ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

تیرہ جون بروز جمعہ (2013ء)
صبح چھے بجے کا وقت تھاجب میرے کانوں میں مرتضیٰ کی کرخت آواز گونجی ۔
’’اُٹھ جا باؤ…چھوٹو کے ساتھ لگ کے کرسیاں ٹیبل باہر نکال۔‘‘
میں نے نیم غنودگی میں سر اٹھا کر سامنے کھڑے مرتضیٰ کو دیکھا ،وہ اپنی توند کھجاتے ہوئے مجھے پاؤں کی ٹھوکر سے جگا رہا تھا۔
’’جی چاچا۔ ‘‘
میں نے لمبی سی جماہی لی اور اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ چھوٹو اکیلا بنچ گھسیٹتے ہوئے باہر نکال رہا تھا۔ مرتضیٰ مجھے گہری نیند سے اٹھانے کے بعد اب منہ ہاتھ دھونے نلکے کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اُٹھ کر بستر کے نام پر زمین پر بچھی ایک میلی کچیلی چادر کے اندر تکیہ لپیٹا اور چھوٹو کے کپڑوں کے ساتھ پڑے اپنے بیگ کے اوپر رکھ دیا۔ پہلی بار زمین پر سویا تھا۔ کمر بری طرح دکھ رہی تھی۔ دو تین زور دار انگڑائیاں لے کر میں نے اپنے جسم کی تمام ہڈیوں کا جائزہ لیا۔ میرا دماغ اس وقت بالکل خالی تھا۔ منہ ہاتھ دھونے کے بعد میں نے چھوٹو کے ساتھ مل کر اس کٹیا کو ہوٹل کی شکل دی۔ سات بجے تک اِکا دُکا لوگ آنا شروع ہو جاتے تھے۔ آج جمعہ تھا مرتضیٰ کا حلیہ دیکھ کر لگ رہا تھا اسے دوسری نمازوں کے علاوہ نماز جمعہ سے بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ۔
’’چاچا میں آج حمام پر جاؤں گا ۔مجھے کپڑے بدل کر جمعہ کی نماز ادا کرنی ہے ۔‘‘
’’میں بھی جاؤں گا۔‘‘
چھوٹو میری بات سن کر جلدی سے بولا تھا۔
’’کوئی ضرورت نہیں تو نماز یاد تو کر لے پہلے ۔ اچھا بتا ‘جمعہ کی نماز کی کتنی رکعتیں ہوتی ہیں ؟‘‘
مرتضیٰ اجڈ لوگوں کی طرح آنکھیں نکال کر سوال کر رہا تھا۔
چھوٹو اٹک کر میری طرف دیکھنے لگا۔





’’تو اس میں اس کا کیا قصور ہے چاچا۔ اسے کوئی یاد کرواتا تو کرتا ۔ چلو آج میرے ساتھ جائے گا‘ تو کم از کم رکعتیں سیکھ ہی لے گا۔
میں نے چھوٹو کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا مگر مرتضیٰ کی اگلی بات نے میری مسکراہٹ پل بھر میں غائب کر دی ۔
’’یہ تین دن پہلے ہو آیا ہے حمام سے ۔پتا بھی ہے کتنا خرچہ ہوتا ہے ایک بار حمام جانے سے ؟تم چلے جاؤ اکیلے ۔ مسجد جاتے وقت اسے ساتھ لے جانا۔‘‘
میں نے دانت پر دانت جما لیے تھے ۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ یہ حد سے زیادہ کمینہ ہے یا کنجوس ؟
’’جمعہ کے دن نہانا ثواب ہوتا ہے چاچا اور نہا کے جمعہ کی نماز خوش قسمت لوگ ادا کرتے ہیں۔یہ میرے ساتھ جا رہا ہے ۔اس کا آج کا خرچ تم میرے کھاتے میں لکھ دینا۔‘‘
میں نے طنزاً کہا تھا ‘مگر وہ شرمندہ ہونے والوں میں سے نہیں تھا۔
’’ٹھیک ہے باؤ ۔تیرے خرچے پر روز جائے حمام ۔ مجھے کیا تکلیف ہونی ہے۔ اب جلدی کرو واپس آکے کام بھی دیکھنا ہے ۔‘‘
’’حمام کس طرف ہے چاچا؟‘‘
’’چھوٹو کو پتا ہے ۔لے جائے گاتجھے ۔‘‘
اس نے منہ بناتے ہوئے کہا تھا۔
