ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

تیئس جون بروزسوموار (2013ء)
میں جب سے آیا تھا ،اسے مسلسل زاروزار روتے دیکھ رہا تھا۔ اسے مجھ سے شکایت تھی جو میں نے اسے ماں کے پاس جانے کے لیے راضی کیا تھا تا کہ وہ ایک بار ان کے سامنے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے سوال کر سکے ۔گلے شکوے کر کے من ہلکا کر سکے، وہ مان گئی تھی، مگر جانے کیوں وہی گلہ اس نے اپنے باپ سے کر دیا تھااور اس کا انجام کیا ہوا۔ یہ جان کر میں اندر تک ہل گیا تھا۔ ایک باپ اتنا سخت دل کیسے ہو سکتا ہے ؟ وہ سگی بیٹی سے اتنا لاتعلق کیسے رہ سکتا ہے کہ اس کی باتوں کو ،اس کے شکووؑں کو بھی سمجھ نہ پائے۔ اسے ماں سے محروم کر نے کے بعد پچھلے پندرہ سالوں میں بیٹی کے لیے پندرہ گھنٹے نہ نکال پایا تھا وہ۔ پھر بھی اسے سمجھ نہیں پا رہا تھا ،اپنے ہوتے ہوئے اپنے ہونے کا احساس نہیں دلا پایا تھا اسے اور پوچھ رہا تھا کون سی کمی رہ گئی اس کی زندگی میں۔ مجھے اس رات اسے خون کے آنسو روتے ہوئے دیکھ کر ترس آیا …بے پناہ ترس ۔وہ کیا محسوس کر رہی تھی میں نہیں جان سکتا تھا۔ مجھے میرے باپ نے سخت غصے میں بھی پیار ہی پیار کیا تھا۔ میں اپنی ماں کی آنکھوں کا تارا تھا ۔کیسے سمجھ پاتا اس کو ،جتنا سمجھ پایا تھا ،اتنا ہی حیرت زدہ بھی تھا۔ میں اسے جلدازجلد مکمل دیکھنا چاہتا تھا۔مکمل؟ مکمل صرف اللہ کی ذات ہے ۔جانے کیوں ہم انسان اس دنیا میں مکمل رہ کر جینا چاہتے ہیں۔جانتے ہوئے بھی کہ مکمل جینے کے لیے مکمل زندگی چاہیے ۔مکمل زندگی کسے ملتی ہے اس دنیا میں ؟ موت پچھاڑ دیتی ہے ہر بار ‘جیت جاتی ہے زندگی سے ۔ پھر بھی ہم مکمل جینا چاہتے ہیں ۔پورے لوازمات کے ساتھ … میں اسے کہانیوں کی شہزادی کی طرح خوش باش دیکھنا چاہتا تھا اور وہ ہر گزرتے دن حسرت و یاس کی تصویر بنتی جا رہی تھی۔ پہلے کسی کے سامنے آنسو نہیں بہا سکتی تھی ،اب میرے سامنے اس کے آنسو تھمتے نہیں تھے۔ میں خود پر قابو رکھ کر اسے حوصلہ دیا کرتا اور میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس کی مشکلیں میں حل نہیں کر سکتا تھااور وہ مجھے بتائے بنا رہ نہیں سکتی تھی۔میں اس دن بھی اسے لاچاری سے روتے ہوئے دیکھ رہا تھااور دل مسوس رہا تھا ۔کسی طرح اس کے سارے دکھ خرید لینا چاہتا تھا ‘پر دکھ وہ واحد اثاثہ ہے جس کی ملکیت بن جائے اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے ۔میں نے بکھری ہوئی لڑکی کو بازوؤں سے سمیٹ کر اپنے قریب بیٹھا یا تھا اور لڑکھڑاتی آواز میں اسے تسلی دینی چاہی تھی ۔





’’مت روئیں آپ ‘ خدا کے لیے چپ کر جائیں۔ وہ کوئی غیر نہیں آپ کے پاپا ہیں ۔‘‘
’’نہیں… میرے لیے سب غیر ہیں۔ میں جانتی تھی‘ مگر تم نے مجھے مجبور کر دیا۔تمہاری وجہ سے آ ج میرا رہا سہا بھرم بھی ٹوٹ گیا۔ میں نے ان سے شکوئے شکایتیں کبھی نہیں کیں۔ میں جانتی تھی ان کی نظروں میں میری وقعت کیا ہے ۔‘‘
