ریڈروم میں روشنی کا انتظام خوشبو دار موم بتیوں کے ذریعے کیا گیا تھا۔ ایک سفید موم بتی عین آئینے کے سامنے رکھ کر اس نے میک اپ کرنا شروع کیا۔ نقلی پلکیں چپکانے کے بعد اس نے مسکارے کی تہ جمائی اور ہونٹوں پر سرخ انار رنگ لپ اسٹک لگاتے ساتھ ہی گھڑی پر نظر ڈالی۔ گیارہ بج رہے تھے۔ ہال سے تیز میوزک کی آواز کمرے تک آرہی تھی۔ جوڈتھ کے گیت ’اے پرفیکٹ سرکل‘ کے الفاظ جسم میں ہیجان برپا کررہے تھے۔ اس نے انگڑائی سی لیتے ہوئے عجب مستی کے ساتھ سیاہ ریشمی بالوں کی وگ سر پر جمائی، اسے اچھی طرح سیٹ کیا اور آئینے میں خود کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد اب وہ مکمل مصری لڑکی کے روپ میں ڈھل چکا تھا۔ پوائزن اپنی گردن اور بازوﺅں پر اچھی طرح سپرے کرتے ہوئے اس نے آخری بار اپنا سراپا آئینے میں دیکھا اور سُرعت سے مڑ کر کمرے سے باہر نکل آیا۔
اُس کے باہر آتے ہی تمام دوستوں نے بلند آواز میں اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ فرحان والہانہ انداز میں آگے بڑھا اور اسے بازوﺅں میں بھرتے ہوئے وائن کا گلاس اُس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔
ایک ہی گھونٹ میں گلاس خالی کرنے کے بعد وہ فرحان کا ہاتھ تھام کر ناچتے کودتے ہجوم کا حصہ بن گیا۔ آج کی رات اُس کا جوڑ فرحان کے ساتھ تھا۔
٭….٭….٭
”تم نے سنا نہیں میں کیا کہہ رہی ہوں؟“
”سن لیا۔“ اپنی سماعت کی دُرستی کی اطلاع دیتے ہوئے بھی اس کی نظریں باہر لان کی دیوار پر منڈھی سفید بوگن ویلیا کی بیل کو تک رہی تھیں۔ کافی پڑے پڑے ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ ارم نے ایک گہرا سانس لے کر اس کی اسکیچ بُک بند کرکے میز پر رکھ دی اور پھر اُٹھ کر اس کے نزدیک آگئی۔
”کچھ ہوا ہے کیا؟“
”نہیں۔“
”تو پھر اتنی چپ کیوں ہو؟“
”دل نہیں چاہ رہا بات کرنے کو۔“
”مجھ سے بھی نہیں؟“
”کسی سے بھی نہیں۔“
”ٹھیک ہے، تو پھر میں چلی جاتی ہوں۔“ ارم ناراض ہوکر اُٹھنے لگی تو نوریہ نے فوراً ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔
”مت جاﺅ پلیز۔“
”تم نے کہا بات نہیں کرنا چاہتی، تو یہاں بیٹھ کر کیا کروں؟“
”بس کچھ دیر میرے پاس بیٹھی رہو۔“ ارم کے لیے نوریہ کی درخواست رد کرناآسان نہ تھا،سو وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔ نوریہ نے اُس کا ہاتھ چھوڑا اور پھر سے بوگن ویلیا کو گھورنے لگی۔
”کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے ضرور۔“ ارم کو یقین تھا،وہ دوپہر سے اس کے لیے پریشان تھی۔ جب کیفے میں اُس نے نوریہ سے تھری ڈائمنشنل پراجیکٹ کی بابت پوچھا تو اس نے جواب دیا۔
”ابھی سوچا نہیں اس بارے میں۔“سموسے کا لقمہ منہ میں رکھتی ارم کوایک لمحے کے لیے یقین نہیں آیا۔
”کل آخری تاریخ ہے سائن کروانے کی۔“
”معلوم ہے۔“ نوریہ کااطمینان تھایاشایدبے نیازی تھی جس پر ارم کو جی بھر کے رشک آیا۔
”ویسے مجھے پتہ ہے تم آخری منٹ میں بھی جو لے کر جاﺅ گی، میم نے فوراً اوکے کردینا ہے۔ ایسے ہی بنتے ہیں تمہارے شاہ کار۔“ نوریہ پر اس تعریف کا اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ بس ایک دم ہی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”ٹائم ہوگیا ہے۔ میرے فادر آگئے ہوں گے، چلتی ہوں۔“ ارم نے بس سر ہلایا اور نوریہ تیز قدموں سے چلتی گیٹ کی جانب نکل گئی۔ ارم نے سموسہ ختم کرکے ہاتھ جھاڑے اور نوریہ کو دور جاتا دیکھنے لگی۔ اُسے حیرت ہوتی تھی وہ کبھی اپنے والد کو ڈیڈ،ابویاباباکے نام سے مخاطب نہیںکرتی تھی۔ دوستوں کے درمیان کبھی تذکرہ ہوتا تو ہمیشہ بس میرے فادر کہہ کر بات کرتی۔ ارم نے اس کبھی نہ حل ہونے والے معمے کو سوچتے ہوئے اپنی چیزیں سمیٹ کر بیگ میں رکھیں تو نوریہ کی اسکیچ بُک پر نظر پڑی۔
”اپنی اسکیچ بک تو ادھر ہی بھول گئی۔“ ارم نے گیٹ کی جانب دیکھا لیکن نوریہ کالج سے باہر جا چکی تھی۔
اُس نے یونہی اسکیچ بُک کھول لی۔ شروع کے چند صفحات کا کام اُس کا دیکھا ہوا تھا، اُنہیں پلٹتے ہوئے وہ آخری صفحے تک آکر رک گئی۔
”تھری ڈائمنشنل پراجیکٹ“ کی ہیڈنگ کے نیچے بنی ڈرائنگ نے اُسے دہلا کر رکھ دیا۔ ایک خستہ حال قبر جس پر جالے منڈھے ہوئے تھے۔ جھاڑ جھنکاڑ میں اٹی ہوئی،کتبے کی جگہ ایک گھڑیال ایستادہ تھا جس میں وقت پورا ہوچکا تھا۔
”مایوسی، نا اُمیدی یا پھر موت کی خواہش؟“ ارم ناسمجھی سے اس اسکیچ کو گھورے جا رہی تھی۔ تبھی گھڑیال نما کتبے پر لکھا نام دیکھ کر وہ چونک گئی۔ اُسے سمجھ ہی نہ آیا وہ کیا کرے۔ پھر اُس نے نوریہ سے براہ راست بات کرنے کا فیصلہ کیا اور اسی شام اُس کے گھر پہنچ گئی، یہ جانے بغیر کہ انجام کیا ہونے والا ہے۔

