پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

” اچھا بھابی! میں ذرا اما ں کے پاس چلتی ہوں ۔ آپ اٹھ کر منہ ہاتھ دھو لیں ۔پھر آتی ہوں ۔” مسرورہ مسکراتے ہوئے کمرے سے نکلی تھی اور اس کے نکلتے ہی مرینہ نے اپنے پلنگ سے چھلانگ لگائی تھی۔ “منگنی کو دو دن ہوئے نہیں اور ” بھابی” بھابھی کی رٹ لگا رکھی ہے ۔” وہ اب عرینہ کے پلنگ پر بیٹھی بڑے شوق سے مسرورہ کی نقل کررہی تھی ۔
” دنیا کا آٹھواں عجوبہ۔۔۔۔” عرینہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
” اب اٹھ بھی جائیے بھابھی جی !” دینا نے عرینہ کو چھیڑا۔
” سٹوپڈ ،!بدتمیز !” عرینہ جوتا اٹھانے کو جیسے ہی جھکی ، دینا تیزی سے کمرے سے نکل گئی اور تھوڑی دیر بعد اس نے دروازے میں سر اندر کر کے مسکراتے ہوئے کہا ” تمہیں جگانے کیلئے مجھے اب ہر صبح مسرورہ کو بلانا بڑے گا ۔”
” اللہ کرے وہ تیری دیوارنی بنے ۔” عرینہ نے دینا کو گھورا۔”
” نہیں ۔ مجھے تو لگتا ہے وہ آپ کی بھابی بنے گی ۔” مرینہ نے جلدی سے کہا ۔ اور عرینہ نے قہرناک نظروں سے اسے دیکھا ۔ ” یااللہ! پناہ۔۔۔۔، مرینہ ہنستے ہوئے غسل خانے کی طرف بھاگی تھی۔
٭…٭…٭





وہ صبار قاسم سے چھپ رہی تھی یا اپنے ماضی سے ؟ یا شاید دونوں سے اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ وہ صحن میں پڑی چارپائی پر مٹی کے ڈھیر کی طرح بے جان ہو کے گری تھی ۔ اس کے وجود کی ہر ہر ہڈی میں درد کی بے پناہ ٹیسیں اٹھ رہی تھیں ۔نجانے وہ کتنی دور سے بھاگ کے یہاں آئی تھی اور اب بری طرح ہانپ رہی تھی ۔ ” جہاں وہ مجھے ڈھونڈنے آئے گا تویہا ں اسے کوئی” حمائل اصغر ” نہیں ملے گی ” اس نے ہانپتے ہوئے سوچا اور اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے زور سے اپنی آنکھوں کو بھنچا تو اشکوں کے ننھے ننھے قطرے اس کے گالوں تک بہ گئے ۔ اس نے نیم وا آنکھوں سے دیکھا تین معصوم بچے اس کے سرہانے کھڑے اس کی فکر مندی کو دیکھ رہے تھے۔
” میں ۔۔۔ ٹھیک ہوں بچوں!” وہ بہ مشکل بول پائی اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ماضی کے بارے میں سوچنے لگی ۔
٭…٭…٭
رات کا کھانا اکیلے تیا ر کرنے کے بعد اس نے دستر خوان پہ سجایا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے کمرے میں آکر بیٹھ گئی تھی۔” وہ دونوں اب پیکنگ پہ گھنٹوں لگائیں گی۔” کمرہ خالی پا کر اس نے بے زاری سے سوچا ۔ عرینہ اور مرینہ کو بڑی ماں نے اصغر کے لیے پیکنگ پر لگایا تھا اور شام سے لے کر ابھی تک وہ دونوں غائب تھیں۔” وہ چلے جائیں گے۔ گھر خالی ہو جائے گا ۔” پلنگ پہ دراز ہو کر اس نے آنکھیں بند کردیں ۔
” جب تک ہم ہیں ،ہمیں دیکھا کرو ، جب ہم چلے جائیں گے پھر ہمارے خواب دیکھنا” وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا اس کی جانب بڑھا تھا ۔دینا ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی ۔” بلب ۔۔۔ روشن کر دیں ۔۔۔ میں بھول گئی ۔۔۔ اس نے گھبراتے ہوئے کہا ۔
” اس کی ضرورت نہیں ہے۔ باہر سے آرہی ہے دھیمی دھیمی روشنی ۔۔۔۔ میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں ۔” وہ اس کے پاس بیٹھ گیا ۔ دینا سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔ اس کا دل اس کے حلق تک آ پہنچا تھا ۔
” میں جارہا ہوں ۔” وہ سنجیدہ تھا ۔
” ہاں ۔۔۔ جانتی ہوں ۔۔۔ ” وہ ہکلاتے ہوئے بولی ۔
” کچھ کہو ناں۔” اس کی آواز میں شرارت تھی ۔
” کیا ؟” وہ گھبرا رہی تھی ۔
” کچھ بھی ۔۔۔۔ کچھ بھی کہہ دو۔”
” مجھے کچھ بھی نہیں کہنا۔ آپ جائیں ۔” وہ اب اس کو دھکیل رہی تھی۔
” جاتو رہا ہوں یار! تم سے ملنے آیا ہوں۔”
” مل لیا ؟ اب جائیں ۔” اس کی گھبراہٹ قابل دید تھی ۔
” اچھا ۔ اچھا ۔ جارہا ہوں ۔ فون کروں گا۔ مجھے بھول نہیں جانا میرے ہی خواب دیکھنا۔” اپنا منہ اس کے کان کے نزدیک لا کروہ بولا اس کی آواز میں شوخی تھی ۔
