ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

چودہ جون بروز ہفتہ (2013ء)
’’میں کیا چاہتی ہوں ؟‘‘
اس نے خاموشی کے طویل دورانیے میں صرف یہی سوچا تھا کہ اب ‘ اب وہ بتائے گا کہ وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہاں اس کے پاس بیٹھا ہے ۔ وہ اس کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر پارک کے اس بنچ پر بیٹھا ہے۔ وہ اس کے منہ سے اپنے لیے اس کی شدتیں سننے کی متمنی تھی،جب وہ چپ تھا۔ اسے لگا لفظ ڈھونڈ رہا ہو گا ،اظہار کے لیے ۔
مگر اس کے بے تاثر لہجے میں پوچھے گئے ایک ہی سوال نے رانی کو ششدر کر دیا تھا ،آخر کب ؟کب وہ اجنبی سے آشنائی تک کا سفر طے کر پائے گا ،کب وہ سمجھ پائے گا کہ اجنبی یوں رات کو کسی پارک کے کونے میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے بولنے کا انتظار نہیں کرتے اور ایسے سوال بھی نہیں کرتے ،جیسے اس نے کیا تھا ۔کیا وہ اب تک انجان ہے ؟ کیا اسے اب بھی بھروسا نہیں ہے ؟ میرے آنسو اتنے بے وقعت ہیں اس کے لیے ؟نہیں ‘وہ انجان نہیں ہے ،اجنبی نہیں ہے ،وہ انجان بن کر رہنا چاہتاہے ‘مگر کیوں ؟
’’کیوں کہ تم رانیہ کریم خان ہو …ہاہاہا۔‘‘
اسے شدت کی ٹھوکر لگی تھی ،سر جھٹکتے ہوئے اُٹھ کر وہ پارک کی گھاس پر چار قدم چل کے رکی تھی اور اسے دیکھا تھا جو سر جھکائے جانے کس سوچ میں گم تھا ۔
’’تم اب بھی واپس جا سکتی ہو ،اسے کچھ بتائے بغیر ،اپنی محرومیوں کی لمبی داستان سنائے بغیر ،اسے کسی آزمایش میں ڈالے بغیر… تم اب بھی واپس جا سکتی ہو ۔‘‘
وہ پزل سی کھڑی تھی ،کسی فیصلے پر پہنچنا چاہتی تھی ۔
’’آپ جانا چاہتی ہیں‘ تو چلی جائیں ۔مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں ہے ۔‘‘
اس نے پلٹ کر اسے دیکھا جو اس سے مخاطب تھا‘ مگر نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔
وہ واپس آ گئی ۔





’’تم پوچھ رہے تھے نا ‘میں کیا چاہتی ہوں ؟ تمہیں شکوہ کرنے کا حق دینا چاہتی ہوں ،کیا تم یہ حق لینا چاہو گے ؟‘‘
پارک کے پیچھے گزرتی مہران اسٹریٹ پر اِکا دُکا گاڑیاں اب بھی چل رہی تھیں۔ پارک کے سامنے کریم پیلس والا راستہ بالکل سنسان پڑا تھا۔ لڑکے نے سر اٹھا کر سنسان راستے پر نظر جماتے ہو ئے کچھ کہا تھا‘ مگر بہت دھیرے سے ۔
’’میری زندگی اس رستے کی طرح ہے ۔بالکل سنسان اور بے رونق ۔‘‘
رانی نے دونوں بازوؤں کی کہنیاں ران پر ٹکا کر ہاتھوں کے پیالے میں اپنا چہرہ تھامتے ہوئے اس کی بات سنی تھی ۔وہ اس کے جھکے سرکو اٹھتے اور پھر جھکتے دیکھ کر راستے کی طرف دیکھنے لگی ۔
’’یہ راستہ ہر وقت بے رونق نہیں رہتا ۔ یہاں سے دن میں درجنوں گاڑیاں گزرتی ہیں۔ان میں سے ایک میری بھی ہے ،درجنوں لوگ گزرتے ہیں جن میں سے ایک تم بھی ہو۔ بچے گزرتے ہیں ،اسکول کا بیگ تھامے اپنی اپنی گاڑی کو پکڑنے کے لیے ،اچھلتے کودتے اور ہنسی بکھیرتے۔ یہ راستہ چوبیس گھنٹے سنسان نہیں ہوتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے تمہارے چوبیس گھنٹے ایک جیسے نہیں ہوتے ۔‘‘
