ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

تین جنوری بروز منگل (2014ء)
میں آج آخری بار اس ہوٹل کی صبح دیکھ رہا تھا ۔میں نے مرتضیٰ کو بتا دیا تھا کہ کل میں واپس چلا جاؤں گا۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا نہ کسی اور کو پڑنا تھا۔ کام کرتے ہوئے کئی دفعہ میں نے کریم پیلس کی طرف دیکھا تھا۔ آج اس کی سج دھج نرالی تھی اور اس سج دھج کے پیچھے چھپی وجہ میں اچھی طرح جانتا تھا۔ کل اس رگ جاں کی سالگرہ تھی جو اچانک انجان ہو گئی تھی ۔شاید اسی لیے وہ واپس آئی تھی ۔ اپنی سالگرہ منانے اور اپنے ہم سفر کے ساتھ چلے جانا تھا اسے شاید مجھے بتانے آئی تھی کہ اس نے کسی اور اپنے کو ڈھونڈ لیا ہے جو مجھ سے بھی زیادہ اس کا اپنا ہو گیا تھا۔ میرا انتظار ختم کرنے آئی تھی وہ۔
مجھے اپنے گھر جانے کے لیے کل صبح کی پہلی گاڑی کا ٹکٹ کروانا تھا۔ مرتضیٰ بھی میرے ساتھ چلا آیا تھا۔ یہ اس کی دوسری اور آخری مہربانی تھی۔ پہلی مہربانی مجھے جون کی تپتی دوپہر میں سہراب گوٹھ سے اٹھا کر کر چکا تھا وہ۔میں اس کی کھٹارہ موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر اس شہر میں جنوری کی نرم گرم دھوپ میں بس سٹاپ کی طرف بڑھ رہا تھا۔یہ شہر آج بھی اتنا ہی اجنبی لگ رہا تھا جتنا میں نے آتے وقت محسوس کیا تھا۔ ٹکٹ بک کروا کر میں واپس آیا‘ تو چھوٹو کو اپنا منتظر پایا ۔ و ہ بار بار بے چین نظروں سے میری طرف دیکھتا تھا‘ مگر مرتضیٰ کی موجودگی میں کچھ کہنے سے گریز کر رہا تھا ۔کچھ دیر بعد اسے میرے قریب آنے کا موقع ملا‘ تو اتھل پتھل ہوتی سانسوں کے ساتھ بولا تھا :
’’بھا جی ۔۔۔میم صاب آئی تھیں آپ کے جانے کے بعد۔‘‘
’’کون سی میم صاب ؟‘‘
میں نے حیرت سے زیادہ بے چین ہو کر پوچھا تھا ۔میرے دل کی دھڑکن یکلخت بڑھ گئی تھی۔





’’وہی بھاجی ‘کالی کار والی جس نے اپنے گھر کے سامنے ہمیں روک لیا تھا اور ایک بار چائے پینے بھی آئی تھی۔
اس کے لفظوں نے میرے دل کی دنیا میں طوفان مچا دیا تھا ۔
’’کیوں …کس لیے ‘کیا کہہ رہی تھی وہ ؟‘‘
میں نے بے قرار ہو کر چھوٹو کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ہی ڈالا تھا ۔
’’وہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں بھا جی۔ کہہ رہی تھیں آپ کا انتظار کریں گی آج رات بارہ بجے ۔میں نے پوچھا کہاں آنا ہے ‘ تو بولی آپ کو پتا ہے کہاں آنا ہے ۔‘‘
چھوٹو بتاتا جا رہا تھا اور میری حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ آج کس لیے بلا رہی ہو گی ؟ سالگرہ کا تحفہ دینے کے لیے ؟ یا اس نئے رشتے کا بتانے کے لیے جو اس نے دیار غیر میں بنا لیا تھا ۔
