پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

” یہ میرے ماموں کی بیٹی ہے ۔” وہ مسکرایا ۔ اس نے دیکھا ۔ وہ لڑکی ارد گر دکے ماحول سے بے گانہ ، بڑے انہماک سے برش چلا رہی تھی ۔ اس کے سیا ہ بالوں کی چند لٹیں سامنے آکر اس کے چہرے پر کھلنے لگیں ۔ لڑکی نے جھنجھلا کر اپنے رنگوں سے رنگے ہاتھ سے اپنے بالوں کو کان کے پیچھے کرلیا اور ایسے میں ہلکا سا رنگ اس کے گال پر لگ گیا لیکن وہ لڑکی اس کی پرواہ کیے بغیر پینٹنگ بنانے میں غرق تھی ۔
” beautiful ” بے اختیار سنان کے منہ سے نکلا ۔ وہ دھیرے سے چلتا ہوا کھڑکی تک آگیا ۔
” excuse me! ” اس نے نگاہیں اس لڑکی کے چہرے پر مرکوز رکھتے ہوئے کہا ۔ اس لڑکی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔
” کون؟” وہ اپنے سامنے ایک انجان نوجوان کو دیکھ کر گھبرا گئی ۔
” سنان” اس نے خوش دلی سے اپنا نام بتا دیا ۔
” کس سے ملناہے آپ کو ؟”
” آپ میری کزن ہیں ؟…میرا مطلب میں آپ کا کزن ہوں ۔”
” آپ کے فادر سے ملنے آیا ہوں ۔”
” میرا کزن ؟ میرا فادر؟” وہ کچھ نہیں سمجھی تھی ۔
” کیا آپ باہر آئیں گی کہ میں آپ کو پوری بات بتا دوں ۔” وہ جھنجھلایا ۔
” oh, sorry ” آف کورس میں باہر آرہی ہوں ۔” اس نے ہاتھ سے برش رکھ دیا ۔ تارپین کے ڈبے میں ہاتھ ڈال کر اس نے میلے سے تولیے سے ہاتھ صاف کیا اور سٹور روم سے نکل گئی ۔
” میں اصغر حمید کا بھانجا ہوں ۔ان سے ملنے سعودیہ سے آیا ہوں ۔”
و ہ اس لڑکی کے پیچھے پیچھے ڈرائیننگ روم کے اند رجاتے ہوئے بولا۔
” اصغر حمید کا بھانجا؟” لڑکی نے حیرت سے سنان کو دیکھا ۔
” پر ان کی تو کوئی بہن نہیں ہے ۔”
” ہو کر بھی نہیں ہے ۔” وہ معنی خیز انداز میں بولا ۔ ” آپ اپنا نام بتائیں گی ؟”
” منزہ علی ۔”
” آپ کی مدر کہاں ہے؟”
” ایکچولی یہ میری خالہ کا گھر ہے ۔آپ جن کو ماموں کہتے ہیں وہ میرے خالو ہیں ۔اینی ویز میں خالہ کو بلاتی ہوں ۔”
وہ ڈرائینگ روم سے نکل گئی ۔
” خالو کا بھانجا؟” خالہ کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اس نے حیرت سے سوچا ۔
” ان کی تو کوئی بہن نہیں ہے ۔شاید ان کی کسی کزن کا بیٹا ہو ۔” اس نے سوچا اور خالہ کے کمرے کادروازہ کھولنے لگی ۔
٭…٭…٭





کسی کی چیخوں سے اس کی آنکھیں کھل گئیں ۔ کوئی رورہاتھا ۔اس کا دل بیٹھ گیا مرینہ رو رہی تھی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی اور بھاگ کر کمرے سے نکل گئی ۔
برآمدے میں کوئی نہیں تھا ۔ آوازیں بڑی ماں کے کمرے سے آرہی تھیں ۔ وہ اس طرف بڑھ گئی۔
