ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

بائیس جون بروز اتوار (2013ء)
اپنے شاندار آفس میں بیٹھ کر کافی پیتے ہوئے سیٹھ کریم لیپ ٹاپ سامنے سجائے مگن تھے جب ان کے موبائل فون پر بیپ ہوئی،لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر انہوں نے ٹیبل پر پڑے فون کی طرف دیکھا ۔ اسکرین پر ’’کوئین ‘‘ لکھا ہوا دیکھ کر انہوں نے عجلت سے کافی کا مگ سائیڈ پر رکھا اور کال ریسیو کی ۔
’’ہیلو کوئین ۔‘‘ کہتے ہوئے ان کی آواز میں حیرت نمایاں تھی ۔
’’پاپا آپ آج ڈنر میرے ساتھ کر سکتے ہیں ؟‘‘
انہیں اپنی اکلوتی بیٹی کی آواز سنائی دی تھی ۔ ویسی ہی بے تاثر ،مگر آج کچھ نہ کچھ انوکھا بھی تھا اس میں ۔
’’بالکل کر سکتا ہوں بہ شرط یہ کہ آپ میرے آنے تک جاگ پائیں۔ ویسے میں جانتا ہوں آپ مہران اسٹریٹ کے خالی ہونے تک جاگتی رہتی ہیں اور مہران اسٹریٹ پر سب سے آخر میں آنے والی گاڑی آپ کے پاپا کی ہی تو ہوتی ہے ۔‘‘
بشاش لہجے میں بولتے ہوئے آخر میں ہنس پڑے تھے وہ ۔
’’میں آپ کا انتظار کروں گی ۔‘‘
اس نے کہا اور فون کاٹ دیا تھا۔
سیٹھ کریم نے اچانک خاموش ہو جانے والے فون کو دیکھا اور سائیڈ پر رکھ کے کافی کا مگ اُٹھا لیا تھا۔ کچھ دیر تک لیپ ٹاپ پر مصروف رہنے کے بعد انہوں نے انٹر کام پر کسی کو ہدایات دی تھیں اور جلدی جانے کا بتا کر پھر سے لیپ ٹاپ میں مگن ہو گئے تھے ۔
اور آج کافی عرصے بعد کمال چاچا نے آٹھ بجے ان کی گاڑی کا ہارن سن کر حیرت سے دروازہ کھولا تھا۔
گاڑی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد وہ تیزی سے چلتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئے تھے۔ سامنے رانی بیٹھی حسب عادت ٹی وی دیکھنے میں مگن تھی۔
’’ہائے کوئین۔ ‘‘ کہہ کر اس کے پاس ہی بیٹھ گئے تھے وہ ۔
’’ہائے پاپا۔‘‘ کہہ کر وہ اُٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔
’’آپ کہاں جا رہی ہیں۔میں آپ کے لیے جلدی آیا ہوں ورنہ اچھا خاصا کام تھا آج آفس میں ۔‘‘
وہ جتلا رہے تھے۔





’’جانتی ہوں پاپا ۔ کھانے کی ٹیبل پر بات ہو گی۔ابھی آپ فریش ہو جائیں ۔‘‘
کہتی ہوئی وہ اوپر چلی گئی اور سیٹھ کریم کندھے اُچکا کر اپنے کمرے میں چلے گئے تھے ۔
تھوڑی دیر بعد دونوں باپ بیٹی آمنے سامنے کھانے کی ٹیبل پر موجود تھے ۔ سیٹھ کریم بار بار سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھے جا رہے تھے ۔
’’پاپاہم نے آخری بار کب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا ۔کچھ یاد ہے آپ کو ؟‘‘
کھانا شروع کرتے ہوئے بہ ظاہر نارمل سے انداز میں پوچھا تھا اس نے ۔
اور سیٹھ کریم کے سالن کے ڈونگے کی طرف بڑھتے ہاتھ پل بھر کے لیے رکے تھے۔
’’آئی ایم سو سوری بیٹا ۔آپ جانتی ہیں نا آپ کے پاپا کتنے بزی ہوتے ہیں۔ اب یہ بھی تو نہیں ہو سکتا کہ ہماری کوئین پاپاکے انتظار میں سوکھ سوکھ کر دبلی ہوتی رہے ۔ اس لیے پاپا چاہتے ہیں کہ ان کی رانی اپنے وقت پر کھانا کھا لیا کریں ۔‘‘
