میں نے کل کیا سمجھایا تھا تمہیں؟“ شمس نے رات کے کھانے کا پہلا نوالہ منہ میں لیا اور بدمزہ ہوکر فوراً ہی الٹ دیا۔ نوریہ گھبراکہ دو قدم پیچھے ہٹی، شمس کو اور غصہ چڑھا۔

”پیچھے کہاں ہٹ رہی ہو، میری بات سنو یہاں آکر۔“ وہ ڈرتی ڈرتی آگے بڑھی تو حکم جاری ہوا۔

”بیٹھو۔“ وہ بیٹھ گئی تو شمس نے جلالی انداز میں پوچھا۔

”کیا کہا تھا کل رات میں نے کہ میں بہت جلد تمہاری شادی کرنے والا ہوں، ذرا کھانا ڈھنگ سے پکانا سیکھ لو۔“

”کس سے سیکھوں؟“ نور منمنائی تو شمس نے سالن کا پیالہ اٹھا کر زمین پہ دے مارا۔

”اپنی ماں سے سیکھ بے حیا!اس جیسی بن جانا جسے نہ گھر سنبھالنا آیا نہ شوہر، خبیث!مجھ سے پوچھ رہی ہے کس سے سیکھوں؟“ شمس غصے میں اٹھ کر وہاں سے چل پڑا۔ نور سسکیاں بھرتی ہوئی اُٹھی تو پاﺅں سالن پر آگیا۔ چکنا تیل پیروں سے چپکا اور وہ پھسلنے لگی۔ بڑی مشکل سے ایک طرف ہوکر اس نے میز پر سے ٹشو اٹھائے، پہلے اپنے پاﺅں صاف کیے اور پھر زمین پر بیٹھ کر گرا ہوا سالن صاف کرنے لگی۔

٭….٭….٭

حنا کیوں ایک معمولی آفس ورکر کی محبت میں مبتلا ہوکر اپنا شوہر، اپنی بیٹی، اپنا گھر چھوڑ کر چلی گئی؟ شمس سوچ سوچ کر پاگل ہوا جارہا تھا۔ کہاں غلطی ہوئی تھی اس سے؟ کون سی کمی چھوڑی تھی؟ وہ حنا سے جتنی محبت کرتا تھا کوئی اور نہیں کرسکتا تھا، پھر کیوں؟ جو معمّااس سے حل نہیں ہورہا تھا،خاندان بھر میں اسے خوب اچھالا جارہا تھا۔ طعنے تشنے حتیٰ کہ مذاق کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔ کسی کو اس سے ہم دردی نہ تھی، اس کی ماں کو بھی نہیں۔ حنا صرف اسے چھوڑ کر نہیں گئی تھی بلکہ عدالت کے ذریعے خلع حاصل کرنے کے بعد اس نے وہ گھر بھی شمس سے خالی کروالیا جہاں وہ رہ رہا تھا۔ نوریہ نے کئی بار ماں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ ملنا ہی نہیں چاہتی تھی،اس نے ہر کسی سے تعلق ختم کر لیا تھا۔وہ سب کچھ جمع کرکے اویس کے ساتھ بیرون ملک چلی گئی تھی اور وہاں دونوں نے نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرلی۔

شمس نے لوگوں کے طعنوں اور کوسنوں سے بچنے کے لیے وہ شہر ہی چھوڑ دیااور اپنا تمام کاروبار سمیٹ کر لاہور سے کراچی آگیا۔ گھر بدلا، شہر بدل لیا مگر دل کو نہ بدل سکا۔ چاہ کر بھی وہ اپنی جوان اور خوب صورت بیوی کی یادوں سے پیچھا چھڑا نہیں پایا۔ خود کو مصروف رکھنے کے لیے اس نے یہاں بھی ویسے ہی دوست بنائے جو دن بھر کام کے بعد رات کو اس کی تنہائی بانٹنے گھر پر آیا کرتے تھے۔ مے نوشی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی تھی غم جو غلط کرنا تھا۔ سادہ تاش کے پتوں کا کھیل جوئے میں تبدیل ہوگیا۔ ان محفلوں میں شمس کو اپنا آپ بھول جایا کرتا تھا پھر حنا کیسے یاد رہتی۔ کچھ ماہ میں ہی وہ کافی حد تک بہل گیا مگر نوریہ بری طرح ڈسٹرب ہوچکی تھی۔ ما ںکے جانے کے بعد آیا کے رحم و کرم پر آگئی۔ یہ سچ تھا کہ پہلے بھی اس کے تقریباً سارے کام گھر کی ملازمہ کے ذمے تھے مگر ماں سے ایک جذباتی تعلق تو قائم تھا۔ شمس نے تو شاید سمجھ لیا تھا پر نوریہ خود کو سمجھا نہیں پا رہی تھی۔ آخر اس کی ماں نے اسے کس جرم کی سزا دی؟ اگر اسے باپ کی توجہ مل جاتی تو شاید وہ بھی اس گرداب سے نکل آتی جو دن بہ دن اسے نگلتا جارہا تھا لیکن شمس کو ہوش نہیں تھا کہ اس پر توجہ دیتا۔

اوپر سے نئے لوگ، نیا شہر، اسے یہ تبدیلی راس نہیں آئی تھی اور وہ بالکل اکیلی پڑ گئی۔ آئے دن بہانہ کرکے اسکول سے چھٹی کرلیتی۔ سارا سارا دن اپنے کمرے میں بند ہوکر اپنے پرانے کھلونے توڑ توڑ کر پھینکتی جاتی اور روتی جاتی۔ آیا اسے سنبھال نہیں پاتی تھی، تنگ آکر اس نے کام ہی چھوڑ دیا۔ اس کے جانے کے بعد کوئی نہیں تھا جو وقت پر نوریہ کو کھانا کھلاتا، خود وہ اپنے کمرے سے باہر آتی نہیں تھی۔ اس طرح محض ایک ہفتے میں ہی وہ بستر پر پڑ گئی۔