اماں اور مرینہ بڑی ماں کے پلنگ کے پاس بیٹھی رو رہی تھیں لیکن بڑی ماں بڑے آرام سے سوررہی تھیں۔ دینا کے وجود بھر میں ایک سرد لہر سی دوڑ گئی ۔ وہ دروازے میں ہی بیٹھتی چلی گئی ۔ اس کا ذہن خالی اور دماغ ماؤف ہو گیا تھا ۔ اس کی ٹانگیں بے جان تھیں ۔ اس نے خالی نظروں سے اپنی ماں اور بہن کو دیکھا وہ دونوں رو رہی تھیں ۔ دینا نے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ملیں پروہ خشک تھیں دینا کو لگا جیسے موت نے پلنگ پر سوئی اس عورت کو نہیں بلکہ اسے مار دیا ہو ۔
٭…٭…٭
” سنان یوسف ؟ عرینہ او ر یوسف کا بیٹا ؟ اصغر حمید کا بھانجا ؟” یہ حقیقت کس قدر نا قابل یقین تھی۔ پورے تئیس سال بعد عرینہ حمید کا ذکر ان کی زندگیوں میں آیا تھا ۔ اس نے ایک خط کے ساتھ اپنے بیٹے کو اپنے بھائی کے پاس بھیجا تھا ۔
” آخرکار تمہیں اپنے کیے کا پچھتاوا ہو گیا ۔ تم لوٹ آئی ہو، لیکن میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ تب بھی نہیں جب تم میرے قدموں میں گر کر رولو ۔ میں تمہیں معافی کے لائق ہی نہیں سمجھتا ۔” وہ سخت اذیت میں مبتلا تھے ۔
” ہمارے لیے ان حالات کا سامنا کرنا مشکل ہے، لیکن ہم نے بہرحال بہادری سے ان حالات کا سامنا کرنا ہے ۔” وہ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے بولیں ۔ انہوں نے سر اٹھا کر اپنی بیوی کو دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا ۔
” سنان ،شہروز کے ساتھ لان میں بیٹھا ہے ۔ آپ کہیں تو بلالوں ؟”
” ہاں ۔ میں سٹڈی میں ہوں ۔ وہاں بھیج دو اسے ۔” وہ کمرے سے نکل گئے ۔مرینہ کے بلانے پر آج وہ آفس سے جلدی گھر آگئے تھے لیکن عرینہ کے ذکر نے انہیں واپس ماضی کی تلخیوں میں دھکیل دیا تھا ۔ایک بار پھروہ تئیس سال پیچھے چلے گئے ۔ اس زمانے میں جب ان کے ارمانوں کا خون ہوا تھا ۔ جب ان کی عزت کچل دی گئی تھی ۔
٭…٭…٭
و ہ عورت نہیں مرسکتی ۔ دینا کا نظریہ تھا ۔ وہ مضبوط ارادوں والی سخت مزاج سی عورت جو زندگی کو اپنے اصولوں کے مطابق گزارتی تھی ۔وہ موت کے سامنے جھک نہیں سکتی تھی جو زندگی کے ہر سردو گرم میں دیوار کی طرح مضبوط رہی تھی ۔ جس نے ہر آندھی کو پنے سینے پہ سہ لیا تھا ۔ اس کے سامنے موت کے ایک جھٹکے کی وقعت تھی ؟
” میں جانتی ہوں بڑی ماں کو اپنی موت نے نہیں بڑے ابا کی موت اور عرینہ نے مل کر مار ڈالا۔” برآمدے میں پڑے تخت پر اماں کے پاس بیٹھی دینا نے سوچا۔
فون بج رہا تھا لیکن اس میں اٹھنے کی سکت نہیں تھی ۔
” ہیلو۔” مرینہ نے ریسیور کان سے لگا لیا ۔
“ہم سب ٹھیک ہیں ۔آپ کیسے ہیں ؟ ” اماں اور دینا نے مرینہ کو دیکھا ۔
