ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

تیرہ جون بروز جمعہ (2013ء)
وحشت ہجر غم یار سے ڈر لگتا ہے عشق سچا ہو تو دلدار سے ڈر لگتا ہے
ٹوٹ جائے نہ بھرم میرے صنم خانے کا دل کے اجڑے ہوئے مہ خوار سے ڈر لگتا ہے
یہ تو ممکن ہی نہیں درد محبت نہ ملے چرچاء حسن پہ گفتار سے ڈر لگتا ہے
ایک نظرجس کی میری سانس چرا لیتی ہے ایسے جذبوں کے خریدار سے ڈر لگتا ہے
زندگی فخر جوانی میں گزاری شبنم اب مجھے وقت کی رفتار سے ڈر لگتا ہے
وہ بستر پر لیٹی کسی شاعر کی غزل بڑے ترنم سے گنگنا رہی تھی ۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور دل ہولے ہولے اس کے منہ سے نکلتے لفظوں کی لے پر دھڑک رہا تھا۔آج پہلی بار وہ ہار کر آ رہی تھی۔بے مول ہو کر آ رہی تھی۔ پہلی بار کچھ مانگ رہی تھی‘کچھ دان کررہی تھی۔ اپنی آنکھوں کے دو قیمتی موتی کسی پر نچھاور کر آئی تھی وہ اور اب کمرے کے خنک ماحول میں لیٹ کر گزرے پلوں کے حصار میں رہ کر سوچنا چاہتی تھی ۔
’’کیا سوچتا ہو گا وہ میرے بارے میں ؟‘‘
اسے کوئی جواب نہیں ملا ۔ وہ جو اسے کٹھ پتلی کی طرح نچا کر خوش ہوتی تھی۔ آج چپ تھی ،جیسے مر گئی ہویا اپنی شکست تسلیم کر لی ہو۔ وہ اس انگڑائی کونہیں دبا سکی تھی جو اس کی باندی نے اچانک ہی لے کر اس کی پہنائی ہوئی ساری زنجیریں توڑ ڈالیں تھیں ایک ہی جھٹکے میں‘ نہیں شاید وقفے وقفے سے ۔
’’بتاؤ نا‘کیا سوچتا ہو گا؟‘‘
رانی کو اس کی چپ بری طرح کھل گئی۔ وہ اسے بتانا چاہتی تھی ،آج پہلی بار میں نے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے انوکھے رنگ دیکھے ہیں ۔ کسی کی آنکھوں میں اپنے لیے شدت دیکھی ہے ،اپنی بے مول ذات کے لیے کسی کو ترستے دیکھا ہے‘مگر آج اسے خود سے جواب نہیں مل رہا تھا۔اس کے اندر کوئی خاموش بیٹھا تھا،جیسے تماشا دیکھنے کا متمنی ہویا تھک گیا ہو ۔
’’تم نہیں بتا سکتیں ۔تم حیرت زدہ ہو‘کوئی مجھے بھی پیار کر سکتا ہے ؟ مجھے ‘رانیہ کریم خان کو اپنی زندگی مان سکتا ہے ؟تم آج نہیں بول پاؤ گی ۔ میں تمہیں سننا چاہتی ہوں ۔بولو ‘جواب دو ۔کہہ دو کہ آج اس کی آنکھوں میں چھپے رنگ دیکھ کر تمہیں احساس ہوا کہ تم غلط ہو ۔ کوئی مجھے بھی چاہ سکتا ہے ‘ میری خوشی کا احساس کر سکتا ہے۔کچھ بولو یا کہہ دو کہ جو آج میں دیکھ کر آئی ہوں‘ وہ بھی جھوٹ ہے ؟ فریب ہے ؟نظر کا دھوکا ہے ؟ ۔۔۔۔بولو ؟‘‘
کوئی نہیں بول رہا تھا ،جیسے بولنے کے لیے کچھ باقی نہ ہو اس کے پاس ،لفظ ختم ہو گئے ہوں ۔
’’تم اس طرح منہ چھپا کرنہیں بیٹھ سکتیں۔ تم میری جواب دہ ہو۔ہاں‘آج تم میری جواب دہ ہو ؟‘‘
وہ بیڈ سے اُٹھ کر قد آدم آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور دوسری طرف نظر آنے والی اپنی پرچھائی کو غصے سے گھورنے لگی ۔





