تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

”میں نمبر ملاتی ہوں، آپ بات کریں ۔”اس نے صبغہ سے کہا۔
صبغہ کو لگا جیسے اسے ایک بار پھر سے پہاڑ پر ننگے پاؤں چڑھنا ہے۔
ثانی نے نمبر ملا کر فون صبغہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ وہ کان سے موبائل لگائے، دوسری طرف ہونے والی بیل کی آواز سنتی رہی۔ پھر کال ریسیو کی گئی تھی۔ وہ روشان کی ہیلو کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکی۔ اس کی آواز ایک دم رندھ گئی تھی۔ یا پھر حلق میں پھنس گئی تھی۔
”ہیلو…!”روشان نے پھر کہا۔
”روشان !میں صبغہ بول رہی ہوں ۔”صبغہ نے بمشکل کہا۔
دوسری طرف یک دم خاموشی چھا گئی ۔ صبغہ کو لگا وہ فون بند کر دے گا ۔ اس نے فون بند نہیں کیا ۔ مگر وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر اس نے کہا۔
”صبغہ …؟”اس کی آواز میں جیسے بے یقینی تھی۔
”ہاں …”دوسری طرف ایک بار پھر خاموشی رہی۔ اس بار صبغہ نے انتظار نہیںکیا۔ ”تم کل لاہور آسکتے ہو؟”
اس کا خیال تھا دوسری طرف سے کچھ سوال ہوں گے پھر بہانے ہوں گے، پھر انکار ہو گا ۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
”ہاں ، میں آجاؤں گا۔ ”صبغہ کو جیسے ایک جھٹکا لگا۔
”تم ایڈریس لکھواؤ ۔”صبغہ نے اٹکتے ہوئے ایڈرریس لکھوایا۔
”ممی کیسی ہیں ؟”روشان نے اگلا سوال کیا۔
”وہ ٹھیک ہیں”
”زارا اور رابعہ؟”
”وہ بھی ۔”
”اور امبر ؟”
”وہ بھی ۔”صبغہ نے اپنے آنسوؤں پر قابو باتے ہوئے کہا۔
”اور تم ؟”وہ اب کچھ مدھم آواز میں پوچھ رہا تھا۔




”میں بھی ۔ ”وہ فون پر رونا نہیں چاہتی تھی۔ دوسری طرف ایک بار پھر خاموشی تھی۔ یوںلگ رہا تھا جیسے وہ بھی لفظ ڈھونڈنے کے لیے جدو جہد کر رہاہے۔
”تم کیسے ہو؟”بالآخر صبغہ نے کہا۔
”میں ٹھیک ہوں ۔”اس نے کہا ۔ ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔
”تم کل آجاؤ پھر بات کریں گے۔”
صبغہ نے کہا اور فون بند کر دیا ۔ اسے یاد نہیں تھا زندگی میں کبھی روشان سے بات کرنے کے لیے اسے سوچنا یا لفظ تلاش کرنے پڑے ہوں جیسا آج کرنے پڑ رہے تھے، اس نے ثانی کی طرف فون بڑھا دیا۔
٭٭٭
”یہ نہیں ہو سکتا ۔ ” شائستہ بلبلا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ ”نایاب اتنا بڑا قدم مجھ سے پوچھے بغیر نہیں اٹھا سکتی۔ ”
”وہ یہ قدم اٹھا چکی ہے۔”زرقا نے اسی انداز میں جواب دیا۔ ”لیکن ابھی بات صرف پیپر میرج تک ہی ہے۔
آپ یہ ختم کر واسکتی ہیں ۔ نایاب کو ثمر سے اس کا رشتہ بتا دیں ۔”زرقا نے سنجیدگی سے کہا۔
”یہ آسان نہیں ہے۔ میں کس طرح…”شائستہ اپنا سر پکڑے ہوئے تھی۔ ”مگر مجھے نایاب سے بات کرنا ہے۔ بلکہ ابھی کرنا چاہیے اسی وقت مگر اس سے پہلے مجھے ہارون سے بات کرنا چاہیے۔ ”
شائستہ کا دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔ وہ یہ بھول گئی تھی کہ زرقا وہاں موجود ہے۔ زرقا سگریٹ ایش ٹرے میں پھینکتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر ایک لمحہ کا توقف کر کے شائستہ سے کچھ کہے بغیر ڈرائنگ روم سے باہر چلی گئی۔
شائستہ نے اس کو روکا نہیں ۔ وہ اپنے موبائل پر نایاب کا نمبر ڈائل کرنے میں مصروف تھی۔ نایاب کی آواز سنتے ہی اس نے کہا۔