” نہیں وہ گھر پر نہیں ہیں ۔بڑی پھوپھی کے گھر گئی ہوئی ہیں ۔” دینا سوالیہ نظروں سے مرینہ کو دیکھنے لگی ۔”
” نہیں ۔ بتایا تو نہیں ہے کہ کب آئیں گی ۔”
” چلیں ٹھیک ہے ۔ اللہ حافظ۔” مرینہ نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا ۔
” کون تھا ؟” دینا نے دریافت کیا ۔
” اصغر ۔” مرینہ آکر اس کے پیروں میں بیٹھ گئی ۔دینا کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔
” بڑی ماں کا پوچھ رہے تھے ۔ میں نے جھوٹ بول دیا ۔”
” اچھا کیا تم نے ۔ امتحان جاری ہے اس کا ۔” اماں نے قرآن پاک بند کرتے ہوئے کہا ۔
” کل بھی اس کا فون آیا تھا میں نہ بتا سکی ۔” انہوں نے قرآن پاک آنکھوں سے لگا کر طاق میں رکھ دیا۔
” وہ آئے گا تو اپنی ماں اور بہن کے بارے میں دریافت کرے گا ۔ پھر ہم اس کو کیا جواب دیں گے ۔”وہ تخت پر سے اٹھ گئی ۔ وہ اصغر کا نام بھی نہیں سننا چاہتی تھی ۔ اس کا ذکر سن کر وہ بلاوجہ بے چین ہو جاتی تھی ۔ “وہ واپس آئے گا تو مجھ سے اپنی طاقت مانگے گا ۔لیکن میں اسے کیا کہوں گی کہ اس طاقت کے بدلے میں نے اس گھر کے لیے ایک محافظ لیا ہے اور وہ میری بات کبھی نہیں سمجھے گا ۔”وہ اپنے کمرے میں آگئی ۔
٭…٭…٭





سنان دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھتا ہوا سٹڈی کے اندر چلا گیا ۔
” آؤ بیٹھو یہاں پہ۔” انہوں نے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔سنان ان سے کچھ فاصلے پر صوفے پر بیٹھ گیا ۔
” تم سے میں کیا کہوں ؟ تمہاری ماںہماری زندگیوں کو آگ لگا کے اپنی زندگی کی شمع جلانے گئی تھی ۔ تمہیں میں کیا بتاؤں؟” وہ حیران و پریشان سر جھکائے بیٹھے رہے۔
” عرینہ ۔۔۔ کیسی ہے وہ ؟ کہاں ہے ؟” انہوں نے اپنا لہجہ نارمل رکھتے ہوئے سنان سے پوچھا۔
اماں جان کی ڈیتھ کو ایک مہینہ ہو گیا ۔” سنان سر جھکا کر دھیرے سے بولا ۔
” کیا؟” ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا ۔” کیسے ؟ کیسے ہو گیا یہ؟” ان کے منہ سے نکلا۔
” بلڈ کینسر ” سنان نے بہ مشکل کہا۔ اسے اچانک و ہ خاموش سی عورت یاد آگئی جو اس کا مان تھی۔
” آئی ایم سوری” وہ بڑبڑائے ۔
” سوچا تھا تم آ کر میرے پیر پکڑ کر معافی مانگو گی اپنے کیے پر پچھتاؤ گی ۔ لیکن تم ۔۔۔ ” ان کی آنکھوں میں نمی اُتری ۔ انہیں وہ مست سی لڑکی بڑی شدت سے یا د آئی جو ان کی اکلوتی بہن تھی۔
” تمہیں کبھی اپنے کیے کا پچھتاوا نہیں ہوا ؟”کبھی تمہارا دل واپس آنے کو نہیں مچلا ؟” انہوں نے اپنی ہتھیلیوں سے اپنی آنکھوں کی نمی خشک کی۔
” بیٹا ! انہوں نے بولنے کی کوشش کی لیکن بول نہیں پائے۔”
