بریک کے دوران آیا نے گراﺅنڈ کا ایک چکر لگایا، پھر ایک کونے میں رکھی کرسی پر بیٹھ گئی جو خاص اس کے لیے مخصوص تھی۔ اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد اس نے اپنا ٹفن کھولا اور پراٹھے کے ساتھ خشک آلو کی بھجیا کا مزہ لینے لگی۔ ویسے اس کی ڈیوٹی بریک ٹائم میں بچوں پر نظر رکھنے کی تھی اور یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ بھی تھا۔ ننھے منے بچے ہنستے کھیلتے شور مچاتے پورے گراﺅنڈ میں بھاگے پھرتے۔ اکثر گر جاتے اوراُٹھ کر پھر سے بھاگنے لگتے، بہت کم گر کر چوٹ لگایا کرتے۔ سکینہ ان گلا پھاڑ پھاڑ کے روتے بچوں کو پھر ڈاکٹر کے پاس لے کر بھاگتی جو اسکول کے احاطے میں اپنے کمرے میں موجود ہوتی۔

سکینہ آیا اسکول کی سب سے سینئر آیا تھی اور اسے سب بچوں سے بہت محبت تھی۔ ابھی اس نے آدھا پراٹھا ہی کھایا تھا کہ کچھ عجیب سی آواز آئی۔ یہ ”سسکی“ اس کے عقب میں موجود کلاس فور کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی۔ پھر وقفے وقفے سے بار بار سنائی دینے لگی۔ کچھ حیران ہوکر اس نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے پیٹھ موڑی اور کلاس میں جھانکا۔ کوئی بھی نہیں تھا۔ اچھی طرح نظر دوڑا کر وہ اسے اپنا وہم سمجھ کر دوبارہ سیدھی ہو بیٹھی۔ اسی پل ایک زور دار ہچکی نے اس کی تصدیق کردی کہ کلاس روم میں کوئی موجود ہے جو رو رہا ہے۔ سکینہ نے ہاتھ جھاڑ کر اپنا ٹفن بند کیا اور اسے کرسی پر رکھ کے کلاس کے اندر چلی آئی۔ بہ ظاہر کلاس خالی تھی مگر ہچکیوں کے ساتھ رونے کی آواز نے اس کی رہنمائی کی اور وہ آخری بنچ تک جاپہنچی جہاں بازل کرسی پر بیٹھازارو قطار رو رہا تھا۔ سکینہ نے جھک کر اس کا ہاتھ پکڑا، وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔

”کیا ہوا بیٹا؟ یہاں کیوںبیٹھے ہو؟ جاﺅ باہر جاکر کھیلو۔“ سکینہ نے اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہامگر بازل نے منع کردیا۔

”مجھے نہیں جانا۔“ اس کی آواز خوب رو لینے کے بعد بھاری ہورہی تھی۔ آیا سکینہ نے ایک بچے کی میز پر سے اس کے پانی کی بوتل اٹھائی اور پانی نکال کر بازل کو پلایا۔جب وہ پانی پی چکا اور اس کا رونا تھم گیا تو آیا نے پوچھا۔

”اچھا بتاﺅ کیا ہوا؟ رو کیوں رہے ہو؟“

”میری ماما چلی گئی ہیں۔“بازل پھر سے رونے لگا، سکینہ نے حیران ہوکر پوچھا۔

”کہاں؟“

”پتا نہیں، میرا بھائی بھی چلا گیا۔“ سکینہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔

”تم کیوں نہیں گئے ساتھ؟“

”وہ کہتی ہیں میں جہنم میں جاﺅں گا آیا۔ مجھے آگ سے بہت ڈر لگتا ہے۔“ وہ سکینہ کی گود سے لپٹ گیا۔

”یہ تم سے تمہاری ماں نے کہا؟“ سکینہ کو اس ان دیکھی عورت سے سخت نفرت محسوس ہوئی۔ بھلا بچوں سے بھی کوئی ایسے کہتا ہے۔ بازل نے گردن ہاں میں ہلائی پھر پوچھا۔