وہ بری طرح چیخ کر بولی تھی۔
’’کیا اب بھی تم چاہتے ہو کہ میں ماما کے پاس جاؤں ۔تمہاری غلط فہمی دور کرنے ؟‘‘
میں خالی نظروں سے ہونٹ کاٹتے ہوئے آنسو پینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے آنسو مجھ پر اثر کرتے تھے۔
’’میں وہاں نہیں جاؤں گی ۔مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے ،تم بھی چلے جاؤ یہاں سے ۔‘‘
مجھے پرے دھکیلتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔
میں چپ چاپ اس کی باتیں سنتا جا رہا تھا۔ میرے پاس اسے کہنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ اس کے باپ نے میری ساری غلط فہمیاں دور کر دی تھیں۔یہ کچھ اگر اس کی ماں نے بھی کر دیا ‘تو وہ واپس آنے کے بجائے وہیں مرنا پسند کرے گی ۔
کافی دیر تک آنسو بہا لینے کے بعد وہ چپ ہوئی ‘مگر اس کی سسکیاں اب بھی جاری تھیں۔
’’اگر تم کہہ۔۔۔تے ہو۔۔و تو ۔۔و میں ماما۔‘‘
وہ سسکیاں لیتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھی ۔ میں نے اپنی پوری توانائیاں خرچ کر کے خود کو اس سے دور رکھا ہوا تھا۔ شدت جذبات سے میرا پورا جسم کانپ رہا تھا۔میں اس کی حالت نہیں دیکھ سکتا تھا اوررندھے ہوئے لہجے میں بس یہی کہہ سکا تھا ۔
’’میں آج کے بعد آپ کو کبھی کسی بات کے لیے مجبور نہیں کروں گا۔ میں آپ کو ہر قسم سے آزاد کرتا ہوں میم صاب ۔ آپ جو کہیں گی میں وہ کر گزروں گا ۔ میرے لیے آپ کی خوشی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ میں آپ کو اس طرح بلکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ،آپ کی سسکیاں مجھے مار ڈالیں گی۔ میں آپ سے بے حد پیار کرتا ہوں ‘آپ وہی کریں جو آپ کرنا چاہتی ہیں ۔
’’میں ایک بار ماما کے پاس جاؤں گی ۔‘‘
اس کی سسکیوں میں کمی آئی تو اس نے چہرے کو ہاتھوں سے رگڑتے ہوئے کہا تھا ۔
’’میں تمہارے ساتھ زندگی کا بقیہ سفر شروع کرنے سے پہلے دل میں کوئی ملال نہیں رکھنا چاہتی اجنبی ۔ تم نے کبھی سوچا ہے میں تمہیں اپنا نام کیوں نہیں بتاتی ؟ کبھی تمہارا نام کیوں نہیں پوچھتی ؟ تمہیں اجنبی کیوں کہتی ہوں ؟ مجھے ڈر لگتا ہے کہیں تمہیں تمہارے نام سے پکارنا شروع کروں اور تم مجھے میرے نام سے … تب تم بھی اسی طرح پکارا کرو گے ناجیسے پاپا پکارتے ہیں ؟ میں ایسا نہیں چاہتی ۔ مجھے خوف آتا ہے جب کوئی پیار سے مجھے میرے نام سے پکارتا ہے۔ اس کا پیار صرف دھوکا ہوتا ہے۔ جیسے میری ماں پکارتی ہے۔ مجھے دھوکا دیتی ہے۔ میں اس دھوکے کو یقین میں بدل کر یہاں صرف تمہارے لیے لوٹوں گی اجنبی۔ جب اس دنیا میں میرا نام پکارنے کا حق کسی کے پاس باقی نہیں رہے گا۔ تب تمہیں اپنے نام سے پکارنے کی اجازت دوں گی۔ تب تمہیں اجنبی نہیں کہوں گی۔ تم میرا انتظار کرنا‘ اس اعتبار کے ساتھ کہ میرے زندہ رہنے کا جواز اب تم ہی ہو۔‘‘
کہتے ہوئے وہ اس جواری کے مانند لگ رہی تھی جو مسلسل ہارنے کے بعد اب اپنی زندگی کا آخری داوؑ کھیلنے جا رہا ہو ۔