’’کہہ دو کہ آج بھی غلط کر آئی ہوں میں۔ اس سے بھیک مانگ کر اپنا سودا سستے داموں میں کر آئی ہوں ،بے قیمت ہو کر واپس آئی ہوں۔ اس کی خاموشی میں میرے لیے کچھ بھی نہیں چھپا تھا ۔ وہ بس حیرت زدہ تھا۔ آج بھی مجھے پاگل سمجھ رہا تھا۔کہہ دو کہ آج بھی میں زبردستی اس کے راستے میں آئی ہوں ۔ وہ تو بھاگ رہا تھا ،چوری چوری مجھے دیکھتے ہوئے تیز چلنے لگا تھا۔بے خبر کہ میں کل رات اس کی خاطر جاگی ہوں ۔پل پل تڑپی ہوں‘مگر وہ میری تڑپ ،میری بے قراری ،میری بے بسی کو عجوبے کی طرح دیکھ رہا تھا۔کہہ دو وہ اب اس طرف کبھی نہیں آئے گا کہ وہ اور بھی خائف ہو گیا ہے ،کہہ دو کہ اس نے مجھے کسی آس یاامید کا کوئی سرا نہیں تھمایا اور مجھے اس کی نم آنکھوں میں اپنے لیے ہمدردی نظر آ رہی تھی۔وہ ہمدردی جسے میں پیار کی قندیل سمجھ کر اپنی اندھیر زندگی میں روشنی بھرنے جا رہی تھی ۔کہہ دو نا۔۔۔۔۔‘‘
ہونٹ بھینچ کر آنسو بہاتی ہوئی وہ پرچھائی کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی ۔وہ کچھ دیر چپ رہی۔ پھر اس نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا۔
رانی آنسو بھول کر اس کے قہقہے کو دیکھ رہی تھی ۔
’’جو مجھے کہنا تھا ،وہ تم نے خود ہی کہہ دیا ،میں تو صرف تمہاری سوچ ہوں ،تمہاری پرچھائی ،جو سچ سے واقف ہے ،تم مجھے دھوکا دے کر راہ فرار چاہتی ہو تو جاؤ بھاگ کر دیکھ لو۔میں ہر دم تمہارے ساتھ رہوں گی ،تمہاری ذلت کا تماشا دیکھنے کے لیے دنیا تو ہو گی ،مگر میرا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ جب تم مجھ سے منہ چھپانے کے لیے قبر کا رستہ چنو ‘میں تمہارے قبر میں اترنے تک تم پر خوب ہنسوں ۔میں اب چپ رہوں گی ۔تم کر لو من مانیاں ‘مگر اتنا جان لو تمہارے ہاتھوں پر بنی لکیریں ان مٹ ہیں۔ تم انہیں بدلنا بھی چاہو تو بدل نہیں سکتیں ،تم انہیں مٹانا چاہو تو یہ مٹ نہیں سکتیں ‘تم نے آج بھیک مانگ لی اور کل اپنی موت مانگنا ۔‘‘
وہ بیڈ پر آ کر لیٹ گئی اور آنکھیں بند کر لیں ۔
’’مجھے بس تمہیں سننا تھا ،دیکھنا تھا تم ابھی تک زندہ ہو یا آج میری کامیابی دیکھ کر مر گئی ہو ؟‘‘
اندھیرے میں ابھرتی ہوئی سوچ کی لہروں کو مخاطب کر کے اس نے کروٹ بدلی ۔
سوچ کی لہریں ڈوبنے لگیں تھیں ،اسے کوئی جواب نہ مل سکا ۔آج کا دن اور بھی سست تھا ۔وہ صبح سے کمرے میں بند پڑی تھی ،کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا۔ فاطمہ بار بار کمرے کے چکر لگا رہی تھی‘مگر ہر بار بند دروازہ اسے چڑا کر واپس بھیج دیتا۔
’’کچھ کھانے پینے کو دل ہی نہیں کر رہا۔ ہاں‘بد مزہ چائے پینے کو چاہ رہا ہے ۔‘‘
اس نے سوچا اور تیزی سے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔آئینے کے سامنے اپنا بکھرا حلیہ سیٹ کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی تھی اس نے ،تیزی سے سیڑھیاں اترتی وہ عجلت میں کہیں جانے کو تیار تھی۔ جب باہر سے ہارن بجنے کی آواز آئی ،اگنیشن میں لگی ہوئی گاڑی کی چابی پہرجمے اس کے ہاتھ پل بھر کے لیے ڈھیلے پڑ گئے تھے ۔
کمال چاچا نے دروازہ کھولا تھا ۔ سیٹھ کریم کی گاڑی زن سے داخل ہوئی اور پورچ میں کھڑی بلیک سیڈان کے برابر پہنچ کر رک گئی۔ اپنی جون میں گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ اترنے ہی والے تھے جب ساتھ والی گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی رانی نظر آئی۔ انہوں نے ہاتھ پر بندھی گھڑی دیکھی اور تعجب سے اسے دیکھتے ہوئے اپنی طرف والا شیشے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
