اس کا کمرہ بلاشبہ اس گھر کا سب سے وسیع اور بہترین کمرہ تھا۔ بازل کے ہمراہ وہ کمرے میں داخل ہوئی اور آہستگی سے چلتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئی۔ بازل اُس کے مقابل بیٹھ گیا،دونوں ایک دوسرے کو مُسکراتے ہوئے دیکھنے لگے۔ کچھ پل یونہی گزرے پھر دونوں کو ہنسی آگئی۔ بازل نے جھینپ کر اپنی جیب میں سے ایک مخملی ڈبیا باہر نکالی اور اسے کھول کر ہیرے کی بیش قیمت انگوٹھی کو نور کی انگلی میں پہنا دیا۔

”بہت خوب صورت ہے، تھینکس۔“

”شکر ہے تمہیں پسند آگئی ورنہ مجھے نئی دلوانے جانا پڑتا۔“ نور مسکرائی۔

”نہیں بہت اچھی ہے۔“ اسی وقت نوکر نے دروازہ ناک کیا۔ بازل نے اُٹھ کر کھولا تو وہ نوریہ کاسوٹ کیس ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔سوٹ کیس ڈریسنگ روم میں رکھوا کر وہ نور کی جانب آیا۔

”تم اطمینان سے چینج کرو، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔“ بازل نے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔ نوریہ نے مُسکرا کر سر جھکا لیا، بازل فوراً کمرے سے باہر چلا گیا۔ نوریہ نے اُٹھ کر اپنا سوٹ کیس کھولا اور سب سے پہلے اپنا لیپ ٹاپ نکال کر میز پر رکھ دیا۔ پھر رات کے پہننے کا لباس نکال کر باتھ روم میں چلی گئی۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر اسے خیال آیا کہ بازل کے ساتھ اس کی کوئی تصویر نہیں کھینچی گئی۔ شمس اپنے عقیدے کا بڑا پکا تھا اس لیے کسی فوٹوگرافر کے بلائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا تھا، مگر بازل سے تو وہ یہ فرمائش کرسکتی تھی۔ یہ خیال آتے ہی وہ باہر نکل آئی اور کمرے کا دروازہ کھول کر بازل کی تلاش میں سنبھل سنبھل کر چلتی ہوئی اسٹڈی کے دروازے تک پہنچ گئی۔ جانے بازل کس طرف گیا تھا۔ اس نے سر گھما کے آگے پیچھے بند کمروں کے دروازوں کو دیکھا پھرا سٹڈی کا دروازہ آہستگی سے کھول کر اندر جھانکا، جو منظر اس نے دیکھا وہ اس کی جان نکالنے کے لیے کافی تھا۔ وہ اُلٹے پیروں واپس اپنے کمرے کی جانب بھاگی اور اندر پہنچ کر دروازہ لاک کرلیا۔

اُس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ یہ کیا ہوگیا تھا؟ بازل نے اُسے دھوکا دیا ؟کتنے جھوٹ بولے، کیوں؟ اُسے ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ نوریہ نے پلٹ کر دروازے کی جانب دیکھا، دروازے کو لاک تو وہ پہلے ہی کرچکی تھی اب آگے بڑھ کر چٹخنی بھی چڑھا دی۔ یہ بازل کا گھر تھا یقینا لاک کی چابی اُس کے پاس ہوگی جسے استعمال کرکے وہ آرام سے اندر آسکتا تھا، چٹخنی لگا کر وہ محفوظ ہوگئی تھی۔ کیا واقعی؟ اس نے خود سے پوچھا۔ آخر کتنی دیر وہ دروازہ بند کرکے بیٹھی رہ سکتی ہے؟ کبھی نہ کبھی تو باہر نکلنا ہوگا۔ غم و غصہ اور بے بسی کے شدید احساس نے ایک بار پھر نوریہ کو رونے پر مجبور کردیا۔ وہ ایک مصیبت سے نکل کر دوسری بلا کا شکار ہوگئی تھی۔ روتے ہوئے بازل کی انگوٹھی اس نے کھینچ کر انگلی سے نکالی اور زمین پر دے ماری۔

٭….٭….٭



”فائر گارڈن“ کی تصاویر نے اُسے الجھن میں ڈال دیا تھا۔ ناسٹی نے اس کے کہنے پر اگلی رات صرف ایک تصویر بھیجی جس میں وہ اکیلا تھا۔ نور نے اسے دیکھتے ہی سر پیٹ لیا کیوں کہ صورت تو اب بھی واضح نہیں تھی۔ اس کا حلیہ اور میک اپ باقی لوگوں جیسا ہی تھا۔ سفید لینز، سر پروگ، چہرے پر سیاہ ٹیٹوز اور سرخ ہونٹ جیسے خون رس رہا ہو۔ لباس کے نام پر شارٹس تھے، باقی پورے جسم پر عجیب و غریب نقش و نگار بنے تھے۔ گردن میں چھوٹی چھوٹی کھوپڑیوں کی مالا تھی اور کانوں میں سرخ پروں والے ایئر رنگز، ہاتھوں کی انگلیوں میں لوہے کی نوک دار انگوٹھیاں اور کلائی میں موٹی زنجیر کے ساتھ ایک پتلا سا سانپ لپٹا ہوا تھا۔ نور کو جھرجھری آگئی اور اس نے گھبرا کر کمپیوٹر بند کردیا۔