میرا دماغ ماؤف ہونے لگا تھا ۔ آج رات کیا کہنے والی تھی وہ ؟ پھر سے معافی تلافی ؟ یا اپنی کامیابی کے جشن میں شرکت کے لیے بلانا چاہ رہی تھی ؟آخر اب کیا چاہ رہی تھی وہ ؟
میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ مجھے آج کی آخری رات اس کے پاس جانا چاہیے یا نہیں۔ کل تو میں نے ہمیشہ کے لیے چلے جانا تھا۔
دن سرکتا جا رہا تھا‘مگر آج مجھ پر ایک ایک لمحہ بھاری پڑ رہا تھا ۔
’’تو کیا میں آج رات اس کے پاس جانے والا ہوں ؟‘‘
میں نے خود کو ٹٹولا تھا ۔
اور جواب پا کر ہکا بکا رہ گیا تھا ۔
میرے اندر کوئی تھا جو اس سے یوں اس طرح غیر ہو جانے کی وجہ پوچھنا چاہتا تھا جو اپنے انتظار کی شدتیں اسے بتانا چاہتا تھا جو آج پہلی بار اس سے شکایت کرنا چاہتا تھا ۔کوئی تھا جسے اب پتا چلا تھا کہ اس سے سوال و جواب کیے بغیر جانے کا فیصلہ درست نہیں ہے ‘تو کیا آج یوم حساب تھا ؟اس رشتے کا جو پل بھر میں بن گیا تھا اور پل بھر میں ٹوٹ گیا تھا ۔
دن آخر کار گزر ہی گیا ۔ رات کے دس بجے تک میری بے قراریاں اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ چکی تھیں ۔
ٹھیک بارہ بجے میں مرتضیٰ اور چھوٹو کو سوتا ہوا چھوڑ کر کسی خود کار جذبے کے تحت پارک کی طرف رواں دواں تھا ۔کریم پیلس کے باہر گاڑیوں کی لمبی قطار دیکھ کر مجھے ہول اٹھنے لگے تھے ۔دور سے چمکتا دمکتا محل آج اپنے جوبن کی نرالی چھب دکھلا کر سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ میں گاڑیوں کی لمبی قطار سے بچتا بچاتا پارک کی خاردار باڑھ کی طرف ہو لیا تھا۔تبھی میرے کانوں میں دور سے کسی کی غصیلی آواز سنائی دی۔
’’کہاں گئیں ہیںوہ ؟ گھر میں نہیں ہیں تو باہر ہی گئیں ہیں نا ؟ تم گیٹ پر کھڑے سو رہے تھے کیا ؟‘‘
میں نے آواز کی سمت دیکھا ۔ادھ کھلے گیٹ پر اس کا باپ غصے سے لال پیلا ہو کر بوڑھے چوکیدار پر برس رہا تھا ۔‘‘
میں نے تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ باڑھ پھلانگی ۔بنچ خالی تھا ۔آج اس بنچ پر بیٹھنا ممکن بھی نہیں تھا۔کریم پیلس کے گیٹ پر کی گئی خصوصی لائٹنگ اس بنچ کو بھی روشن کیے ہوئے تھی جو عام دنوں میں اندھیرے میں رہتا تھا۔
میں نے بنچ کے پاس پہنچ کر بے تابی سے اِدھر اُدھر دیکھا ۔
اور بنچ سے کافی آگے پارک کے ایک تاریک کونے میں درخت کی آڑ میں کھڑی ایک لڑکی کو دیکھا ۔
میں پہلی نظر میں پہچان نہیں پایا تھا ۔
مگر اس یقین کے ساتھ کہ یہ وہی ہے ۔میں آگے بڑھ گیا۔
اور وہ وہی تھی ۔
