ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

دو جنوری بروز سوموار (2014ء)
میں کل رات بارہ بجے تک خود سے لڑتا رہا اور خود کو قائل کرتا رہا تھا کہ مجھے آج کے بعد مرتضیٰ کی اس کٹیامیں رات دس بجے سوجانا ہے۔ کریم پیلس ،اس کے سامنے بنا ہوا چھوٹا سا پارک اور پارک کی اس بنچ سے اپنا تعلق ختم کر دینا ہے ۔میں نے تہیہ کر لیا تھا۔آئندہ کریم پیلس کی اس شہزادی کی طر ف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھوں گا اور اگر اس سے آمنا سامنا ہو بھی گیا‘تو کسی اجنبی کی طرح نظریں پھیر کر گزر جاؤں گا۔ دس بجے ہوٹل بند ہو جانے کے بعد بارہ بجے تک کٹیاکے اندر زمین پر لیٹا میں مرتضیٰ کے خراٹے سنتا رہا اور سونے کی ناکام کوشش کرتا رہا تھا۔ اس کی یادوں کو بھگانے کے لیے بار بار کروٹ بدل رہا تھا اور اس کا صبیح چہرہ بھلانے کے لیے بار بار آنکھیں جھپک رہا تھا۔ آنکھیں بند ہوتیں تھیں اور وہ جھٹ سے سامنے آجاتی تھی۔
کبھی گاڑی کے ادھ کھلے دروازے میں کھڑی چائے پیتی ہوئی ‘جسے وہ بدمزہ چائے کہتی تھی۔
کبھی اپنے گھر کے سامنے ‘بیچ راستے میں روک کر مجھے دو موتیوں کا تحفہ دیتی ہوئی۔دو قیمتی موتی جو صرف میرے لیے تھے۔
کبھی پارک کی گھاس پر چل کر ہنسی بکھیرتی ہوئی ۔





کبھی اپنوں کی زیادتیوں کے قصے سنا کر روتی ہوئی ‘سسکتی ہوئی ‘ہچکیاں لے لے کر مچلتی ہوئی ۔
اور پھر اس رات ‘جب وہ ٹوٹ کر روئی تھی جیسے آج آخری بار رونا ہے۔ میرے سامنے… آخری بار ہی تو تھا۔ اس کے بعد میری آنکھیں ترس گئی تھیں۔ان موتیوں بھری سرخ آنکھوں میں جھانکنے کے لیے۔
میں بارہ بجے تک سو نہیں پایا تھا۔
کیسے سو پاتا ؟ عادت جو نہیں تھی۔ فجر کی اذان سے پہلے سونے کی۔ اسے دیکھے بغیر ،اسے سوچے بغیر میں کیسے سو پاتا ؟
بارہ بجے ہار گیا تھا میں ۔ میرے قدم خود بخود ہی پارک کی طرف چل پڑے تھے ،جیسے انہیں میری کوئی پروا نہ ہو۔ بس وہی کرنا ہو جو اس شہر میں پہلے دن سے لے کر آج تک کرتے آئے تھے۔دل اداس تھا‘ مگر امید اب بھی باقی تھی ۔کیا پتا ایک بار… ایک آخری بار مجھے الوداع کہنے کے لیے ہی آ جائے۔ لوہے کی تار کی بنی ہوئی باڑھ شروع ہو چکی تھی۔میں اس بنچ کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ دل نے کہا بیٹھ کر ایک رات اور گزار دو شاید مجھے قرار آجائے ۔دل کو کون سمجھاتا؟ قرار کیسے آ سکتا ہے‘ شکایتیں جو پیدا ہونے لگی ہیں اسے ۔ ہمیشہ میری مرضی سے چلتا تھا۔ آج اپنی چلانے پر بضد لگ رہا تھا۔ میں نے باڑھ کراس کی اور بیٹھ کر خاموشی سے دل کی شکایتیں سننے لگا اور کچھ کرنے کے لیے تھا بھی نہیں۔ دل کہتا تھا اس نے وعدہ کیا تھا‘پورا کرنا چاہیے۔پورا نہ کرتی تو یوں نظر انداز تو نہ کرتی۔ گلہ کرنے کا حق تو دیتی۔بھلے میں اس حق کو کبھی استعمال نہ کرتا۔ ایک بار سامنے تو آتی‘مجھے اپنی خوشیوں میں شریک تو کرتی ۔میں تو اس کے غموں کا امین تھا۔ اس کا رازدار… وہ کہتی تھی میں اس کا دوست ہوں ۔پہلا دوست ‘تو ایک دوست کے ناتے ہی ایک بار آ جاتی ۔یا وہ بھول گئی سب رشتوں کو جو اس نے ایک ہی دن میں ایک ہی شخص سے بنا ڈالے تھے اور جسے جینے کی وجہ قرار دیا تھا ۔
