تیمور نے اُس منظر کی خوبصورتی کو اپنی انا پر حاوی نہیں ہونے دیا جب دونوں جوان بیٹے اُس کے سامنے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ مازن کو اچانک اپنے گھرمیں دیکھ کر وہ خود پر قابو نہیں رکھ پایا تھا اور آگے بڑھ کر اُسے بانہوں میں بھرلیا تھا۔ اُسے لگا جیسے جسمانی قوت اور آنکھوں کی بصیرت پھر سے لوٹ آئی ہو۔ اپنے ساتھ کمرے میں لے جانے کے بعد جب مازن کو بستر پر بٹھایا تو اُسے بھی پرانا دور اُسی شدت سے یاد آیا تھا جیسے مازن کو، مگرمازن نے اچھا وقت یاد کیا تھا اور تیمور نے سعدیہ کی ہٹ دھرمی۔

جب مازن کو ماں سے الگ نہیں ہونا تو باپ کے پاس کیوں آیا ہے؟ ظاہر ہے دولت حاصل کرنے کے لیے یہ سعدیہ کا نیا پینترا ہوگا۔ اب جب مازن کی اعلیٰ تعلیم کے لیے روپیہ درکار ہے تو اُس کے خرچے تیمور کیوں اُٹھائے؟ جب اُس کا مازن پر کوئی حق نہیں تو مازن کا بھی اپنے باپ کی کمائی پر کوئی حق نہیں بنتا۔ اُس نے اپنے سخت رویے سے پہلے دن ہی مازن پر اچھی طرح واضح کردیا کہ ماں کو چھوڑے بغیر اور معافی منگوائے بغیر اُس کا یہاں آنا ممکن نہیں۔ مازن کو ماں باپ کے جھگڑے سے دلچسپی نہیں تھی۔ دونوں اپنی اپنی انا کی خاطر اولاد کا حق مار رہے تھے۔ وہ کیوں ماں سے لڑے اپنے باپ کے لیے، یا باپ سے ماں کے لیے جب ساری ضرورتیں بنا کسی تردد کے بازل کے ذریعے پوری ہوسکتی ہیں تو اتنا ڈرامہ کیا کیوںکرنا۔ وہ دوبارہ تیمور کی موجودگی میں گھر نہیں گیا تھا۔ بازل اُسے اپنے ساتھ تب لاتا جب وہ شہر یا ملک سے باہر گیا ہوتا اور ایسا اکثر ہی ہوا کرتا تھا۔ اس لیے مازن کے خوب مزے تھے۔ وہ بازل کا کمپیوٹر استعمال کرتا، اپنا فیس بک اکاﺅنٹ اور ای میلز چیک کرتا، موویز دیکھتا، اپنی پسند کے کھانے آرڈر کرواتا اور تیز میوزک لگا کر خوب ہی ناچتا۔ گھر کے نوکر اُس کی اصل حیثیت سے واقف نہیں تھے وہ اُسے بازل کا دوست سمجھتے اور اُسی لحاظ سے اہمیت دیتے تھے۔ وہ اپنے دل کی تمام حسرتیں باپ کی غیر موجودگی اور ماں کی لاعلمی میں پوری کیا کرتا تھا۔ بازل اُس کے فضول شوق میں ساتھی نہیں بنتا تھا۔ تیز میوزک وہ بھائی کی محبت میں برداشت کرلیا کرتا لیکن اذان کے وقت بند بھی کروا دیا کرتا تھا جس پر مازن بہت جز بز ہوتا اور جل کر کہتا۔

”تمہیں تو ماما کے پاس ہونا چاہیے تھا وہ خوش رہتیں تم سے۔“ اور بازل اداس ہوکر کہتا ۔

”وہ مجھ سے تم جتنی محبت نہیں کرتی ہیں۔“

’قصرِ تیمور ‘ میں بازل نے مازن کو کبھی نماز ادا کرتے نہیں دیکھا تھالیکن وہ بھائی کے کپڑے، اس کے پرفیوم دیکھ کر آہیں ضرور بھرتا تھا۔ بازل نے کئی دفعہ چاہا کہ وہ چیزیں اُسے گفٹ کرے مگر مازن کو ماں کا ڈر تھا۔

”اُنہیں پتا چل گیا توا اسکول سے اٹھوالیں گی، پھر سارے عیش ختم۔“

پھر بازل نے اُس کی خوشی کی خاطر ایک حل نکالا۔

”میں تمہارا فیورٹ پرفیوم اسکول لے آیا کروں؟“ اور مازن یہ سن کر اُس کے گلے لگ گیا۔

”جیو میرے بھائی۔“ ایسی ہی کئی تعیشات تک مازن کی نارسائی ختم کرنے میں بازل نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ اُسے اپنی پوری پاکٹ منی دے دیا کرتا جسے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کینٹین پر خرچ کردیتا۔ وہ مازن کی زندگی میں باپ کی غیر موجودگی سے پیدا ہونے والے خلا کو بھرنا چاہتا تھا۔ اُس کی نظر میں مازن ایک ترسا ہوا معصوم لڑکا تھا جسے چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری کرکے خوشی ملتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُسے احساس ہونے لگا کہ وہ غلط سوچ رہا تھا۔