مجھے چاہتوں کے نئے سفر پر روانہ کر کے خود پیچھے ہٹ جانے والی ،آج جانے کیا کہنے والی تھی۔
میں اس کے قریب پہنچ چکا تھا ۔
وہ درخت کے تنے سے ٹیک لگائے کھڑی تھی اور مہران اسٹریٹ سے گزرتی ہوئی اِکا دُکا گاڑیاں دیکھ رہی تھی ۔
میں اس کے عین پیچھے پہنچ چکا تھا ۔
اس نے میری آہٹ پا لی ‘مگر مڑ کر دیکھا نہیں تھا۔
میں اپنی سانسوں پر قابوپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے کان میرے دل کی دھڑکن کی گواہی دے رہے تھے ۔
خاموش کھڑا میں اس کے مڑنے کا انتظار کرنے لگا ۔
ڈھیر سارے پل یونہی گزر گئے۔
تب اس کی نرم و ملائم آوازجس میں چھپی ہوئی بے پناہ اپنائیت محسوس کر کے میرے حلق میں آنسوؤں کا گولا سا پھنس گیا تھا ۔
’’ناراض ہو اجنبی ؟‘‘
اس نے پیچھے مڑے بغیر کہا تھا ۔
میں نے پوری کوشش کی تھی کہ میری آواز میرے جذبوں کی ترجمانی نہ کر سکے‘ مگر جذبے منہ زور ہوتے ہیں کہاں چھپ سکتے ہیں۔‘‘
’’نہیں… ‘‘
بھرائے ہوئے لہجے میں یہی ایک لفظ کہہ پایا تھا ۔
تب وہ پیچھے مڑی ۔
مجھے اس کی آنکھوں میں ویرانیاں ہی ویرانیاں نظر آئیں ۔
اور پہلا سوال یہی اٹھا تھا’’یہ آج بھی ادھوری ہے ؟‘‘
’’تمہیں ناراض ہونے کا پورا حق ہے اجنبی۔مجھ سے خفا ہونے کا ‘مجھ پہرچلانے کا‘مجھے برا بھلا کہنے کاتمہیں سب حق میں نے دل سے دیے ہیں اور ایک تمہیں ہی دیے ہیں ۔‘‘
میں خاموش کھڑا تھا‘ مگر الجھ رہا تھا۔اس کے لہجے کی سچائیاں بتا رہی تھیں وہ برحق ہے ۔
’’کچھ کہو نا اجنبی ‘روٹھ کے دکھا ؤ نا‘ناراض ہوجاوؑ نا‘میں تمہیں منانا چاہتی ہوں۔تمہارے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا چاہتی ہوں۔‘‘
وہ ترسی ہوئی آواز میں جیسے التجا کر رہی تھی ،دونوں ہاتھ جوڑ کے مجھے دکھا رہی تھی ۔
میں نے سر جھکا لیا تھا۔پتا نہیں کیا تھا ان آنکھوں میں جنہیں میں سمجھ نہیں پا رہا تھا اور دیکھنے کی ہمت بھی نہیں پڑ رہی تھی ۔
’’کیا آج بھی کچھ نہیں کہو گے ؟آج میری سالگرہ ہے اجنبی ۔آج مجھے تحفے میں تمہاری ناراضی چاہیے ،میں تمہیں ناراض دیکھ کر مناؤں گی۔ تم پہلے انکار کرنا پھر میری منت سماجت کو قبول کر کے مان جانا ۔آج مان جانا اجنبی ۔‘‘
اس کی آواز میں بچوں کی سی ضد آ گئی تھی اور ساتھ ہی اک عجیب سی تشنگی۔
میں مزید خاموش نہیں رہ سکتا تھا۔ شدت سے امڈتے جذبات میری آواز میں خود بخود چلے آئے تھے ۔
