مختلف کاریڈورز سے گزرتے ہوئے متعلقہ وارڈ تک جانے میں نوریہ کی نظر کئی مریضوں پر پڑی۔ ان میں زیادہ تر بوڑھے لوگ تھے۔ ان کے چہروں پر بے گانگی تھی، کچھ بلا وجہ بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ کچھ خلا میں تک رہے تھے۔ لان کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک شخص نے اچانک آگے بڑھ کر نوریہ کو ”سلام آلیکم“کہا۔وہ ڈر کر پیچھے ہٹی اور پھر بازل کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بازل نے اسے اپنی بائیں جانب کیا اور آگے بڑھ گیا۔ وارڈ تک پہنچتے ہوئے وہ مسلسل اس کا ہاتھ تھامے رہی۔ بازل نے وہاں کھڑے ملازم سے کچھ کہا۔

وارڈ بوائے انہیں اپنی رہنمائی میں آفس تک لے گیا۔

”یہاں مریضوں کا آنا منع ہے، تم بینچ پر بیٹھ جاﺅ میں ڈسچارج پیپرز بنوا کر آتا ہوں۔“ نوریہ کو ماننا پڑا۔ ضروری کارروائی میں تقریباً آدھ گھنٹہ لگ گیا مگر وہ صبر سے اُس کے ساتھ کھڑی رہی۔ کاغذات مکمل ہونے کے بعد وہی وارڈ بوائے ایک ادھیڑ عمر خاتون کو ساتھ لے کر بازل کے پاس آکھڑا ہوا۔ نوریہ کو صاف طور پر اس عورت کے چہرے میں بازل سے مشابہت دکھائی دی۔ بازل نے وارڈ بوائے سے پوچھا۔

”آپ نے انہیں بتا دیا ہے کہ یہ گھر جارہی ہیں؟“ وارڈ بوائے نے جواب دیا۔

”جی ڈاکٹر صاحب نے سب سمجھا دیا تھا۔“ بازل نے اثبات میں سرہلایا اور اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ نوریہ کو اپنا ہاتھ پیچھے ہٹانا پڑا۔ وہ سمجھ سکتی تھی کہ ماں کو سہارا دینا بازل کے لیے زیادہ اہم تھا، پھر بھی اسے اچھا نہیں لگا۔ پھولوں کا گل دستہ سعدیہ کو پیش کرتے ہوئے بازل بھرپور مُسکرایا مگر سعدیہ کے چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ وہ بازل کی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھی۔نوریہ کو اس پل وہ نہایت بے ضرر سی لگیں۔ جو خوف اس ہاسپٹل کے دوسرے مریضوں کو دیکھ کر اس پر طاری ہوا تھا سعدیہ کو دیکھ کر یک سر زائل ہوگیا۔ کچھ دیر بعد تینوں گھر کی جانب جارہے تھے۔

٭….٭….٭



بازل نے ماں کے لیے اپنے ساتھ والا کمرہ تیار کروایا تھا۔ انہیں آرام سے کمرے میں پہنچا کر وہ نوریہ کے پاس اس کے بیڈ روم میں آیا۔ وہ دوپٹہ اتار کر سکون سے بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ دستک سن کر پلٹی تو بازل کو اندر آیا دیکھ کر اُٹھ بیٹھی۔ پاس پڑا دوپٹہ فوراً شانوں پر ڈالا اور جھنجھلاکر بولی۔

”کیا ہے؟“

”مجھے تم سے بات کرنی تھی، اگر تم آرام کرنا چاہتی ہو تو میں چلا جاتا ہوں۔“

”اندر آنے سے پہلے تمہیں اجازت لینی چاہیے تھی۔“

”میں نے دستک دی تھی۔“ بازل نے وضاحت دی۔

”مگر میں نے اندر آنے کی اجازت نہیںدی تھی۔“ نوریہ نے حتی المقدور اپنے لہجے کو سخت بناتے ہوئے کہا لیکن بازل صاف طور پر دیکھ سکتا تھا کہ وہ اس کے سامنے دوپٹے کے بغیر ہونے کی جھنجھلاہٹ میں مبتلا تھی۔ وہ زیر لب مسکرایا، نوریہ کو اس سے حیا محسوس ہوتی تھی۔

”آئی ایم سوری،میںچلا جاتا ہوں۔“ وہ بغیر برا مانے واپس جانے کے لیے مڑ گیا تو نوریہ نے روکا۔