”تم کہاں ہو؟”
”کیا ہوا ممی؟”نایاب نے کچھ حیران ہو کر پوچھا۔
”میرے سوال کا جواب کا دو۔”شائستہ نے ترشی سے کہا۔
”میں کالج میں ہوں۔”
”ثمر کے ساتھ؟”شائستہ ننے بے ساختہ پوچھا۔
”ثمر کے ساتھ؟”
نایاب کی خاموشی پر شائستہ اس بار جیسے حلق کے بل چلائی۔
”نہیں ۔ممی!”نایاب نے بے اختیار کہا۔ ”میں اس کے ساتھ نہیں ہوں ۔ آپ کو کیا ہو گیاہے۔ ؟”
”میرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ ”تم چند منٹوں میں فوراََ گھر آؤ۔”
”کیوں کیا ہوا ہے؟”
”یہ میں تمہیں گھر پہنچنے پر بتاؤں گی۔ اس وقت میںتم سے صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ تم گھر آؤ…ابھی اور اسی وقت، ہارون اور میں تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔”
دوسری طرف خاموشی رہی پھر نایاب نے کہا۔ ”کیا بات ؟”اس کا اندر بے حد محتاط تھا۔
”میں تم سے کہہ رہی ہوں کہ تم گھر آؤ۔ ابھی اور اسی وقت اور تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ مجھے تم سے کیا بات کرنی ہے۔”شائستہ اس بار کسی جانور کی طرح دھاڑی تھی۔ ”تمہیں بیس منٹ کے اندر اندر گھر میں ہونا چاہیے۔”
دوسری طرف سے نایاب نے فون بند کر دیا۔
شائستہ نے اگلا فون ہارون کو کیا۔ ہارون کا موبائل آف تھا۔ اس نے اسد کو فون کیا۔ اسد کا موبائل بھی آف تھا، شائستہ نے اس بار ان کے آفس فون کیا۔
”ہارون صاحب ایک اہم میٹنگ میں ہیں۔اور…”اس کی سیکریٹری نے کہنا شروع کیا۔ شائستہ نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔ ”وہ چاہے جیسی بھی میٹنگ میں ہوں ، ابھی اور اسی وقت ان سے کہو کہ وہ مجھ سے بات کریں ۔”
شائستہ نے بے حد تحکمانہ انداز میں اس سے کہا۔ دوسری طرف چند لمحوں کی ہچکچاہٹ کے بعد سیکریٹری نے کہا۔
”آپ ہولڈ کریں ۔ میں سر سے بات کرتی ہوں۔”
چند منٹوں بعد شائستہ کو ہارون کی آواز آئی۔ وہ بے حد جھنجھلا یا ہوا تھا۔ ”میں تم سے بعد میں بات کروں گا اس وقت…”
شائستہ نے غراتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔ ”تم اپنی بکواس بندکر و اور میری بات سنو۔سب کچھ چھوڑ کر آدھ گھنٹہ کے اندر اندر گھر پہنچو۔ کیونکہ تمہاری بیٹی کورٹ میرج کر چکی ہے اور کس کے ساتھ …میں تمہیں گھر آنے کے بعد بتاؤں گی۔”
”واٹ …؟”دوسری طرف سے ہارون جیسے چلا اٹھا ۔
”شٹ اپ…”شائستہ نے تیزی سے کہا۔ اور سیل فون آف کردیا۔ ہارون اس وقت اس کے سامنے ہوتا تو وہ یقیناََ اس کا خون پی جاتی۔
٭٭٭
ثمر اور ثانی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی فاطمہ کے ساتھ اپنے گھر واپس آئے تھے۔
”مجھے یقین نہیں آرہا کہ کوئی باپ اپنی اولاد اور بیوی کے ساتھ یہ سب کر سکتا ہے؟”ثانی نے جھر جھر ی لیتے ہوئے کہا۔
”وہ اس کی سابقہ بیوی ہے۔ ”ثمر نے لقمہ دیا۔
”پھر بھی قتل کی کوشش کرنا مجھے یقین نہیں آرہا۔”
”یقین کر لو ثانی ثمر نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ”ہماری زندگی میں صرف ناقابل یقین چیزیں ہی ہیں حتیٰ کہ ہمارا اپنا وجود بھی ناقابل یقین ہے۔ کم از کم ہمیں تو یہ سب کچھ ناقابل یقین نہیں لگنا چاہیے۔ اگر کوئی انسان اپنی اولاد کو جیتے جی کوڑے میں پھینک سکتا ہے تو سابقہ بیوی کو مارنے کی کوشش تو بہت معمولی بات ہے۔ ”