رسان سے کہتی ہوئی وہ خود پر حیران ہوئی جا رہی تھی ۔ اپنے لیے آج تک وہ کبھی مثبت نہ سوچ سکی تھی یا اسے سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا اس کی اپنی پرچھائی نے۔
’’میرے چوبیس گھنٹوں میں گاڑیوں کا شور ہے ،لوگوں کی چیخ و پکار اور ہنسی اڑاتی نظریں ہیں ،ہنسی بکھیرتی آوازیں نہیں ،آپ نے سچ کہا چوبیس گھنٹے ایک سے نہیں ہوتے ۔لمحہ بہ لمحہ مشکل ہوتے چلے جاتے ہیں میری زندگی کے چوبیس گھنٹے ۔‘‘
پست آواز ،نظریں زمین پر جیسے کوئی گناہ سرزرد ہو گیا ہو بول کر۔
’’تم میری طرف دیکھ کر بات کر سکتے ہو ۔‘‘
وہ اجازت پر اجازت دیتی چلی جا رہی تھی‘مگر اس کا ہمنوا اسے رد کرتا چلا جا رہا تھا۔ وہ احتجاج کرنا چاہتی تھی پر کیسے کرتی ؟ ابھی تو حق بھی نہیں ملا تھا اسے …کس برتے پر کرتی ؟
’’میں ایک مزدور کا بیٹا ہوں جو چھے ماہ پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔ میری ماں اور میں یہاں سے ایک ہزار کلو میٹر دور ایک گاوؑں میں مٹی سے بنے ہوئے گھر میں رہتے ہیں۔ آپ نے آج تک ایسا سرونٹ کوارٹر بھی نہیں دیکھا ہو گا جیسا میرا گھر ہے۔ میرے ماں باپ مجھے پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتے تھے ،آپ کے پاپا کی طرح ‘مگر قسمت نے مجھے مرتضیٰ چاچا کے چھپر ہوٹل کا بیرا بنا دیا۔ میں زمین پر چلنے والے ان کروڑوں لوگوں میں سے ایک ہوں جو صرف خوابوں کی دنیا بسا سکتے ہیں ‘انہیں سچ کا روپ نہیں دے سکتے جن کے ہاتھوں میں لکیروں کی جگہ دراڑیں ہوتی ہیں اور وہ اپنی ساری زندگی دے کر بھی ان دراڑوں کو نہیں بھر پاتے۔ میں اس شہر میں اچھی نوکری ڈھونڈنے آیا تھا ۔ سوچا تھا سیٹ ہو جاؤں گا‘ تو ماں کو بھی بلوا لوں گا۔ میں نے انسانوں کی بھیڑ میں رلتے ہوئے اس شہر کو بھی اپنے گاؤں جیسا ہی سمجھ لیا تھا جہاں باہر نکلتے ہی دہاڑی آرام سے مل جاتی تھی اور میں اپنے گھر کے چولہے کو رواں رکھنے میں کامیاب رہتا تھا،مگر اس شہر میں گزرے یہ تین دن اور تین راتیں میرے چھوٹے چھوٹے خوابوں کا قبرستان بن چکی ہیں ۔ میری دنیا بہت چھوٹی ہے میم صاب اتنی کہ آپ جیسے لوگ اسے کبھی دیکھ نہیں پائیں گے ،کبھی ڈھونڈ نہیں پائیں گے۔ آپ تو خوابوں کی وہ شہزادی ہیں جن کے لیے لاکھوں شہزادے ایک دوسرے کا خون بہا کر پوری دنیا میں سرخ سیلاب لا سکتے ہیں۔ آپ میری سوچ سے بہت اوپر ہیں … میں آپ کی اس قدر مہربانی پر صرف حیران ہو سکتا ہوں میم صاب ۔ آپ تو گھڑی بھر کے لیے کسی سے بات بھی کر لیں وہ ہمیشہ کے لیے آپ کا ہو جائے گا ۔میں معمولی انسان ہوں ،آپ کو سمجھ نہیں پا رہا ۔‘‘