شمس کو تب احساس ہوا جب اسے ایمرجنسی میں ہاسپٹل لے جانا پڑا۔ ڈاکٹر نے اسے خوب ہی لتاڑا تھا۔ ”کیا آپ کو ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے یہ تک معلوم نہیں کہ آپ کی بیٹی تین دن سے بھوکی ہے؟“ شمس شرمندہ تھا۔ اسے ہاسپٹل سے ڈسچارج کرانے کے بعد وہ کئی دن خود اس کی دیکھ بھال کرتا رہا۔ ساتھ ہی ایک ایسی ملازمہ کی تلاش جاری رکھی جو رات دن نور کے ساتھ رہ کر اس کا خیال رکھ سکے۔

رفعت آپا، شمس کے چوکیدار عنایت کی دور پرے کی رشتہ دار تھیں۔ اپنے شوہر کے مرنے کے بعد ان کے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اولاد بھی کم سنی میں وفات پاگئی تھی۔ سو شمس کو وہ اس کام کے لیے موزوں ترین لگی تھیں۔ انہیں فوراً کام پر رکھ لیا گیا۔ چوکیدار عنایت نے انہیں یہاں لانے سے پہلے نوریہ کے متعلق بتا دیا تھا۔



”بن ماں کی بچی ہے۔ ہمارا صاب کام کرے یا بچی سنبھالے۔“ رفعت آپا کچھ پڑھی لکھی بھی تھیں اور نہایت ہمدردانہ طبیعت کی مالک تھیں۔ جب انہوں نے پہلی بار نوریہ کو دیکھا تو وہ صوفے پر لیٹی کشن میں منہ دیے زار و قطار رو رہی تھی۔ زرد رو، دبلی پتلی سی لڑکی جس کا قیمتی فراک بے حد میلا ہورہا تھا۔ رفعت آپا کا دل پسیج گیا۔ انہوں نے پاس بیٹھ کر پیار سے اس کا ہاتھ پکڑا اور بنا کچھ کہے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ رفتہ رفتہ نور کی سسکیاں تھم گئیں۔ جہاں اسے رفعت آپا کے محبت بھرے لمس نے سکون بخشا وہیں رفعت آپا کی پیاسی ممتا کو بھی قرار ملا تھا۔ بس یہی وجہ تھی جو آنے والے دنوں میں شمس اور ان کے دوستوں کے معمولات کو سخت ناپسند کرنے کے باوجود بھی رفعت آپا نے یہ گھر نہیں چھوڑا تھا۔ وہ نور کے لیے رکی تھیں کیوں کہ اسے سب سے زیادہ ان کی ضرورت تھی۔

نوریہ چند ہفتوں میں ہی سنبھل گئی۔ ماں کی طرح اس کا خیال رکھتی رفعت آپا نے اس کے ہر کام کا وقت مقرر کیا اور اپنے ہر عمل سے اسے اس کی اہمیت کا احساس دلانا شروع کیا۔ اب نوریہ نے اسکول میں نئے دوست بھی بنانے کی ہمت کر ڈالی تھی۔ وہ اپنی ماں کے متعلق کیے جانے والے کسی بھی سوال پر رونے کے بہ جائے نہایت خوداعتمادی سے کہہ دیا کرتی تھی کہ میرے پیرنٹس میں علیحدگی ہوچکی ہے اس لیے میری ماما میرے ساتھ نہیں رہتیں۔ اس نے تسلیم کرلیا تھا کہ ماں کبھی واپس نہیں آئے گی اور رفعت آپا کے ہوتے ہوئے اب اسے ماں جیسے رشتے کی کمی محسوس بھی نہیں ہوتی تھی۔

٭….٭….٭

”ارے یار، تمہاری بیٹی تو بہت پیاری ہے۔ ادھر آﺅ گڑیا، کتنے سال کی ہو تم؟“ فرید نے شمس سے نور کی تعریف کرنے کے بعد اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ وہ جھجکتی ہوئی اس کے نزدیک پہنچی تو فرید نے ملائمت سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔

”ہاں تو کیا نام ہے گڑیا کا؟“

”جی میں نوریہ ہوں اور میری عمر بارہ سال ہے۔“ نہایت تمیز سے نور نے مکمل جواب دیا۔ فرید منہ پھاڑ کر ہنسنے لگا۔

”ہو ہو ہو۔ تبھی ایسی لائٹیں مار رہی ہو۔“ اس نے نور کو کھینچ کر نزدیک کیا اور زور سے بھینچ کر اسے گال پر پیار کیا۔ نوریہ نے خود کو اس سے الگ کیا اور دور کھڑی ہوگئی۔ فرید نے شمس سے کہا۔

”ارے یار رات کو لائٹ جائے گی تو جنریٹر نہیں چلانا، ہم تیری بیٹی کو بلا کر میز پر بٹھا دیں گے، پتے دیکھنے میں آسانی رہے گی۔ کیوں؟“

”چل بکواس نہ کر، جا نوری، آپا کے پاس جا۔“ شمس نے اپنا گلاس بھرتے ہوئے نور کو وہاں سے جانے کے لیے کہہ دیا وہ خاموشی سے ہٹ گئی۔

لیکن باہر جا کر اس نے آپا کو ساری بات من و عن سنا دی۔

”مجھے یہ گندے سے فرید انکل بالکل اچھے نہیں لگتے۔ ان کے لال منہ سے اتنی گندی بوآتی ہے۔“ نور نے جھرجھری لی۔ فرید کو گٹکا کھانے کی عادت تھی اس کے ہونٹ سرخ رہا کرتے تھے۔

”تم ان کے پاس مت جایا کرو، آئندہ پیار مت لینا ان سے، منع کردینا۔“

”اور پاپا کو کیا ہوگیا ہے، پہلے تو اتنی بری لینگویج یوز نہیں کرتے تھے۔ وہ مجھ سے تو تو کرکے بات کرتے ہیں۔ مجھے ان کی یہ بات پسند نہیں آئی۔“

”اگر تمہیں اچھا نہیں لگتا نا تو کوشش کرنا کہ تم کبھی ایسی زبان استعمال نہ کرو۔“ انہوں نے بہت پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

