”لگتا ہی نہیں وہ تمہارا سگا بھائی ہے۔“ عاصم کو یقین نہیں آیا جب بازل نے کلاس میں آنے والے نئے لڑکے کو اپنا سگا بھائی بتایا۔ مازن شاہ کا تعارف سن کر کلاس میں اور کسی کی حالت اتنی غیر نہ ہوئی جتنی بازل کی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ بے اختیار اس نے اپنا سر اوپر اٹھا کر اللہ تعالیٰ کو ”شکریہ“ کہا اور اپنے بھائی کی طرف دیکھنے لگا۔ اس سے پورے تین منٹ چھوٹا مازن قد میں اس کے برابر ہی تھا۔ کلاس ختم ہونے کے بعد بازل کا دل چاہا جا کر اس سے لپٹ جائے مگر وہ صرف سوچ کر رہ گیا عمل نہ کرسکا۔ پورے پانچ سال گزر گئے تھے انہیں بچھڑے ہوئے۔

پتا نہیں وہ اس سے مل کر کس طرح ری ایکٹ کرے، کیا کہہ دے؟ اسکول میں سب کے سامنے تماشا بننے کا حوصلہ نہیں تھا بازل میں،مگر وہ عاصم کو بتائے بغیر نہ رہ سکا جو اس کا پکا دوست تھا اور اس کے حالات سے اچھی طرح واقف بھی۔ بازل کو بتانے کے بعد اس نے مازن کو خوب غور سے دیکھا اور کہا۔

”شکر ہے تم دونوں کی شکلیں ایک جیسی نہیں ہیں۔“

”اس میں شکر کرنے والی کون سی بات ہے؟“

”بھئی دیکھو تو۔“ اس نے آڈیٹوریم کی سیڑھیوں پر براجمان لڑکیوں کے گروپ کی طرف اشارہ کیا جو مازن سے ہنس ہنس کر باتیں کررہی تھیں۔

”یہ ہادیہ، شانزے اور صدف آنے والے دنوں میں تمہیں مازن سمجھ کر دل کا حال سنانے بیٹھ جاتیں۔“

”فضول باتیں چھوڑو اور مجھے بتاﺅ اس سے کیسے ملوں؟“ بازل کی بے چینی دیکھ کر عاصم سنجیدہ ہوگیا۔

”یہ کام اتنا مشکل تو نہیں ہے یار وہ سامنے کھڑا ہے تمہارے، جاﺅ مل لو۔“ بازل اس کے ہمت دلانے پر اٹھا اسی وقت مازن نے اس کی جانب دیکھا اور کچھ کہا جواب میں صدف نے بازل کی جانب اشارہ کرکے اثبات میں سر ہلایا تو مازن مُسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے لگا۔ اس کے نزدیک آنے تک بازل سانس روکے کھڑا رہا۔

”ہیلو بھیا!“ مازن نے اپنا ہاتھ مصافحے کے لیے اس کی طرف بڑھایا تھا، پر بازل ہاتھ نہیں ملا سکا، اس نے تڑپ کر بھائی کو گلے لگالیا تھا۔

٭….٭….٭

سعدیہ نے جاب کی تلاش شروع کردی تھی۔ وہ چاہتی تھی گھر چھوڑنے سے پہلے اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو جائے۔ اس نے لندن کی یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ کسی بھی بنک میں اسے آرام سے جاب مل سکتی تھی مگر وہ سودی کاروبار کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھی۔ اس لیے بھی نوکری کے مواقع محدود ہوگئے تھے۔ مختلف کالجز میں اپلائی کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے گھر پر بچوں کو تیمور سے دور رہنے کا سبق پڑھانا شروع کردیا۔

رہائش کا مسئلہ اس نے بھائی سے بات کرکے حل کرلیا تھا۔ ان کے والدین کا گھر خالی پڑا تھا، سعدیہ نے قانونی طریقے سے اس گھر میں اپنے حصے کے علاوہ مزید رقم شامل کرکے اس کی قیمت ادا کردی۔ یہ کام تیمور کو لاعلم رکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔ سعدیہ نے اپنے سب زیورات بیچ کر رقم پوری کی۔ اب اس کے والدین کا گھر اس کی ملکیت تھا۔