تو اتنی بے اعتنائی کیوں ؟
میں تو جانتا تھا میں اس کا ہوں۔سمجھتا تھا وہ میری ہے‘ مگر میری بن کر ساری عمر میرے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ میں اسے دل میں بسا سکتا تھا‘ اپنے کچے گھر کے تنگ و تاریک کمرے میں نہیں ۔ میں سب جانتا تھا‘مانتا تھا۔بنا اس کے کہے ‘مگر یوں نظرانداز کیا جانا بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا‘کیونکر برداشت ہوتا ۔اس نے مجھے اندھے اعتبار کی وہ عینک جو پہنا دی تھی جس میں صرف وہ اور اس کی باتیں ہی نظر آتی تھیں۔ گزرے دن میں اس کے ایک پل کے دیدار نے شکایتیں پیدا کر ڈالیں تھیں ۔
رات دھیرے دھیرے گزر رہی تھی ۔ میں کریم پیلس کی چھت پر نظریں جمائے خالی نظروں اور بوجھل دل سے بیٹھا رہا تھا ۔ آج کوئی اوپر نہیں آیا تھا ۔
’’اسے اندھیرے میں اپنا خفیف سراپا بھی مجھ سے چھپانا ہو گا ؟‘‘
میرے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی ۔
وہ سارے حق واپس لے چکی تھی۔ وہ جو اس نے ضد کر کے مجھے دیے تھے۔ اب بنا بتائے ‘بنا میرا حال جانے اس نے اپنے راستے الگ کر لیے تھے ۔ میں بوجھل قدموں سے واپس آ گیا تھا ۔ یقینا آج میری آخری رات گزری تھی اس پارک میں۔اسے میرا وجود وہاں بھی گوارا نہیں تھا‘ تو میں کیوں جاتا ،کیوں خود کو ارزاں کرتا؟
زندگی کب رنگ بدلتی ہے پتا ہی نہیں چلتا ۔مجھے میری نظروں میں معتبر بنانے والی نے پل بھر میں مرتضیٰ کی جھگی کا فقیر بنا دیا تھااور یہ جھوٹ نہیں تھا۔خواب ٹوٹ چکے تھے کیونکہ آج میری آنکھ پوری طرح کھل چکی تھی۔میں نے خود سے عہد کیا تھا کہ اب کبھی خواب نہیں دیکھوں گا۔ خواب بس سراب ہوتے ہیں اور مجھے سرابوں کے پیچھے نہیں بھاگنا تھا۔ مجھے اپنی ماں کا بڑھاپا سنوارنا تھا ،اسے ان کی زندگی کا سب سے خوبصورت وقت بنانا تھا ،انہیں اپنے ہونے کا احساس دلانا تھا۔ میرے عہدوپیمان صرف اس سے نہیں ہوئے تھے‘ خود سے بھی ہوئے تھے۔ میں نے چشم تصور میں گھر کے کچے آنگن میں بیٹھی ماں کو دیکھا۔مجھے کہانیاں سنا کر سلانے والی ماں۔ایک خوب صورت اور جاندار رشتہ تو اب بھی میرے پاس تھا۔میں کیونکر ناشکرا ہوتا ۔مجھے اس رشتے کے لیے خود کو وقف کرنا تھا۔مجھے اس پل لگ رہا تھا میں نے سچے رشتے کی حقیقت جان لی ہے۔ میں نے زندگی کی حقیقت کو پا لیا ہے۔زندگی کی حقیقت یہی کہتی ہے کہ سچے رشتوں کو کبھی آنکھوں سے اوجھل مت ہونے دو۔ یہ ہیرے جواہرات اور بڑے بڑے محلوں سے زیادہ قیمتی اور انمول ہوتے ہیں ۔مجھے ماں کے پاس واپس جانا تھا۔ دہاڑی کرنی تھی ‘اپنے باپ کی طرح اور خوشی خوشی شام کو واپس آ کر ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھا کر سو جانا تھا۔ ماں سامنے ہو تو زندگی مکمل لگنے لگتی ہے۔ماں‘مجھے دنیا میں رہنے والی کروڑوں ماؤں کا پتا نہیں تھا وہ کیسی ہوتی ہیں۔پر میری ماں میرے لیے صحرا میں کھڑے ہوئے اکلوتے پیڑ کی طرح تھی جو ہر وقت مجھے اپنی چھاؤں میں لینے کے لیے بے تاب رہتی تھی جس کی گود میں سر رکھتے ہی میرا ہر غم حرف غلط کی طرح مٹ جاتا تھااور مائیں بھی تو یہی چاہتی ہیں کہ ان کے لخت جگر ان کی نظروں کے سامنے رہیں ۔کب چاہتی ہیں کہ ان دیکھے مستقبل کے لیے فانی زندگی کی بے لگام خواہشوں کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے پر بیٹھ کر دنیاکی بھیڑ میں کہیں گم ہو جائیں۔ جیسے میں گم ہونے کے لیے آیا تھا ‘مگر صد شکرکہ کسی کی بے اعتنائی نے میری زندگی میں میری ماں کی اہمیت کو دوبالا کر دیا تھا ۔میں نے پکا ارادہ کر لیا تھا۔ آج مجھے مرتضیٰ کی نوکری آخری بار کرنی تھی۔میں نے دل ہی دل میں اسے مخاطب کیا تھا۔
’’آپ کا شکریہ میم صاب !اپنی سنگت کے کچھ لمحے دان کرنے کے لیے ‘میں ان لمحوں کو سنبھال کر رکھوں گا۔‘‘
٭…٭…٭
تین جنوری بروز منگل (2014ء)
صبح کے نو بج رہے تھے ۔ کریم پیلس میں ہر طرف چہل پہل تھی۔شہر بھر سے مہمانوں کی آمدو رفت ابھی سے شروع ہو چکی تھی۔ آج اس محل کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھاکیونکہ آ ج رات بارہ بجے تاریخ بدلتے ہی رانی کے بیس سال مکمل ہو جانے تھے۔ سیٹھ کریم خود انتظامات میں مصروف تھے۔ ایک گرینڈ پارٹی دی جانے والی تھی۔ یہ پارٹی رانی کی سالگرہ کے علاوہ ایک اور بہت بڑے سرپرائز کے لیے بھی دی جا رہی تھی جس سے ابھی تک سیٹھ کریم کے خاندان کے لوگ اور دوست احباب سب انجان تھے ،حتیٰ کے ہمدانی صاحب بھی نہیں جانتے تھے جن سے سیٹھ کریم ہر بات شیئر کرتے تھے۔ رانی کی ماں آج سولہ سال بعد اس گھر میں اپنی بیٹی کی بیسویں سالگرہ منانے کے لیے موجود تھی اور ایک اور ہستی جسے رانی کی زندگی میں سب سے خاص مقام حاصل ہو چکا تھا۔ وہ بھی رانی کی سالگرہ کی تیاریوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا ۔ زندگی میں پہلی بار پاکستان آیا تھا۔اردو سے نابلد ،پورا نام وقار الحسن ،مگر اسے صرف وکی بلایا جاتا تھا ۔
پیلس کا سیکنڈ فلور اور اس میں رانی کا وہ مخصوص کمرا ،اس کی جائے پناہ جہاں وہ دنیا سے فرار ہو کر جا چھپتی تھی اور تب تک چھپی رہتی جب تک اسے چھت کا وہ کونہ بلا نہ لیتا جہاں سے پیپل کا درخت اور اس کے نیچے بنا ہوا چھپر ہوٹل نظر آتا تھا۔جہاں سے پارک میں پڑا ہوا ویران بنچ نظر آتا تھا جسے اس نے کسی کے ساتھ مل کر آباد کر لیا تھا۔ ایک اجنبی کے ساتھ ،جسے اپنا مان کر اجنبی بلایا کرتی تھی وہ اور آج جب ہر طرف اس کے نام کی پکار پڑ رہی تھی۔