سنان نے ان کے نزدیک کھسک کر ان کے بازو پر ہاتھ رکھ دیا ۔
” ماموں ! ” are you okay ”
اس کے چہرے پر فکر مندی کے آثار تھے۔ انہوں نے سر اٹھا کر سنان کو دیکھا اور اثبات میں سر ہلایا
” i am alright ” لیکن اگلے ہی لمحے انہوں نے سنان کے کندھے پر سر رکھا اور بالکل بچوں کی طرح بلک بلک کررونے لگے ۔
سنان حیران و پریشان اپنے روتے ہوئے ماموں کو دیکھتا رہا ۔
” اللہ انہیں صبرو ہمت دے ” سٹڈی کے آدھ کھلے دروازے میں کھڑی ان کی بیوی نے آنسو پونچھتے ہوئے تہ دل سے دعا کی اور سیڑھیاں اترنے لگیں۔
” اصغر آگئے۔” مرینہ نے آکر بتایا لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلی نہیں اس میں ہمت ہی نہیں تھی اس کا سامنا کرنے کی، مجھ پر یقین کر کے گیا تھا وہ، پر میں نے اس کے یقین کا جنازہ نکال دیا ۔ اب وہ آگیا ہے تو کیا جواب دوں گی ؟ وہ سمٹ کر بیٹھ گئی ۔
” آپ ملیں گی نہیں اس سے ؟” مرینہ اس کے پاس کھڑی پوچھ رہی تھی ۔ دینا نے کا خالی الذہنی کے عالم میں اسے دیکھا۔
” ہاں ۔ کیوں نہیں ۔ میں جارہی ہوں ان سے ملنے۔” الفاظ بے ترتیبی کے ساتھ اس کے منہ سے نکلے ۔ اس کاوجود کانپ رہا تھا ۔ مرینہ سے اپنی یہ کیفیت چھپانے کیلئے وہ بہ دستور سمٹی ہوئی بیٹھی رہی ۔
کافی دیر تک وہ اپنی بکھری ذات کو سمیٹتی رہی ۔ خود میں اصغرکا سامنا کرنے کی ہمت ڈھونڈتی رہی لیکن وہ نہ اٹھ سکی ۔
” یہ لیٹر دیا تھا اماں جان نے آپ کو دینے کے لیے ۔” سنان نے جیب سے سفید رنگ کا ایک لفافہ نکال کر انہیں تھمایا۔
لفافے سے تہ شدہ خط نکال کر انہوں نے کھولا اور خاموشی سے پڑھنے لگے ۔
” السلام و علیکم !
آپ سے ہر ناطہ توڑکرگئی تھی، اس لیے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتاؤ ں گی جو لوگ گنا ہ کرتے ہیں اس کی سز ا کے لیے بھی تیاررہتے ہیں ۔ میں آپ سب کی گناہ گار ہوں لیکن اس گناہ کی سزا مجھے یہاں نہیں ملی۔ بعض اعمال کا حساب اللہ آخرت پر چھوڑ دیتا ہے ۔ میرا حساب بھی وہاں ہو گا ۔آپ سے معافی کی طلب گار ہوں ۔ آپ معاف کریں گے تو اللہ بھی معاف کر دے گا۔
عرینہ”
” بس ان چند الفاظ کے بدلے معاف کردوں میں تمہیں ؟”
انہوں نے خط بنا تہ کیے میز پر رکھ دیا ۔” تمہیں تو آ کر میرے قدموں میں گرنا تھا ۔ تمہارا گنا ہ ان کھوکھلے الفاظ کی معافی سے کبھی معاف نہیں ہو گا ۔ تم قا بلِ معافی نہیں ہو ۔” انہوں نے تلخی سے سوچا ۔
