Brown girl in the ring
Tra la la la la
There’s a brown girl in the ring
Tra la la la la la
بونی- ایم کے خوب صورت گیت نے محفل کو گرما رکھا تھا۔ محض اتفاق تھا کہ آج سعدیہ براﺅن میکسی زیب تن کیے ہوئے تھی۔ بال اور آنکھیں پہلے ہی لائٹ براﺅن تھیں۔ بلاشبہ اس حسین محفل کی براﺅن گرل وہی تھی۔ جعفری نے مشروب کا آخری گھونٹ حلق میں انڈیلتے ہوئے اس براﺅن گرل پر نظریں جمائے رکھیں پھر دوسری بوتل کی تلاش میں میز کی جانب دیکھا اور وہی لمحہ تھا جب سعدیہ ڈانس روک کر اپنی ٹیبل کی جانب چلی گئی۔ جتنی دیر میں جعفری نے گلاس بھرا،جانِ محفل اپنی نشست سنبھال چکی تھی۔ وہ بہت مایوس ہوا اور بدمزہ ہوکر گلاس واپس میز پر پٹخ دیا۔ اب بھلا مے خوری میں وہ لطف کیسے آتا؟ اس حسینہ کو رقص کرتا دیکھتے ہوئے نشہ سر چڑھ کر بول رہا تھا اب کیا فائدہ؟
”اوہ یار! یہ تیمور سے کہو کہ اپنی بیوی کو ڈانس فلور پر واپس لے آئے۔ ہمیں ڈانس دیکھنا ہے اس کا۔“ جعفری نے ساتھ بیٹھے راحیل سے فرمائش کی جو اس سے کہیں زیادہ مدہوش تھا۔
”تم خود کیوں نہیں کہتے؟ سعدی سے کہو ہمیں ڈانس کرکے دکھائے، جاﺅ۔“
”اوکے۔“جعفری لڑکھڑا کر اُٹھ کھڑا ہوا پھر ڈگمگاتے قدموں سے چلتا ہوا سعدیہ اور تیمور کے پاس آپہنچا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا تیمور اس کے احترام میں اُٹھ کھڑا ہوا۔
”جعفری صاحب، آئیے پلیز ،کیسے ہیں آپ؟“ تیمور نے ملانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔ جعفری نے ٹیڑھے منہ کے ساتھ نہایت بددلی سے مصافحہ کیااور سعدی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
”تیمور! اپنی بیوی سے کہو ہمیں ڈانس کرکے دکھائے۔“
سعدیہ نے تیمور کی طرف دیکھا تو اس نے آنکھ ماری۔
”جی سر، آپ بیٹھیں۔“ اس نے جعفری کا ہاتھ پکڑ کر بٹھایا ہی تھا کہ ”براﺅن گرل“ کا اختتام ہوگیا۔ جعفری کو سخت تاﺅ آیا۔
”ان سے کہو یہ گانا بند کریں، براﺅن گرل پہ ڈانس کریں گی سعدی۔“ تیمور سعدیہ کو بات سنبھالنے کا اشارہ کرتا وہاں سے جانے لگا۔
”جی سر، میں سونگ چینج کروا کر آتا ہوں۔“
سعدیہ کا موڈ پہلے ہی جعفری کی فضول فرمائش سن کر خراب ہوچکا تھا اوپر سے تیمور کی مصلحت پسندی،وہ جانتی تھی تیمور کو اس عیاش سیاستدان سے بہت کام نکلوانے ہیں پر اس کے لیے اپنی بیوی کو مہرہ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تودو ٹکے کی بازاری عورت بھی کرسکتی ہے۔
”آپ کی مسز ساتھ نہیں ہیں؟“ اسے تیمورکے واپس آنے سے پہلے یہ معاملہ نمٹانا تھا ورنہ ہر صورت اس کی خواہش پوری کرنی پڑتی۔ وہ جعفری سے اس کی بیوی کے متعلق پوچھنے لگی۔
”نہیں۔ وہ یہاں آکر کیا کرتی؟“
”آپ کے ساتھ ڈانس کرتی جعفری صاحب، اور آپ کوکسی دوسرے کی بیوی نظر نہ آتی۔“ اپنی دانست میں اس نے جعفری کو شرمندہ کرنے کے لیے بڑا سنبھل کے طنز کیا تھا۔ مگروہ اتنی آسانی سے شرم کرنے والا نہیں تھا۔
