تیمور نے دروازہ ناک کیا، کوئی جواب نہ ملا۔ اُس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھا، دبایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔ بازل اپنی سٹڈی ٹیبل پر ’Macbeth‘ کھول کر نوٹس بنارہا تھا۔ تیمور نے اُسے پکارا۔

”بازل!“ بازل کا چلتا ہاتھ رک گیا، لیکن اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر چند سیکنڈز بعد ہی دوبارہ لکھنا شروع کردیا۔ تیمور چلتے چلتے اُس کے نزدیک آیا۔

”میں نے دستک دی تھی پر تمہیں آواز نہیں آئی شاید۔ اس لیے میں اند رآگیا، یوڈونٹ مائنڈ، ہاں؟“ بازل نے اُس کی طرف دیکھے بغیر سنجیدگی سے کہا۔

”یہ آپ کا گھر ہے پاپا۔ آپ جب چاہیں جہاں چاہیں بغیر اجازت آجاسکتے ہیں۔“

تیمور نے نوٹ کیا تھا بازل اُس کی جانب دیکھے بغیر بات کرتا ہے۔ نہ جانے یہ ادب تھا یا گریز۔ تیمور ایک سرد آہ بھر کر اُس کے بستر پر بیٹھ گیا۔ بازل اُسے مکمل نظر انداز کیے اپنا کام کرتا رہا۔ تیمور نے خود ہی پوچھا۔

”تم نے وہ کتابیں دیکھیں جو میں نے بھجوائی تھیں۔“

”جی دیکھ لیں۔“

”کہاں رکھی ہیں دکھاﺅ ذرا۔“ تیمور کتابوں کی شیلف میں اپنی کتابوں کو تلاش کرنے لگا۔ بازل نے اپنی ڈسٹ بن کی طرف اشارہ کیا۔

”یہاں رکھی ہیں۔“ تیمور نے اُس کی انگلی کے اشارے کی جانب نگاہ کی تو کوڑے دان میں رکھی کتابوں کے پرزے پرزے دیکھ کر اُسے سخت غصہ چڑھا۔

”یہ، یہ کیا کیا تم نے؟“بازل اُس کے غصہ کی پرواکیے بغیر اپنا کام کرتا رہا۔ تیمور نے آگے بڑھ کر اُس کی کتابیں ہاتھ سے پکڑ کر زمین پر پھینک دیں۔ بازل نے دانت بھینچ کر اپنا غصہ ضبط کیا۔

”میں نے اپنی ساری بکس تمہیں دیں اور ان کا یہ حال کیا تم نے، کیوں کیا ایسا؟“

”مجھے ان کی ضرورت نہیں تھی پاپا۔“

”تو پھر میری اسٹڈی سے اُس دن وہ بک کیوں اُٹھا کر لائے تھے؟“

”وہ میرا دوست اُٹھا کر لایا تھا، میں صرف واپس رکھنے گیا تھا۔“

”جو بھی ہے، اب تمہاری عمر ہوچکی ہے کہ ایک مرد اور عورت کے تعلقات کے بارے میں جان سکو، یہ سب ضروری ہے۔“ اس نے ’ضروری‘ پر زور دیتے ہوئے اس کی اہمیت کا احساس دلانا چاہا۔ بازل کرسی سے اُٹھ کر تیمور کے عین سامنے آکھڑا ہوا۔

”میں سب جانتا ہوں پاپا۔“

”کیا جانتے ہو ©؟“ تیمور نے جیسے چیلنج کیا تھا۔ بازل خود ترسی سی ہنسی ہنسا۔

”سائنس کا سٹوڈنٹ ہوں پاپا۔ اوپر سے آپ کا بیٹا جو اس طرح کی نالج آپ کوعملی طور پر دیتے دیکھ چکا ہے، اس لیے ایسے گھٹیا لٹریچر کی ضرورت نہیں ہے مجھے۔“

