پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

” یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ وہ گھبرا کر دورہٹی ۔
” ہاں دینا ! میں ٹوٹ کر بکھر جاتا اور مجھے کوئی سمیٹنے والا نہ ہوتا ۔” اس کے لہجے میں بے بسی تھی ۔
” دینا !تم نے بالکل اس طرح سمیٹا ہے جس طرح تم نے آج صبح اس ٹوٹے ہوئے کانچ کو سمیٹا تھا اور تمہارے اپنے ہاتھ زخمی ہوگئے ۔ ” اصغر نے دینا کی پٹیوں میں بند ھی ہوئی انگلیوں کواپنی آنکھوں کے قریب کر لیا ۔
” ہر کوئی میرے گلے لگ کر رویا ہے لیکن میں کس کے گلے لگ کر روؤں ؟ اس کی آوازآنسوؤں میں بھیگ گئی ۔ “سب سے بڑا پہاڑ تو مجھ پر ٹوٹا ہے ۔ کندھے تو میرے بھاری ہوگئے ۔” لیکن میں نہ روسکا۔۔۔ اماں کے سامنے کیا روتا ؟ عرینہ کے سامنے کیسے آنسو بہاتا ؟” وہ اب بلک بلک کے رونے لگاتھا ۔
” اپنے باپ کی موت کے بیالیسویں دن تم ان کی یاد میں نہیں رورہے، بلکہ ان ذمہ داریوں کے بوجھ سے خوف زدہ ہو کے رو رہے ہو جو تمہارے کندھوں پر آن پڑی ہیں۔” وہ اصغر کے روتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر سوچتی رہی ۔
” تم میرے ساتھ ہوتی ہو تو مجھے مضبوطی کا احساس ہوتا ہے دینا !تم وعدہ کرو ہمیشہ میرے ساتھ رہو گی ۔” وہ اپنے آنسو پونچھ کر بولا۔ ایک لمحے کے لیے دینا کو لگا جیسے اس کے سامنے بیٹھا ہتھیلیوں سے آنسو پونچھتا وہ اصغر حمید نہیں بلکہ تین چار سال کا کوئی بگڑا ہو ا بچہ ہے جوایک لاحاصل چیز کو پانے کی ضدکررہا ہے ۔
” میں تو ہمیشہ سے تمہارے ساتھ تھی ۔ ہمیشہ سے تمہارے ساتھ ہوں ۔ لیکن آنے والے وقت کا کیا بھروسہ؟ میں تمہیں مستقبل کا وعدہ کیسے دوں ؟” دینا نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ۔ اصغر نے نگاہ اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھا ۔
” تم مجھ سے وعدہ نہیں کرو گی ؟ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ چاند کی مدھم روشنی میں دینا نے اس کے گال پر بہتی آنسوؤں کی لڑیا ں دیکھ لیں ۔ اُسے اب اصغر پر بہت ترس آ رہا تھا ۔
” نہیں کر سکتی” ۔ اس کا انداز عجیب تھا ۔
” محبت کرتا ہوں میں تم سے ۔۔۔۔” اس کے انداز میں بے بسی تھی ۔
” اشفاق احمد نے کہا ہے ۔،محبت تو یہ ہے کہ کوئی احساس دلائے بنا آپ کے درد کو سمیٹ لے ۔ آپ کی کمزوریوں کو ڈھانپ لے ۔ اس میں کوئی وعدے ہوں نہ انتظار۔ اس میں کچھ طلب کرنے کی نوبت نہ آئے وگرنہ محض رابطے میں رہنا، گفتگو ہے محبت نہیں ۔” وہ متانت سے بولی ۔
” تم اشفاق احمد کو پڑھتی ہو ۔؟” وہ اپنے آستین سے آنسو پونچھتے ہوئے مسکرایا ۔
” دنیا میں عورت کی ذہنیت کو سمجھنے والے بہت کم مرد ہوتے ہیں ۔ ” وہ سمجھ داری سے بولی ۔
” میں بھی ان کم مردوں میں سے ایک ہو سکتا ہوں دینا سعید ! میرے بارے میں سنجیدگی سے سوچ لو ۔ ” اس کے لہجے میں شرارت تھی ۔ وہ بنا کچھ کہے مسکرائی ۔
٭…٭…٭