سنان نے گہری نظروں سے ماموں کو دیکھا وہ ان کے چہرے کے تاثرات پڑھ سکتا تھا ۔ وہ جانتا تھا اماں جان نے اس خط میں کیا لکھا تھا لیکن وہ ماموں کو سچائی بتا دینا چاہتا تھا ۔ انہیں وہ کہانی سنانا چاہتا تھا جو اس نے بے شمار بار اپنی ماں کے منہ سے سنی تھی ۔ اس کہانی کو اس نے اتنا غور سے سنا تھا کہ اس کے مناظر اس کی نظروں کے سامنے کسی ٹیلی فلم کی طرح چلتے ۔ بنا دیکھے سنان نے اس فلم کے ہر منظر کو زبانی یاد کیا تھا ۔ وہ مزید اپنی ماں کے کردار پر لگے داغوں کو برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔
” نہیں معاف کرسکتا میں تمہیں ۔” بے اختیار ان کے منہ سے وہ تلخ جملہ نکلا جو تئیس برس سے ان کے اندر آگ بھڑکائے ہوئے تھا ۔
” ایسا نہیں ہے ماموں !” سنان نے ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر یقین سے کہا ۔ انہوں نے قدرے حیرانی سے سنان کو دیکھا اور پھر تلخی سے کہا ۔
” تم کچھ نہیں جانتے ۔” انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
” نہیں ۔ آپ کچھ نہیں جانتے۔” اس نے پر اعتماد لہجے میں کہا اور وہ کہانی سنانے لگا جو اس نے اماں جان کے منہ سے ہزار بار سنی تھی ۔
٭…٭…٭
وہ پھر سے ساری ہمت ، سارا حوصلہ سمیٹ کر اصغر علی سے ملنے کمرے سے نکلی۔ وہ اماں کے کمرے میں تھا دینا اس طرف چلی گئی ۔
” اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر د ے ۔” سورہ طہٰ آیت نمبر 26 کا ورد کرتی ہوئی وہ اماں کے کمرے کے دروازے میں کھڑی ہو گئی ۔
” آپ نے مجھے کیوں نہیں بلایا ۔ آپ مجھے بلاتیں میں آجاتا سب کچھ چھوڑ کر۔” یہ آواز اصغر کی تھی ۔شاید وہ رورہا تھا ۔ دینا نے اندر جھانک کر دیکھا ۔ اصغر اماں کی گود میں سر رکھے رو رہا تھا ۔
” پتا ہے جب میں جاررہا تھا تو اماں کیا بولی تھیں ؟” اس نے سر اٹھا کر روتے ہوئے اماں کو دیکھا ۔
” انہوں نے کہا تھا کہ باپ کی شکل دیکھنے تو نہ آسکے میری موت پر بھی نہیں آؤ گے کیا ؟وہ سچ کہتی تھیں ۔ جانتی تھیں اپنے بیٹے کو۔۔ میں بہت بد بخت ہوں ۔” وہ بچوں کی طرح رونے لگا ۔ دینا دروازے سے ہی واپس آگئی ۔ اصغر کے آنسو ہمیشہ اسے کمزور کردیتے تھی ۔
” ضبط و برداشت کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے ۔” اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا اور خاموشی سے آنسو بہانے لگی ۔
٭…٭…٭
اس کے ماہانہ ٹیسٹ ہورہے تھے اور اس نے لیز ا کے ساتھ مل کر پڑھائی کرنی تھی ۔وہ لیزا کو فون ملانے لگی ۔
” ہیلو۔ لیزا! میں عرینہ بول رہی ہوں ”
” ہاں عرینہ ! بول۔”
” یار ! ٹیسٹ کے لیے پڑھائی نہیں کرنی ؟”
” کرنی تو ہے ۔”
” تو یہاں آتی ہے کہ میں تیرے گھر آجاؤں؟”
” تو یہاں آجا لیکن سن! ”
” ہاں ۔ بول!”
