ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

چودہ جون بروز ہفتہ (2013ء)
سات آسمانوں کے پیچھے چھپی ہوئی وہ عظیم ذات ،فیصلے یوں بھی کرتی ہے ؟ جسے ہم شاہ رگ سے زیادہ قریب پاتے ہیں ،ایسے بھی نواز دیتی ہے ؟ اس نے مجھے چن لیا ؟ کسی کی آس کی ٹوٹتی ہوئی ڈوری کو مجھ سے جوڑ دیا؟ جو آج تک خود کو بے وجہ جینے پر مجبور سمجھتی تھی۔ آج اس کے دل کی دھڑکن بنا دیا ؟ میں نے سن رکھا تھا، زندگی کا ہر باب پچھلے باب سے مختلف ہوتا ہے ،جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے، وہ ہمارے سلسلہ حیات میں درج ہو چکا ہوتا ہے اور جسے ہماری آنکھیں دیکھنے کے قابل ہو جاتیں ہیں، وہ بس نظر کا دھوکا ثابت ہوتا ہے۔ میں بے گھر تھا،بے یارو مددگار تھا ،مگر آج کسی کی سانسوں کا ذریعہ بن چکا تھا، کسی کی امیدوں کا محور بن چکا تھا ۔ زندگی امتحان لیتی ہے، اگر یہ امتحان تھا، تو بہت دلفریب ‘ بہت خوبصورت ۔میں پل پل بدلتے زندگی کے رنگوں میں کہیں کیف کی لہروں میں بھٹک رہا تھا‘ سرشار تھا۔ میرے قدم آج واپس کٹیا میں جاتے ہوئے افسردہ نہ تھے۔ ہاں ایسا ہی لگتا ہے‘ چاہے جانے کا احساس بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ میں اس کی سنگت میں گزرے ان لمحوں میں زندگی کا وہ روپ دیکھ کر آیا تھا جسے پا کر لوگ مکمل ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں اتنی ہنگامہ خیزیاں شاید اسی وجہ سے ہیں۔ لوگ ان لمحوں سے بیگانہ رہ کر ادھوری زندگی جینے پر مجبور ہو جاتے ہیں ،وہ اپنا ادھورا پن دنیا کی رعنائیوں میں تلاش کرتے ہیں،مادیت پرستی کی کبھی ختم نہ ہونے والی بھول بھلیوں میں گم ہو کر خود کو کھو بیٹھتے ہیں‘ مگر اپنی ذات کا وہ حصہ کبھی نہیں ڈھونڈ پاتے جو ان کی تشنگی کا سبب ہوتی ہے۔ میں ہواؤں میں اُڑتا ہوا جا رہا تھا۔ اوقات بھولنے لگا تھا ،دنیا کے سارے معیار بودی لگ رہے تھے ۔ بس وہ اور اس کی قربت میں گزرے پل ،ان پلوں میں کی جانے والی باتیں مجھے اپنی کل متاع لگ رہی تھیں۔ میری زندگی کا حاصل وصول لگ رہی تھیں، سامنے کٹیا آچکی تھی اوراذانیں شروع ہو چکی تھیں۔
کیا کہا تھا اس نے ؟ ’’میں آج برسوں بعد نماز ادا کروں گی۔ ‘‘
اک عجیب سی احساس تفاخر کی لہر اٹھی تھی میرے وجود میں ،وہ اللہ کا شکر بجا لانے لگی تھی، کیوں کہ میں اس کی زندگی میں شامل ہو چکا تھا، جسے بہت مان سے اور دل سے اپنا جان کر جانے کتنے عہدو پیمان باندھ گئی تھی وہ ۔





’’اور جو میری ماں مجھے روک لیتی ۔ میں اس شہر کی آب وہوا سے انجان رہ جاتا تب ؟‘‘