واپس آتے ہی وہ سیدھا حمائل کو دیکھنے گئی تھیں لیکن وہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھی شایدسورہی تھی ۔ انہوں نے اس کے گال کا بوسہ لیا اور تھوڑی دیر تک اس کے چہرے کو تکتے رہنے کے بعد وہ بڑی خاموشی سے اس کے کمرے سے نکل گئیں ۔ان کے جاتے ہی حمائل نے اپنی آنکھیں کھول دیں ۔فی الحال وہ ان سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
چار بجے تیار ہو کر وہ اکیڈمی کے لیے نکل گئی ۔ اسے اپنا آپ بہت ہی بے بس محسوس ہو رہاتھا راستے میں کئی بار اس کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ ہر بار اس نے جبراً اپنے آنسوؤں کو روکے رکھا ۔ سررکھنے کو اگر کوئی کندھا نہیں تھا تو پھر رو نے کا کیا فائدہ ۔؟
چھے بجے جب وہ اکیڈمی سے نکلی تو اسے اپنی گاڑی کے پاس صبار کھڑا نظرآیا ۔
” ایس بی ؟ تو یہاں؟” وہ بہت خوش ہو گئی تھی ۔ اسے تو جیسے اجنبیوں کے ہجوم میں کوئی اپنا نظر آیاہو ۔
” ہاں میڈم ! میں یہاں۔۔۔۔ ناراض ہوں تجھ سے ۔” صبار کے انداز میں مصنوعی ناراضی تھی۔
” کیوں ؟ کیاہوا ؟ وہ اپنے پرس سے بوتل نکا ل کر پانی پینے لگی۔
” وجہ تو تم خود معلوم کرلو ۔”
” وہ تو میں کرلوں گی لیکن یہاں کھڑ ے کھڑے نہیں ۔ چلو چلتے ہیں ۔”
” تو اپنے ڈرائیور کو رخصت کرلے ۔ ہم واک کر کے چلے جائیں گے ۔”
” اچھا ۔” ڈرائیور کو رخصت کر کے وہ صبار کے ساتھ پیدل چلنے لگی ۔
” تو نے پوچھانہیں میں کیوں ناراض ہوں ۔”
تو خود ہی بتا دے ۔” اس کے اندازمیں بے نیازی تھی ۔
” تو میرا میچ دیکھنے بھی نہیں آئی ۔ پھر مجھے congratulate بھی نہیں کیا ۔”
” تُو ۔ تُو جیت گیا ؟اوہ congratulation… ”
” یہ تو میں تب تک acceptنہیں کروں گا جب تک تو مجھے نہ آنے کی وجہ نہیں بتائے گی ۔”وہ دونوں چلتے چلتے ایک پارک کے پاس آکر رک گئے ۔
” تھوڑی دیر یہاں بیٹھ جاتے ہیں ۔” حمائل نے بات بد ل دی ۔ اس کے پاس صبارکو بتانے کے لیے کوئی وجہ نہیں تھی ۔وہ اسے کیا بتاتی کہ اس کے ذہن میں اتنی باتیں ہوتی ہیں کہ وہ اپنے دوستو ں کے بارے میں بھی نہیں سوچ پاتی ۔
” ماہی !وہاٹ ہیپنڈ ؟” پار ک میں بینچ پر بیٹھتے ہوئے صبار نے تشویش ناک انداز میں حمائل سے پوچھا۔
” Nothing ” وہ نظریں چُرانے لگی ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ صبار اس کی پریشانی کے بارے میں جان لے یا پھر اسے یہ پتا چلے کہ وہ صُبح سے روتی رہی ہے ۔
” ماہی !ٹیل می۔۔ آئی ایم یور فرینڈ ۔” وہ فکر مند تھا ۔ حمائل دوسری طرف دیکھنے لگی ۔
Mahi! what’s bothering you ?” “وہ حمائل کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ، وہ جو خود کے ٹوٹے ہوئے، بکھر ے ہوئے وجود کو سمیٹنے میں مصروف تھی ۔
” Mahi! I am asking you ” اس نے حمائل کی آنکھوں میں دیکھا ۔
” تو مجھے اپ سیٹ لگ رہی ہے ۔”
” Listen !S.B There is noting …. I am completely alright ” اس نے بڑی مشکل سے بولنے کی کوشش کی ۔