میں نے اقرار میں سر ہلا دیا تھا ،مجھے بس یہی کرنا تھاآج کے بعد ۔
٭…٭…٭
اکتیس دسمبر بروز ہفتہ (2013ء)
اور وہ چلی گئی تھی۔
اسے گئے مہینوں گزر چکے تھے۔ موسم بدل چکا تھا ،وقت بھی بدل چکا تھا‘ مگر میں اب بھی جون کی راتوں میں جی رہا تھا جو میں نے اس کی سنگت میں کاٹی تھیں ۔میری وہی روٹین تھی ،وہی شب و روز تھے۔ وہی مرتضیٰ تھا اور اس کی وہی جلی کٹی باتیں ،وہی چھوٹو تھا اور اس کی وہی مسکراہٹیں اور چھوٹی چھوٹی معصوم باتیں۔وہی کریم پیلس اور اس کی خوبصورت جنگلے میں قید چھت تھی۔بس اب اس کا ایک کونہ بہت اداس دکھتا تھا۔ میری طرح … شاید وہ بھی اس کے انتظار میں جل رہا تھا۔ وہی پارک ‘وہی خاردار لوہے کی تار کی بنی ہوئی باڑھ اور اس کے اندر بنا ہوا سیمنٹ کا بنچ… میں اب بھی رات کے بارہ بجے وہاں جا کر بیٹھتا تھا اور چھت کے اس کونے کو دیکھتے ہوئے اس کی باتوں میں اور اس کی یادوں میں کھویا رہتا تھا۔ مجھے سب یاد تھا ،اس کا ہنسنا ‘ اس کا رونا ‘اس کی اداسیاں اوراس کی ناراضیاں ۔ ابھی کل ہی کی بات تو تھی جب وہ پہلی بار کچے پکے راستے کے اس پار بنے ہوئے محل کی چھت سے مجھے دیکھ کر میرے پاس آئی تھی اور میں ہمیشہ کے لیے اس کا ہو گیا تھا۔ اور وہ‘ وہ تو میرا انتظار کرتی رہی تھی۔برسوں سے ‘تو کیا ہوا اگر اس بار میں انتظار کی سولی پر لٹک گیا تھا۔ اسے تو آنا تھا ۔ اگر جینا تھا تو آنا ہی تھا اور میرے پاس آنے کے علاوہ وہ کہا ںجا سکتی تھی ۔ میں اس کی سانسوں کا تسلسل تھا ‘وہ کیسے میرے بنا رہتی ہو گی۔ یہی سوچ اس کے انتظار کو اور بھی سہل بنا دیتی تھی۔ آج سال کا آخری دن تھا جو گزر چکا تھا ۔ دنیا جشن منا رہی تھی، قیامت آنے میں ایک سال کم ہو گیا تھا۔ بے خبر انسان قیامت کے قرب کی خوشیاں منا رہا تھا۔ وقفے وقفے سے آتی ہوئی فائرنگ کی آواز اور مہران اسٹریٹ پر بارہ بجے اچانک لگ جانے والا موٹر سائیکلوں اور کاروں کا ہجوم بتاتا تھا کہ انسان کتنی بے چینی سے قیامت کا انتظار کر رہا ہے۔ ہیپی نیوائیرکہہ کر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے والے ،نئے سال کی خوشیوں میں مگن تھے اور میں اسی طرح چپ چاپ چھت کے اس کونے کو تک رہا تھا جہاں کبھی ایک مدھم سا اداس اور بے چین ہیولا نظر آتا تھا ۔چھت کا وہ کونہ کتنا سونا لگتا تھا اس کے بغیر…
’’آج وہ بھی نئے سال کی آمد منا رہی ہو گی ؟‘‘
میں نے دل ہی دل میں سوچا تھا ۔
اور جو اس وقت وہ میرے پاس یہاں ہوتی ‘تو نئے سال کا آغاز کتنا خوبصورت ہو جاتا۔
آغاز تو ہو چکا تھا ۔
اور اس آغاز کے ساتھ ہی میری آنکھوں کودھوکا سا ہوا۔
آج مہینوں بعد اس چھت پر پھر کوئی ہیولا آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
میں بے اختیار اُچھل کر کھڑا ہو گیا تھا۔ میری آنکھوں میں ایک تیز چمک ابھر ی تھی۔ میں نے ایک قدم باڑھ کی طرف بڑھتے ہوئے مبہم ہیولے کو غور سے دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کی تھی ۔