تیمور اُسے کچھ دیر خوں خوار نظروں سے گھورتے رہے پھر پلٹ کر ایک زور دار ٹھوکر ڈسٹ بن کو رسید کرتے کمرے سے باہر نکل گئے۔ بازل نے ایک نظر زمین پر بکھرے پلے بوائے میگزینز، آرٹ آف میرج اور جیکی کالنز کے ناول کے پھٹے ہوئے کاغذوں پر ڈالی اور تاسف سے مسکرایا، اُس کے لیے، دین پر عمل کرنا اُس کی ماں اور باپ دونوں نے مشکل بنادیا تھا۔

”اس دنیا کے فریب کیا کم تھے کہ آپ دونوں نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا۔“ اس نے شاپنگ بیگ میں وہ پھٹے کاغذات بھرنے شروع کیے اور رات کو لان کے پچھلے حصے میں لے جاکر اُنہیں جلادیا۔

٭….٭….٭

مازن رات کو گھر پہنچاتھا۔ اُسے اطمینان تھا کہ سعدیہ نے بھی دیر سے آنے کا کہا ہے اس لیے کوئی بہانہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر وہ اس سے پہلے گھر میں موجود تھی۔ مازن کے لیے اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ پہلی بار اُسے گھر کا دروازہ کھلا ملا تھا۔ وہ گھر کے اندر داخل ہوا اور سعدیہ کو آوازیں دیتا ہوا اس کے کمرے تک پہنچا جو گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی، مازن دوڑ کر اس کے پاس آیا۔

”کیا ہوا ماما، آپ ٹھیک ہیں؟“ سعدیہ نے روتے روتے سر اُٹھا کر مازن کو دیکھا اور دونوں ہاتھوں میں اُس کا چہرہ پکڑ کر چومتے ہوئے اسے گلے سے لگالیا۔

”میرا بچہ میرا مازن، تو میرا فخر ہے میرے بچے۔“ سعدیہ کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

”ماما ہوا کیا ہے؟ آپ اس طرح کیوں رو رہی ہیں؟“ مازن کو گھبراہٹ ہونے لگی ۔

”کچھ بتائیں تو سہی آخر ہوا کیا ہے؟“ بڑی مشکل سے سعدیہ نے اپنا رونا بندکیا اور کہا ۔

”میں بازل سے ملنے گئی تھی۔“

مازن کا دل دھک سے رہ گیا، یعنی سارے عیش ختم آج سے، اُف آئی مصیبت۔ اس کا دل چاہا سرپیٹ لے ، پر سعدیہ نے اپنی بات مکمل کی اور اُسے ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی۔

”اس پر تمہارے باپ کا رنگ چڑھ چکا ہے، اُف اتنی بے حیائی۔“ اُس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔ مازن کہے بغیر رہ نہ سکا۔

”میں نے توآپ کو بتایا بھی تھا، وہاں جانے کی کیا ضرورت پیش آئی آپ کو۔ اور اس طرح کیوں رو رہی ہیں آپ اُس کے لیے۔“

”میں اُس کے لیے نہیں رو رہی میرے بچے۔“ سعدیہ نے مازن کے رخسار پر ہاتھ رکھ لیے۔

”میں تو….“ اُسے یک دم کوئی جواب نہیں سوجھا تھا۔ وہ مازن سے کیسے کہتی کہ بازل بھی اُس کی اولاد ہے، وہ اس کے لیے تڑپتی ہے، نہیں وہ یہ کہہ نہیں سکتی تھی کیوں کہ یہ مازن کے ساتھ زیادتی ہوتی، جو اپنے باپ کا آسائشوں بھرا گھر چھوڑ کر ماں کے ساتھ چلا آیا تھا،جس نے ہمیشہ اس کی تربیت کا بھرم رکھا ایک اچھا بیٹا ہونے کے تمام فرائض پورے کیے۔

”میں تو شکر ادا کررہی ہوں کہ تم اس جیسے نہیں۔“

”ہاںمیں اس جیسا نہیں ہوں۔“

”میری بات سنو مازن، اب تم بڑے ہورہے ہو بیٹا۔“ سعدیہ نے جھجکتے ہوئے اُسے سمجھایاکیوں کہ پہلے کبھی اس موضوع پر کھل کر بات نہیں ہوئی تھی مگر اب یہ ضروری ہوگیا تھا۔