تب وہ بھی مجھ سے انجان رہ جاتی اور میں خود سے ؟ کیسے جان پاتا کہ میں کون ہوں ؟ میں تو صرف پرویز گل تھا۔ پر وہ کہتی ہے میں اجنبی ہوں پر اپنوں سے بڑھ کر ہوں۔میں کیسے جان پاتا کہ میں کسی کی ہستی کا گمشدہ پہلو ہوں جسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ پاگل ہو تی چلی جا رہی تھی۔ آج نماز ادا کرکے ایک اجنبی کو دعا میں مانگے گی اور وہ اجنبی میں ہی تو ہوں ۔کیسے جان پاتا کہ ہے کوئی اس شہر میں بھی جہاں انسان راکھ کے ڈھیر میں سوئی کی طرح گم ہو جاتے ہیں ‘مگر وہ مجھے دعاؤں میں مانگتی ہے ۔
میں نے وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑا ہو گیا تھا۔
چھوٹو اور مرتضیٰ اسی طرح غافل سو رہے تھے جیسے چند گھنٹے پہلے میں انہیں چھوڑ کر گیا تھا۔ نماز کے بعد میں نے دعا میں آج بس اسی کی خوشی اور اطمینا ن قلب کا سوال کیا تھا اللہ سے۔ وہ اندر سے کتنی بے سکون تھی، مجھے آج اندازہ ہوا تھا۔ مجھے میرے سب سوالوں کے جواب مل چکے تھے۔ وہ اپنوں کی ستائی ہوئی تھی، ان کی بے رخی سہتے سہتے اس کی روح نا آسودہ ہو چکی تھی۔ میں اس کی آسودگی کے لیے اللہ کے سامنے دست طلب دراز کر رہا تھا ۔
اس نے آج میرے لیے قسم کھائی تھی ،خود سے جڑے ان رشتوں سے منہ نہ موڑنے کی قسم جو اس کے لیے مر چکے تھے ،وہ کسی رشتے کو اعتبار کا درجہ دینے سے انکاری تھی ،پر میری خاطر اس نے یہ قسم بھی اُٹھا لی تھی اور میں اتنا خود غرض کیسے بن جاتا ؟ اسے اس کے اپنوں سے چرا کر کہاں لے جاتا ؟ وہ میری بن چکی ہے میں جان گیا تھا ،مگر اس اپنی کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا ،تو میں اسے اپنے تنگ دائرے میں گھسیٹ کر زندگی کو اس پر بوجھ کی طرح کیسے لاد سکتا تھا۔مجھے بس یہ کرنا تھا ،اسے احساس دلانا تھا کہ میں اس کا بن چکا ہوں اور اب اسی کا رہوں گا۔یہ اپنا پن اس کی تشنگی کو دور کر دے گا۔ برسوں کی پیاس بجھا دے گا ،تب میں اسے زندگی کے حوالے کر دوں گا۔جب وہ اس پر اعتبار کرنا سیکھ لے گی‘جب وہ خود کو اس بھری دنیا میں تنہا محسوس نہ کرے گی ۔تب کوئی شہزادہ آئے گا ۔کہانیوں والا شہزادہ اور اس شہزادی کو اپنے پیار کی طاقت سے لکڑہارے سے چھین کر لے جائے گا۔ لکڑ ہارا‘وہ بھی تو یہی چاہتا ہے کہ اس کی شہزادی زندگی کے آخری پل تک ہیرے اور موتیوں میں تلتی رہے ۔یہ میری کہا نی کا لکڑ ہارا تھا جسے ایک شہزادی کا لکڑیا ں کاٹنا منظور نہیں تھا ۔
رات کے پر سمٹ چکے تھے۔ مرتضیٰ بھی کسمساتے ہوئے اٹھ چکا تھا۔ میں نے جائے نماز تہ کرتے ہو ئے اس کی طرف دیکھ کر پورے خلوص سے کہا تھا۔
’’السلام و علیکم چاچا۔صبح بخیر۔‘‘
میری آواز میں شائستگی اور بشاشت دیکھ کر اس کی آنکھ پوری طرح کھل گئی ۔
’’خیر تو ہے باوؑ… آج بڑے ادب سے سویر دا سلام دے رہے ہو؟ ‘‘