ان تمام معاملات کو طے کرنے میں چند ماہ سے زیادہ صرف نہیں ہوئے تھے۔ تیمور کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی،جس کے باعث سعدیہ کو بھی اپنے فیصلے پر قائم رہنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرناپڑا تھا۔ فردوس کا گھر میں آناجانا لگا رہتا تھا لیکن دونوں بچے سعدیہ کے حکم کے عین مطابق اس سے دور رہا کرتے تھے۔ ایسے میں وہ تیمور سے بھی ٹھیک طرح سے بات نہیں کیا کرتے تھے۔ تیمور نے محسوس کیا تو ان سے پوچھا۔ ”کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو، اب پاپا کو پیار نہیں کرتے؟“ مازن تو خاموش رہا پر بازل بول پڑا۔ ”ماما کہتی ہیں آپ برے آدمی ہیں۔“ تیمور فردوس کے سامنے خاموش رہا مگر اس کے جاتے ہی وہ سعدیہ پر گرجنے لگا۔

”تم خود کو پارسا سمجھتی ہو؟ ذلیل عورت میرے بچوں کو بھی میرے خلاف بھڑکا دیا۔“ سعدیہ بھی چپ نہیں بیٹھی۔

 ”مجھے بھڑکانے کی کیا ضررت ہے؟ ان کی آنکھیں نہیں ہیں کیا؟ وہ دیکھ نہیں سکتے کہ ان کا باپ نامحرم عورتوں سے دوستیاں پال رہا ہے۔ اُنہیں گھر پر لاکر اپنی بیوی کو ذلیل کررہا ہے؟“

”تم میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ شوہر کو اپنا بناکر رکھ سکو۔“

’جھوٹ مت بولیںتیمور۔ میں لاکھ جتن کرتی رہی مگر آپ نے ا پنے چسکے نہیں چھوڑے، اپنے گناہوں کا ذمہ دار مجھے مت ٹھہرائیں۔“

”کوئی مانے گا تم لندن سے پڑھ کر آئی ہو؟ اپنا حلیہ دیکھو، سر سے پیر تک یہ بیڈ شیٹ اوڑھ کر پھرتی ہو، اوپر سے گناہ ثواب کی تقریر یں، کس طرح برداشت کروں تمہیں؟“

”مت کریں برداشت، پر اب آخری بار فیصلہ کرلیں کہ آپ ہمیں چھوڑیں گے یا اپنے رہن سہن کو۔“

”کیا مطلب ہے اس بات کا؟“

”مطلب میں اپنے بچوں کو ایسے ماحول میں نہیں رکھنا چاہتی جیسا آپ نے اس گھر کا بنا رکھا ہے۔ اگر آپ نہیں سدھرنا چاہتے تو میں انہیں لے کر یہاں سے چلی جاﺅں گی۔“

”تم یہ گھر چھوڑدوگی؟“ تیمور کو یقین نہیں آیا۔

”بالکل، اگر آپ اپنے گناہوں پر ہٹ دھرمی سے ڈٹے رہیں گے تو میں یہاں نہیں رہوں گی۔ میں اپنے بچوں کو ایک اچھا مسلمان بنانا چاہتی ہوں۔“

”تم غلط کررہی ہو۔“

”آپ غلط کررہے ہیں تیمور۔“

”میں کچھ غلط نہیں کررہا، جو مذہب مجھے اپنی مرضی سے جینے کا حق نہ دے میں اُس کی پیروی کیوں کروں؟ تمہارے کہنے پر چودہ سو سال پر انی کتاب کھول کر بیٹھ جاﺅں اور دنیا چھوڑدوں تو ترقی کیسے کروں گا؟ اس سے بہتر ہے میں تمہیں چھوڑوں۔“

”تو چھوڑ دیں، سب کچھ چھوڑدیں۔ بیوی بچے، دین مذہب چھوڑ کر کافر ہوجائیں۔“ سعدیہ غصے سے چلائی تھی۔

”بچے کیوں چھوڑوں؟ تمہیں جانا ہے تو ابھی دفع ہوجاﺅ، بچے یہیں رہیں گے۔“

تیمور نے بازل اور مازن کو کھینچ کر اپنی طرف کیا، سعدیہ کی جان نکل گئی۔

”ایسا مت کریں تیمور۔ یہ بگڑ جائیں گے، جانے دیں انہیں میرے ساتھ۔“

”یہ خود تمہارے ساتھ نہیں جائیں گے۔ جس طرح تم زبردستی اُن کو مُلّا بنانے پر تلی ہوئی ہو، بے زار ہیں یہ تمہاری شکل سے۔“ اس نے دونوں بچوں کے بازوں سختی سے پکڑے اور انہیں سعدیہ کے سامنے کھڑا کیا۔

