تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

”لاش ہے جی۔”اس سے پہلے کہ کانسٹیبل کچھ کہتا، اسی آدمی نے کہا جو بیگ وہاں لایا تھا۔
”کس کی لاش ہے؟”ایس ایس پی نے سنجیدگی سے کہا۔
”پتا نہیں جی۔ میں نے کھول کر نہیں دیکھا۔ مجھے تو نہر سے بیگ ملا ہے مگر اس میں سے بدبو بہت آرہی تھی تو میں اندر لے آیا۔”اس آدمی نے کہا۔
”تم نے کھولا اسے ؟”ایس ایس پی نے دوبارہ فضل دین سے پوچھا۔
”سر جی…میں بس کھولنے والا تھا۔”اس نے لپک کر کہا بیگ کے پاس آتے ہوئے کہا۔
”کھولو اسے ۔”ایس ایس پی نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ فضل دین نے سانس روک کر بیگ کی زپ کھول دی اور بیگ کا منہ کھول دیا۔ ایس ایس پی اور اے ایس پی نے آگے بڑھتے ہوئے اپنا سانس روکا اور کھلے ہوئے بیگ سے اندر نظر آنے والا منظر دیکھا۔
”زیادہ پرانی لاش نہیں ہے۔”ایس ایس پی نے اے ایس پی سے کہا۔
”یس سر ۔”اس نے مودبانہ انداز میں تائیدکی
”یہ ٹیگ اتارو۔”ایس ایس پی کی نظریں فوراََ اس ٹیگ پر پہنچ گئی تھیں۔ اس بار اے ایس پی نے آگے بڑھ کر وہ ٹیگ اتار لیا۔
”زپ بند کر دو۔”بدبو واقعی اب اتنی شدید ہو گئی تھی کہ ایس ایس پی کو زپ بند کرنے کے لیے کہنا پڑا ۔ اے ایس پی نے فضل دین کا انتظار کرنے کے بجائے خود یہ کام کیا۔
ایس ایس پی نے اس کے سیدھا ہونے پر وہ ٹیگ اس کے ہاتھ سے لے لیا تھا۔ چند لمحوں تک وہ اس کا جائزہ لیتا رہا پھر اس نے کہا۔
”بیگ کو خریدے بھی زیادہ دن نہیں ہوئے ۔ یہ ڈفل بیگ ہے بہت زیادہ لوگ اس طرح کے بیگ نہیں خریدتے اور پھر یہ اسٹور بہت مہنگا ہے۔ نام لکھا ہوا ہے اس ٹیگ پر۔ بار کوڈ بھی ہے، تم اس اسٹور کو چیک کرو۔
اس کا بل کمپیوٹر سے نکلا ہو گا۔ پتہ چل جائے گا کہ کب خریدا گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خریدار کے بارے میں بھی پتہ چل جائے ۔مجھے پتہ کر کے بتاؤ۔”ایس ایس پی نے اے ایس پی کو تیزی سے ہدایات دیں ۔
”لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجواؤ۔ ”وہ کہتا ہوا آگے اس لڑکی تک پہنچ گیا۔
”کیا ہوا ہے اس لڑکی کو ؟”اس نے بلند آواز میں اس لڑکی کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
”جی اس نے نہر میں چھلانگ لگا ئی تھی، ہم نے بچا لیا اسے ۔”ساتھ آئے ہوئے ایک آدمی نے مستعدی سے کہا۔
”خودکشی کا کیس ہے، کیوں بی بی !کیا مسئلہ ہے؟ کیا نام ہے تمہارا ؟”ایس ایس پی نے بے حد سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔ ”
لڑکی کچھ دیر کرا ہتی رہی پھر اس نے بمشکل کہا۔
”امبر !”