”سنو!“ وہ ٹھہر گیا۔

”بولو!“ نوریہ بستر سے اتر کر اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔

”تم نے کہا تھا اپنی ماما کے لیے کسی نرس کا انتظام کرو گے۔“

”ہاں میں یہی بتانے آیا تھا کہ وہ لڑکی کل صبح تک آجائے گی انشاءاللہ۔“

”لڑکی؟“

”ہاں۔“ بازل نے اُلجھ کر اسے دیکھا بھلا ’لڑکی‘ پر اتنا حیران ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ سوالیہ نظروں سے نور کی جانب دیکھ رہا تھا، نوریہ سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔

”کچھ نہیں۔“

”تو میں جاﺅں؟“ بازل نے شوخ نظروں سے اسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہوں مجھے روک لو۔

”نہیں! ابھی رُکو، مجھے تم سے کچھ اور بھی پوچھنا تھا۔“ نوریہ نے اس کی خواہش تو پوری کردی پر نظر ملانے سے مکمل گریز کیا، وہ اس کے پیروں کی طرف دیکھ کر بات کررہی تھی۔

”ضرور پوچھو۔“ بازل بڑی فرصت سے اس پر نظریں جمائے اپنے ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ دراز قد اور نہایت پرکشش نوجوان تھا۔ نور کی نظر اس کے جوتوں سے اوپر اٹھ کر سینے پر بندھے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر جاٹکی۔ بیش قیمت گھڑی اس کے مضبوط ہاتھ پر بہت جچ رہی تھی۔

”تم کچھ پوچھنا چاہتی ہو؟“ بازل نے اُسے یاد دلایا، نور نے ایک لمحہ کے لیے نظریں اُٹھا کر اس کے چہرے کی جانب دیکھا اور فوراً ہی نظریں جھکالیں۔ بازل اپنے گھنے اور سخت گھنگریالے بالوں کو ہمیشہ سلیقے سے بنایا کرتا جس سے اس کی پیشانی اور کشادہ نظر آتی تھی۔ نور سے بات کرتے ہوئے اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک نرم تاثر اور آنکھوں سے روشنی پھوٹتی معلوم ہوتی تھی۔ نوریہ کے لیے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے بات کرنا تو مشکل تھا ہی اس کے سامنے کھڑے ہونا تو اور جان لیوا تھا۔

”میں، میں جاننا چاہتی تھی کہ تمہارے فادرکہاں ہیں؟“

”وہ بھی ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں۔“ نوریہ نے نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔

”لیکن یہاں نہیں ،امریکا میں۔“ بازل کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی۔

”امریکا میں ،کیوں؟“

”کیوں کہ یہاں اس بیماری کے علاج کے لیے وہ سہولیات میسر نہیں۔“ بازل اتنا بتا کر دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ واضح طور پر وہ اس بارے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن نوریہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔

”ایسی کیا بیماری ہے انہیں؟“ بازل جاتے جاتے ٹھہر گیا تھا، لیکن اس نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر جواب دیا تھا۔

”ایڈز۔“ اتنا کہہ کر وہ چلا گیا اور نور جیسے پتھر کی ہوگئی۔

٭….٭….٭

سارہ کرسچین لڑکی تھی۔ جس ادارے نے اسے بھیجا تھاوہاں پر اُسے اس طرح کے مریضوں کی دیکھ بھال کی پوری ٹریننگ دی گئی تھی۔ وہ صبح ان کے گھر اس وقت پہنچی جب بازل ناشتہ کرنے کے بعد آفس کے لیے نکل رہا تھا۔ نوریہ جاگ چکی تھی مگر ڈائننگ ٹیبل پر بازل کے ساتھ بیٹھنے کے بہ جائے وہ لاﺅنج میں چائے پیتے ہوئے میگزین پڑھ رہی تھی۔ سارا کا تعارف کروانے کے لیے بازل نوریہ کی جانب آیا تھا۔

”نور، یہ سارہ ہیں، ماما کی دیکھ بھال کے لیے آئی ہیں۔“

نوریہ نے جواب میں ایک اُچٹتی سی نگاہ سارہ پر ڈال کر محض سر ہلانے پر اکتفا کیا، بازل اُس کا موڈ دیکھ کر خاموشی سے سارہ کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔ نور ان دونوں کو جاتا دیکھتی رہی۔ سارہ خوب صورت تو نہیں لیکن پرکشش ضرور تھی۔ نوریہ کو خوامخواہ ہی اس سے چڑ ہونے لگی۔

