چھوڑنے کے اپنے فیصلے پر بری طرح پچھتا رہا تھا۔ شائستہ اور ہارون کمال کی دنیا اور دنیا تھی۔ شہیر ثوبان سمیع اس میں مس فٹ تھا۔ وہ رشتوں کو آسائشوں کے ساتھ تبدیل کرنے کی خواہش رکھتا تھا نہ ہنر اور یہ اسے شائستہ کے پاس آکر احساس ہوا تھا۔
اس نے ساری عمر اس گھر میں پرورش پائی تھی جہاں ناشتے کی میز پر انتخاب نہیں کیا جاتا تھا جو بھی موجود ہوتا کھا لیا جاتا۔ وہ اس گھر میں آگیا تھا جہاں ناشتے کی ٹیبل پر موجود آدھی سے زیادہ چیزوں کے ناموں سے وہ لا علم تھا اور باقی کو پہچاننا اس کے لیے مشکل تھا۔
وہ اس گھر سے آیا تھا جہاں کھانا ایک ضرورت تھا۔ شائستہ کے گھر میں کھانا ایک تکلف تھا۔ اپنی وارڈروب میں لٹکے شائستہ کے خریدے ہوئے برانڈڈ کپڑوں اور جوتوں کے درمیان موجود فاطمہ کے خریدے گئے چند معمولی کپڑے بھی لٹک رہے تھے اور یہ شہیر ثوبان کی بد قسمتی تھی یا پھر اس کی کمزوری کہ وہ ہر بار وارڈ روب کھول کر انہیں کپڑوں میں سے کوئی ایک پہن لیتا۔ اس کی نظر شائستہ کے خریدے ہوئے کپڑوں پر نہیں جاتی تھی۔
شہیر ثوبان سمیع عذاب میں گرفتار تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!