کھلتے ہوئے سانولے رنگ کا لمبا سا لڑکا آج کھل کر بولا تھا ،تھک ہار کے بولا تھا ۔ اس کی آواز میں در آنے والا درد محسوس کر کے رانی تڑپ اٹھی تھی ،مگر وہ اسے روکنا نہیں چاہتی تھی ۔ اس کے سارے راز جان جانا چاہتی تھی ۔اسے دل سے اپنانا چاہتی تھی ،تبھی خود پر ضبط کر کے کچھ بھی بولے بغیر اسے سن رہی تھی ۔
’’مجھے بچپن میں میری ماں کہانیاں سنایا کرتی تھی میم صاب ۔ ایک لکڑ ہارا میرے جیسا اور ایک شہزادی آپ جیسی … ان کی کسی کہانی میں لکڑہارا اور شہزادی پہلی بار خوش نہیں رہ پاتے تھے ۔ پھر میں روٹھ جایا کرتا اور میری ماں ان کے تمام دکھ اپنے لفظوں سے چن کر مجھے خوش کر دیا کرتی تھی ۔ تب میں خوش ہو جایا کرتا تھا میم صاب‘ مگر آج میں جا ن گیا ہوں کہ ہر رات پہلی بار وہ مجھے سچی کہانی سناتی تھیں اور جب میں سچ سن کے مچل جاتا تھا ۔تب جھوٹ بول کر مجھے خوش کر دیا کرتیں تھیں ۔سچ وہ نہیں ہے جو آپ چاہتی ہیں جو میں چاہتا ہوں ‘سچ و ہ ہے جو آپ پہلے سے جانتی ہیں اور میں بھی ۔‘‘
سنسان رات میں اس کی دھیمی دھیمی بھاری آواز جو شدت جذبات سے رندھنے لگی تھی ۔ رانی کو بے طرح اپنی طرف کھینچتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے سچے لہجے سنے ہی کب تھے ؟ اس انوکھی آواز اور لہجے میں دھیرے دھیرے جذب ہو رہی تھی وہ ۔
’’میں پوری زندگی کی کمائی لگا کر آپ کا ایک پل بھی نہیں خرید سکتا میم صاب ،آپ انمول ہیں ،بہت خوش نصیب ہو گا وہ جسے زندگی بھر کے لیے آپ کی ہم نوائی ملے گی ۔میں وہ خوش نصیب نہیں ہو سکتا میم صاب ،میں تو شاید اب پوری زندگی آپ کے ان لمحوں کا حساب بھی نہیں چکا پاؤں گا جو آپ نے میری جھولی میں زبردستی ڈال دیے ہیں ۔‘‘
اورایسا کون سا لفظ باقی رہ گیا تھا جسے سن کر وہ معتبر ہو جاتی ۔وہ سرنگوں تھا ‘اس کے جذبوں کی سچائی کے آگے۔بس ڈرتا تھا دنیا سے اور یہ ڈر ختم کرنا اس کا فریضہ اوّل بن چکا تھا جو برسوں سے کسی اپنے کے انتظار میں آنکھیں خشک کر چکی تھی ۔
وہ اس کی سوچی ہوئی ہر کسوٹی سے گزر چکا تھا ۔
اس کے اندر چھپے ہوئے سارے اندیشے پل بھر میں غائب ہو گئے تھے اور جب اندیشے ختم ہوتے ہیں تو زندگی کی تصویر بہت خوبصورت لگنے لگتی ہے ۔
آج خول پوری طرح ٹوٹنے کا وقت آ چکا تھا ۔
اس نے سر ک کر اس کے اور اپنے درمیان کا فاصلہ ختم کیا تھا۔
اور دھیرے سے اپنا ہاتھ گود میں دھرے اس کے دونوں ہاتھوں کے اوپر رکھ کر بلا کی ملائمت سے کہا تھا۔
’’میں نے اپنا ہم نوا ڈھونڈ لیا ہے جس کی زندگی پر آج سے صرف اور صرف میرا اختیار ہو گااور میرا ہر پل اس کی ذات سے جڑا ہو گا۔ میری ہر سوچ اس کے لیے ہو گی اور اس کی ہر خواہش کا محور میری ذات ہو گی۔ میں آج اس پل اس ہستی کو گواہ بنا کر تمہیں اپنا مان رہی ہوں جسے میرے جذبوں کی سچائی کے لیے کسی گواہ کی ضرورت نہیں ہے‘وہ دلوں کے حال جانتا ہے ۔‘‘
وہ عہدو پیمان باندھ رہی تھی ،دل کی گہرائیوں سے اسے تسلیم کر رہی تھی اور وہ بت بن چکا تھا۔ اس کے ہاتھ گزرتے پل کے ساتھ ٹھنڈے پڑتے جا رہے تھے ۔