”بتاﺅ، جانا چاہتے ہو اپنی ماں کے ساتھ؟“مازن رونے لگا تھا۔

”پاپا مجھے درد ہورہا ہے۔ ماما کے پاس جانا ہے۔“ اور تیمور کو ایک سیکنڈ نہیں لگا تھا مازن کو دھکیلنے میں۔ وہ فرش پر منہ کے بل گرا۔ بازل یہ دیکھ کر ڈر گیا اگر میں نے کہا ، ماما کے پاس جانا ہے تو پاپا مجھے پھینک دیں گے۔ اس نے جھٹ تیمور کی ٹانگ سے لپٹ کر کہا۔ ”میں پاپا کے پاس رہوں گا۔“

سعدیہ کو مازن کے گرانے پر تیمور پر تو غصہ تھا ہی اسی لمحے بازل کے منہ سے یہ سن کر وہ خود پر قابو نہ رکھ سکی۔ ”ٹھیک ہے، یہیں رہو اپنے باپ کے پاس، تم بھی دوزخ میں جاﺅگے اس کے ساتھ، مرو یہیں پر۔“ اس نے فوراً مازن کو گود میں اٹھایا اور باتھ روم میںلے گئی کہ اُس کے منہ سے بہت خون بہ رہا تھا۔

تیمور بازل کو گود میں اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آیا اور دروازہ لاک کرلیا۔ کب سعدیہ مازن کو لے کر نکل گئی، اُسے پتا ہی نہیں چلا تھا۔ مازن اور بازل کو حالات کی سنگینی کا کچھ بھی اندازہ نہیں تھا۔ ماں باپ کی یہ لڑائی بھی اُنہیں ہمیشہ کی طرح وقتی محسوس ہوئی تھی۔ جب تک کچھ دن ہفتوں اور پھر مہینوں میں تبدیل نہ ہوگئے اُنہیں یقین نہیں آیا تھا کہ اُن کا گھر ٹوٹ چکا ہے۔ تیمور نے سعدیہ کو طلاق نہیں دی تھی مگر دونوں پورے ہوش و حواس میں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے تھے اس لیے صلح کا کوئی امکان نہیں رہا تھا۔ سعدیہ بازل سے بھی نفرت کرنے لگی تھی کیوں کہ اُس نے تیمور کے پاس رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اُس نے بازل سے دوبارہ ملنے کی کوشش بھی نہیں کی ۔ مازن کا اسکول بھی چھڑوا دیا تھا تاکہ وہ مکمل طور پر اُسے تیمور اور بازل سے دور رکھ سکے۔ سعدیہ نے اپنی ماں کے گھر سے قریب ہی ایک اسکول میں جاب حاصل کرلی تھی اور مازن کا داخلہ بھی وہیں کرالیا ۔ یہاں تعلیم کا معیار ویسا نہیں تھا جیسا پچھلے اسکول میں سعدیہ دیکھ چکی تھی مگر اُسے فی الحال مازن کے لیے اس سے بہتر آپشن نظر نہیں آرہا تھا۔

٭….٭….٭



اگر پہلے سعدیہ دو بچوں کو ساتھ پالتے ہوئے دونوں پر ایک جتنی توجہ دے رہی تھی تو اب اُس کا سارا دھیان صرف اور صرف مازن پر تھا۔ وہ جوبازل سے آگے نکلنے کی حرص میں اپنا سبق اور نماز پہلے یاد اور ادا کرلیتا تھا اب قدرے بے پروائی برتنے لگا۔ اکثر فجر کی نماز قضا ہوجاتی۔ پہلے تو سعدیہ پیارسے سمجھاتی تھی مگر علیحدہ ہونے کے بعد وہ بہت سخت ہوگئی۔ فجر کا اول وقت ہوتے ہی وہ دندناتی ہوئی مازن کے کمرے میں پہنچ جاتی۔ پہلے زور سے دروازہ بند کرتی اور پھر عین اُس کے منہ کے اوپر والی لائٹ آن کرکے آوازیں دینا شروع کردیتی۔

”مازن اُٹھو، نماز کا وقت ہوگیا۔“

مازن اُوں آں کرتا تو وہ اُسے ڈپٹ کر ہاتھ کھینچ کر بٹھا دیتی، مازن بڑی مشکل سے اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا اور گھسٹ گھسٹ کر باتھ روم تک پہنچتا ہی تھا کہ سعدیہ جو ”اعوذ بااللہ“ کا ورد اونچی آواز میں کرتی مسلسل اُس پر پھونک رہی ہوتی تھی یک دم اُس کے سر پر کھڑی ہوکر یاد دلاتی۔