٭….٭….٭

اُس کا پورا دن مینٹل ہاسپٹل میں گزرا تھا۔ سعدیہ اُسے اٹھنے ہی نہیں دے رہی تھی۔ وہ اس کے ساتھ بھوکاپیاسا،صبر سے بیٹھااُس کے بیٹے کے بچپن کی شرارتیں سن کر جھوٹ موٹ دل چسپی دکھاتا رہا۔ کتنی حسرت تھی اُسے کہ کبھی سعدیہ اُس سے محبت سے بات کرے۔ آج وہ کررہی تھی مگر اُسے پہچانے بغیر، بالکل ایک اجنبی سمجھ کر وہ اپنے بیٹے کے قصے سنائے جارہی تھی۔نرس نیند کا انجکشن لگا چکی تھی۔ اس کے باوجود بھی وہ کافی دیر تک جاگتی رہی۔ پھر یونہی باتیں کرتے گہری نیند میں غرق ہوئی توہاتھ اس کی گرفت سے آزاد ہوگیا۔
وہ چند لمحوں تک اس ہاتھ کو بہ غور دیکھتا رہا۔ کئی سال پہلے کا وہ لمحہ آج بھی ان ہاتھوں پر ثبت تھا جب اُس نے آخری بار سعدیہ کا ہاتھ تھاما تھا۔ سعدیہ اُسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی پر اُس نے جھٹک کر اپنا ہاتھ چھڑا لیا تھا۔
وہ اُسے اکیلا چھوڑ گئی تھی۔ شاید وہ مجبور تھی،جس طرح آج وہ اُسے پاگل خانے میں چھوڑ کر قصرِتیمور واپس جانے پر مجبور ہوگیا تھا۔
٭….٭….٭
”آخر تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ کیوں مارنا چاہتی ہو انہیں؟“
وہ ناسمجھی کے عالم میں اُسے دیکھنے لگی۔ارم نے فوراً اس کی اسکیچ بُک کھول کر اس کے سامنے رکھی۔
”یہ کیا بنایا ہے تم نے؟“ نوریہ کے تیور ایک دم بدلے۔ اُس نے جھپٹ کر اپنی اسکیچ بُک اُس کے ہاتھ سے چھینی اور کھڑکی سے قدرے ہٹ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”تم چلی جاﺅ یہاں سے۔“ اپنے آنسو روکنے کی کوشش میں ناکام ہوکر وہ چلائی۔
”نہیں جاﺅں گی، پہلے مجھے بتاﺅ، کیا پرابلم ہے؟“ارم بھی ڈھیٹ تھی۔
لیکن نوریہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی زور سے دروازہ بجا۔ وہ دونوں ہی اپنی جگہ سے اچھل پڑیں۔ دروازے کے دوسری جانب جو بھی تھا، نہایت بے صبرا تھا۔ دروازہ کھولنے کی مہلت دیے بغیر وہ ہینڈل بار بار گھماتے ہوئے اُسے دھڑ دھڑا رہا تھا۔ ارم نے گھبرا کر نوریہ کی جانب دیکھا جو خوف سے پتے کی طرح لرز رہی تھی۔ اُس سے کچھ بھی کہنا بے کار تھا سو ارم نے خود ہی آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ وہ بوڑھا شخص آندھی طوفان کی طرح اندر داخل ہوا۔
”کیا ہورہا تھا یہاں؟“ اس کی آواز تھی یا شیر کی گرج، دونوں کچھ غلط نہ کرنے کے باوجود خوف زدہ ہوگئی تھیں۔
”کچھ نہیں، ہم بس باتیں کررہے ہیں۔“ نوریہ نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوشش کی مگر اس کے باپ کو تو جیسے موقع چاہیے تھا۔ وہ کچھ سننے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کررہا تھا، نوریہ جانتی تھی اب وہ کیا کرنے والا ہے۔ مگر وہ ارم کے سامنے یہ سب برداشت نہیں کرسکتی تھی سو گڑ گڑانے لگی۔
”بلیو می پلیز، ہم نے جان بوجھ کر لاک نہیں کیا۔“
”بکواس بند کرو، میں نے تم سے کتنی بار کہاہے کہ کمرہ مت بندکیا کرو۔ تمہیں میری بات یاد کیوں نہیں رہتی؟“ اس نے اپنے پاﺅںسے جوتانکالا۔
”تمہیں سبق سکھانا پڑے گا۔“ یہ کہہ کر وہ نوریہ پر پل پڑا، ارم کی دہشت کے مارے چیخ نکل گئی تو وہ فوراً پلٹ کر بولا۔
”نکل جا یہاں سے کمینی، دفع ہو جا۔“ارم نے جلدی سے اپنا ہینڈ بیگ اُٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ گھر سے باہر آتے ہوئے نوریہ کے بدن پر پڑتی ضرب اور دل دوز چیخوںنے گاڑی تک اس کا پیچھا کیا۔ اپنے ڈرائیور سے گھر چلنے کا کہہ کر وہ زور زور سے رونے لگی۔ اسے یقین تھا نوریہ اب کبھی کالج نہیں آئے گی۔ وہ دوبارہ کبھی اس سے مل نہیں سکے گی۔ جو سوال دوپہر سے اُس کے دماغ میں ڈنک مار رہا تھا کہ نوریہ نے قبر کے کتبے پر اپنے باپ کا نام کیوں لکھا ہے؟اس کا جواب مل چکا تھا۔
٭….٭….٭
پورے تین دن بعد وہ اپنے کمرے میں آیا تو اس کی حالت ویسی ہی تھی جیسی اس رات چھوڑ کر گیا تھا۔ اوڑھنے کی چادر گول مول ہوئی فرش پر پڑی تھی۔ ڈریسنگ روم میں وارڈ روب کھلی ہوئی اور باتھ روم کی لائٹ بھی آن تھی۔ ”وقت“جیسے ابھی تک وہیں ٹھہرا ہوا تھا۔
ایک سرد آہ بھر کر اس نے اسٹڈی ٹیبل کی جانب دیکھا۔ اپنی کرسی اور لیپ ٹاپ کو گھورتے ہوئے اس کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا۔ کچھ دن پہلے وہ یہیں تھا، مگر اب؟ اُس نے زور سے آنکھیں بند کرلیں۔ بہنے والے آنسوﺅں کو ہاتھ کی پشت سے پونچھتا وہ تھکے تھکے قدموں سے اپنی میز تک آیا اور حسرت سے آہستہ آہستہ اُن تمام چیزوں پر ہاتھ پھیرنے لگا جہاں وہ اپنا لمس چھوڑ گیا تھا۔ یوں ہی کچھ دیر انگلیوں کو مس کرتے ہوئے اس نے لیپ ٹاپ کو چھوا اور پھرکھول لیا۔ کی بورڈ کے تمام حروف اُس کے سامنے تھے۔