اس کی زندگی کے سب سے اہم پل کو اسپیشل اور یادگار بنانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں ‘وہ ان تمام تیاریوں سے بے نیاز اپنی جائے پناہ میں بے حس کھڑی آئینہ دیکھنے میں مصروف تھی۔ آئینے میں کھڑی اس کی پرچھائی جو کچھ عرصے کے لیے ہار مان کر کہیں گم ہو گئی تھی۔ آج پھر اپنی تمام تر تلخیوں سمیت وارد ہو چکی تھی۔وہ اپنی پرچھائی کو گھورکر اپنی شرمندگی چھپانا چاہ رہی تھی ،مگر آج اس کی آنکھیں اس کا ساتھ نہیں دے پا رہی تھیں۔وہ زیادہ دیر تک اس پر نظریں ٹکا نہ سکی تھی۔
تب اس کا سر جھکتے دیکھ کر آئینے میں کھڑی اس کی پرچھائی نے جان لیا تھا وہ جو سر جھکائے کھڑی ہے جس کے ہونے سے میرا وجود قائم ہے۔آج سر جھکا کر اپنی شکست کا خاموش اعلان کر رہی تھی۔
رانی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ‘ڈبڈباتی سرخ آنکھیں۔
’’میں ہار گئی…‘‘
تم نے سچ کہا تھا ،میرے ہاتھوں میں ایک بھی لکیر ایسی نہیں ہے جو مجھے میرے اپنوں تک لے جائے ۔میں کسی کی چاہتیں سمیٹنے کے لیے نہیں بنی ہوں ‘میں صرف تمہارے آگے سر جھکا کر جینے کے لیے بنی ہوں۔میں نے ایک بار تم سے ضد کی اور اس ایک ہی بار نے مجھے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے زندگی ختم ہو جاتی ہے ۔‘‘
بہتے آنسوؤں کے ساتھ وہ اپنی عدالت میں کھڑی اعتراف جرم کر رہی تھی ۔
اور کمرے کے درودیوار کسی کے فلک شگاف قہقہوں سے گونج اٹھے تھے۔ اس نے لرز کر آئینے میں کھڑی پرچھائی سے نظریں چرا لیں۔ وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔اس ہنسی میں اس کی جیت کا غرور بھی شامل تھا ۔
’’تم تو پہلے سے برباد تھیں ‘مگر مجھ سے ضد باندھ کرتم نے ایک اور زندگی کو بھی جبر مسلسل بنا دیا ہے رانیہ کریم خان ۔ وہ جو اب تک جون کی راتوں میں جی رہا ہے ‘وہ جو تمہارے لوٹ آنے کا انتظار کرتے کرتے لاش بن چکا ہے جس سے اب تم نظریں ملا پانے سے بھی گھبرا رہی ہو ۔وہ بھی آج برباد ہونے جا رہا ہے ۔وہ اب تک تمہارے کہے لفظوں میں جی رہا ہے‘اپنے لفظ یاد ہیں تمہیں ؟ جانے سے پہلے کیا کہہ گئیں تھیں اسے ۔تمہاری سانسوں کا تسلسل ہے وہ‘تمہارے جینے کی وجہ ہے وہ اور اس بھری دنیا میں تمہارا واحد اپنا ہے وہ جسے تم اجنبی بلا کر پکارتی ہواور جو اس نام میں بھی اپنا پن پا کر ہواؤں میں اُڑ رہا ہے۔اس کا کیا ہو گا ؟ ‘‘
پرچھائی کی ہنسی رک گئی تھی اور اس کی جگہ غصے نے لے لی تھی۔ وہ شعلہ بار نظروں سے رانی کو گھور رہی تھی ‘جواب طلب کر رہی تھی۔
رانی ارد گرد سے بے نیاز کھڑی اس کی باتیں سننے میں مگن تھی جب کوئی چپکے سے کمرے کا دروازہ کھول کر اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا ۔
وہ پرچھائی کی طرف دیکھ رہی تھی اور پرچھائی اس کے پیچھے کھڑے لمبے چوڑے وجود کو …