رانی گاڑی کو ریورس گیئر میں ڈالناچاہتی تھی ،ناک کی سیدھ میں دیکھتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔
’’بولیے پاپا؟‘‘
انہوں نے پھر شیشہ کھٹکھٹایا۔
انہیں اس کی آواز سننے میں دقت ہو رہی تھی۔ گاڑی کا شیشہ بند ہونے کی وجہ سے رانی نے ان کی طرف دیکھے بغیرشیشہ نیچے کیا اور سامنے دیکھتے ہوئے ان کے بولنے کا انتظار کرنے لگی ۔
اس کی آنکھوں میں لکھی ہوئی بیزاریت صاف پڑھی جا سکتی تھی ۔
’’آپ اس وقت کہا ں جا رہی ہیں کوئین؟‘‘
’’papa non of your business‘‘
اس نے قدرے اونچی آواز میں جھنجلا کر کہا تھا ،جیسے ان کے اس سوال پر اسے بہت غصہ آیا ہو۔
behave your self queen ,i am your father you can’nt talk to me like this‘‘
رانی نے اس بار ڈائریکٹ ان کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی‘ مگر پھر سر جھٹک کر سامنے دیکھنے لگی ۔
’’آپ کو اپنے پاپا کو بتانا چاہیے کہ آپ اس تپتی دوپہر میں کہاں جا رہی ہیں ؟ــ‘‘
سیٹھ کریم نے اس بار قدرے نرم لہجے میں کہا تھا۔
’’مگر پاپا آپ نے تو آج تک کبھی نہیں بتایا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ کیوں جا رہے ہیں ؟ اور نہ ہی آپ بے جا سوال کر کے میری پرسنل لائف میں دخل دے سکتے ہیں ۔۔۔۔remember papa this is our standard ‘‘
اس نے انہیں ان کی کہی ہوئی بات لوٹائی تھی ۔
’’okey ……..as you wish ……do what you want to do ‘‘
سخت لہجے میں بولتے ہوئے وہ پیچھے ہٹے تھے اور یہ اچھا ہی کیا تھا انہوں نے ۔ اگر ایک لمحہ بھی دیر ہو جاتی تو شاید ان کا پاؤں ریورس گیئر میں جاتی ہوئی سیڈان کے بھاری بھر کم ٹائر کے نیچے آ سکتا تھا۔
’’دن بدن مشکل ہوتی جا رہی ہے یہ۔ ‘‘
پیشانی مسلتے ہوئے وہ سوچ رہے تھے۔ رانی کی گاڑی گیٹ کے باہر جا چکی تھی۔ وہ تیزی سے چلتے ہوئے مین گیٹ کے پاس آئے ،کمال چاچا گاڑی کے آندھی طوفان کی طرح گزر جانے کے بعد گیٹ بند کر رہا تھا۔
’’چھوٹی مالکن اس سے پہلے بھی اس وقت یا دن میں کہیں آتی جاتی رہتی ہیں ؟‘‘
سرسری لہجے میں کمال چاچا کی طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے پوچھا تھا۔ نوکروں کو منہ لگانا ان کی فطرت کے خلاف تھا۔ خصوصاً اپنے گھر کی کوئی بات ان سے کرنا تو ناممکنات میں سے تھا ،مگر دن بھر آفس میں رہنے والے سیٹھ کریم اپنی اکلوتی بیٹی کی مصروفیات سے یکسر لاعلم تھے۔ وہ کب یونیورسٹی جاتی تھی ،کب واپس آتی تھی ،جاتی بھی تھی یا نہیں اور کہاں کہاں جاتی تھی ۔یہ سب آج سے پہلے تک انہوں نے جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔ پھر رانی کی تنہائی پسند طبیعت سے بھی اچھی طرح واقف تھے ۔ اس کی آدم بیزاری کے قصے تو اکثر وہ اپنے قریبی دوستوں سے بھی سنتے رہتے تھے جنہیں وہ مختلف ایونٹس پر اپنے گھر مدعو کرتے تھے ‘مگر آج اس وقت اسے گاڑی میں سوار کہیں جانے کے لیے دیکھ کر انہیں عجیب سا لگا تھا۔