”آنکھوں کا زنا مت کرنا کبھی، کسی غیر عورت کی جانب نگاہ نہ کرنا میرے بچے، نظر جھکا کر رکھنا، اپنے بھائی کی طرح بے حیا مت بن جانا۔“ مازن نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکی اور سر نیچے کرلیا۔

”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا: ”لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا جب دین پر عمل کرنا ہاتھ میں جلتا ہوا انگارہ لینے کے برابر ہوگا۔“ سعدیہ نے مازن کا ادب سے جھکا سر دیکھا۔

”مشکل ہے میرے بچے بہت مشکل۔“ اس نے مازن کا سر تھام کر سینے سے لگانا چاہا تو وہ جھجک کر پیچھے ہٹا،مگرسعدیہ اپنی کہتی رہی۔

”اس دنیا میں ایمان پر قائم رہنا بہت مشکل ہے، سوتکلیفوں سے گزرنا ہوگا، ضبط کرنا ہوگا۔ آج کے دور میں ایمان قائم رکھنا ایسے ہی ہے جیسے جلتا انگارہ ہاتھ میںتھامے رکھنا۔“ سعدیہ اپنی رو میں کہتی جارہی، اُسے مازن کی عدم دلچسپی کا اندازہ تک نہیں تھا۔ اُسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بازل بہت پہلے وہ انگارہ ہاتھ میں لے چکا ہے۔

٭….٭….٭

کالج پہنچ کر اُس نے بازل کو ہنس ہنس کے ساری بات سنائی۔

”ماما نے تمہیں پکا سر ٹیفکیٹ دے دیا ہے کہ تم جہنمی ہو، ہاہاہاہا۔“ پہلے تو بازل کو کچھ سمجھ ہی نہ آیا کہ مازن کیا کہہ رہا ہے،پھر جب اُسے پتا چلا کہ پچھلے روز گھر پر آنے والی عورت اُس کی اپنی ماں تھی، جو کمرے میں آکر اس سے ملے بغیر واپس بھی چلی گئی تھی، تو بازل کو سخت صدمے نے گھیر لیا۔

”کیوں؟ آخر ایسا کیا کردیا ہے میں نے؟“ بڑی مشکل سے اس نے آنکھ میں بھر آئے آنسوﺅں کو بہنے سے روکا۔

”یہ کیسی ماں ہے جو اولاد میں فرق کرتی ہے، بنا جانے بوجھے فتوے صادر کرتی رہتی ہے۔“ پہلے دکھ اور پھر شدید غصے نے اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مذاق اُڑاتے مازن سے کچھ کہے بغیر ہی وہ اپنا بیگ اُٹھا کر تیز قدموں سے چلتا ہوا کلاس روم کی جانب بڑھ گیا۔

مازن کو پکا یقین تھا کہ اگلے دن بازل کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

تین دن گزر گئے اور بازل اس کے سائے سے بھی دور رہا، یوں جیسے مازن کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو۔ فرق مازن کو بھی نہیں پڑتا تھا بازل کے نہ ہونے سے، ہاں پیسوں کے نہ ہونے سے ضرور پڑتا تھا۔ اسی لیے ڈھٹائی کی تمام حدیں عبور کرتا وہ لائبریری میں نوٹس بناتے بازل کے پاس جا بیٹھا۔

”کیا حال ہے بھائی؟“ بے تکلفی سے کندھے پر رکھے ہاتھ کو بازل نے نہایت سختی سے جھٹک دیا۔

”ارے یار، اتنے خفا کیوں ہو؟ میں نے کیا کیا؟“

”مجھے کام کرنے دو۔“

”اوکے، تم کام کرتے رہنا لیکن پہلے مجھے دوہزار روپے دے کر فارغ کرو، میں چلاجاﺅں گا۔“

”میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، جاﺅ اپنی ماما سے مانگو۔“