”ہونہہ، اسے چھوڑو۔ پریگننٹ ہے وہ۔ تمہاری طرح پرفیکٹ فگر نہیں ہے اس کا۔ بہت اچھا کیا تم دونوں نے جو اولاد پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا، بس ایسی ہی رہنا۔“ وہ سعدی کے نزدیک ہوا۔
”بے حد حسین اور لاجواب۔“
سعدیہ نے لب بھینچ کر اپنے آنسوﺅں کو بہہ نکلنے سے روکا اور تیزی سے اُٹھ کر چلی گئی۔ تیمور نے اسے ڈانسنگ ہال سے یوں باہر نکلتے دیکھا تو لپک کر اس کے پیچھے پارکنگ تک چلا آیا۔
”کیا ہوا؟“ اس نے آواز دے کر سعدیہ کو روکنا چاہا پر وہ رکی نہیں تو بھاگ کر اس کے نزدیک پہنچا۔
”کہاں جارہی ہو؟ رکو تو سہی۔“ پر سعدیہ ہرگز بھی ٹھہرنا نہیں چاہتی تھی۔
”گھر چلو، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔ تیمور نے بے زاری سے کندھے اُچکائے اور نا چاہتے ہوئے بھی ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا۔ راستہ بھر سعدیہ نے اس سے کوئی بات نہیں کی بلکہ گھر پہنچ کر وہ بے حد خاموشی سے لباس تبدیل کرکے سونے کے لیے لیٹ گئی۔ تیمور نے اس کا موڈ دیکھ کر چھیڑنا مناسب نہیں سمجھا اور وہ بھی لباس تبدیل کرکے سو گیا۔
سعدیہ کئی گھٹنے تک سونے کی ناکام کوشش کرتی رہی بالآخر تنگ آکر اُٹھ بیٹھی۔ دبے پاﺅں چلتی بیڈ روم سے باہر نکل کر وہ اسٹڈی میں پہنچی اور لائٹ جلا کر کوئی اچھی سی کتاب پڑھنے کے لیے دیکھنے لگی،لیکن کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا سو تھک ہار کر صوفے پر بیٹھ گئی۔
ناچاہتے ہوئے بھی اسے سب کچھ یاد آرہا تھا۔ پچھلی زندگی جیسے کسی فلم کی طرح دماغ کے پردے پر چل پڑی تھی۔ ایک کے بعد ایک منظر خود بہ خود آنکھوں میں روشن ہوتا اور نیند کی دیوی ناراض ہوکر دور بھاگ جاتی۔ جعفری کی فضول باتوں نے اُسے آئینہ دکھایا تھا۔ اولاد سے محرومی کی ذمہ دار وہ خود ہی تھی، یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا۔ اور بھی کئی فیصلے اس نے خود ہی کیے جن پر پچھتاوا تھا، ہر روز گزرتے پل کے ساتھ احساسِ زیاں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس نے اپنے ماں باپ کی مانی ہوتی، تیمور سے شادی نہ کی ہوتی، کر لی تھی تو اپنا لائف سٹائل نہ بدلا ہوتا، اپنی اولاد کو نہ مارا ہوتا۔ ”غلط“ کی بہت لمبی فہرست تھی اس کے نامہ ¿ اعمال میں۔ رات کے اس پہر وہ آسمان پر نظر آتے تاروں کو گن سکتی تھی پر اپنے گناہ گنتی بھلائے دے رہے تھے، سو وہ جاگتی رہی۔
٭….٭….٭
”اب کیوں بتا رہے ہو اپنا نام؟ اتنی بار پوچھا تو ٹالتے رہے۔ مجھے یقین نہیں آرہا یہ تمہارا اصل نام ہے۔“ نوریہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ بازل نے مسکراتے ہوئے اپنا جواب ٹائپ کیا۔
”مت کرو یقین۔ جب تم سے ملنے آﺅں گا تو آئی ڈی کارڈ دیکھ لینا میرا، ٹھیک ہے؟“ نوریہ مزید پریشان ہوئی۔
”تم جانتے ہو یہ ممکن نہیں ہے۔ میرا باپ تمہیں اور مجھے ایک ساتھ قتل کردے گا۔“ جلدی جلدی ٹائپ کرکے اس نے بازل کو اس ارادے سے باز رکھنا چاہا، مگروہ بھی اتنی آسانی سے ٹلنے والا نہیں تھا۔