یہ گاڑی رانی کی انیسویں سالگرہ پر گفٹ دینے کے لیے خریدی تھی انہوں نے جسے ایک مہینے تک اس نے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اس گاڑی کو ہمیشہ پورچ میں رانی کا انتظار کرتے دیکھا تھا اور آج جب وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ان سے عجیب انداز میں بات کر رہی تھی ‘ وہ اس کے اندر آئی انوکھی تبدیلی محسوس کیے بنا نہ رہ سکے تھے ۔ اسی لیے کمال چاچا سے سرسری لہجے میں اپنی اکلوتی بیٹی کی مصروفیات دریافت کررہے تھے ۔
کمال چاچا اس گھر کا پرانا خادم تھا۔ رانی کی پیدائش پر کریم صاحب کے تمام حلقۂ احباب میں پارٹی کا انویٹیشن کارڈ بانٹنے والا وہی تھا۔ رانی اس کے سامنے بڑی ہوئی تھی ۔ وہ اس گھر میں آنے والی یکدم تبدیلیوں سے ہمیشہ پہلے سے واقف ہو جاتا تھا‘ مگر اس نے کبھی گھر کے کسی معاملے میں بولنے کی جرأت نہیں کی تھی۔ سیٹھ کریم کا رویہ اور بڑی بیگم صاحب کے نخوت بھرے انداز نے کبھی اس کے اندر ہمت ہی پیدا نہیں کی کہ وہ ان کی توجہ رانی کی طرف مبذول کروانے کے لیے کچھ کہہ پاتا۔ بڑی بیگم صاحب کے کینیڈا جانے کے بعد اکیلے گھر میں ماں اور باپ کی توجہ کو ترسنے والی کم سن بچی کا شور شرابا اسے آج بھی یاد تھا ۔ ماں کے جانے کے بعد چند سال اس نے کیسے گزارے تھے ؟یہ بات سیٹھ کریم سے زیادہ کمال چاچا جانتا تھا۔
پچھلے تین دن سے رانی میں آنے والی اچانک بہت ساری تبدیلیاں اس نے محسوس کر لی تھیں۔ اس رات بارہ بجے گھر سے باہر پارک میں جانا،اجنبی لڑکے سے ملنا اور واپس آ کر صبح تک چھت پر کھڑے ہو کر گھڑی گھڑی پارک کی طرف دیکھنا ۔ یہ سب کچھ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور گزشتہ رات کے اس رت جگے سے بھی واقف تھا جس کا خاتمہ صبح کے سات بجے اسی لڑکے کے سامنے جا کر ہوا تھا۔ کمال چاچا جانتا تھا کہ اس گھر میں پھر کوئی بڑا طوفان آنے والا ہے ‘مگر وہ بول نہیں سکتا تھا ،بتا نہیں سکتا تھا۔ رانی کی ایسی دیوانگی اس سے پہلے آج تک اس نے نہ دیکھی تھی۔ صبح سات بجے ننگے پیر بھاگتے ہوئے وہ گیٹ پر آئی تھی اور ایک لمحے کا انتظار کرنے کی راوادار نہیں تھی۔ کمال چاچا نے پھولے ہاتھوں سے دروازہ کھولا تھا اور اسے سامنے کھڑے بچے کا ہاتھ تیزی سے پکڑ کر روکتے ہوئے دیکھا تھااور پھر ایک سانولے سے لڑکے کے پاس جاتے ہوئے دیکھا تھا۔
’’میں کیا پوچھ رہا ہوں تم سے؟بہرے تو نہیں ہو گئے تم ۔‘‘
سیٹھ کریم کی غصیلی آواز اسے ہوش میں لے آئی تھی ۔
’’صاب چھوٹی مالکن تو بس یونیورسٹی ہی جاتی ہیں کبھی کبھار ۔ورنہ کمرے میں ہی بند رہتی ہیں۔ آج اللہ جانے کہاں جا رہی تھیں؟‘‘
اس نے ڈھیلے ڈھالے لہجے میں جھوٹ بول کر سر جُھکا لیا تھا۔
’’اچھا بس بس …تمہیں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کہاں گئیں ہیں اور ہاں انہیں مت بتانا کہ میں نے تم سے کچھ پوچھا تھا۔ تم نوکروں کو خواہ مخوا کن سوئیاں لینے کی عادت ہوتی ہے ۔‘‘