”آیا! میں نے اپنی ماما کا کہنا نہیں مانا تھا۔ کیا اللہ مجھے آگ میں ڈال دے گا؟“

”نہیں۔ اللہ تعالیٰ بچوں سے بہت پیار کرتا ہے، وہ انہیں کبھی آگ میں نہیں ڈالے گا۔“

”مگر میں تو بہت گندہ بچہ ہوں، اللہ کیا مجھ سے بھی پیار کرتا ہے؟“

”کوئی بچہ گندہ نہیں ہوتا۔ یہ تو بڑے ہوکر لوگوں کی مت ماری جاتی ہے اور گندے کام کرکے اللہ کو ناراض کردیتے ہیں، پھر بھی وہ معافی مانگ لیں تو اللہ معاف کردیتا ہے۔“

”میں بھی معافی مانگ لوں؟“ بازل کو اللہ کو منانے کی بہت جلدی تھی اس سے پہلے کہ وہ آگ میں پھینکا جاتا۔ سکینہ آیا اس کی گردان پر ماتھے پر ہاتھ مار کر بولیں۔

”اوہو بتایا نا کہ اللہ بچوں سے خفا نہیں ہوتا، بہت پیار کرتا ہے ان سے۔“ اس نے پیار سے بازل کے چہرے پر پھیلے آنسوﺅں کو اپنے دوپٹے سے صاف کیا۔

”اب دیکھو تمہاری ماں تمہیں چھوڑ کر چلی گئی لیکن اللہ تمہارے ساتھ ہے، جانتے ہو کیوں؟“ بازل کو ڈھارس ہوئی کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔

”کیوں ہے اللہ میرے ساتھ؟“ سکینہ اس کے بھول پن پر مسکرائی۔

”کیوں کہ وہ تمہیں ستر ماﺅں سے زیادہ پیار کرتا ہے، وہ تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔“

”اللہ میرے ساتھ ہے تو مجھے نظر کیوں نہیں آتا؟“ بازل کے سوال نے سکینہ کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ پھر اس نے اپنی انگشت شہادت بازل کی ناک کے سامنے سیدھی کھڑی کی اور پوچھا ۔

”یہ انگلی تمہیں نظر آرہی ہے؟“بازل نے سکینہ کی انگلی کو دیکھا اور سر ہلایا۔

”ہاں۔“

”اب اسے دیکھتے رہو۔“ سکینہ نے کہا اور آہستہ آہستہ اپنی انگلی بالکل بازل کی ناک کے سامنے لے آئی۔

”اب؟“ بازل نے آنکھیں چُندھی کیں۔

”تھوڑی تھوڑی۔“ پھر آیا سکینہ نے انگلی بالکل اس کی ناک سے لگا دی۔

”اور اب؟“ بازل کو انگلی دکھائی دینا بند ہوگئی۔وہ حیرت سے اچھل پڑا۔

”غائب ہوگئی۔“ سکینہ مسکرائی۔

”دیکھا یہ انگلی نظر نہیں آئی تمہیں حالاںکہ تمہارے بالکل پاس تھی۔ تو پھر اللہ تو تم سے اس سے بھی زیادہ نزدیک ہے، وہ کیسے نظر آئے گا؟“ بازل یک دم خوش ہوگیا تھا، اس نے ادھر ادھر دیکھا اور کہا۔

”میں اللہ سے باتیں کرسکتا ہوں؟ دوست بنا لوں اسے اپنا؟“

”ضرور باتیں کرو۔ ہر وقت سنتا ہے تم جو کہو گے وہ سنے گا، اور دوست تو وہ پہلے سے ہے تمہارا۔“

”اللہ باتیں کریں گے مجھ سے؟“

”ہاں بالکل۔ جب تم قرآن مجید کھول کر پڑھو گے تو اللہ تعالیٰ بھی تم سے باتیں کرے گا۔“

”ٹھیک ہے میں اللہ کا دوست بنوں گا۔ اس سے ڈھیر ساری باتیں کروں گا۔“

”ضرو ر کرنا، اور یہ بھی کہنا اللہ تعالیٰ سے کہ سکینہ آیا کو بخش دے، اس کے سب گناہ معاف کردے۔“ سکینہ کی آواز بھرا گئی تو بازل نے حیرت سے اسے دیکھا جو اسے چپ کروا کر خود رونے لگی تھی۔

”آپ کی ماما بھی چھوڑ کر چلی گئی ہیں؟“ بازل نے اندازہ لگایا تو سکینہ نم آنکھوں سے مُسکرانے لگی۔