اگلے دن بار بار اُس کا خیال آتا مگر ساتھ ہی ایک بے نام سا خوف بھی دل میں ڈیرہ جما لیتا تھا۔

”اگر ناسٹی واقعی میں ایسا ہے تو اب میں کبھی اس سے بات نہیں کروں گی۔“

لیکن رات ڈھلتے ہی اس کے تمام ارادے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ وہ اس کا واحد دوست تھا، اس سے بات کرکے نور اپنی ساری تکلیفیں بھول جاتی تھی۔ خود کو سمجھاتے ہوئے کہ ناسٹی کی سرگرمیاں اُس کا پرسنل معاملہ ہیں۔ اگر دوست کی حیثیت سے پرکھا جائے تو وہ ایک مخلص انسان ہے، نوریہ نے اُس سے تعلق توڑنے کا ارادہ ترک کردیا۔ اگلے کئی ہفتوں تک وہ دونوں لگاتار ایک دوسرے سے بات کرتے رہے۔ ایک رات نوریہ نے حسرت سے کہا۔

”تم لڑکوں کے کتنے مزے ہوتے ہیں، کاش میں تمہاری جگہ ہوتی۔“

”مطلب؟“ ناسٹی شاید سمجھ نہیں پایا تھا۔

”یعنی میں لڑکا ہوتی اور اپنی مرضی سے زندگی گزارتی، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ ہوتا۔“ جواب میں ناسٹی کی طرف سے ہنس ہنس کر آنسوﺅں سے روتا emojiبھیجا گیا۔

”تمہیں لگتا ہے کہ لڑکوں پر کوئی پابندیاں نہیں ہوتیں، اس لیے وہ جو چاہے آرام سے کرسکتے ہیں؟“

”ہاں بالکل، اب تمہاری مثال ہے میرے سامنے۔ ایسے الٹے سیدھے حلیے میں رہتے ہو، یہ عجیب و غریب بھڑکیلے ملبوسات، کھوپڑی والے نیکلس، ناخنوں پر بلیک نیل پالش۔ ظاہر ہے تمہیں کوئی ٹوکتا نہیں تب ہی ایسے کرتے ہو۔“

”ہاہاہا، سٹوپڈ گرل۔ یہ حلیہ ایک خاص پارٹی کے لیے تھا۔ ہمیشہ ایسے تھوڑی ڈریس اپ ہوتا ہوں میں۔“

”پھر بھی، تم اپنی مرضی تو کرسکتے ہو ناں۔ میں تو ایک بے ضرر سا شوق بھی پورا نہیں کرسکتی اپنا۔“

”کون سا شوق پورا کرنا چاہتی ہو تم؟“

”مجھے ایک پوڈل خریدنا تھا۔“ نوریہ نے اداس emoji کے ساتھ لکھ بھیجا۔

”تو خرید لو، اس میں کیا بڑی بات ہے؟“

”تمہارے لیے تو واقعی بڑی بات نہیں ہے مگر میرے لیے ہے، میں ایک لڑکی ہوں جسے اپنے باپ کی مرضی کے بغیر کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں اور وہ کہتا ہے کہ کتا پالنا اسلام میں جائز نہیں۔“ ”تو اصل مسئلہ تمہاری جنس نہیں، کیوں کہ اگر تم لڑکا ہوتیں تب بھی یہی دلیل دے کر تمہیں تمہارے من پسند کاموں سے روکا جاتا۔“ اور نوریہ سوچ میں پڑ گئی۔