ثمر کی آواز میں تلخی تھی۔
”بس کرو ثمر !کافی ہے۔”ثانی نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا وہ دوبارہ ان تکلیف دہ حقیقتوں کو سننا نہیں چاہتی تھی۔
”چند گھنٹے پہلے تک میں سمجھتی تھی جیسے میں بھیانک خواب میں سے گزر رہی ہوں۔ بے حد بھیانک خواب سے …..لیکن اب صبغہ کے گھر والوں کی حالت دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے۔ زندگی میں ہر انسان بھیانک خواب میں سے گزر رہا ہے۔ کچھ کے لیے یہ خواب طویل ہوتا ہے۔ کچھ کے لیے مختصر مگر ایسے نہیں ہوتا کہ کوئی بھی کسی تکلیف اور اذیت کا سامنا کیے بغیر دنیا سے چلا جائے۔”
”فلاسفی مت جھاڑو ثانی۔ ”ثمر نے تلخی سے اس کی بات کاٹی ۔
”اس وقت میں تمہارے لیکچر ہضم نہیں کر سکتا۔ ”
”نہیں جھاڑتی تم یہ بتاؤ کہ منصور علی کا اب کیا ہو گا؟”ثانی نے بات کا موضوع بدل دیا۔
”پتہ نہیں فی الحال تو وہ پولیس اسٹیشن میں ہے۔ محلے والوں نے اس پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج کروائی ہے۔ پولیس کچھ دیر میں صبغہ اور اس کی ممی کا بیان لینے بھی آئے گی…اس کے بعد کیا ہونا ہے۔ میں نہیں جانتا۔”ثمرنے کندھے اچکا کر
کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا بیرونی دروازے پر دستک ہوئی”میں دیکھتا ہوں۔”ثمر اٹھ کر باہر چلا آیا۔ مگر بیرونی دروازہ کھولتے ہی وہ ہکا بکا رہ گیا تھا وہا ں نایاب کھڑی تھی۔
”تم یہاں ؟”
”ثمر !میں تمہیں لینے آئی ہوں ۔تمہیں میرے ساتھ چلنا ہے۔”نایاب نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
”کیوں ؟کیا ہوا؟”ثمر یک دم پریشان ہوگیا۔
”مجھے لگتا ہے ممی اور پاپا کو ہماری کورٹ میرج کے بارے میں پتہ چل گیا ہے۔ ”نایاب نے کہا۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟”اس بار ثمر بھی چونک گیا۔
”یہ تو ابھی مجھے نہیں معلوم مگر کچھ نہ کچھ ہوا ضرور ہے اور اگر انہیں پتہ ہے تو میں چاہتی ہوں کہ تمہیں ان کے سامنے لے جاؤں ۔ اگر اس بات پر بہت جھگڑا ہوا تو پھر میں گھر چھوڑ کر تمہارے ساتھ آجاؤں گی۔”ثمر نے پہلی بار نایاب کو اتنا سیریس دیکھا تھا۔
”اور اگر انہیں پتہ نہ چلا ہو تو؟”
”مجھے یقین ہے انہیں پتہ چل گیا ہے۔ ”نایاب نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ”میں ممی کی ٹون پہچان سکتی ہوں ۔ کوئی بڑا مسئلہ ہوا ہے اور فی الحال تمہاری اور میری کورٹ میرج سے بڑا مسئلہ اور کوئی نہیںہو سکتا۔”
”نایاب اگر تمہیں میرے ساتھ آنا پڑا تو کیا تم اس گھر میں رہ سکتی ہو…؟کیونکہ میں فی الحال تمہیں کہیں اور نہیں رکھ سکتا۔”
”میں تمہارے ساتھ جہنم میں بھی رہ سکتی ہوں۔ یہ تو پھر گھر ہے۔ اب آجاؤ۔ ”نایاب نے بڑی عجلت کے عالم میں اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا۔
”مجھے امی کو بتانے دو ….اور ثانی بھی کراچی سے آئی ہوئی ہے۔ تم ملو گی؟”ثمر کو ایک دم یاد آیا ۔ اس نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے کہا۔
”ابھی نہیں بعدمیں ، بس تم ایک منٹ میں آنٹی کو بتا کر آؤ ۔”نایاب نے اس کا بازو چھوڑنے ہوئے کہا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!