حقارت سے کہتے ہوئے سیٹھ کریم اندر چلے گئے تھے۔
اور کمال چاچا سوچ میں ڈوبی نظروں سے انہیں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
٭…٭…٭
تیرہ جون بروز جمعہ (2013ء)
ایک اور سوال جو اس کے باپ کو دیکھ کر میرے دل میں اٹھا تھا۔
اسے سوچتے ہوئے میں ہوٹل تک پہنچا تھا۔ مرتضیٰ پھٹے پر بے ہنگم انداز میں پڑا خراٹے مار رہا تھا۔ چھوٹو نے اندر داخل ہو کر ایک گلاس میں پانی ڈال کر مجھے دیا ۔اس ننھے بچے نے میری حالت کو جان لیا تھا اور صبح کے واقعے سے متعلق ذہن میں اٹھتے ہوئے بے شمار سوالوں کو دل میں ہی دبا دیا تھا ۔
میں نے پانی کا گلاس منہ سے لگایا اور ایک ہی سانس میں غٹاغٹ چڑھا گیا ۔
ہوٹل کے باہر دور دور تک کوئی ذی روح نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہاں صبح کے وقت لوگ آتے تھے یا پھر ڈھلتی ہوئی شام کو ۔ دوپہر کو میرے سامنے تو ایک دو کے علاوہ ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا۔ اسی لیے مرتضیٰ پھٹے پربے ہوش پڑا تھا۔
میں نے گلاس چھوٹو کو پکڑایا اور پھٹے کے ایک کونے میں ترچھا لیٹ کر چھپر کی چھت دیکھنے لگا ۔
باہر کوئی گاڑی آئی تھی اور پھر بریک لگنے کی آواز ۔گاڑی ایک آواز کے ساتھ رکی تھی ۔
چھوٹو نے پلٹ کر باہر کی طرف دیکھا ۔
اور بھاگتا ہوا میرے پاس آیا۔ میں نے چھت سے نظریں ہٹا کر چھوٹو کو دیکھا اور اس کی نظروں کا پیچھا کرتے ہوئے آج کے دن میں دوسری بار اسی چہرے کو جس نے مجھے آگہی کا عذاب دے ڈالاتھا۔ میٹھی اذیت کیا ہوتی ہے ؟ مجھ سے پوچھا اور مجھے ہی بتا ڈالا تھاجس کے آنسوؤں نے مجھے پل بھر میں معتبر کر ڈالا تھا۔وہ ہی میرے سامنے پھر کھڑی تھی۔
’’میں نے مرتضیٰ کی طرف دیکھا ‘ وہ ویسا ہی دھت پڑا تھا۔ چھوٹو نے اس بار منہ کھول کر دیکھنے کے بجائے مسکرا کر اسے اور پھر مجھے دیکھا تھا۔
’’مجھے چائے پینی ہے۔‘‘
اس کے لہجے میں تحکم تھا یا التجا …میں سمجھ نہیں پایا تھا۔
’’ابھی لایا بیگم صاب۔ ‘‘
چھوٹو نے جلدی سے کہا‘ مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے میری طرف دیکھاتھا۔
’’مجھے بدمزہ چائے پینی ہے جس کی ایک چسکی حلق تک کڑواہٹ بھر دے جسے پینا ایک آزمایش کی طرح ہو اور ایسی چائے صرف یہی بنا سکتا ہے میرے لیے ۔‘‘
اس نے میری طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا اور چھپر سے باہر رکھی ہوئی کرسیوں میں سے ایک اٹھا کر اندر کر لی۔
میں پھٹے سے اٹھ کر چولہے کے پاس چلا گیا۔
اس نے چھوٹو کوپکڑ کر قریب کرتے ہوئے پوچھا۔
’’آپ کا نام کیا ہے۔ ‘‘
’’مجھے سب چھوٹو بلاتے ہیں۔ ‘‘
چھوٹو نے تھوڑا سا شرما کر لجائے ہوئے انداز میں کہا تھا ۔
’’اچھا اور یہ بڑے پیٹ والے انکل ‘ان کا نام ؟‘‘
’’مرتضیٰ۔ ‘‘
اس نے صرف نام بتانے پر اکتفا کیا ۔
’’اچھا۔ ‘‘
وہ اچھا کہہ کر کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی تھی اور میں چائے بناتے ہوئے مسکرانے پر مجبور ہو گیا تھا۔
’’آپ کا نام کیا ہے ؟‘‘
چھوٹو نے اچانک ہی اس سے پوچھ لیا تھا۔
میری تمام حسیات سمٹ کر میرے کانوں میں منتقل ہو چکی تھیں ۔