”دیکھو میری بچی ہم بڑے بھی انسان ہوتے ہیں، فرشتے نہیں جن سے کوئی غلطی کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔ ہم تو خطا کے پتلے ہیں، غلطی کریں گے، سیکھیں گے۔ گناہ ہو جائے گا،معافی مانگیں گے، توبہ کرلیں گے۔ انسان تو بس ایسے ہی ہوتے ہیں۔“

”پاپا کب سیکھیں گے؟“ نوریہ کو شمس کی فکر تھی۔ آپا نے ایک سرد آہ بھری اور جواب دیا۔

”اگر انہوں نے اپنی صحبت نہ بدلی تو کبھی نہیں سیکھیں گے۔“

”صحبت کیا ہوتا ہے؟“ نور کے لیے مطلب جاننا ضروری تھا، آپا مسکرائیں۔

”صحبت ہوتا نہیں، ہوتی ہے۔ سنگت، یعنی ملنا جلنا اٹھنا بیٹھنا ایسے لوگوں میں ہے تمہارے پاپا کا جو بہت خراب زبان استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے تمہارے پاپا کی زبان اتنی خراب ہوگئی ہے۔ مگر تم خاص خیال رکھنا اپنے اردگرد کے ماحول سے اچھی باتیں سیکھنا، بری چھوڑ دینا، برے دوست کبھی مت بنانا ورنہ تم بھی خراب ہو جاﺅ گی اور پھر میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی۔“ نور پریشان ہوگئی۔

”نہیں آپ مجھ سے ناراض مت ہوئیے گا۔“ وہ گھبرا کر ان سے چمٹ گئی۔

”میں اچھی لڑکی بنوں گی، اچھے دوست بناﺅں گی، آئی پرامس۔“ رفعت آپا نے اسے بھینچ کر سینے سے لگالیا۔ اس وقت نور کو علم نہیں تھا کہ وہ اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکے گی۔

٭….٭….٭

تیمور شاہ اپنے منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہواتھا۔ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور ان کی کروڑوں کی جائیداد کا تنہا وارث، لندن سے ایم بی اے کرنے کے بعد جب اس کے والدین نے چچا زاد بہن عارفہ سے اس کی بات طے کرنا چاہی تو اس نے صاف انکار کردیا۔ یہ کہہ کر کہ وہ لندن میں اپنی کلاس فیلو سعدیہ سے کمٹمنٹ کرچکا ہے اور اس کے علاوہ کسی سے شادی کرنا ممکن نہیں۔ والدین نے ہر بار کی طرح اس کی یہ خواہش بھی پوری کی اور سعدیہ دلہن بن کر اس کے گھر آگئی۔

سعدیہ کا تعلق ایک روشن خیال لیکن مذہبی اقدار رکھنے والے خاندان سے تھا۔ اسی لیے انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے اسے تنہا لندن بھیجنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیا تھا مگر تیمور سے شادی پر وہ متذبذب تھے۔ خاندان والوں نے تیمور کی دولت اور وجاہت سے متاثر ہوکر انہیں یہی مشورہ دیا کہ اس سے بہتر داماد میسر نہیں ہوگا۔ سب سے بڑھ کر سعدیہ کی اپنی پسند بھی اس رشتے میں شامل تھی سو انکار کرنا آسان نہیں تھا۔ شادی کے چند ماہ بعد ہی تیمور کے والدین ایک ایکسیڈنٹ میں وفات پا گئے اور اسے اپنی مرضی چلانے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔

تیمور سے شادی کے بعد سعدیہ کو اپنے والدین کے دقیانوسی ہونے کا شدت سے احساس ہوا جو اس کی صورت دیکھتے ہی دوپٹہ سر پر رکھنے کی تلقین پہلے کرتے اور سلام کا جواب بعد میں دیا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ سعدیہ نے ان سے ملنا جلنا کم کردیا اور مکمل طور پر اپنے شوہر کے رنگ میں رنگتی چلی گئی، جس نے سب سے پہلے بیوی کے سر سے چادر اتروائی۔ سعدیہ اس سے دو قدم آگے بڑھ کر دوپٹے کو کاندھوں پر لائی پھر بالکل ہی اتار کر پھینک دیا۔ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ قمیص کی آستینیں بھی غائب ہوگئیں اور شلوار ٹخنوں سے اوپر چڑھ آئی۔ تیمور اس کے حسن کا دیوانہ تھا۔ ان کا ہنی مون ڈیڑھ ماہ پر محیط تھا، اس دور ان انہوں نے دنیا کے تمام خوب صورت مقامات کی سیر کی تھی۔ دوسرے اور تیسرے ہنی مون کو انہوں نے اپنی اینی ورسریز کے طور پر منایا تھا۔ دونوں نے مل کر یہ فیصلہ بھی کیا کہ کم از کم اگلے پانچ سال تک وہ اولاد کے بارے میں نہیں سوچیں گے اور حقیقت میں ایسا کوئی ”بدخیال“انہیں چھو کر بھی نہ گزرا۔ زندگی کی رنگینیاں انہیں خود میں جذب کیے ہوئے تھیں۔ کم از کم وہ دونوں یہی سمجھ رہے تھے مگر حقیقت میں ان کا حال جنگل میں بھاگتے دوڑتے اس وحشی جانور جیسا تھا جس کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یوں اپنی سب خواہشات پوری کرنے کے باوجود ،ڈھیروں روپیہ فنا کرنے کے بعد بھی انہیں سکون نہیں مل رہا تھا۔ ہوس تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور بے چینی تھی کہ بڑھتی جارہی تھی۔ تیمور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید دولت کمانے اور سعدیہ دن بدن خوب صورت بننے کے چکرمیں گھن چکر بنی ہوئی تھی۔ پانچ چھے سال یونہی گزر گئے۔ تب ایک رات پارٹی میں جعفری کے منہ سے وہ کلمات کیا ادا ہوئے سعدیہ کے گرد دھنک کے ساتوں رنگ گہری رات میں تبدیل ہوگئے۔ کیا حیثیت چنی تھی اس نے اپنے لیے؟ پردے کے سارے اصول توڑ کر وہ جو اپنے شوہر کی محبت حاصل کرنے کی دھن میں تھی،کب کیسے اسے وہ تعریفی الفاظ کم لگنے لگے پتا ہی نہ چلا۔ دنیا اسے سراہتی اور اسی دنیا کے لیے وہ سجتی سنورتی رہی۔ اس کی خوب صورتی صرف اس کے شوہر کے لیے ہونی چاہیے تھی پر نہیں رہی۔ وہ ماں نہیں بنی تھی تاکہ اپنا حسن نہ کھو دے اور اسی محرومی نے اسے کوٹھے پہ کھڑی عورت کے برابر لاکھڑا کیا تھا۔ اب وہ کچھ اور نہیں، بس ایک بے ڈھب جسم اور خوب صورت مسکراہٹ والی ماں بننا چاہتی تھی۔ سو نہایت سنجیدگی سے اس نے اپنا فیصلہ تیمور کو سنا دیا۔



