تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

”ٹھیک ہے اندر بھیجو ۔”ہارون نے کہا اور ریسیور رکھ دیا ۔ اس کے ماتھے پر چند بل آگئے تھے۔
”اب اے ایس پی آیا ہے جو کسی سلسلے میںمجھ سے ملنا چاہتا ہے اور مجھے یقین ہے، وہ بھی امبر کے بارے میں ہی مجھ سے بات کرنے آیا ہے۔ منصور اور اس کی فیملی واقعی پاگل ہوگئی ہے کہ مجھے اس سارے معاملے میں انوالو کر رہے ہیں ۔ ”
اسد نے اس کی بات کے جواب میںکچھ نہیں کہا مگر وہ یک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔
”آپ کا مطلب ہے کہ یہ پولیس امبر کے بارے میں آپ سے بات کرنے آئی ہے؟”اسد نے بے یقینی سے کہا۔
”اب یہ ان کے اندر آنے پر ہی پتا چلے گا۔ ”
ہارون کمال نے قدرے تشویش کے عالم میں کہا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، دروازہ کھول کر ایک اے ایس پی اندر داخل ہوا ۔ ہاون اور اسد نے کھڑے ہو کر اس سے مصافحہ کیا اور اپنا تعارف کروایا، وہ بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
”آپ کیا لیں گے، چائے یا کافی ؟”ہارون نے اس کے بیٹھتے ہی پوچھا۔
”کچھ نہیں ، میں صرف ایک قتل کے کیس میں کچھ تحقیق کرنے آیا ہوں۔ ”اے ایس پی نے ایک لفافہ کھولتے ہوئے کہا۔ اسد نے ہارون کے چہرے کو فق ہوتے دیکھا ، وہ سمجھا نہیں کہ وہ اس جملے پر اس طرح کیوں پریشان ہوا ہے۔
اے ایس پی نے چند تصویریں نکال کر ہارون کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیں ۔اسد نے ایک تصویر اٹھائی اور پھر اس کے منہ سے نکلا ”امبر۔”
اے ایس پی نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔ کم از کم اب اس لاش کی شناخت مسئلہ نہیں رہی تھی۔
ہارون کمال کو اپنا پورا وجود پسینے میں بھیگتا ہوا محسوس ہوا ۔ وہ ایک نظر اسد کو دیکھتا پھر اے ایس پی کو…اے ایس پی بھی یہی کر رہا تھا۔ وہ بھی باری باری اسد اور ہارون کو دیکھ رہا تھا۔ صرف اسد تھا جو اس تصویرپر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ یوں جیسے پہچانتے ہوئے بھی اسے پہچان نہ پا رہا ہو۔ یوں جیسے جانتے ہوئے بھی اسے نہ جانتا ہو۔




اس نے پہلی بار امبر کو اسی کے گھر پر دیکھا تھا۔ وہ ہارون اور شائستہ کے ساتھ منصور علی کے گھر ایک فیملی ڈنر اٹینڈ کرنے گیا تھااور امبر کو اس نے لاؤنج کی سیڑھیوں سے اترتے دیکھا تھا۔ وہ بلا شبہ پہلی نظر کی محبت کا شکار ہوا تھا۔
یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کس رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھی مگر یہ ضرور تھا کہ اس نے اس رنگ کو اس دن کے بعد جب جہاں بھی دیکھا ۔ امبر کے لباس کا رنگ کہہ کرہی اس کی شناخت کی تھی۔ اس نے اس عمر کی کسی لڑکی میں اس طرح کی خوبصورتی نہیں دیکھی تھی، جتنی اس کو امبر میں نظر آئی تھی۔ وہ کسی ملکہ کی طرح تمکنت اور بے نیازی سے سیڑھیاں اتر کر آئی تھی۔ یوں جیسے کوئی ملکہ اپنے دربار میں آتی ہے اور اسد کا دل چاہا تھا، وہ ایک درباری کی طرح اس کے استقبال کے لیے اٹھ کر کھڑا ہو جائے۔