”بیٹا! بیت الخلا میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھتے ہیں، چلو پڑھوشاباش۔“

مازن مارے باندھے دعا پڑھتا اور باتھ روم میں گھس جاتا۔ سعدیہ اطمینان سے اپنی نماز پڑھنے کھڑی ہوجاتی۔ بڑی چاہ سے اپنے کمرے کے ایک کونے میں اُس نے عبادت گاہ بنائی تھی۔ مازن کو باتھ روم میں بھیج کر وہ آرام سے لمبے لمبے سجدے کرتی،نماز مکمل کرنے کے بعد قرآن پڑھنے لگتی۔ تب مازن باتھ روم سے برآمد ہوتا تھا۔ ماں کی سخت نظروں کو نظر انداز کرتا وہ جا نماز بچھا کر کھڑا ہوجاتا۔ سعدیہ قرآن پاک کے چند رکوع تلاوت کرنے کے بعد رکھ دیتی تاکہ مازن پڑھ سکے۔ وہ سب کچھ ویسے ہی کرتا جاتا جیسے جیسے وہ کہتی جاتی ۔ شروع شروع میں سعدیہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے مازن کی نماز ممکنہ وقت سے پہلے ختم ہوجاتی ہے۔ اُس نے مازن کو بٹھا کر نماز سنی تو اُس نے تیز رفتاری دکھا کر فٹا فٹ سورتیں سنادیں جس پر سعدیہ سخت خفا ہوئی تھی۔

”آہستہ آہستہ پڑھنے والے کے لیے دگنا ثواب ہے۔ یوں تیز تیز پڑھوگے اور اعراب کہیں کے کہیں ادا ہوئے تو دماغ اُلٹ جائے گا، سمجھے؟“

اس نے مازن کو ڈرایا تاکہ آئندہ وہ تیز پڑھنے سے باز رہے۔ سعدیہ نے تو ثواب کی بشارت سے متعلق حدیث سنا کر آئندہ اسی طرح پڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے بات ختم کردی، مگر بات یہاں ختم نہیں ہوئی تھی۔ زور زبردستی اور خوف دلانے سے وہ کیا خاک عبادت کی طرف مائل ہوتا، اُلٹا بے زار ہوتا چلا گیا۔ اپنے ہونٹوں کو یونہی ہلاتے ہوئے وہ کن انکھیوں سے ماں کی موجودگی کا اندازہ لگا کر نہایت د ل جمعی سے نماز ادا کرنے کی اداکاری کرتا اور سعدیہ کے ہٹتے ہی جلدی جلدی سجدے رکوع اور سلام پھیر کر جانماز ایک طرف پھینک دیتا۔

اُس کی ماں عجیب تھی۔ اُس کی نظروں میں جیسے سوائے دین کے اورکسی بات کی اہمیت ہی نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں پوچھیں گے، نافرمانی کرنے والوں پر قبر میں عذاب نازل ہوتا ہے، مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے، اللہ تعالیٰ آگ میں ڈال دے گا۔ ایسے جملے سن کر پہلے وہ ڈرتا تھا پھر سن سن کر ڈرتے ڈرتے تھک گیا۔ کچھ اُلٹا سیدھا کرنے کے بعد جب اللہ کی طرف سے کوئی سزا نہ ملی تو پتا چلا ماں جھوٹ بھی بولتی ہے۔

وہ مازن سے کہا کرتی تھی، جھوٹ نہ بولنا، اللہ تعالیٰ زبان کالی کردیں گے اور پھر چہرہ بھی۔ اور مازن کو اپنے چہرے سے بہت پیار تھا۔ اکثر آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر خود پر غور کرتا اور دل ہی دل میںسراہتا رہتا، اگر ماں کے سامنے کچھ کہتا تو وہ شکر ادا کرنے کی دعائیں پڑھانے لگتی تھی۔ ”کالی زبان“ کا جھوٹ بھی کھل گیا تھا۔ اسکول میں ایک دوست سے مدد لینے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا اور پھر چھٹی ہونے تک زبان بند کرکے بیٹھا رہا۔ گھر آکر سب سے پہلے اُس نے اپنی زبان چیک کی جو بدستور اپنے اصل رنگ پر قائم تھی وہ پورا دن اور اس کے بعد آنے والے کئی دن تک جب زبان کا رنگ تبدیل نہ ہوا تب اُس نے جانا کہ اصل جھوٹ ماں نے بولا تھا۔ وہ خوامخواہ اُسے پریشان کرنے کے لیے ایسا کہتی رہی۔

جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا اُس کے دل سے تمام خوف ختم ہونے لگے۔ اِردگرد رہنے والوں، ملنے جلنے والوں میں کتنی ہی مثالیں موجود تھیں کہ لوگ غلط کام دھڑلے سے کرتے، ان پر تو کوئی عذاب نازل نہیں ہوا،تو میں کیوں ڈروں؟ وہ نڈر ہوتا چلا گیا یہ اور بات تھی کہ اپنی ماں کے سامنے وہ اس کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ جو اُسے ایک آئیڈیل ”مومن“ کے روپ میں اُس کے باپ کے سامنے پیش کرنے کی خواہاں تھی۔ سعدیہ اکثر کہا کرتی تھی تیمور بھٹک گیا ہے مازن، اُسے راہِ راست پر چلنے کی توفیق نہیں ملی اور تم نے اپنے عمل سے اپنے باپ کے راستے کو غلط ثابت کرنا ہے، جب کہ مازن کو لڑکپن میں نہ اپنی ماں کی اُمیدوں سے دلچسپی رہی تھی نہ باپ کو گناہ گار ثابت کرنے میںرہی ۔ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینا چاہتا تھا۔ صرف اپنے لیے،کسی اور کے لیے نہیں۔

٭….٭….٭

آٹھویں کلاس کے دوران سعدیہ کو مازن کے کیرئیر کی فکر لگ گئی تھی۔ وہ جو ہر وقت لائبریری میں گھسا انسائیکلوپیڈیا چاٹتا رہتا تھا، سائنس سبجیکٹس میں اُس کے مارکس گزارے لائق بھی نہیں تھے۔ وہ مڈٹرم کا رزلٹ ہاتھ میں پکڑے پریشان بیٹھی تھی۔

”جب تم سارا دن کتاب لے کر بیٹھے رہتے ہو تو مارکس کیوں کم آتے ہیں تمہارے؟“ مازن انتہائی مظلوم صورت بنائے سامنے کھڑا تھا۔

”ماما سب کے مارکس ایسے ہی آئے ہیں۔ پیپر بہت مشکل تھا، بڑی سٹرکٹ مارکنگ کی ہے ٹیچر نے۔“

 سعدیہ نے اُسے گھور کر دیکھا وہ سمجھ گیا ماں نے جھوٹ پکڑ لیا ہے۔ منمناتے ہوئے اس نے اپنی خامی کا اعتراف کیا۔

”ماما، میری لینگویج کا مسئلہ ہے۔“

”لینگویج کا کیا مسئلہ ہے؟ انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتے ہو تم مازن۔“

”ماما اس انگلش میڈیم کا سٹینڈرڈ آپ کو مجھ سے بہتر پتا ہے۔ انگلش کی ٹیچر تک انگلش میں بات نہیں کرتی۔’رٹا‘ سسٹم ہے، نوٹس پکڑا دیتی ہیں کہ یاد کرو۔“

”تو یاد کرنا کوئی بری بات تو نہیں۔ سائنس سبجیکٹس میں بھی تم اسی لیے پیچھے ہو کیوں کہ یاد نہیں کرتے، اپنی طرف سے کہانیاں گھڑ کر آجاتے ہو۔“ وہ اس کے پیپرز دیکھ کر بہت مایوس ہوئی تھی۔ مازن اُس کے گھٹنے پکڑ کر بیٹھ گیا۔

”تو میں کیا کروںماما؟ ٹیچر کچھ سمجھاتی نہیں ہیں۔ بغیر سمجھے میں یاد کیسے کروں؟“

”جس طرح قرآنی آیات یاد کرتے ہو بالکل ویسے ہی یاد کیا کرو۔“

”وہ تو آپ نے پڑھا پڑھا کر یاد کرائیں ہیں ورنہ کیسے کرتا۔“

”تو تم ٹیوشن پر بھی تو جارہے ہو، وہاں بھی کمی پوری نہیں ہوتی کیا؟“

”نہیں ماما، نہیں ہوسکتی۔ دو ھنٹے میں وہ کیا کیا پڑھائیں، آٹھ نو مضمون ہیں۔“

”تو کیا کروگے مازن؟ اچھے کالج میں داخلے کے لیے اچھے مارکس ہونے چاہئیں۔ کیسے لے کر آﺅگے؟“