اس کی حیرت بجا تھی ،میں پوری کوشش کے باوجود اس سے بات کرتے ہوئے لہجہ نرم نہیں رکھ پاتا تھا ،مگر آج بات ہی اور تھی۔ آج مجھے اس پر بھی بے طرح پیار آ رہا تھا،وہی تو تھا مجھے یہاں لانے والا۔ اس کٹیا میں بسانے والا،اس شہزادی کے باپ کی گاڑی پر پانی پھنکوانے والا اور مجھے اس کے محل کے سامنے جا کر رونے پر مجبور کرنے والا۔ میں دل ہی دل میں اس کا ممنون ہو رہا تھا۔ اس کی شکل آج مجھے ذرا بھی بری نہ لگ رہی تھی ۔
’’چاچا میں بے ادب تو کبھی بھی نہیں ہوا تمہارا۔‘‘
میں نے میٹھے لہجے میں کہا تھا ۔
’’تم نے مجھے زندگی کی اصل خوبصورتی سے روشناس کروا دیا ،تم نے میری صبح و شام میں دھنک رنگ بکھیر دیے، مجھے میرے ہونے کا احساس دلوایا۔ تمہارا بے ادب کیوں کر ہوں گا میں ۔‘‘
میں دل سے بو ل رہا تھا اور مرتضیٰ مجھے ناسمجھی سے دیکھ رہا تھا ۔ اسے سمجھ میں آ بھی کہاں سکتا تھا۔ تھوڑی دیر تک مجھے تکتے رہنے کے بعد وہ سر جھٹک کر بولا تھا۔
’’اچھا اچھا زیادہ باتیں مت بنا اور چھوٹو کو اٹھا‘کتنا سوتا ہے کم بخت ۔‘‘
وہ ٹوٹی کے پاس پہنچ کر منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگا اور میں چھوٹو کو اٹھانے چلا گیا۔
ہوٹل کھل چکا تھا۔اِکا دُکا لوگ آ رہے تھے۔ میں آج بھاگ بھاگ کر سب سے آرڈر لے رہا تھا۔ ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ آج مجھے کسی کا ’’اوئے چھوکرے ‘‘ کہہ کر پکارنا بھی برُا نہ لگ رہا تھا۔ کپڑوں سے پسینے کی ناخوشگوار بو بھی برُی نا لگ رہی تھی۔ میری آنکھوں میں رت جگے کا شائبہ تک نہ تھا۔ مجھے ہوٹل کے ارد گرد کا منظر بہت صاف اور نکھرا نکھرا لگ رہا تھا۔ کبھی کبھی اچٹتی سی نظر دور سے نظر آنے والے کریم پیلس پر پڑتی‘ تو دھیمی سے مسکان میرے لبوں سے چسپاں ہو جاتی۔ آج زندگی بدلی بدلی لگ رہی تھی یا میں بدل چکا تھا۔
دن اپنی تمام تر خوبصورتی سے گزر رہا تھا اور رات دھیرے دھیرے قریب آ رہی تھی۔ شاید زندگی اپنے دامن سے کچھ اور خوبصورت پل مجھے دان کرنے والی تھی ،کسی کی آنکھوں کا دیپ بن جانا کتنا خوش کن ہوتا ہے ۔ یہ میں نے آج جانا تھا ۔
٭…٭…٭
چودہ جون بروز ہفتہ (2013ء)
’’انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں ۔
اب کوئی میرے لیے تڑپتا ہے ،میں کسی کے لیے اہم ہو چکی ہوں ،میرے آنسو قیمتی ہو چکے ہیں ،ملال دھلتا جا رہا ہے ،شکست کا خوف دل سے نکلتا جا رہا ہے ،اس نے مجھے اپنا مان لیا ہے ،وہ میرے لیے تپتی دھوپ میں ننگے پاوؑں زندگی بتانے کا دعوے دار ہے ،میں نے روٹھی ہوئی زندگی کو منا لیا ہے ،میں نے کسی اپنے کو پا لیا ہے۔ آج میرا تم سے ہر رشتہ ختم ، نہ ضد کا‘نہ جنگ کا۔ میں آج کے بعد تم سے بات نہیں کروں گی ،اس نے مجھے قبول کر کے تمہاری شکست کا سامان کر دیا ہے ،اب منہ تم چھپاتی پھرو ۔۔۔میں آج سے سر اٹھا کر جیوں گی ،تم نے مجھ سے جو کڑی تپسیا کروائی ہے ،اس کے لیے تمہارا شکریہ میری مہربان۔‘‘