میں پیچھے مڑ کر دیکھ نہیں سکتا تھا۔ وہ دونوں میری پشت کے پیچھے بیٹھ کر ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرنے میں مصروف تھے ۔
’’میں اپنا نام تو کسی کو نہیں بتاتی پر چلو آپ کو ایک شرط پر بتا دیتی ہوں ۔‘‘
وہ بچوں والا انداز اپناتے ہوئے بہت اثر انگیز ہو جاتی تھی ،میرے کانو ں نے گواہی دی تھی ۔
’’کیسی شرط؟‘‘
چھوٹو نے معصوم انداز میں سوال کیا تھا۔
’’آپ میرا نام کسی کو نہیں بتاؤ گے ۔ یہ بڑے پیٹ والے مرتضیٰ انکل کو بھی نہیں اور یہ لمبے قد والے لڑکے کو بھی نہیں ۔‘‘
اس نے میری طرف اشارہ کیا ہو گا ،مگر میں دیکھ نہیں سکتا تھا صرف سن سکتا تھا اور یہ اچھا ہی تھا ۔کانوں کی سب سے بڑی خوبی ہے ،یہ صرف سن سکتے ہیں ،بول نہیں سکتے ۔ کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتے ،اپنی طرف کھینچ نہیں سکتے ،مگر آنکھوں کی زبان لفظوں سے بھی زیادہ آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے اور وہ آنکھیں پڑھنے کے فن میں طاق لگتی تھی ۔ مجھے اندر کہیں اپنی آنکھوں سے خوف محسوس ہوا تھا۔ مبادا سچ اگل دیں اور کوئی نیا امتحان مجھے اپنی کسوٹی پر پرکھنے لگ جائے اور کوئی نئی انوکھی داستان رقم ہو جائے جس کے اختتام پر میں خالی ہاتھ اس کے در پر ٹھوکریں کھاتا نظر آؤں ۔ مجھے بچپن سے ایسی کہانیاں سخت ناپسند تھیں جن میں لکڑہارا شہزادی کو پانے کی خاطر اپنی جان گنوا دیتا تھا یا شہزادی لکڑہارے کی وجہ سے اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنی زندگی مشکل بنا دیتی تھی۔ میں دونوں کو پوری کہانی میں ہنسی خوشی رہتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا،مگر ماں اکثر مجھے کہانیاں سنا کر ناراض کر دیا کرتی تھی اور جب میں بسور کر کروٹ بدل لیتا تھا ،تب بہت پیار سے مجھے اپنی طرف کھینچتے ہوئے سینے سے لگا کر کہتی تھی ’’وہ تو صرف خواب تھا ،اصل کہانی تو اب شروع ہو گی۔ ‘‘ اور اصل کہانی میں جو میری ماں کے اپنے دماغ کی اختراع ہوتی تھی ۔کہیں کوئی مشکل موڑ نہیں آتا تھا ،نہ شہزادی کامحل رکاوٹ بنتا تھا اور نہ لکڑہارے کی کٹیا۔ میں دونوں کی خوشی بھری زندگی کی کہانی سنتے سنتے سو جاتا تھا اوراگلے دن پھر ایک نئی کہانی کی فرمائش کرتا تھا۔
’’ان کو بھی نہیں بتانا آپ کا نام ؟‘‘
چھوٹو حیرت بھرے لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
کیوں ؟ ان میں کیا خاص بات ہے ؟‘‘
اس نے ’’ ان ‘‘ پر اچھا خاصا زور دے کر کہا تھا۔
’’اچھا نہیں بتاؤں گا ان کو بھی۔ ‘‘
چھوٹو نے راضی ہوتے ہوئے کہا تھا،اسی پل میں نے چائے کا کپ ٹرے میں رکھا اور واپس مڑا۔
وہ چھوٹو کے کان میں منمنا رہی تھی ۔
’’کتنا اچھا نام ہے آپ کا۔ ‘‘
چھوٹو نے بچو ں کی طرح قلقاری مار کر کہا تھا۔
اور اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹرے میں رکھا چائے کا کپ اٹھا لیا تھا۔میں اس کی طرف دیکھنے سے اجتناب کر رہاتھاجو آج صبح میری دی ہوئی ’’میٹھی اذیت ‘‘ کو اکیلے سہنے کے دعوے کر رہی تھی ،اس وقت میرے سامنے بیٹھ کر چائے پینے میں مصروف تھی۔ بدمزہ چائے جسے پینے سے اس کا حلق کڑوا ہو جاتا تھا‘ مگر وہ چسکیاں لے لے کر پی رہی تھی ۔