٭….٭….٭

شمس کے تمام دوستوں میں فرید اور آصف کا باقاعدگی سے ہر رات آنا جانا لگا رہتا تھا۔ رفعت آپا کی صحبت میں رہتے رہتے اب نوریہ کو بھی باپ کی سرگرمیوں سے کوفت ہونے لگی تھی۔ اس لیے وہ ان دوستوں کے آتے ہی اپنے کمرے میں بند ہو جایا کرتی تھی۔ سرشام ان کی آمد شروع ہوتی اور رات گئے بلکہ اکثر فجر کی اذان تک جانا ہوتا تھا۔ رفعت آپا نوریہ کے ساتھ اس کے کمرے میں رہتی تھیں۔ دونوں کبھی بورڈ گیمز تو کبھی کہانیاں سنا کر ایک دوسرے کا دل بہلایا کرتی تھیں۔ رفعت آپا خود بھی شمس کے دوستوں کے سامنے نہیں آتی تھیں اور کوشش کرتی تھیں کہ نوریہ بھی ان کے پاس نہ جائے۔

”تم سب سے دور رہا کرو، نشہ انسان کو حیوان بنا دیتا ہے، ہوش و خرد سے بیگانہ ہوکر وہ صحیح اور غلط کی تمیز بھول جاتا ہے۔“

”مگر پاپا بھی ڈرنک کرتے ہیں، تو کیا میں ان سے بھی الگ رہوں۔“ نوریہ نے معصومیت سے سوال کیا۔ رفعت آپا کا جواب بھی صاف اور دوٹوک تھا۔

”ہاں، جب تک تمہارے پاپا کا نشہ اُتر نہ جائے ان کے نزدیک بھی مت پھٹکنا۔ ورنہ بہت پچھتاﺅ گی۔“

رفعت آپا کو علم تھا کہ اس سے باپ اور بیٹی میں دوریاں پیدا ہوں گی مگر نوریہ کے غیرمعمولی حالات کا تقاضا یہی تھا کہ اسے خود کو محفوظ رکھنے کے طریقے بتا دیے جائیں۔ حالاں کہ رفعت آپا کے ہوتے ہوئے نوریہ نے کبھی خود کو غیرمحفوظ خیال نہیں کیا تھا۔ وہ ہر دم اس کا سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہا کرتی تھیںلیکن پھر چوکیدار عنایت کی بیٹی کی شادی طے ہوگئی اور انہیں ہفتے کی چھٹی لے کر گاﺅں جانا پڑااوران سات دنوں میں جو قہر اس پر نازل ہوا وہ اگلے سات سال اس کی زندگی پر مسلط رہا۔

٭….٭….٭

”میں نے تمہاری شادی طے کر دی ہے، آج میرے ساتھ بازار چلنا۔ جو ضرورت کا سامان چاہیے ہوگا خرید لیں گے۔“ شمس نے اتنے عام سے لہجے میں اس کی شادی طے ہونے کی اطلاع دی جیسے کسی غیر کی شادی میں شرکت کا تذکرہ کر رہا ہو۔ اسے پہلے تو یقین ہی نہ آیا، محض سر ہلا کر جی کہا۔

”پوچھو گی نہیں کس سے کررہا ہوں؟“

”اگر آپ مناسب سمجھیں تو بتا دیجئے۔“ نوریہ نے بے تاثر لہجے میں کہا تو شمس چونک گیا۔ پھر انگلی اس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے تنبیہہ کی۔

”کسی الٹی سیدھی حرکت کے بارے میں سوچنا بھی مت، تمہاری ماں کو میں نے چھوڑ دیا لیکن تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا اگر ذرا سی بدمزگی ہوئی تو، سمجھیں؟“ نور کے تاثرات ایک دم بدل گئے، وہ گڑ گڑائی۔

”جی سمجھ گئی، مجھے بتا دیجئے پلیز کون ہے وہ؟“ اسے خوف زدہ دیکھ کرشمس کا موڈ بہتر ہوگیا۔

”بہت اچھا اور سلجھا ہوا لڑکا ہے۔ مجھے تو خوشی ہے کہ تم اسے پسند آگئیں ورنہ جو تمہاری ماں کے کرتوت ہیں اگر کوئی جان لے تو منہ نہ لگائے ہمیں۔ یہ تو میرے نیک اعمال کا صلہ ہے جو لوگ حاجی صاحب کہتے نہیں تھکتے ورنہ….“

”کیا آپ نے اسے بتا دیا کہ میرے ساتھ کیا ہوچکا ہے۔“ درد بھرا سوال نہایت بے دردی سے پوچھا تھا اس نے۔ شمس نظریں چرانے پر مجبور ہوگیا۔

”نہیںاور تم بھی مت بتانا بازل کو۔“

”بازل؟ آپ اس سے میری شادی کررہے ہیں؟“ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔

”ہاں۔ وہی لڑکا جو اس صبح میری واک کے دوران تمہارے پاس آیا تھا۔ صلاح الدین کی بیوی کا بھتیجا ہے، میں کئی ماہ سے اسے مسجد میں….“

اور جانے کیا کیا کہا شمس نے ،نوریہ نے بالکل نہیں سنا۔ بے پایاں خوشی نے اس کے حواس معطل کردیے تھے۔