وہ صرف پانچ منٹ وہاں ٹہری تھی۔ ہارون کی فیملی کے ساتھ رسمی علیک سلیک کے بعد وہ کسی دوست کے گھر چلی گئی تھی، مگر وہ پانچ منٹ اسد کی زندگی کے یاد گار ترین پانچ منٹ تھے ۔ وہ اس کی زندگی کا پہلا Crushنہیں تھا مگر سب سے سنگین ترین ضرور تھا اور اسے یاد تھا کہ وہاں سے واپسی کے دوران گاڑی میں شائستہ نے بات کرتے ہوئے امبر کے اس کزن کا ذکر کیا تھا، جس سے اس کا نکاح ہو چکا تھا اور اسد کو لگا جیسے گاڑی کی چھت کسی دھماکے کے ساتھ اڑ گئی ہو۔ کبھی ایسا بھی ہو سکتاتھا کہ ایک گھنٹے میں کسی کو عشق ہوا ہو اور پھر…
اگلا پورا ہفتہ اس نے اتنے سگریٹ پیے ، جتنے وہ پی سکتا تھا اور پھر وہ کچھ مایوسی اور رنجیدگی کے عالم میں اپنی چھٹیاں ختم کرنے سے پہلے ہی واپس باہر چلا گیا مگر امبر اس کے ذہن سے کبھی نہیں نکلی اور اس کی طلاق کی سب سے زیادہ خوشی اسے ہی ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا، وہ بڑی آسانی کے ساتھ اب اسے پاسکتا تھا مگر ہارون اور شائستہ نے اس کو جذباتی طور پر اس طرح بلیک میل کیا تھا کہ وہ اس سے ملے بغیر ایک بار پھر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے واپس چلا گیا۔
اور اب وہ تیسری بار اس کا ذکر سن رہا تھا، اور وہ ایک لاش کی صورت میں اس تصویر میں اس کے سامنے موجود تھی۔ وہاں اس خوبصورتی کی رمق بھی نہیں تھی، جو امبر کی شناخت تھی جو امبر کو امبر کہلواتی تھی مگر وہ پھر بھی امبر تھی، وہ چہرہ جس نے اسے کبھی زندگی میں سب سے زیادہ مسحور کیا تھا۔ سب کچھ ناقابل یقین تھا۔
”تو آپ اسے پہچانتے ہیں ؟”
اے ایس پی نے اس بار ہارون کے بجائے اسد سے پوچھا۔
اسد نے کانپتے ہاتھوں سے وہ تصویر ٹیبل پر رکھ دی۔ ہو سکتاہے یہ اس کا وہم ہو۔ یہ امبر نہ ہو، اس سے ملتی جلتی کوئی اور لڑکی…اس نے اپنے آپ کو بہلانے کی کوشش کی ۔ اے ایس پی نے ایک بار پھر اس کے خیالات کا تسلسل توڑا اور اپنا سوال دہرایا۔
”انہیں پہچانتے ہیں ؟”
”میرا خیال ہے یہ امبر ہے۔”اسد نے بمشکل کہا۔
”امبر…؟”اے ایس پی نے سوالیہ نظروں سے باری باری ہارون اور اسد کی طرف دیکھا۔اسد نے اس بار ہارون کو دیکھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”امبر پاپا کے بزنس پارٹنر منصور علی کی بیٹی تھی۔”اسد نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان کے ساتھ کہا۔
”آئی سی۔”اے ایس پی نے بڑی دلچسپی کیساتھ کہا۔”اس کا مطلب ہے، ہم آپ کے ذریعے ان کی فیملی کو بھی اپروچ کرسکتے ہیں ۔ اگر آپ کا بیٹا اس لڑکی کو پہچانتا ہے تو ہارون صاحب ! یقیناََ آپ بھی اسے پہچان چکے ہو ں گے؟”اے ایس پی نے اس بار ہارون کو مخاطب کیا۔