”ہاں، شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔“

”شاید نہیں یقینا میں ٹھیک ہی کہہ رہا ہوں، دراصل یہ مذہب ہی سارے فساد کی جڑ ہے۔“

”کون سا مذہب؟ تم کیا کہہ رہے ہو؟“

”میں اسلام، عیسائیت، ہندو ازم ہر ایک کی بات کررہا ہوں۔“

”پلیز ایسی باتیں مت کرو۔ ہمیں گناہ ملے گا۔“ نور ڈر گئی تھی اس کی بے باکی سے۔

”کیوں گناہ ملے گا؟ تمہارے اسلام میں عقل استعمال کرنے پر پابندی ہے کیا؟“

”میرا اسلام کیا مطلب؟ تم بھی تو مسلمان ہو۔“

”نہیں، میں ہر مذہب سے کنارہ کش ہوں۔ یہاں سب انسانوں کا بنایا ہوا عقیدہ ہے، میں کسی خدا کسی پیغمبر کو نہیں مانتا۔“ یہ پڑھ کر نور کی سٹی گم ہوگئی۔ ناسٹی بھی شاید بزی ہوگیا تھا جو اس کے بعد بات نہیں کی۔ وہ لیپ ٹاپ شٹ ڈاﺅن کرکے لیٹ گئی۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ ہاتھ پیر کانپ رہے تھے۔ اُسے اپنی بے وقوفی پر سخت تاﺅآرہا تھا۔ پہلے دن ہی اُسے سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ”ناسٹی“ ملحد ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے کا منکر۔ اس کے فیس بک پر لکھے اسٹیٹس اور شیئر کی گئی پوسٹ ہمیشہ توہین آمیز مواد پر مبنی ہوا کرتیں۔ جن میں نہ صرف احادیث اور قرآنی آیات بلکہ دیگر الہامی کتابوں سے لیے گئے اقتباسات کو بھی مذاق کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ وہ صرف منکر ہی نہیں، گستاخ بھی ہے۔ نوریہ کو اب حقیقت حال سمجھ آرہی تھی۔ اسی لیے وہ اپنی اصل شناخت ظاہر نہیں کرتا کہ اسے پہچان کر قتل نہ کردیا جائے، یہاں اس ملک میں کھل کر جینے کا حق کسی کو بھی نہیں۔ اس نے سوچا، لڑکا ہو یا لڑکی، پابندیاں سب کے لیے ہیں۔ زندگی سب کی تنگ ہے، سوچ پہ پہرا سب کے لگا دیا گیا ہے۔ نہ جانے کیوں نوریہ کو ناسٹی سے ہم دردی محسوس ہونے لگی۔ اگلی کئی راتیں وہ ناسٹی کے اکاﺅنٹ پر موجود معلومات دیکھتی رہی۔ اس نے کئی گروپس جوائن کررکھے تھے۔ وہ لسٹ میں موجود ہر گروپ کے پیج پر گئی اور ان کے کمنٹس پڑھتی رہی اور حیران ہوتی رہی۔ یہ کس دنیا کے لوگ تھے؟ بے باک اور بے فکرے، معاشرے کی ہر پابندی، دین و مذہب کے عائد کردہ ہر اصول کو پیروں تلے روند کر اپنی آزادی کا جشن مناتے مرد عورتوں کے حلیے میں اور عورتیں…. اُسے گھبراہٹ ہونے لگی۔

لیکن اس نے ناسٹی کی دوستی نہیں چھوڑی۔ وہ اس کا آئیڈیل تھا جس نے کسی بھی پابندی کو پاﺅں کی زنجیر بننے نہیں دیا تھا۔ اس کی سوچ آزاد تھی جب کہ نوریہ اپنے باپ کے نافذ کردہ اصولوں کی قیدی تو تھی ہی پر اس سے کہیں زیادہ ان بیڑیوں میں جکڑی ہوئی تھی جو شمس کے بہ قول اسلام نے اس پر لاگو کر چھوڑی تھیں۔

آہستہ آہستہ اس نے بھی تسلیم کرنا شروع کردیا کہ سارے مسائل مذہب کے پیدا کردہ ہیں جو ساری پابندیاں اُس پر عائد کرتا ہے، اس کے باپ پر نہیں۔ اس کا باپ جومے نوشی اور بدکرداری کے تمام ریکارڈ توڑنے کے بعد تائب ہوکر پارسا بن گیا تھا،جب کہ نوریہ مجرم نہ ہوکر بھی ناپاک اور معتوب ٹھہری تھی۔ شمس اس کا ولی ہونے کی حیثیت سے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے ناکردہ گناہوں کے سرزد ہو جانے کا خوف اس پر مسلط کیے بیٹھا تھا، وہ کیا حق بہ جانب ہے جو یہ کہہ کر ڈراتا ہے کہ”دوزخ میں گئی تو بچا نہ سکوں گا۔“ اگر بچا نہیں سکتا تو ولی کیسے ہوا۔ نوریہ کی زندگی پر اُسے اختیار کیوں دیا گیا؟

ایسے بہت سارے سوال اس کے ذہن میں پیدا ہوئے جن کا جواب ”ناسٹی“ بڑی سہولت سے دے کر اس کی تشفی کردیتا۔

”تمہارا دین بھی تمہارے باپ نے تم پر مسلط کیا ہے تاکہ تم پرکنٹرول حاصل کرسکے جو وہ تمہاری ماں پر نہ کرسکا، کوئی مذہب خدائی نہیں ہوتا (نعوذ باللہ)،سب بندوں کے بنائے اصول ہیں۔ ہسٹری پڑھ لو تم،بادشاہوں نے راہبوں کو خرید کر اپنی منشاکے مطابق اصول وضع کیے۔ مرد بھی عورت پر حاکمیت قائم رکھنے کے لیے مذہب کی آڑ لے کر پابندیاں عائد کرتا ہے۔“

”تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔“ جانتی تھی وہ پہلے سے، انجیل کو اپنے ہاتھ سے لکھنے والوں نے کیا کیا غضب ڈھائے، حاکم کیسے اپنا الو سیدھا کیا کرتے۔بادشاہی حکم، خدائی حکم بن کر کیسے بجلیاں گراتا تھا۔ ناسٹی حرف بہ حرف سچ ہی تو کہہ رہا تھا، وہ قائل ہونے لگی۔

”اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟“

”سب سے پہلے تو اپنا ذہن استعمال کرو۔ ان بیڑیوں کو توڑ ڈالو جو تمہارے ذہن کو جکڑے ہوئے ہیں۔ تمہیں زندگی کیسے گزارنی ہے یہ فیصلہ تمہارا ہونا چاہیے، تمہارے باپ کا نہیں۔“ اور نوریہ کے لیے شمس کا ہر حکم دین اسلام کی مہر لیے ہوئے تھا۔ وہ ہر بات یہی کہہ کر منوایا کرتا تھا کہ اسلام یہ کہتا ہے کہ باپ کا حکم ماننا تم پر فرض ہے۔ سو نوریہ کے لیے اس بیڑی کو توڑنا بہت آسان تھا۔ شمس سے وہ سخت متنفر تھی اور اسلام کو شمس کی آنکھوں سے دیکھتے دیکھتے قابل نفرت گردان رہی تھی۔ یوں کسی پر ظاہر کیے بغیر اس نے ”ناسٹی“ کے کہنے پر عمل کیا اور خود سے وعدہ کیا کہ کسی بھی مذہب کو خاطر میں نہیں لائے گی۔ اس کے بعد وہ پُرسکون ہوگئی۔ دل پر شرمندگی کا جو بوجھ تھا وہ ہٹ گیا۔ اب اسے انتظار تھا اس دن کا جب وہ شمس کو چھوڑ کر جاسکتی۔ اپنے اندر ہمت جمع کرتے کرتے وہ ناسٹی کے پاس جانے کا پلان بنا رہی تھی کہ اچانک ان کا رابطہ ختم ہوگیا۔ ناسٹی اچانک ہی کہیں غائب ہوگیا۔ وہ چار دن نور کے لیے بڑے مشکل دن تھے۔ کالج کی اسائنمنٹس، گھر کا کام، سب نظرانداز ہورہا تھا۔ کاش شمس مر جائے، اس نے شدید خواہش کے پیش نظر اس کی قبر کا اسکیچ بنانا شروع کردیا۔ پھر گھڑیال کے بیچوں بیچ اپنے باپ کا نام لکھ کر سنگ دلی سے ہنستی چلی گئی۔

ارم وہ اسکیچ نہ دیکھتی تو شاید وہ کالج نہ چھوٹتا۔ زندگی اتنی مشکل نہ ہوتی۔ شاید نوریہ اپنے رب سے بدگمان نہ ہوتی کہ اول روز سے ساری آزمائشیں اسی کا مقدر رہی تھیں۔ دل چاہا شمس کا قتل کردے اور ہمیشہ کی طرح اس نے اپنے دل کی بات ناسٹی سے شیئر کی۔ بھلے وہ کچھ دن سے آن لائن نہیں ہورہا تھا پر جب بھی آتا، پڑھ لیتا۔ اس کے غائب ہوجانے کی وجہ پوچھ کر نور نے شمس کے قتل کا ارادہ ظاہر کردیا اور اتفاق تھا کہ اسی لمحے وہ آن لائن ہوا اور باتوں ہی باتوں میں نوریہ کا سب ڈپریشن ہوا ہوگیا۔

اسے دین کی بیڑیوں سے آزاد کروانے والا وہی تھا اور شمس کی قید سے چھڑانے والا بھی وہی۔ جواب مجازی خدا کے روپ میں اس کی زندگی کا ہم سفر بن چکا تھا۔ تو پھر کیوں وہ واپس اسی راستے پر پلٹ گیا جسے چھوڑ آیا تھا؟ وہ نماز کیوں پڑھ رہا تھا؟

نوریہ نے اپنی یادداشت پر شک کرتے ہوئے لیپ ٹاپ کھولا تھا اور ناسٹی ملا( بازل)کی طرف سے بھیجے گئے تمام میسجز دوبارہ پڑھے تھے۔ وہ غلط نہیں سمجھی تھی مگر بازل اب بہت غلط کررہا تھا اور زیادہ غلط بھی کرسکتا تھا۔ شمس جیسے مذہبی جنونی کی قید سے آزاد ہوکر وہ بازل کے چنگل میں پھنس گئی تھی۔

بازل نماز پڑھ کر واپس آیا تو کمرے کا دروازہ بندتھا۔ اسے حیرت ہوئی۔ہلکی سی دستک دیتے ہوئے اس نے نوریہ کو پکارا، کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ دوسری بار دستک دینے کے لیے ہاتھ اٹھانے ہی والا تھا کہ رُک گیا۔ نوریہ نے جان بوجھ کر دروازہ لاک کیا تھا کیوں کہ وہ بازل کو اندر آنے سے روکنا چاہتی تھی اور اس کی وجہ وہ خوف ناک حادثہ ہوسکتا ہے جو بارہ سال کی عمر میں اس کے ساتھ پیش آیا۔ بازل اُلٹے پیروں واپس سٹڈی میں آگیا۔

باتھ روم میں اس کا نائٹ سوٹ لٹک رہا تھا۔وہ اکثر یہاں لباس تبدیل کرکے رات گئے تک پڑھتا رہتا تھا۔ اپنے کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ صوفے پر لیٹ گیا اور جلد ہی اسے نیند آگئی۔

٭….٭….٭

صبح فجر کی اذان کی تیز آواز پر اس کی آنکھ کھل گئی۔ مسجد شاید اس کے گھر کے بالکل پاس تھی۔ وہ عادتاً اٹھ کر بیٹھی مگر بستر سے اترتے ہی اسے احساس ہوا کہ وہ نئے گھر میں ہے، بازل کے گھر میں۔ یہاں اس نے دروازہ لاک کر رکھا تھا۔ کوئی مجبوری نہیں تھی نماز پڑھنے کی۔یہاں شمس کھلے دروازے سے اس پر پہرہ دینے نہیں بیٹھا تھا۔ اس وقت وہ اپنی مرضی کی مالک تھی۔ نماز ادا کرنے کا ڈھونگ رچانے کی ضرورت نہیں تھی۔ سو مزے سے واپس بستر پر لیٹی اور جلد ہی دوبارہ سو گئی۔