آسودگی سے سوچتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ کوئی نہیں بولا تھا ،ہر طرف سکون ہی سکون تھا ۔ وہ نماز فجر ادا کرنے کے بعد اللہ کے آگے سجدۂ شکر بجا لائی تھی۔ اس کے درد سمیٹ کر زندہ انسانوں میں لا کھڑا کیا تھا اسے‘ وہ جو سب کے دلوں کے حال جانتا ہے ،وہ جو نیتیں دیکھ کر فیصلے کرتا ہے ۔ بس ’’کن ‘‘ کہتا ہے اور دنیا کی تاریخ بدل جاتی ہے۔ وہ تو بس اس کی ادنیٰ سی تخلیق تھی اور آج اس نے اس کے لیے بھی دعا کی تھی جو انجانے میں اس کی حسرتوں کو سانسیں بخش گیا تھا۔کتنا الگ سا دکھتا تھا جب اس کے ہاتھ کو ہولے سے تھپتھپاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی سب سے قیمتی چیز اس کے قدموں میں ڈال رہا تھا اور وہ اس قیمتی چیز کو متاع جاں سمجھ کر ہمیشہ سنبھال کے رکھنے والی تھی۔ وہ اس کے سنگ زندگی کا سفر کرنے والی تھی۔ اسے اس کی حالت سے کوئی مطلب نہیں تھا ،وہ اس کی ہو کر رہنے والی تھی ،وہ جہاں بھی رکھے گا ،اس کی اصل جگہ تو اس کے دل میں ہو گی ۔یہی اقرار تو کر کے گیا تھا وہ سانولا سا اجنبی لڑکا۔
سیڑھیاں اترتے ہوئے کچن میں کھڑی فاطمہ پر نظر پڑ گئی تھی اس کی اور اپنے کمرے میں جانے کے بجائے اس کے پاس چلی گئی تھی۔
’’چھوٹی بی بی… میں بس آپ کا ناشتا آپ کے کمرے میں لانے ہی والی تھی ۔‘‘
فاطمہ نے اسے سر پر کھڑا دیکھ کر کہا تھا‘مگر اگلے پل وہ ہکا بکا رہ گئی۔جب رانی نے اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہاتھا۔
’’فاطمہ آنٹی ‘آپ نے کبھی بدمزہ چائے پی ہے ؟ جس کی ایک چسکی آپ کا حلق کڑوا کر دے اور آپ کے لیے وہ چائے آزمایش بن جائے ؟‘‘
’’ہیں جی …نہیں چھوٹی بی بی۔ میں تو ‘میری چائے تو ایسی نہیں ہوتی۔‘‘
فاطمہ بوکھلا کر بولی تھی۔ اس نے کچھ اور ہی سمجھ کے صفائی دینا چاہی تھی‘ مگر رانی نے اس کے لبوں پر انگلی رکھ کر ’’شش‘‘ کی آواز نکالی اور اسے پیچھے کر کے خود چولھے کے پاس کھڑی ہو گئی ۔‘‘
’’تو آج آپ کو میں پلاتی ہوں ایسی چائے ۔‘‘
ماچس کے لیے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
اور فاطمہ ہڑبڑا کر آگے ہو تے ہوئے بولی تھی ۔
’’نہیں میں بنا لیتی ہوں اپنے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی۔ آپ نے اس سے پہلے کبھی چائے نہیں بنائی چھوٹی بی بی۔‘‘
مگر وہ اپنی ہی دھن میں چولھا جلاتے ہوئے اب چائے بنانے کی تیاری کر رہی تھی ۔
