ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

بائیس جون بہ روز اتوار (2013ء)
ایک دوسرے کی رفاقت میں جون کی راتیں کاٹتے ہوئے ہمیں ایک ہفتے سے اوپر ہو چلا تھا ،میں نے اپنی زندگی کا ورق ورق اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا اور اس کی طویل کٹھن مسافت کے ایک ایک قدم سے واقف ہو چلا تھا ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی محبت میں پور پور ڈوب چکے تھے ۔جون کا چاند ہمارے تمام رازو نیاز سے واقف تھا، ہمیں دیکھ کر مُسکراتا رہتا تھا اور وقفے وقفے سے اپنی چاندنی کی چادر سے ہماری آنکھوں میں ایک دوسرے کے لیے چمکتے جگنوؤں کو دیکھتا رہتا تھا۔
محبت انسان کو اندر سے ہی نہیں باہر سے بھی خوبصورت بنا دیتی ہے۔وہ یہی کہہ کر مجھے احساس دلاتی تھی کہ میں اللہ کی بنائی ہوئی اس دنیا میں اس کی سب سے خوبصورت تخلیق ہوں اور میں ‘میں تو اسے نظر بھر کر دیکھتے ہوئے ڈرتا تھا۔ نظریں تو اکثر اپنوں کی ہی لگتی ہیں۔ اسی لیے کترا جاتا تھا ۔ تب وہ دھیمی سی ہنسی ہنس کر مجھے زبردستی اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیتی تھی۔میں دیکھتا تھا اور گھائل ہو جاتا تھا۔ وہ میری بے اختیار نظروں اور بے قرار دھڑکنوں سے کھیل کر حظ اٹھاتی تھی اور پارک کی خاموش فضا میں جلترنگ ہنسی بکھیرتی تھی۔ ہم دنیا جہان کی باتیں کرتے تھے ،اسے موسموں کی باتیں کرنا اچھا لگتا تھا۔ وہ برسات کی دیوانی تھی ‘ اے کاش ایک بار صرف ایک بار میں اسے اپنے گاؤں لے جا کر اپنے گھر کے کچے آنگن میں کھلے آسمان کے نیچے کھڑا کر دیتا اور ہم دونوں مل کر دعا کرتے۔ برسات ہو جانے کی دعا … تب اچانک آسمان سے بادل اٹھتے ‘کالی گھٹا چھا جاتی اور ٹپ ٹپ بارش کی بوندیں گرتیں ۔وہ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر بارش کی پہلی بوند پا کر کتنا خوش ہو تی۔ گھر کا کچا آنگن بارش اور مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے مہک اُٹھتا۔ تب میں ہولے سے اس کا ہاتھ تھام کر اس کی بھیگی ہوئی آنکھوں میں دیکھ کر کہتا :
ٹھہر جاؤ…
کہ دل کے خشک آنگن میں
ابھی برسات ہونی ہے
مگر میں کبھی نہ کہہ سکتا تھا۔ وہ زندگی کو ہولے ہولے جینا سیکھ رہی تھی ،دل سے ہنسنا سیکھ رہی تھی ،دل کی باتیں کرنا سیکھ رہی تھی، میرے لیے یہی کافی تھا کہ وہ آج میرے سنگ تھی۔ مجھے کل کی فکر کر کے اسے واپس اسی سنّاٹے میں نہیں دھکیلنا تھا جس نے اس کا بچپن چھین لیا تھا۔ آج اسے کھلکھلاتے دیکھ کر میں نے ایک اور التجا کی تھی ۔





’’آپ سب کو دل سے معاف کر دو۔ ‘‘
’’سب کون؟‘‘
میرے لفظوں کا مفہوم سمجھتے ہوئے بھی انجان بن رہی تھی وہ ۔۔۔۔
’’آپ کے پاپا اور آپ کی ماما ۔‘‘
’’کر دیا…‘‘
اس نے فوراً ہی کہہ دیا تھا ،مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی مان جائے گی۔
’’سچ مچ۔ ‘‘