٭….٭….٭

گاﺅں جانے سے پہلے رفعت آپا نے اسے تاکید کی۔

”جو کچھ میں نے سمجھایا تھا اسے یاد رکھنا،میں کوشش کروں گی جلد واپس آجاﺅں۔“ نوریہ نے بہ مشکل اپنے آنسوﺅں کو بہنے سے روکا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اتنے دن وہ رفعت آپا کے بغیر کیسے رہے گی؟ اسکول کے لیے تیار کرنا، ناشتہ بنانا، چھوڑنا اور وقت پر واپس لے کر آنا، سب کچھ آپا کے ذمے تھا۔ ابھی تک وہ ڈرائیور کے ساتھ اکیلی کہیں نہیں گئی تھی۔

پہلی صبح اس نے بریڈ پر بٹر اور جیم لگا کر ناشتہ کرلیا اور فریج سے ایک سیب نکال کر بہ طور لنچ ساتھ لے گئی۔ اس نے شمس کے کمرے میں جا کر اسے اٹھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ بے سدھ پڑا سو رہا تھا یا شاید نشے کی زیادتی سے بے ہوش تھا۔ اس کے جھنجھوڑنے پر ”اوں آں“ کرتے ہوئے شمس نے کروٹ بدل لی پر بےدار نہ ہوا۔ مایوس ہوکر وہ ڈرائیور کے ساتھ اکیلی اسکول روانہ ہوگئی۔

دوپہر کو چھٹی کے بعد پہلے آدھا پھر پورا ایک گھنٹہ صبر سے انتظار کرتے گزر گیا۔ پھر وہ اٹھ کر آفس کلرک کے پاس پہنچی جس نے اس کی درخواست پر شمس کے آفس فون کیا۔ اس سے بات کرتے ہوئے وہ رو پڑی۔

”پاپا آپ مجھے بھول گئے؟“ شمس کے دل کو کچھ ہوا۔ اسے اپنے جلد پہنچنے کا یقین دلا کر وہ فوراً ہی آفس سے روانہ ہوگیا۔ غلطی اس کی تھی ڈرائیور کو کسی کام سے بھیج کر وہ خود آفس میں مصروف ہوگیا۔ اسے یاد رکھنا چاہیے تھا کہ رفعت آپا گئی ہوئی ہیں اور اسے نوریہ کو اسکول سے وقت پر واپس لانا ہے۔

جب وہ اسکول پہنچا تونور بھاگتی ہوئی آئی اور اس سے لپٹ کر رونے لگی۔ شمس اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھا۔ اسے گھر چھوڑنے کے بہ جائے وہ اپنے آفس لے گیا۔ وہاں اس کی پسند کا کھانا آرڈر کیا اور اپنے سامنے کھانا کھلا کر گھر واپس بھیج دیا۔ ڈرائیور اسے گھر پر چھوڑ کر واپس آفس کی طرف روانہ ہوگیا۔ نوریہ اپنے کمرے میں آکر بستر پر لیٹ گئی اس نے یونی فارم بھی نہیں بدلا تھا۔ زیادہ رونے اور تھکن کے باعث سر بھاری ہورہا تھا جلد ہی اسے نیند آگئی۔ اُسے اندازہ نہیں ہوا وہ کتنی دیر سوئی تھی مگر اس کی نیند ایک عجیب سے احساس کے ساتھ ٹوٹی، اس کی ران پر کوئی ہاتھ پھیر رہا تھا۔ نرمی سے آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے وہ ہاتھ اوپر تک آیا اور پھر اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ فرید اس کے بستر پر بیٹھا تھا اور اس کا ہاتھ نوریہ کے جسم پر حرکت کر رہا تھا۔ وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹی مگر فرید نے سختی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر واپس کھینچ لیا اوردوسرے ہاتھ سے اس کا منہ بند کرکے اسے بستر پر گرا دیا۔

خانساماں اپنے کوارٹر میں تھا اورسیکیورٹی گارڈ گیٹ پر۔ فرید کو ڈرائنگ روم میں شمس کا انتظار کرنے کے لیے بٹھا کر وہ واپس گیٹ پر چلا گیا تھا کیوں کہ اس کی ڈیوٹی گیٹ پر تھی گھر کے اندر نہیں۔ فرید اپنی حیوانیت دکھا کر واپس چلا گیا۔ جاتے ہوئے اس نے نور کا دروازہ لاک کرکے ناب سے بند کردیا۔ وہ معصوم بستر پر بے ہوش پڑی تھی۔ ایک گھنٹے بعد شمس گھر واپس آیا تو نوریہ کے کمرے کا دروازہ ناک کیا، پھر کھولنے کی کوشش کی۔ ا سے لاک پا کر وہ نوریہ کے آرام کے خیال سے ہٹ گیا پھر جب رات کے کھانے پر بھی وہ باہر نہ آئی تو شمس کو تشویش ہوئی۔ اس نے خانساماں کے ساتھ مل کر کمرے کا دروازہ توڑا اور اندر داخل ہوگیا۔ کاش اس نے دروازہ نہ توڑا ہوتا۔ کاش وہ منظر دیکھنے سے پہلے اس کی آنکھیں اندھی ہو جاتیں۔ کاش اس نے اپنی بیٹی کو گھر پر اکیلا نہ چھوڑا ہوتا۔ اس دن کے بعد ہر دن شمس یہی سوچتا رہا کہ ان میں سے کون سا کاش پورا ہوتا تو یہ سب نہ ہوتا جو ہوگیا تھا۔ نوریہ کے لیے اس سے اچھی تو موت ہی ہوتی۔ اندر ہی اندر روتے روتے اس کا وجود گھلنے لگا۔ اس کے پاس رونے کے لیے بے شمار دکھ تھے تو شمس کے پاس ڈستے ہوئے پچھتاوے کے ناگ، جو اسے چین نہیں لینے دیتے تھے۔

