ہوش میں آتے ہی اُس نے تیمور کے آفس فون کرکے اپنے بزنس ایڈووکیٹ کو گھر بلوایا۔ وہ اپنے ایک ساتھی کو ساتھ لیتے آئے جو اس واقعے پر تیمور کی بہتر مددکرسکتا تھا۔ انہوں نے یوٹیوب پر اُس خبرکا کلپ بار بار چلا کر دیکھا اور ہر بار بازل کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ یہ کیا کردیا تھا تیمور نے؟ دونوں وکیل آپس میں معاملات ڈسکس کرتے رہے پھر تیمور کی ضمانت کا انتظام کرنے کے لیے وہاں سے روانہ ہوگئے۔

نہ تو اُس کی رہائی میں کوئی مشکل پیش آئی تھی اور نہ اس خبر کو دبانے میں کہ پیسہ تیمو رکے پاس بے شمار تھا۔ مسئلہ صرف سوشل میڈیا پر معاملے کو کنٹرول کرنے میں پیش آرہا تھا۔ اس ویڈیو کو ہر دوسرا انسان شیئر کررہا تھا تاکہ ظلم کو ہاتھوں سے روکنے کا ثواب حاصل کرسکے۔ ایسے حالات میں تیمور نے بہتر سمجھا کہ کچھ دنوں کے لیے ملک سے باہر چلا جائے۔ اُس کے سوچنے کی دیر تھی کہ سب انتظامات کردیے گئے۔ وہ پہلی دفعہ تو ملک سے باہر نہیں جارہا تھا لیکن جانے سے پہلے اُس نے وکیل کو بلا کر ایک ایسا کام کیا جو اُس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اُس نے بازل کے نام پاور آف اٹارنی کردیا۔اور صرف یہی نہیں، وہ بہ طور خاص جانے سے پہلے اُس سے ملنے کے لیے کالج آیا۔میٹنگ روم میں اُس نے بازل کو الوداع کہتے ہوئے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا جسے بازل کئی لمحوں تک بس دیکھتا رہا۔ یہ وہی ہاتھ تھے جن میں چند دن پہلے ہتھکڑی پڑی تھی کیوں کہ ان ہاتھوں نے کسی معصوم کو…. اُسے گھن آنے لگی اور وہ تیمور سے ہاتھ نہیں ملا سکا، شرمندہ ہوکر لیکن کچھ بھی ظاہر کیے بغیر تیمور نے اپنا ہاتھ واپس جیب میں رکھ لیا اور کہا۔

”تمہارا لائسنس بن کے آچکا ہے، میں تو جارہا ہوں لیکن تمہارا برتھ ڈے گفٹ تمہیں مل جائے گا۔“ بازل خاموش رہا۔ وہ شکریہ اداکرسکانہ تیمور کو شرمندہ کرنے کے لیے کوئی طعنہ ہی دیا۔وہ جس طرح پچھلے کئی دنوں سے اپنے اردگرد ہونے والی چہ مگوئیاں،اساتذہ کی نظریں اور سوالات نظر انداز کرتا رہا تھا، بالکل اسی طرح اس وقت تیمور کو نظر انداز کررہا تھا ورنہ شاید وہ رو پڑتا۔ تیمور اس کی بے بسی کو سخت ناراضی سمجھ کر جلد وہاں سے رخصت ہوگیا۔

اُس کے جانے کے بعد پھر سے مازن کی فکر نے آگھیرا تھا۔ ثاقب کی برتھ ڈے پارٹی ہوچکی تھی اور یقینا مازن اس میں شرکت کرچکا تھا۔ کچھ تصاویر فیس بک پر اپ لوڈڈ تھیں جنہیںبازل نے اپنے نئے اکاﺅنٹ سے جاکر دیکھا تھا۔ نہایت ہی قابل اعتراض سرگرمیوں پر مشتمل وہ ہالووین ایونٹ کسی مغربی ملک میں پوری شدومد سے منایا گیا فیسٹیول لگ رہا تھا۔ مازن کالج سے ناغہ نہیں کرتا تھا مگر پچھلے دو دن سے کلاسز بھی اٹینڈ نہیں کررہا تھا۔ اُس کا معمول صبح آنا اور چلے جانا تھا۔ وہ دن بھر کہاں غائب رہا اُس نے کیا کیا کیا؟ یہ پوچھنے کا موقع نہیں ملابازل کو،مگر سعدیہ کویہ سب بتانے کا موقع آگیا تھا۔ اسے زیادہ دیر لاعلم رکھنا بازل کا اس گناہ میں برابر کا شریک ہونا تصور کیا جاتا۔