٭….٭….٭

بازل نماز ادا کرنے کے بعد حسب معمول قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگا۔ ترجمہ پڑھنے کے بعد اس نے اسٹڈی کا دروازہ کھول کر اپنے کمرے کی طرف دیکھا۔ دروازے کی درز سے اندھیرا جھانک رہا تھا۔ ایک گہری سانس لے کر اس نے اپنے پیچھے آہستہ سے دروازہ بند کیا اور لان میں چہل قدمی کے لیے چلا گیا۔

٭….٭….٭

سورج کی تیز کرنیں عین اُس کی آنکھوں پر پڑ رہی تھیں۔ اس نے پہلے تکیہ سر پر رکھا لیکن سو نہیں پائی تو اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ گھڑی میں دکھائی دیتے وقت کے حساب سے فجر کے بعد وہ دو گھنٹے اور سوئی تھی۔ نیند پوری ہوچکی تھی۔ وہ بستر سے نیچے اتری اور شاور لینے باتھ روم میں چلی گئی۔

جب وہ بالوں پر تولیہ لپیٹتی ہوئی باتھ روم سے باہر آئی تو دروازے پر دستک ہوئی۔ یہ بازل تھا، اُسے ہاسپٹل جانے سے پہلے لباس تبدیل کرنا تھا۔ اس لیے نور کو آواز دیتا دروازہ کھٹکٹھا رہا تھا۔ نوریہ سوچ میں پڑ گئی، کیا کرے، شمس کی طرح بازل نے اسے خوف زدہ نہیں کیا تھا۔ مجھے کیا ضرورت ہے ڈرنے کی۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا، ہمت کرتے ہی اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔

”السلام علیکم۔“ بازل اسے دیکھ کر مُسکرایا تھا۔ نوریہ نے کوئی جواب دیے بغیر زمین پر بیٹھ کر اپنا سوٹ کیس کھول لیا اور سامان نکالنے لگی۔ بازل اُس کی خاموشی سمجھ نہیں پایا۔ اُس نے اندر آکر کمرے کا دروازہ آہستگی سے بند کیا اور ڈریسنگ روم کی طرف بڑھا۔ تب ہی پیروں میں کچھ چبھا، اس نے پیر ہٹایا، پھر جھک کر وہ ہیرے کی انگوٹھی قالین سے اٹھائی جسے کل رات اس نے نوریہ کی انگلی میں پہنایا تھا۔

”تم ناراض ہو؟“ بازل اس کے نزدیک آیا، نوریہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بازل نے تھوڑا سا جھک کر نرمی سے اُس کا کندھا چھوا۔

”کیا ہوا نور؟“ وہ ناگن کی طرح بل کھا کر پلٹی۔

”ہاتھ مت لگانا مجھے۔“ وہ غصے سے کہتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

”کیا ہوگیا ہے تمہیں؟“ بازل کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔

”تم ناراض ہو؟ شاید مجھے دیر ہوگئی تھی۔ آئی ایم سوری۔“

”تم نماز کیوں پڑھ رہے تھے؟“

”کیا مطلب کیوں پڑھ رہا تھا؟“ بازل نے پوچھا پھر اس کے ذہن میں جھماکا ہوا اور اُسے یاد آیا کہ نوریہ اسے کیا سمجھ رہی تھی۔

”یہاں توکوئی نہیں تھا جس کے سامنے تمہیں دین دار ہونے کا ڈرامہ کرنا پڑے، تم تو صرف میرے باپ کو متاثر کرنے کے لیے ان کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تھے نا۔بولو، یہی کہا تھا نا تم نے؟“

”ہاں میں نے کہا تھا۔“ بازل نے کیسے کسی جرم کا اعتراف کیا تھا۔

”تم نے یہ بھی کہا تھا کہ تم دہریے ہو، کسی دین کو نہیں مانتے، کسی پیغمبر کو نہیں جانتے۔“نور بپھری ہوئی تھی۔

”بولو کہا تھا نا تم نے؟“ بازل یہ سن کر تڑپ سا گیا۔

”بھول جاﺅ وہ سب کچھ۔ پلیز مت دہراﺅ اسے، میں توبہ کرچکا ہوں۔“

”تو مجھے بتایا کیوں نہیں؟ میں تم سے کبھی شادی نہ کرتی۔ تم نے میرے باپ کے ساتھ مل کر مجھے دھوکا دیا ہے۔“

”نوریہ! تم سب کچھ غلط سمجھ رہی ہو، ایسا نہیں ہے۔“

”ایسا ہی ہے۔“ نور زار و قطار رونے لگی۔

”تم مردوں کو سب گناہ کرنے کی چھوٹ ہے، توبہ کرتے ہو اور پاک ہو جاتے ہو، ایک میرا باپ اور دوسرے تم۔ نمازیں پڑھ کر اپنے سب گناہ معاف کرالیے۔مجھے نہیں رہنا تم جیسے دین داروں کے ساتھ، میں مسلمان نہیں ہوں تم مجھے چھوڑ دو۔“

