
دانہ پانی — قسط نمبر ۴
لیا چکر مقدراں اِنج بُلھیا اسی اُجڑ گئے اوہ شاہ ہوگئے وہ رات مراد پر بڑی بھاری گزری تھی۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی
![]()

لیا چکر مقدراں اِنج بُلھیا اسی اُجڑ گئے اوہ شاہ ہوگئے وہ رات مراد پر بڑی بھاری گزری تھی۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی
![]()

کتنا شوق تھا اُسے کہ اُس کی کہانی بھی لکھی جائے۔ پتا نہیں وہ اپنے آپ کوایسا اہم یا الف لیلوی کردار کیوں سمجھتی تھی۔
![]()

دروازہ بند ہونے کی آواز نے ماحول میں خلل پیدا کیا تھا تو قدموں کی چاپ نے باقی کسر بھی پوری کر دی تھی۔ محویت
![]()

کوئی سوال؟ ہمیشہ کی طرح لیکچر کے اختتام پر اُس نے مارکر کا کیپ بند کر کے ایک نظر کلاس میں بیٹھے ہوئے سٹوڈنٹس کی
![]()

لکھ منتاں منیاں پر لاحاصل اک منت کیتی من یار گیا اک مسئلہ زیر، زبر دا سی جو سمجھ گیا لنگھ پار گیا موتیا نے
![]()

سنہری دھوپ میں نہائے گورنمنٹ ڈگری کالج بھکر کے طلائی رنگ و روپ سمیٹے درودیوار آنکھوں کو لبھا رہے تھے… کیفے ٹیریا کے سامنے بنے
![]()

عشق فقیری جد لگ جائے پاک کرے ناپاکاں نوں عشق دی آتش لے جاندی اے عرشاں تیکر خاکاں نوں وہ ایک سانپ تھا، تاریک رات
![]()

”کاشی…او کاشی…!” ابھی اسے کھیلنے میں مزہ ہی آنے لگا تھا کہ کوثر کی آواز سنائی دی۔ ”کیا ہے امی؟” اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے
![]()

شام کا پرندہ روشنی کو قطرہ قطرہ اپنے اندر جذب کر کے دن بھر کی تھکن اتارنا چاہتاتھا۔ اُسے خوابوں کی سر زمین پہ قدم
![]()

انتساب دانہ پانی کے نام جس کی تلاش کچھ کو پارس کرتی ہے کچھ کو پتھر ===================================== پیش لفظ کبھی کبھی کہانی کاغذ پر شہد
![]()