” حقیقت پسند لوگ خواب نہیں دیکھا کرتے ” وہ سنجیدہ تھی ۔
” اچھا!!! تو تم حقیقت پسند ہو ۔ لیکن مجھے یقین ہے پھر بھی تم میرے خواب دیکھو گی ۔” وہ پر اعتماد لہجے میں بولا ۔” چلتا ہوں ۔ اپنا خیال رکھنا۔ مجھے دعاؤں میں بھی یاد رکھنا ۔” وہ اسے دھکیل رہی تھی، اپنے سینے پر پڑا اس کاہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے تھا م کر اس نے اپنی آنکھوں سے لگایا اور کمرے سے نکل گیا ۔
رات بارہ بجے اس کی فلائٹ تھی۔ دینا جانتی تھی اس کے بعد دونوں کے درمیان بات نہیں ہوسکے گی ۔ بس سب کے سامنے وہ اس کے ساتھ صرف ہاتھ ملا سکے گی اور پھر وہ چلا جائے گا۔ اس کی آنکھوں سے اشکوں کے بڑے بڑے قطرے گرنے لگے ۔ وہ بے جان سے پلنگ پر بیٹھ گئی ۔
٭…٭…٭
خالہ کی موت کا سب سے گہرا اثر کس پہ ہوا تھا ؟ یہ اندازہ کوئی نہیں کر پایا لیکن اسے لگتا تھا جیسے ان کی موت کا سب سے زیادہ اثر اس کے گھر کے ماحول پہ پڑا ہو۔منزہ کی تائی اور تایا نے اس کو اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا تو مجبوراً امی جی کو اسے ساتھ لانا پڑا ۔منزہ ان کی اکلوتی بہن کی اکلوتی بیٹی تھی ۔ حمائل کے ساتھ بچپن سے اس کی دوستی تھی اس لیے وہ خوشی خوشی اس نئے گھر اور نئے ماحول میں رہنے لگی تھی ۔ ایک سال تک حمائل نے منزہ کے ساتھ اپنی ہر چیز حتیٰ کہ اپناکمرہ تک شئیر کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اپنے گھر میں منزہ کا اضافی وجود نا قابل برداشت ہونا شروع ہو گیا ۔
کوئی ایک دو دن کی بات ہو تو آپ اپنے گھر میں کسی اضافی وجود کو بہ خوشی برداشت کر لیتے ہیں لیکن جب کوئی نہ جانے کے لیے آپ کے گھر آ کے رہنے لگتا ہے تو وہ انسان ، اس کا وجود اور اس کی موجودگی آپ پر ایک بوجھ بن جاتا ہے ۔
منزہ چاہے جتنی بھی بے ضرر، خاموش اور شریف تھی ، حمائل کے لیے اب اس کے وجود سے عجیب سی بیزاری محسوس ہونے لگی تھی ۔ وہ حمائل کے بچپن کی دوست ضرور تھی اور دونوں کی یہ دوستی سب کی دلچسپی کی حامل بھی تھی لیکن حمائل بچپن کی اس گہری دوستی کو مزید نہیں نبھا نا چاہتی تھی ۔ یہ بات اسے خوب بھی معلوم نہیں تھی کہ وہ منزہ سے اس قدر بیزار کیوں ہے ؟ لیکن اس کے دل کا ایک گوشہ تھا جو سرگوشیوں میں ،دھیرے دھیرے حمائل کو اس خدشے میں مبتلا کررہا تھا کہ منزہ اس کی بہن بن کر اس کے ماں باپ کے دلوں سے اس کے حصے کا پیار، اہمیت اور توجہ چھین لے گی ۔جب اللہ نے مجھے بہن نہیں دی تو کوئی کیوں آکے میری بہن بن جائے؟ جب کہ مجھے کسی بہن کی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ میرے والدین کو میرے علاوہ کسی بیٹی کی ۔۔۔۔ ” وہ اکثر بیزاری کی انتہا تک پہنچ جاتی تھی لیکن یہ سوچتے وقت اسے یہ خیال نہیں آتا تھا کہ منزہ اپنی مرضی سے نہیں مجبوری کے تحت اس گھر آ کررہنے لگی ہے۔
٭…٭…٭





” دعاؤں میں رخصت کرو بچے کو۔ کہیں گوریوں کے چکر میں نہ پڑ جائے۔ ” بڑی پھوپھو نے قرآنی آیات پڑ ھ کر اصغر پر دم کرتے ہوئے کہا۔
” ہاں پھوپھی !انگلستان کی حسیناؤں کا کیا کہنا!” اصغر نے بڑی پھوپھی کے گلے لگتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھوں اور لہجے میں شرارت تھی اور ہ کن اکھیوں سے دیوار کے ساتھ لگی دینا کو دیکھ رہا تھا ۔وہ نہیں جانتا تھا اس کی اس بات پر دینا کا کیا رد عمل ہوگا؟ پر دینانے تو جیسے کچھ سنا ہی نہیں تھا ۔ کسی گہری سوچ میں گم نجانے وہ کس طرف دیکھ رہی تھی یا ایسا دکھا رہی تھی۔۔۔؟
” نہیں ، نہیں بیٹا گوریوں کے فضول چکروں میں نہ پڑنا ۔ اپنی پڑھائی اچھے سے کرنا ۔ یہاں کے حسن کے سامنے انگلستان کا حسن کچھ بھی نہیں ۔۔۔”
چھوٹی پھوپھی نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے نصیحت کی۔