’’کہو اجنبی !کیا تم اب بھی اجنبی بن کر مجھ سے بات کر پاؤ گے۔ کیا تم اب بھی میری طرف نہیں دیکھو گے ،کیا تم اب بھی مجھ سے پوچھو گے کہ میں کیا چاہتی ہوں ؟ میں تمہارے ساتھ اپنی زندگی کا ہر پل بانٹنا چاہتی ہوں، میں اپنے سارے دکھ سنا کر تمہارے کندھے پر سر رکھ کر روناچاہتی ہوں ۔ اس بھری دنیا میں صرف تم نے زندگی کے درد کو نہیں سہا ہے۔میں بھی ان لوگوں میں سے ایک ہوں جن کے ساتھ زندگی اچھا سلوک نہیں کرتی ۔ میں بہت تنہا ہوں ‘بہت اکیلی ہوں اجنبی …تم نے دوسروں کے ہاتھوں درد اٹھائے ہیں۔ اپنوں سے ملنے والی تکلیف کیسی ہوتی ہے ،یہ تم نہ جان سکو گے ۔میں بھری دنیا میں اکیلی ہوں اجنبی۔ تمہارے پاس ماں تو ہے، مجھے تو میری ماں نے تب چھوڑ دیا جب میں ٹھیک سے ماں بولنا بھی سیکھ نہیں پائی تھی ۔ میرے باپ نے میرے لیے کوئی خواب نہیں دیکھے ‘اسے میری کامیابیوں اور ناکامیوں سے کبھی سروکار نہیں ہے۔ تم خوش نصیب ہو اجنبی تمہارے اپنے تمہارے اپنے بن کے رہے ہیں ۔میں نے اپنوں کی شکل میں صرف اجنبیت دیکھی ہے ۔ اسی لیے آج ایک اجنبی کو اپنا بنا کر اس کے کندھے سے لگ کر اپنا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہوں ۔میں بھی سکون کی نیند سونا چاہتی ہوں ۔ اس احساس کے ساتھ کہ کوئی ہے جو میری خاطر جاگ سکتا ہے ۔ میں خود سے لڑتے لڑتے تھک گئی ہوں اجنبی۔ میرے اندر کوئی ہے جو پچھلے پندرہ سال سے میری ہر سوچ پر قابض ہے ،مجھے خوفزدہ کر کے اپنی تسکین کرتا ہے۔ مجھے کہتا ہے کہ میں یونہی بے مول رہوں گی ،ان چاہی رہوں گی ،میں تنہائی سے لڑتے لڑتے مر جاؤں گی اور میں اپنوں کی غیریت سہتے سہتے دفن ہو جاؤں گی۔ میں نے اس رات بغاوت کر دی‘جب تم سے مل کے آئی تھی۔ میں اس رات اپنی پرچھائی کے خلاف پہلی بار ڈٹ کر کھڑی رہی تھی ۔میں اپنی پرچھائی سے ڈر کر آنکھیں بند کر لینے والی لڑکی ہوں اجنبی ‘ مگر تمہارے لیے میں نے اس سے لڑنا سیکھ لیا ہے ۔میں تمہارے لیے خود سے لڑ سکتی ہوں‘ تو دنیا کی کیا اوقات ہے ؟مجھے ایک بار صرف ایک بار یقین دلا دو اجنبی کہ تم میرے اپنے بن کر کبھی اجنبی نہیں بنو گے۔میں نے اپنوں پر آج تک اعتبار نہیں کیا ‘ لیکن تم پہرکر رہی ہوں ۔میرا بھروسہ کبھی مت توڑنا ۔ ایک بار اپنے لفظوں سے مجھے اپنا مان لو۔‘‘
وہ اس کے کندھے سے لگ کر بلک بلک کر رو رہی تھی۔ بھرم ٹوٹا تھا‘ مگر آج نہ توڑتی تو زندگی بھر نہ توڑ پاتی ۔
وہ پوری طرح اس بوجھ سے آزاد ہو جانا چاہتی تھی جسے برسوں سے سہتی چلی آ رہی تھی ۔
چھپر ہوٹل کا سانولا لڑکا چپ چاپ اسے روتے ہوئے سن رہا تھا۔ وہ بچوں کی طرح ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ جیسے تین دن پہلے وہ روتا ہوا یہاں تک پہنچا تھا ۔