oh sweetie what are you doing here? come on girl today is the day of your life and you
وہ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کے بول رہا تھا ۔
اور رانی اس کے ہاتھوں کے لمس سے بے نیاز پرچھائی کو تکے جا رہی تھی ،جو اب طنزیہ نظروں سے کبھی اسے اور کبھی گورے چٹے کینیڈین کو دیکھ رہی تھی۔
اس نے خاموش کھڑی رانی کی نظروں کا پیچھا کرتے ہوئے آئینے کی طرف دیکھا اور مسکراتا ہوا بولا۔
’’beautiful‘‘
وہ ساکت کھڑی تھی جیسے کوئی لاش کھڑی اپنے جسم کو دیکھ رہی ہو ۔
’’infact beautiful princess‘‘
وہ اس کی پرچھائی کو تکتے ہوئے بولا تھا۔
’’say somthing for me hunny‘‘
پرچھائی سے اپنی خواہش کا اظہار کر رہا تھا۔چاہتا تھا کہ وہ بھی اس کے لیے کچھ کہے۔
’’یہ چاہتا ہے میں تمہارے لیے کچھ کہوں ‘کہہ دوں کیا ؟‘‘
پرچھائی رانی سے سوال کر رہی تھی ۔
’’کیا فرق پڑتا ہے ؟‘‘
رانی نے بے جان لہجے میں کہا تھا ۔
’’oh princess please say it again in english ‘‘
وہ اس کے لفظوں اور اس کے دل کی حالت سے انجان بنا کہہ رہا تھا۔
مگر وہ چپ چاپ پرچھائی کے سامنے کھڑی تھی ۔بس اس کے لیے ۔
وہ کچھ دیر تک اس کے دوبارہ بولنے کا انتظار کرتا رہا ‘مگر وہ ہنوز چپ کھڑی آئینہ دیکھ رہی تھی۔ تب وہ تھوڑا سا پریشان نظر آنے لگا۔
’’is every thing ok princess?‘‘
سوال کا جواب نہ پا کر وہ چند لمحوں تک اسے تکتا رہا اور پھر واپس مڑتے ہوئے کہہ گیا تھا ۔
’’i think you want me to leave ‘‘
اور دروازہ کھول کرچلا گیا ۔کریم پیلس کی رنگینوں میں شامل ہونے کے لیے۔
’’سچ سامنے ہو اور ماننے کا حوصلہ نہ ہو‘ تو انسان یوں ہی لاش کی طرح بے حس ہو جاتے ہیں ۔‘‘
اس کی پرچھائی اسے بتلا کر اس کے لاش ہونے کاثبوت دے رہی تھی ۔
’’نہیں …میرے اندر اب بھی احساس باقی ہے ۔‘‘
اس نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا تھا۔
’’کیسا احساس ؟‘‘
پرچھائی نے تعجب سے اسے دیکھا تھا ۔
’’تم بے حس ہو چکی ہو رانیہ کریم خان ‘تم لاش بن چکی ہو۔تمہارے لیے زندگی کے وہ تمام دروازے بند ہو چکے ہیں جن سے داخل ہو کر تم زندگی کو محسوس کر سکتی تھیں۔ تم آج اپنے اصل کی طرف لوٹ رہی ہو۔ اس اصل کی طرف ،جسے تم نے کچھ دیر کے لیے فراموش کر دیا تھا۔ تم ایک مردہ لڑکی ہو جو سانس لے سکتی ہے‘ مگر اس کا احساس نہیں کر سکتی ۔
’’نہیں …میرا احساس اب تک باقی ہے جو میرے پاس کسی کی امانت ہے۔ میں اس احساس کے ساتھ اپنوں کی بنائی ہوئی قبر میں دفن نہیں ہو سکتی۔مجھے اس کو لوٹا نا ہو گا ۔‘‘
وہ دھیرے دھیرے پیچھے ہٹتی ہوئی پرچھائی سے دور ہوتی چلی جا رہی تھی ۔جیسے اسے چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جا رہی ہو ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Read Next

بنتِ حوّا — عزہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!