٭….٭….٭



”اسلام محض ایک مذہب نہیں، بلکہ مکمل ضابطہ ¿حیات ہے۔“ مس رخشندہ اولیول فرسٹ ائیر کو اسلامیات پڑھا رہی تھیں۔

”یہ صرف عبادات کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ مخلوق کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے پر بھی زور دیتا ہے۔“ انہوں نے کہا۔

”کوئی بھی برا انسان، اچھا مسلمان ہرگز نہیں ہوسکتا۔“

”میڈم برے انسان کی کیا تشریح ہے، اور اچھا مسلمان کسے کہتے ہیں؟“ ہادیہ نے سوال کیا۔

”اچھا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان محفوظ رہ سکیں اور برا انسان ظاہر ہے ان صفات کا مالک نہیں ہوگا۔“

”لیکن اسلام پر آج کے دور میں عمل کرنا بہت مشکل ہے۔“ یہ مازن تھا، رخشندہ نے کڑی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح ٹاپک سے ہٹ گیا تھا لیکن اُسے جواب دینا بھی ضروری تھا۔ نہایت تحمل سے اُس نے کہا۔

”یہ سوچ غلط ہے، اسلام کیوں کہ جینے کا طریقہ سکھاتا ہے اس لیے ہر دور میں قابل عمل ہے بالکل اُسی طرح جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے تھا۔“ مس رخشندہ نے اپنے طور پر مازن کے سوال کا مفصل جواب دے دیا تھا مگر وہ استہزائیہ اندا زمیں ان کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔

”او کے میم، تو آپ کے خیال میں اسلامک رُولز آج بھی اُسی طرح اپلائی ہوتے ہیں؟“

”بالکل!“

”آپ عمل کرتی ہیں اُن پر؟“ مازن نے جیسے اُسے چیلنج کیا تھا۔

”جی ہاں۔“ اور رخشندہ کا جواب سن کر مازن کی ہنسی چھوٹ گئی، وہ انگلی اُٹھا کر بولا۔

”سوری میم، اسلام میں جھوٹ بولنا منع ہے۔“ اور پوری کلاس میں دبی دبی ہنسی کی آوازیں اُبھرنے لگیں، رخشندہ پزل ہوگئی، اُس نے مازن کو سخت لہجے میں بیٹھ جانے کے لیے کہا، مگر وہ نہیں بیٹھا اوربڑی لجاجت سے بولا۔ ”پلیز میم ایک سوال کا جواب دے دیں بس پھر بیٹھ جاﺅں گا۔ “

”پوچھیں۔“ رخشندہ نے کہا اور پھر کہہ کر خوب پچھتائی۔ مازن کے پاس اُسے پریشان کرنے کا ہر حربہ موجود تھا۔

”میم، آئی ایم سوری مگرمیں متفق نہیں ہوں آپ سے۔ آپ کہتی ہیں کہ اسلام پر عمل کرنا بہت آسان ہے۔آپ خود تو برقع نہیں پہنتیںاور ہمیں کہہ رہی ہیں کہ اسلام آج بھی اسی طرح اپلائی ہوتا ہے۔“

اب پوری کلاس کھل کر ہنسنے لگی۔ رخشندہ آنکھیں پھاڑے بے یقینی سے مازن کو دیکھنے لگی جو بولے جارہا تھا۔

”آپ تو دوپٹہ تک نہیں لیتیں، ہمیں کیسے کہہ سکتی ہیں کہ اسلام پر عمل کرو۔“

”شٹ اپ مازن!“ رخشندہ مزید برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اُس نے ڈھیٹوں کی طرح دانت نکالتے مازن پر برسناشروع کردیا وہ چپ نہ ہوتی اگر راﺅنڈ لگاتی کوآرڈینیٹر نے آکر خاموش نہ کروایا ہوتا۔ میڈم نازیہ اُسے اپنے ساتھ لے گئیں تھیں۔

پوری کلاس مازن کی حاضر جوابی پر اُسے کھل کر داد دے رہی تھی۔ سوائے بازل کے جو خاموشی سے کرسی سے ٹیک لگائے اپنے پین سے کھیلنے میں مصروف تھا۔ کچھ دیر بعد مازن کو بھی آفس میں بلوالیا گیا۔ کلاس سے نکلتے ہوئے اُس نے دو انگلیوں کو ماتھے تک لے جاکر ایک جھٹکے سے بائے کیا اور کہا۔

”Wish me luck“ اور پوری کلاس نے ’بیسٹ آف لک ‘ کے نعرے لگا کر اُسے رخصت کیا۔ سب جانتے تھے کوآرڈینیٹر مازن پر اتنی خفا نہیں ہوں گی جتنا مس رخشندہ کو ” شٹ اپ“ کہنے پر سرزنش کیا جائے گا۔ یہ سب ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے بچے تھے جن سے عزت و احترام سے پیش آنا اساتذہ کی اولین ذمہ داری تھی۔