کچھ دیر بعد رانی کی ہچکیوں میں کمی آئی تھی۔ تب اس نے محسوس کیا ، وہ جانے کب سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر تھپتھپا رہا تھا۔ اس نے روتی ہوئی سرخ آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا جو اب پورے استحقاق کے ساتھ اس پر نظریں گاڑے ہوئے تھا اور جب بولا تو پہلی بار رانی کو محسوس ہوا ،کوئی مرد اس سے مخاطب ہے ۔
’’وقت اور حالات کل مجھے کہاں لے جائیں میں نہیں جانتا ،مگر آج اس پل میں پوری ایمانداری سے اقرار کرتا ہوں کہ آپ میرے دل پر قابض ہو چکی ہیں۔ میں اپنی پوری زندگی آپ کی خوشیوں کی خاطر ننگے پاؤں دھوپ میں کھڑے رہنے کو تیار ہوں‘ مگر آپ کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا‘آپ کو قسم کھانی ہو گی کہ آپ میری خاطر اپنوں کو نہیں چھوڑیں گی۔ آپ ان کی عزت کا پاس رکھیں گی بالکل ایسے ہی جیسے آج سے آپ میری عزت کا پاس رکھیں گی ۔‘‘
گھمبیر لہجے میں کہتا ہوا وہ اسے بڑی آزمایش میں ڈال رہا تھا۔
’’میرا آج سے پہلے تک کوئی اپنا نہیں تھا۔‘‘
اس نے احتجاج کیا تھا ۔
’’اپنوں کے اپنے پن کو سمجھنے میں بعض اوقات دیر ہو جاتی ہے ۔ہم ان سے ناراض ہو سکتے ہیں‘ مگر انہیں جھٹلا نہیں سکتے۔ آپ سے کچھ بھی نہیں مانگ رہا ۔ اس لیے کہ آپ کو کچھ دینا بھی میرے اختیار میں نہیں ہے۔ بس ایک قسم آپ کو میری خاطر کھانی ہو گی، اس کے بعدمیں آپ سے زندگی بھر کچھ نہیں مانگوں گا۔‘‘
مضبوط لہجے میں کہتا ہوا وہ اس کے لیے کوئی راہ فرار نہ چھوڑ رہا تھا۔
’’تم مجھے اس احساس کی حفاظت کرنے کا کہہ رہے ہو جس کا گلا میں نے برسوں پہلے اپنے ہاتھوں سے گھونٹ ڈالا تھا ۔ مجھے آج ،بس آج اس پل احساس ہوا ہے کہ اس دنیا میں میرا کوئی اپنا بھی ہے۔‘‘
اس نے پھر بھی فرار ہونے کی کوشش کی تھی ۔
’’اور اس اپنے کی التجا آپ کبھی رد نہیں کریں گی۔ آپ کو یہ قسم تو کھانی ہی ہو گی ۔‘‘
اس کے لفظوں سے چھلکتا مان بے بس کر گیا تھا رانی کو ۔
’’ٹھیک ہے ،میں قسم کھاتی ہوں ‘مگر ایک قسم تمہیں بھی کھانی ہے۔ میرے اپنوں کی خاطر تم مجھے کبھی نہیں چھوڑو گے ۔‘‘
’’مجھے منظور ہے۔ ‘‘
اس نے بلا تاخیر کہا تھا۔
وہ ابھی تک اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے تھا ۔
اذان کی آواز نے دونوں کے ہاتھوں کو الگ کیا تھا ۔ وہ آج اپنے ہاتھوں پر کسی اپنے کا لمس پا کر مسرور تھی۔
اس نے دل سے نماز فجر کی نیت کی اور اُٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔
’’میں آج برسوں بعد نماز فجر ادا کروں گی ۔آخر اللہ کو مجھ پر رحم آ ہی گیا ۔‘‘
کہہ کر تیزی سے چلتی ہوئی وہ باڑھ پھلانگ گئی ۔
اور آج کریم پیلس کی روشنیاں اسے بہت اچھی لگ رہی تھیں ،دل کا موسم اچھا تھا۔
اور جب دل کا موسم اچھا ہو ‘تو کائنات کے سارے موسم پیارے لگتے ہیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Read Next

بنتِ حوّا — عزہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!