”یہ کیسی باتیں کررہی ہو تم؟“ بازل نے اس کے دونوں بازو پکڑ کر جھنجھوڑا۔

”ہوش میں آﺅ۔“ نوریہ نے بے دردی سے اپنے آنسو پونچھے۔

”مجھ سے شادی حلال نہیں ہے تمہارے لیے۔ تم مسلمان ہو نا،تو چھوڑ دو مجھے۔“

”تمہارے عقیدے میں شادیاں کس طرح ہوتی ہیں؟“ بازل نے پوچھا لیکن نوریہ کوئی جواب نہ دے سکی۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پورے اعتماد سے بازل نے کہا۔

”میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا، بیوی ہو تم میری۔“

”لیکن میں اس شادی کو نہیں مانتی۔“

”تو مت مانو،مگر میں نے اللہ اور رسول کو گواہ بناکر تمہیں اپنی زندگی میں شامل کیا ہے۔ تم نے تسلیم نہیں کیا تو تمہیں حق ہے مجھے چھوڑ کر چلی جاﺅ۔ یہاں رہو گی تو میں تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہونے دوں گا، تم جو چاہو جیسے چاہو کرو۔ میں تم پر کوئی زبردستی نہیں کروں گا، یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔“ بازل نے مضبوط لہجے میں اسے یقین دلایا، نوریہ کو حیرت ہوئی اس کے الفاظ سن کر۔ یقین آیا تھا یا نہیں بہرحال وہ نرم ضرور پڑ گئی تھی۔ بازل نے اُس کے بازو چھوڑ دیے۔

”تم سوچنے کے لیے جتنا چاہو وقت لے لو اور فیصلہ کرلو۔ تمہیں شمس کے پاس واپس جانا ہے یا یہاں رہو گی، تم جیسے کہو گی میں تمہارا انتظام کردوں گا۔“

اپنی بات ختم کرکے بازل نے الماری سے کپڑے نکالے اور تیار ہونے چلا گیا۔

جب وہ باہر آیا تو نوریہ کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا۔

”میں ہاسپٹل جارہا ہوں۔ جاوید نے میز پر ناشتہ لگا دیا ہے اگر تمہیں اچھا نہ لگے تو اپنی پسند اسے بتا دینا وہ بنا دے گا۔“ بازل نے دراز سے اپنی گھڑی نکال کر پہنتے ہوئے کہا۔ نوریہ نے کچھ کہنے کے بہ جائے سر ہلا دیا۔ اپنا والٹ جیب میں ڈالتے ہوئے بازل دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

”اللہ حافظ۔“

نور نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

بازل کے گھر سے نکلنے کے ایک گھنٹے بعد وہ میز پر ناشتہ کرنے پہنچی تھی۔ کمرے سے تو وہ بہت پہلے نکل آئی تھی لیکن پورے گھر کا ایک ایک کمرہ دیکھنے اور لان کا چکر لگانے میں اچھا خاصا وقت صرف ہوگیا تھا۔ بلاشبہ گھر بہت خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔ دل ہی دل میں سراہتی ہوئی وہ میز تک چلی آئی۔ جاوید نے اُس کے آنے کے بعد گرم گرم ناشتہ سرو کیا۔ نوریہ کو اس کے ہاتھ کی بنی سب چیزیں ذائقہ دار معلوم ہوئیں تو اس نے کھل کر تعریف کردی، جاوید خوشی سے نہال ہوگیا۔

”میڈم آپ کا بہت بہت شکریہ، آپ بھی بازل بھائی کی طرح بہت اچھی ہیں۔“

نور ہنس پڑی۔ وہ اس کی تعظیم میں زمین پر بچھا جارہا تھا، ڈٹ کر مزے دار سا ناشتہ کرنے کے بعد اس کا موڈ خوش گوار ہوگیا تھا۔

”اچھا یہ بتاﺅ جاوید، یہ تمہارے بازل بھائی ہاسپٹل کیوں گئے ہیں؟“

”جی وہ ان کی والدہ بیمار ہیں نا، انہی سے ملنے گئے ہیں۔“ جاوید نے مینٹل ہاسپٹل کا ذکر گول کردیا۔ نوریہ اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔

”اور ان کے والد، وہ کہاں ہیں؟“

”وہ بھی ہاسپٹل میں ہیں جی۔“

”دونوں؟“ نور نے حیرانی سے کہا۔

”ایسا کیا ہوا ہے جو دونوں گھر نہیں آسکتے؟“

اسی وقت فون کی گھنٹی بجی، جاوید سر پٹ دوڑا۔پھر اس نے آکر بتایا کہ بازل صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

نوریہ جاوید کے سامنے کوئی تماشا نہیں کرنا چاہتی تھی، سو چپ چاپ اٹھ کر فون کے پاس آگئی۔