٭….٭….٭

”اسے دیکھو، کیسا کھلا پڑ رہا ہے، لگتا ہے کہیں سے تمہارا بھائی؟ ابھی دس منٹ پہلے پرنسپل کے آفس سے ڈانٹ کھا کر نکلا ہے، کوئی فرق ہی نہیں پڑتا اسے۔“ عاصم کے توجہ دلانے پر بازل نے سر اُٹھا کر مازن کی طرف دیکھا، واقعی اُسے یوں خوش باش دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا۔بے حد بے پروا اور بے فکر انداز، ہادیہ کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتا، وہ ساتھ ساتھ اُس کے موبائل پر کھینچی گئی تصویریں بھی دیکھ رہا تھا۔ بازل کو شرمندگی محسوس ہونے لگی، آخر وہ اس کا بھائی تھا۔ اُس کا رویہ اور عادتیں دن بدن بگڑتی جارہی تھیں۔ ماں یا باپ سے تو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا پر خود سے اُسے سمجھانے کی پوری کوشش کرتا جواب تک ناکام ثابت ہورہی تھی۔

”چلویہاں سے۔“ بازل اچانک اٹھ کھڑا ہوا، عاصم بڑبڑا گیا۔

”کہاں؟“ بازل نے بیگ اور پیپرز اٹھائے اور کیفے کی طرف چل پڑا، عاصم بھی اس کے پیچھے ہولیا مگر چلتے چلتے بھی اُس کی نظریں مازن پر جمی رہیں جس کے کندھے پر ہادیہ نے ہاتھ رکھا ہوا تھا اور نزاکت سے ہنستی جارہی تھی۔ نہایت حسرت سے یہ منظر دیکھتا وہ آگے بڑھتا رہا۔اس کی دوستی بازل سے تھی،اگرمازن سے ہوتی تو وہ بھی اُس سے اسی طرح فری ہوسکتا تھا۔ یونہی ایک لمحے کے لیے اُسے خیال آیا جیسے فوراً ہی جھٹک بھی دیا کہ بہر حال مازن کی محبت اُسے کئی قسم کی مشکلات میں ڈالنے کا سبب بن سکتی تھی۔

٭….٭….٭

”تم اپنی حرکتوں سے کب باز آﺅگے؟ ماما روکتی نہیں ہیں تمہیں؟“ عاصم کے سامنے بازل نے کچھ نہیں کہا تھا مگر ہوم ٹائم ہوتے ہی وہ اس کے سر پر پہنچ گیا اور ڈانٹنا شروع کردیا۔

”کیا ہوگیا ہے باز(Baz)، کیوں اتنا غصہ آرہا ہے؟“ مازن نے چیونگم چباتے ہوئے کمینی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا اور بازل اس کے دو جملوں سے ہی ٹھنڈا پڑگیا۔ بیگ فرش پر ڈالتے ہوئے وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا، عجیب سی تھکن اُس کے وجود کو لپیٹے ہوئے تھی، مازن نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

”دیکھا نا، مجھے پتا چل گیا کوئی مسئلہ ضرور ہے ورنہ میرے ٹھنڈے ٹھنڈے کول بھائی کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوسکتی۔“ بازل کچھ کہہ نہیں سکا ،بس بے زاری سے سرجھٹک کر رہ گیا۔ مازن نے اس کے نزدیک ہوکر لگاﺅ سے پوچھا۔

”کیوں پریشان ہو؟ ڈیڈ نے کوئی نیا گل کھلادیا کیا۔“ اس کے سو فی صد درست اندازے پر بازل نے شکستہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تو مازن بھی سنجیدہ ہوگیا۔

”کوئی سیریس بات ہے؟“ پھر اس نے خود سے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔

”کوئی نئی آنٹی آنے لگی ہیں گھر میں؟“ بازل نے فوراً نفی میں سرہلایا اور اپنے جوتے کی نوک سے زمین پر پڑی مٹی رگڑنے لگا۔

”اب انہیں آنٹیوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔“ بازل کہنا چاہتا تھا مگر کچھ نہ کہہ سکا ۔ اُس کے خیال میں مازن ابھی یہ سب کچھ سمجھ نہیں سکتا تھا، کیوں کہ وہ ”چھوٹا“ تھا۔ دوسرا خوف یہ بھی لاحق تھا کہ مازن ماما سے تذکرہ نہ کردے اسی لیے خود پر قابو رکھا۔ مازن جب پوچھتے پوچھتے ہار گیا تو بولا۔

”اوکے! تم شیئر نہیں کرنا چاہتے تو مت کرو، مگر میرا ایک کام تو کرو پلیز۔“اس نے پلیز کو لمبا گھسیٹا تو بازل نے سرد آہ بھری۔

”کیا چاہیے اب تمہیں؟“اپنے بھائی کی ’پلیز‘ کا مطلب وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ مازن نے بیگ سے کنگھی نکال کر اپنا ہیر سٹائل بہتر کیا۔

”یار، سیل فون چاہیے کوئی اچھا سا۔ “ یہ کہتے ہوئے اس نے بالوں کو اچھی طرح سر پہ جمالیا،یوں وہ ایک بیبابچہ دکھنے لگا۔ بازل کو حیرت ہوئی۔