اسکرین روشن ہوئی، وہ کرسی کا سہارا لے کر بیٹھ گیا۔ شاید آخری بار اُس نے اپنے اکاﺅنٹ سے لاگ آﺅٹ نہیں کیا تھا اِسی لیے لیپ ٹاپ کاپاس ورڈ ڈالتے ہی اسکرین پر سوشل ویب سائٹ کا پیج نظر آنے لگا۔ تھکے ہوئے ذہن اور سوجی ہوئی آنکھوں سے بنا پلکیں جھپکائے پہلے تو وہ ا سکرین پر روشن الفاظ کو گھورتا رہا۔ لکھے ہوئے چند گزشتہ سٹیٹس پڑھتے ہوئے، پوسٹ کی گئی تصاویر پر نظر ڈالتا وہ سوچ رہا تھا کہ اس اکاﺅنٹ کو ہمیشہ کے لیے بند کر دے تب ہی ان باکس میں میسج موصول ہوا، پہلے ایک پھر یکے بعد دیگرے تین اور میسجز آگئے۔ اس نے غائب دماغی سے ان باکس کھولا۔میسج دیکھتے ہی یک دم اس کا دماغ بھک سے اُڑ گیا، میسج میں لکھا تھا۔
”میں آج اپنے باپ کو قتل کر دوں گی۔“
٭….٭….٭



”میرا میاں تو ہر رات کھانا باہر سے منگواتا ہے۔ رات گیارہ بجے کے بعد بھوک لگتی ہے اسے۔“
”کیوں؟“ ساتھ بیٹھی عورتوں میں سے ایک نے پوچھا، دوسری کی آنکھوں میں بھی یہی سوال تھا۔ حنا نے اپنی مخروطی انگلیوں میں سجی ہیرے کی انگوٹھیوں کو بڑی ادا سے دکھاتے نہایت بے نیازی سے جواب دیا۔
”وہ ڈرنک کرتاہے نا،پھر اُسے گھر کا پکا کھانا اچھا نہیں لگتا، اس لیے۔“ سننے والی دونوں عورتیں جو کچھ دیر پہلے تک اس کے حسین چہرے پر نظریں جمائے ہر ادا ہونے والے لفظ پر کان لگائے بیٹھی تھیں یک دم بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھنے لگیں۔ حنا کو بہت مزہ آیامگر نوریہ کو نہیں۔
وہ بے زاری سے اُٹھ کر اپنی دوست کی جانب چل پڑی جو اپنی سالگرہ پر پریوں سا لباس پہن کر خود کو حقیقتاًکوئی ماورائی مخلوق سمجھ رہی تھی۔ اُس نے نوریہ پر توجہ نہیں دی۔ آج تو سب اسے مرکز نگاہ بنائے بیٹھے تھے وہ کیوں تردد میں پڑتی؟ نور کچھ دیر تک خاموش بیٹھی رہی، پھر بے زار سی ہوکر اُٹھی اور چپ چاپ ایک کونے میں جا کر کھڑی ہوگئی۔ برتھ ڈے گرل کی ماں تو مہمانوں کی خاطر داری میں مصروف تھی، اس کی بہن نے خاموش کھڑی اس بچی کو دیکھا تو قریب آکر پیار سے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”ہائے سویٹی، آپ یہاں اکیلی کیوں کھڑی ہیں؟ جاﺅ سب فرینڈز کے ساتھ گیمز کھیلو۔“ نوریہ نے انکار میں سر ہلا کر اپنا ہاتھ چھڑا لیا مگر وہ لڑکی اسے اصرار کرکے کھانے کی ٹیبل تک لے گئی۔
”چلو مجھے بتاﺅکیا لو گی؟“
”مجھے بھوک نہیں ہے۔“
”اچھا؟ تو آﺅ کوئی ڈرنک لے لو پھر۔“ وہ اُسے لے کر دوسری ٹیبل کی جانب بڑھی۔ اگر اس نے نوریہ کا ہاتھ نہ پکڑا ہوتا تو وہ کب کی بھاگ چکی ہوتی مگر فی الوقت یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ بے دلی سے اس کے ساتھ چلتی ہوئی اس وسیع و عریض میز تک پہنچی جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک وائن گلاسز میں پارٹی کی تھیم کے مطابق دھنک کے سات رنگوں کے مشروبات سجے تھے۔ نہایت خوش رنگ مشروب ، نیلے، سرخ، سبز، زرد اور فالسہ، غرض وہ تمام رنگ جنہیں بچے ہاتھ سے چھونے اور حلق میں اتارنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ مگر وہ بے زار سی بغیر کوئی شوق دکھائے بس کھڑی رہی۔
”یہ لو گی؟“
”نہیں۔“
”تو پھر یہ ریڈ والا؟“ میزبان لڑکی نے بھی مہمان نوازی کے تمام اصولوں پر آج ہی عمل کرنا تھا۔ باری باری وہ ہر گلاس اس کی آنکھوں کے سامنے لا کر سوال کرتی۔ پھر ہر جواب نفی میں پاکر وہ سیدھی کھڑی ہوگئی۔
”لگتا ہے تم بہت احتیاط کرتی ہو اپنے کھانے پینے کے معاملے میں، ہے نا؟“ نوریہ نے بہ غور گلاسوں کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”آپ لوگوں نے ان گلاسز میں غلط ڈرنکس ڈال رکھے ہیں۔“
”ہاہا،بھئی تمہیں کیسے پتا؟“ وہ ہنس پڑی۔
”اچھا چلو تم اپنے فیورٹ ڈرنک کا نام بتاﺅ۔ آئی پرامس اگلی دفعہ ہم پارٹی میں وہی ڈرنک سرو کریں گے۔ چلو بولو، کون سا ڈرنک لیتی ہو؟“
نوریہ نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
”میں دو نام بتا دوں؟“ اپنی دو چھوٹی سی انگلیاں دکھاتے ہوئے نوریہ نے سوال کیا۔ میزبان لڑکی کھل اُٹھی۔
”شیور، وائے ناٹ؟“
اتنی دیر میں پہلی بار اُس نے ڈھنگ سے بات کی تھی۔ نوریہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی پسند بتا دی اور واضح طور پر اُس لڑکی کو جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھاجیسے اُس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ نوریہ کو لگا اس نے غلطی کردی۔ وہ اُلٹے قدموں پیچھے ہٹی اور وہاں سے بھاگ کر دوبارہ اپنی ماں کے پاس آگئی جو ابھی تک اپنے قصے سنانے میں مصروف تھی۔
