تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

ثمر کو اس صبح جلدی جانا تھا، وہ فاطمہ کو بتا کر گھر سے چلا گیا۔ شہیر خلاف معمول آفس جانے کے لیے نہیں اٹھا ۔ وہ نو دس بجے کے قریب اپنے کمرے سے باہر آیا ۔ فاطمہ اس وقت صحن میں بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ اپنے کپڑے لیے سیدھا باتھ روم میں چلا گیا۔ آدھ گھنٹہ کے بعد جب وہ نہا کر اپنے کمرے میں آیا تو فاطمہ ناشتہ تپائی پر رکھے اس کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ شہیر کچھ کہے بغیر کرسی پر بیٹھ گیااور تپائی اپنی طرف کھینچ کر اس نے ناشتہ کرنا شروع کر دیا۔
فاطمہ نے جیسے ایک دم اطمینان کا سانس کیا تھا۔ ثمر ٹھیک کہہ رہا تھا اس کا غصہ ختم ہو رہا تھا۔ فاطمہ نے سوچا ۔ وہ اس سے کوئی بات کرنا چاہتی تھی مگر اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس وقت وہ اس سے بات کیسے شروع کرے۔ شہیر سر جھکائے تیز رفتاری سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔ اس سے پہلے کہ فاطمہ اس سے کچھ کہتی،باہر دروازے پر دستک سنائی دی۔ شہیر ناشتہ کرتے کرتے ٹھٹکا ۔ فاطمہ یک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔
”تم بیٹھو، میں دیکھتی ہوں ۔”اس نے کہا اور کمرے سے باہر آگئی۔ صحن کا دروازہ کھولتے ہی اسکے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی۔ وہاں ایک عورت چند پولیس والوں کے ساتھ کھڑی تھی۔
٭٭٭
”تم فاطمہ ہو؟”دورازے کے باہر کھڑی عورت نے فاطمہ کوسر سے پیر تک دیکھتے ہوئے بڑے تحکمانہ انداز میں پوچھا۔
فاطمہ کو اپنی ٹانگوں میں کپکپاہٹ محسوس ہوئی۔ اس عورت کا چہرہ اسے شناسا لگا تھا مگر اسے یقین تھا اس نے اسے کبھی کہیں نہیں دیکھا ۔ پھر یہ احساس کیوں ؟
اس نے اثبات میں سر ہلادیا ۔ اس کی نظریں پیچھے کھڑے پولیس والوں پر جمی ہوئی تھیں ۔ گلی کے بہت سے دروازوں سے لوگ گردنیں نکال کر بڑے متجسس انداز میں ان پولیس والوں کو دیکھ رہے تھے۔ پولیس کا فاطمہ کے گھر کے دروازے تک آنا ان کے لیے ایک عجیب واقعہ تھا۔
”بات اندر چل کر کریں یا یہیں بات کرنا پسند کروگی؟”فاطمہ کے سر ہلاتے ہی اس عورت نے اسی انداز میں فاطمہ سے پوچھا۔فاطمہ کچھ کہنے کے بجائے بے اختیار دروازے کے سامنے سے ہٹ گئی۔ اس عورت نے پلٹ کر پیچھے کھڑے پولیس والوں سے کہا۔
”تم لوگ یہیں ٹھہرو’ضرورت پڑی تو اندر بلوالوں گی۔” اس ے بعد اس عورت نے فاطمہ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے گھر کی چوکھٹ کے اندر قدم رکھ دیا۔ لیکن اگلا قدم وہ نہیں اٹھا سکی ۔ سامنے کمرے کے دروازے کے باہر شہیر کھڑا تھا۔ وہ بے حس و حرکت تھا۔ شائستہ ہارون کمال بھی بے حس وحرکت تھی۔ صرف فاطمہ مختار کا وجود پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔ اس نے ایک نظر باری باری شہیر اور شائستہ کو دیکھا۔ وہ دونوں اب اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ ایک نظر میں جان گئی تھی کہ اسے شائستہ کا چہرہ کیوں شناسا لگا تھا۔ وہ شہیر کا چہرہ تھا۔ ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے انہیں کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ ماں بیٹا تھے۔ ان کا چہرہ ان کا تعارف کرواتا تھا۔
فاطمہ نے اپنے آپ کو بگولے کی طرح ان کے بیچ میں سے غائب ہوتے دیکھا۔ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ شائستہ ہارون کمال تھی مگر وہ یہ ضرور جانتی تھی ،شہیر ثوبان سمیع کے لیے ہی آئی تھی۔ وہ اس کی ماں تھی۔
فاطمہ کچھ کہنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
مالک اپنا سامان لینے آگیا تھا۔ مالک کو پہچان تھی اور مالک کے پاس ثبوت تھا۔
شہیر نے ایک نظر شائستہ کو دیکھا پھر بولا ۔ ”دروازہ بند کر دیں ۔”شائستہ جیسے چونکی ، وہ چوکھٹ پر کھڑی تھی۔
اس نے پلٹ کر اپنے عقب میں کھلا دروازہ بندکر دیا۔
باہر سے اندر جھانکنے والے پولیس والوں کی نظروں سے سب کچھ اوجھل ہو گیا تھا۔ اندر موجود تینوں لوگوں کی نظروں میں سب کچھ عیاں ہو گیا تھا۔
”میں شائستہ ہارون کمال ہوں ۔”شائستہ نے فاطمہ کی طرف گردن موڑ کر سرد آواز میں کہا۔ ”شہیر کی حقیقی ماں۔”




اس کے سامنے کھڑے دونوں افراد کے چہروں پر ایسا کوئی تاثر پیدا نہیں ہوا جس کی اسے امید تھی۔ نہ شہیر چونکا تھا نہ فاطمہ چلائی تھی۔ شائستہ کو لگا وہ دونوں چند لمحوں کے لیے شاید بہرے ہو گئے تھے۔
”میں شہیر ، اپنے بیٹے کو لینے آئی ہوں۔”اس نے اس بار دوبارہ اسی ڈرامائی انداز میں کہا۔ سامنے کھڑے دونوں افراد کے چہروں پر اس بار بھی کوئی تاثر پیدا نہیں ہوا تھا۔ شائستہ کو لگا وہ احمق ہے۔
”بہت سال پہلے …”شائستہ نے کہنا شروع کیا۔ اسے لگا تھا کہ اسے سب کچھ بتانا چاہیے ۔ اس کی من گھڑت کہانی من پسند جھوٹ ”بہت سال پہلے میں اور….”