”سیل فون کا کیا کروگے؟ ابھی اسکول میں الاﺅڈ نہیںہے۔ ماما کے سامنے تم لے جانہیں سکتے تو کیوں مانگ رہے ہو؟ پاپا مجھے دے رہے تھے پر میں نے تو منع کردیا۔“

”اوہو برادر، تم پاپا سے دوبارہ مانگ لو پلیز، میں بھی یوز کرلیا کروں گا پھر واپس لے جایا کرنا۔اسکول میں سب ہی لاتے ہیں، کلاس میں نہیں نکالیں گے،بیگ میں پڑا رہے گا، کسی کو کیا پتا۔“

”مگر….“ بازل الجھ سا گیا، اُسے مازن کی منطق سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ”کروگے کیا؟“

”کانٹیکٹس رکھنے پڑتے ہیں یار ضروری ہے، بس اب زیادہ بحث مت کرنا۔ یہ بتاﺅ کب تک لاﺅگے؟“ بازل تنگ آکر اٹھ کھڑا ہوا، بیگ ہاتھ میں پکڑا اور کہا۔

”پاپا سے کہہ دوں گا۔آج شام تک مل جائے گا پھر کل لے لینا، بائے۔“ مازن نے بھی خدا حافظ کرنے کے بعد اُسے مڑ کر جاتے دیکھا ابھی وہ دو قدم ہی چلا تھا کہ مازن نے جیسے کچھ یاد آنے پر کہا۔

”ہاں یاد آیا۔ “ بازل نے رک کر پیچھے مڑتے ہوئے سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا۔

”مجھے لگتا ہے ماما تمہیں بہت مس کررہی ہیں آج کل، کل اُنہوں نے تمہارا فیورٹ ٹرائفل بنایا تھا۔“ بازل نے سرد مہری سے کہا۔

”تو؟“ مازن کو حیرت نہیں ہوئی پر اس نے اصرار کرنا ضروری سمجھا۔

”ایک بار مل تو لو اُن سے، میرے ساتھ چلو کسی دن۔“

”بائے۔“ اس کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ وہاں سے روانہ ہوگیا۔ مازن جانتا تھا بازل اپنے آنسو اس کے سامنے بہانا نہیں چاہتا تھا۔ اسی لیے ہٹ گیا تھا۔ سعدیہ بازل کو ہمیشہ ہی یاد رکھتی تھی مگر جب بھی اُس کی پسند کا کھانا بناتی تو مازن بھی جان جاتا تھا کیوں کہ وہ کھانے اُسے کبھی پسند نہیں رہے تھے پچھلے کئی دنوں سے وہ محسوس کررہا تھا کہ ماں بھائی کی منتظر ہے پر کہتی کچھ نہیں۔ پچھلے تین سال سے وہ بازل کے ساتھ تھا، ڈیڑھ سال تو سعدیہ خاموش رہی پھر ایک بار مازن سے اس کے دوستوں کے نام پوچھتے ہوئے اس نے بازل کے بارے میں سرسری سی بات کی۔

”کیا سب کو معلوم ہے وہ تمہارا بھائی ہے۔“ اور مازن نے بہت محتاط ہوکر جواب دیا۔

”جی کچھ پرانی ٹیچرز ہیں جنہیں معلوم ہے۔“ سعدیہ نے اگلا سوال کیا۔

”کبھی لڑنا مت اُس سے، بھلے دوستی نہ رکھو پر جھگڑا بھی نہ کرنا، یہ نہ ہو پہلے کی طرح۔“ اور پھر سعدیہ نے اپنی بات اُدھوری چھوڑ دی۔ روانی میں وہ کیا کہنے جارہی تھی مازن جانتا تھا۔

”یہ نہ ہو پہلے کی طرح ٹیچر مجھے کال کرکے بلائیں کہ اپنے بیٹوں کو سمجھائیں۔“ اسی طرح ایک اور دن وہ بے خیالی میں کھانے کے دوران ہی کہنے لگی۔

”اگر بازل ملنا چاہے تو تمہارے ساتھ آسکتا ہے نا؟ پر شاید اُسے تیمور نے آسائشوں کے ڈھیر میں یوں قید کردیا ہے کہ ماں کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔“ پھر جیسے حال میں واپس آتے ہی اُس نے مازن کی نظریں خود پر محسوس کیں اور بولی ۔

”مجھے بھی ایک ہی بیٹا کافی ہے۔“

ماں کے دل کا حال بھی اُسے معلوم تھا اور بازل کے بھی، پر وہ جان بوجھ کر اُنہیں ملانے سے گریز کررہا تھا۔ بازل کے بارے میں جتنا اندازہ اُس نے لگایا تھا وہ یہی تھا کہ ایک بار اُس کی ماں سے ملاقات ہوگئی تو وہ سب گلے شکوے بھلا کر شیر وشکر ہوجائیں۔ عین ممکن ہے بازل باپ کو چھوڑ کر ماں کے پاس آجائے کیوں کہ وہ”قصر تیمور“ میں خوش نہیں تھا۔ پھر مازن کے سارے عیش ختم ہوجاتے جو اُسے ہر گز منظور نہیں تھا۔ وہ بازل کو چھیڑتا ضرور تھا پر اُن دونوں کو ملانے کی سنجیدہ کوشش اب تک نہیں کی تھی اور نہ ایسی کوئی بے وقوفی مستقبل میں کرنے کا ارادہ تھا۔ نہیں ملتے تو نہ ملیں، اُس نے بے نیازی سے کندھے اُچکائے اور بیگ اُٹھا کر گیٹ کی جانب چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ اپنے سر پر سفید کروشیے کی ٹوپی رکھنا نہیں بھولا تھا۔