”ایسے نہ کر یار، ثاقب کی برتھ ڈے ہے۔ مجھے تیرے اچھے والے کپڑے بھی چاہیے ہوں گے،وہ میں اُس دن گھر سے پک کرلوں گا فی الحال پیسے تو دو۔“ مازن نے شاید بازل کا جواب ٹھیک سے نہیں سنا تھا یا پھر سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ بازل نے کوئی جواب دیے بغیر اپنی کتابیں اُٹھائیں اور اُسے نظر انداز کرتا ہوا لائبریری سے باہر نکل گیا۔

مازن نے اُسے جاتے ہوئے دیکھا اور سخت بدمزہ ہوکر وہ بھی کرسی سے اُٹھنے ہی والا تھا کہ نظر ٹیبل پر رکھے موبائل فون پر پڑی۔ جلدی میں بازل اپنا فون وہیں بھول گیا تھا۔ مازن کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ اُبھری، کم از کم اس کا ایک مطالبہ تو پورا ہوا۔

کچھ دیر بعد یاد آنے پر بازل اپنا فون لینے لائبریری میں واپس آیا تو وہاں ٹیبل پر کچھ نہیں تھا۔ وہ پریشان ہوکر نکلنے لگا تو لائبریرین نے آواز دے کر روک لیا۔

”یہ مازن شاہ آپ کے لیے دے کر گئے ہیں۔“ انہوں نے ایک کاغذبازل کی طرف بڑھایا اور اس کی سِم بھی۔ بازل نے کاغذدیکھاجس پر لکھا تھا۔

” تھینک یو یار۔“ اس کے ساتھ ایک smiley بھی بنی تھی۔

بازل نے اُس کاغذ کو مٹھی میں دبالیا۔ وہ لاکھ کوشش کرتا بھی تو مازن سے بات چیت ترک کرسکتا تھا، اُسے سبق سکھانے کے لیے پیسے دینے سے بھی ہاتھ کھینچ سکتا تھا مگر وہ کبھی بھی مازن سے نفرت نہیں کرسکتا تھا، کبھی نہیں۔

٭….٭….٭

اگلے دن وہ دونوں معمول کے مطابق مل رہے تھے۔ بازل نے اُس کے لیے کینٹین سے چکن رول اور کولڈ ڈرنک کا ایک کین خریدا اور نیم کے پیڑ کے نیچے لگی بینچ پر اُس کے ساتھ آ بیٹھا۔ مازن اپنے فون پر جو کل تک بے چارے بازل کی ملکیت تھا مزے سے اپنا فیس بک اکاﺅنٹ اپ ڈیٹ کررہا تھا۔ بازل نے اُسے رول پکڑایا اور اُس کے لیے کولڈ ڈرنک کھولتے ہوئے بولا۔

”تم کل ہاف ٹائم میں کہاں غائب ہوگئے تھے؟“

”میں، میں بھاگ گیا تھا۔“ مازن نے ہنستے ہوئے فون اپنی جیب میں رکھا اور رول کھانے لگا۔

”ہاں اب تم بھاگ سکتے ہو، ایک اور بھائی مل گیا ہے نا۔“ بازل نے حسرت سے کہا۔

”ارے میرے بھائی، ثاقب دوست ہے میرا بس۔“ مازن نے بازل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔

”بھائی تو ایک ہی ہے۔“ بازل نے دیکھا مازن بات بے بات کھلا پڑ رہا تھا، اس نے پوچھ ہی لیا۔

”اچھا گئے کہاں تھے اس کے ساتھ، برتھ ڈے تو تین دن بعد ہے۔“

”وہ کل، ہاں گیٹ ٹو گیدر تھی ایسے ہی اُس کے گھر پر، سو میں بھی چلا گیا۔“

اس نے جان چھڑانے والے انداز میں جلدی جلدی کہا اور اپنی چیزیں سمیٹنے لگا۔

”چلتا ہوں،کلاس ہے تھوڑی دیر میں، بائے۔“ بازل حیرانگی سے اُسے جاتے دیکھتا رہا۔ کلاس شروع ہونے میں ابھی پورے پندرہ منٹ باقی تھے۔ نہ جانے مازن کو کس بات کی جلدی تھی۔