”گھبراﺅ مت، وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔“ اس کے بعد بازل نے نیند آنے کا کہہ کر لاگ آﺅٹ کرلیا پر نوریہ کی نیندیں ایک بار پھر اڑ چکی تھیں۔ وہ سخت تذبذب کا شکار تھی۔ اُسے اچھی طرح یاد تھا ایک بار ”ناسٹی ملا“ کے اکاﺅنٹ پر کسی دوست نے اسے ’مازن‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ یہ جاننے کے باوجود بھی اس نے کچھ ظاہر نہیں کیا تھا۔ پر اب وہ کہہ رہا تھا کہ بازل اس کا اصل نام ہے، جانے کیا سچ تھا کیا جھوٹ؟اسے یہ تعلق دھند میں لپٹا ہونے کے باوجود بے حد عزیز تھا۔ اس دوستی، اس بے ضرر سے تعلق کو نوریہ عجیب طریقے سے محسوس کرتی آئی تھی۔ وہ ہمیشہ اس کے ڈپریشن کا علاج چٹکیوں میں کردیا کرتا تھا۔ اس سے بات کرنے کے بعدہر پریشانی جیسے اڑن چھو ہو جایا کرتی اور یہی وجہ دو سال سے اسے مازن، نہیں بازل کے ساتھ جوڑے ہوئے تھی۔ اس نے سرپر چپت لگا کر اپنی تصحیح کی۔اب اگر وہ کہہ رہا ہے تو مجھے مان لینا چاہیے کہ وہ بازل ہی ہے۔ جب وہ نہیں بتانا چاہتا تھا تو اُس نے صاف صاف کہہ دیا تھا۔ اگر بتا رہا ہے تو یقینا سچ ہی بول رہا ہوگا۔ نور اس کی طرف سے خود کو قائل کرتی نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔

٭….٭….٭

حاجی صاحب نے سلام پھیرنے کے بعد گردن موڑ کر اپنے سے تین صف پیچھے کھڑے اس لڑکے کو نہایت غور سے دیکھا۔ وہ پچھلے تین ماہ سے اکثر اس مسجد میں نماز پڑھنے آرہا تھا۔ پانچوں وقت تو نہیں مگر دن میںدو نمازیں ضرور ہی مسجد میں ادا کرتا تھا وہ۔ اپنی تسبیح کے دانے انگلیوں پر چلاتے وہ مسلسل اسے دیکھتے ہوئے سوچ میں غرق تھے۔
”خوب صورت نوجوان ہے، شکل سے پڑھا لکھااور کسی اچھے خاندان کا معلوم ہوتا ہے۔ نمازی اور پرہیزگار بھی ہے، کپڑے بھی قیمتی ہیں، گاڑی بھی شاندار ہے۔ اگر صلاح الدین سے کہوں میری بیٹی کے رشتے کی بات چلائے اس کے ساتھ تو، نہیں نہیں، لڑکی کا باپ ہوکر یہ کہنا بڑی بے عزتی کی بات ہوگی، بس یہ کہتا ہوں کہ میری بیٹی کے لیے کوئی اچھا رشتہ ہو تو ضرور بتائیے گا۔ ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔
حاجی صاحب نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا کہ اگلے دن علی الصبح پارک میں باقاعدگی سے واک کے لیے آتے صلاح الدین صاحب سے ضرور بات کریں گے۔
٭….٭….٭
طوبیٰ کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی، پر ماں کا حکم تھا سو ٹرائفل کا بڑا سا پیالہ ہاتھ میں لیے وہ ڈرائنگ روم میں میچ دیکھتے خود سے چھے سال بڑے کزن کے سر پر آکھڑی ہوئی۔
”چلیں اٹھیں بھائی، میرے ساتھ چلیں۔“
”کہاں؟“ وہ ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھا رہا کہ فٹ بال میچ آخری مراحل میں تھا۔
”یہ روڈ کراس کرتے سامنے حاجی صاحب کا گھر ہے وہاں ٹرائفل دے کر آنا ہے۔“
”میرا جانا ضروری ہے؟ تم اکیلی چلی جاﺅ،یہ سامنے ہی تو ہے۔“