اسے بچوں کی طرح پچکارتے ہوئے وہ ماحول کو ایسے ہی نارمل رکھنا چاہتے تھے جو اکثر دونوں کا آمنا سامنا ہونے پر ذرا سی دیر میں تلخ ہو جاتا تھا۔
’’آپ کو کیسے پتا چلتا ہے کہ میں وقت پر کھانا کھا لیتی ہوں ؟‘‘
اس کے سوال انہیں ہمیشہ سے عجیب لگتے تھے ۔
’’کیا مطلب بیٹا ؟ اس گھر میں نوکروں کی کمی تو نہیں ہے جو مجھے ہر وقت آپ کی فکر ستاتی رہے۔ اگر آپ کو کسی سے شکایت ہے تو بتایئے ۔ میں ابھی اسے نکال باہر کرتا ہوں۔‘‘
اور ان کا جواب سن کر وہ مسکرا دی تھی۔ کیا کچھ نہیں تھا اس مسکراہٹ میں۔ طنز، شکایت اور مایوسی… مسکراہٹ میں بھی مایوسیاں در آیا کرتی ہیں ،پر یہ تو مسکرانے والے ہی جانتے ہیں۔ دیکھنے والوں کو وہ اکثر اوقات بس مسکراہٹ ہی لگتی ہے جیسے اس وقت سیٹھ کریم کو وہ صرف مسکراتی ہوئی رانی لگی تھی ۔
’’بس آپ یونہی مسکراتی رہا کریں۔ آپ کی مسکراہٹ میں آپ کے پاپا کی جان ہے۔‘‘
مطمئن ہو کر کہتے ہوئے وہ کھانے کی طرف متوجہ ہو چکے تھے ۔
’’آپ نے جواب نہیں دیا پاپا؟‘‘
’’کس بات کا ؟‘‘
بے دھیانی میں کہتے ہوئے وہ کھانا شروع کر چکے تھے۔ اس بات سے قطعی بے نیاز کہ ان کے شروع کرتے ہی اس نے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔
’’ہم نے آخری بار کب مل کر کھانا کھایا تھا؟‘‘
وہ اپنا سوال دہرا رہی تھی ۔
’’بیٹا آپ کے پاپا کی یادداشت ان معاملات میں بہت کمزور ہے ۔ دماغ میں بہت ساری ضروری چیزیں ہوتی ہیں ،اس لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو یاد رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ویسے مجھے لگتا ہے زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا ہو گا۔ آپ کی سالگرہ کے بعد د و یا تین بار تو ہم لوگ اکٹھے ہو ہی چکے ہیں ڈنر پر ۔‘‘
روانی میں کہتے ہوئے وہ اس سے زیادہ کھانے کی ٹیبل کی طرف متوجہ تھے ۔
’’میں ہم دونوں کی بات نہیں کر رہی ہوں پاپا۔‘‘
کچھ دیر تک انہیں بہ غور کھاناکھاتے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے کہا تھا۔
’’تو پھر آپ کس کی بات کر رہی ہیں رانی ؟‘‘
وہ اب بھی کھانا کھاتے ہوئے ایسے ہی بے خیالی میں پوچھ رہے تھے ۔
’’ہم تینوں کی۔ ‘‘
اس نے مختصراً کہا تھا ۔
’’تیسرا کون؟‘‘
وہ ابھی تک اس کی باتوں پر غور کیے بغیر کھانا کھاتے ہوئے جواب دیتے چلے جا رہے تھے ۔
’’ماما… ‘‘
اور اس ایک لفظ نے پانی پیتے ہوئے سیٹھ کریم کو کھانسنے پر مجبور کر دیا تھا ۔پانی کا گلاس ٹیبل پر رکھ کر غور سے دیکھا تھا اس بار اپنی رانی کو انہوں نے اور اس کی خالی پلیٹ دیکھ کر اور بھی حیران ہو گئے تھے۔
’’آپ نے ابھی تک کھانا شروع نہیں کیا؟‘‘ حیرت سے پوچھتے ہوئے وہ اسے دیکھ رہے تھے۔
’’آپ میری بات کا جواب دیجیے پاپا… میں ،آپ اور ماما ۔ہم تینوں نے آخری بار کب ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا؟‘‘
اس کی آواز اونچی اور لہجہ سخت ہو گیا تھا۔
’’آپ کو اچانک کیا ہو جاتا ہے رانی ۔یہ طریقہ ہے پاپا سے بات کرنے کا ؟ ایک بے تکی سے بات کو لے کر آپ بحث پر اتر آتی ہیں۔ پندرہ سال ہو گئے آپ کی ماما کو گئے ہوئے ‘میں کیسے بتا سکتا ہوں کہ ہم نے آخری بار کھانا کب کھایا تھا اور آپ اس وقت ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی قابل نہیں ہوئی تھیں ۔ صرف چار سال کی تھیں آپ ؟‘‘