اس کے سعدیہ کے پاس جانے کے بعد نور نے میگزین صوفے پر پھینکا اور خود ناشتے کی ٹیبل پر آکر جاوید کو آواز دی۔

”میرا ناشتہ لے آئیں پلیز۔“ جاوید نے کچن سے آکر اس کا حکم سنا اور”جی اچھا“ کہہ کر تیزی سے واپس بھاگ گیا۔ نوریہ کو اسے یوں بھاگتا دیکھ کر وہ وقت یادآیا، جب شمس کی ایک آواز پر وہ بھاگ بھاگ کر سارے کام کیا کرتی تھی۔ جواب میں تعریف و توصیف کے چند بول تو کیا ملتے الٹا طعنے تشنے ملا کرتے تھے۔ وہ کوئی کام دل جمعی سے نہیں کر پاتی تھی۔ کوشش کے باوجود بھی اسے ہمیشہ ہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ شمس کی توقعات پر وہ کبھی پورا نہیں اتر پائے گی۔ تنگ آکر اس نے کوشش کرنا ہی ترک کر دی تھی۔ اس کا دل ہی نہیں چاہتا تھاوہ شمس کے لیے کچھ کرے۔ کھانا بھی بے دلی سے بنایا کرتی، روٹی اکثر جل جاتی یا کچی ہوتی، سالن بد رنگا اور بد ذائقہ، حالاں کہ شمس اگر چاہتا تونوکرانی رکھ کر اس کی اور اپنی زندگی آسان بنا سکتاتھا مگر وہ اسے مصروف رکھنا چاہتا تھا تاکہ ماضی اسے پریشان نہ کرے اور مستقبل میں وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے شمس کو پریشانی ہو۔” تم فارغ بیٹھو گی تو شیطان تمہارے ذہن پر قابض ہو جائے گا۔ گھر کے کاموں کو اپنے ہاتھ سے کیا کرو بہت ثواب ملے گا، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواجِ مطہرات ،حتیٰ کہ ان کی بیٹیاں بھی گھر کے کام خود کیا کرتی تھیں، پانی بھرنا، چکی پیسنا، سخت محنت مشقت کے کام ہیں وہ کرتی تھیں۔ تم تو اس لحاظ سے بڑی سہولتوں کا لطف اٹھا رہی ہو۔ شکر کیا کرو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتنی آسانیاں دی ہیں، اس قدر نعمتوں سے نوازا ہے۔“ اور نور سعادت مندی سے سر ہلانے کے علاوہ کچھ نہیں کہتی تھی مگر سوچتی بہت کچھ تھی۔

 ”اگر میرا باپ بھی ویسا ہی شفیق اور مہربان ہوتا تو میں بھی خوشی خوشی یہ سب کرلیتی۔“ مگر افسوس شمس کے کردار میں ایسی کوئی خوبی نہ تھی جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کا دعوے دار بن سکتا۔

وہ زندگی جو اس نے شمس کے گھر گزاری ،اسے یاد کرنا، سب دکھوںاور مصیبتوں سے دوبارہ نبردآزما ہونے کے برابر تھا، مگر یہ کام وہ اپنی مرضی سے تو نہیں کررہی تھی۔ یہ تو بس ہو جاتا تھا، کہیں بھی سکون کے چند لمحوں میں اُسے ایک بار وہ بُرا وقت ضرور یاد آتا تھا۔ ان یادوں سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں تھاکیوں کہ وہ شمس کو معاف نہیں کرسکتی تھی۔ ہر بُرا واقعہ اُسے یاد دہانی کراتا کہ وہ اپنے باپ سے سخت نفرت کرتی ہے، اپنی ماں سے بھی زیادہ اور یہ نفرت ہمیشہ قائم رہنی چاہیے کیوں کہ شمس کے گناہ، اس کی زیادتی معاف کرنے کے لائق نہیں ہے۔ وہ سب واقعات دہراتا اس کا ذہن تھا لیکن اثر اس کے دل پر پڑتا تھا۔ وہ اندر باہر سے بے حد تلخ ہوجاتی۔ ناشتے کے دوران اس کا موڈ سخت خراب رہا۔ جاوید کے پوچھنے پرکہ ’ چیز آملیٹ‘ کیسا بنا ہے،اس نے بے رُخی سے اسے کچن میں جا کر کام کرنے کا حکم دیا تھا۔ وہ منہ لٹکا کر چلا گیا۔ نوریہ جوس کا گلاس اُٹھا کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی تو سعدیہ کے کمرے سے باتوں کی آواز سن کر رُک گئی۔ دروازہ آدھا کھلا تھا، اندر جانے کے بہ جائے وہ وہیں رُک کر سننے کی کوشش کرنے لگی۔ سعدیہ، سارہ کو بتا رہی تھی۔