یہ وہی تھی…
وہی جس کے جینے کی وجہ میں تھا۔ صرف میں…
مگر یہ اس وقت وہاں کیا کر رہی تھی ؟ اسے میرے پاس ہونا چاہیے تھایہاں۔
میں بے چین ہو کر اُٹھا تھا۔ کاش اس گھر کے دروازے میرے ایسے کسی اجنبی کے لیے کھل سکتے‘تو میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس گھر کی چھت کے اس خوش قسمت کونے پر جا پہنچتا جسے اس کا دیدار مجھ سے پہلے نصیب ہوا تھا جس کا طویل انتظار مجھ سے پہلے ختم ہوا تھا ۔
مجھے چھت کے اس کونے پر رشک بھی آیا اور حسد بھی۔کیا قسمت پائی تھی اس نے۔نئے سال کے پہلے لمحے اس کے حصے میں آئے تھے۔
میں نے ایک قدم اور بڑھایا ۔شاید وہ اس طرف دیکھے ‘شاید اسے بھی کوئی مبہم سا سایہ نظر آ جائے جو شوق دیدار کی آگ میں جلتے جلتے جھلس چکا تھا ‘مگر وہاں آج بے نیاز ی ہی بے نیازی تھی۔ اس نے ایک بار بھی اس طرف دیکھنا گوارا نہیں کیا تھا۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
میں نے ڈوبتے ہوئے دل سے سوچا تھا ۔ اسے سب سے پہلے اسی طرف تو دیکھنا تھا ،جہاں اس کا واحد اپنا اس کے لیے آنکھیں بچھائے بیٹھا تھا ۔
اور پھر ایک انہونی ہو گئی ۔
آج اس کے ساتھ ایک اور سراپا بھی نظر آنے لگا تھا۔ اس سے تھوڑا سا لمبا دکھنے والا جس نے آتے ہی اپنے بازووؑں کے حصار میں لے کر اس کے ماتھے کا بوسہ لیا تھااور اس کے بالکل ساتھ کھڑا ہو گیا تھا۔
’’یہ کون ہو سکتا ہے؟‘‘
میں نے دل کی بے لگام ہوتی دھڑکن کو سنبھالتے ہوئے سوچا تھا۔
’ـ’شاید اس کا باپ۔سیٹھ کریم ‘تو کیا آج انہونیوں کادن ہے ؟‘‘
وہ ٹریفک دیکھ رہی تھی اور وہ اس سے لگ کر کھڑا ہاتھ سے دور دور تک اشارے کیے چلا جا رہا تھا۔
میں واپس آ کر بنچ پر بیٹھ گیا تھا۔ میرے پاؤں میرا وزن اٹھانے سے انکاری ہونے لگے تھے۔ اس کی بے رخی دیکھ کر میرے دل کو عجیب سے ہول اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔
’’کیا وہ مجھے بھلا سکتی ہے ؟‘‘
میری سوچ میں بے یقینی سے زیادہ بے قراری تھی۔
’’نہیں …نہیں …نہیں… ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
کوئی زور زور سے میرے اندر بول رہا تھا۔
تو پھر وہ مجھ سے اتنی بے نیاز ہو کر کیسے کھڑی رہ سکتی ہے ؟مجھ سے انجان بن کر کیسے رہ سکتی ہے ،مجھے نظر انداز کر کے سانس کیسے لے سکتی ہے ؟
اس کے سارے دعوے اور قسمیں…
کیا ہوا ان سب کا۔
میں سوچ سوچ کر پاگل سا ہونے لگا تھا۔
وہ کچھ دیر دوسرے سائے کے ساتھ کھڑی رہی۔ پھر دھیرے دھیرے چلتی ہوئی میری نظروں سے غائب ہو گئی اور وہ نیا سراپا‘ جانے کون تھا وہ اس کے جانے کے بعد کچھ دیر تک یونہی اِدھر اُدھر دیکھتا رہا اور یونہی دیکھتے دیکھتے اس کی نظر مجھ پر آن ٹکی اور پھر مجھے لگا جیسے اس نے ہاتھ ہلایا ہو۔ نئے سال کی مبارکباد دینے کے لیے ‘قرب قیامت کی خوشی بانٹنے کے لیے‘مگر میں جوابی ہاتھ نہ ہلا سکا تھا۔میرے لیے تو آج ہی قیامت آ چکی تھی۔ اس کا ہاتھ ہلا کر خیرسگالی کا مظاہرہ چیخ چیخ کر مجھے کہہ رہا تھا وہ سیٹھ کریم نہیں کوئی اور تھا۔