دس منٹ بعد بازل بھی اُردو لٹریچر کی کلاس میں پہنچ گیا، وہاں عاصم پہلے سے موجود تھا اُسے دیکھتے ہی وہ کچھ کہنے کے لیے اُس کے پاس آیا تب ہی ٹیچر کلاس روم میں داخل ہوئیں اور اُسے واپس اپنی سیٹ پر جانا پڑا۔ بازل نے اشارے سے پوچھا۔

”سب خیریت؟“ تو عاصم نے اشارے میں ہی جواب دیا۔

”بعد میں بتاتا ہوں۔“ بازل کو لیکچر کے دوران بار بار خیال آتا رہا کہ کیا بات ہوسکتی ہے،عاصم کے پاس یقینا کوئی اہم خبر تھی جو وہ کلاس ختم ہوتے ہی اس کی جانب لپک کر آیا اور ہاتھ پکڑ کر بولا۔

”باہر چلو، ایک چیز دکھانی ہے تمہیں۔“

دونوں باہر نکلے اور عاصم اُسے لے کر کالج کے اُس حصے میں پہنچ گیا جو زیادہ تر سنسان پڑا رہتا تھا۔ بیٹھنے کے بعد عاصم نے اپنا فون اُس کی جانب بڑھایا۔

”دیکھو۔“ بازل کنفیوژ ہوا۔

”تم مجھے بتادو یہ دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟“ عاصم جتنا ایکسائیٹڈ تھا بازل اُسی قدر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہا تھا، عاصم نے چڑ کر کہا۔

”دکھا اس لیے رہا ہوں کہ تمہیں یقین آجائے میں جھوٹ نہیں بول رہا۔“ بازل نے اُسے ایسے دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو پہلے کبھی جھوٹا کہا ہے تمہیں، عاصم نے رازداری سے ادھر ادھر دیکھا اور کہنے لگا۔

”اب سنو، کل ثاقب کے گھر جو گیٹ ٹو گیدر تھی، وہاں ہادیہ اور لیلیٰ بھی گئی تھیں۔ مازن، ثاقب اور فرحان کے علاوہ باقی سارے سینئر تھے۔ شرجیل میرا کزن،وہ جو غنڈہ بنا گھومتا تھا،یاد ہے؟“ بازل کے سراثبات میں ہلانے پر عاصم نے اپنی بات جاری رکھی۔

”وہ ابھی نیا نیا کودا ہے ان کے گروپ میں، یہ کل ملا کر بارہ لڑکے لڑکیاں تھے، سب کپلز۔“

”سمجھ گیا، اب آگے بولو۔“

”بتاتا ہوں، ان لوگوں نے مل کر مووی دیکھی تھی۔“

”مووی دیکھی تھی تو اس میں ایسی کیا بڑی بات ہوگئی عاصم۔“

”پوری بات سنو، کوئی سیدھی سادی مووی نہیں تھی بلکہ ”بلیو لگون“ تھی، بروک شیلڈ کی۔“ عاصم نے اپنی دانست میں بڑا تہلکہ خیز انکشاف کیا، بازل تب بھی نہیں چونکا توعاصم نے اپنے دوست کو یوں دیکھا جیسے اُس کے سر پر بارہ سینگ نکل آئے ہوں، پھر وہ سمجھ گیا کہ بازل اس مووی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔بازل نے عام سے لہجے میں کہا۔

”یار جب دوست اکٹھے ہوں گے تو مووی ہی دیکھیں گے نا، تسبیح لے کر تو نہیں بیٹھیں گے۔“

”اچھی خاصی ولگر مووی ہے وہ اور بات صرف دیکھنے کی حد تک ہی رہتی تو اعتراض کسے تھا، اصل کام تو مووی کے بعد کیا انہوں نے۔“

”کیاکام؟“

”یہ کپلز مووی کی ان تمام حرکتوں کو دہراتے بھی رہے، یہ دیکھو۔“ اس نے موبائل آگے کیا۔

”چلوہم بھی انجوائے کرتے ہیں۔“ مووی کے بعد کسی نے اُٹھ کر نعرہ لگایا تھا۔بازل نظر نہیں ہٹا سکا۔نو عمر لڑکے لڑکیاں جن غیر اخلاقی حرکتوں کا آغاز کرچکے تھے وہ حقیقتاً کسی بے ہودہ مووی کا سین لگ رہا تھا۔وہ چند لمحوں سے زیادہ برداشت نہیں کرسکا اور کراہت سے منہ پھیر لیا۔