٭….٭….٭

ڈرائیور نے گاڑی پارک کرتے ہی اُتر کر اس کے لیے دروازہ کھولا اور نہایت ادب سے جھک کر اسکول بیگ اس کے ہاتھ سے لینا چاہا لیکن اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کردیا۔ پھر چپ چاپ سیڑھیوںکی جانب بڑھ گیا۔ اندر داخل ہوکر اس نے طائرانہ نگاہ چاروں جانب دوڑائی۔ آسائشوں سے بھرا گھرانسانوں کے وجود سے خالی تھا۔ بے حد کوفت سے آگے بڑھ کر اس نے کنسول ٹیبل پر دھرے انٹر کام کو اُٹھایا اور زرینہ کو فوراً آنے کی تاکید کی۔ چند منٹ سے زیادہ انتظارنہیں کرنا پڑا تھا، زرینہ ہاتھ باندھے اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔

”جی بابا! آپ نے بلایا؟“

”میں نے کیا کہا تھا آپ سے۔“ اس کی آواز میں رعب تھا۔

”وہ، بازل بابا، میرا بیٹا بڑا گند مچاتا ہے ادھر۔ ابھی صفائی کی تھی میں نے، اس لیے کوارٹر میں چھوڑ آئی تھی اُسے۔“

”میں نے تو آپ سے کبھی نہیں کہا کہ مجھے گھر بالکل صاف چاہیے۔ اُسے پھیلانے دیں، جو گند ڈالنا چاہتا ہے ڈالے، لیکن پلیز یہ ہال آئندہ مجھے خالی نہ ملے۔ سمجھ گئیں آپ؟“

”جی، لے آتی ہوں اُسے ابھی۔“

”تھینکس، اُسے یہاں بٹھا کر پلیز ٹیبل پر کھانا لگادیں، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔“ یہ حکم سنا کر وہ اپنے کمرے میں جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ زرینہ اُسے خوبصورت لہر یازینے سے اوپر جاتے دیکھتی رہی اور اُس کے کمرے میں جاتے ہی واپس مڑ گئی۔ اپنے کوارٹر کی طرف جاتے ہوئے وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔”عجیب ہے بازل بابا بھی، تیمور صاحب کی اولاد تو لگتا ہی نہیں۔ اُنہیں ہماری شکلیں نہیں پسند اور یہ ہر دم سامنے بٹھا کر رکھتا ہے۔“

٭….٭….٭

شاور کی تیز پوچھاڑ کے نیچے ٹائلز کی دیوار پردونوں ہاتھ سیدھے جمائے بازل بالکل ساکت کھڑا رہا۔ پانی کی تیز دھاریں پوری قوت سے اس کے سرکا نشانہ لیے ہوئے تھیں اوروہ بے حس اور منجمد کھڑا تھا۔ سختی سے دانت بھینچے، جبڑے کس کر وہ آنکھیں بند کیے صرف اور صرف پانی کی آواز سننا چاہتا تھا۔

اُسے وہ شور، وہ آوازیں دبانا تھیںجو یادداشت کے پردوں پرطوفان برپا کیے ہوئے تھیں۔ وہ آخری رات، اُس کی ماں، پانی کا شور تیز ترہوتا رہا۔ وہ بہرہ ہوجانا چاہتا تھا مگر شور کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

”جا !جہنم میں چلا جا باپ کے ساتھ۔“

اُس کے جسم میں آگ سی لگی تھی یا شاید دل میں جس نے پورے جسم کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اُسے ٹھنڈا کرنے کے لیے جتنا پانی بہاتا کم تھا۔

٭….٭….٭



”تم ابھی تک لینگویج کی ٹیوشن لیتے ہو، کیوں؟“ اس نے مازن سے بریک میں پوچھا۔

”تمہیں کس نے بتایا؟“ بے پروائی سے فرنچ فرائز کو ساس میں ڈبو کر کھاتے ہوئے مازن نے اُلٹا اُسی سے سوال کر ڈالا اور ساتھ ہی چپس اُسے بھی آفر کردیے۔ بازل نے ایک چپس اٹھا کر منہ میں ڈالا۔

”ثاقب نے بتایاتھا۔ اُس کا تو واقعی مسئلہ ہے مگرتم تو کافی بہتر ہوبلکہ اچھے خاصے ہو۔تو پھر اب تمہیں کیا ضرورت ہے؟“