کوئی اور…؟
اس کی زندگی میں کوئی اور کون ہو سکتا تھا؟
وہ ماں سے ملنے کینیڈا گئی تھی اور وہاں سے کوئی اور بھی اس کے ساتھ چلا آیا تھا اور اس کے اتنا قریب تھا کہ اس کے ماتھے کا بوسہ لینے کی جرأت بھی کر سکتا تھا۔ ان دیکھے اندیشوں اور وسوسوں کے ناگ پھن پھیلا کر میرے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے ۔
کوئی اور …
اس کی زندگی میں کوئی اور تو کوئی شہزادہ ہی ہو سکتا تھا۔
تو کیا وہ وقت آ چکا تھا جسے لاتے لاتے میں خود ہی بھول گیا تھا۔ شہزادے نے تو آنا ہی تھا ایک نہ ایک دن ۔ کہانی مکمل کیسے ہوتی‘ اگر شہزادہ نہ آتا تو ؟
سوچ کاایک اور در وا ہوا تھا۔
’’پرویز گل صاحب !اسے کینیڈا میں وہ شہزادہ مل چکا ہے جسے اس سے ملانے کے خواب آپ دیکھا کرتے تھے ۔ یاد ہے نا آپ کو اپنی اوقات … اس کہانی میں اپنا کردار …کیا ہے آپ کا کردار ؟ ایک معمولی لکڑہارے کا جسے قسمت سے شہزادی مل جاتی ہے۔ پھر ایک شہزادہ آتا ہے اور اس شہزادی کو آپ سے چرا کر لے جاتا ہے اور شہزادی بھی خوشی خوشی اس کے ساتھ چلی جاتی ہے، کیوں کہ آپ کی کہانیوں میں غم کا تو ذکر ہی نہیں ہوتا ۔ آپ بھی تو ہیپی اینڈنگ چاہتے ہیں ہر کہانی کا… تو پھر خوش ہو جایئے نا۔ آپ کی کہانی کا اختتام آپ کی مرضی کے مطابق جو ہو رہا ہے‘ اب ملال کیسا ؟ کہیں لکڑہارے سے ہمدردی تو نہیں ہو گئی آپ کو‘۔تو کیا ہوا ؟ لکڑہارے کی ہمدردی کے بجائے شہزادی کی خوشیوں کا سوچیے۔زندگی میں پہلی بار چھت کے اس کونے پر کوئی شہزادہ اس کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے آیا ہے ۔ آپ اپنے حصے کا کردار نبھایئے اور چپ چاپ شہزادی کی خوشیوں کا جشن منایئے ۔‘‘
میں نے تھک ہار کر سر جھکا لیا تھا۔ چھت پر اب کوئی بھی نہیں تھا۔ نہ وہ جس کے انتظار میں ان گنت رت جگوں کا شکار ہوا تھا اور نہ وہ جس سے ہار کر مجھے شہزادی کی جیت کا جشن منا نا تھا۔
رات گزر گئی تھی اور نئے سال کے پہلے دن دو بجے اس کا ہلکا سا دیدار نصیب ہوا تھا۔جب وہ کالے رنگ کی سیڈان میں بیٹھ کر چھپر ہوٹل کے سامنے سے زن سے گزر گئی تھی اور ساتھ میں ایک خوبصورت کینیڈین شہزادہ بھی بیٹھا ہوا تھا۔
’’اوئے چھوکرے …اِدھرخیال کر ۔لڑکیا ں مت تاڑ …یہاں دیکھ ‘چائے گرتے گرتے بچی ہے ۔‘‘
کسی نے درشت لہجے میں کہتے ہوئے مجھے ٹوکا تھا ۔
اور میں…
جس نے ایک لڑکی کے مکمل ہو جانے کی دعا کی تھی۔ ایک شہزادی کو اس کے شہزادے سے ملنے کی دعا کی تھی۔ اس کے پورے ہونے کے باوجود اندر سے دھیرے دھیرے ٹوٹ رہا تھا ۔ اتنے مہینوں بعد آج پھر کسی کا ’’اوئے چھوکرے ‘‘کہنا سخت برا لگا تھا مجھے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Read Next

بنتِ حوّا — عزہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!