”مجھ سے عمر میں پندرہ سال بڑا ہے۔ پیسابہت ہے اس کے پاس۔مجھ سے پیار بھی کرتا ہے پر میرے سسرال والے ٹھیک لوگ نہیں ہیں۔“ حنا نے کانٹے پر نوڈلز لپیٹ کر بڑی نفاست سے لقمہ لیا۔ وہ دو عورتیں جو شاید پہلی بار اس سے مل رہی تھیں، پچھلے ایک گھنٹے میں اس کی زندگی کے تمام اہم واقعات سے آگاہی حاصل ہونے کے بعد خود کو اس کا بہترین دوست سمجھنے لگی تھیں اور اسی خلوص سے ہم دردی کا اظہار بھی جاری تھا۔
”سسرالی تو کسی کے بھی ٹھیک نہیں ہوتے،مگر تمہارے والوں کو کیا تکلیف ہے؟“
”میرا کوئی بیٹا نہیں ہے نا۔ اس لیے شمس کے بھائی جائیداد پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ میری ساس بھی جادو ٹونا کرتی ہے۔ تم لوگ یقین کرو ہر دوسرے دن میرے گھر سے تعویذ برآمد ہوتے ہیں۔“
”پر تمہاری ساس تو ساتھ نہیںرہتیں، پھر تعویز کون رکھتا ہے؟“
”ارے یار جب بھی ملنے آتی ہیں ویک اینڈ پر تو گھوم پھر کر پورے گھر کی صفائی کراتی ہیں نوکر کے ساتھ، ہونہہ۔ صفائی سے زیادہ گند نظر آتا ہے اس کے جانے کے بعد۔ میری کپ بورڈ، سٹور روم، حتیٰ کے گیراج سے بھی تعویز نکلے ہیں، سوچو۔“ حنا نے خوب مزے لے کر تفصیل بیان کی۔
”ہاہ تو تمہیں ڈر نہیں لگتا؟ کچھ ہوگیا تو؟ بند کرواﺅ ان کا گھر میں آنا۔“ حنا سے زیادہ وہ دونوں خوف زدہ تھیں۔
”میں کیوں ڈروں؟ میں نے تو اُلٹا ان پر دم کرانے شروع کردیے ہیں۔ ان کے ہر عمل کو انہی پر لوٹاتی ہوں۔ اب دیکھو پچھلے ہفتے سے گھٹنے میں درد لے کر بیٹھی ہے بڑھیا، صفائی کیا خاک کرائے گی میرے گھر کی، خود ایک قدم اُٹھانا مشکل ہورہا ہے۔“ وہ ہنستے ہوئے بے فکری سے اپنی کارستانی سناتی رہی۔
”بس شمس میرا دیوانہ ہے تو اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتی میں۔ سسرال جائے بھاڑ میں، میرا میاں تو میری مٹھی میں ہے۔ الگ کوٹھی میں رہتی ہوں وہ بھی میرے نام ہے۔ دل کھول کر خرچ کرتی ہوں۔ شمس نے کبھی منع نہیں کیا۔“ وہی دو عورتیں جوکچھ دیر قبل حنا پر ترس کھا رہی تھیں اب اُس پر رشک کرنے لگیں۔
”واہ بھئی! تمہارے تو مزے ہیںاور تم ہو ہی اتنی پیاری، محبت بھی کرے گا، ناز نخرے بھی اٹھائے گا تمہارے۔“
”پیارا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا، عورت کو اپنی قدر خود معلوم ہونی چاہیے تبھی شوہر سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ تم لوگ بھی چاہو تو اپنی اہمیت خود منوا سکتی ہو۔“
”کیسے؟“ تجسس عروج پرپہنچا، حنا نے صراحی دار گردن کو اکڑاتے ہوئے اپنی زندگی کا سب سے اہم کلیہ اُن کے سامنے طشت ازبام کیا۔
”شمس جانتا ہے اگر وہ میرا خیال نہیں رکھے گا تو میں اسے چھوڑ کر کسی اور کا ساتھ اپنا لوں گی۔“
”سچ میں؟ تم نے کہا اور اس نے مان لیا؟“ آس پاس کی چند اور خواتین متوجہ ہوئیں، کچھ نے تو ناک بھوں چڑھا کر اس بے ہودہ گفت گو پر ناگواری کا اظہار بھی کیا مگر حنا کو پروا نہیں تھی۔ اُس کے لیے یہی کافی تھا کہ سب کی توجہ اُس پر مرکوز ہے، وہ کہتی رہی۔
”میں صرف کہتی نہیںکرکے بھی دکھا دیتی ہوں۔ کئی میل فرینڈز ہیں میرے۔ آئے دن گھر پر پھولوں کے گل دستے اور تحائف آتے رہتے ہیں جنہیں دیکھ کر شمس عدم تحفظ کا شکار ہوکر میری چاکری شروع کردیتا ہے۔“ حنا نے بے ساختہ قہقہہ لگا کر اپنی بات کا مزہ لیا تھا۔
”تم لوگ بھی اپنے اپنے شوہروں کو جتا دو کہ صرف ایک وہی مرد نہیں رہ گئے تمہارے لیے اس دنیا میں۔ کئی طلب گار اور بھی ہیں۔“ اور یہاں اس نعرے کے ساتھ ہی ان تمام عورتوں کی دل چسپی حنا کی چٹخارے دار گفت گوسے ختم ہوگئی۔ وہ سب چاہے جیسی بھی تھیں مگر بددیانت ہرگز نہیں تھیں، ´حنا شمس گیلانی کی طرح ۔
٭….٭….٭
”غضب خدا کا، تین گھنٹے ہوگئے مجھے آئے ہوئے اور تجھے خبر تک نہیں ہوئی۔“ اماں نے شمس کی شکل دیکھتے ہی اُسے لتاڑنا شروع کردیا، اس نے وضاحت دی۔
”اماں آپ بھی توآتے ہی نوکروں کے ساتھ لگ کر صفائی کرانے لگتی ہیں نا ہمیشہ۔ تو میں نے سوچا آفس کا کام نبٹا کر آﺅں پھر اطمینان سے بیٹھا رہوں گا آپ کے ساتھ۔“ وہ اُن کے سامنے ہی صوفے پر ڈھے گیا اور نوکر سے ٹھنڈا پانی لانے کے لیے کہا۔ اماں کچھ پل اُسے غور سے دیکھتی رہیں۔ شمس کی عمر اتنی نہیں تھی کہ چہرے پر جھریاں پڑ جاتیں، شاید مے خوری نے وقت سے پہلے بوڑھا کردیا ہے۔ ہلکی سے بڑھی ہوئی شیو میں بھی سفید بالوں کی بہتات تھی اور چہرے کی لکیروں میں بھی دنوں کے ساتھ اضافہ ہورہا تھا۔
”کام بھی تو بہت کرتا ہے، ایک بیٹا ہو جاتا تو کچھ بوجھ بٹ جاتا۔“ اماں نے خود ہی مسئلے شناخت کیے اور حل بھی تلاشے، مگر جو سوچ رہی تھیںفی الفوربیٹے کے سامنے اس کااظہار نہیں کرنا چاہتی تھیں، کہنے لگیں۔