”ہیلو۔“ نور نے آہستگی سے کہا۔ دوسری طرف سے بازل کی آواز سنائی دی۔

”نوریہ آپ کے کپڑے اور زیور ڈریسنگ روم میں ہے، شام میں ولیمے کی دعوت ہے تیار رہیے گا۔“ اس کے بعدفون ڈس کنکٹ ہوگیا۔ نور حیرت سے ریسیور ہاتھ میں پکڑے کھڑی رہ گئی۔

شام چھے بجے وہ گھر واپس آیا تو دیکھا نوریہ تیار ہورہی ہے۔ اپنی مُسکراہٹ دبا کر اُس نے سلام کیا جس کا حسب توقع نوریہ نے جواب دینا گوارا نہیں کیا۔ وہ تیکھے چتون لیے اپنا آپ سجاتی رہی۔ بازل بھی الماری سے اپنا سوٹ نکال کر تیار ہونے چلا گیا۔

نوریہ نے اس کے جانے کے بعد ایک گہرا سانس لیا اور اپنی حالت پر ترس کھانے لگی۔ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ وہ اس گھر کے علاوہ اور کہیں نہیں رہ سکتی تھی۔ کوئی ڈگری نہ ہونے کے باعث اُسے نوکری بھی نہیں مل سکتی تھی۔ یونہی منہ اٹھا کر اکیلے کہیں جانے کی ہمت بھی نہیں تھی اور شمس کے پاس واپس جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا سو اس نے یہیں رُکنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

”چلیں؟“ بازل کب کا باہر آکر اپنے بال بنا چکا تھا، وہ اپنے خیالوں میں گم جان ہی نہ سکی تھی۔ پرفیوم سپرے کرتے ہوئے اس نے نوریہ سے پوچھا تو وہ چونکی پھر اسے تیار دیکھ کر جتایا۔

”تم نے کہا تھا مجھ پر زبرستی نہیں کرو گے؟“ بازل حیران ہوا۔

”میں نے کیا زبردستی کی تمہارے ساتھ؟“

”توفون کرکے حکم کس لیے جاری کیا تھا کہ ولیمے کے لیے تیار ہو جاﺅ۔“ نوریہ نے جل کر پوچھا اور بازل نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی روکی کیوں کہ نوریہ کا انداز بالکل لڑاکا بیویوں والا تھا۔

”وہ تو میں چیک کررہا تھا کہ تم نے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا ہے یا جانے کا۔ اگر تم مجھے تیار نہ ملتیں تو میں سمجھ جاتا کہ تم جانا چاہتی ہو اور میں تمہیں رکنے پر مجبور نہ کرتا، یقین کرو۔“ نور کی جان جل گئی تھی مگر وہ مزید کچھ کہہ نہیں سکی۔ بس پیر پٹختے ہوئے کمرے سے باہرنکل گئی، بازل بھی مُسکراتا ہوا س کے پیچھے چل پڑا۔

٭….٭….٭

ان کی شادی کو ایک ہفتہ گزر گیا تھا۔ اس دوران صرف ایک بار شمس نے فون کیا جسے نوریہ نے ریسیو نہیں کیا تھا اور جاوید سے کہلوا دیا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ صلاح الدین اور عارفہ بھی ملنے آئے تھے لیکن اس وقت بازل گھر پر تھا اس لیے اسے میزبانی کے فرائض انجام دینے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ عارفہ کی چند ایک باتوں کا جواب بھی اس نے صرف ”ہوں ہاں“ میں دیا اور باقی وقت خاموش بیٹھی رہی، وہ لوگ ڈنر کے بعد گئے تھے۔ بازل نے انہیں اصرار کرکے روک لیا تھا ورنہ وہ ملنے کے بعد فوراً جانا چاہتے تھے۔ ان کے جانے کے بعد نوریہ کمرے میں واپس آگئی۔ بازل کا کمرہ اب اس کا کمرہ تھا اور وہ اپناسامان دوسرے کمرے میں منتقل کرچکا تھا۔ نوریہ کو یہاں ان سات دنوں میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔ پھر بھی وہ بے چین تھی۔ کچھ باتوں سے ابھی تک اس کا ذہن اُلجھا ہوا تھا۔ اس کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ بازل کا سامنا نہ کرے۔ اتفاقاً کبھی ایسا ہو جاتا تو وہ کم سے کم بات کرکے ہٹ جایا کرتی، ورنہ بہت سی گتھیاں سلجھ چکی ہوتیں۔ اُسے بازل کی مقناطیسی شخصیت سے خوف آتا تھا، وہ ہمیشہ نظر ملا کر بات کرتا تھا۔ اتنی بار نوریہ کی بدلحاظی کے جواب میں اس نے کبھی سخت لہجہ نہیں اپنایا تھا۔ وہ اس سے ناراض نہیں ہوتا تھا بلکہ سمجھایا کرتا تھا جیسے کسی چھوٹے بچے کو سمجھاتے ہیں۔ نوریہ کو لاکھ چاہنے کے باوجود اس سے نفرت کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ دل ہی دل میں وہ شمس اور بازل کو ایک ہی صف میں کھڑا کیے ہوئے تھی مگر حقیقت اس کے برعکس دیکھ کر اسے اپنے اندازے کی غلطی پر جھنجھلاہٹ بھی تھی اور حیرانی بھی۔ بازل اسے بہت پراسرار لگ رہا تھا۔ پھر اس کی اصل حقیقت جاننے کے لیے نور نے ایک نیا طریقہ سوچا۔