میں آنکھوں میں مچلتے رنگوں کو چھپانے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھاجیسے مجھے بہت سارے کام کرنے ہوں جو اس کی آمد کی وجہ سے رک گئے ہوں۔ وہ خاموشی سے چائے پی رہی تھی‘ مگر میں جانتا تھا میں اس کی نظروں کے حصار میں ہوں ۔
یہ میری زندگی کے عجیب ترین لمحات تھے جنہیں لفظوں میں بیان کرنا بھی ایک کٹھن آزمایش ہے ۔ میں نے ماحول پر ایک گہری نظر ڈال کر خود کو اندر سے ٹٹولا تھا۔پھٹے پر سوتا ہوا مرتضیٰ ،گم صم کھڑا چھوٹو اور باہر سے آنے والی ٹریفک کی آواز کے ساتھ میں اس سے کچھ کہنے کے لائق تھا ؟ میں نے گھر سے نکلنے کے بعد آج صبح پہلی بار آئینہ دیکھا تھا ۔ میرا چہرہ خود میرے لیے اجنبی بن چکا تھا۔ بھلے میں گاؤں کا دہاڑی کرنے والا مزدور سہی‘ مگر میری اٹھان اور گندمی مائل رنگ کی تعریف میرے طبقے کی بہت ساری لڑکیاں کرتیں تھیں۔ آج میں نے آئینے میں اپنی جگہ کسی اور کو دیکھا تھا،پژمردہ سا چہرہ لیے آنکھوں میں یاسیت کے ساتھ پتا نہیں کون تھا وہ ؟
’’تم جتنا سوچو گے اتنا الجھو گے ‘ زیادہ سوچو مت ۔‘‘
مجھے گم صم اور نظریں چراتا دیکھ کر وہ ہولے سے بولی تھی ۔
میں نے اب بھی اس کی طرف دیکھنے سے گریز کیا تھا۔مجھے اس سے بات کرنے کا سوچتے ہوئے بار بار اپنی اوقات یاد آجاتی تھی۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ کچا آنگن گھوم جاتا تھا جس سے کہانیوں کی شہزادی کی طرح دکھنے والی اس لڑکی کی آنکھیں نامانوس ہوں گی۔مجھے اپنی حالت پر ترس آنے لگتا تھا۔ میں چاہتاتھا اس سے کچھ بولوں کچھ ایسا جو اس اذیت کو کم کر سکے جس کا انکشاف آج اس نے مجھ پر کیا تھا ۔
’’میں آج رات چھت پر نہیں گزاروں گی۔‘‘
اس نے کہہ کر پل بھر کا توقف کیا۔میں سر جھکائے کھڑا تھا۔
’’پارک کے اس بنچ پر گزاروں گی۔‘‘
اس کی چائے ختم ہو چکی تھی۔ جانے سے پہلے اس نے چھوٹو کے ہاتھ میں پانچ ہزار کا نوٹ پکڑایا۔
’’یہ ٹپ نہیں تمہارا انعام ہے چھوٹو ۔‘‘
گاڑی میں بیٹھ کر اس نے آخری بار میری طرف دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔ سب کچھ نارمل لگ رہا تھا، ایک کسٹمر آتا ہے، میرے ہاتھ کی بنی چائے کی فرمائش کرتا ہے۔ چھوٹو سے گپیں لڑاتا ہے اور اسے بھاری ٹپ انعام میں تبدیل کرکے دے جاتا ہے ۔یہ چھوٹو کی ایک مہینے کی تنخواہ سے بھی کہیں زیادہ پیسے تھے۔ اس کے جانے کے بعد وہ نوٹ پکڑے میرے پاس آیا تھا اور میں نے نوٹ اس کی جیب میں ڈال کر اس کا گال تھپتھپایا تھا ۔ میٹھی میٹھی مسکان سجا کر بولنے والا بچہ نوٹ پا کر بہت خوش تھا۔