”میرے بیٹے نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک ختم کرلیاتھا، وہ بہت ذہین تھا، میں نے اسے ہر موقع کی دعائیں یاد کروائیں جنہیں وہ بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ ہر وقت سر پر نماز کی ٹوپی پہنے رکھتا تھا تاکہ اذان ہوتے ہی فوراً نماز کے لیے کھڑا ہو جائے، جانتی ہو وہ کبھی بغیر وضو کے نہیں رہا۔“

”یہ تو بہت اچھی بات ہے۔“ سارہ نے سعدیہ کو کھلے دل سے سراہا۔

”نہیں، اچھی نہیں تھی یہ بات۔“ اب سعدیہ پریشان لہجے میں اس سے کہہ رہی تھی۔

”نیک لوگوں کی گھات میں ہر وقت شیطان لگا رہتا ہے، تاکہ موقع دیکھ کر انہیں صراط مستقیم پر چلنے سے روک سکے۔ اس کا وار چل گیا سارہ، میرا بیٹا، میرا معصوم بچہ….“ سعدیہ یک دم رونے لگی، سارہ نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔ نوربات مکمل ہونے کے انتظار میں کھڑی تھی۔ سارہ کی آواز سنائی دی۔

”آپ روئیے مت پلیز ورنہ طبیعت خراب ہو جائے گی۔“

اس کے بعد باتوں کی آواز آنا بند ہوگئی۔ نوریہ نے کچھ سکینڈز مزید انتظار کیا پھر مایوس ہوکر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

٭….٭….٭

سارہ، سعدیہ کے کمرے کا دروازہ بند کرکے ڈائننگ ہال میں آئی۔ اُسے بھوک لگ رہی تھی۔ دوپہر کا ڈیڑھ بج چکا تھا۔ سعدیہ صبح اس کے سامنے اپنا دل ہلکا کرنے کے بعد اب اطمینان سے سو رہی تھی۔ جاوید نے اس کے لیے کھانا لا کر میز پر رکھنا شروع کیا تو اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔

”اور کوئی نہیں آئے گا کھانے کے لیے؟“ جاوید نے ایک نظر سیڑھیوں کی طرف ڈالی جہاں سے نوریہ کے کمرے کا بند دروازہ دکھائی دے رہا تھا۔

”آپ ٹھہرئیے میں میڈم سے پوچھ کر آتا ہوں۔ ویسے تو جب وہ صبح لیٹ ناشتہ کریںتو اس کا مطلب یہی ہوتاہے کہ دوپہر کا کھانا نہیں لیں گی، پھر بھی میں معلوم کرلیتا ہوں۔“ جاوید نوریہ سے پوچھنے چلا گیا۔ سارہ کا آج پہلا دن تھا، اُسے کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔جب سے وہ آئی تھی نوریہ نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی، وہ تو اپنی ساس کو دیکھنے تک نہیں آئی تھی۔ بازل کے ساتھ بھی اس کا رویہ کچھ نامناسب تھا۔ سعدیہ جیسی بے ضرر مریضہ کو سنبھالنا اتنا مشکل کام نہیں تھا جتنا اُسے اس گھر میں ایڈجسٹ ہونا لگ رہا تھا۔ ایک سرد آہ بھر کر اُس نے میز پر سجے کھانے کی طرف دیکھا۔ خوشبو اشتہا انگیزاور مینیو بے حد شاندار تھا۔ اُس نے بے صبری سے کھانے کی طرف دیکھا اور پھر سر موڑ کر سیڑھیوں کی جانب جہاں سے جاوید کے آنے کی توقع تھی مگر جاوید کے پیچھے نوریہ کو آتا دیکھ کر وہ حیرت کے مارے کھڑی ہوگئی۔ نوریہ نے سیڑھیاں اترتے ہوئے نہایت دوستانہ انداز میں کہا۔