میں نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔
’’ہاں… ‘‘
اس کا مختصر جواب ۔
’’تو پھر آپ ماما کی بات مان کیوں نہیں لیتیں ؟ کچھ دن کے لیے چلی جایئے ان کے پاس ۔‘‘
اس نے زور زور سے نفی میں سر ہلا کر مجھے غصیلی نظروں سے گھورا تھا۔
’’رہ پاؤ گے میرے بغیر؟‘‘
اس کے سوال نے مجھے ہونٹ بھینچ کر خاموش رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔
’’ماما مجھے میری محبت میں نہیں بلا رہیں ۔ وہ مجھے ابنارمل سمجھتی ہیں اس لیے کینیڈا میں میرا علاج کروانا چاہتی ہیں۔‘‘
اس کا وہی پتھریلا لہجہ لوٹنے لگا تھا۔
’’ضروری تو نہیں ہے ۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے وہ آپ کو مس کر رہی ہوں ،آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں، آپ سے ملنا چاہتی ہوں ۔ آپ کے ساتھ وقت بتانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں نے اس کی سوچ کا رخ تبدیل کرنا چاہا تھا ،اس نے زخمی نظروں سے مجھے دیکھا۔
’’مس کرتیں ‘دیکھنا اور ملنا چاہتیں‘ تو ان پندرہ سالوں میں ایک بار پندرہ منٹ کے لیے ہی یہاں میرے پاس آ جاتیں۔ وہ اپنی زندگی میں خوش ہیں ۔انہیں میری یاد آ رہی ہوتی‘ تو مجھے نہ بلاتیں بلکہ خود آ جاتیں ۔‘‘
’’ہو سکتا ہے ان کے کچھ پرابلمزہوں، مصروفیات ہوں ۔ اس لیے چاہ کر بھی نہ آ پا رہی ہوں۔‘‘
میں نے اب بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔
’’پرابلم میرا بھی ہے۔ میں تم سے ملے بغیر ایک دن بھی نہیں گزار سکتی۔ تم میرا سب کچھ بن چکے ہو اجنبی ،میں اتنے دن وہاں کیسے کاٹوں گی ،دیار غیر میں غیر لوگوں کے بیچ ؟‘‘
اپنی ضد پر ثابت قدم رہتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔
’’وہاں آپ کی ماں رہتی ہیں۔ان کی اپنی اچھی خاصی گیدرنگ ہو گی وہاں جو آپ کو بور نہیں ہونے دے گی ۔‘‘
اسے منانا مشکل کام سہی‘ مگر میں یہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کی روزبروز بڑھتی دیوانگی مجھے ڈرانے لگی تھی۔ وہ ہر خوف سے بے نیاز تھی۔ اسے صرف میری پروا تھی اور مجھے اس سے زیادہ اس کی۔ اسی لیے جب اس نے مجھ سے اپنی ماں کی کہی ہوئی باتیں دہرائیں تھیں‘ تو مجھے لگا یہ وقت صحیح ہے۔ وہ ماں کے پاس جاتی ،نئے چہروں سے ملتی ،یہ بھی ممکن تھا ماں سے پیدا ہونے والی بد گمانیوں میں کمی آ تی ،اسے زندگی کوجینے کے لیے ایک نیا رخ مل سکتا تھا ۔ وہ رخ جو اسے پارک میں بیٹھے ہوئے اجنبی لڑکے سے زیادہ دلچسپ لگتا ،مجھے اس کی چاہتوں سے انکار نہیں تھا ‘مگر کوئی مجھے بار بار کہتا تھا۔تم اس لڑکی کے قابل نہیں ہو یہ محبت اور توجہ کو ترسی ہوئی لڑکی ہے ۔تم اس کی زندگی میں اس کے اپنوں کی وجہ سے بن جانے والے خلا کو اپنی سیڑھی بنا کر اس سے اس کی زندگی چھین نہیں سکتے، یہ تمہارے اندر ان سب رشتوں کو ڈھونڈ رہی ہے جن کے لیے یہ ترستی رہی ہے۔ تم اس کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر محبت میں غرض کا پیوند لگا کر سرخرو نہیں ہو سکتے۔ میں اسے چاہتا تھا ،اسی لیے صرف خوش دیکھنا چاہتا تھا ۔ میری اوّلین ترجیح اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک دیکھنا تھی ۔ اسے چرانے کا خیال میں سختی سے دباتا چلا آ رہا تھا۔