”اب ہمت نہیں رہی کہ تمہارے گھر کے سب کونے کھدروں سے گند نکلواتی رہوں۔ جانے کیا ہوا ہے پر اب ہڈیوں میں جان نہیں رہی۔“
”اماں ہونا کیا ہے، بڑھاپا آگیا ہے۔ اب آپ کے آرام کے دن ہیں۔“ شمس نے نوکر کا لایا ہوا پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہوئے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا۔ اماں ہنس دیں ۔
”ہاں شمس بیٹا۔ میرا تو بڑھاپا آگیا اور صحیح وقت پر آیا۔ پر تم کیوں وقت سے پہلے بوڑھے لگنے لگے اور یہ بیوی کہاں ہے تمہاری؟“ماں کو اچانک ہی خیال آیا۔
”تمہارے لیے کھاناپانی تو اُسے لا کر دینا چاہیے نا۔ نوکر کیا خیال رکھیں گے تمہارا؟“
”ماں جی!حنا نئے بنگلے کا انٹیریئر کروا رہی ہے تو خریداری میں وقت لگ ہی جاتا ہے۔“
”آئے ہائے،اکیلی عورت سب کر لے گی؟“ اماں نے حیرت کے مارے تین انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔
”ہاں بھئی وہ کوئی ہماری طرح پردے میں عزت سنبھالے تھوڑی بیٹھی ہے۔ پوری دنیا میں لور لور پھرتی ہے، کرے گی یہ سب۔“ اماں نے حسب معمول حنا پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا۔
نوریہ نے فوراً دادی کو وضاحت دی۔
”نہیں دادی ماں، ماما اکیلی نہیں گئیں۔ اویس انکل بھی ان کے ساتھ ہیں۔“
”اویس کون؟ اس کا بھائی؟“
”نہیں دادی! وہ دوست ہیں ماما کے۔“
”چپ کر بے شرم۔ کسی نوکر نے سن لیا تو۔ کیسے دھڑلے سے ماں کی بے حیائی کا اشتہار لگا رہی ہے۔“ اماں نے پہلے نوریہ کو ڈانٹا پھر شمس کی خبر لی۔
”شاباش ہے بیٹا۔ تو تو بالکل ہی بے غیرت ہوگیا، لعنت ہے تجھ پر۔“
شمس بلبلایا۔”ماں جی ایسے تو نہ کہیں۔“
”ارے تو اور کیا کہوں؟ ایسے مردوں کو اور کیا کہا جاتا ہے جن کی بیوی پرائے مردوں سے یاری گانٹھے، ان کے ساتھ گھومے پھرے اور اُسے کوئی اعتراض نہ ہو؟“
”وہ اس کا دوست نہیں ہے۔اویس میرے آفس میںہی کام کرتا ہے، نوریہ نے ایسے ہی کہہ دیااور ویسے بھی حنا فارغ ہوتی ہے گھر پر،یہ تو میرے کہنے پر اُس نے نئے گھر کا انٹیریئر کرنا شروع کیا ورنہ گھر پر بیٹھی بور ہوتی رہتی تھی۔ میرے پاس بھی ٹائم نہیں ہوتا اسے دینے کے لیے۔ یہ تو آپ کی وجہ سے آفس سے جلدی اُٹھ آیا ورنہ۔“
”رہنے دے اب۔ زیادہ حمایت نہ کر بیوی کی۔ باقی دنیا کی عورتیں کیا شوہر کے ساتھ لٹکی پھرتی ہیں؟ گھر پر ہی رہتی ہیں نا سب کی سب۔ اُسے بھی گھر پر سکون سے رہنا سکھاﺅ۔گھر پر رہے، بیٹی کا خیال رکھے۔“ اماں نے نور کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو وہ بولی۔
”پر دادی میں تو بڑی ہوگئی ہوں اپنا خیال خود رکھ لیتی ہوں۔“
”تو پھر ماں سے کہو تمہیں بھائی لا کر دے۔“ اماں کے پاس حنا کے لائق بہت سے کام تھے پر نوریہ ناسمجھی سے بولی۔
”کون سا بھائی؟“
”ارے تمہارا اپنا بھائی۔ تم اپنی ماں سے کہو کہ اکیلے کھیلتے کھیلتے تنگ آگئی ہوں اس لیے تمہیں منا بھائی چاہیے۔“ اب نوریہ بھی مسکرا دی۔
”اوکے۔“
”خدا کا واسطہ ہے اماں جی۔ بچی سے کیسی باتیں کررہی ہیں؟ جاﺅ نوریہ تم جا کر کھیلو۔“ نوریہ اُٹھ کر بھاگ گئی۔ اماں نے گفت گوجاری رکھی۔
”ٹھیک ہے بچی سے نہیں کہتی۔ بڑوں سے بات کرلیتی ہوں۔ تم بتاﺅ مجھے پوتے کی شکل کب دکھا رہے ہو؟“
”میں کیا بولوں؟ یہ تو اللہ کی مرضی ہے۔ حنا کے ساتھ نوریہ کی بار جو پیچیدگیاں ہوئیں آپ جانتی تو ہیں پھر کیوں ایسی خواہش کرتی ہیں؟“
”کیوں کہ میں نہیں چاہتی تیرے بھائی تیری محنت پر ڈاکہ ماریں۔ تو کم پیارا تو نہیں مجھے۔ دوسری شادی کر، بیٹا پیدا ہوگیا تو تیرے بھائیوں کی امید ختم ہو جائے گی۔“
”میری بیٹی ہی میرا بیٹا بھی ہے ماں جی۔ میں سب کچھ اس کے نام کردوں گا۔ میرے کسی بھائی کا حق نہیں ہے اس دولت پر جو میں نے خون پسینہ ایک کرکے کمائی ہے۔“
”حق تو ہے بیٹا۔ جب تک تیرا کوئی بیٹا نہیں ہو جاتا تیرے بھائی۔“ اماں نے اپنی بات حنا کی ہیل کی کھٹ کھٹ سن کر وہیں ادھوری چھوڑ دی مگر دیر ہوچکی تھی۔ حنا کے تیور بتا رہے تھے وہ ”دوسری شادی“ کا مشورہ سن چکی ہے۔
٭….٭….٭



حنا کا موڈ سخت آف تھا، کچھ دیر ہوئی تھی اماں جی کو گئے ہوئے۔ حسب عادت انہوں نے حنا کو دیکھتے ہی نصیحتوں کاانبارلگا دیاجن میں سرفہرست خاندان کو وارث نہ دینے پر اسے مورد الزام ٹھہرانا تھا۔ حنا لاکھ جتن کرتی، دکھاوا کرتی پر اُسے ایسی باتیں دکھ دیتی تھیں۔ بیٹا نہ ہونا اس کا قصور نہیں تھا۔ دوبارہ ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہو جانے میں اس کی غلطی نہیں تھی۔ شمس کو ایسی کوئی کمی محسوس نہ ہو اس لیے وہ خود پر بہت دھیان دیتی تھی۔ ہر طرح سے اُس نے اپنے آپ کو پرفیکٹ بنا کر رکھا ہوا تھا پر یہ اماں جی سات دن اس کی محنت برقرار نہیں رہنے دیتی تھیں۔ سب کیا کرایا پانی ہو جاتا یا کم از کم حنا کو یہی محسوس ہوتا تھا کہ ان کی باتوں کے زیراثر شمس بھی بیٹے کے لیے اسے چھوڑنے میں دیر نہیں لگائے گا اور دوسری شادی کر لے گا۔