شدید غصے میں کہتے ہوئے چمچ زور سے پلیٹ میں پٹخا تھا انہوں نے ۔
’’یہی سننا چاہتی تھی میں پاپا کہ جب میں آپ دونوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کے قابل بھی نہیں ہو سکی تھی۔ تب آپ نے ماما کو جانے کیوں دیا ‘روکا کیوں نہیں انہیں ؟پوچھا کیوں نہیں ان سے کہ میرا کیا بنے گا ؟ میں تو کسی لائق بھی نہیں تھی۔ چل پھر نہیں سکتی تھی ،بول نہیں سکتی تھی ۔مجھے ان کی ضرورت تھی نا پاپا‘تب آپ نے انہیں کیوں جانے دیا ـ؟ ‘‘
وہ چلا اٹھی تھی۔
سیٹھ کریم بیٹی کا یہ روپ دیکھ کر سکتے میں آ گئے تھے اور جب سکتہ ٹوٹا تو شدید غصے نے جگہ لے لی ۔
’’مطلب کیا ہے تمہارا اس بات سے ؟ تم یہ ثابت کر رہی ہو کہ میں تمہاری پرورش ٹھیک سے نہیں کر پایا۔ اس لیے تم پاگلوں جیسی حرکتیں کرتی ہو؟کیا کمی دی ہے میں نے تمہیں ۔ زندگی کا ہر عیش و آرام ہے تمہارے پاس ،تمہارے ایک اشارے کے منتظر رہتے ہیں اس گھر کے سارے نوکر اور کیا چاہیے تھا تمہیں ؟جو صرف وہ خود غرض عورت دے سکتی تھی ؟ ایسی کیا کمی رہ گئی ہے تمہاری زندگی میں جو تم یوں میرے سامنے اپنی ماں کو لا کر مجھے نیچا دکھانا چاہتی ہو۔‘‘
کرسی پیچھے دھکیل کر وہ کھڑے ہو گئے تھے۔ ہمیشہ اسے آپ کہہ کر بلانے والے سیٹھ کریم آج کف اُڑا رہے تھے ۔ اس نے ماما کا ذکر کر کے انہیں چڑا ہی ڈالا تھا۔
’’میں آپ کو نیچا نہیں دکھا رہی پاپا ۔آئینہ دکھا رہی ہوں ،میرے معاملے میں اگر ماما خود غرض نکلیں‘ تو آپ بھی کچھ کم نہیں نکلے۔ آپ نے صرف میری ضرورتوں کا خیال رکھا ہے پاپا۔ میرا خیال آج تک نہیں آیا آپ کو…میں کیسے جینا چاہتی ہوں آپ نہیں جانتے۔ آپ کی پہلی ترجیح میں کبھی بھی نہیں رہی ۔ آپ کا بزنس ،آپ کی دوستیاں اور پارٹیاں رہی ہیں پاپا۔ آپ میں اور ماما میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ماما نے صرف اپنی زندگی کا سوچا اور آپ نے اپنی زندگی کا ۔مجھ سے آپ دونوں کو کوئی مطلب ہی نہیں رہا ۔ اس سے بہتر تھا آپ مجھے کسی یتیم خانے میں بھیج دیتے ۔کم از کم آپ کے ہوتے ہوئے خود ترسی کا شکا ر تو نہیں ہوتی ۔‘‘
وہ ان کے سامنے تن کر کھڑی تھی اور حلق پھاڑ پھاڑ کے چلا رہی تھی۔ سیٹھ کریم کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے۔ ان کے سامنے آج تک اس لہجے میں کسی نے بات نہیں کی تھی ۔
’’آپ صرف ایک اچھے بزنس مین ہیں پاپا۔ آپ ایک مادہ پرست انسان ہیں جو انسانی رشتوں اور جذبوں کو دولت اور روپے پیسے میں تول کر جیتا ہے۔ آپ اچھے باپ نہیں ہیں ۔آپ اچھے شوہر نہیں ہیں اور میں یقین سے کہہ سکتی ہوں آپ اچھے بیٹے بھی…‘‘
ــ’’بکواس بند کرو رانیہ …اپنی حد میں رہنا سیکھو۔تمہاری اس بد تمیزی پر میرا ہاتھ بھی اُٹھ سکتا ہے ،مگر یہ پہلی بار ہے۔ اس لیے چھوڑ رہا ہوں۔آئندہ محتاط رہنا ۔‘‘
غصے اور ضبط کی انتہا پر کھڑے سیٹھ کریم بپھر کر بولے تھے ،مگر اس پر خاک اثر نہ ہوا تھا ۔