”بند کرو پلیز۔“ اس نے ہاتھ سے موبائل پرے کیا۔

”ڈیلیٹ کرو اس ویڈیو کو۔“ عاصم اس کے مطالبے پر حیران ہوا۔چسکے لینے کے بہ جائے وہ ڈپریس ہوگیا تھا۔ عاصم نے تو کئی بار دیکھی تھی سو اس وقت خاموشی سے بندکردی۔

”آئندہ پلیز مجھے نہ دکھانا اس قسم کی ویڈیوز،مجھے شوق نہیں ہے۔“

بازل نے بے زاری سے کہتے ہوئے اپنی واٹر بوتل نکالی اور بڑے بڑے گھونٹ لینے لگا، اس کا حلق کڑوا ہورہا تھا اور ذہن جیسے تعفن سے بھر گیا تھا۔ عاصم چند لمحوں تک اُسے دیکھتا رہا پھر بولا۔

”یہ ویڈیو ’میں‘ تو ڈیلیٹ کردوں گا، لیکن یہ اور بہت سے لوگوں کے پاس سیوڈ ہے۔ مگر تم پلیز مازن کو روکو، اس لڑکے کے ساتھ نہ گھوما کرے، یہ ٹھیک نہیں ہے اور اس ثاقب کے ساتھ جو لڑکی تھی نا گڑیا، وہ تو کال گرل ہے۔“

”کیا نام بتایا؟“ پانی اس کے گلے میں اٹک گیا۔

”سونیا نام ہے ویسے تو، گرائمرمیں پڑھتی تھی، سینئر تھی شرجیل کی وہاں۔ سب گڑیا کہہ کر بلاتے ہیں، برٹش نیشنلٹی ہے اس کے پاس۔ چار سال پہلے پاکستان آئی تھی۔اُس کے باپ کو ڈر تھا کہیں لڑکی بگڑ نہ جائے اس لیے واپس آیا تھامگر یہاں آکر بیوی سے علیحدگی ہوگئی۔ یہ ماں کے ساتھ رہتی ہے جس نے پوری آزادی دے رکھی ہے،خود تو کوئی این جی او چلاتی ہے، پر بیٹی کو فتنہ بنا چھوڑا ہے، اسکول اور کالج بوائز کے لیے ہر وقت دست یاب ہوتی ہے۔“

”تمہیں اتنا سب کیسے معلوم ہے؟“

”یار شرجیل پڑھتا تھا نا اُس کے ساتھ۔ اُسی نے بتایا تھا مجھے۔“ عاصم کے پاس مزید معلومات تھیں اُس تک پہنچانے کے لیے۔

”یہ لڑکی دوبار ری ہیب کلینک سے ہوکر آئی ہے، پکی نشئی ہے، یہ یہاں سے۔“ عاصم نے اپنی ناک کے اُبھار پر انگلی رکھی۔

”ہڈی ٹوٹ گئی تھی اس کی، نشے میں دُھت سیکنڈ فلور سے نیچے جا پڑی تھی۔ اپنے جسم پر جگہ جگہ ٹیٹوزبنوا رکھے ہیں بٹر فلائی کے۔“ عاصم نے آنکھ ماری، بازل بے زار ہوا۔

”میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔“ عاصم نے زور دے کر کہا۔

”نہیں سننا چاہتے ہو تو روکو مازن کو، وہ پرسوں شام گڑیا کے ساتھ تھا۔“ عاصم یہ کہہ کر اپنے فون سے ویڈیو ڈیلیٹ کرنے میں مشغول ہوگیا۔ بازل، مازن کے گڑیا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں جان کر بے حد فکر مند ہوگیا تھا۔ گڑیا نے اُسے بھی کئی ماہ پہلے فون پر دوستی کی پیشکش کی تھی اور اتنی بار کی تھی کہ بازل نے تنگ آکر اس کا نمبر آٹو ریجیکٹ لسٹ میں ڈال دیا تھا۔مازن سے بات کرنے یا سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا،وہ حسب عادت مکر جاتا۔ ویسے بھی وہ صرف بھائی کے کہنے سے راہِ راست پر آنے والا نہیں تھا۔ اسی لیے یہاں کسی بڑے کی مداخلت ضروری تھی۔