” یار پھوپھی! آنکھوں پر پٹی باندھ کے بھیج دیں تو ٹھیک رہے گا ورنہ ۔۔۔” اس نے شرارت سے کہا۔ دینا بدستور گم سم کھڑی رہی ۔ وہ جس کو چڑانا چاہ رہا تھا وہ نہیں چڑرہی تھی ۔ ” بس اماں ! پھوپھی! دعا کریں ۔چلتا ہوں ۔ ابا اور علی باہر انتظارکررہے ہو ں گے ۔” سب پر ایک الوداعی نظر ڈال کر وہ باہر جانے لگا ۔ ” بس ایک آخری نظر دینا کو دیکھ لوں۔ اس نے دیکھا وہ اسی کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دروازے سے نکل گیا ۔ ایک حسین سا احساس اس کے پورے جسم کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا ۔ کوئی آپ اداس کے لیے ہو ۔ آپ کے جانے سے دکھی ہو ۔ تو اس کا مطلب یہی ہوا ناں کہ وہ انسان آپ کو اہمیت دیتا ہے ۔ آپ سے محبت کرتا ہے ۔وہ آپ سے الگ نہیں ہونا چاہتا ۔ اس سے پہلے دینا نے کوئی باقاعدہ طور پر اس سے اپنی محبت کا اظہارنہیں کیا تھا ۔ شاید اس نے ضروری نہیں سمجھا تھا لیکن آج ان آخری لمحوں ، اس کی آخری نظر جو پیغام دے گئی تھی وہ اصغر کے لیے بہت مقدس ، بہت اہم تھا ۔” اب میری نظریں کبھی کسی کی طرف نہیں اٹھیں گی۔” ائیر پورٹ کے اندر جاتے ہوئے اس نے سوچا تھا ۔زندگی میں پہلی بار اس کی آنکھوں نے کوئی ایسا منظر دیکھا تھا جو اس کے دل میں اترا تھا، اس کی روح میں سرائیت کر گیا تھا۔ دینا سعید کوئی ناز نخروں والی من چلی لڑکی نہیں تھی۔ وہ سیدھی سادی ، صاف دل اور مضبوط ارادوں والی لاجواب کردینے والی لڑکی تھی ۔جسے وہ آج تک سمجھ نہیں پایا تھاپر آج ، اس الوداعی نظر میں اصغر نے پہلی بار اس لڑکی کے جذبوں کو سمجھا تھا ۔پہلی بار اس نے اس لڑکی کے بارے میں اتنا جانا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے …شدید محبت۔
٭…٭…٭
شہروز کو کئی دنوں سے بخار تھا اور ٹھیک طرح سے کھانا بھی نہیں کھاتا تھا۔ دوپہر کا کھانا کھا لینے کے بعد منزہ اس کے لیے ملک شیک بنانے کچن میں گئی۔حمائل اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی اور شہروز لاؤ نج میں صوفے پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ملک شیک کانچ کے گلاس میں ڈالتے ہوئے گلاس منزہ کے ہاتھ سے گر کے ٹوٹ گیا۔شہروز بھاگ کر کچن میں داخل ہوا تھا۔منزہ فرش سے ٹوٹے ہوئے گلاس کے ٹکرے اٹھا رہی تھی کہ کانچ سے اس کی انگلی کٹ گئی۔
” اٹھو چھوڑو یہ سب ” شہروز نے منزہ کو ڈانٹا اور اپنا رومال منزہ کی انگلی پر رکھ دیا۔
حمائل بھی گلاس ٹوٹنے کی آواز پر بھاگ کر کچن کی طرف گئی تھی۔کچن کے دروازے میں کھڑی وہ اندر کا منظر دیکھتی رہی۔اس کا اکلوتا بھائی منزہ کی انگلی زخمی ہونے سے کتنا پریشان تھا۔اس کے چہرے پہ فکر مندی کے آثار تھے اور وہ منزہ کے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تھا حمائل ناگواری کے عالم میں الٹے پاؤں اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ کتاب بند کر کے اس نے میز پر رکھ دی اور خود بیڈ پر اوندھی ہو کر لیٹ گئی بلا وجہ اس کی آنکھوں سے گرم گرم پانی نکل کر سرہانے میں جذب ہونے لگا۔اب منزہ علی کا وجود اس کے لیے واقعی نا قابل برداشت تھا۔وہ خاموش لڑکی دھیرے دھیرے اس کے گھر ، اس کے کمرے ، اس کی چیزوں اور اس کے رشتوں پہ قابض ہو رہی تھی لیکن حمائل کچھ بھی تو نہیں کر سکتی تھی۔منزہ علی سے بے پناہ نفرت کے باو جود وہ اس کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتی تھی، ایک ہی بیڈ پر سوتی تھی ، وہ جانتی تھی کہ منزہ ہمیشہ کے لیے اس کے گھر رہنے آئی ہے، وہ جانتی تھی وہ اسے واپس نہیں بھیج سکتی۔۔۔۔ کاش میرے پاس تھوڑی سی گنجائش ہوتی منزہ علی ۔۔۔۔! تو میں تمہیں واپس بھیج دیتی۔لیکن نا تمہارے پاس واپس جانے کا راستہ ہے اور نا ہمارے پاس تمہیں واپس بھیجنے کا۔۔۔وہ اکثر حسرت سے یہ سوچ لیتی اور اس وقت اسے وہ وقت یاد نہیں رہتا جب وہ اور منزہ گہری دوست تھیں۔جب ابو جی اس کے لیے ایک گڑیا لاتے تو وہ ایک گڑیا منزہ کے لیے سنبھا ل کر رکھ دیا کرتی تھی۔جب چھٹیوں میں وہ خالہ کے گھر جاتی توعرصے تک وہاں رہ کر آتی تھی خالہ کے ہاتھ کے پکے مزے دار کھانے کھاتی اور منزہ کے ساتھ اس کے بیڈ پر سوتی لیکن منزہ نے کبھی اعتراض نہیں کیا تھا اور منزہ کے گھر سے آ تے ہوئے وہ اسے بھی ساتھ لے آتی تھی اور پھر اسے ڈھیروں تحائف سمیت گھر بھیجتی تھی۔لیکن اب منزہ نے یہ گنجائش کب چھوڑی تھی؟اب تو وہ مستقل طور پر اس کے گھر رہنے لگی تھی۔تو پھر اس کو تحفے دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔۔۔