”نہیں وہ میرے پاس ہیں۔ بس تم میرے لیے یہ دعا ضرور کرنا۔ تم ایک بہت اچھے بچے ہو۔ ہمیشہ اچھے رہنا اور اللہ سے یہ بھی کہنا کہ تمہیں سیدھا راستہ دکھائے۔ کرو گے نا دعا؟“ سکینہ نے یقین دہانی چاہی تو اس نے پورے اعتماد سے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا۔

”میں ہمیشہ دعا کروں گا کہ اللہ مجھے سیدھا راستہ دکھائے۔“

”آمین۔“ سکینہ نے فوراً کہا۔

”ثم آمین۔“ بازل بھی خاموش نہ رہ سکا اور سکینہ نے ہنستے ہنستے اسے گلے سے لگا لیا۔

اس دن بازل نے اللہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور اللہ نے اسے مایوس نہیں کیا تھا۔

”اے محبوب تم فرما دوکہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو، میرے فرمانبردار ہو جاﺅ، اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“        ( سورئہ آلِ عمران، آیت ۱۳)

٭….٭….٭

”قصرِ تیمور“ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بازل کی آنکھ شدت پیاس سے کھل گئی۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا تو خالی بوتل زمین پر گر گئی، اسے خود پر شدید غصہ آیا تھا۔ ہر رات وہ اپنے لیے فریج سے ٹھنڈی بوتل لا کر رکھتا اور سونے سے پہلے ختم بھی کردیتا تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سر نیند سے بھاری ہورہا تھا مگر پیاس بھی ناقابل برداشت تھی۔ اس نے اپنی یادداشت کو جی بھر کے کوسا جو ہر روز ایک بوتل کو کافی سمجھتی تھی۔ جھومتے جھامتے وہ کمرے سے باہر آیا اور ریلنگ پکڑ کر سیڑھیاں اترنے لگا۔اسی دم داخلی دروازہ کھول کر تیمور اور فردوس اندر داخل ہوئے وہ دونوں کسی بات پر ہنس رہے تھے۔ تیمور نے سوئچ پر ہاتھ رکھ کر لائٹ آن کی تو ہال روشنی میں نہا گیا۔ بازل کو اپنی آنکھوں پر بازو کا سایہ کرنا پڑا۔ تیز روشنی میں دکھائی دیتا منظر نہایت ناقابلِ برداشت تھا۔

”تم جاگ رہے ہو ابھی تک؟“ تیمور اور فردوس سیڑھیاں چڑھ کر اس کے نزدیک آئے، بازل آنکھیں نیچی رکھے ہوئے سیڑھیاں اترنے لگا۔

”پانی پینے جارہا تھا۔“

”ہائے بے چارہ۔“ اسے اپنے عقب میں فردوس کی آواز سنائی دی۔

”تیمور تم اس کے کمرے میں ایک فریج کیوں نہیں رکھوا دیتے۔“

”یہ کچھ کہتا ہی نہیں، ورنہ بہت پہلے رکھوا دیتا۔ چلو کل کرتا ہوں یہ کام بھی۔“ تیمور نے اپنے جوان ہوتے بیٹے کو خاموشی سے جاتا دیکھ کر کہا، بازل رکا نہیں تھا یہ سن کر بھی وہ بدستور کچن کی جانب بڑھتا رہا۔ تیمور اس پر سے نظریں ہٹا نہیں سکا، اسے مازن یاد آیا تھا۔

”وہ بھی اتنا بڑا ہوگیا ہوگا، اسی طرح لانبا قد نکالا ہوگا اس نے۔“

بیٹے کی یاد نے یک دم بے چین کیا تھا اسے۔ پھر فردوس نے اس کا ہاتھ پکڑا تو چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا، زبردستی مسکرایا اور کہا۔

”چلو۔“

٭….٭….٭

بازل اپنے لیے پانی کی بوتل اوپر لے آیا تھا۔ فردوس اور تیمور کے ہنسنے کی آوازیں ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں، حالاں کہ وہ کمرے میں جاچکے تھے۔ ایک لمبی فہرست تھی ان عورتوں کی جنہیں تیمور اپنے ساتھ کمرے میں لے جاچکا تھا۔ سعدیہ کے گھر سے جانے کے چند دن بعد بازل ایک رات اسی طرح اُٹھ بیٹھا تھا مگر پیاس نہیں خوف کی شدت سے۔ اُس نے خواب میں خود کو آگ میں جلتے دیکھا تھا اور سب سے بڑھ کر اُس کے تھر تھر کانپنے کی وجہ اس کی ماں سعدیہ تھی جس نے گالیاں نکالتے ہوئے اسے آگ میں دھکا دیا تھا۔ اس نے بھڑکتے شعلوں کے پیچھے ماں کا خوف ناک قہقہے لگاتے چہرہ دیکھا وہ چیخ رہی تھی۔