”اکیلی جاسکتی تو آپ سے کیوں کہتی؟“ طوبیٰ نے زچ ہو کر کہا۔
”اب جلدی اٹھیں ورنہ وہ جلادحاجی صاحب گھر واپس آجائیں گے۔ ان کے آنے سے پہلے بس جلدی سے دے کر واپس آنا ہے، آپ میچ کا اینڈ دیکھ لیجئے گا، آجائیں۔“ اس نے کہا اور بھائی کو ریموٹ سے ٹی وی آف کرتا دیکھ کر جلدی سے باہر بھی نکل آئی۔ وہ بھی جوتے پاﺅں میں پہنتااس کے پیچھے باہر آیا۔
”وہ سامنے گھر ہے نا، گرین گیٹ والا، وہاں دینا ہے یہ باﺅل۔ جائیں شاباش۔“
”ہائیں، یہ کیا چالاکی ہے؟ تم نے کہا تھا ساتھ چلنا ہے۔ اب اکیلا کیوں بھیج رہی ہو؟“ طوبیٰ جلدی سے ہاتھ نچا کر بولی۔
”مجھے اس سڑیل لڑکی سے ملنے کا کوئی شوق نہیں، امی کا حکم تھا کہ میٹھا سب گھروں میں دینا ہے۔ آپ بس یہ گھر بھگتا دیں باقی جگہ میں خود دے آﺅں گی۔“
”پلیز بھائی جائیں نا۔“ اس نے باقاعدہ دھکا دیتے ہوئے اسے گیٹ سے باہر کیا۔
”اچھا نام تو بتا دو؟کس کا گھر ہے، کون ہیں؟ میں تو جانتا بھی نہیں کہنا کیا ہے۔“
”بس کہہ دیجئے گا عارفہ آنٹی کا بھتیجا ہوں، انہوں نے طوبیٰ کے پاس ہونے کی خوشی میں ٹرائفل بھیجا ہے،اللہ اللہ خیر صلا۔ دے کر آجائیے بس، ہم برتن بعد میں منگوا لیں گے۔“
”اور نام کیا ہے گھر کے مکینوں کا؟“ اس نے چلتے چلتے اگلا سوال داغا۔
”حاجی شمس کا گھر ہے، ان کی بیٹی ہوگی نوریہ گھر پر، بس اُسی کو پکڑا کر آجائیں۔“ طوبیٰ نے جلدی جلدی ہدایات دے کر روانہ کردیا اور وہ جو نوریہ نام سن کر سوچ میں پڑ گیا تھا غائب دماغی سے سڑک کراس کرتا شمس گیلانی کے گیٹ کے پاس پہنچ گیا۔ بیل بجاتے ہوئے اس نے گیٹ سے اندر جھانکا، پورچ خالی پڑا تھا۔ دو تین گھنٹیوں کے بعد ایک لڑکی نے مین ڈور کھول کر باہر جھانکا تو اس نے زور سے سلام کیا اور ٹرائفل باﺅل اونچا کرکے دکھاتے ہوئے عارفہ آنٹی کا حوالہ بھی دے دیا۔ وہ لڑکی دھیمے سے سر ہلاتی ہوئی دروازے کی اوٹ سے باہر نکل آئی۔ وہ پلکیں جھپکائے بنا مسلسل اُسے دیکھے جارہا تھا۔
نور نے چپل بھی نہیں پہنی تھی، جب وہ قریب آنے لگی تو اُس نے نظریں جھکا لی تھیں، تب ہی لڑکے کی نظر لڑکی کے پیروں پر پڑی۔ اُس کے سفید پاﺅں سیاہ ٹائلوں پر اور زیادہ اُجلے نظر آرہے تھے۔ یونہی اس کے پیروں کو دیکھتے ہوئے اس نے ٹرائفل کا پیالہ اُس کے ہاتھ میں دیا اور واپس مڑ گیا۔ نور بھی مشینی انداز میں چلتی ہوئی گھر کے اندر واپس آگئی۔ ابھی شمس کے گھر واپس آنے میں تھوڑا وقت باقی تھا۔ صلاح الدین اور عارفہ ان کے ہمسائے تھے۔ بلکہ وہ واحد گھر تھا جس میں رہنے والے افراد انہیں اپنا پڑوسی مانتے تھے ورنہ تو کوئی بھی ان سے تعلق رکھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ وجہ شمس کی دین پر حد سے زیادہ عمل داری تھی۔ وہ خود توہر دینی نکتہ پر سختی سے عمل کرتا دکھائی دیتا ہی تھا پر دوسروں کو ٹوکتے ہوئے ان کی بے عزتی بھی کیا کرتا۔ لوگ اُس سے نہ صرف گھبراتے تھے بلکہ ناپسند بھی کرتے تھے۔ صرف صلاح الدین ایسے شخص تھے جو ہمیشہ آتے جاتے اسے سلام بھی کرتے اور اکثر احال احوال پوچھ لیتے تھے مگر شمس کی جانب سے کبھی خوش اخلاقی یا مروت نہیںبرتی گئی تھی۔ ان کے گھر سے آئے میٹھے کو البتہ وہ بے حد شوق سے کھایا کرتا تھا کہ نوریہ کے پکائے کھانوں میں ذائقہ مفقود تھا۔ نوریہ نے ٹرائفل فریج میں رکھا اور شمس کی خوشی کا تصور کرتے ہوئے برا سا منہ بنا کر برتن دھونے لگی۔ سنک کے باہر کھڑکی کے شیشے سے لگ کر ایک چھوٹی سی چڑیا چوں چوں کررہی تھی۔ نوریہ کے ہاتھ سست پڑ گئے وہ چڑیا کو غور سے دیکھنے لگی۔ اُسی وقت چڑیا نے بیٹ کردی اور پُھر سے اڑ گئی۔ نوریہ کی آنکھیں چمکیں،اس نے پلٹ کر فریج سے ٹرائفل نکالا اور اپنے لیے ایک پیالہ میں نکال کر رکھ لیا۔ باقی ٹرائفل میں اُس نے چڑیا کی وہ تازہ بیٹ ملا کر دوبارہ اُسے فریج میں رکھ دیا۔ اپنی شرارت پر خود ہی ہنستے ہنستے اس نے ٹرائفل کا اپنا حصہ ختم کیااور پھر سے برتن دھونے کھڑی ہوگئی، اس کی ہنسی رُک ہی نہیں رہی تھی۔



رات کے کھانے کے بعد اُس نے وہی ٹرائفل شمس کو دیا جسے وہ مزے لے لے کر کھاتا رہا اور نوریہ دیکھتی رہی۔ اب اسے ہنسی نہیں آرہی تھی۔ شمس کے سامنے اس کے لب مسکراتے نہیں تھے۔ پیالہ ختم کرنے کے بعد اُس نے زور سے ڈکار لی اور الحمدللہ کہا اور ٹشو سے منہ پونچھتا وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔ نوریہ آنکھوں میں نفرت لیے باپ کو وہاں سے جاتا دیکھتی رہی۔
”ہونہہ، حرام حلال کی تمیز نہ کرسکنے والا، بھوکا،رذیل انسان۔ زبان کو پہچان ہی نہیں کہ کیا نگل گیاہے۔“
تنفر سے سرہلاتی وہ برتن سمیٹ کر کچن میں رکھ آئی۔ لائٹ بند کرکے نکل رہی تھی کہ شمس نے آواز دے کر اُسے کمرے میں بلالیا۔ پہلے تو وہ حیران ہوئی کیوں کہ کالج چھوٹ جانے کے بعد ان دونوں کے درمیان ویسے ہی بات چیت کی ضرورت نہیں رہی تھی، سو کرتے بھی نہیں تھے۔ کئی کئی ہفتوں تک اُسے شمس سے کچھ بھی کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ بس ایک سلام تھاجسے وہ زبان سے ادا کرتی، دل ہی دل میں اسے لاکھوں گالیوں سے نواز رہی ہوتی تھی۔ اگر کبھی شمس کو معلوم ہو جاتا کہ نور کے دل میں اس کے لیے کتنا زہر ہے تو شاید وہ شرم سے خود ہی مر جاتا۔ نوریہ کو اسے قتل کرنے کے طریقے نہ سوچنے پڑتے۔ شمس کو حاجی صاحب بنانے والی ایک بے وفا عورت تھی۔ اس وقت بھی جب وہ دین سے کوسوں دور تھا اور اب بھی جب اسلام کا جھنڈا اٹھائے اپنے اردگرد کے لوگوں کی زندگی اجیرن کیے ہوئے تھا۔ نوریہ کو معلوم تھا اس کے ماضی اور حال کی ہر سوچ اور عمل کے پیچھے حنا تھی۔ وہی تھی جس نے شمس کو نہ دین کا چھوڑا نہ دنیا کا۔
٭….٭….٭
”السلام علیکم!“ جاگنگ ٹریک کے کنارے بنچ پر نوریہ کو بیٹھا دیکھ کر وہ نزدیک آیا اور سلام کیا۔ نور نے گھبرا کر چند گز کے فاصلے پر واک کرتے شمس اور صلاح الدین کی جانب دیکھا جو آپس میں باتیں کرنے میں اتنے مگن تھے کہ اس کی طرف بالکل دھیان نہ تھا۔