” ساول کی ممی بیمار ہیں ۔ آنٹی ، ممی اور کرسٹینا وہاں جا رہی ہیں ۔”
” تو جائیں ناں۔ تجھے کیا مسئلہ ہے؟”
” ممی چاہتی ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ چلو”
” تو مت جا ۔ کہہ دے ان سے کہ تو نے پڑھائی کرنی ہے۔ ”
” چل میں دیکھتی ہوں تو مجھے آدھے گھنٹے بعد کا ل کر پھر میں تجھے بتاؤں گی۔”
فون بند ہونے کے بعد وہ مرینہ کو دوا دینے گئی تھی ۔
” دینو بھی بیٹھ گئی ہے وہاں جا کر ۔” اس نے کڑھ کر سوچا تھا ۔آج کل کام کی زیادتی کی وجہ سے اس کو سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی اور کالج میں ماہانہ ٹیسٹوں نے الگ اسے تنگ کررکھا تھا ۔
” آج تو اتوار کا دن ہے ۔” وہ نئے کپڑے پہن کر غسل خانے سے نکلی تو مرینہ نے کہا ۔
” پتا ہے مجھے ۔” اس نے بیزاری سے کہا ۔
” تو آپ کہاں جارہی ہیں ؟”
” ڈوب مرنے ۔” وہ بال کنگھی کرنے لگی ۔
” آپ ڈوب مرنے کیلئے اتنا تیار ہورہی ہیں ؟” مرینہ نے معصومیت سے کہا ۔
” ایک تو تُو ہر وقت بکتی رہتی ہے ۔ چپ کرجا تھوڑی دیر کے لیے ۔ پیر کی بجائے زبان پر پلستر لگ جاتاتو میرا بھلا ہو جاتا ۔” عرینہ نے اسے ڈانٹا ۔
” توبہ ہے بجیا!” مرینہ نے منہ پھلا کر کہا ۔
” اے بلو رانی ! میں لیز ا کو فون کرنے جارہی ہوں ۔ فی الحال تجھے نہیں منا سکتی اور بھی بہت سارے کام کرنے ہیں ۔فرصت ملی تو تیرے لاڈ اٹھاؤ ں گی ۔” وہ کمرے سے نکل گئی ۔
” اونہہ۔” مرینہ نے میز پر سے کوئی کتاب اٹھائی اور پڑھنے لگی۔
اب بندہ ہفتوں تک پلنگ پہ لیٹ کے کیا کرے؟ اب تو ان کو بھی فرصت نہیں ۔” مرینہ نے اکتا کر سوچا تھا ۔
٭…٭…٭





شام کے وقت وہ کمرے سے نکلی تو اماں نے اسے اصغر کے لیے چائے لے جانے کا کہا ۔
” ا ماں مرینہ سے کہہ دیں ۔ وہ لے جائے گی ناں ۔” وہ اصغر کا سامنا کرنے سے ڈرتی تھی ۔
” وہ باورچی خانے میں میرا ہاتھ بٹا رہی ہے ۔ تم لے جاؤ۔”
اماں نے بے نیازی سے کہا اور بڑبڑانے لگیں ۔” بہت رویا ہے آج ۔ میرا تو کلیجہ کٹ گیا ۔”
دینا بے دلی سے چائے لے جانے لگی ۔
” کہہ دو اسے ۔ تازہ دم ہو کر نیچے آجائے ۔پلاؤ بنا رہی ہوں اس کے لیے ۔” سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے اماں کی آواز سنی۔
دبے قدموں سے وہ اصغر کے کمرے کے اندر گئی ۔ وہ قالین پر سمٹا ہوا بیٹھا کسی سوچ میں غرق تھا ۔
” چائے !” دینا نے کھنکا ر کر کہا ۔
اصغر نے چونک کر اوپر دیکھا ۔ وہ چائے کی پیالی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی ۔ وہ خالی نظروں سے اسے دیکھتا رہا ۔ دینا سر جھکائے کھڑی تھی ۔ وہ اصغر کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔
وہ نڈھال سی حالت میں اٹھا ۔ ” تم اب مجھ سے ملنے آئی ہو ؟” اس نے شکایت کی ۔
” ملنے نہیں آئی ۔ چائے لائی ہوں ۔” سر جھکائے وہ بے نیازی سے بولی ۔