ایک بار پھر اس نے گھر بدلا اور دوسرے علاقے میں رہنے چلا گیا۔ وہاں اس کی مے نوشی اور جوئے کا شوق ساتھ نہیں گئے تھے۔ اس نے توبہ کرلی تھی ہر اس کام سے جسے وہ پہلے بڑے اہتمام سے کیا کرتا تھا۔ اپنا تمام کاروبار اور فیکٹری کے انتظامات اس نے بھائیوں کے حوالے کردیے۔ اس کے بدلے ایک خطیر رقم بنک میں جمع کرلی اور ہر مہینے منافع کی رقم سے گھر چلانے لگا۔ اس نے دنیا سے ناتا توڑ لیا اور ہر دم نوریہ کے سر پر سوار رہنے لگا۔ اس کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرتا، کھانا پکاتا گھر کی صفائی ستھرائی کرتا اور اسے پڑھاتا۔ دین کے وہ سبق جو خود اس نے سمجھے بغیر پڑھے اور یاد کرلیے تھے۔

اُس نے کبھی نوریہ سے دو بول ہم دردی کے نہ بولے۔ وہ بارہ سال کی بچی جس فرید کی ہوس کا نشانہ بنی، وہ آزاد پھر رہا تھا۔ شمس اس کے پیچھے نہیں گیا تھا، اپنی بدنامی کا اشتہار دنیا کو دکھانے کی ہمت نہیں تھی اس میں۔ نوریہ پر اس کا بس چل سکتا تھا سو چل رہا تھا۔ وہ بیٹی ہونے کی سزا بھگتتی رہی، تب بھی جب باپ بے راہ رو تھا اور اب بھی جب وہ صراط مستقیم پر چلنے کا عزم کر بیٹھا تھا۔ نوریہ کو درمیانے درجے کے لڑکیوں کے اسکول میں داخلہ دلوا کر اس نے باقی ہر قسم کی آزادی سلب کرلی۔ اسے پردے میں رہنے اور اسے قائم رکھنے کے آداب بتائے گئے اور عمل بھی کروایا گیا۔ اسے ہر پل یہی احساس دلایا جارہا تھا کہ اپنے ساتھ ہونے والی ہر خرابی کی ذمہ دار وہ خود ہے۔ شمس پر اکثر دورہ پڑتا تھا۔اسے خواب میں وہ منظر دکھائی دیتا جو فرید اور نوریہ کے درمیان تھا۔ کبھی وہ دیکھتا کہ وہ ایک بند دروازے کے پیچھے کھڑا ہے، وہ اسے کھولنے کی پوری کوشش کررہا ہے پر دروازہ نہیں کھلتا اور دروازے کی دوسری طرف فرید اس کی بیٹی کے ساتھ،اتنا خواب دیکھنے کے بعد وہ خوف زدہ ہوکر اُٹھ بیٹھتا۔ بھاگ کر نوریہ کے کمرے تک پہنچتا اور دروازہ کھلا پا کر اسے ڈھارس ملتی۔ نوریہ کو دروازہ بند رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس جوان ہوتی بچی کو اپنا پردہ قائم رکھنے کی بالکل بھی چھوٹ نہیں تھی کیوں کہ باپ نفسیاتی مریض تھا۔ کھلے دروازے سے وہ ہر پل اس کی نظروں کے سامنے رہتی تھی۔ ہر دم اسے شمس کی آنکھیں خود پر محسوس ہوتی تھیں۔ فرید نے اس کے ساتھ جو کیا تھا اس پر شمس کو اس سے کوئی ہم دردی نہیں تھی۔ اسے بھی ڈراﺅنے خواب آتے تھے۔ کھلا دروازہ اسے خوف زدہ کرتا تھا۔ وہ کہیں چھپ جانا چاہتی تھی۔ ہزار تالوں کے پیچھے بند ہوکر محفوظ ہونا چاہتی تھی۔ پر وہ کیا چاہتی ہے؟ اس سے شمس کو کوئی غرض نہیں تھی۔ اُسے بس اپنے ضمیر کو مطمئن کرنا تھا کہ پہلے جو ہوا سو ہوا، اب وہ ایک باپ کی ذمہ داری صحیح طرح سے نبھا رہا ہے۔ خود بھی راہ راست پر ہے اور اولاد کو بھی گناہ سے بچا کر رکھے ہوئے ہے۔

نور پر اپنا بس چلانے کے بعد اس کا نشانہ اور لوگ بننے لگے۔ وہ محلے داروں کی زندگی میں کیڑے نکالنے لگا۔ انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا کرتااور دوزخ میں جلنے کی سزا سنایا کرتا تھا۔ ایسے باپ سے نوریہ نفرت کے علاوہ اور کیا کرسکتی تھی۔ شمس کی انتہا پسندی نے نور کو خود سے ہی نہیں اپنے خالق سے بھی دور کردیا تھا۔ وہ بہت خوش ہوئی تھی کہ اس کی شادی بازل سے ہوگی کیوں وہ بھی ایک دہریہ تھا، نور کی طرح۔

٭….٭….٭

اس کی ماں بننے کی خواہش تیمور کے نزدیک اب بھی نہایت دقیانوسی تھی۔ بھلا کون ذی شعور عورت ہوتی ہے جو اپنا حسن اور جوانی اس فضول سی خواہش پر قربان کردے، مگر سعدیہ ماڈرن بنتے بنتے تھک چکی تھی۔ اب وہ صرف ماں بننا چاہتی تھی۔

اس نے گھر سے باہر اپنی سرگرمیاں محدود کیں اور زیادہ تر وقت گھر پر گزارنے لگی۔ کچھ مہینوں بعد اسے تشویش ہونے لگی تو ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کرایا۔ اس نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیے جن کے رزلٹ کچھ حوصلہ افزا نہیں تھے۔ اس کے ماں بننے کے فیصلے پر تیمور سے زیادہ قدرت کو اعتراض ہورہا تھا۔ دو بار ابارشنز کراتے ہوئے اس کا دل نہیں کانپا تھا۔جو بچے کوکھ میں بنا اس کی مرضی کے آئے تھے انہیں جان سے مار دیا تھا اس نے، شاید اسی گناہ کی سزا مل رہی تھی۔ لاکھ خواہش کے باوجود رزلٹ پازیٹو نہیں آیا تو بہت عرصے بعد اس نے اپنی ماں سے دعا کرنے کے لیے کہا۔ ماں جو اس کی بے راہ روی پر نصیحتیں کر کرکے تھک جانے کے بعد ہونٹ سیئے بیٹھی تھی،اس مطالبے پر پھٹ پڑی۔