”آپ میرا اسکول چینج کرادیں۔“ مازن جیسے پہلے سے سوچے بیٹھا تھا۔ سعدیہ حیران رہ گئی۔

”اس اسٹیج پر اسکول چینج کرادوں، بہت حرج ہوگا مازن۔“

”نہیںہوگا ماما، ابھی جو حال ہے پڑھائی کا اُس اسکول میں جاکر بہتر ہوجائے گا۔“

”کس اسکول میں؟“ سعدیہ چونکی تھی اور مازن نے پیار سے اُس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔

”جہاں میں پہلے پڑھتا تھا۔“ کرنٹ کھا کر سعدیہ نے اپنا ہاتھ واپس کھینچا تھا۔

”تم اپنے باپ کے پاس واپس جانا چاہتے ہو؟“

”نہیں ماما، میں صرف اُس اسکول میں واپس جانا چاہتا ہوں تاکہ اچھی تعلیم حاصل کرسکوں۔“

”یہ ممکن نہیں ہے۔“ سعدیہ نے سوچے بغیر انکار کردیا تھا۔ مازن بہت مایوس ہوا۔

”آپ صرف اس لیے مجھے بھیجنا نہیں چاہتیں کہ یہ اسکول پاپا نے ہمارے لیے چنا تھا؟ یہ تو کوئی وجہ نہ ہوئی اور وہ کون سا اسکول میں بیٹھے ہیں جومیں اُن سے جاکر ملوں گا۔“

”بازل تو ہے نا وہاں۔“ سعدیہ کی آواز کپکپائی تھی۔

”ہاں ہوگا، جیسے اور لڑکے پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتا ہوگا۔ پر مجھے اُس سے کیا لینا دینا۔“

مازن نے بہت زور لگایا پر سعدیہ نہیں مانی تھی۔

کچھ دن بعد اسکول کی ایک ٹیچر نے اسٹاف روم میں اُسی اسکول کی تعریف میں پل باندھنے شروع کردیے جہاں سعدیہ ، مازن کو بھیجنے سے انکاری تھی۔ اُس ٹیچر نے اپنے بچے کا پچھلے سال وہاں داخلہ کروایا تھا اور بہت مطمئن تھی۔

”سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ ٹیوشن لینے کی ترغیب نہیں دیتے۔ ان کا سسٹم ہے کہ کسی مضمون میں اگر بچہ کمزور ہے تو اسکول کی چھٹی کے بعد اُسی مضمون کا ٹیچر ایکسٹرا کلاس لے کر ایک گھنٹہ پڑھاتا ہے۔ میرے بیٹے نے اتنا امپروو کیا ہے کہ پوچھو مت۔“

اور سعدیہ یہ سب سن کر سوچ میں پڑگئی تھی۔ اُسے تیمور کا جملہ یاد آیا تھا کہ مازن دنیا میں پیچھے رہ جائے گا اور وہ ایسا ہر گز نہیں چاہتی تھی۔ اُس نے مازن کا داخلہ اس اسکول میں کروا دیا اس وعدے کے ساتھ کہ نہ تو وہ بازل سے دوستی کرے گا نہ تیمور سے ملنے کی کوشش کرے گا۔ مازن نے فوراً وعدہ کرلیا، اُسے کون سا پورا کرنا تھا۔

٭….٭….٭

مازن سعدیہ سے فٹ بال میچ کا بہانہ بناکر بازل کے ساتھ قصرِ تیمور آیا تھا۔ اُس وقت تیمور کسی بزنس ٹرپ کے لیے ائیرپورٹ جانے ہی والا تھا کہ ہال میں باتوں کی آواز سن کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ سامنے سیڑھیوں سے اوپرچڑھتے مازن کو دیکھ کر وہ دم بہ خود رہ گیا۔ مازن شکل و صورت میں تیمور سے بے حدمشابہ تھا۔ تیمور کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ اپنے آپ کو دیکھ رہاہے۔

مازن اور بازل نے تیمور کو دیکھا تو یک دم خاموش ہوگئے۔ مازن جھجکتا ہوا باپ کے نزدیک آیا اور سلام کیا، تیمور نے اُس کے چہرے کو دونوں ہاتھو ں سے تھام کر پیار کیااور بھینچ کر گلے سے لگالیا۔ بازل نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا ورنہ اُسے تیمور کی ناراضی کا خدشہ تھا۔