’’ہاں ناراض ہوں میم صاب ‘سخت ناراض ہوں ۔میں نے بھی آپ کی طرح زندگی میں پہلی بارکوئی رشتہ اپنی مرضی سے بنایا تھا اور دل کی گہرائیوں سے بنایا تھا ۔ میں آپ کو سوچ سوچ کر جیتا ہوں میم صاب۔ میں جانتا ہوں میں آپ کے لائق نہیں ۔ آپ آسمان کی بلندیوں پر تھیں اور میرے قدم زمین پر ٹکنے کے لائق بھی نہیں تھے ۔ میں آپ کو کبھی پا نہیں سکوں گا اس بات کا ادراک مجھے اچھی طرح تھا۔ گلہ یہ نہیں ہے کہ آپ نے بیچ راستے میں مجھے چھوڑ دیا ہے ۔گلہ اس بات کا ہے کہ آپ نے مجھے بتانے لائق بھی نہیں سمجھا۔ میں آپ کا پہلا دوست تھا جسے آپ نے اپنی زندگی کا ہر ورق کھول کر دکھا دیا تھا‘تو یہ کیوں نہیں بتایا کہ اب آپ کو کوئی اور اپنا بھی مل گیا ہے۔میں کبھی آپ کی خوشیوں کے راستے کا کانٹا نہیں بن سکتا تھا میم صاب ‘کیوں کہ میں نے آپ کو سچے دل سے پیار کیا تھا اور سچا پیار خوشیاں دیناجانتا ہے چھینتا نہیں۔اکتیس دسمبر کی رات میری زندگی کی سب سے مشکل را ت تھی۔اس رات میں نے آپ کے اور اپنے بیچ حائل ایک اور ہستی کو دیکھا تھا اور پہلی بار دل میں آپ سے شکایت ہوئی تھی کہ آپ نے مجھے اس سے انجان کیوں رکھا؟‘‘
میں نے گلوگیر لہجے میں دل میں آئی شکایت کو زبان دی تھی۔
اور وہ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی ،میں چپ ہوا‘ تو ایک قدم اٹھا کر میرے اور قریب ہوئی۔
’’معاف کر دو اجنبی ۔‘‘
اس نے ہاتھ جوڑے تھے ۔
’’تم نے کہا ماماکے پاس جاؤ ،ان سے پوچھو ۔وہی سوال جس کا جواب پاپا نے تھپڑ مار کر دیا تھا۔تم نے کہا تھا ضروری نہیں ۔ضروری نہیں کہ ان کی غلطی کی سزا صرف تم نے بھگتی ہو ‘یہ بھی تو ہو سکتا ہے ان کے پاؤں تم سے زیادہ زخمی ہوں۔تم نے کہا جاؤممکن ہے تمہاری ماں تمہارے راستے کے پتھر چنتے چنتے تھک گئی ہواور میں مان گئی تھی‘مگر جب پاپا نے مجھے تھپڑ مارا تھا ،تب میں ڈگمگا گئی۔میں جن کی آنکھوں کے سامنے پل کر جوان ہوئی تھی وہی میری باتوں کو میرے دماغ کا خلل سمجھتے رہے۔میرے اندر جھانک کر دیکھنا ‘تو درکنار میری زخمی روح کو تھپڑ کا تحفہ دے کر میری ساری غلط فہمیاں دور کر دی تھیں انہوں نے ۔ تب میں تمہارے پاس آئی تھی اجنبی ۔نہیں جانا چاہتی تھی ماں کے پاس۔کاش میں نہ آتی اس دن تمہارے پاس اور وہ سچے اور کھرے لفظ نہ سن پاتی جو تم نے میرے آنسوؤں کے عوض میری جھولی میں ڈال دیے تھے ۔ تم نے کہا تھا ــ’’میں آپ کو ہر قسم سے آزاد کرتا ہوں ۔میں آپ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں ۔میں آپ کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔آپ وہی کریں جو آپ چاہتی ہیں‘‘