” اور جو انسان آپ کے گھر آکر آپ کے سر پہ ایک بوجھ کی طرح سوار ہو جائے تو پھر آپ خاک اس کو اہمیت دے پائیں گے؟ وہ ناگواری سے سوچتی ” اور خالہ نے کیا اس لیے مرنا تھا کہ ان کی بیٹی آکر ہمارے گھر رہنے لگے اور ہماری پر سکون زندگیوں کو خراب کرے؟
اب تو وہ منزہ کے ساتھ ساتھ اپنی مرحومہ خالہ کے نام سے بھی بے زار ہونا شروع ہو گئی تھی اور وہ خود پہ حیران تھی کہ آ خر منزہ کا بے ضرر وجود اس کے لیے نا قابل برداشت کیوں ہے؟
اصغر کے نکلتے ہی سب نے اپنے اپنے کمروں کا رخ کیا تھا وہ بھی عرینہ اور مرینہ کے ہمراہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور سیدھی بستر میں گھس گئی تھی۔اس کو نیند نہیں آ رہی تھی لیکن وہ سب سے چھپ کر الگ ہو کر رہنا چاہتی تھی ان آخری لمحوں میں اس کی نگاہوں نے اس شخص کو پورے کا پورا خو د میں سما لیا تھا۔ اس ایک نظر میں اس نے اس شخص کو خو د میں بسا لیا تھا زندگی میں پہلی بار دینا نے اس کو اتنی گہری نظروں سے دیکھا تھا اور اب اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی الگ انسان نہیں اس کے وجود کا حصہ ہوجیسے وہ اس سے الگ کبھی تھاہی ہیں جیسے وہ ہمیشہ سے اس کا ہو لیکن پھر بھی۔۔۔۔اسے اپنے ہاتھ سے کوئی چیز پھسلتی ہوئی محسوس ہوئی ریل گا ڑی نے جیسے رینگتے رینگتے اسے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہو ، کشتی کے ملاح نے جیسے اسے بیچ منجدھار میں لا کر چھوڑ دیا ہو” ہاں پھوپھی انگلستان کی حسیناؤں کا کیا کہنا!” کوئی اس کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا اس نے کمبل اپنے وجود سے ہٹا لیا اور برآمدے میں سے آتی زرد رنگ کی بلب کی مدھم روشنی میں اس نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کا جائزہ لیا” تو جو شخص میرے دل میں ہے وہ میرے ہاتھ کی لکیروں میں نہیں؟ یا پھر میں نے خود اسے پرایا کردیا ؟ کوئی وعدہ کیوں نہیں لیا میں نے اس سے؟” آنکھیں گرم گرم اشکوں سے بھر گئیں۔ ”پر میں کیا وعدہ لیتی اس سے؟ کیا کہتی کہ وہ محبت نہ کرے ؟ تو کیا مجھے وعدہ لینے کا حق تھا؟ پر مجھے تو اپنا حق استعمال کرنا کبھی نہیں آیا۔۔۔ وہ ۔۔۔ چلا گیا۔۔۔ مجھ سے کوئی بھی وعدہ کئے بغیر۔۔ اب ۔۔۔جب کہ میں اس سے محبت کرنے لگی ہوں۔۔۔ زندگی میں پہلی بار کوئی خواب دیکھنے لگی ہوں ۔۔۔۔” اسکی آنکھوں سے اشکوں کی لڑیاں رواں تھیں۔
اس رات اس نے دل کی گہرائیوں سے اس حقیقت کا اعتراف کرلیا تھا ” انسان خواب دیکھتا نہیں اسے خواب آ تے ہیں اور محبت کی نہیں جاتی ہو جاتی ہے۔”
٭…٭…٭





وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پہ یہ حقیقت آشکار ہوتی گئی کہ منزہ کو دیکھ کر اس پہ ایک قسم کا جنونی دورہ آتا ہے اور پھر وہ منزہ سے دور رہنے لگی تھی لیکن اس کی یہ کوشش ناکام اس لیے تھی کہ وہ اس کے ساتھ اس کے کمرے میں رہتی تھی، اس کے ساتھ اس کے بیڈ پہ سوتی تھی اور حمائل اصغر نا چاہتے ہوئے بھی دن میں کئی بار اس دورے کا شکار ہوتی جس میں منزہ کے ساتھ ساتھ اس کا اپنا بھی بے پناہ نقصان ہوا کرتا تھا۔وہ اتوار کی شام تھی جب حمائل اپنے کمرے میں بیٹھی سر یوسف کے دیئے ہوئے ہوم اسائنمٹ مکمل کر رہی تھی منزہ لاؤ نج میں بیٹھی امی جی کا سر دبا رہی تھی۔وہ اپنا ہوم ورک مکمل کر رہی تھی ۔