تیمور مازن کا ہاتھ تھام کر اُسے اپنے ساتھ کمرے میں لے آیا اور بیڈ پر بٹھادیا جہاں ساتھ ہی سوٹ کیس رکھ کر وہ پیکنگ کررہا تھا۔ مازن نے اردگرد نگاہ دوڑائی تو اندازہ ہوا کہ کمرے کی آرائش اب تک بالکل ویسی ہی تھی، اُس نے مسکرا کر چند پرانی باتیں دہرائیں۔

”یاد ہے پاپا، میں اس بستر پر جمپ کیا کرتا تھا اور بازل کو دھکا دے کر نیچے گرادیا کرتا تھا کہ یہ صرف میرا بیڈ ہے۔“ بازل کو بھی یاد تھا سب، تیمور نے کہا۔

”تمہاری ماں کو معلوم ہے کہ تم مجھ سے ملنے آئے ہو۔“ دونوں کے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔

”نہیں پاپا، اُنہوں نے تو مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ….“

”کبھی اپنے باپ کی شکل نہ دیکھنا، ہے نا؟یہی کہا تھا نا اُس نے؟“

”جی۔“

”اور بازل سے دوستی کو بھی منع کیا ہوگا؟“

”جی ہاں۔“ مازن تھوڑا سہم گیا۔ تیمور کے چہرے پر جو محبت اور اپنائیت پہلے نظر آرہی تھی اب مفقود تھی اور بازل کا دل یہ سن کر دُکھ سے بھر گیا کہ اُس کی ماں نے ابھی تک اُسے معاف نہیں کیا ہے۔ تیمور کے سوالوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔

”تو کیا تم نے اپنی ماں کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟“

”نہیں پاپا، میں تو بس۔“ وہ کچھ کہتا اِس سے پہلے تیمور نے گرجتے ہوئے کہا۔

”تم اس گھر پر اپنا حق جتانے آئے ہوگے۔ مجھے یہ بتانا چاہتے ہو کہ بازل کے ساتھ تم بھی میرے روپے پیسے میں اپنا حصہ لے سکتے ہو، ہے نا؟“

مازن گڑبڑا گیا، تیمور نے اُسے وضاحت کا موقع دیے بغیر کہا۔

”اگر تم ایسا سمجھتے ہو تو بالکل ٹھیک سوچ ہے تمہاری، جو بازل کے پاس ہے وہی سب کچھ تمہیں بھی ملے گا۔“اس سے پہلے کہ مازن خوش ہوتا تیمور نے اپنی بات مکمل کردی۔

”اگر تم اپنی ماں سے کہو وہ آکر مجھ سے معافی مانگے۔“ اور مازن کا دل چاہا سر پیٹ لے۔

”وہ کبھی نہیں مانیں گی۔“

”تو پھر تم بھی یہاں سے چلے جاﺅ، نکلو میرے گھر سے۔“

تیمور نے مازن کو گھر سے نکال دیا۔ مازن چپ چاپ وہاں سے نکل آیا لیکن سڑک پر آکر اُس نے پلٹ کر ’قصر تیمور‘ کی جانب دیکھا اور دل ہی دل میں خود سے وعدہ کرلیا۔

”اپنا حق تو میں ضرور وصول کروں گا، چاہے پاپا کو برا لگے یا ماما کو۔“ اگلے دن اسکول میں اُس نے بازل کے سامنے خوب ہی دل کے پھپھولے پھوڑے تھے۔ سعدیہ کے ساتھ گزارے تمام عرصے کی سچی جھوٹی کہانیاں اُسے سنائیں کہ کس طرح وہ معمولی چیزوں کے لیے ترستا رہا ہے۔ بازل سر سے پیر تک اُس کے لیے ہمدردی کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔ اُس نے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر وعدہ کیا۔

”پاپا نہیں مانے تو کیا ہوا، تمہیں جو چاہیے ہو مجھ سے کہنا، میں لادیا کروں گا۔“ مازن خباثت سے مسکراتا اس کے گلے لگ گیا تھا۔

٭….٭….٭

پیرنٹ ٹیچر میٹنگ میں جو بات سعدیہ سے کہی گئی وہ اس کی انگلش لینگویج کا معیاری نہ ہونا تھا۔

”بہتر ہوگا آپ مازن کو انگلش لینگویج کا کوئی شارٹ کور س کروادیں، اس سے کافی بہتری آئے گی۔“