میں نے چھوٹو کو اشارہ کیا ۔ اس نے اپنا اور میرا ایک ایک صاف جوڑا لیا اور چھپر سے باہر نکل کر آیا ۔
’’بھا جی پارک سے تھوڑا آگے چوک ہے ۔ وہاں سے دائیں طرف مُڑکر ہم حمام والی گلی میں داخل ہو جائیں گے۔
میں نے اثبات میں سرہلایا اور چھوٹو کے ساتھ ہو لیا ۔ ہوٹل سے بیس پچیس قدم آگے نکلتے ہی ہم دائیں طرف بنی ہوئی کوٹھیوں کے سامنے سے گزر رہے تھے ۔ میرے نظروں کے سامنے کریم پیلس کا وہی بورڈ گھوم گیا جسے میں نے پارک کے بالکل سامنے چمکتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی مجھے گزشتہ شام کا وہ واقعہ بھی یاد آ گیا۔میں نے بے اختیار نظریں اُٹھا کر دور ہی سے اس کونے کو دیکھا جہاں وہ اس رات کھڑی نظر آتی رہی تھی۔ وہاں اب بھی کوئی کھڑا تھا ۔دور سے بس سایہ سا لگتا تھا ،مگر مجھے قوی یقین ہو چلا تھا کہ یہ وہی ہو گی۔ میرے اور چھوٹو کے قدم دھیرے دھیرے پارک کے قریب آتے جا رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی وسیع و عریض کریم پیلس بھی واضح ہوتا جا رہا تھا۔ چند قد م اور چلنے کے بعد میرا یقین اور بھی پختہ ہو چکا تھا۔ چھت کے چاروں طرف تقریباً چار فٹ اونچا لوہے کا بڑا ہی پیارا سا جنگلا لگا ہوا تھا جو کوٹھی کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ کرتا تھا اور وہ پری چہرہ مہران اسٹریٹ والی سائیڈ پر کونے سے لگ کر کھڑی اسی طرف دیکھ رہی تھی جدھر سے میں اور چھوٹو آ رہے تھے ۔
’’اوکے …تو پھر ملتے ہیں رات کو اسی بنچ پر ۔‘‘
اس کا کہا ہوا یہ جملہ اس وقت میرے کانوں میں گونجا جب میں کریم پیلس کے مین گیٹ اور مرتضیٰ کے چھپر ہوٹل کے درمیان پہنچ چکا تھا۔
میرے قدم رک گئے۔ چھوٹو نے چار قدم آگے بڑھ جانے کے بعد مجھے اٹکا ہوا محسوس کیا تھا۔
’’کیا ہوا بھا جی ؟ آپ رک کیوں گئے؟‘‘
اس نے پیچھے مڑ کر مجھ سے پوچھا۔
’’چھوٹو کوئی اور حمام نہیں ہے ۔اپنے ہوٹل کے قریب مین روڈ کے آس پاس ؟‘‘
چھوٹو نے حیرت سے مجھے دیکھا تھا۔
’’بھا جی ہوٹل کے پچھواڑے بس مین روڈ ہی ہے ۔ روڈ کے پارگاڑیاں ٹھیک کرنے والے اور پنکچر لگانے والوں کی دکانیں ہیں۔ ان سے آگے مہران چورنگی ہے۔ وہاں جا کر بھی حمام ملنے والا نہیں ہے۔ ہمارے قریب مہران ٹاؤن ہی ہے‘ یہیں پر جانا پڑے گا‘مگر بھا جی مسئلہ کیا ہے ۔۔۔اتنا دور تو نہیں ہے۔؟‘‘
میں اسے نہیں بتا سکتا تھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ میرا دماغ تیزی سے کا م کر رہا تھا۔ کل شام کے واقعے کے بعد میں اندر ہی اندر اس سے خائف ہو گیا تھا۔کچھ ہمارے درمیان طبقاتی فرق جو بلاشبہ زمین اور آسمان کے فرق جتنا تھا اور کچھ اس کی نا سمجھ میں آنے والی حرکتیں اور باتیں تھیں ۔ میں اجنبی شہر میں آتے ہی خود کو الجھاؤ میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔اس کا اپنے باپ کی جگہ معافی مانگ لینا اپنی جگہ اور وہ اس کا بڑا پن تھا جسے میں نے تسلیم بھی کیا تھا‘مگر کل شام کی باتیں سننے کے بعد مجھے وہ نارمل بالکل بھی نہیں لگی تھی اور مجھے اس وقت بھی یہی خدشہ تھا کہ مجھے پہچانتے ہی وہ آوازیں لگانا شروع نہ کر دے ۔