”کسی کو پتہ ہے اس کے بارے میں ؟”ایس پی نے ان لوگوں سے پوچھا۔
”نہیں جی، پتہ ہوتا تو گھر پہنچاتے، یہاں کیوں لاتے ۔”ایک آدمی نے کہا۔
”اس کو گاڑی میں بٹھاؤ…ہم ہاسپٹل لے جاتے ہیں اس کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی۔”
ایس ایس پی نے پلٹ کر اپنی گاڑی کی طرف جاتے ہوئے اے ایس پی سے کہا۔
٭٭٭
وہ شائستہ کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہو رہا تھا، اور اس کا دل چاہ رہا تھا وہ بے اختیار پلٹ کر وہاں سے بھاگ جائے۔اسے وہ محل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ شاید اس لیے کیونکہ اسے محلوں میں رہنے کی عادت نہیں تھی۔
ہارون کمال سے اس کا سامنا لاؤنج میں ہی ہو گیا تھا۔ شہیر سے ملتے وقت اس کے انداز میں گرم جوشی مفقود تھی۔ شہیر نے اس بات کو بری طرح محسوس کیا۔ ہارون کے بارے میں جو کچھ وہ صبغہ سے سن چکا تھا، اس کے بعد وہ خود بھی ہارون کے بارے میں بہت سے تحفظات کا شکار تھا۔ اس کے باوجود وہ یہ ضرور سمجھتا تھا کہ شائستہ کی طرح ہارون بھی اس سے بہت نہیں تو تھوڑا بہت گرم جوشی کے ساتھ ضرور ملے گا۔ ایسا نہیں ہوا تھا۔
مصافحہ کرنے کے بعد چند لمحوں تک وہا ں کھڑے تینوں افراد کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک دوسرے سے کیا بات کی جائے ۔ پھر شائستہ نے بیل بجائی۔ اس نے ملازم کو آواز دی اور اسے شہیر کاسامان گاڑی سے نکال کر کمرے میںلے جانے کے لیے کہا۔ ملازم وہاں سے چلا گیا۔
”میں نے شہیر سے کہا ہے کہ وہ کل سے تمہارے ساتھ فیکٹری جایا کرے ۔”
شائستہ نے اگلا جملہ ہارون سے کہا۔ وہ اس طرح بات کر رہی تھی جیسے وہ شہیر کو پہلی بار اس گھر میں نہیں لائی تھی بلکہ وہ تعلیم مکمل کر کے اس کے پاس آیا تھا۔
”بہتر تھا، شہیر کمرہ دیکھ لیتا۔ ”ہارون نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے موضوع بدلا ۔ وہ بے حد کوشش کے باوجود اپنے لہجے کی سرد مہری کو کم نہیں کر پا رہا تھا۔
شائستہ نے بڑے غور سے ہارون کے چہرے کو دیکھا۔ اسے وہ اپ سیٹ لگا۔ شائستہ نے لاؤنج سے گزرتے ہوئے ملازم سے کہا۔
”شہیر صاحب کو کمرے میں لے جاؤ اور ان کے لیے ناشتہ لگاؤ۔”شائستہ نے ملازم سے کہا۔
”نہیں ناشتے کی ضرورت …”شائستہ نے شہیر کی بات کاٹ دی۔
ضرورت ہے… تم ناشتہ کر رہے تھے جب میں تمہیں وہاں سے لے آئی ہوں ۔”شہیر خاموش ہو گیا۔
ناشتہ کر لو پھر ملتے ہیں ۔”شہیر خاموشی سے ملازم کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔اس سے پہلے کہ وہ لاؤنج سے نکل جاتا، اس نے اپنے عقب میں ہارون کو شائستہ سے کہتے سنا۔
”اسد واپس آگیا ہے۔”
٭٭٭
اے ایس پی نے مطلوبہ کام اسی رات کر لیا تھا۔ اب یہ اس کی عزت کا معاملہ بن گیا تھا۔ تین تھانوں کے اتنے مایوس کن دورے کے بعد ضروری ہو گیا تھا کہ وہ خود کسی نہ کسی طرح تھوڑی بہت کا رکردگی ظاہر کرتا۔
اس لیے وہ لاش اور لڑکی کو ہاسپٹل پہنچاتے ہی وہ بیگ اور کارڈلے کر اس اسٹور پر پہنچ گیا تھا۔ اسے یہ توقع تھی کہ بیگ کب وہاں سے خریداگیا۔ اس تاریخ کا اس کو پتہ چل جائے گا اور وہ کوشش کرے گا کہ خریدار کے حلیے کے بارے میں دکاندار سے کچھ معلومات لینے کی کوشش کرے مگر وہاں جو کچھ ہوا تھا۔ وہ اس کے لیے غیر متوقع تھا، کاؤنٹر پر بیٹھے آدمی نے ایک نظر میں ہی اس بیگ کو پہچان لیا۔ وہ وہیں سے فروخت کیا گیا تھا۔ اپنے کمپیوٹر پر اس کی خریداری کو چیک کرتے ہوئے اس نے بتایا۔