”تمہارے جیسی بے حیا اولاد کے لیے کس منہ سے دعا مانگوں؟ کوئی حجت نہیں چھوڑی تم نے، رب کو ناراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اب بھگتو۔“ سعدیہ ماں کے آئینہ دکھانے پر آگے سے ایک لفظ بولے بغیر اپنے عالی شان گھر میں واپس آگئی تھی۔ اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے دل کی آنکھوں سے خود کو دیکھا تو ایک بے حجاب مکروہ صورت عورت نظر آئی۔ وہ حیرت سے خود کو دیکھتی ہوئی آئینے کے نزدیک گئی۔ اپنا چہرہ اس سے پہچانا نہیں جارہا تھا۔ وہ کبھی حسین اور دل کش ہوا کرتی تھی مگر اب نہیں۔ حیرانی تو اسے اس بات پر ہورہی تھی کہ اپنی یہ بدصورتی اسے پہلے دکھائی کیوںنہیں دی۔ پہلے سمجھ میں کیوں نہیں آیا کہ اس کی صورت بدل چکی ہے۔ اس کے اعمال کی طرح ”بد“ دکھائی دینے لگی ہے۔ ماں کے کہے الفاظ ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ بے شک اس نے گناہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اپنے رب کو ناراض کرتے ہوئے ہرحجت ختم کردی تھی۔ یہ احساس گناہ تھا یا شرمندگی کہ سعدیہ کا وجود پانی پانی ہوکر آنکھوں کے رستے بہنے لگا۔ وہ خوب روئی، روتے روتے زمین پر بیٹھ گئی اور پھر سجدے میں گر پڑی۔

”مجھے معاف کر دے میرے مالک۔ میں نے تیری قائم کردہ سب حدیں توڑ ڈالیں، میں نافرمان تھی، سرکش اور بے حیا تھی۔ تیرا حق ادا نہیں کیا میں نے، مجھے معاف کردے۔“ وہ روتی رہی کئی گھنٹوں تک، اس نے دو معصوم جانیں لی تھیں۔ اللہ کی ناشکری کرتی رہی تھی۔ اسے رہ رہ کر اپنا ہر گناہ یاد آرہا تھا اور آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ پھر اس نے اٹھ کر غسل کیا۔ اپنے پرانے کپڑوں میں سے ایک مکمل لباس نکالا اور نماز ادا کرنے لگی۔ نماز کے دوران بھی آنسو تواتر سے بہتے رہے۔ اسے بتدریج بہتر محسوس ہونے لگا تھا۔ آنسو جیسے ساری کثافت، گناہوں کے سارے داغ دھو رہے تھے۔ وہ اپنے رب کی رضا کی طلب گار تھی اور اس کی معافی کی خواست گار بھی۔ اسے محسوس ہورہا تھا کہ توبہ قبول کرلی گئی ہے۔



سعدیہ کا باطن بدلا تو اس نے ظاہر بھی بدلنا شروع کیا۔ بے حیائی کے تمام ملبوسات کچرے میں پھینک دیے اور نئے کپڑے خرید لائی جو حقیقتاً لباس کہلانے کے لائق تھے۔ پورے گھر سے شراب کی بوتلوں کو جو مہمانوں کی ضیافت کے ساتھ ساتھ شوہر کی عیاشی کا ساماں بھی تھیں اکٹھا کرکے انہیں سنک میں بہایا، پھر توڑ کر باہر پھنکوا دیں۔ بزنس ٹور پر سات دن ملک سے باہر رہنے کے بعد تیمور جب گھر واپس آیا تو دیکھا گھر کے ساتھ ساتھ گھر والی بھی اندر باہر سے پوری طرح تبدیل ہوچکی ہے۔ اس کے اظہار خفگی پر سعدیہ نے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے یہ سب کچھ کررہی ہے اور اسے بھی توبہ کرلینی چاہیے۔ تیمور قائل ہوا لیکن سعدیہ کی حد تک۔ وہ اس سے محبت کرتا تھا اور اس بات پر اسے چھوڑ تو نہیں سکتا تھا،اس لیے خاموشی اختیار کرلی۔ اسے توقع تھی کہ کچھ عرصے بعد سعدیہ خود ہی نارمل ہو جائے گی۔ یہ وقتی جنون جو اولاد کی شدید خواہش کی وجہ سے ہے جلد ختم ہو جائے گا۔ یہی سوچ کر اس نے سعدیہ کی بدلتی کیفیت سے سمجھوتہ کرلیا تھامگر سعدیہ ایسا نہ کرسکی۔ اس نے اپنے آپ کو بدل لیا تھا اور اب وہ تیمور کو بھی بدلنا چاہتی تھی۔ ظاہر ہے یہ اتنا آسان نہ تھا، پھر بھی اس نے کوششیں جاری رکھیں۔ آئے دن گھر میں ختم قرآن پاک، میلاد شریف اور درس منعقد کرانے لگیں۔ اٹھتے بیٹھتے اپنی گفت گو میں احادیث کا حوالہ شامل کرنا شروع کیا۔ صدقہ و خیرات بہت زیادہ کرنے لگی اور تیمور کو بھی ترغیب دیتی رہی۔ تیمور سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتا رہا پر اندر ہی اندر وہ اس ساری صورت حال سے سخت بے زار ہونے لگا تھا۔ کام کا بہانہ کرکے اس نے گھر سے باہر وقت گزارنا شروع کردیا۔ اپنی بیوی کے نہ ختم ہونے والے دینی احکامات اور نفلی عبادات سے وہ تنگ آتا جارہا تھا۔ سعدیہ پوری شدت سے اس دن کے انتظار میں تھی جب اللہ اس کے گناہ معاف کرکے اسے دوبارہ اولاد جیسی نعمت سے نوازتا۔ بالآخر دو سال بعد اسے یہ خوش خبری ملی کہ وہ ماں بننے والی ہے۔