”چلے جائیں یہاں سے۔“ اس نے برا سا منہ بنا کر اس کی حوصلہ شکنی کی تاکہ مزید کچھ کہے بغیر وہ چلاجائے۔
”آج کل سلام کا جواب اس طرح دیا جاتا ہے؟“اس نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ اس کے سامنے جھک کر پوچھا تو نوریہ نے گھور کر اسے دیکھااور ٹھٹک گئی۔اسے لگا وہ اسے اچھی طرح جانتی ہے، مگر کیسے؟ اپنے گمان کو جھٹلاتے، زور سے سر ہلا کر اس نے کہا۔
”آپ جائیے، میرے والد سامنے واک کررہے ہیں۔ انہیں میرا اجنبی مردوں سے بات چیت کرنا بالکل پسند نہیں۔“
”مگر آپ مجھے جانتی ہیں، بہت اچھی طرح سے۔“ وہ کچھ فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے اسی بنچ پر مزے سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا۔ نوریہ کرنٹ کھا کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”آپ یہاں سے جاتے ہیں یا میں چلی جاﺅں؟“اس پر وہ تھوڑی دیر اسے تکتا رہا پھر نہایت سنجیدگی سے بولا۔
”بیٹھ جاﺅ نور، مجھے تم سے بات کرنی ہے۔“ نور الجھ رہی تھی کیا کرے کیا نہ کرے۔ یہ لڑکا گھر پر ٹرائفل دینے آیا تھا اور آج ایسے بے تکلف ہو رہا تھا جیسے برسوں کی پہچان ہو۔
”میں نے کہا تھا نا کہ تم سے ملنا چاہتا ہوں۔ اسی لیے آیا ہوں، پلیز بیٹھ جاﺅ۔“
”تم؟“ نور کو یاد آگیا تھاکہ ملنے کی فرمائش کس نے کی تھی پر یقین نہیں آرہا تھا۔
”ہاںمیں ہی بازل ہوں، تمہارا دوست۔“ نور پلکیں جھپکنا بھول گئی،یک دم ہی سارے خوف اور اندیشے جیسے ہوا میں اُڑ گئے۔ وہ سانس روکے اُس کے سامنے کھڑی تھی اور وقت جیسے ٹھہر گیا۔
٭….٭….٭
”حاجی صاحب نے اپنی بیٹی کے لیے کوئی رشتہ بتانے کے لیے کہا ہے۔“صلاح الدین نے ناشتے کی ٹیبل پر عارفہ کو بتایا۔ طوبیٰ نے کن انکھیوں سے بازل کی جانب دیکھا جو سر جھکائے ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔ عارفہ نے گرما گرم پراٹھا صلاح الدین کی پلیٹ میں رکھا اور پوچھا۔
”آپ سے کب ملاقات ہوئی؟“ انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر ایک نوالہ منہ میں رکھا۔
”یہیں پارک میں صبح واک کرتے ہوئے بات کی تھی انہوں نے، تم دیکھنا اگر کسی سے بات کر سکو تو، ماں نہیں ہے اس بچی کی ورنہ وہی کرتی یہ سب کچھ۔“
”ہونہہ، ان سے کہہ دیتے ہم اپنی بیٹی کے لیے پہلے ڈھونڈیں گے کجا کہ محلے والوں کے رشتے کراتے پھریں۔“ عارفہ نے صاف صاف منع کردیا کہ وہ ایسی کوئی کوشش نہیں کرنے والی ہیں۔
”اب میں یوں انکار تو نہیں کرسکتا تھا انہیں، میں بھی بیٹی والا ہوں۔ جانتا ہوں ایک باپ کی فکریں کیا ہوتی ہیں۔“
”وہ اور باپوں کی طرح نہیں ہیں۔ ان کے معیار کا یا تو مدرسہ میں ملے گا یا پھر کسی تبلیغی جماعت میں۔ بیٹی پر دین کے نام پر اتنی سختی کرتے ہیں تو داماد کا کیا حال کریں گے۔“
”اب ایسی بھی بات نہیں، مجھے لگا….“ صلاح الدین نے تھوڑا توقف کیااور بازل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