”کیا یہ کمی اس اسکول میں دور نہیں کی جاسکتی؟“ سعدیہ کے اس سوال پر ٹیچر نے مسکرا کر کہا۔

”ہمارے اسکول میں یہ کمی پیدا ہونے ہی نہیں دی جاتی۔ آغاز ہی سے بچوں کو انگلش میں بلا جھجک بات کرنے اور لکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ مازن لیٹ ایڈمیشن ہے، ہم کافی آگے بڑھ چکے ہیں جب کہ اسے اپنی لینگویج پر سخت محنت کی ضرورت ہے۔“

سعدیہ گھر واپس آتے ہی مازن پر برس پڑی تھی۔

”تم نے اسکول چینج کرنا چاہا میں نے تمہاری بات مان لی، اب تمہیں یہاں ڈیڑھ سال ہونے والا ہے تمہاری ساری ٹیچرز انگلش میں بات کرتی ہیں۔ تمہیں تو فر فر آنی چاہیے۔“ مازن کے پاس بھی عذر کم نہیں تھے،اُس نے فوراً جواب دیا۔

”نہ آپ موویز دیکھنے دیتی ہیں نہ انگلش ناولز پڑھنے کی اجازت ہے مجھے، کس طرح سیکھوں؟“ سعدیہ ڈھیلی پڑ گئی۔

”موویز میں کیوں نہیں دیکھنے دیتی یہ تم بھی جانتے ہو، آج کل تو کارٹونز اتنے بے ہودہ ہوتے ہیں۔ موویز دیکھ کر کیوں ایمان میں خلل پیدا کرنا چاہتے ہو؟“

”اور ناولز؟ ان میں کیا خرابی ہے؟ میں ، ہیری پوٹر سیریز لینا چاہتا تھا اپنی سالگرہ پر آپ نے کتنا جھڑکا تھا مجھے، حالانکہ اس علاقے میں بچہ بچہ اس کی موویز دیکھ چکا ہے۔“

”بیٹا جادو کفر ہے۔ کیا ضرورت ہے ایسی چیزیں پڑھنے کی اور ساری انگلش کیا تم انہی ناولز سے سیکھو گے؟“

”ماما پڑھنے اور کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ میں جادو کے بارے میں پڑھ کر جادو گر تو نہیں بن جاﺅں گا نا۔ آپ بھی ایسی عجیب باتیں کرتی ہیں۔“ مازن کب سے چڑا بیٹھا تھا آج سارا غبار نکالنے کی ٹھان لی۔

”اُس بازل کو دیکھا ہے؟ فرسٹ آتا ہے، انگلش میںتقریریںکرتا ہے، سپورٹس کلب اور ایڈونچرکلب کا بھی ممبر ہے، اُس پر تو کوئی پابندی نہیں لگاتا۔“ سعدیہ بازل کا ذکر سن کر معلوم نہیں خوش ہوئی تھی یا بے زار۔ اس کی کامیابیوں کے بارے میں سن کر اچھا بھی لگ رہا تھا اور عجیب بھی، مگرمازن کے سامنے اُس نے کچھ ظاہر نہیں کیا۔

”بیٹا، دنیا کی کامیابیوں سے زیادہ اہم آخرت کی کامیابی ہے۔ تم اس پر رشک کیوں کررہے ہو؟ اس نے اور اس کے باپ نے جو راستہ چنا ہے وہ صرف تباہی کا ہے۔“

”اگر دنیا سے زیادہ اہم آپ کے لیے آخرت ہے تو مجھے بار بار اے پلس گریڈ لانے کی ترغیب نہ دیا کریں۔ آپ کے لیے پھر یہ کافی ہونا چاہیے کہ مجھے نماز، روزے کی پابندی کرنی ہے اِس کے علاوہ مجھ سے کوئی توقع نہ رکھیں، کیوں کہ دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے جو سب کرنا پڑتا ہے آپ مجھے اس کی اجازت ہرگز نہیں دیں گی۔“ مازن یہ سب کچھ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

سعدیہ نہیں چاہتی تھی کہ مازن بازل سے پیچھے رہ جائے۔ زندگی کے کسی بھی مقام پر وہ تیمور کو یہ ثابت کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی کہ وہ درست تھا۔ اب اُس کا دل مانتا یا نہ مانتا اُسے مازن کو تھوڑی بہت چُھوٹ دینا پڑے گی، یہ طے ہوگیا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!