”ارے سچ بتاﺅں تو گھر سے نکلنے کا بہانہ چاہیے تھا، ورنہ ماما تو بس مجھے گھر میں قید کرکے بٹھا دیتی ہیں۔ ان کا بس چلے تو مجھے اسکول بھی نہ آنے دیں۔“ مازن نے خوف ناک نقشہ کھینچا جس پر بازل کو یقین نہ آیا۔

”اب ایسا بھی نہیں ہے۔“ دونوںساتھ چلتے ہوئے اپنے دوستوں سے ذرا پرے جاکھڑے ہوئے۔ مازن نے جیب سے ٹشو نکال کر ہاتھ صاف کیے۔

”ایسا ہی ہے بازل۔ میں جانتا ہوں تم نہیں،کہ وہ کیا کیا کرسکتی ہیں۔“ بازل کے چہرے پر اداس سی مسکراہٹ نظر آئی۔

”سیریسلی اُنہیں ابھی تک معلوم نہیں ہوا کہ تم اپنی کمزوری پر قابو پاچکے ہو؟ انگلش لینگویج پر عبور حاصل ہے تمہیں۔ محض اپنی بے پروائی سے کم گریڈ ز لاتے ہو ورنہ چاہو تو ٹاپ کرلو۔“ مازن نے جواب میں سعدیہ کے مذہبی جنون پر چوٹ کرتے ہوئے کہا۔

”انہیں صرف یہ معلوم ہے کہ میں پانچ بار نماز کے لیے کہے بغیر کھڑا ہوجاتا ہوں اور قرآن کھولتا ہوں صبح صبح۔ باقی اندر کا کچھ حال نہیں معلوم انہیں، نہ انہیں دلچسپی رہی ہے سوائے دین کے کسی اور بات میں۔ ان کا بس چلے تو وہ کھانا بھی مجھے جا نماز پر دے دیا کریں تاکہ وہاں سے اُٹھوں ہی نہیں۔“ نہایت مزاحیہ انداز میں اس نے ماں کی ذہنی حالت کو طنز کا نشانہ بنایا،مگربازل ہنس نہیں سکا۔ مازن نے مزید کہا۔

”مجھے تم پر بہت رشک آتا ہے۔ ایکچولی تمہیں میری جگہ ہونا چاہیے تھا اور مجھے تمہاری۔“ بازل نے اس کی بات سے اتفاق نہیں کیا۔ ”وہ تمہیں نہیں چھوڑ سکتیں تھیں، بہت محبت کرتی ہیں تم سے۔“ مازن نے غور سے بھائی کی طرف دیکھا، اس کے انداز میں رشک تھا، حسرت تھی، حسد نہیں۔

”اسی لیے کچھ نہیں کہتا ان کے سامنے، ورنہ دل تو چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاپا کے پاس چلا جاﺅں۔“ بازل یہ بات پہلے سے جانتا تھا اُسے اندازہ ہوگیا تھا مازن کی فطرت کس جانب مائل ہے۔

”ویسے تھینکس ٹویو۔ تم پاپا کی طرح خود غرض نہیں ہو ورنہ میں توخود کشی کرلیتا۔“

بازل نے گھڑی دیکھ کر چلنا شروع کیا، بریک ختم ہورہی تھی۔ ”وہ تو تم اب بھی کررہے ہو، ثاقب جیسے لفنگے کا گروپ جوائن کرلیا ہے، جانتے بھی ہو اس کی حرکتیں ٹھیک نہیں ہیں پھر بھی چمٹے رہتے ہو۔“

”اوہ پلیز بھائی ہی رہو یار،ماما نہ بنو۔ وہ ایک ہی ’کاآآ فی ‘ ہیں میرے لیے۔“ بے زاری سے کافی میں ’ا ‘ کو خوب لمبا کھینچ کر وہ بازل کو ہنسانے میں کامیاب ہوگیا جو کلا س میں وقت پر پہنچنے کی جلدی میں چلتا ہوا اس سے چار قدم آگے نکل گیا تو مازن نے پیچھے سے آواز دی۔

”ارے، وہ اپنا فون تو دے کر جاﺅ۔“ بازل نے یہ سن کر چلتے چلتے اپنا فون جیب سے نکالا اور پیچھے لپک کر آتے بھائی کو پکڑا کر آگے بڑھ گیا۔ مازن کی اس مہنگے فون کو دیکھتے ہی آنکھیں چمکنے لگیں۔ انٹر نیٹ کنکشن کی سہولت کے ساتھ یہ اسمارٹ فون اس کے لیے بہت بڑی نعمت تھا۔