”وہ بازل کو نوریہ کے لیے پسند کر بیٹھے ہیں۔“
”ہائیں، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟“ عارفہ ہکا بکا رہ گئیں، حیران تو بازل بھی ہوا تھا پر طوبیٰ کو زور سے ہنسی آگئی۔
”میرا اندازہ ہے، غلط بھی ہوسکتا ہے۔ آپ لوگ خاطر جمع رکھیں۔“ صلاح الدین نے بات سنبھالی کیوں کہ عارفہ بہت غصے میں آگئی تھی۔
” آپ خوامخواہ اندازے مت لگائیں، بھلا اس کا ہمارے بازل سے کوئی جوڑ بنتا ہے؟“
”کیوں آنٹی، اس میں بری بات کیا ہے؟“ بازل نے ناشتہ ختم کرلیا تھا اطمینان سے نیپکن سے ہاتھ پونچھتے ہوئے بم پھوڑا۔ میز پر موجود باقی افرادمنہ کھولے اس کی جانب دیکھنے لگے۔ سب سے پہلے صلاح الدین نارمل ہوئے۔
”تم شادی کرنا چاہتے ہو نوریہ سے؟“
”جی۔“ اس کا جواب مختصر اور دوٹوک تھا۔
”بھائی میں نے آپ کو بتایا بھی تھا نوریہ کے بارے میں، پھر بھی؟“ طوبیٰ کو چپ رہنے کا اشارہ کرکے صلاح الدین نے اُسے نرمی سے سمجھایا۔
”اچھی طرح سوچ لو بیٹا، زندگی بھر کا معاملہ ہے۔“
”میں ماما کی دیکھ بھال گھر پر کرنا چاہتا ہوں اور اس میں مجھے ہیلپ کی ضرورت پڑے گی۔ اسی لیے میں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔“وہ جیسے جواب سوچ کر بیٹھا تھا۔
”یہ تو اتفاق سے آپ نے پہلے بات چھیڑ دی ورنہ میں خوداس سلسلے میں بات کرنے والا تھا۔ آپ پوچھ لیں طوبیٰ سے، میں نے نوریہ میں دل چسپی ظاہر کی تھی۔“ صلاح الدین اور عارفہ نے ایک ساتھ طوبیٰ کی طرف دیکھا، وہ گڑ بڑا گئی۔
”ج جی۔ کہا تھا بازل بھائی نے، مگر میں نے روکا تھا انہیں، سمجھایا بھی تھا مگر۔“ عارفہ کا خون کھول اٹھا۔
”تمہیں کیوں شوق چڑھا سمجھانے کا، لعنت بھیجو۔ اگر اسے کنویں میں کودنا پسند ہے تو تم کون ہوتی ہو روکنے والی؟“ وہ کرسی دھکیل کر اُٹھ کھڑی ہوئیں۔
”اچھا بیٹھ کر ناشتہ تو ختم کرو، کھڑی کیوں ہوگئیں۔“ صلاح الدین نے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہا پر ناکام رہے۔
”میری فکر چھوڑیں۔ حاجی صاحب کو فون کرکے خوش خبری سنا دیں کہ میرا ہونہار بھتیجا ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے، جس کی ماں پاگل خانے میں ہے اور باپ ایڑیاں رگڑ رہا ہے ہسپتال میں۔“ کرسی گھسیٹ کر واپس جگہ پر رکھتے ہوئے انہوں نے کاٹ دار لہجے میں بازل کو طنز کا نشانہ بنایا اور پیر پٹختی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئیں۔طوبیٰ جو چند لمحوں پہلے بازل کے فیصلے سے حیران تھی اب ماں کی باتوں پر شرمندگی محسوس کررہی تھی۔ صلاح الدین نے بھی سرد آہ بھر کر معذرت خواہانہ انداز میں بازل کی جانب دیکھا جو سر نیچے کیے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آگئے اور پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”ارے یار، مرد روتے نہیں ہیں۔“ اور بازل ان سے لپٹ کر رونے لگا، بالکل چھوٹے بچوں کی طرح۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!