٭….٭….٭

نوریہ نے ایک سوٹ کیس میں اپنا سامان جمع کرنا شروع کردیا۔ کچھ کپڑے وہ شمس کے ساتھ جا کر خرید لائی تھی۔ زیور بھی شمس نے اس کی پسند سے خریدا تھا۔ زیادہ دن نہیں تھے اس کے پاس کہ کچھ آرڈر پر بنوایا جاتا اس لیے جتنا بنایا جو پسند آیا بس اٹھا لیا۔

اس کے مختصر سے جہیز میں سب سے زیادہ قیمتی وہ چیزیں تھیں جو اس کے بچپن سے اس کے پاس موجود تھیں۔ کچھ کتابیں جو رفعت آپا نے اپنی پسند سے اسے دلوائیں تھیں، ایک لیپ ٹاپ جو اس کی بارہویں سالگرہ پر شمس نے گفٹ کیا تھا۔ اسی پر وہ ہر رات ناسٹی ملاسے بات کرتی آئی تھی۔ اس وقت وہ نئی نئی کالج میں گئی تھی۔ رات کو باتھ روم میں بیٹھ کر وہ اس کی چھوٹی سی سکرین سے باہر کی دنیا سے رابطہ قائم کرلیتی۔ جہاں لوگ کھل کر سانس لیتے تھے۔ بنا سوچے سمجھے جو چاہتے کہہ دیتے، انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ جیسے چاہتے جیتے جو چاہیں پہنتے تھے۔ کبھی کبھی اس کا دل چاہتا اس چھوٹی سی کھڑکی کے اندر کود جائے، رنگ برنگی کاغذ کی گڑیا بن کر۔ اپنے سب دکھ، درد، تکلیفیں بھلا کر ہنسے کھیلے، گنگنائے۔ رات بھر اسے خواب بھی اس رنگین دنیا کے دکھائی دیتے پر صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی اس کا دن سیاہ ہو جایا کرتا تھا۔ شمس کی قہربار نظریں، زہر بھرے جملے اور نصیحتیں اس کی زندگی اجیرن کیے رکھتیں۔ تب تک اس کی خلاصی نہ ہوتی جب تک وہ رو رو کر اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی نہ مانگتی۔ مگر اب اس کے دن بدلنے والے تھے۔ وہ یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جارہی تھی اور بہت خوش تھی۔ ویسے تو ہر قسم کی رسم کرنے سے شمس منع کر رکھا تھا، پر نکاح کا جوڑا عارفہ آنٹی طوبیٰ کے ساتھ دینے آئی تھیں۔ اسے تھوڑی حیرت ہوئی تھی آخر بازل کے ماں باپ کہاں ہیں؟ شاید شمس اس دن کچھ بتا رہا تھا ان کے متعلق کہ بیمار ہیں۔ اسی لیے سادگی سے شادی ہوگی لیکن دونوں کیسے اس قدر علیل ہوگئے کہ بیٹے کی شادی میں شریک بھی نہ ہوسکیں گے۔ چلو چھوڑو جب وہاں پہنچوں گی تو خود ہی پتا چل جائے گا،یہاں سے تو نکلوں۔ سب جذبات پر حاوی بس شمس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خوشی تھی۔

نکاح مسجد میں ہونا طے تھا، شمس جب محلے کے چند معزز لوگوں کو بطور گواہ لے کر اس سے نکاح نامے پر دستخط کروانے آیا تو وہ گھونگٹ نکالے بیٹھی تھی۔ طوبیٰ اور عارفہ آنٹی اس کے دائیں بائیں تھیں۔ شمس نے کاغذات ایک فائل میں لگا کر اس کی گود میں رکھے اور پین پکڑا دیا۔ فرط مسرت سے نوریہ کے ہاتھ کانپنے لگے، اُسے ڈر ہوا کہیں دست خط ٹیڑھے میڑھے نہ ہوجائیں۔ بڑی مشکل سے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اس نے پہلے صفحے پر دست خط کیے۔ اسی پل شمس کی سسکیوں کی آواز نے اُسے چونکایا، وہ رو رہا تھا۔

”ہونہہ، ڈرامے باز۔“ ایک لمحہ کو اس کی توجہ بٹ گئی تھی، دوبارہ سے ارد گرد بھلا کر اس نے پوری دل جمعی سے باقی کاغذات پر دست خط کیے اور سُکھ کا سانس لیا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اُٹھ کر ناچنے لگے مگر چپکی بیٹھی رہی۔ کچھ دیر بعد سب مرد مسجد چلے گئے۔ صلاح الدین اور بازل نے وہیں پہنچنا تھا۔ عصر تک نکاح پڑھا دیا گیا اور بازل اپنی مختصر سی بارات لے کر اُسے قید خانے سے رہائی دلانے آپہنچا۔ اُس دن کا سورج نوریہ کی زندگی کے تمام اندھیرے اپنے ہمراہ لے کر غروب ہوا تھا۔ یہ شادی روایتی شادیوں کی طرح نہیں تھی۔ رخصتی کے بعد بازل خود ڈرائیو کرکے نوریہ کو اپنے گھر لے آیا تھا۔ نور کے ذاتی سامان کے علاوہ اس نے شمس سے کچھ بھی لینے سے انکار کردیا تھا۔ گھر پہنچ کر اس نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی تو ملازم پھولوں کے ہار لیے اس کے استقبال کرنے آگے بڑھے۔ بازل نے اُتر کر پہلے نوریہ کا دروازہ کھولا اور اس کا ہاتھ تھام کر باہر آنے میں مدد کی۔ نوریہ دلہن بن کر بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ہر تھوڑی دیر بعداس کے لبوں پر بکھرتی مسکراہٹ نے اس کے حُسن میں جیسے چار چاند لگادیے تھے۔ اُس نے ایک بھرپور نظر بازل کے خوب صورت محل نما گھر پر ڈالی اور اپنی قسمت پر ناز کرتی اندر داخل ہوگئی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!