اس کا برین واش کرنا ضروری تھا۔ اسی لیے سخت تھکن کے باوجود، ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے اپنی نیل پالش کو انگلیاں کھینچ کھینچ کر صاف کرتی وہ شمس کے کمرے میں واپس آنے کا انتظار کررہی تھی۔ لیکن آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی جب شمس واپس نہ آیا تو اس نے گیٹ پر انٹر کام کیا تاکہ چوکی دار سے معلوم کرسکے کہ وہ اماں جی کو گھر چھوڑنے تو نہیں چلا گیا۔ وہاں سے اسے معلوم ہوا کہ اماں جی کے جاتے ہی شمس کے دوست آگئے تھے جنہیں ساتھ لے کر وہ بیسمنٹ میں چلا گیا ہے۔ حنا نے جھلا کر فون پٹخ دیا۔ دوست آ جانے کا مطلب تھا صبح چار بجے سے پہلے شمس کی شکل دیکھ پانا ناممکن ہے کہ پوری رات وہ چھے سات دوست مل کر تاش کی بازی جماتے اور اپنے پسندیدہ مشروب سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس دوران کسی کو مخل ہونے کی اجازت نہ تھی، حنا کو بھی نہیں، مگر وہ صبح تک صبر نہیں کرسکتی تھی۔ اس وقت اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے اسے کسی سامع کی ضرورت تھی۔ اس نے بے چین ہوکر اویس کا نمبر ملانا شروع کردیا۔ ایک وہی تھا جو اس کا ”دکھ“ سمجھ سکتا تھا۔
٭….٭….٭
نوریہ کا رو رو کر برا حال تھا۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی وہ جانے کب سے آنسو بہائے چلی جارہی تھی۔
”اوہ گاڈ! بند کرو یہ رونا دھونا۔“ حنا جب پیار سے پچکارتے ہوئے چپ کرانے میں ناکام رہی تو اسے زور سے ڈانٹ دیا۔
”آج نہیں تو کل یہ اسکول چھوڑنا ہی تھا، دیکھنا میں تمہارا ایڈمیشن اس سے اچھے اسکول میں کرواﺅں گی۔ کلاس رومز میں ایئر کنڈیشنر ہوگا، بڑا سا پلے گراﺅنڈ اور فرینڈلی ٹیچرز۔“ حنا نے بیک ویو مرر میں دیکھا، نوریہ اب آنسو پونچھ رہی تھی، اس نے مزید کہا۔
”گڈ گرل۔ دیکھنا وہاں تمہیں پڑھنے میں بہت مزہ آیا کرے گا۔“ نوریہ نے اپنے رونے کی وجہ بتائی۔
”میں حریم کو بہت مس کروں گی ماما، وہ میری بیسٹ فرینڈ تھی۔“ حنا نے پھر سمجھایا۔
”نو پرابلم سویٹی، ہم اسے گھر پر انوائٹ کرلیا کریں گے، وہاں مل لینا جی بھر کے۔ اسکول چھوڑا ہے، فرینڈز تو نہیں۔ناﺅ کم آن۔“ حنا نے جھوٹے دلاسے دیے، اس کا دھیان بٹا دیا۔ حالاں کہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ نوریہ کی کوئی بھی دوست اب کبھی اس سے ملنا نہیں چاہے گی۔ ان کے والدین ہرگز ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اس میں غلطی کچھ اُس کی تھی کچھ نوریہ کی۔
کسی بھی گیٹ ٹو گیدریا برتھ ڈے پارٹی میں ان کی کہی گئی باتیں آگ کی طرح پھیل جایا کرتی تھیں۔ لوگوں کی خوش قسمتی تھی یا پھر اس خاندان کی بدقسمتی کہ ابھی تک ان کے رنگ ڈھنگ سیدھی سادی زندگی بسر کرنے والوں کے لیے ناقابل قبول تھے۔ حنا مصلحت کی خاموشی کو منافقت سمجھتی تھی اور ایسے لوگوں پر اُسے سخت غصہ بھی آتا۔ آخر ”سچ“ برداشت کیوں نہیں ہوتا لوگوں سے؟ وہ لوگ جیسے بھی ہیں معاشرے کو انہیں قبول کرلینا چاہیے۔ وہ اپنی زبان پر قابو نہیں رکھ سکتی تھی کہ اس کے نزدیک یہ ”خوبی“ تھی۔ نوریہ کو بھی قصوروار نہیں گردانتی تھی وہ بھی سچ ہی بول کر آئی تھی۔اب اگر اس کا باپ گھر میں اُس کے سامنے شراب پیتا ہے تو وہ بھی کبھی نہ کبھی تو چکھے گی اور نام بھی سیکھے گی۔ یہ اتنی بڑی بات تو تھی نہ جس کا ایشو بنا کر سب پیرنٹس نے آپس میں ایکا کیا اور پھر پرنسپل سے شکایت کرکے نوریہ کو اسکول سے نکلوا دیا۔
”ہونہہ، کیا سمجھتے ہیں یہ لوگ؟ اس پھٹیچر اسکول میں رکھنے کے لیے میں ان کی منتیں کروں گی، نہیں۔ میں اپنی بیٹی کو امریکن اسکول میں تعلیم دلواﺅں گی، جہنم میں جائے یہ نیک اور پاکیزہ معاشرہ۔“ حنا نے سوچا اور کر بھی لیا۔ اس کے بے شمار کانٹیکٹس تھے، بے حساب پیسا تھا۔ وہ اپنی بیٹی کے لیے تعلیم خرید سکتی تھی سو خرید لی۔