وہ سارا دن مازن نے دوستوں میں اپنے فون کی نمائش کرتے گزارا، ہر اُلٹی سیدھی گیم ڈاﺅن لوڈ کی اور غیر ضروری ایپلی کیشنز بھی۔ ثاقب کے بتانے پر کچھ فضول ویب سائٹس کا وزٹ بھی کیا۔ جس کے بعد ثاقب اور اس کا ٹولہ مازن کو ’جوان‘ ہونے کی نوید سناتا رہا۔ یہ کم عمر نوجوان، جن میںبیش ترکے ماں باپ نے ”برائی“ کی پہچان دیے بغیر اور کچھ کے والدین نے دین سے ڈرا کر دنیا کے سمندر میں غوطے کھانے کے لیے چھوڑ دیا تھا، ہر چیز وقت سے پہلے تجربہ کرنے یا اُسے حاصل کرنے کے درپے تھے۔ ”صبر“ جو پچھلی نسل سے وراثت میں نہیں مل سکا تھا، اُسے نئی نسل کہاں سے پیدا کرتی؟ پوری دنیا ان کی دسترس میں تھی،ایسے میں کون اپنے ہاتھ کمر سے باندھ کر خود کو لذتوں سے محروم کرنے کی نادانی کرتا۔ ”معلومات“ کو ’علم‘ سمجھنے کی بھیانک غلطی کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اُس دعا سے واقفیت نہیں رکھتے جس میں اُنہوں نے رب تعالیٰ سے اُس علم سے پناہ مانگی جو نفع نہ دے۔ یہاں سراسر نقصان، گھاٹا ہی گھا ٹاتھا جو ٹولیوں کی صورت جھولیوں میں بھر بھر کر ڈالا جارہا تھا۔

گھر جانے سے پہلے نہایت عقل مندی سے کام لیتے ہوئے مازن نے اپنا فون سائلنٹ پر کیااور ایک موٹی کتاب میں رکھ کر بستے میں چھپالیا۔ سعدیہ نے ایک سیکنڈ ہینڈ کمپیوٹر تو دلایا تھا پر اس میں انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہ تھی۔ یوں اس کی حیثیت ایک ٹائپ رائٹر جیسی تھی جسے وہ اپنی اسائنمنٹس کے لیے استعمال کرتا تھا مگر یہ فون، اسے تو وہ اپنے ساتھ ہر جگہ لے جاسکتا تھا، چھت پر اور باتھ روم میں بھی جہاں سعدیہ کی نظر اس فون پر کبھی نہ پڑتی۔ وہ بہت ایکسائٹڈ تھا، بلاشبہ یہ اُس کی زندگی کا بہترین دن تھا۔

٭….٭….٭

”میرا بیٹا بہت پابندی سے نماز ادا کرتا ہے، ادھر اذان شروع ہوتی ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی مازن جا نماز بچھا کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔“ سعدیہ اپنی کولیگ اور بہت اچھی سہیلی اسما کو اسٹاف روم میں بڑے فخر سے مازن کے بارے میں بتارہی تھی۔ اردگرد بیٹھی کچھ دوسری ٹیچرز بھی متوجہ ہوچکی تھیں، ایک بولی:

”بھئی ہم اپنے بچوں کو بھی تمہارے پاس بھیج دیتے ہیں، انہیں بھی اپنے بیٹے جیسا بنادو۔“ سعدیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی، اسما اس بات سے اتفاق کیا۔

”بے شک سارا کمال سعدیہ کی تربیت کا ہے، ورنہ آج کل کے بچے تو ایسے فضول کاموں میں پڑے رہتے ہیں کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بھی یاد نہیں رہتا۔“

سعدیہ نے فوراً گلا کھنکھار کر صاف کیااور بولی۔”اللہ تعالیٰ نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہی آج کے دور کی کیسی درست نشاندہی کردی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اردگرد ہر کوئی مصروف ہے ، مگر کس چیز میں؟ اپنے فون پر نا، اور کس کوشش میں بھلا؟ فضول میسجز، بے ہودہ باتیں، وقت کا ضیاع ہماری عادت بن چکا ہے۔ یہی وقت ہم کوئی ہنر سیکھنے میں صرف کریں تو کتنا اچھا ہو۔ بہت سے لوگ احادیث اور قرآنی آیات بھی شیئر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ نہیں یہ پلیٹ فارم غلط ہے، اس پر کیا گیایہ کام اپنی افادیت برقرارنہیں رکھ سکتا۔ضرورت ہے قرآن کو سمجھنے کی اور اس کے لیے انٹرنیٹ نہیں، اللہ کی کتاب کھولنا ضروری ہے۔“

”تم فرماﺅ کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ سب سے بڑھ کر ناقص عمل کس کے ہیں ،ان کے جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں گم ہو گئی اور وہ اس خیال میں ہیں کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں۔“

(سورة الکہف،آیت۳۰۱)

سعدیہ نے قرآنی آیات کا ترجمہ ٹھہر ٹھہر کے سنایا۔

سب ٹیچرز نے اثبات میں سرہلایا، دردانہ جو میتھس کی ٹیچر تھیں،کہنے لگیں۔

”تم درس دیتی ہو؟“ سعدیہ مسکرادی۔

”نہیں نہیں، میں اس قابل کہاں؟“اسما نے اُس کی ہمت بڑھائی۔

”کیوں نہیں؟ تمہیں دین کی سمجھ ہے، قرآن کا علم رکھتی ہو اتنا اچھا انداز ہے سمجھانے کا، اگر درس دینا شروع کرو تو ہم جیسی کتنی عورتوں کا بھلا ہوجائے گا۔“ اس دن سب کے کہنے پر سعدیہ نے بھی اس نہج پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا، واقعی یہ اتنا مشکل کام تو نہیں تھا۔