چناں چہ بہت سوچ سمجھ کر اُس نے سعدیہ سے ملنے کا پکا فیصلہ کرلیا۔ وہ جانتا تھا سعدیہ کہاں پڑھاتی ہے۔ یہ بھی جانتا تھا کہ رہتی کہاں ہے؟ مسئلہ صرف وقت کے تعین کا تھا۔ ملاقات ایسے وقت کی جائے جب مازن موجود نہ ہو۔اسکول میں ڈھنگ سے بات نہیں کی جاسکتی تھی۔ بہتر تھا گھر پر ملا جائے لیکن کب؟ یہ طے کرنے سے پہلے جاننا ضروری تھا کہ مازن کا پلان کیا ہے؟ اگلے دو دن میں وہ کس وقت تک گھر جائے گا اور یہ معلوم کرنا آسان نہیں تھا۔

٭….٭….٭

”میں مازن کے لیے بہت پریشان ہوں، سوچتی ہوں اُسے کسی اور کالج میں داخل کروادوں۔“

”تم پاگل تو نہیں ہوگئیں؟ صرف چند ماہ رہ گئے ہیں اس کا اے لیولز کمپلیٹ ہوجائے گا۔اس وقت کالج تبدیل کروگی تو پورے دو سال ضائع ہوجائیں گے اس کے۔“ اسما کو سعدیہ کی بے وقوفانہ سوچ پر سخت تاﺅ آیا۔ سعدیہ نے بے چارگی سے سرہلا کر کوئی اور راستہ نہ ہونے کا رونا رویا تو اسما نے اُسے آڑے ہاتھوں لیا۔

”فضول باتیں مت کرو، تم تو ایسے پریشان ہورہی ہو جیسے بازل نے مازن پر جادو کر رکھا ہے۔ جیسا وہ کہے گا مازن ویسا ہی کرتا جائے گا۔ میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ اُس پر اتنی سختی نہ کرو مگر تمہیں میری بات سمجھ ہی نہیں آتی۔ ابھی تم اُسے بازل سے دور کردوگی تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ کسی اور غلط لڑکے سے دوستی نہیں کرے گا یا اُس کی باتوں میں نہیں آئے گا۔“

”کیا مطلب؟“

”مطلب یہ کہ کیا بازل اکلوتا بے راہ رو ہے دنیا میں؟ اس سے کہیں زیادہ بگڑے ہوئے امیر زادے موجود ہیں۔ تم بہ جائے بازل پر فوکس کرنے کے مازن پر دھیان دو۔ وہ خود ٹھیک رہا تو ماحول جیسا بھی ہواُسے نقصان نہیں ہوگا۔“

”مجھے مازن پر پورا اعتماد ہے۔وہ کسی اور لڑکے کی صحبت میں اتنا اثر نہیں لے گا جتنا بازل کے نزدیک رہ کر بگڑے گا، بھائی ہیں وہ دونوں، خون کی محبت جوش مارتی ہوگی تو مازن خود پر کیسے قابو رکھتا ہوگا؟ مل جاتا ہوگا بس اُس کے ساتھ۔“

”خون تو وہ تمہارا بھی ہے، مگر تم نے بھی تو اپنا دل پتھر کررکھا ہے نا، مازن کو بھی سکھا دو۔“ سعدیہ چونکی۔

”تم مجھ پر طنز کررہی ہو؟“

”نہیں، میں تو اپنی حیرت کااظہار کررہی ہوں۔ ماں ہونے کی حیثیت سے تمہیں دونوں بیٹوں کی فکر ہونی چاہیے نا۔ ابھی وہ نو عمر ہے تم اُسے بھی سمجھا بجھا کر راہ راست پر لاسکتی ہو۔ تیمور سے طلاق لے لو اور دونوں بیٹوں کو لے کر کسی دوسرے شہر چلی جاﺅ۔“

”ہونہہ، یہ ممکن نہیں ہے۔ تیمور نے اس کے دل میں میرے خلاف اتنا زہر بھردیا ہے کہ وہ میری شکل تک دیکھنا نہیں چاہتا۔مازن بتار ہا تھا اس چھوٹی سی عمر میں بھی اس کے کئی افیئرز ہیں، میں تو بس اپنے مازن کو محفوظ رکھنا چاہتی ہوں۔“

”تم نے بھی تو اتنے برسوں میں اُس کی خیر خبر نہیں لی۔ اگر لی ہوتی تو شاید وہ تمہاری طرف لوٹ آتا۔“

”میں گئی تھی قصر تیمور اس سے ملنے کے لیے، لیکن اس کے کمرے میں موجود خرافات دیکھ کر اتنی مایوس ہوئی کہ یونہی واپس لوٹ آئی۔“ سعدیہ اس دن کو یاد کرکے آبدیدہ ہوگئی۔

”مجھے بازل نے بہت مایوس کیا، دس سال کی عمر میں چھوڑا تھا اُس نے مجھے،مگر وہ دعائیں ،وہ نماز جو اتنے سال میں اُسے یاد کراتی رہی، انہیں کیسے چھوڑ دیا اس نے؟ وہ مجھے بھول گیا کوئی بات نہیں،پر اللہ کا کلام کیسے بھول گیا؟ حقیقت یہی ہے کہ اس کا دل پہلے ہی سے بے ایمان تھا، مہر لگی ہوئی ہے اس کے دل پر، بالکل اپنے باپ کا پر تو ہے۔“