میری بات سن کر وہ آپے سے باہر ہونے لگی تھی ۔
’’تم مجھے کیوں خود سے دور کرنے پہرمجبور کر رہے ہو ؟میں نے کہا نا مجھے نہیں جانا کہیں بھی۔ مجھے بس تمہارے پاس رہنا ہے۔ میں وہاں کیوں جاؤں ؟ کس کے لیے جاؤں ؟ اس عورت سے ملنے جو مجھے چار سال کی عمر میں بلکتا چھوڑ کر اپنی خوشیاں تلاش کر رہی تھی ؟جو پچھلے پندرہ سالوں میں میری آواز اور تصویروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں جانتی میرے بارے میں ؟ اور تم چاہتے ہو میں اسے ماں کا درجہ دے کر اس کے پاؤں میں جنت ڈھونڈنے پہنچ جاؤں ۔ مجھے نہیں چاہیے ایسی جنت جو ایک خود غرض عورت کے قدموں تلے رلنے کے بعد میرے مقدر میں آئے ۔‘‘
وہ ہذیانی لہجے میں چیخنے لگی تھی ،میں بوکھلا گیا ، اسے چپ کروانا مشکل ہو گیا تھا ۔
’’تم ایسا سوچ سکتے ہو کیوں کہ تمہاری ماں تمہیں اپنے پاس سلا کر کہانیاں سنایا کرتی تھی اجنبی۔ تمہاری چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے دن بھر کام کرتی تھی ،تم نے جس ماں کا روپ دیکھا ہے ‘میں نے اسے صرف قصے کہانیوں میں پڑھا ہے۔ مجھے ماں کی ممتا محسوس نہیں ہوتی ان کی آواز میں ۔ وہ میرے لیے فاطمہ آنٹی سے کم تر ہیں ۔کم از کم فاطمہ آنٹی کی آواز میں اجنبیت کا احساس تو نہیں ہوتا اور میں تمہیں چھوڑ کر ان کے پاس کیوں جاؤں ؟‘‘
اس کے لفظ آخر میں بھیگنے لگے اور آنکھیں جاری ہونے کو تھیں ۔
’’یا پھر کہہ دو کے تم بھی تنگ آ گئے ہو ایک سر پھری پاگل لڑکی سے ،تمہارا دل بھر گیا ہے مجھ سے ۔‘‘
میں نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے گہری سانس لی تھی ۔
’’میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا ۔ آپ نہیں جانا چاہتیں اپنی ماما کے پاس ؟ اوکے مت جایئے ‘مگر ان کے لیے دل میں اتنی بدگمانیاں مت پالیے میم صاب ۔ آپ صرف یہ سوچتی ہیں ایک ماں نے اپنی چار سال کی بچی کو بلکتا ہوا چھوڑ دیا۔ آپ یہ کیوں نہیں سوچتیں ایک ماں کی غلطی کے عوض اللہ نے پچھلے پندرہ سال سے ان کی بیٹی کو ان سے دور کر رکھا ہے ؟آپ بھلے مشکل میں رہی ہیں‘ مگر آپ کی ماما کی مطمئن زندگی کی گارنٹی بھی آپ کے پاس نہیں ہے ۔ہو سکتا ہے اس آبلہ پائی میں ان کے پاؤں آپ سے زیادہ زخمی ہوں ۔ وہ آپ کو آواز اور تصویر کی حد تک جانتی ہیں ،آپ کو فون کرتی ہیں ۔ آپ تو ان کا فون سننا بھی گوارا نہیں کرتیں ۔ ان کی تصویر یں بھی شاید آپ کی توجہ کو ترستی رہی ہوں گی۔ اب تک وہ غلطی کر کے سزا پانے کی مستحق اللہ کی عدالت میں بھی ٹھہری تھیں ،مگر دنیا میں ان کو سزا دینے میں آپ نے بھی تو کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ۔ آپ بے گناہ ہو کر بھی ان سے یہ سوال نہیں کر سکتیں کہ ماما مجھے بتائیں میرا کیا قصور تھا؟ وہ گناہگار ہو کر کیسے آپ سے نظریں ملا سکتی ہیں ؟ آپ کو ایک بار پوچھنا چاہیے تھا ۔ شاید ان کا جواب آپ کے دل میں ان کے لیے بدگمانیوں کی دھند ختم نہیں تو کم ضرور کر سکتا تھا۔ میں نے ابھی آپ سے کہا تھا‘ آپ انہیں معاف کر دیں اور آپ نے جھٹ سے حامی بھر لی۔ میں نے کیوں کہا تھا؟ کیوں کہ مجھے آپ کے ظرف پر کوئی شک نہیں تھا جو لڑکی اپنے باپ کے قصور کے لیے میرے جیسے کسی معمولی آدمی کی عدالت میں کھلے عام پیش ہو جاتی ہے۔ وہ کتنی اسپیشل ہو گی یہ میں آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔ آپ جتنا بھی غصہ کر لیں ،جتنی نفرت دکھا لیں۔میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں آپ آج بھی اپنی ماما اور پاپا سے بے حد پیار کرتی ہیں ۔‘‘
میں نے اس کی حالت کے پیش نظر حد درجہ نرمی سے اسے سمجھایا تھا اور وہ یک ٹک اپنے آنسو بھول کر مجھے تکے چلی جا رہی تھی ۔
’’پتا ہے تم میں خاص بات کیا ہے ؟تم میری پرچھائی سے مختلف سوچتے ہو ۔بالکل ایسے ہی جیسے میں سوچنا چاہتی ہوں‘ مگر اس کی باتیں سننے کی اتنی عادت ہو گئی ہے اب ہر جگہ وہی سہی لگتی ہے ۔‘‘
اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا تھا ،اس بار اس کے لہجے میں وہ شدت نہیں تھی ،مجھے تھوڑا سا حوصلہ ہوا تھا۔
’’آپ نے وہاں ہمیشہ کے لیے نہیں جانا ،صرف کچھ دن کی بات ہے۔ آپ جب بھی واپس آئیں گی، میں آپ کو اسی پارک کے کسی اندھیرے کونے میں محو انتظار ملوں گا ۔میں آپ سے زیادہ اداس رہوں گا ،مگر آپ کا ایک بار اپنی ماں سے مل کر آنا میری اور آپ کی اداسی سے زیادہ ضروری ہے ۔ آپ ایک بار ان سے مل کر دیکھیے تو سہی ہو سکتا ہے زندگی سے شکایتوں میں کچھ کمی آ جائے ۔‘‘
میں اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا ،وہ جو دکھنے میں بہت ضدی لگتی تھی ،باتوں سے ہٹ دھرم ،لہجے سے پتھریلی ،مگر میرا دل گواہی دیتا تھا کہ اس سے زیادہ خوبصورت دل اس شہر میں کسی کے پاس نہیں تھا ۔وہ خاموش ہو گئی تھی ،میں جان گیا تھا اس خاموشی میں اس کی رضامندی چھپی ہوئی تھی ۔
’’اور جو کچھ تم سوچ رہے ہو ویسا نہ ہو سکا تو ؟‘‘
اس نے دل میں چھپے اندیشے کو زبان دی تھی۔
’’تو آپ کے دل سے کم از کم ایک بوجھ کم ہو جائے گاکہ آپ نے پوری زندگی ان کی طرح انہیں اہمیت نہیں دی۔‘‘
’’تم مجھے بھول تو نہیں جاؤ گے ؟‘‘
ایک اور خدشہ تھا کہ۔وہ مثبت کم ہی سوچتی تھی ۔
’’آپ کے تصور میں رہتے ہوئے میرا دن گزرتا ہے ،میں خود کو بھول سکتا ہوں‘ مگر آپ کا خیال کبھی دل سے نہیں نکال سکتا۔ آپ نے مجھے اس شہر میں رہنے کی اصل وجہ دی ہے ،آپ کی غیر موجودگی میں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ آپ کی یادوں کا امین رہے گا ۔