مازن او لیولز میں اَسّی فی صد نمبر لے کر پاس ہوچکا تھا اور اب اے لیولز فرسٹ ائیر میں تھا۔ اُس کی واپسی اکثر شام تک ہوتی تھی۔ سعدیہ بآسانی اسکول کے بعد درس دینے جاسکتی تھی۔ اُس کے حامی بھرتے ہی اسما نے سب سے پہلے اپنی اپارٹمنٹ بلڈنگ میں منعقد ہونے والے میلاد میں اُسے بلوایا۔ جہاں اس کی خوبصورت شخصیت اور د ل نشیں اندازِبیان کو بہت سراہا گیا۔ پہلا تجربہ کامیاب ہونے کے بعد سعدیہ کا حوصلہ بڑھ گیا۔ مازن کی نماز کی پابندی دیکھ کر وہ اس کی طرف سے مطمئن تھی۔ اس لیے جب شام کے اوقات میں درس کے لیے بلاوا آیا تو اس نے انکار نہیں کیا۔

٭….٭….٭

جس اسکول میں مازن اور بازل ساتھ ساتھ پڑھتے رہے اسی کے کالج کیمپس میں دونوں نے اے لیول میں اپنی پسند کے مضامین لیے تھے۔ مازن کا حال ویسا ہی تھا، ایگزامز سے ذرا پہلے وہ دن رات ایک کرکے پاس ہوگیا تھا۔ ذہین تھا، اگر سنجیدگی سے پڑھائی کرنے لگتا تو کافی بہتر کرسکتا تھا۔ بازل نے بہت اچھے گریڈز سے اولیول پاس کیا تھا۔ کالج میں بھی وہ سب ٹیچرز کا فیورٹ تھا، اپنی عادات و اطوار کے سبب ہر ایونٹ میں اُسے ذمہ داریاں سونپی جاتی تھیں۔ مازن کی خرمستیاں ویسے ہی جاری و ساری تھیں۔ بازل کا دیا سیل فون اب مستقل اس کے زیر استعمال تھا۔ بازل دوسرا خرید چکا تھا۔ مازن نے اب بازل کو بڑے بھائی کی طرح ٹریٹ کرنا بند کردیا تھا۔ وہ اُس سے اصرار کرکے پیسے لیا کرتا اور حکمیہ انداز میں اپنی فرمائشیں پوری کروایا کرتا تھا۔ بازل کو اس کی فرمائشوں یا انداز پر اعتراض نہیں تھا، بلکہ اُس کی مشکوک سرگرمیاں اُسے تشویش میں ڈالا کرتی تھیں۔ اُس کی گرل فرینڈز کی لسٹ اُس کے قد سے بھی لمبی تھی۔ آئے دن ان کے لیے مہنگے تحفے تحائف خریدنا بھی ضروری تھا۔ دوسرے اس کے عجیب و غریب دوست جو اس کالج میں نہ ہونے کے باوجود اس سے مستقل رابطے میں رہا کرتے تھے۔ کلاس سے غائب ہونامازن کے لیے کھیل تھااور وہ اکثر کالج کے اوقات میں اپنے دوستوں کے ساتھ باہر چلا جاتا تھا جو موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر اسے پک کرنے آتے تھے۔ کئی باربازل نے اُسے دیکھا تھا جب وہ اپنی کلاس ختم ہونے کے بعد ڈرائیور کے ساتھ گھر کے لیے نکلتا، تو اکثر بنا سائلنسرکی موٹر سائیکلوں پر شور مچاتے لفنگوں کی ٹولی اس کے بھائی کو ساتھ لے جاتی نظر آتی تھی۔ اپنے گروپ میں مازن ’ناسٹی ملا‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ نام اُسے اولیولز میں ثاقب کی جانب سے عنایت کیا گیاتھا،جسے اُس کے سب دوستوں نے بے حدسراہا تھا۔ اس نام کو دینے کی وجہ کروشیے کی وہ سفید ٹوپی تھی جسے ہوم ٹائم پر پہن کر وہ گھر کے لیے روانہ ہوتا تھا اور مازن کے مزاحیہ انداز میں دیے جانے والے وعظ تھے۔ جب وہ دوستوں کو بے ہودہ لطیفے سنانے کے بعدیک دم آواز بھاری کرکے نصیحت کرنے لگتا۔

”بری بات بیٹا، ایسی باتوں سے گناہ ملتا ہے۔آگ میں جلوگے آگ میں۔“ اور سب قہقہے لگا کر ہنستے تھے۔

”سب سے پہلے تو ہم تجھے ہی پکڑ کر ڈالیں گے آگ میں۔ کہہ دیں گے اللہ تعالیٰ سے، ہمارا شیطان تو مازن ہے۔“

”بھئی جتنے گناہ میں کرچکا ہوں نا ڈالنا ہوتا اللہ نے تو کب کا پھینک چکا ہوتا۔ یہ سب بزرگوں کی باتیں ہیں ہمیں ڈرانے کے لیے۔“ ثاقب نے اپنا فلسفہ بیان کیا اور سب نے سرہلا کر اس کی تائید کی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!