ہارون یک ٹک اے ایس پی کو دیکھتا رہا جواب ان تصویروں کو ہارون کے سامنے ٹیبل پر پھیلا رہا تھا۔ ہارون نے ایک لمحہ ان تصویروں پر نظر ڈالی پھر دوبارہ اے ایس پی کو دیکھنے لگا۔
”پہچانتے ہیں نا اسے؟”اے ایس پی نے دوبارہ کہا۔ہارون کا ذہن کہیں اور پہنچاہوا تھا۔ اسے حیرت تھی۔ وہ لاش اتنے دنوں کے بعد بھی قابل شناخت کیسے رہ گئی تھی اور اس سے زیادہ نا قابل یقین بات یہ تھی کہ وہ اے ایس پی اس کی تصویریں لے کر اس پورے شہر میں صرف ہارون کمال کے پاس ہی کیوں آیا تھا۔ ہارون نے سوچنے کی کوشش کی۔ اس کا سراغ کیسے لگایا گیا تھا۔ اس سے کیا غلطی ہوئی تھی۔ بھانڈا کہاں پھوٹا تھا، کیسے پھوٹا تھا۔
”ہاں یہ امبر ہے۔”اس نے بالآخر اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے کہا۔”مگر یہ میرے پرانے بزنس پارٹنر کی بیٹی ہے۔ اس کے ساتھ اب ہمارے کا روباری تعلقات ختم ہوچکے ہیں۔”
اس نے اپنی آواز کو حتی الامکان ہموار رکھتے ہوئے کہا۔
”جان سکتا ہوں آپ یہ تصویریں کیوں لائے ہیں ؟”
”جی بالکل جان سکتے ہیں ۔”اے ایس پی نے سامنے پڑی تصویروں کو بالآخر سمیٹتے ہوئے کہا۔ ”پولیس آپ کی اس مرڈر میں انوالومنٹ کی تفتیش کر رہی ہے۔”
ہارون کا دل اچھل کر حلق میں آگیا ۔اسد نے بے یقینی سے ہارون کو دیکھا۔
”پاپا کی انوالومنٹ…آپ ہوش میں تو ہیں؟”اس نے اسے ایس پی سے کہا۔
”بالکل ہوش میں ہوں۔” اے ایس پی نے اسد کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ ہارون کمال کی طرف متوجہ تھا جو پلکیں جھپکائے بغیر اے ایس پی کو دیکھ ریا تھا۔
”یہ لاش جس بیگ میں ڈال کر نہر میں پھینکی گئی، وہ بیگ ایک مشہور اسٹور سے خریدا گیا تھا۔ ادائیگی ایک کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ کی گئی اور وہ کریڈیٹ کارڈ ہارون کمال کا تھا۔”
ہارون کا دل چاہا، وہ بے اختیار اپنا سر پیٹ لے ۔ وہ واقعی الو کا پٹھا تھا یا پھر بد قسمت۔
”اس سے میری اس قتل میں انوالومنٹ کیسے ثابت ہوتی ہے؟” ہارون نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ اسد اب ہکا بکا ہارون کو دیکھ رہا تھا۔
”میں اپنا ہوم ورک کر کے یہاں آیا ہوں ۔ آپ میرے ساتھ پولیس اسٹیشن چلیں۔ لاش کی شناخت نہ ہوتی تو پھر شاید آپ کو میں اپنے ساتھ لے جاتا اور چند سوالوں کے بعد یہاں سے چلا جاتا لیکن اب جب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ لاش آپ کے ایک پرانے بزنس پارٹنر کی بیٹی کی ہے تو پھر ہارون صاحب !آپ کو ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنا ہو گا۔ ”اے ایس پی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”اس سے پہلے میں اپنے وکیل کو یہاں بلوانا پسند کروں گا۔ ”ہارون نے ریسیور اٹھاتے ہوئے کہا۔
”ضرور… آپ ایک کے بجائے وکیلوں کی پوری ٹیم کو بلوا لیں ، وہ آ پ کا حق ہے۔ ”اے ایس پی نے کندھے اچکا کر کہا۔
مجھے منصور علی کا ایڈریس اور کانٹیکٹ نمبر بھی چاہیے۔ ہمیں ان کو اس ساری صورت حال سے آگاہ کرنا ہے۔”