’’تمہیں گاؤں واپس جانا پڑ گیا تو ؟‘‘
وہ وسوسوں میں گھری ہوئی تھی۔
’’تو آپ کے لیے پھر واپس آنا پڑ جائے گا۔‘‘
میں نے اس کا یہ ڈر بھی دور کر دیا تھا ۔
’’میں صرف تمہارے کہنے پر جاؤں گی۔یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا۔‘‘
وہ جتلا رہی تھی یا صرف بتا رہی تھی ،میں سمجھ نہیں سکا ‘ مگر میرے لیے اتنا ہی کا فی تھا کہ وہ جانے کے لیے راضی ہو گئی تھی ۔
’’میں جانتا ہوں اور یہ بھی کہ آپ کا یہ فیصلہ آپ کے لیے نئی خوشیوں کا سبب بنے گا۔‘‘
میں نے پریقین لہجے میں کہا تھا ۔
’’میں اب بھی کہہ رہی ہوں اگر واپسی پر مجھے تم نہ ملے‘ تو میں جی نہ پاؤں گی۔ تم میری سب سے قیمتی چیز بن گئے ہو اجنبی ،میں نے پہلی بار کوئی رشتہ بنایا ہے ۔ ایسا رشتہ جس میں میری زندگی کا سب کچھ چھپا ہے۔ اگر وہ ٹوٹ گیا‘ تو میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاؤں گی ۔‘‘
وہ نم لہجے میں اپنی بے بسی کا اقرار کر رہی تھی اور میں اپنے اندر اٹھتے طوفان کو دبا کر بہ ظاہر مسکراتے ہوئے اسے یقین دلا رہا تھا کہ میں زندگی کی آخری سانس تک اس کا بن کے رہوں گا ،وہ مان گئی تھی اور اب میرا دل مجھے کوس رہا تھا۔
’’یہ میں نے کیا کر دیا ،اسے خود سے دور بھیج دیا ۔اب میں کیسے رہ پاؤں گا اس کے بنا؟‘‘
دل اور دماغ میں یہی فرق ہے ۔ دل اپنا فائدہ سوچتا ہے ،مگر نقصان کر بیٹھتا ہے۔ دماغ اپنی سوچ کی لہروں سے ہمیں زندگی کی سچائیاں بتاتا ہے اور سچ دیکھنے کے چکر میں ہم دل کو مار ڈالتے ہیں۔ میں بھی سچ دیکھنا چاہتا تھا اور سچ یہی تھا کہ وہ اور میں دریا کے دو کناروں کی طرح تھے جو کبھی آپس میں مل نہیں سکتے چاہے پورا دریا خشک ہو جائے ۔ دل کہتا تھا تم جھوٹے ہو ‘سچ یہ ہے کہ تم اس لڑکی کی محبت میں بری طرح گرفتار ہوچکے ہو جسے پہلی نظر میں تم نے پاگل سمجھا تھا ۔دماغ کہتا تھا جتنا اونچا اڑو گے ‘اتنی زیادہ شدت سے زمین پر گرو گے۔ ابھی رک جاؤ ‘وقت اتنا بھی نہیں بیتا ۔ میں نے دل و دماغ میں چلتی جنگ سے مجبور ہو کر اسے ماں سے ملنے کے لیے مجبور کیا تھا ۔ میں خود بھی آزمانا چاہتا تھا حالاں کہ میں جانتا تھا کہ اس آزمایش میں، میں بری طرح فیل ہونے والا ہوں۔
ہماری ملاقاتیں رات بارہ بجے سے فجر کی اذانوں تک ہوتی تھیں۔ اس کے بعد وہ اپنے پیلس میں اور میں اپنی کٹیا میں گم ہو جایا کرتا تھا اور آنے والی رات کا سوچتے ہوئے ہم دونوں دن خوشی خوشی گزار لیا کرتے تھے۔
آج اس نے مجھے جدا ہونے کا عندیہ دے دیا تھا یا میں نے اس سے وصول کر لیا تھاآگے کیا ہونا تھا ؟
یہ تو بس نیلا امبر تخلیق کرنے والا جانتا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

Read Next

بنتِ حوّا — عزہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!