”بیٹھیے پلیز۔“ پھر وہ سارہ کے ساتھ والی کرسی پر آکر بیٹھ گئی۔

”کھانا شروع کریں سارہ، میں نہیں کھاﺅں گی پر آپ تکلف مت کیجئے، بسم اللہ کریں۔“ بالکل غیرارادی طور پر اس کے منہ سے اللہ کا نام نکلا تھا، زبان اندر کھینچ کر اس نے دانتوں تلے زور سے دبائی۔ پھر خود پر قابو پاتے ہوئے سارہ کے حیران چہرے کی طرف دیکھا جیسے نوریہ سے ایسی کسی خوش اخلاقی کی توقع نہیں تھی۔ نوریہ اس کے کھانا ختم کرنے تک اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔ کھانے کے بعد سارہ نے پہلے جا کر سعدیہ کو چیک کیا جو ابھی تک سو رہی تھی۔ وہ دوبارہ نیچے لاﺅنج میں آگئی جہاں نوریہ جاوید کو چائے کا کہہ کر اس کا انتظار کررہی تھی۔ سارہ اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔ نوریہ نے موقعہ دیکھ کر اس سے سعدیہ کے متعلق پوچھا۔

”کیا ان کی دماغی حالت بہتر ہونے کے کوئی چانسز ہیں؟“ سارہ نے بہت سوچ سمجھ کر جواب دیا۔

”جہاں تک مجھے ان کی کیس ہسٹری کے بارے میں بتایا گیا وہ پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ اب بالکل نارمل ہونے میں کتنا ٹائم لگے گا، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔“

”ان کا مسئلہ کیا ہے؟“ نوریہ نے پوچھا تو سارہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

”آپ ان کے بیٹے کی وائف ہیں نا؟“ اس نے ایسے کہا جیسے حیران ہورہی ہو کہ اتنا قریبی رشتہ ہونے کے باوجود آپ کو علم نہیں اور مجھ سے دریافت کررہی ہیں۔ نوریہ نے خفت سے مُسکراتے ہوئے بات بنائی۔

”وہ دراصل ہماری شادی ابھی ہوئی ہے تو۔“

”اٹس اوکے، میں آپ کو بتا دیتی ہوں، دراصل۔“ اسی وقت جاوید ٹرے لے آیا۔

”میڈم چائے۔“ نوریہ سخت جھنجھلائی۔

”ہاں رکھ دواور جاﺅ۔“ جاوید نے چائے کی ٹرے سینٹر ٹیبل پر رکھی اور ٹی پاٹ اٹھا کر کپ میں چائے ڈالنے لگا۔

”میں نے کہا نا جاﺅ، میں خود کر لوں گی۔“ نوریہ جاوید کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس کے سخت لہجے پر جاوید نے خاموشی سے ٹی پاٹ واپس رکھا اور چلا گیا۔ نوریہ نے اٹھ کر اس کپ میں دوبارہ چائے انڈیلتے ہوئے سارہ سے پوچھا۔

”آپ کچھ بتا رہی تھیں۔“ تبھی سامنے سے بازل آتا دکھائی دیا۔

”السلام علیکم۔“ اس نے دونوں کو سلام کیا، سارہ نے مُسکرا کر جواب دیا مگر نور کا موڈ بری طرح آف ہوچکا تھا وہ خاموش رہی۔

٭….٭….٭

رات کو اس نے ڈنر اپنے کمرے میں کیا تھا۔ جاوید اس کے انٹرکام کرنے پر جب برتن اٹھانے آیا تو بولا۔

”میڈم آپ کو بازل صاحب نے اسٹڈی میں بلایا ہے۔“ نورنے کچھ نہیں کہا، وہ برتن لے کر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد نور نے اپنے بال درست کرنے کے لیے آئینے میں خود کو دیکھا تو ٹھٹک گئی۔ اس کی آنکھوں کے گرد ہمیشہ سے رہنے والے سیاہ حلقے مدھم پڑ چکے تھے۔ چہرے کا رنگ بھی سرخی مائل ہوگیا تھا۔ اس کے عکس نے کہا وہ پہلے سے خوب صورت ہوگئی ہے۔ دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے بالوں کی چوٹی باندھی اور شال لپیٹ کر کمرے کی لائٹ آف کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔ آج شام بارش ہوئی تھی۔ نومبر کا اختتام تھا۔ تیز بارش نے موسم میں خنکی پیدا کردی تھی۔ اس کے سوٹ کیس میں ایک شال موجود تھی اس نے وہی اوڑھ لی تھی۔