“بس بیٹا! تم جا کے سٹڈی کرو میں ٹھیک ہوں اب۔” اس نے امی جی کی آواز سنی تھی اور وہ یقیناً منزہ سے مخاطب تھیں ان کے لہجے کی مٹھاس نے ایک بار پھر حمائل کے اندر وہ انجانی سی تلخی بھر دی۔” تو منزہ مجھ سے میرا بھائی ، میری امی جی ، میرے ابو جی کو لے لے گی؟پھر میں کیا کروں گی؟ ” اس خیال سے وہ اچھل پڑی ۔۔ جل گئی۔جل جل کے راکھ ہوتی گئی پر کیا تھا اس کے بس میں ؟ اپنی کس کس چیز ، کس کس رشتے کو وہ منزہ علی کی پہنچ سے دور رکھتی؟ وہ خا موش لڑکی کچھ نا مانگ کے بھی سب کچھ ہتھیا لیتی تھی اور حمائل کے ذہن پہ ایک بوجھ اور ایک نا ٹلنے والے طوفان کی طرح سوار تھی۔ وہ کرسی سے اٹھ کر منزہ کے بیگ کے پاس آئی تھی۔اس کے بیگ سے کیمسٹری کی نوٹ بک نکال کر وہ دیکھنے لگی۔ منزہ بڑی نفاست سے اسائنمنٹ مکمل کر چکی تھی ۔ حسد کا بھڑکتا شعلہ حمائل کے وجود کو جلانے لگا۔ دیوانگی کی اسی حالت میں اس نے منزہ کی نوٹ بک سے اسائنمنٹ والے صفحات پھاڑ دئیے اور پھر وحشیانہ انداز میں قالیں پر ٹانگیں پھیلا کر اس نے کاغذ کے ان صفحات کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے کردئیے اور قہر بھری نظر سے ان کاغذ کے ٹکروں کو دیکھتی گئی جس کو اس نے خو د پھاڑا تھا۔کاغذ کے ان پرزوں کو اس نے قالین سے سمیٹ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا اور پھر وہ ہنسنے لگی، بے تحاشا ہنسنے لگی، اتنی ہنسی کہ ہنستے ہنستے اس کا منہ دکھنے لگا۔
بوجھل سے قدموں سے اس نے سٹڈی ٹیبل کی طرف بڑھ کر اپنی نوٹ بک کھول لی اور اپنی ہوم اسائنمنٹ مکمل کرنے لگی۔
٭…٭…٭
” سلطانہ آرہی ہے” بڑے ابا نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
” کب آرہی ہے” ؟ بڑی اماں نے آلو سے چھلکا ہٹاتے ہوئے پوچھا۔
” شام تک پہنچ جائے گی۔ تم رات کے کھانے پہ اچھا اہتمام کرلینا۔ بہت لمبے عرصے بعد آ رہی ہے۔” کرسی کی پشت پرٹیک لگاتے ہوئے بڑے ابا بولے۔
” ہاں۔ اللہ بخشے سعید کی فوتگی پہ آئی تھی اس کے بعد نہ ہم گئے نہ وہ آئی” بڑی اماں آلو کاٹنے لگیں۔
” یہ سلطانہ کون؟ کہاں سے ؟ ” مرینہ نے عرینہ سے پوچھا۔
” تمہارے ابا کے ماموں کی بیٹی ہے۔پھوپھی ہوتی ہے تمہاری ۔” اماں نے پیاز کاٹتے ہوئے مرینہ کو جواب دیا۔
” لو ایک اور پھوپھی کا اضافہ ۔۔۔۔” عرینہ نے بے زاری سے کہا۔
” یار ایک بات تو مجھے سمجھ نہیں آتی ۔ ” مرینہ نے عرینہ کے کندھے پر بازو جما تے ہوئے کہا۔
” کس بات کی” ؟عرینہ نے دلچسپی سے مرینہ کو دیکھا۔
” یہی کہ ہماری ہر پھوپھی رات کے کھانے پر کیوں پہنچ جاتی ہیں۔” ؟؟؟مرینہ نے معصومیت سے کہا تو عرینہ نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
کرسی پر بیٹھے ابا نے نیم وا نکھوں سے عرینہ کو دیکھا ور پھر سے آنکھیں بند کرلیں۔۔ ان کے پاس ہی بیٹھی اماں نے قہرناک نظروں سے عرینہ اور مرینہ کو باری باری دیکھا۔
ہر وقت پاگلوں کی طرح ہنسنا اچھی بات نہیںہے۔ تم دونوں جاؤ با ورچی خانے میں۔چائے بنا کے لاؤ۔صالحہ اور صابرہ دونوں چائے کی شوقین ہیں ۔ ان کو بھی دے آؤاور تیرے ابا بھی تھک کر آئے ہیں۔ چلو جاؤ تم دونوں۔” اماں نے لمبی سی تقریر سنا دی اور عرینہ چہرے پہ ناگواری کے تاثرات لئے اٹھی۔ “چائے تو بنا لیں گے لیکن ساتھ میں فضول تفصیلات بتانے کی کیا ضرورت؟ ” عرینہ بڑ بڑائی اور مرینہ کے ساتھ باورچی خانے کے اندر چلی گئی۔
” کاش میری ماں تیری ماں کی طرح شریف ہوتی۔” عرینہ نے حسرت سے کہا ۔
” میری اور اپنی ماں کی بات چھوڑو۔اپنی فکر کرو!کل کو تیرے بچوں کو تجھ سے یہ شکایت ہوئی تو؟” دینا نے باورچی خانے کے اندر آتے ہوئے کہا۔” تم خدارا اپنی بکواس نہ شروع کرنا” عرینہ سخت بے زار تھی۔
دینا مسکراتی ہوئی باورچی خانے سے نکل کر صحن میں چلی گئی۔
چولہے پر پڑی کیتلی میں پانی ابل رہا تھا۔عرینہ بد حواسی سے ادھر ادھر چائے کا ڈبہ ڈھونڈ رہی تھی اور مرینہ کو چینی کا ڈبہ نہیں مل رہا تھا۔دودھ کہاں پر پڑا تھا؟یہ بھی ان کو معلوم نہ تھا۔