٭….٭….٭

بازل آفس جانے کے لیے تیار ہوکر نیچے آیا تو ڈائننگ ٹیبل پر نوریہ کو بیٹھے دیکھ کر اُسے حیرت ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح سلام میں پہل بازل نے کی جس کا نوریہ نے کوئی جواب نہیں دیا، بازل کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے بولا۔

”تم کم از کم میرے سلام کا جواب تو دے سکتی ہو۔“

”مجھ پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔“ نوریہ نے بے تاثر لہجے میں جواب دیا اور ناشتہ کرنے لگی۔

بازل نے کچھ دیر تک اس کی طرف دیکھا پھر مُسکرا کر سر جھٹکتے ہوئے وہ بھی ناشتہ کرنے لگا۔ دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے کھا رہے تھے۔ نوریہ کو معلوم تھا کہ بازل ہر تھوڑی دیر بعد نظر اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھتا ہے۔ اس کے باوجودوہ اُسے مکمل طور پر نظرانداز کرکے ناشتہ کرتی رہی۔ جب اسے محسوس ہوا کہ بازل ناشتہ ختم کرچکا ہے اور اُٹھنے والا ہے، تو بول پڑی۔

”میں تمہارے ماں باپ سے ملنا چاہتی ہوں۔“ وہ سمجھ رہی تھی بازل بہانہ کرے گا یا ٹال دے گا مگر اس کا جواب حیران کن تھا۔

”چلو،میں تمہیں ابھی لے چلتا ہوں۔“ وہ گڑ بڑا گئی۔

”ابھی؟“ بازل اسی طرح پرسکون رہا۔

”ہاں ابھی، تم اگر تیار ہونا چاہتی ہو تو ہو جاﺅ میں یہیں انتظار کر رہا ہوں۔“ تیار تو وہ تھی مگر ذہنی طور پر نہیں۔ پھر بھی یہ موقع ضائع کرنا مناسب نہیں تھا۔

”میں تیار ہوں، چلو۔“ نوریہ کے اُٹھتے ہی بازل بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ گھر سے نکلتے ہوئے جاوید نے اسے کھانے کا ٹفن دیا۔

”یہ کیا ہے؟“ نور نے پوچھا۔

”کھانا ہے میڈم۔“

جاوید کا جواب فوری تھا۔ نور نے خوامخواہ بازل کو چڑانے کے لیے کہا۔

”کیوں ہاسپٹل میں کھانا نہیں ملتا؟“ بازل کو اس کا استہزائیہ انداز پسند نہیں آیا تھا مگر وہ خاموش رہا۔ نوریہ زیرلب مسکرائی۔ بازل کو غصہ کیسے دلایا جاسکتا ہے وہ سمجھ گئی تھی۔

٭….٭….٭

ہاسپٹل کے راستے میں بازل نے پھولوں کی دکان پر گاڑی روکی اور ایک خوب صورت سا گل دستہ بنوا کر لے آیا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی نوریہ کی گود میں رکھ دیا۔ وہ بدک کے پیچھے ہٹی۔

”مجھے نہیں چاہیے۔“ اور جواب میں بازل کی وہی مسکراہٹ۔

”تمہارے لیے نہیںہے، ماما کو دیں گے۔ آج وہ گھر واپس آرہی ہیں۔“

”اوہ۔“ نوریہ نے مختصر جواب دے کر خاموشی اختیار کرلی۔

سائیکاٹرک ہاسپٹل کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرتے دیکھ کر نور کو ایک اور دھچکا لگا۔

”تمہاری ماما یہاںہیں؟“

”ہاں، پر اب وہ پہلے سے بہتر ہیں،میں گھر پر لا کر ان کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہوں۔“

”اوہو۔ تو اس لیے تم نے مجھ سے شادی کی تھی تاکہ اپنی ماں کی خدمت کراﺅ،پر کان کھول کر سن لو میں کسی پاگل عورت کی نوکرانی نہیں بنوں گی۔“ نوریہ ایک دم آپے سے باہر ہوئی تھی لیکن بازل کا ردعمل وہ نہیں تھا جس کی توقع وہ کررہی تھی، اپنی ماں کے بارے میں ایسے برے الفاظ سن کر بھی اس نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔

”تم میرا رہن سہن دیکھ چکی ہو نوریہ۔ کیا تمہیں لگتا ہے میں اپنی ماں کے لیے خدمت گار افورڈ نہیں کرسکتا؟ میں تمہیں یہاں نہ لاتا اگر تم نہ کہتیں لیکن انہیں ان کے گھر واپس لے جانے کے لیے مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔“

نوریہ نے باہر دیکھنا شروع کردیا، بازل نے اس کی گود سے گل دستہ اٹھایا اور پوچھا۔

”اب تم آنا چاہتی ہو یا میں اکیلا چلا جاﺅں؟“ نوریہ نے چند لمحے سوچا پھر دروازے کا لاک کھولتے ہوئے بولی۔

”چل رہی ہوں۔“ بازل نے ”اوکے“ کہہ کر سر ہلایا اور گاڑی بند کرکے اُس کے ساتھ ہاسپٹل میں داخل ہوگیا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!