”یہ پندرہ تاریخ کو رات گیارہ بجے خریدا گیا اور بل کریڈٹ کارڈ کے ذریعے پے کیا گیا۔ ”اے ایس پی کا دل بلیوںاچھلا اس کا مطلب تھا وہ اس بیگ کو خریدنے والے کا نام جان سکتا تھا نہ صرف نام بلکہ کریڈٹ کارڈ کے نمبر کے ذریعے اس کا ایڈریس تک، اسے یہ کیس اپنے بائیں ہاتھ میں لگا۔
”بیگ ہارون کمال نامی آدمی نے خریدا ہے۔”کمپیوٹر پر بیٹھے آدمی نے اے ایس پی کو بتایا۔
٭٭٭
”اسد واپس آگیا ہے۔”
شائستہ کا جسم تن گیا مگر فوری طور پر کوئی ردِعمل ظاہر کیے بغیروہ خاموشی سے ملازم کے ہمراہ شہیر کو لاؤنج سے باہر نکلتے دیکھتی رہی اور جیسے ہی شہیر اس کی نظروں سے اوجھل ہوا ۔ اس نے پلٹ کر سرد نظروں سے ہارون کو دیکھا ۔
”اس کو کس نے بلایا ہے؟”
”ظاہر ہے میں تو دعوت دے کر نہیں بلاسکتا ۔”ہارون نے قدرے ناراضی سے کہا۔
”اور بیٹھے بیٹھی اس پر وحی تو نازل نہیں ہوئی ہوگی کہ اسے اس وقت واپس پاکستان جانا چاہیے۔”شائستہ نے بھی اسی لہجے میں کہا۔
”اسے نایاب نے بلوایا ہے۔ ”ہارون نے بحث کو ختم کر کے جان چھڑانے والے انداز میںکہا۔
”مجھے پہلے ہی اندازہ تھا۔ ”شائستہ نے تیز لہجے میں کہا ۔”ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ تمہاری بیٹی آسانی سے میری بات مان جائے۔”
”اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا یہی کرتا۔”ہارون نے کہا۔
”اپنی بیٹی کی طرف داری تم نہیں کروگے تو اور کون کرے گا۔”شائستہ نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا ۔
”یہ تمہاری اور میری کیا ہے۔ وہ ہماری بیٹی ہے…”ہارون کو اس کے لب ولہجے پر اعتراض ہوا۔
”اگر وہ ہماری بیٹی ہے تو جسے آج میں گھر لے کر آئی ہوں ، وہ بھی ”ہمارا ”بیٹا ہے۔”شائستہ نے اس کی بات کاٹی ۔
”اس وقت تم صرف یہ سوچوکہ تمہیں اسد سے کیا کہنا ہے۔”ہارون نے اس کو یاددلایا۔
”وہ تم سے بات کرنا چاہتا تھا مگر میں نے اسے …”شائستہ نے بے حد ناراضی سے پھر اس کی بات کاٹ دی۔
”مجھے پروا نہیں کسی کی، چاہے وہ اسد ہو یا نایا ب اور مجھے کسی سے کچھ نہیں لینا ۔میں اس معاملے پر کسی کو وضاحتیں نہیں دوں گی۔ ”
”آپ وضاحتیں دینا نہیں چاہتیں ، میں وضاحتیں لینا بھی نہیں چاہتا۔”اسد کس وقت لاؤنج میں داخل ہوا ، ان دونوں میں سے کسی کو اس کا احساس نہیںہو سکا تھا۔
”میں صرف اس تماشے کو ختم کرنا چاہتا ہوں جو آپ دونوں نے مل کر شروع کیاہے۔”وہ ان دونوں کے مقابل آکر کھڑا ہو گیا۔ شائستہ اور ہارون نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر نظریں چرالیں۔
”میں کسی صورت یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جسے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ اس گھر میں لے کر آئی ہیں اس کے ساتھ میرا کوئی خونی رشتہ ہو سکتا ہے۔” اس نے بے دھڑک کہا۔
”تمہارے نہ ماننے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی ۔ ”شائستہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!