صحن کی مشرقی کیاری سے تھوڑی سی مٹی اپنی ہتھیلی پر رکھ کردینا کو کچھ یاد آرہا تھا۔” جو ملتان والی پھوپھی آج آرہی ہیں۔انہی کا بیٹا تھا جسے میں گھوڑا بناتی تھی۔اصغر کسان تھا اور میں کسان کی بیوی۔۔۔وہ اسی کیاری اسی مٹی کی گوڈائی کیا کرتا تھا۔” اس نے اپنی ہتھیلی پر پڑی مٹی کو اپنی آنکھوں کے قریب کرلیا۔ “کسی کے چلے جانے سے باہر کے ماحول پہ کوئی اثر نہیں پڑتا۔اندر کا ماحول خراب ہو جاتا ہے سارا۔ اس نے اپنی ہتھیلی سے مٹی پھینک دی۔ اور محبت کا اظہار بہت ضروری ہوتا ہے کیا؟بنا اظہار کے محبت نہیں کی جاسکتی کیا؟ جو وہ جاتے جاتے مجھے درد سر دے گیا ” اس نے جھنجلاتے ہوئے سوچا ۔ اچانک اس کو عرینہ اور مرینہ کا خیال آگیا اور اس کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ چھا گئی۔
” بڑی ماں بہت کام کرواتی ہیں بے چاریوں سے ۔۔۔” وہ باورچی خانے کی سمت چلی گئی ” چائے بن بھی گئی ہو گی کہ نہیں ؟ وہ باورچی خانے کے اندر چلی گئی ۔ وہ دونوں وہاں نہیں تھیں ” مطلب چائے بن گئی ہے مگر کیسے؟؟!وہ تعجب کے عالم میں باورچی خانے سے نکل آئی ۔ عرینہ اور مرینہ کے ہاتھوں بنی چائے کو چکھنے کا اشتیاق اسے ہال تک گھسیٹ لایا ۔
٭…٭…٭
رات کا کھانا کھالینے کے بعد وہ دونوں ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں ۔ حمائل بیڈ پر بیٹھ کر ڈائری لکھنے لگی اور منزہ کالج کے لیے اپنا بیگ ٹھیک کررہی تھی جب اس کو اپنی کیمسٹری کی کاپی میز پر پڑی نظر آئی۔ “میں نے اسائنمنٹ کمپلیٹ کر کے اس کو بیگ میں رکھ دیا تھا ۔” اس نے میز پر سے اپنی کاپی اٹھا لی اور اسے کھول کر اس نے اپنے مکمل کیے ہوئے اسائنمنٹ پر ایک سرسری نگاہ دوڑائی پر ۔۔۔ وہاں وہ صفحات موجود نہیں تھے بلکہ ان کی بجائے پھٹے ہوئے صفحوں کے نشان تھے۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ یہ حرکت کس نے کی تھی ؟ یہ پوچھنے کا حق منزہ علی کو اس گھر میں نہیں تھا کیوں کہ یہ اس کا نہیں حمائل اصغر کا گھرتھا اور وہ اس کے ساتھ جو بھی الٹی سیدھی حرکت کرتی منزہ نے بہر حال وہ برداشت کرنی تھی کیوں کہ اس کے پاس برداشت اور صبر کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
وہ اپنی نوٹ بک اٹھا کر سٹڈی ٹیبل کے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔ حمائل اپنی ڈائری سائیڈ ٹیبل پر رکھ چکی تھی۔ منزہ کو کاپی کھولتے دیکھ کر وہ ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گئی ” لائٹ آف کر دو، مجھے سونا ہے۔” اس کے لہجے میں اجنبیت اور حقارت سمیت بے زاری بھی تھی ۔
” ٹھیک ہے حمائل ! تم نے اچھا کیا میرے ساتھ اور تم وہ لڑکی ہو جس نے میرے گھر آکر میری پسندیدہ گڑیا پر انگلی رکھ کے کہا تھا کہ ” یہ مجھے اچھی لگی ہے ” اور میں نے خاموشی سے وہ گڑیا تمہیں تھما دی تھی اور۔۔۔۔ پھر میں کئی راتوں تک اپنی گڑیا کے پیچھے چپکے چپکے روئی تھی۔ ” لائٹ آف کر کے منزہ سٹڈی لیمپ کی روشنی میں اسائنمنٹ مکمل کرتے ہوئے سوچتی رہی ۔” لیکن میں پھر بھی تمہاری احسان مند ہوں کہ تم نے مجھے اپنے گھر اور اپنے کمرے میں رہنے کی اجازت دی ہے ورنہ تو میں کہاں جاتی ؟ تم چاہو تو بدل جاؤ لیکن میں وہی منی رہوں گی جس کے ساتھ تم گڑیوں کا کھیل کھیلتی تھی ۔” اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس کے سامنے پڑی کاپہ لکھا ہر لفظ دھندلا نے لگا۔اس کا ہاتھ لکھتے لکھتے تھک چکا تھا لیکن وہ پھر بھی کافی دیر تک اسائنمنٹ مکمل کرنے میں لگی رہی ۔
اسائنمنٹ مکمل کرکے وہ اپنی کاپی بیگ میںرکھ رہی تھی جب لیمپ کی مدھم روشنی میں اس نے سٹڈی ٹیبل کے پاس بڑے ڈسٹ بن میں پڑے کاغذ کے ٹکڑوں کو دیکھ لیا ۔ کاپی بیگ میں رکھ کے وہ واش روم کے اندر گئی تھی اور سنک کا نلکا کھول کر اس نے ہاتھوں کے پیالے میں پانی بھرا اور زور زور سے اپنے چہرے پر دے مارا” آپ کا مرنا کیا بہت ضروری تھا امی” ؟سامنے دیوار پہ لگے آئینے میں اپنے بھیگے چہرے کو دیکھ کر اس نے تاسف سے سوچا اور اس کی آنکھیں بھر آئیں۔اپنے اشکوں کو خشک کرنے کے بہ جائے اس نے انہیں آزادی سے بہنے دیا تھا ۔اس کو اپنے آنسو بہانے کا بھر پور حق حاصل تھا اور وہ اپنے اس حق کا استعمال اکثر تنہائی میں کرتی تھی ۔ واش روم سے نکل کر وہ حمائل کے پاس جا کے لیٹ گئی ۔ تھوڑی دیربعد وہ گہری نیند سو رہی تھی ۔