” کیا ؟ کیا کہا تم نے ؟” و ہ اس کے پاس آگیا ۔” تم مجھ سے ملنے نہیں آئی ہو ؟”
اس کے سوال میں بے یقینی تھی ۔دینا خاموش رہی۔
” مجھے تمہاری ضرورت ہے۔” وہ ملتجی نگاہوں سے دینا کو دیکھنے لگا ۔
” چائے ٹھنڈی ہورہی ہے ۔ ” دینا نے پیالی اسے پکڑا دی ۔
” تم جانتی ہو ناں تم میری طاقت ہو ۔” اصغر نے چائے کی پیالی میز پر رکھ دی ۔
” ہوں نہیں تھی ۔” دینا نے سختی سے کہا ۔ اصغر نے حیرت سے دینا کو دیکھا ۔
” اماں پلاؤ بنا رہی ہیں آپ کے لیے ۔ چائے پی کر نیچے آجائیں ۔” وہ جانے لگی ۔
” رکو! بات سنو میری۔” اصغر نے سختی سے اس کا بازو جکڑ لیا۔
” کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟ تمہارا مسئلہ کیا ہے ؟ تم میری ہر بات کا الٹا جواب کیوں دے رہی ہو ۔؟”
تو اماں نے اس کو میرے فیصلے کے بارے میں نہیں بتایا ؟
دینانے حیرت سے سوچا اور بے دھیانی میں اس کی نگاہیں اصغر کے چہرے کی جانب اٹھ گئیں۔ وہ خدوخال اس نے دیکھ لیے جن کو اس نے چھونا چاہا تھا ۔ اس کے دل کی دھڑکن تھم سی گئی ۔ اس نے اصغر کی آنکھوں میں دیکھا وہا ں بے بسی تھی۔ دینا کا دل گھبرانے لگا۔ اس نے پوری روح کی گہرائیوں سے اس شخص کو چاہا تھا لیکن حقیقت اس کے اُلٹ تھی۔ اس نے بہر حال علی سے شادی کرنی تھی ۔
” دینا جواب دو مجھے ۔” اصغر نے زور سے جھنجوڑا ۔
” کچھ۔کچھ نہیں ہوامجھے۔” وہ خود کو اصغر کی گرفت سے چھڑانا چاہتی تھی لیکن اس کی گرفت مضبوط تھی ۔ دینا ایک کمزور سی پنچھی کی مانند اصغر کے بازوؤں کے پنجرے میں قید تھی ۔ ” پھر تم مجھ سے ملنے کیوں نہیں آئی ؟ میری ہر بات کا الٹا جواب کیوں دے رہی ہو تم ؟ ” وہ اپنے چہرے کو دینا کے چہرے سے بالکل قریب کرکے سرگوشی میں بولا۔
” چھوڑ دیں مجھے ۔” اسے ڈر لگ رہا تھا ۔ اصغر بہت نزدیک سے ، بہت غور سے اس گھبرائی ہوئی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اس کے قرب سے ڈر رہی تھی ۔
” یہ میری بات کا جواب نہیں ہے ۔”
” میرے پاس آپ کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہے ۔” اس نے اصغر کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا اور بھاگتی ہوئی سیڑھیاں اترنے لگی ۔ اصغر حیران و پریشان اسے جاتا دیکھتا رہا ۔ اسی لمحے اس نے یہ سچ مان لیا کہ وہ کبھی اس لڑکی کو نہیں سمجھ پائے گا ۔
وہ نڈھال سا پلنگ پہ لیٹ گیا ۔ تھوڑی دیر تک گہری گہری سانسیں بھرنے کے بعد وہ اٹھا تو چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی ۔ وہ کپڑے بدلنے غسل خانے کے اند ر گیا ۔
٭…٭…٭
عرینہ کی بے زاری عروج پر تھی ۔ وہ دوبار لیزا کو فون ملا چکی تھی ۔اس طرف گھنٹی بجنے کے باوجود کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا ۔