”تو دوزخ میں جلے گا۔“اور بازل روتے روتے اٹھ بیٹھا تھا۔

”مجھے اکیلے کمرے میں نہیں رہنا۔“وہ تیزی سے بستر سے کودا اور باہر نکل کر تیمور کے کمرے کی جانب بھاگا تھا۔ پہلی بار اس نے تیمور کا کمرہ بغیر ناک کیے کھولا تھا اور جو منظر اس نے دیکھا وہ دس سال کے بچے کے لیے ہر گز مناسب نہیں تھا۔

وہ چند لمحوں تک ششدر کھڑا دیکھتا رہا، پھر اُس نے دروازہ بند کیا اور گم صم اپنے کمرے میں واپس چلا آیا۔ چپ چاپ بستر پر لیٹ کر اُس نے آنکھیں بند کرلیں کہ اب اسے آگ سے نہیں بلکہ اپنے باپ سے ڈر لگ رہا تھا۔

بازل کو پہلے بھی ڈراﺅنے خواب آیا کرتے تھے۔ اس وقت وہ مازن کے ساتھ بستر میں جا کر لیٹ جاتا اور آرام سے سو جاتا۔ ایک دن سعدیہ نے صبح اسے مازن کے بستر میں دیکھ لیا۔ وہ اتنا ناراض ہوئی کہ اس نے بازل کو زور سے منہ پر تھپڑ مار کے جگایا تھا۔ تیمور اس وقت بچوں کے رونے کی آواز سن کر وہاں آیا تو بازل نے رو رو کر اس سے سعدیہ کی شکایت کی۔ تیمور نے بازل کو بہلا کر فوراً سعدیہ کو ڈانٹا۔

”اب کیا اس پر بھی پابندی لگاﺅ گی؟“

سعدیہ نے سمجھانا چاہا۔”آپ سمجھ نہیں رہے، یہ عادت ٹھیک نہیں ہے۔ سگے بھائیوں کو بھی ذرا فاصلے سے رہنا چاہیے۔ دس سال کے ہوچکے ہیں، انہیں الگ بستروں میں سونا چاہیے۔ ہمارا دین بھی یہی کہتا ہے کہ….“مگر تیمور نے اس کی بات کاٹ دی۔

”اوہو، اب اس معمولی سی بات پر بھی دین کا فتویٰ صادر کرو گی؟ کیا ہوگا ساتھ سو گئے تو، تھوڑا بہت انجوائے ہی کر لیں گے بچے۔“ تیمور نے ہلکے پھلکے انداز میں کہتے ہوئے سعدیہ کو آنکھ ماری۔ سعدیہ ہکا بکا رہ گئی۔

”یہ، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ بچوں کے سامنے؟ دماغ تو ٹھیک ہے آپ کا؟“

بازل نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ گئے دنوں کی بازگشت شروع ہوتی تو ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ وہ کیا یاد رکھتا،کسے بھول جاتا؟

صبح اسکول کے لیے تیار ہونا اُس کے لیے ضروری تھا۔ پر فجر میں وقت پر جاگنا اس سے کہیں زیادہ اہم۔ سو وہ پانی کے بڑے بڑے گھونٹ پینے کے بعد بستر پر لیٹ گیا۔

اسے پیاس بہت لگتی تھی۔ پیٹ بھر جاتا پیاس نہ بھرتی۔ ایسے جیسے اندر بھانبھڑ جل رہے تھے یاجیسے انگارے سلگتے، آنچ دیتے پورے بدن کو جھلساتے لیکن بھسم نہ کرتے کہ یہ جلن ختم ہو جاتی۔ چھوڑ کر جاتی ہوئی ماں جس الاﺅ میں پھینک گئی تھی وہ ابھی تک اس کے دل میں روشن تھا، اس کی آنکھوں میں جل رہا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!