٭…٭…٭





پھوپھو جی پہنچ گئیں اور سب باری بار ی ان سے گلے مل رہی تھیں ۔
” اصغرکے چلے جانے کی خبر ہوتے ہی یہاں آنے کی تیاریوں میں لگ گئی ۔ سوچا تم لوگ اداس ہورہے ہوں گے”۔ پھوپھو جی پلنگ پر براجمان ہوتے ہوئے کہا۔ ” تو آپ کون سا عید الاضحی ساتھ لائی ہیں جواب ہم خوش ہو جائیں گے۔” عرینہ بڑ بڑائی تو دینا نے جواباً اسے گھورا۔
” ہاں اچھا کیا ناں جو تم آگئی ۔ اتنا لمبا عرصہ ہوا تم کو یہاں سے گئے ہوئے۔ ” بڑی ماں نے نرمی اور عقیدت سے کہا ۔
” ہاں ! واقعی لمبا عرصہ ہوگیا ہے اب ان بچیوں کو دیکھو کتنی بڑی ہو گئی ہیں ۔” پھوپھی جی نے پیا ر بھری نظروں سے دینا ، عرینہ اور مرینہ کو دیکھا۔
” اری فرحت ! تم ویسی ہی کم گو ہو؟ انہوں نے تبسم کے قریب خاموش بیٹھی فرحت کو دیکھا ” وہ اللہ بخشے سعید اکثر کہتا تھا ” آپا! جب تک میں خود کچھ نہ لاؤں یہ نہیں مانگتی ۔ حد سے زیادہ شرافت بھی اچھی نہیں ہوتی۔” ان کی اس بات سے فرحت کے لبوں پر ایک کھوٹی سی مسکراہٹ لہرائی ۔” جب وہ تھا تو مجھے کبھی مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔۔۔ ” ماضی کی حسین یادیں ان کے ذہن میں موجود تھیں ۔ زندگی میں ہم سفر کی ضرورت تو ہمیشہ ہوتی ہے ۔ اس کٹھن سفر کو طے کرنے کے لیے کسی کا ساتھ ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے یہ وہ جانتی تھی ۔اس گھر کے ہر فرد نے ان کو بے پناہ اہمیت اور پیار دیا تھا لیکن ان سب کے بیچ سعید کے مسکراتے چہرے کی کمی وہ ہمیشہ محسوس کرتی تھی ۔ وہی واحد شخص تھا جس کو وہ دل کی گہرائیوں سے اپنا مانتی تھی ۔جس کو وہ کچھ بھی نہ بتاتی بس اس کے سامنے بیٹھ جاتی تو وہ لمحوں کے حساب سے اس کو سمجھ لیتا تھا، جو باقی سب کے لیے مرحوم لیکن ان کے لیے زندہ تھا ۔۔۔ ان کا شوہر ، ان کا ہم سفر ان کا سب کچھ تھا۔ ان کا مان تھا، ان کی خوشیاں ،شادمانیاں ، چاہتیں ، محبتیں اس کی ذات سے جڑی تھیں اور پھر کس قدر اچانک اس نے آنکھیں موڑ لی تھیں ۔ ان کو زندگی کے کٹھن سفر میں اکیلا چھوڑ دیا تھا اور ان میں بھی شاید تنہا سفر کی سکت نہ تھی۔ اسی مقام پر چلتے چلتے رُک گئیں جہاں وہ انہیں چھوڑ گیا تھا ۔
٭…٭…٭
لائٹ آف ہونے کے باوجود اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ آنکھیں بند کیے کافی دیر تک مکر کیے پڑی رہی ۔ کروٹیں بدلتی رہی اور وقفے وقفے سے آنکھیں کھول کر وہ منزہ کو دیکھ لیتی، جو سٹڈ ی چیئرپہ بیٹھی سر جھکائے اپنے کام میں مگن تھی ۔ حمائل پھر سے آنکھیں بند کر لیتی، تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا منزہ اپنی ہتھیلیوں سے اپنے آنسو خشک کررہی تھی ۔ حمائل کو بے اختیار اس پہ تر س آگیا ۔ اس نے پچھتاوے سے آنکھیں بھنچ لیں ۔ نہ جانے کیوں اس کو منزہ سے نفرت تھی ؟ وہ اپنی مرضی سے تو نہیں آئی تھی یہاں اور کوئی کب چاہتا ہے کہ اس کی ماں مرجائے اور وہ بے سہار ا ہو کے خالہ کے گھر رہنے لگے ؟ حمائل کے دل میں پچھتاوئے کا سمندر ہچکولے کھارہا تھاپر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ اس کو اب نیند بھی نہیں آرہی تھی ۔ وہ آنکھیں بند کرکے خود کو ملامت کرتی رہی۔ کافی دیر تک اپنے آپ سے لڑتی رہی اور پھر اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول دیں ۔ منزہ واش روم سے نکل کر اس کے پاس آکر لیٹ گئی ۔ حمائل دم سادھے پڑی رہی ۔ وہ اپنے کیے پہ سخت شرمندہ تھی ۔” فضول میں بے چاری کو رلا دیا ” ۔ اس نے کروٹ بدلتے ہوئے خود کو ملامت کیا ۔