مجھے آج تک یہ الفاظ اتنی محبت سے کسی نے نہیں کہے تھے اجنبی ۔تم نے اسی دن مجھے پا لیا تھا ،میں تو اسی پل جب تم میری سسکیوں سے الجھ کر خود سسکنے لگے تھے ۔تمہاری بن چکی تھی ہمیشہ کے لیے اور میں نے فیصلہ کیا تھا ،میں ماما سے آخری بار ملوں گی اور وہی کہوں گی جو میں نے پاپا سے کہا تھا۔میں نے کہا اجنبی میں نے وہی سوال اپنی ماماسے کیا اور اس دن تم صحیح نکلے تھے ۔ماما نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا تھا اور بے اختیار رو پڑی تھیں۔انہوں نے اپنے سولہ سال کے سفر میں دہکنے والی پچھتاوے کی آگ کی تپش کو میرے دل تک پہنچا دیا تھا اور میں نے سچ مان لیا تھا۔میں ان کے وجود سے ملنے والی محبت کی تیز لہر کے آگے بہ گئی تھی۔ میرے سارے گلے دھل گئے تھے ،سارے سوال ختم ہو گئے تھے ۔میں نے آگے بڑھ‘خود سے آگے بڑھ کر ان کی پیاسی ممتا کو قبول کر لیا تھا۔ہمارے شب و روز بالکل ایسے ہی ہو گئے تھے جیسے ایک دوسرے سے بے انتہاپیار کرنے والی ماں بیٹی کے ہوتے ہیں۔ وہ میرے سامنے اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکتی تھیں اور میں ان کی غیر موجودگی میں بھی اللہ کے حضور سجدہ ریز رہتی تھی ۔ماماکو میری ایک ایک عادت کا پتا چل گیا تھا۔ وہ میرے رت جگوں کو اپنی توجہ اور پیار کے حصار میں قید کر کے مجھ سے کہیں دور لے گئیں تھیں اور میں ان کے پاس ان کی بانہوں کے ہالے میں بالکل ایسے ہی سو جایا کرتی تھی جیسے ننھے بچے ماں کے احساس کو پا کر نیند کی چادر تان لیتے ہیں ۔سب کچھ ٹھیک ہو گیا تھا اجنبی ۔پاپا کے فون مسلسل آنے لگے تھے۔وہ مجھے تھپڑ مار کر مجھ سے کہیں زیادہ ڈسٹرب ہو گئے تھے۔ بار بار معافی مانگتے تھے ۔تم مان سکتے ہو ؟ میرے پاپا ! سیٹھ کریم معافی مانگ رہے تھے۔اپنی ساری غلطیاں تسلیم کر رہے تھے ،مجھے اپنی کل کائنات مان رہے تھے اور کبھی کبھی ایسے بھیگے لفظ بولتے تھے کہ میں یقین نہیں کر پاتی تھی کہ وہ اپنے آنسوؤں سے مجھے اپنی سچائیاں دکھا رہے ہیں۔ میں فون پر ان کی آواز سن کر انہیں روز معاف کرتی تھی اور وہ روز اپنی نئی نئی غلطیاں ڈھونڈ کر ان کی تلافی کرنا شروع کر دیتے تھے ۔اس وقت میں سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی اجنبی کہ میں کتنی غلط تھی کہ میرے پاپا اور ماما مجھے نہیں سمجھتے۔ میری تنہائی کو دیکھ نہیں پاتے ‘میری تشنہ روح کی تڑپ محسوس نہیں کر سکتے۔میں سچ مچ ہواؤں میں اُڑنے لگی تھی۔تمہیں بے طرح یاد کرنے لگی تھی۔میں چاہتی تھی پلک جھپکتے ہی تمہارے پاس پہنچ جاوؑں اور تمہیں بتاوؑں کہ کہ تم کتنے صحیح نکلے اور میں کتنی غلط ۔‘‘
وہ کچھ پل کے لیے رکی تھی ۔
میں نے اس کے جڑے ہاتھ کھولتے ہوئے اس کے خاموش ہوتے لب دیکھے تھے ۔