’’آ جاؤ بھا جی …یہ تو ہے سامنے چوک ۔‘‘
چھوٹو نے مجھے ساکت کھڑے دیکھ کر کہا تھا ۔ میں چار و ناچار اس کے ساتھ آگے بڑھنے لگا تھا۔
کریم پیلس کا وہ گیٹ قریب آتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی وہ بھی واضح ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے ایک بار ترچھی نظروں سے اسے دیکھا تھا ،وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔ صبح کے سات بجے راستے پر پیدل اور سائیکل والوں کے ساتھ ساتھ کوئی کوئی موٹر بائیک والا بھی گزر رہا تھا۔ میں نے چند فٹ کے فاصلے پر لگے ہوئے کریم پیلس کے بورڈ کو دیکھا اور پھر چھت کی طرف ۔
اب وہ وہاں نہیں تھی۔ بہ ظاہر یہ نارمل تھا‘ مگر مجھے عجیب سی بے چینی لاحق ہونے لگی تھی ۔
’’چھوٹو جلدی چلو ۔واپس بھی جانا ہے ۔‘‘
میں نے تیز تیز قدم اُٹھانے شروع کر دیے تھے اور پیچھے رہ جانے والے چھوٹو کو بھی تیز چلنے کا کہہ رہا تھا۔ میں ایسا کیوں کر رہا تھا ؟یہ نہیں جانتا تھا‘ مگر میری چھٹی حس بار بار الارم بجا رہی تھی۔ میں کریم پیلس کراس کرتے ہوئے دس قدم بھی نہیں چل پایا تھا جب گیٹ کھلنے کی آواز سنائی دی ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر چھوٹو کو جلدی کرنے کو کہا تھا۔
’’مگر چھوٹو تو کریم پیلس کے عین سامنے ہی رک چکا تھا ۔اس نے اسے روک لیا تھا۔
چھوٹو کو دیکھنے کے لیے میں پیچھے مڑا ‘ تو وہ اس کا ہاتھ تھامے ہولے ہولے چلتے ہوئے میری ہی طرف آ رہی تھی ۔
میں نے اس کی لال سرخ آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسو دیکھ لیے تھے ۔
دوپٹے سے بے نیاز قمیص شلوار میں ملبوس سراپا اس کی دل کشی کا آئینہ دار تھا ۔کھلے ہوئے بے ترتیب بال اور ننگے پاؤں بتاتے تھے کہ وہ بہت عجلت میں بھاگتی ہوئی آئی ہے۔ ڈبڈباتی سرخ آنکھیں اور ان آنکھوں میں درج شکایت اس کے ضبط کی کڑی مسافت سے گزرنے کا پتا دے رہیں تھیں اور اس کا ملیح چہرہ جو اس وقت سُتا ہوا دکھائی دے رہا تھا ‘اس کے رت جگے کا حال بتا رہا تھا۔
میں حیران اور پریشان اسے قریب سے قریب تر آتا دیکھ رہا تھا۔
وہ میرے قریب بہت ہی قریب آگئی۔ چھوٹو اپنا ہاتھ چھڑوا کر اب حیرت سے بت بنا ہم دونوں کے بیچ کھڑا ہماری شکلیں دیکھ رہا تھا۔
’’میری آنکھیں دیکھ رہے ہو؟‘‘
گھمبیر لہجہ…آنکھوں کے تاثر سے بالکل الگ ،مجھے اپنی زبان تالو سے چپکی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’یہ آنکھیں دیکھ سکتی ہیں‘یہ میں نے پرسوں رات جانا۔ بینائی پا کر بھی نابینا لوگوں جیسی زندگی گزار رہی تھی میں۔لوگ آنکھوں پر پہرے بٹھاتے ہیں ۔ میری آنکھیں میرے دل کا پہرہ دیتی تھیں۔ دل محسوس کرتا تھا ‘ آنکھیں اندھی ہو جاتی تھیں ۔ دل بجھ جاتا تھا،بے بس ہو جاتا تھا… میں نابینا تھی۔تب بھی جاگتی تھی۔ اذیت ہو تی تھی۔ آج رات پہلی بار بینائی کے احساس کے ساتھ جاگی ہوں۔ اذیت ہوئی… ہاں مجھے اذیت ہوئی‘ میٹھی سی اذیت۔ میٹھی اذیت کیا ہوتی ہے جانتے ہو ؟‘‘