لیکن تربیت، وہ کون کرتا؟ اسے اچھے برے کی تمیز تو گھر سے سیکھنی تھی۔ پر اس درد سر کو لینے کے لیے ماں تیار تھی نہ باپ۔ نوریہ یوں ہی بڑی ہونے لگی۔ ماں کو باپ کے بہ جائے اپنے دوستوں سے دکھ درد شیئر کرتے دیکھ کر اور باپ کی شراب چکھتے ہوئے۔ اس کا بہترین مشغلہ اسکول سے واپس آکر بیسمنٹ میں وقت گزارنا تھا جہاں وہ شمس اور اس کے دوستوں کے زیراستعمال چیزوں کی تلاشی لیتی تھی۔ برہنہ عورتوں کی تصاویر سے مزین تاش اور بے ہودہ میگزین، شمس کے مطابق نہایت بے ضرر سی تفریح تھی جسے وہ دن بھر آفس میں کام کرنے کے بعد اپنا حق سمجھ کر لیا کرتا تھا۔ اس تفریح میں اُس کی بیٹی بھی حصہ بٹا رہی تھی۔ ان بے ہودہ تصاویر کو دیکھ کر وہ کراہت محسوس کرتی تھی مگر اگلے روز وہ پھر سے اس سنسنی کو محسوس کرنے کے لیے بیسمنٹ میں پہنچ جاتی تھی۔ اس کی بدقسمتی تھی کہ اس کے ماں باپ نہیں تھے۔ حنا اور شمس اپنے نفس کے غلام، دو کمزور انسان تھے اور بس۔
٭….٭….٭

”میں اور برداشت نہیں کرسکتی، انہوں نے ساری حدیں پار کرلی ہیں۔“ میسج پڑھ کر وہ پریشان ہوگیا تھا، اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا جواب دے۔ کیا اسے حقیقت بتا دے؟ نہیں، ابھی وہ لڑکی خوداس قدر غصے میں ہے۔ اسے نکاس نہ ملا تو کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گی۔ اس نے فوراً ٹائپ کیا۔
”تم ایسا کچھ نہیں کرو گی۔“
”ہاں، کیوں کہ میں بزدل ہوں، مجھ میں ہمت نہیں ہے ان پر ہاتھ اُٹھانے کی۔ ورنہ اُسی دن انہیں قتل کردیتی جب وہ اپنے دوست کا غصہ مجھ پر اتار رہے تھے۔“
”وہ کیا معاملہ تھا؟ مجھے تفصیل سے بتاﺅ۔“
”تم سب کچھ جانتے ہو پھر بھی پوچھ رہے ہو کیا ہوا تھا؟ کیا تمہیں یاد نہیں یا جو میں لکھتی ہوں اسے پڑھے بغیر جواب دیتے رہے ہو؟“ نوریہ نے لکھا تو اسے محتاط ہونا پڑا۔
”اوکے ناراض مت ہو، مجھے یاد آگیا ان کا مسئلہ کیا ہے۔ مگر مجھے یہ تو بتاﺅ آج ایسا کیا ہوا جو تم اتنے غصے میں ہو؟“
”آج انہوں نے ارم کے سامنے مجھے جوتے سے مارا، میرا کالج جانا بھی بند کردیا ہے۔“
”مگر کیوں؟“ وہ حیران ہوا۔
”میں نے دروازہ لاک کرلیا تھا اپنے کمرے کا، بس دھیان ہی نہیں رہا۔“ اس کے بعد کئی سیکنڈز تک نوریہ نے کچھ نہیں لکھا، وہ سمجھ گیا نور رو رہی ہے۔
”پلیز رو مت۔“ نور کو اس کے اس میسج سے بہت ڈھارس ملی۔ وہ اس سے دور ہوتے ہوئے بھی جان لیتا تھا کہ اس پر کیا بیت رہی ہے۔ بلاشبہ وہ اس کا بہترین دوست تھا۔ اُس نے جذبات میں آکر سکرین پر اس کے ٹائپ شدہ الفاظ پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔
٭….٭….٭
پوری رات نوریہ سو نہیں سکی۔ مگر یہ بے چین جگار نہیں تھی، اس کے خیال کاخمار تھا۔ان کی دوستی تقریباً ایک سال پہلے فیس بک پر ہوئی تھی۔ اس نے ”نور“ کے نام سے اپنا اکاﺅنٹ بنایا تھا مگر کسی بھی واقف کار کو دوست کے طور پر ایڈ نہیں کیا تھا۔ وہ خود کو ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔کچھ عرصہ فیس بک استعمال کرنے کے بعد ایک دن اسے بھی شوق چڑھا تو اپنے بچپن کی تصویر اپ لوڈ کی، محض چند گھنٹوں کے لیے۔ اس لڑکے نے اسی تصویر پر کمنٹ کیا تھا ”کیوٹ۔“ نوریہ کواس کا کمنٹ اچھا لگا،اس نے لڑکے کی آئی ڈی پر کلک کیا اور اس کے اکاﺅنٹ پر پہنچ گئی۔ ”ناسٹی مُلاّ“
نام پڑھ کر ہرگز اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ وہ کس ایج گروپ سے ہے۔اگلے دو تین دن اس نے یہی مشغلہ اپنائے رکھا۔ وہ اس کے اکاﺅنٹ پر جاتی اور تصاویر پر لکھے کمنٹس پڑھتی۔ پھر ایک دن اس نے ہمت کرکے اس کی طرف سے کیے گئے ”کیوٹ“ کے کمنٹ کو لائیک کردیا۔ چند سیکنڈز بعد ہی اسے ایک میسج موصول ہوا۔
”ہائے نور، دوستی کرو گی؟“
میسج ناسٹی کی جانب سے بھیجا گیا تھا وہ سوچ میں پڑ گئی جواب دے یا نہ دے۔ اسی پل ایک اور میسج ملا۔
”میرا میسج پڑھ لیا ہے تو جواب کیوں نہیں دیتی؟ دوستی کرو گی؟“
”تمہارا اصل نام کیا ہے؟“
”میں ناسٹی ملا ہوں۔ہاہاہا۔“
”مذاق مت کرو، سچ بتاﺅ مجھے۔“
”پہلے تم مجھے اپنی تازہ تصویربھیجو۔ تب میں بتاﺅں گا اپنا اصل نام۔“
”میرے پاس کوئی تازہ تصویر نہیں ہے اپنی،سب بچپن کی ہیں۔“
”کیوں؟“ دو پھٹی ہوئی حیران آنکھوں والا emoji نظر آیا تھا سوال کے ساتھ۔
”بس۔ میرے فادر پسند نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں اسلام میں تصویر کھنچوانا منع ہے۔“
”اوووہ۔“
”اب اس اتنے لمبے’ ’اوووہ“ کا مطلب؟“
”مطلب تمہارے ڈیڈ جھوٹے ہیں، سوری مگر جب نبی کے زمانے میں کیمرہ تھا ہی نہیں تو انہوں نے منع کیسے کیا ہوگا؟سوچو؟“