’’یہ بھی کر کے دیکھ لیں پاپا۔ مجھے بھی تھپڑ مار دیںجیسے اس گھر میں برسوں سے کام کرنے والے وفادار لوگوں کو مار دیتے ہیں ،جیسے سڑک پر چلتے ہوئے عام لوگوں کو بلا وجہ پیٹتے ہیں‘تو میں کیوں نہیں ؟ ‘‘
وہ تیر کی طرح اُڑتی ہوئی سیدھی ان کی ناک کے نیچے آ کھڑی ہوئی تھی ۔
سیٹھ کریم گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹ گئے تھے۔ اس لمحے انہیں اپنی بیٹی کی آنکھوں سے چھلکتی دیوانگی دیکھ کر خوف سا آ گیا تھا ۔
’’ماریئے نا پاپا… رک کیوں گئے آپ ۔یہ شوق بھی پورا کر لیجیے۔یقین کیجیے مجھے ذرا بھی دکھ نہیں ہو گا۔ میں نے آپ کے اندر چھپے ہوئے بے حس آدمی کو برسوں پہلے دیکھ لیا تھا ۔‘‘
وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔ کریم پیلس میں آج بھونچال آیا ہوا تھا۔ گھر کے تمام ملازمین دنگ تھے ،چپ چپ اور لیے دیئے رہنے والی رانی آج گلا پھاڑ کر چیخ رہی تھی اور اس کے سامنے سیٹھ کریم تھے جنہیں دیکھ کر ہی سب کی سیٹی گم ہو جاتی تھی۔
’’تم اس وقت غصے میں ہو ،تم خود بھی نہیں جانتی تمہارے منہ سے کیا کچھ نکل رہا ہے ۔جاؤ اپنے کمرے میں آرام کرو ،کل صبح بات ہو گی ۔‘‘
اس بار وہ قدرے نرم اور سنبھلے ہوئے لہجے میں بول رہے تھے ۔ گھر کے ملازمین کے سامنے مزیدسبکی سے بچنے کے لیے انہوں نے بات ختم کرنے کی کوشش کی تھی‘ مگر رانی کو یہ منظور نہ تھا۔
’’میں جانتی ہوں پاپا ،بہت اچھی طرح جانتی ہوں کہ میرے منہ سے کیا نکل رہا ہے ،مگر آپ آج بھی نہیں جانتے کہ میرے منہ سے یہ سب کچھ کیوں نکل رہا ہے ؟آپ مجھے نفسیاتی مریض سمجھتے ہیں ۔ آپ نے ماما کو بھی نفسیاتی مریض سمجھا ہو گا ،تبھی وہ آپ کو چھوڑ کر چلی گئیں۔ سچ کیا ہے پاپا؟سچ یہ ہے کہ آپ خود ایک نفسیاتی مریض۔‘‘
’’چٹاخ …‘‘
ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا اور دوسرے پل کریم پیلس کے درو دیوار اس گھر میں رانیوں کی طرح پلنے والی رانی کے منہ پر پڑتا تھپڑ دیکھ کر ہل گئے تھے ۔ سیٹھ کریم نے طیش میں آ کر آج اس کے ساتھ بھی وہی کر دیا تھا جیسے وہ دوسروں کے ساتھ کرتے تھے۔ فرق مٹا ڈالا تھا انہوں نے۔
گال پر ہاتھ رکھے سکتے میں کھڑی رانی کو وہیں جما ہوا چھوڑ کر اسے انگلی سے وارن کرتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ کچن میں کھڑی فاطمہ اور باہر گاڑی دھوتا ہوا اکبر سہما ہوا تھا ۔
’’آپ کیا جانیں تذلیل کا احساس کیسا ہوتا ہے۔کبھی بھرے بازار میں آپ کے منہ پر تھپڑ پڑے‘ تو آپ کو پتا چلے ۔‘‘
کسی کا کہا ہوا فقرہ اس کے کانوں میں گونج اُٹھا تھا۔
تذلیل کا احساس ۔
کس کو زیادہ ہو گا؟
ایک راہ چلتے لڑکے کو کسی بگڑے ہوئے رئیس کی وجہ سے بھرے بازار میں منہ پر تھپڑ پڑنے پر؟
یا ایک بیٹی کو بے حس باپ کے ہاتھوں گھر کے ملازموں کے سامنے پٹنے پر ؟
دل ہی دل میں حساب کتاب کرتی وہ ٹوٹے ہوئے قدموں سے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی ،بہتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Read Next

بنتِ حوّا — عزہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!