شام کے بعد رات ہولے ہولے اپنے پر پھیلا رہی تھی اور میں متفکر سا اندر باہر ہو رہا تھا۔ میں جانتا تھا آج وہ پارک میں ٹہلتے ہوئے رات گزار دے گی۔ اس نے اب تک جو کہا تھاوہ کر کے دکھایا تھا۔ میں ابھی تک اس کی شکل کے علاوہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا ،مگر مجھے گزرے تین دنوں میں اس کے ارادوں کی پختگی پر دل ہی دل میں اسے داد دینی پڑی تھی۔ وہ جو ٹھان لیتی تھی وہ کر کے دکھاتی تھی پر میں ابھی تک الجھا ہوا تھا۔ آخر مجھ میں ایسا کیا نظر آ گیا تھا اسے ؟ یہ خیال مجھے سوچنے پر مجبور کر دیتا تھا کہ میں اس کے اور اپنے درمیان حائل طبقاتی فرق کو جانچنے لگ جاؤں اور میں جب بھی ایسا کرتا اور بھی سہم جاتا ۔
دس بج چکے تھے۔ مرتضیٰ نے مجھے اور چھوٹو کو بنچ اور کرسیاں اندر رکھنے کے لیے کہا اور خود پھٹے پر لیٹ گیا۔
ذرا سی دیر میں چھوٹو اور مرتضیٰ،دونوں نیند کی پرسکون وادی میں اتر چکے تھے‘ مگر میری آنکھوں میں نیند کا دور دور تک کوئی شائبہ نہ تھا۔ مجھے رہ رہ کر اس کا خیال ستائے جا رہا تھا۔ میرے اندر چھڑی جنگ ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس سے ملنے جانے کا مطلب اپنے سارے راز افشا کرنا تھا۔میں اسے لاعلم رکھنا چاہتا تھا اور وہ مجھے زیر کرنے پر تلی نظر آرہی تھی ۔
’’زیادہ بات ہی نہیں کروں گا۔بس پوچھوں گا وہ کیا چاہتی ہے ؟‘‘
میں نے خود کو تسلی دے کر اُٹھنا چاہا‘مگر دوسری سوچ نے پھر مجھے لیٹے رہنے پر مجبور کر دیا۔
’’اس نے تو اسی دن بتا دیا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے ،جب وہ تم سے اپنے باپ کی معافی مانگنے یہاں تک پہنچ گئی تھی ۔تم کیا چاہتے ہو یہ سوچو؟‘‘
میں زمین پر لیٹ کر سوچتے سوچتے تھک چکا تھا۔ اُٹھ کر تکیہ گود میں لیے میں نے رشک سے سوتے ہوئے چھوٹو کو دیکھا تھا۔
بچپن زندگی کا سب سے خوبصورت دور اسی لیے ہوتا ہے کہ انسان اور فرشتے میں فرق نہیں ہوتا۔اللہ نے انسان کی شروعا ت بہت خوبصورتی سے کی ،بچپن سے ،مگر اس خوبصورت وقت کا دورانیہ بڑا ہی مختصر رکھا ہے۔ شعور کی سیڑھیاں ہمیں زندگی کی تلخ سچائیوں تک لے جاتی ہیں ،سب کچھ بدل جاتا ہے ۔ آج اس وقت شعور کی دنیا سے پرے گہری نیند سوتا ہوا چھوٹو چند سال بعد ساری زندگی اس نیند کو ترستا رہے گا…بالکل میری طرح۔
اور ایک اور بھی ہے جو بے سکون ہے ۔ مجھ سے بھی زیادہ ۔ ہاں مجھ سے بھی زیادہ لگتی ہے۔ اس کا حال میرے سامنے صحرا میں چلتے اس مسافر کی طرح کیوں ہو جاتا ہے جو صدیوں سے سائے کی تلاش میں بھٹکتا پھر رہا ہو؟
میں اس کی توقعات نہیں جانتا ۔میں اس کی امیدوں کا مرکز کیسے بن سکتا ہوں؟ میں تو خود ادھورا ہوں کسی اور کو کیسے پورا کر سکتا ہوں؟
تاریخ بدل چکی تھی ۔
میں ابھی تک ویسے ہی بیٹھا سوچ رہا تھا’’وہ اب تک بیٹھی ہو گی ؟‘‘
دل نے فوراً سے پہلے کہا تھا ــ’’ہاںوہ اب بھی بیٹھی ہو گی اور بیٹھی رہے گی۔ جب تک تم نہیں جاؤ گے اور جو نہیں جاؤ گے ،وہ کل پھر آئے گی ،تمہارے ہاتھ کی بد مزہ چائے پینے ۔‘‘
’’کل پھر ؟‘‘
میں اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔اس کا بار بار یہاں آنا مجھے مصیبت میں ڈال سکتا تھا ’’آج مجھے اس سے پوچھنا ہی ہو گا ،وہ کیا چاہتی ہے ؟‘‘
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Read Next

بنتِ حوّا — عزہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!