کافی دیر گزر جانے کے بعد بھی اسے نیند نہیں آئی تو اس نے سر اٹھا کر منزہ کو دیکھا وہ بڑے آرام سے سورہی تھی ۔ حمائل دھیرے سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔چہرہ اسے کے چہرے کے بالکل نزدیک لا کر اس نے بہ غور منزہ کے سوئے ہوئے چہرے کا جائزہ لیا ۔ اس چہرے پہ اس وقت طمانیت کے سوا کسی قسم کی افسردگی کا سایہ تک نہ تھا ۔وہ لڑکی جوکچھ دیر پہلے بڑی بیچارگی سے روئی تھی اس وقت وہ بڑے آرام سے سو رہی تھی۔ وہ واقعی در گزر کرنے والی لڑکی تھی ۔ حمائل کو اب اس پہ بے پناہ پیار آرہا تھا ۔ اس نے جھک کر منزہ کا بوسہ لیا اور دوبارہ لیٹ گئی لیکن باوجود کوشش کے وہ سو نہیں پائی ۔ ایسا ہی ہوتا تھا کہ منزہ کو نقصان پہنچانے کے چکر میں وہ اپنا بھی بے پناہ نقصان کر دیا کرتی تھی۔
٭…٭…٭
” پھوپھی جی ! وہ سلیم کیسا ہے ؟ اور زیبا؟ دینا نے پھوپھی کی ٹانگیں دباتے ہوئے پوچھا ۔” دونوں اچھے ہیں ۔ سلیم تمھارا او ر اصغر کا دوست تھا ناں ۔۔۔اکثر تم دونوں ہی کی باتیں کرتا ہے ۔” پھوپھی جی نرمی سے بولیں ۔
” ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں ۔؟ ہمار ا تو کوئی بچپن کا دوست بھی نہیں جس کو بیٹھ کے یاد کریں ۔” عرینہ نے مرینہ کے کان میں سرگوشی کی ۔
” تم دونوں چلو آؤ میرے ساتھ۔ بڑی ماں نے کمرے سے نکلتے ہوئے سختی سے کہا اور وہ دونوں منہ بسورتی ہوئی کمرے سے نکل گئی تھیں ۔
” زندگی اپنی جب اس طور سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے ۔
” عرینہ نے حسرت سے کہا اور دستر خوان بچھانے لگی۔
” بڑی ماں کو ناں ہم دونوں بے روز گار لگتی ہیں ۔ ہر وقت ہمارے لیے روز گار کی تلاش میں رہتی ہیں ۔” مرینہ نے ناراضگی سے کہا ۔
” ہاں ہم بے روز گار ہیں تو وہ دینا جناح کون سی برسرِروزگار ہے ؟ عرینہ نے غصے سے جواب دیا ۔
کھانا کھالینے کے بعد بڑی ماں نے ان دونوں کو پانچ منٹ بھی آرام سے بیٹھنے نہیں دیا تھا ۔
“تم دونوں جا کے قہوہ بنا لو سب کے لیے ۔ صالحہ میٹھا نہیں پیتی اس کے لیے الگ سے بنا لو اور صابرہ کو اس وقت چائے کی طلب ہوتی ہے ۔ اس کے لیے چائے بناکر لے آؤ ” اور وہ دونوں دانت پیستی ہوئی اٹھی تھیں۔
“یہ تو پیچھے ہی پڑ گئیں۔” عرینہ نے باورچی خانے کے اندر جاتے ہوئے غصے سے کہا ۔ آج ہمارے گھر سے پھوپھی گھر بن گیا ہے ۔ ” مرینہ نے پانی کی کیتلی چولہے پر رکھ دی ۔” ہاں پھوپھیوں کی بارش ہوئی ہے اور ساری ہمارے گھر آبرستی ہیں جن سے ایک قہوہ بڑے شوق سے پیتی ہیں ۔ دوسری اس سے بھی زیادہ شوق سے پیتی ہیں لیکن میٹھا نہیں کیوں کہ ان کو شوگرکا مرض لاحق ہوا ہے اور تیسری پھوپھی صاحبہ جو ہے سرے سے قہوہ ہی نہیں پیتیں بلکہ رات کے وقت ان کو چائے کی طلب ہوتی ہے اس لیے ان کے لیے چائے بنانی پڑے گی ۔ ” عرینہ مسلسل بولے جارہی تھی ۔ جتنا وہ کاموں سے بے زار تھی اتنا ہی اماں اس سے کام کروا رہی تھیں اور اس کا دل کررہا تھا وہ باری باری سب گھروالوں کو چبا جائے۔
” بھئی ! یہ ہمارا گھر ہے یا چائے کا ہوٹل ؟ بلکہ مجھے تو لگتا ہے یہ سرائے ہے ۔ جہاں لو گ جب تک چاہیں رہ لیتے ہیں اور اپنی پسند اور فرمائیشو ں سے چائے ، قہوہ جو بھی ہو کھا پی لیتے ہیں ۔” دو قسم کا قہوہ بن چکا تھا اور مرینہ اب چائے بنا رہی تھی اور ساتھ ساتھ بولے جارہی تھی ۔
٭…٭…٭
اگلے دن کالج میں بریک کے وقت حمائل اپنے دوستوں کے پاس جانے کے بہ جائے منزہ کے ساتھ بیٹھی رہی ، جو اس کے ساتھ ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھی لیکن حمائل کے برعکس منزہ کا کوئی دوست نہیں تھا ۔
تابندہ اور فضہ اسے بلانے آئی تھیں کہ سب اس کو ڈھونڈ رہے ہیں لیکن اس نے درد سر کا بہانہ بنایا تھا ۔ وہ اپنی ندامت کے احساس کو کم کرنے کے واسطے منزہ کے پاس بیٹھی رہی ۔ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ اس خاموش طبع لڑکی پہ اس کی موجودگی کا کوئی اثر نہیں پڑنا۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!