’’اسی لیے تو کہا ہے آپ کو کہ آج سے پہلے کبھی بدمزہ چائے پی ہے یا نہیں۔ اب تیار ہو جایئے‘ایک سپ بھی نہیں چھوڑنا آپ نے ۔‘‘
روانی سے بولتے ہوئے چائے بنانا شروع کر دیا تھا اس نے ۔
اپنے اور فاطمہ کے لیے چائے بنانے کے بعد وہ کپ لے کر فرسٹ فلور پر آ گئی تھی۔ لاؤنج میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے کے ارادے سے۔
صبح کے نو بج چکے تھے۔ سیٹھ کریم اپنے کمرے سے تیار ہو کر آفس کے لیے نکل رہے تھے جب لاؤنج میں پہنچ کر انہوں نے رانی کو صوفے پر آڑا ترچھا لیٹے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ بے سدھ سو رہی تھی۔سامنے چائے کا خالی کپ پڑا تھا۔
وہ اس کے قریب پہنچے ‘ٹی وی کا ریموٹ ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا۔ ریموٹ آہستہ سے اس کے ہاتھ سے چھڑا کر ٹی وی آف کیا تھا انہوں نے اور باہر جانے کے بجائے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سیکنڈ فلور پر پہنچ گئے ۔ سامنے فاطمہ کچن میں برتن دھونے میں مصروف تھی ۔
’’سلام صاب جی۔ ‘‘
انہیں کچن کی طرف آتا دیکھ کر اس نے آگے بڑھ کر تیزی سے سلام کیا تھا۔
’’چھوٹی بیگم صاحبہ رات کو کب سوتی ہیں ؟‘‘
اس کا سلام نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھاتھا ۔
’’پتا نہیں صاب جی ‘کمرے میں تو رات کے دس بجے گھس جاتی ہیں ۔‘‘
فاطمہ نظریں چرا کر بولی تھی، کیوں کہ سچ بتانے کی صورت میں سب سے پہلے اسے ہی جھاڑ پڑنی تھی۔ اب وہ کیسے بتاتی کہ بی بی جی رات کمرے میں تو کیا ‘گھر میں بھی نہیں تھیں ۔
’’اچھا۔ ‘‘
انہوں نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔ اچھا… اچھا کو خاصا کھینچ ڈالا تھا۔
’’رات کو دس بجے اپنے کمرے میں چلی گئیں اور صبح کے نو بجے نیچے لاؤنج میں ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو گئیں۔‘‘
سخت لہجے میں اسے گھورتے ہوئے کہا تھا انہوں نے ۔
’’اللہ جانے صاب جی ‘ میں تو خود آج حیران رہ گئی۔ ابھی صبح صبح اُٹھ کر کچن میں آکھڑی ہوئیں تھیں اور خود ہی چائے بنانے لگیں۔ ساتھ میں میرے لیے بھی بنا دی ۔‘‘
وہ ہڑ بڑا کر بول رہی تھی جب انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے کہا تھا۔
’’بس بس …میں جانتا ہوں وہ آدھی آدھی رات تک چھت پر کھڑی رہتی ہیں۔ تم بات کو گول گول مت گھمایا کرو۔ جتنا پوچھا جائے‘ اتنا بتایا کرو اور سچ سچ بتایا کرو ۔‘‘
انگلی کے اشارے سے اسے وارننگ دیتے ہوئے وہ مڑ کر نیچے اتر گئے تھے ۔
اور اسے اسی طرح بے سدھ چھوڑ کر وہ باہر نکل گئے تھے ۔
دن کے بارہ بج رہے تھے جب اس کی آنکھ کھلی ۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر بیڈ پر پڑا ہوا سیل بے دھیانی میں اُٹھایا تھا اس نے ۔