اے ایس پی نے اگلا جملہ اسد سے کہا کیونکہ ہارون فون پر اپنے وکیل سے بات کرنے میں مصروف تھا۔ اسد نے ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا۔ وہ یک ٹک ہارون کا چہرہ دیکھے جارہا تھا جو فون پر اپنے وکیل کو ساری صورت حال بتاتے ہوئے اسے جلد از جلد وہاں پہنچنے کے لیے کہہ رہا تھا۔
٭٭٭
شائستہ پتھرکے بت کی طرح زرقا کا چہرہ دیکھ رہی تھی، اس نے چند لمحے پہلے اس کے کانوں میں جیسے پگھلا ہوا سیسہ انڈیلا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا وہ اس سے یہ سب کہنے والی تھی۔
”تمہارا دماغ خراب ہے۔”شائستہ نے اس سے بمشکل کہا، مگر اسے اپنی آواز اجنبی لگی۔ اس کے سر میں دھماکے ہونے لگے۔ ثمر اور ثانیہ کے چہرے اس کی نظروں کے سامنے آرہے تھے۔ وہاں بلاشبہ مشابہت تھی۔
ہارون کمال کا چہرہ اسے ان دونوں کے چہروں میں نظر کیوں نہیں آیا؟شاید اس لیے کہ اس نے کبھی ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ لیکن اب وہ زرقا کے چہرے کو دیکھ رہی تھی اس کا پورا وجود چلا رہاتھا۔ وہ سچ کہہ رہی ہے۔ ثمر اور ثانیہ کے چہروں میں زرقا کا چہرہ بھی جھلکتا تھا۔ ہارون ثمر اور ثانیہ کے ساتھ وہاں موجود ہوتا اور زرقا کسی کو بھی اسے ان دونوں کے باپ کے طور پر متعارف کرواتی تو ہرشخص اس کی بات مان جاتا۔
”آ پ ٹھیک کہتی ہے ۔”زرقا نے کہا۔ ”جو کچھ میرے ساتھ ہوا اصولی طور پر اس کے بعد مجھے پاگل ہو جانا چاہیے تھا۔ بلکہ آ پ مجھے پاگل ہی سمجھیں ۔”زرقا کے لہجے کا اطمینان ہنوز قائم تھا۔
شائستہ اب اس لمحے کو پچھتا رہی تھی۔ جب اس نے اس سراغ رساں سے ان دونوں بچوں کے نام جاننے میں دلچسپی نہیں لی تھی۔ اور تب وہ صرف زرقا کا نام جان کر ہی آئی تھی۔ اسے یاد آیا تب اس سراغ رساں نے اصرار کیا تھا کہ اسے ان دونوں بچوں کے باپ کا نام بھی جان لینا چاہیے ۔ اور وہ اب سمجھ سکتی تھی کہ وہ اصرار کس لیے تھا، یقیناََ وہ ہارون کمال کے بارے میں ہی اسے معلومات پہنچانا چاہتا تھا۔
اور اب وہاں بیٹھے شائستہ کو زندگی میں پہلی بار خود پر بے تحاشا ترس آیا ۔ کوئی اس سے زیادہ بے و قوف ہو سکتا تھا۔ اس سے زیادہ احمق اس سے زیادہ بے شعور…وہ کاروباری حلقوں میں اہم ترین عورتوں میں سے ایک سمجھی جاتی تھی اور وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔ جو پچھلے کئی سالوں سے اس کی آ نکھوں میں دھول جھونک رہا تھا۔کئی عورتیں ، کتنے افیئرز کتنی دلچسپیاں، شائستہ حساب رکھتے رکھتے تھک گئی تھی۔
”مجھے آپ سے بہت ہمدردی ہے۔ ”
زرقا نے جیسے اس کا چہرہ پڑھ لیا تھا۔ شاید شائستہ کا چہرہ اب ایک کھلی کتاب بن گیا تھا جیسے کوئی بھی پڑھ سکتا تھا۔ ”میں جانتی ہوں ، یہ سب کچھ جاننے کے بعد آپ اس وقت کس اذیت سے گزر رہی ہوں گی۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!