لیکن بڑا کون؟ وہ باپ جو خود اس گھناﺅنے فعل کا ہزار بار مرتکب ہوچکا تھا یا پھر ماں، جو اس سے حد درجہ بدگمان تھی، وہ قرآن بھی اُٹھا لیتا تب بھی اُس کی کسی بات کا اعتبار نہ کرتی۔ کس سے کہے، کیا کرے؟ سوچ سوچ کر اس کا دماغ ماﺅف ہونے لگا۔

گھر واپس آکر نہ وہ ٹھیک سے کھانا کھا سکا اور نہ کوئی اور کام ڈھنگ سے کرسکا۔ یونی فارم بدلے بغیر وہ بستر پر گر گیا، ذہن تھک سا گیا تھا اور جسم کی جیسے ساری طاقت نچڑ کر رہ گئی تھی۔ کافی دیر یونہی لیٹے رہنے کے بعد اُس نے ٹی وی آن کرلیا۔ ایک سے دوسرے چینل پر آتے آتے وہ خبروں تک آکر رُک گیا۔ ایک غیر معروف سے چینل کی بریکنگ نیوز نے اُسے چونکا دیا اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور آواز تیز کردی۔ یہ کوئی چھاپہ مار ٹیم اپنے کارنامے کا ذکر ڈنکے کی چوٹ پر کررہی تھی۔ شہر سے دور ایک فارم ہاﺅس پر موجود چند مخیر حضرات نے اپنی تفریح طبع کے لیے کم سِن لڑکوں کو زبردستی قید کررکھا تھا۔ یہ معاشرے میں موجود ایک برائی تھی جس سے بازل واقف تھا،مگر وہ اس لیے نہیں چونکا تھا۔ اُن بچوں کی عمریں گیارہ سے بارہ برس کے درمیان تھیں جن کے ساتھ وہ پانچ اُدھیڑ عمر مرد بدفعلی کرتے پکڑے گئے مگر بازل کے چونکنے کی وجہ یہ بھی نہیں تھی۔ وہ تو ان پانچ مردوں کے نام اور شکلیں دکھاتی اسکرین پر اپنے باپ تیمور کو دیکھ کر چونکا تھاجس کی ہوس کا دائرہ کار عورتوں سے نکل کر اب کم سِن بچوں تک آپہنچا تھا۔ وہ بت بنا اسکرین کو دیکھتا رہا، جہاں تیمور ہتھکڑیاں پہنے نظر آرہا تھا۔

٭….٭….٭



اسکول کی جانب سے ایک رات کے لیے شہر سے باہر کیمپنگ کا انتظام کیا گیا تھا جہاں پر طالب علم خود ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کا جائزہ لے سکتے تھے۔ بعدازاں اسی حوالے سے اُنہیں رپورٹ تیار کرنی تھی۔ اب یہ مازن کی خوش قسمتی تھی یا شاید بدقسمتی کہ کیمپنگ کی تاریخ وہی تھیں جو ثاقب کی برتھ ڈے پارٹی کی تھی۔ اسکول کا نوٹس لے جاکر اُس نے سعدیہ کو دیا جس میں ماں باپ کی طرف سے اجازت درکار تھی۔ اُس نے فوراً دست خط کردیے تھے،یہ جاننے کے بعد کہ بازل اس ٹرپ میں شرکت نہیں کررہا۔

مازن کے دانت نکل رہے تھے، وہ بہت خوش تھا۔ پچھلے کچھ دنوں میں اُس نے ثاقب کے توسط سے زندگی کا ایسا رخ دیکھا تھا جس نے اُسے سرتا پا بدل کر رکھ دیا تھا۔ ’آزادی‘ دراصل کس چڑیا کا نام ہے اُسے اب معلوم ہوا تھا۔