اور نور ٹھٹک گئی تھی، سوچنے پر مجبور ہوئی تھی، یہی ان کی دوستی کی ابتدا تھی۔ ناسٹی نے اپنے اصل نام کے علاوہ اسے سب کچھ بتا دیا، وہ اے لیولز کا سٹوڈنٹس تھا۔ ماں باپ میں علیحدگی ہوچکی تھی۔ عمر میں اس سے فقط ایک سال بڑا ہونے کے باوجود وہ اس سے کہیں زیادہ میچور اور کانفیڈنٹ تھا۔ دیکھا جاتا تو اس کے اور نور کے حالات کم وبیش ایک جیسے رہے تھے لیکن اُس نے اپنی محرومیوں کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ نور نے بے تکلفی بڑھانے کے بعد اس سے بھی اس کی تصویر کی فرمائش کی تھی۔ جواب میں اس نے شاید اسے تنگ کرنے کے لیے وہ البم بھیجا تھا۔ نوریہ نے بڑے جوش میں آکر وہ البم”فائر گارڈن“ کھولا۔ دو ڈھائی سو تصاویر کسی ہیلووین نامی فیسٹیول کی تھیں۔ اس نے چند تصاویر دیکھنے کے بعد اندازہ لگالیا کہ یہ ساری تصاویر غیرملکیوں کی تھیں۔ قریباً تیس یا چالیس مرد و زن۔ ننگے بدن پر ٹیٹوز کی بھرمار کے ساتھ سفید لینز لگائے، آگ کے گرد ناچتے گاتے نظر آرہے تھے۔ ان کے حلیے عجیب و غریب تھے، وہ خوف ناک نہیں،مکروہ نظر آرہے تھے۔ بھوت نہیں، شیطان لگ رہے تھے۔ سب کے چہرے سیاہ لکیروں سے اَٹے ہوئے تھے، اب ان میں ”ناسٹی“ کون سا تھا؟ تھا بھی یا نہیں؟ اسے کچھ معلوم نہ ہوسکا۔
٭….٭….٭



اسے ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ یہ لڑکی نوریہ کون ہے اور اس سے دوستی کب ہوئی جب وہ بات ختم کرکے چلی گئی تو اس نے ان باکس میں اولڈر میسجز دیکھنا شروع کیے۔ تین ہزار کے قریب میسجز جو پچھلے ایک سال کے دوران دونوں نے ایک دوسرے کو بھیجے تھے ان کے آغاز تک پہنچتے اسے کافی ٹائم لگ گیا۔ مگر وہ نور سے اگلی چیٹ سے پہلے سب کچھ جان لینا چاہتا تھا۔ ہر میسج توجہ طلب تھا۔ غور سے پڑھتے پڑھتے کئی بار اس کے رونگٹے کھڑے ہوئے۔ آنکھوں میں آنسو بھی آئے۔ یہ کیا کرکے گیا تھا وہ؟ ناسٹی نے اپنے ساتھ ساتھ جانے اور کس کس کو جہنم کاراہی بنا چھوڑا تھا۔ وہ کیسے مداوا کرے گا؟ کیا کفارہ ادا کرے گا؟ سارے میسجز پڑھنے کے بعد وہ کافی دیر تک سر پکڑ کر روتا رہا۔ اسے کوئی حل سمجھ نہیں آرہا تھا سوائے اس کے کہ اللہ سے مدد طلب کرے۔ سو وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ عشا کے بعد کئی نوافل پڑھے اور سجدے میں گڑگڑا کر ان تمام گناہوں کی معافی مانگی جن کے ثبوت ابھی کچھ دیر پہلے اس کی نظروں سے گزرے تھے۔ رات کے اس پہر مسئلے کا حل بھلے ہی سمجھ نہ آیا تھا مگر ہاں سکون مل گیا تھا۔ دعا کے بعد وہ بڑی گہری نیند سویا۔
فجر کی اذان سن کر بستر سے نکل آیا۔ رات گئے جاگتے رہنے کے باوجود فجر میں اُٹھنا اس کا معمول تھا۔ چار گھنٹے کی مختصر نیند نے بھی اسے اتنا تازہ دم کردیا تھا کہ پوری بے داری کے ساتھ نماز ادا کرنے کے بعد وہ قرآن کی تلاوت کرنے لگا۔
”وہ جو کہتے ہیں اے رب ہمارے، ہم ایمان لائے تو ہمارے گناہ معاف کر اور ہمیں دوزخ سے بچا لے۔صبر والے اور سچے اور ادب والے اور راہِ خدا میں خرچ کرنے والے اور پچھلے پہرسے معافی مانگنے والے۔“ (سورہ ¿ آل عمران،آیت۷۱۔۶۱)
اپنی عبادت سے فارغ ہوکر وہ کچن کی جانب آیا تو ملازم جاوید،ٹفن میں ناشتہ پیک کیے کھڑا اس کا انتظار کررہا تھا۔ اُس نے مسکراتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔ جاوید نے بھی مسکرا کر اُس کی خیریت دریافت کی پھر سعدیہ کی طبیعت کے بارے میں پوچھا جو مختصراً اُسے بتا کر وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اسے سائیکاٹرک ہاسپٹل جانا تھا۔ اگرچہ یہ مریضوں سے ملاقات کا وقت نہیں تھا مگر اس کے دوست کے والد وہاں ڈاکٹر تھے اس لیے خصوصی رعایت برتی جارہی تھی۔ یوں ہر صبح کا ناشتہ وہ سعدیہ کے ساتھ ہی کرتا۔ ان کے پاس بیٹھ کر اس کی شرارتوں اور تابع داری کے سب قصے سنتا ہوا ان پر دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکتا رہا۔ ڈاکٹرز کی امید تھی کہ اس کے روز آنے سے سعدیہ کی طبیعت جلد بہتر ہونے کا امکان ہے۔
اگلے کئی ماہ تک اس کا یہی معمول رہا۔ سعدیہ کے ساتھ تھوڑا وقت گزارنے کے بعد وہ یونیورسٹی جاتا اور دوپہر کے بعد فیکٹری کے معاملات دیکھتا۔ تیمور علاج کے لیے ملک سے باہر تھا ورنہ اسے اتنی محنت کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اتنی مصروف زندگی کے معمولات میں اب نوریہ بھی شامل ہوچکی تھی۔ ہر رات اس کی طرف سے ایک نیا میسج ملتا۔ وہ بھی بلاناغہ اس سے گفت گو کرتا۔ اس امید پر کہ نور کی زندگی اور سوچ میں تبدیلی لائی جاسکے۔ اسی سبب سے وہ لاکھ تھکن سے چور ہونے کے باوجود کبھی اسے انکار نہیں کرتا تھا۔ جب بھی وہ آن لائن ہوتی ناسٹی ملا کا اکاﺅنٹ کھل جاتا۔ نور اسے تمام دن کی روداد لکھ کر بھیجتی، اس سے وہ سب کچھ کہتی جو دل میں آتا تھا اور ہلکی پھلکی ہو جاتی۔ پھر ایک دن اس نے دیکھا ناسٹی مُلاّ(Nasty Mullah) کے اکاﺅنٹ پر نام تبدیل ہو گیا ہے۔ ”بازل شاہ“ اس نے زیرلب دہرایا پھر میسج بھیجا۔
”یہ تمہارا اصلی نام ہے؟“جواب فوراً آیا تھا۔
”ہاں!“
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!