وہ بول رہی تھی تو وقت رک گیا تھا۔مجھے اپنے آس پاس کا ہوش نہ تھا۔میں غافل تھا کہ میں اس لڑکی کے سامنے کھڑا ہوں جس کی سالگرہ کی پارٹی کے لیے شہر بھر کے معززین کریم پیلس میں جمع ہو چکے تھے اور وہ گمشدہ ہو چکی تھی ۔
اس نے تنے سے سر ٹکا لیا تھا۔بھری بھری کالی آنکھیں جن میں ڈھیر سارا پانی جمع ہو چکا تھا ۔
’’اور میں غلط نکل گئی اجنبی ‘میں غلط ثابت ہو گئی۔دوسری بار غلط ثابت ہو گئی اور میری پرچھائی ‘میری پرچھائی سچی نکلی۔تم بھی غلط نکلے سب غلط نکلے ۔بس میری پرچھائی ۔ایک وہی ہے جو مجھے ہر بار سچ بتاتی ہے ،میں اس سچ کو مانتی ہوں ۔سچ کہتا تھا میں رانیہ کریم خان ہوں ہاں اجنبی ،آج تمہیں بتا رہی ہوں کہ آج کے بعد تم اس نام کو میرے منہ سے کبھی سن نہیں پاؤ گے۔میں رانیہ کریم خان ‘میری ماما مجھے رانی بلاتی ہیں۔میں ان کی رانی ہوں ‘ان کی جنہوں نے اپنا نقصان اپنی رانی کو بیچ کر پورا کر لیا۔ اپنے بزنس پارٹنر کے بیٹے کے ہاتھ میں بیچ کر میری تصویریں میری ماما کے لیے جاتی تھیں ،مگر انہیں دیکھ کر کوئی اور آنکھیں سینکتا تھا ۔وہ جو ہر رات کسی نہ کسی نائٹ کلب کی رونق بن کر جھومتا رہتا ہے ،وہ جسے جسمانی آزادی کے علمبرداروں نے اپنا سالار مانا ہوا ہے ۔وہ مجھے پرنسس کہتا ہے اور مجھ سے محبت کا دعوے دار ہے۔ بالکل ماما کی طرح اور پاپا کی طرح … میرے پاپا کی طرح جو مجھے کوئین کہتے ہیں ۔وہ بھی کینیڈا شفٹ ہو رہے ہیں۔ وکی کے پاپا نے انہیں مکمل سپورٹ کا یقین دلوا دیا ہے ۔وہ وہاں کے بزنس ٹائیکون بننا چاہتے ہیں ۔کتنی خوبصورتی سے اپنی کوئین کا استعمال کیا تھا پاپا نے اجنبی ۔واقعی ،مجھے ماننا پڑا ۔وہ منجھے ہوئے بزنس مین ہیں ۔‘‘
اس کے نین کٹوروں سے آبشار بہنے لگے تھے ۔
میرے دل کو کسی نے مٹھی میں قید کیا ہو ا تھا‘ میری سانسیں اٹک رہی تھیں۔ اللہ امتحان لیتا ہے۔ ہمارے صبر کا امتحان پر اللہ والے کہتے ہیں اللہ اتنا ہی امتحان لیتا ہے ،جتنا ہم برداشت کر سکتے ہیں۔۔وہ برداشت کر رہی تھی‘مگر مجھ سے برداشت نہیں ہو پا رہا تھا۔
’’اجنبی میری پرچھائی کبھی غلط نہیں کہتی ،وہ آج تک میرے سامنے خود کو درست ثابت کرتی آئی ہے ۔وہ جو کہتی ہے ،ہو جاتا ہے۔ میں نے پہلی بار تمہارے لیے اس سے جنگ لڑی اور جانتے ہو اس جنگ نے مجھے کہاں پہنچا دیا ؟ ‘‘
بے آواز روتے روتے وہ دھاڑ مار کر چیخی تھی۔
’’اس جنگ نے مجھے ایک آوارہ ،بدچلن اور وحشی کی آغوش میں دھکیل دیا اجنبی جو مجھے پرنسس کہتا ہے ،مگر راتیں اپنی کنیزوں کے ساتھ کاٹتا ہے ۔میں ہار گئی ہوں ‘میں سب کچھ ہار گئی ہوں اجنبی ۔میں تمہیں بھی ہار گئی ہوں ۔‘‘