”تیمور نے دوسری شادی کی تمہارے جانے کے بعد؟“

”جسے حرام کا چسکا لگ جائے وہ حلال کی طلب نہیں کرتا اسما۔ اب تو وہ اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرچکا ہے۔“

”کیا مطلب؟“ اسما سمجھ نہیں سکی تو سعدیہ نے اُسے یاد دلایا۔

”پچھلے دنوں اخبار میںخبر آئی تھی کہ شہر کے مضافات میں ایک فارم ہاﺅس پر پولیس نے چھاپہ مار کر ان بچوں کو آزاد کرایا جنہیں زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔“

”ہاں میں نے بھی پڑھاتھاکہ شہر کے بااثر افراد اس گھناﺅنے فعل میں ملوث تھے، اس لیے رشوت لے کر معاملے کو دبا دیا گیا، پانچ آدمی تھے وہ، ہے نا؟“

”ہاں، اُن میں تیمور بھی شامل تھا۔“ سعدیہ کے انکشاف پر اسما کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

”وہ پہلے زنا کا مرتکب ہوتا رہا اور اب شہوت کی دلدل میں گردن تک دھنس چکا ہے۔ اُسے کوئی ہاتھ باہر نہیں کھینچ سکتا۔“ سعدیہ نے بے اختیار بہ نکلنے والے آنسوﺅں کو بے دردی سے صاف کیا۔

”میں نے مازن کی تربیت بہت جی جان سے کی ہے۔ بازل میری ساری محنت پر پانی پھیر رہا ہے ۔بہتر ہے وہ اپنے باپ کے پاس ہی رہے،میں بس مازن کا اے لیولزمکمل ہوتے ہی یہ شہر چھوڑ دوں گی۔ سمجھوں گی میرا ایک ہی بیٹا تھا۔“ سعدیہ کی آواز بھرا گئی، بہت کوشش کی پر آنسو تھے کہ اُمڈے ہی چلے آرہے تھے۔ بالآخر اس نے ہار مان لی اور گھٹنوں پر سر رکھ کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اسما نے قریب آکر ہمدردی سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔

٭….٭….٭

مازن بڑے مزے سے فون پر فیس بک کھولے نوریہ سے بات کررہا تھا۔ یہ اُس کی نئی دوست تھی۔ جس کو بالکل اسی کی طرح مسائل درپیش تھے۔ باپ شدت پسند بلکہ جنونی مسلمان، اپنے ہر قول و عمل پر مذہب کی مہر لگائے اُس کا جینا حرام کیے ہوئے تھا۔

اپنے دوستوں سے مازن جو کچھ سنتا وہ نوریہ کو سناتا۔ پہلے پہل تو وہ اس کی بے لاگ گفت گو پر گھبرا جاتی پھر آہستہ آہستہ وہ بھی اسی انداز میں سوچنے لگی۔

مازن نے اُسے بہت سے گروپس میں ایڈ کیا جہاں دین کا مذاق اڑایا جاتا۔ یہ سب مذہب سے بے زار لوگ تھے ۔ نوریہ کو ان سب کی منطق سمجھ آتی تھی سوائے ایک بات کے۔ وہ لوگ دین کو اہمیت نہیں دیتے تو اس پر عمل کرنا چھوڑ دیں۔کوئی بھی مذہب چاہے بدھ مت ہو یا ہندو مت، عیسایت ہو یا یہودیت یا پھر اسلام، زبردستی تو کسی کو خود سے باندھ کر نہیں رکھ سکتا۔ نہیں ماننا چاہتے تو مت مانیں۔ وہ اکثر اپنے موقف کا اظہار کرتی رہتی، اسی لیے ایک بار بڑی جرا ¿ت کرکے لکھ دیا کہ دہریت اختیار کرنے کا مطلب خدا کے وجود سے انکار ہے لیکن اگر ہم تسلیم نہیں کرتے تو تضحیک بھی نہ کریں۔اس پر مازن سمیت اُس کے دوسرے دوستوں نے اپنے کمنٹس کی یلغار میں اُسے بزدل قرار دے دیا، مگر نوریہ کیا کرتی۔ اس کی شخصیت میں ابھی تک رفعت آپا کی چھاپ تھی۔ وہ بدظن تھی گستاخ نہیں،لیکن یہ بات اُسے سمجھ نہیں آتی تھی۔ اوروں کی طرح وہ بھی خود ک

و بزدل ہی سمجھ رہی تھی۔ اسی بزدلی نے اُسے کئی گناہوں سے بچائے رکھاتھا اسی لیے نہ خودکشی کی ہمت پیدا ہوسکی اور نہ شمس کو مار دینے کی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!