اس نے اک پل کا توقف کیا اور منہ بند کر کے لمبی سانس کھینچی تھی ۔آنکھیں بھی بند کر لیں۔ کاش میں بھی کر سکتا۔ میں نہیں کر سکا تھا۔ اس نے لمبی سانس چھوڑی۔ میں نے اس کے تنفس کو پوری طرح اپنے چہرے کے اوپر محسوس کیا تھا۔ اس کی آنکھیں کچھ لمحوں تک بند رہیں اور میری بے اختیار ۔
پھر اس نے آنکھیں کھول دیں ۔ ڈبڈباتی ہوئی سرخ آنکھیں ۔ دو موٹے موٹے آنسو پلکوں کی باڑھ توڑ کر اس کے گالوں پر لکیر کھینچتے ہوئے ٹھوڑی کے نیچے غائب ہو گئے تھے ۔
میں منجمد تھا‘ برف بن چکا تھا۔ جون کے مہینے میں صبح کے سات بجے کراچی کا موسم اتنا ٹھنڈا نہیں ہوتا ،مگر ان چند گھڑیوں نے میرے تمام عضلات کو سن کر دیا تھا ۔
’’آنسو کمزور بنا دیتے ہیں نا۔لہجوں کو ‘رویوں کو ‘مگر میرے آنسو مجھے کمزور نہیں بناتے اور بھی مضبوط کر دیتے ہیں ۔ میرے آنسو مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔یہ کہتے ہیں تم ہمیں ہمیشہ تنہائی میں کیوں بلاتی ہو ؟ لو…آج تمہارے سامنے بلا لیا۔شکایت دور کر دی ان کی۔ اب یہ مجھ سے پوچھیں گے ۔تمہارے سامنے ہی کیوں ؟میں کہوں گی تم وہ ہو جس نے مجھے بینائی کا احساس بخشا اور میٹھی اذیت سے روشناس کروایا ۔ تمہارا شکریہ اجنبی ۔میں اس میٹھی اذیت کو مرتے دم تک سنبھال کے رکھوں گی۔چاہے تم اسے بانٹنے آؤ یا نہ آؤ۔‘‘
میں نے اپنے باپ کی موت پر چند عورتوں کو ماں کے ساتھ مل کر روتے ہوئے دیکھا تھا۔ ان کے آنسو سچ تھے یا جھوٹ ،میں نہیں جانتا تھا۔ اپنی ماں کے آنسو بھی کئی بار دیکھے تھے میں نے۔ صرف دکھ کا احساس دلوا سکتے تھے ،ان میں کتنی سچائی ہو گی ‘کتنی گہرائی ہو گی۔ میں نے کبھی جاننا ہی نہیں چاہا تھا ۔میں آنسوؤں کی زبان سے انجان تھا۔ میرے نزدیک آنسو دکھ کی علامت تھے ۔ نہیں …میں غلط تھا،آنسو تو خوشی کی علامت بھی کہلاتے ہیں اور آج جانا تھا۔ کچھ آنسو آپ کے اپنوں کے نہیں ہوتے ۔آپ کے بھی نہیں ہوتے ‘کسی اجنبی کے ہوتے ہیں۔جیسے اس انجان لڑکی کے تھے جس کے نام تک سے آشنائی حاصل نہ تھی مجھے اور جیسے وہ انجان تھی مجھ سے ۔پر یہ آنسو مجھے بتا رہے تھے یہ لڑکی سو فیصد سچ کہہ رہی ہے جسے تم دل ہی دل میں سنکی سمجھتے ہو ۔ہمیں آج تک تمہارے علاوہ کسی نے نہیں دیکھا۔یہ اپنی بات میرے دل تک پہنچا رہے تھے ‘مجھے قائل کر رہے تھے اور آج اس پل ایک انوکھا احساس جاگ رہا تھا ۔کوئی ہے جس کے آنسو میرے علاوہ کوئی نہیں دیکھ سکتا۔یہ سوچ احساس بن کر میرے پورے جسم میں پھیل رہی تھی۔میں اس پل کے رک جانے کی دعا کر رہا تھا ۔پر یہ پل کہاں رکتے ہیں؟ پھسلتے جاتے ہیں‘مٹھی میں دبی ہوئی خشک ریت کی طرح۔ یہ پل بھی پھسل چکا تھا اور اگلے پل میں حقیقت اپنا پھن پھیلائے میرے سامنے کھڑی تھی۔