”آخر دین کی ہمیں ضرورت ہی کیا ہے؟جونہ ہمیںاپنی مرضی کے کپڑے پہننے دے نہ کھانے پینے کی آزادی۔ اور تو اور محبت کس سے کرنی ہے یہ بھی مذہب نے طے کرنا ہے تو مجھے نہیں چاہیے بھئی، رہنے دو مولویوں کے پاس۔“ ثاقب کی آواز ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ٹھیک ہی تو کہتا ہے وہ۔

”مذہب تو پابندی ہے جو ماں باپ اپنی اولاد پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے لگاتے ہیں۔ ماما نے بھی تو یہی کیا میرے ساتھ۔“ فرحان بھی اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرتا تھا، مازن کو اس کی ہر بات سوفی صد درست معلوم ہوتی ، وہ کہتا تھا۔

”اگر میرا میلان عورت کی طرف نہیں تو مذہب مجھے کیوں مجبور کرتا ہے کہ میں عورت ہی سے اپنی خواہش پوری کروں؟ ہر انسان کو اس کی قدرتی ضرورت پوری کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ جہاں چاہے جس سے چاہے، کیوں مازن؟“اور مازن کسی روبوٹ کی طرح سرہلادیتا۔ جب بھی وہ لوگ کسی کیفے میں اکٹھے ہوتے تو یہی باتیں چھڑ جاتیں۔ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والوں کو واقعی مذہب پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور مازن کا اپنی شدت پسند مذہبی ماں کے گھر میں دم گھٹتا تھا۔ ایسے میں ثاقب اور فرحان جیسے آزاد خیال دوستوں کا ساتھ غنیمت تھا۔

”تم لوگ دیکھنا….“ ثاقب جو ان سب کا بزرگ تھا، شیشے کا زور دار کش لگاتا فرمائے جاتا۔

”ایک دن پوری دنیا اس بات پر متفق ہوجائے گی کہ انسان کو مذہب کی ضرورت نہیں اور یہ پاکستان بن جائے گا Atheist Republic ،ہاہاہا۔ “ وہ زور دار قہقہہ لگاتا سونیا کے کندھے پر گرتا۔

”بالکل سچ کہا تم نے، ابھی ہمارے پیج پر پانچ ہزار ممبر ہیں جو اردگرد کے شدت پسند مسلمانوں کے سامنے اپنی اصل شناخت کے ساتھ ظاہر نہیں ہوسکتے لیکن ایک دن یہی پانچ ہزار پانچ لاکھ ہوجائیں گے اور پھر پانچ کروڑ۔ ہمیں اکثریت مل گئی تو یہ لوگ ہمیں خوفزدہ نہیں کر پائیں گے۔“ مازن ان سب کے ساتھ ہوتے خود کو کسی اور ہی دنیا کا باسی سمجھتا تھا۔ جہاں ’وہ‘ اہم تھا،اس کی سوچ، اس کی چاہ، اس کی مرضی کی اہمیت تھی۔ کسی بندھے بندھائے اصول و ضوابط کی پیروی نہیں کرنی تھی۔ یہاں وہ آپ اپنا خدا تھا۔

ماں کو ایک رات غائب رہنے کی وجہ فراہم کرنے کے بعد اُس کا ذہن مستقبل کے تانے بانے بننے لگا۔ سعدیہ اپنے کمرے میں درس کے لیے نوٹس تیار کررہی تھی، قرآن مجید اُس کے سامنے کھلا ہوا تھا،جھٹلانے والوں کے انجام سے ڈراتے ہوئے اللہ نے فرمایا:

”کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں وہ کہاں پھیر دیے جاتے ہیں۔ وہ جنہوں نے جھٹلائی کتاب اور جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجا وہ عن قریب جان جائیں گے جب ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور زنجیریں ہوں گی، گھسیٹے جائیں کھولتے پانی میں،پھر آگ میں دہکائے جائیں گے۔“                                                                       (سورة المومن،آیت ۲۷۔۹۶)

اسے نہیں معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بیٹے کی گم راہی سے مطلع فرما رہاہے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!