اسٹڈی کا دروازہ ناک کرکے اس نے بازل کی آواز پر دروازہ کھولا۔ وہ اسٹڈی ٹیبل پر کچھ سامان رکھے اس کا منتظر تھا۔

”پلیز اندر آجاﺅ۔“ اپنے پیچھے آہستگی سے دروازہ بند کرکے وہ میز کے پاس آکھڑی ہوئی۔ بازل کی آنکھیں پھر چمکی تھیں۔ نوریہ نے سر جھکا لیا تو اسے بازل کی آواز سنائی دی۔

”یہ کچھ چیزیں ہیں تمہارے لیے۔“ اس نے آئی فون کا جدید ماڈل اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔

”تمہارا موبائل فون اور سم۔ یہ تمہارے بنک اکاﺅنٹ کی تفصیلات ہیں، پڑھ کر سائن کردینا، پھر تمہیں ڈیبٹ کارڈ اور چیک بک مل جائیں گی۔“ اس نے ایک فائل دکھاتے ہوئے کہا پھر ایک موٹا سا لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔

”اور یہ کچھ کیش ہے۔“ نوریہ نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا، بازل نے اپنی بات جاری رکھی۔

”اسے تم اپنی پاکٹ منی سمجھ لو۔ ہر مہینے اتنی رقم تمہیں مل جائے گی۔ اگر کہو گی تو ڈائریکٹ تمہارے اکاﺅنٹ میں ڈلوا دیا کروں گا۔“ جب نوریہ نے لفافہ لینے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا تو بازل نے اسے میز پر رکھ دیا۔ نوریہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا ہے؟لیکن بازل جےسے اس کے کچھ بھی کہنے کا منتظر تھا ہی نہیں۔ میز کے دوسری جانب جا کر وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور بولا۔

”ہاں ایک اور چیز۔“ اس نے دونوں کہنیاں میز پر ٹکاتے ہوئے جیسے کچھ یاد آنے پر اسے بتانا شروع کیا۔

”کل یا پرسوں تک فرنیچر پہنچ جائے گا، میں تمہاری اسٹڈی علیحدہ سے بنوا رہا ہوں۔“ نوریہ جو ہاتھ بڑھا کر اپنا فون اٹھا رہی تھی، وہیں رک گئی۔وہ بولتارہا۔

”میں جانتا ہوںکہ ہم دونوں کا مزاج بہت الگ ہے اور تمہیں اپنی پسند سے کتابیں خریدنی چاہئیں۔“ نوریہ کو بالکل نہیں معلوم تھا اس کی آنکھوں میں آنسو کیوں جمع ہورہے ہیں۔

”تمہاری گاڑی اور ڈرائیور اگلے ہفتے تک ارینج ہو جائیں گے، اپنی گاڑی تو میں خود ڈرائیو کرتا ہوں لیکن تمہیں ڈرائیور چاہیے ہوگا، ہے نا۔“نور نے روتے ہوئے اپنا سر نفی میں ہلایا، بازل پریشان ہوا۔

”تم رو کیوں رہی ہو؟“

”تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟“

بازل فوری جواب نہیں دے سکا، پھر اسے اندازہ ہوا کہ وہ نوریہ کو شاید کبھی سچ نہیں بتا سکے گا کہ درحقیقت اس نے نوریہ سے شادی کیوں کی تھی؟ ایک گہری سانس لے کر وہ کرسی سے اُٹھا اور نوریہ کے پاس رُک کر کہا۔

”تمہیں کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو پلیز کہہ دینا مجھ سے۔“ اتنا کہہ کر وہ تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔

نوریہ نے سب چیزیں ہاتھ میں اٹھانا شروع کیں۔ اپنا فون، اکاﺅنٹ کی فا ئل اور پاکٹ منی، جو دو ڈھائی لاکھ سے کم نہیں تھی۔ یہ سب کچھ لے کر وہ اپنے کمرے میں آگئی اور دروازہ لاک کرلیا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!