” ایک اور بار کوشش کرتی ہوں ۔” اس نے پھر سے فون ملایا اس بار دوسری گھنٹی پہ کسی نے فون اٹھالیا ۔
” یار لیزا ! میں کب سے فون ملارہی ہوں اور تُو تو لگتا ہے مرگئی تھی ۔” اس نے ایک ہی سانس میں سارا غصہ نکال دیا ۔
” لیزا واش روم میں ہے ۔” یہ کوئی مردانہ آوازتھی ۔
” اوہ۔ سوری۔” وہ بے حد شرمندہ تھی ۔
” کوئی بات نہیں۔”
” میں بس یہی پوچھ رہی تھی کہ وہ ساول کے گھر جارہی ہے یا نہیں ؟ تا کہ میں آجاؤں پڑھائی کرنے ۔”
” نہیں ۔ وہ نہیں جارہی ۔”
” جی اچھا ۔ شکریہ ۔” اس نے ریسیور کریڈل پر پٹخ دیااور دیر تک خود کو لعنت ملامت کرتی رہی ۔
چھوٹی ماں سے اجازت لے کر وہ لیزا کے گھر کے لیے نکل گئی ۔ لیزا کے گھر پہنچنے پر شمعون نے اس کے لیے دروازہ کھولا تھا ۔
” یعنی میری فون پر اس کے ساتھ بات ہوئی ؟” اس نے خجل ہوتے ہوئے سوچا۔
” شکر ہے کوئی گالی نہیں بکی میں نے ورنہ تو رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جاتی۔”
شمعوں نے اسے لیزا کے کمرے میں بٹھا دیا اور خود باہر چلا گیا ۔
تھوڑی دیر بعد وہ عرینہ کے لیے جوس لے کر آیا ۔
” لیزا ابھی تک نہیں نکلی؟” اس نے گھبراتے ہوئے شمعون سے پوچھا۔
” دراصل وہ نہا رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں باہر آجائے گی ۔ آپ تب تک یہ جوس پی لیں ۔ ” شمعون نے اسے جوس کا گلاس پکڑا دیا اور کمرے سے نکل گیا ۔
” لیزا ! جلدی باہر آجا ۔” وہ جوس پیتے ہوئے بڑبڑائی ۔کافی دیر تک لیزا کا انتظار کرنے کے باوجود وہ نہیں نکلی ۔عرینہ اٹھ کر باہر جانے لگی لیکن اس کا سر چکرا گیا ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہر چیز دھندلانے لگی ۔ اور وہ دھڑام سے نیچے گر گئی ۔ اس کے بعد اس کو نہیں معلوم کیا ہوا ۔
٭…٭…٭
اگلا پورا د ن وہ اس کوشش میں رہی کہ اصغر کو اپنے فیصلے کے بارے میں بتا دے لیکن وہ حوصلہ نہیں کرپارہی تھی ۔ اصغر کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرنا اسے جان سے مار دینے کے مترادف تھا اور وہ کب اصغر کی جان لینا چاہتی تھی ؟’آخر بڑی سوچ بچار کے بعد وہ اماں کے پاس چلی گئی ۔ ” اماں ! آپ نے اصغر کو میرے فیصلے کے بارے میں بتادیا ؟” وہ ان کے پاس چارپائی پر بیٹھ گئی ۔
” نہیں میں بھول گئی تھی ۔” انہوں نے ساگ کاٹتے ہوئے بے نیازی سے کہا ۔
” میں بھولی نہیں ہوں لیکن میں ہمت نہیں کر پارہی ۔شاید تم نہیں جانتی لیکن میں تمھارئے لیے اصغرکی پسندیدگی کے بارے میں بہ خوبی جانتی ہوں۔” انہوں نے کن اکھیوں سے دینا کو دیکھ کر سوچا۔
” آپ بتا دیں انہیں ۔” اس نے بہ ظاہر بڑی آسانی سے کہا لیکن اس کے سینے میں ایک درد سا اٹھا تھا۔
” بتادوں گی۔” انہوں نے اس کا چہرہ دیکھے بنا جواب دیا ۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!