اس کی ماما کی دو کالز آچکی تھیں ۔
وہ بیڈ کے ایک کونے پر ٹکتے ہوئے ان کا نمبر ری ڈائل کر نے لگی ۔
اور دوسری طرف سے پہلی بیل پر فون اُٹھا لیا گیا تھا۔ اسے اپنی ماما کی آواز سنائی دی ۔
’’ہیلو رانی …مائی بے بی‘ کیسی ہو تم ؟ اور ماما کا فون کیوں نہیں اُٹھاتی تھیں۔ ماما سے بات کرنے کو دل نہیں چاہتا آپ کا؟‘‘
اس نے فون کو کان سے ہٹا کر گھورا تھا ۔
کاش… اے کاش یہ آواز سن کر میرے اندر کوئی اچھوتا احساس جا گ اٹھتا جیسے ماں کی ممتا محسوس کرنے سے اُٹھتا ہے‘ گر وہاں سب خالی خالی تھا ۔
’’ہائے مام۔‘‘
اس نے ڈھیلے ڈھالے لہجے میں کہا تھا ۔
’’مجھے بتاؤ کیسی ہو‘کیا کر رہی ہو آج کل …‘‘
’’nothing mom ‘‘
اس نے سپاٹ لہجے میں کہا تھا۔
why my child ? somthing is better then nothing ”””you know it naaa‘‘
’’yaa mom but its okey with me ‘‘
اس نے قدرے بے رخی سے کہا تھا ۔
دوسری طرف چند لمحوں تک خاموشی رہی ‘جیسے سوچا جا رہا ہو ۔ اب کیا بولنا ہے ؟
پھر اس کی ماما کی آواز قدرے ناخوش گوار لہجے میں سنائی دی ۔
’’بیٹا آپ کے پاپا سے میری بات ہوئی ہے ۔ میں چاہتی تھی آپ کچھ عرصہ میرے پاس رہیںیہاں کینیڈا میں ‘مگر آپ کے پاپا نے مجھے دوٹوک انکار کر دیا ۔وہ کہتے ہیں آپ کبھی راضی نہیں ہوں گی اور وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آپ مینٹلی ڈسٹرب ہیں اور کسی سائیکالوجسٹ کے پاس آپ کا علاج بھی چل رہا ہے۔ بیٹا آئی نو کہ آپ کے پاپا ایک کئیر لیس انسان ہیں۔ اسی لیے میں چاہتی تھی کہ آپ کچھ عرصہ میرے پاس رہتیں تو بہتر محسوس کرتیں ۔‘‘
اس کی ماما نے ایک اچھی ماما کی ڈیوٹی نبھانے کی پوری کوشش کی تھی‘ مگر اب اس کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اس نے انہیں خود ہی ان کی ہر ذمے داری سے آزاد کر دیا تھا ۔
’’no mom its okey i am fine, dont so worry about me and bye mom i actually have somthing to do now‘‘
بے جان لہجے میں کہتے اس نے فون بیڈ پر پھینک دیا اور آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی تھی۔
تھوڑی دیر تک خود کو ہر زاویے سے اچھی طرح دیکھنے کے بعد اس نے گنگناتے ہوئے وارڈروب کا جائزہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اپنے لیے ایک اسٹائلش سے سوٹ کا انتخاب کر کے وہ واش روم میں گھس گئی تھی۔ آج اسے اپنے چاہنے والے سے ایک نئے انداز میں ملنا تھا۔ اس کا بھی حق تھا کہ کوئی اسے سراہتی ہوئی نظروں سے دیکھے اور اپنی قسمت پر رشک کرے ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Read Next

بنتِ حوّا — عزہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!