وہ دھاڑیں مار تے ہوئے جھکنے لگی تھی اور میں پتھر کا بت بنا اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہل پا رہا تھا۔
تبھی اسے زور کی قے ہوئی ۔
میں نے ہوش کی دنیا میں آتے ہوئے اسے بازووؑں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا تھا۔
اس کے ہونٹوں کے کناروں سے خون کی باریک لکیریں بہنے لگی تھیں۔میں دہشت زدہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹا تھا۔۔۔میری آنکھیں پھٹ چکی تھیں۔
’’آ …آپ… ‘‘
کانپتے ہوئے ہونٹوں سے میں کچھ کہنا چاہتا تھا‘ مگر اس نے آگے بڑھ کر میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’مجھے بولنے دو اجنبی …
مجھے اقرار کرنے دو کہ اس دنیا میں میرے ایسی زندہ لاشیں بھی ہوتی ہیں جو جینے کی وجہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے موت کے راستوں پر چل پڑتی ہیں ۔ میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں ‘ میں تمہارے سنگ جینا چاہتی تھی۔میں تمہاری الفتوں کی قرض دار بن کر تمہارے کچے گھر کے تنگ و تاریک کمرے میں زندگی تمام کرنا چاہتی تھی۔پر میں ڈر گئی ہوں ‘میں اپنی پرچھائی سے ڈر گئی ہوں۔وہ میرے ادھورے پن کو کبھی پورا نہیں ہونے دے گی ۔اپنے کہے لفظوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے تمہیں بھی مجھ سے جدا کر دے گی۔پر اجنبی ‘میں وہ وقت کبھی نہیں آنے دوں گی۔میں اسے ہرا دوں گی ‘میں تمہاری آغوش میں دم توڑ کر اسے شکست دوں گی ۔ میں اس پہلی اور آخری لڑائی میں ہار نہیں مانوں گی۔ میں ہار نہیں مانوں گی۔‘‘
وہ کٹے ہوئے شہتیر کی طرح میرے بازوؤں میں جھول گئی تھی ۔
اس کے ہونٹوں سے بہتا خون …
اور آنکھوں میں چھائی موت کی زردی دیکھ کر میں نے وحشت سے آسمان کی طرف دیکھ کر اسے پکارا تھا۔
کہ شاید میری دہائی آسمان کے ساتوں پردوں کو چیرتی ہوئی اس تک پہنچ جائے ۔
جو کہتا ہے ‘ میں نے تمہیں زندگی انعام میں دی ہے ۔
یہ کیسا انعام ہے ؟ جسے پانے کے بعد ڈھونڈتے ڈھونڈتے موت آ جاتی ہے ۔
میرے آس پاس موت کا رقص جاری ہو چکا تھا ۔
زندگی اب بھی ہار چکی تھی ۔
موت نے اسے ہرا دیا تھا ۔
اور یہ موت یونہی ہراتی آئی ہے ۔
اور ہراتی رہے گی ۔
٭…٭…٭
شہزادی ایک لکڑہارے کی آغوش میں اپنی جان دے چکی تھی ۔
اور لکڑہارا۔۔۔۔
لکڑہارے نے اپنی سانسیں لیتی لاش گھسیٹتے ہوئے جنگل میں گم ہو جانا تھا۔
انسانوں کے جنگل میں…
٭…٭…٭
{ ختم شد}




Loading

Read Previous

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Read Next

بنتِ حوّا — عزہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!