میں‘پرویز گل اور میرے سامنے آنسو بہا کر مجھے اس دنیا میں سب سے الگ رتبہ دینے والی انجان لڑکی جو میرے طفیل اپنی بینائی لوٹنے کا جشن آنسوؤں سے منا رہی تھی ۔ ایک ہی دنیا میں رہ کر بھی الگ الگ دنیا بسانے پر مجبور تھے۔میری دنیا میرے کچے گھر میں تن تنہا بیٹھی میری ماں سے شروع ہو کر مرتضیٰ کے جھونپڑے پر ختم ہو جاتی تھی اور وہ میرے سامنے پہاڑ کی طرح استادہ خوبصورت محل میں رہنے والی خوبصورت شہزادی تھی۔شہزادیوں اور غریب لکڑہاروں کی بے شمار کہانیاں میں نے ماں سے سن رکھی تھیں‘ مگر یہ کہانی نہیں حقیقت تھی ۔
وہ مجھے دیکھتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹی ۔
’’میں ہر پل اس اذیت کی حفاظت کروں گی جو تم مجھے تحفے میں دے کر جا رہے ہو۔‘‘
وہ مڑ کر کریم پیلس کے اندر چلی گئی اور میں خالی خالی نظروں سے کریم پیلس کے گیٹ کو دیکھنے لگا۔
کچھ پل اور گزر گے۔
تب مجھے چھوٹو کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی سنائی دی جو میرے پاس کھڑا میرا ہاتھ ہلاہلا کر مجھے بلا رہا تھا۔
’’میں نے چھوٹو کی طرف دیکھا،پتا نہیں کیا دیکھ لیا ہو گا ان آنکھوں میں اس نے بدک کر پیچھے ہٹ گیا۔
’’بھا جی کیا ہوا وہ لڑکی کون تھی ؟ اور آپ رو کیوں رہے ہو ۔‘‘
’’کیا؟ میں رو رہا ہوں ؟‘‘
میں نے سوچتے ہوئے بے اختیار اپنا دایاں ہاتھ اپنی گال پر رکھا ۔بھیگا ہوا گال ۔
’’میں کیوں رو رہا ہوں؟‘‘
میں حیرت زدہ تھا۔ اپنے خاموش آنسوؤں پرجو بنا بتائے بلاوجہ ہی آگئے تھے ۔
آنسو بلاوجہ بھی آسکتے ہیں ؟کیسے آسکتے ہیں ؟ آج تک تو نہیں آئے ۔باپ کے مرنے پر آئے تھے ،ماں کو گھر میں چھوڑ کر شہر جاتے ہوئے آئے تھے اور تھپڑ کھا کر ذلیل ہوتے ہوئے آئے تھے۔ پر آج ‘آج کیوں ؟ ابھی اس وقت کیوں ؟
ایک بوڑھے نے سائیکل میرے پاس آکر روکی اور پوچھنے لگا۔
’’کیا ہوا بیٹے ؟ کیوں رو رہے ہو ؟‘‘
میں نے چونک کر بوڑھے بابا کی طرف دیکھا اور اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔
’’پتا نہیں بابا۔‘‘
’’رو لو بیٹا‘رونے سے بوجھ ہلکا ہوتا ہے ‘مگر یہاں بیچ راستے میں نہیں گھر جا کے رو۔اپنے پیاروں کے پاس جا کر رو لو۔‘‘
بابا سائیکل چلاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
’’گھر …پیارے … دونوں سے محروم تھا میں آج کے دن ۔کبھی کبھی محرومیاں ستاتی ہیں ،اپنی پوری طاقت سے ۔ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم کس قدر محروم ہیں ،کس قدر بے بس اور لاچار ہیں۔
میں شکستہ قدموں سے چپ چاپ چھوٹو کے پیچھے چلتا رہا تھا۔کب پہنچا،کب واپس آیا ،کب کام شروع کیا اور کب نماز جمعہ کا وقت ہوا مجھے پتا ہی نہیں چلا۔
جب مرتضیٰ نے کہا تھا ’’اذانیں شروع ہو گئی ہیں باؤ۔ چل پڑھ لے جمعہ کی نماز اور چھوٹو کو بھی لے جا ۔‘‘
وہ اپنے تئیں احسان کر رہا تھا۔میں نے اسے حیران و پریشان کر دیا۔
’’آج جمعہ ہے ؟‘‘