”آپ پولیس کو ساتھ لے کر کیوں آئی ہیں ؟”اس کی کہانی بیچ میں ہی رہ گئی تھی۔ شہیر نے بڑے سرد لہجے میں اس کی بات کاٹی تھی۔ شائستہ چند لمحے کچھ بول نہیں پائی، یہ سوال غیر متوقع تھا۔
”شہیر !تم میرے بیٹے ہو اور …”شائستہ نے کچھ کہنا چاہا۔ شہیر نے اس کی بات کاٹ دی ۔
”میں جانتا ہوں مگر آپ پولیس یہاں کیوں لے کر آئی ہیں ؟”
اس نے شہیر کے منہ سے غیر متوقع جملہ سنا تھا۔ کیا وہ جانتا تھا؟ کیا مطلب تھا اس کا ؟اسے کیسے پتہ چلا؟کیا فاطمہ نے خود اسے یہ سب کچھ بتایا پھر…شائستہ کے ذہن میں یکے بعد دیگرے سوال امنڈ رہے تھے۔
”اور اگر فاطمہ نے اسے خودسب کچھ بتایا ہے تو کس طرح بتایا ہے ؟”شائستہ کے دل کی دھڑکن یک دم تیز ہوگئی۔
”آپ پولیس کو یہاں سے واپس بھیجیں اس کے بغیر بات ہو سکتی ہے۔”شہیر اس سپاٹ لہجے میں بولا۔
”پولیس اس عورت کے لیے یہاں آئی ہے۔ ”شائستہ نے فاطمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”میں نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے کہ اس نے میرے بیٹے کو اغوا کر کے اتنے سال مجھ سے دور رکھا۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ تمہیں پہلی بار دیکھتے ہی مجھے لگا کہ تم میرے بیٹے ہو اور تم واقعی میرے بیٹے ہو شہیر۔”
شائستہ نے شہیر کو جیسے یقین دلانے کی کوشش کی جو بے حد خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا فاطمہ نے لرزتی ہوئی آواز میں کہنا شروع کیا ۔
”میں یہ جانتی ہوں کہ شہیر میر ابیٹا نہیں ہے مگر میں نے اسے اغوا نہیں کیا۔ میں نے اسے ایک یتیم خانے سے گود لیا ہے۔ ”
شائستہ نے تیز آواز میں اس کی بات کاٹی۔
”کس یتیم خانے سے؟”
”میں آپ کو لے کر جاسکتی ہوں وہاں ، میں نے شہیر کو بھی بتایا ہے اس کے بارے میں کہ وہ بے شک وہاں جاکر پتہ کر لے میں نے اپنی ایک دوست اور اس کے شوہر کے ذریعے شہیر کو وہیں سے گود لیا تھا۔ ”فاطمہ کہہ رہی تھی۔
”چلومیرے ساتھ وہاں میں بھی دیکھنا چاہوں گی کہ تم نے میرے بیٹے کو کہاں سے لیا ہے۔ ”شائستہ نے بے دھڑک انداز میں کہا۔
”وہ یتیم خانہ دوسرے شہر میں ہے ”فاطمہ ہکلائی۔
”دوسرے ملک میں تو نہیں ہے، میں کہیں بھی جاسکتی ہوں جھوٹ سچ کو جاننے کے لیے۔”
اس سے پہلے کہ فاطمہ جواباََ کچھ کہتی شہیر نے مداخلت کی۔ ”آپ مجھے لینے آئی ہیں ، میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں ۔ کسی یتیم خانے تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے لیے اتنا کافی ہے کہ میں ان کا بیٹا نہیں ہوں ۔”
اس نے مستحکم لہجہ میں کہا۔ ”پولیس کو اس معاملے میں انوالو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ انہیں واپس بھجوا دیں ۔ ”
”پولیس کو کیوں انوالو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اتنے سال تمہارے بغیر رہی ہوں شہیر !تم اندازہ نہیںکرسکتے کہ میں نے یہ سارے سال تمہارے بغیر کس طرح گزارے ہیں ۔”شائستہ کی آواز بھر ا گئی۔ شہیر نے اس سے نظریں چرالیں ، وہ عورت اس کی ماں تھی اور وہ اس کے لیے کچھ محسوس نہیں کر رہا تھا۔ اس نے محبت یا ہمدردی نام کے کسی جذبے کو اپنے اندر تلاش کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔
اس نے فاطمہ کی طرف دیکھا ۔ اس کی حالت قابل رحم تھی۔ پستہ قامت اس بدصورت عورت کے چہرے کی سیاہی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ شائستہ اور وہ ایک دوسرے کے برابر میں کھڑی ایک عجیب منظر پیش کر رہی تھیں۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ دونوں اس کی محبت میں گرفتار تھیں ۔ دونوں اس کی ماں ہونے کی دعوے دار تھیں۔ وہ دونوں سے نظریں چرارہا تھا۔ بے تحاشا کوشش کے باوجود شائستہ کے لیے اپنے اندر سے محبت یا لگاؤ نام کاجذبہ برآمدکرنے میں ناکام رہا تھا ۔اور بے تحاشا کوشش کرنے باوجود وہ فاطمہ کے لیے اپنے اندر سے نفرت نام کا کوئی جذبہ پیدا کرنے میں بھی ناکام ہو رہا تھا۔ زندگی اسے عجیب دورا ہے پر لے آئی تھی۔
”اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کے ساتھ جاؤں تو پولیس بھجوادیں ۔ ”وہ ہنوز اپنی بات پر جما ہوا تھا۔
”اور جو اتنے سال …”شہیر نے شائستہ کی بات کاٹ دی۔
”ان سالوں کو کوئی واپس نہیں لا سکتا ۔ جو کچھ یہ کر چکی ہیں ۔ اس کو تو مٹایا نہیں جاسکتا۔ آپ انہیں جیل بھیج دیں گی تب بھی میری زندگی کے وہ سارے سال واپس نہیں آئیں گے۔ ہاں البتہ میرے بہن اور بھائی کی زندگی ضرور تباہ ہوجائے گی۔ اور میں یہ نہیں چاہتا ۔”
شہیر نے فاطمہ کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ فاطمہ کے چہرے پر جیسے کسی نے طمانچہ دے مارا تھا۔ ”میرے بہن بھائی کی زندگی۔ بس شہیر کو ان ہی کا خیال آیا تھا۔ میرا نہیں ، ذرہ برابر بھی نہیں ۔ ”فاطمہ کو بے اختیار رونا آیا ۔ کھڑے کھڑے دو کوڑی کی ہوگئی تھی وہ ‘یہ ہوتی ہے اولاد…اپنی اور پرائی اولاد کا فرق اسے زندگی میں پہلی بار اس لمحے سمجھ میں آیاتھا۔ اس نے اپنے وجود کو کاتچ کی طرح کرچی کرچی ہوتے محسوس کیا۔ وہ ساری زندگی کس لیے جی تھی۔ صرف اس لیے کہ سامنے کھڑے مرد کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر تب سے چمک آرہی تھی جب وہ تین سال کا تھا اور وہ بتیس سال کی اور وہ کبھی ماں نہیں بنی تھی۔ مگر صرف یہی ایک رشتہ تھا جس پر وہ ہمیشہ کھری اتری تھی جس میں فاطمہ مختار نے اپنی زندگی کے اتنے سالوں میںکھوٹ نہیں پایا تھا اور اب یہ رشتہ بھی اس کی زندگی کے باقی رشتوں کی طرح مٹی بن گیا تھا۔
”تو آخر کمایا کیا فاطمہ تو نے دنوں کے اس الٹ پھیر میں ؟کالک ، رسوائی ، مکاری ، فریب اور جھوٹ کا لیبل ؟”
اس نے اپنے آپ سے سوال کیا مگر اسے جواب ملتا بھی کیسے۔
سامنے کھڑا پر ایا خون بول رہا تھا اور کیا خوب بول رہا تھا۔ فاطمہ مختار وقت کے کٹہرے میں آن کھڑی ہوئی تھی۔
”یہ تمہارے بہن بھائی نہیں ہیں ْ”شائستہ کو اس کی بات بری لگی۔ ”تمہارے بہن بھائی میری اولاد ہیں وہ تمہارے بہن بھائی نہیں ان کی پروانہیں کرنی چاہیے۔ ”
”آپ پولیس والوں کو بھیج دیں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ ”شہیر نے شائستہ کی بات کاٹ کر خشک لہجے میں کہا۔
”ہم بات کر کے اس مسئلے کو حل کر لیں گے۔ آپ انہیں واپس بھیجیں ۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!