’’کیا کہا ۔۔۔؟ اے باؤ پاگل واگل ہو گیا کیا ؟آج صبح تو گیا تھا ‘تو چھوٹو کے ساتھ جمعے کی نماز کی تیاری کرنے اور اب بھول بھی گیا؟‘‘
میں اسے جواب دیے بغیر جمعہ کی نماز کے لیے چل پڑا تھا۔
’’اس طرف نہیں بھا جی۔ ‘‘
مجھے اپنے پیچھے چھوٹو کی آواز سنائی دی جو مجھے کریم پیلس کی طرف جانے والے راستے سے منع کر رہا تھا۔
میں ایک بار پھر اس کے پیچھے ہو لیا ۔
’’مسجد تو اس طرف بھی تھی اور نزدیک بھی پڑتی تھی ‘لیکن میں نے سوچا ہم آج اس طرف کوئی مسجد ڈھونڈتے ہیں۔‘‘
چھوٹو نے ہوٹل کے پچھواڑے گزرنے والی مہران اسٹریٹ کی طرف جاتے ہوئے کہا تھا۔
میں نے اسے کچھ بھی نہیں کہا۔
ہم دیر تک چلتے رہے ۔ مہران اسٹریٹ آگے جا کر مہران چوک پر ختم ہو گئی۔چوک کی چاروں طرف دیکھتے ہوئے چھوٹو کو ایک مسجد نظر آگئی اور میں اسے لے کر مسجد پہنچ گیا۔
نماز ادا کرتے ہوئے بار بار ڈبڈباتی آنکھوں والا چہرہ میرے سامنے آ جاتا۔ میں نے دل سے نماز ادا کرنی چاہی تھی‘ مگر آج اس سے ملنے کے بعد میں کوئی بھی کام دل سے کر نہیں پایا تھا۔نماز کے بعد میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور جھٹ سے میرے ہاتھ کے پیالے میں پھر اسی کا چہرہ اُبھر آیا۔
’’یا اللہ… ‘‘
میں نے دل کی گہرائیوں سے اللہ کو پکار کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ایسا ہوتا ہے ‘ جب ہم خود کو بالکل بے بس سمجھتے ہیں اور خود پر اختیار کھونے لگ جاتے ہیں۔ تب وہی ایک ہستی نظر آتی ہے جو ہمارے حال پر رحم کر سکتی ہے‘۔مگر میری پکار میں صداقت کی کمی تھی یا نیت میں کھوٹ تھا۔ میری دعا کو شرف قبولیت عطا نہ ہوئی ،مسجد سے باہر آ کر بھی میرا من بار بارایک ہی چہرے میں ڈوب کر اُبھر رہا تھا۔ آنکھوں نے اس منظر کو ایسا نقش کیا تھا کہ اب کوئی اور نظارہ ان کے لیے قابل قبول نہ تھا ،میں اندر ہی اندر جلنے لگا تھا۔
’’یہ کیسی اذیت ہے ؟‘‘
واپس آتے ہوئے میں نے سوچا تھا۔
’’اذیت ‘کیا کہہ رہی تھی وہ ۔ میٹھی اذیت جو میں نے اسے تحفے میں دی تھی اور اس نے آج مجھے کیا دے دیا تھا۔ یہ کیسا احساس تھا؟کیا یہی وہ میٹھی اذیت ہے ؟ کیا یہی مجھے لوٹانے آئی تھی وہ ؟‘‘
چھپر ہوٹل کی طرف مڑتے ہوئے ایک گاڑی نے ہارن دے کر مجھ سے راستہ مانگا۔
’’میں نے ایک سائیڈ پر ہو کر مڑتے ہوئے غائب دماغی سے گاڑی میں بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھا۔
اور ایک زوردار جھٹکے سے ہوش میں آ گیا۔
مجھے تھپڑ مارنے والا اس کا باپ کینہ پرور نظروں سے مجھے گھورنے کے بعد کچھ بڑبڑا رہا تھا‘گالیاں دے رہا تھا۔
اور پھر ناک کی سیدھ میں دیکھتے ہوئے آگے بڑھ چکا تھا۔
ایک اور سوچ ‘ایک اور سوال میرے سامنے کھڑا تھا۔
’’کیا وہ اس شخص سے بھی اپنے آنسو چھپا کے رکھتی ہے ؟‘‘
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Read Next

بنتِ حوّا — عزہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!