” آر یو شور؟” اسے یقین تھا وہ کچھ چھپا رہی ہے ۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ وہ رونے لگی ۔ آنسوؤں نے اسے کوئی جھوٹا بہانہ تراشنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا ۔
” او گاڈ! تو رو کیوں رہی ہے ؟” وہ گھبرا گیا ۔ حمائل اشکوں سے ہار مان کر خاموشی سے روتی رہی۔ وہ اسے فکر مندی اور تشویش سے دیکھتا رہا ۔ اس نے حمائل کو ٹینس کھیلتے دیکھا تھا ۔ اس کو annual singing competetion میں گاتے بھی دیکھا تھا ۔ بچپن میں کئی بار وہ اس کے ساتھ ڈانس بھی کرچکی تھی لیکن صبارنے حمائل کو کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھاتھا ۔اور اب جب وہ رہ رہی تھی اور اس کے گا ل پر اشکوں کی لڑی پھسلی اور ٹھوڑی تک پھسلتی گئی تو صبار کو یوں لگا جیسے اس کی آنکھوں سے موتی گر رہے ہوں یا پھر گلاب کی پنکھڑی سے شبنم کے قطرے پھسل کر زمین میں جذب ہورہے ہوں ۔ اس کا دل چاہا وہ ان قطروں کو اپنی انگلیوں میں جذب کر لے ۔ کچھ دلفریب سا ، کچھ میٹھا سا احساس ہورہا تھا اسے۔ اچانک اسے لگا کہ وہ حمائل سے محبت کرنے لگا ہے ۔
” آئی ایم سوری ۔” وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولی ۔ صبار چونک گیا ۔
” یہ سب کیا تھا ؟” وہ مسکرایا ۔
” کچھ نہیں بس تجھے بہت ٹائم بعد دیکھا ناں تو تھوڑی ایموشنل ہو گئی ۔” اس نے بہانہ بنایا تو صبار کا دل چاہا وہ حمائل کو اس میٹھے سے احساس کیلئے ” تھینک یو” کہہ دے لیکن فی الوقت خاموش رہنا بہتر تھا ۔
” اوہ ۔۔۔ تو تو مجھے دیکھ کے ایموشنل ہو گئی ؟”چل اب چلتے ہیں ۔
“باقی آنسو راستے میں بہا لینا ۔” وہ اسے چھیڑرہا تھا ۔ حمائل بینچ سے اٹھی اور صبار کے پیچھے پارک سے نکل گئی۔
” دل تو چاہتا ہے تو یوں ہی میرے ساتھ چلتی جائے ۔راستہ کٹتا جائے پرمنزل نہ آئے ۔” صبار نے کسی گہری سوچ میں گم حمائل کو دیکھا ۔ شام گہری ہورہی تھی اور اسے پہلے حمائل کو گھر پہنچانا تھا ۔
٭…٭…٭
رات کے آٹھ بج رہے تھے ۔ وہ بڑے ہاتھ میں تھامے دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی ۔ اصغر کو صبح سے زکام تھا اور وہ بخار میں تپ رہا تھا ۔
آپ کی گرم گرم یخنی تیا ر ہے ۔” اس نے پتنوس میز پر رکھ دیا ۔ ” اٹھ جائیے ۔
” جناب ! اس نے خوش دلی سے کہا ۔ اصغر آنکھیں بند کیے خاموش رہا ۔” اور یہ کیا ؟ نہ کھڑکیاں کھلی ہیں ۔ نہ بلب روشن ہے ایسے میں تو آپ کی طبیعت اور خراب ہو جائے گی ۔دینا نے دیکھا کمرے میں اندھیرا تھا صرف چاند کی مدھم سی روشنی دروازے کے ذریعے کمرے میں جھانک رہی تھی ۔ اس نے بڑھ کر کھڑکیوں پر پڑے پردے سرکا دیے ۔
” اٹھ بھی جائیں اب ۔ یخنی ٹھنڈی ہو جائے گی ۔ ” اصغر کی پلنگ کے پاس وہ آ کر اس کے سرہانے کھڑی ہو گئی ۔
” نہیں پینی میں نے یخنی دل نہیں کررہا ۔ ” وہ مرجھائی سی آواز میں بولا
” دماغ کا مقام دل سے اونچا ہوتا ہے ۔ وہ کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گئی ۔
” تمہاری باتیں میر ی سمجھ سے بالا تر ہیں ۔” اس نے آنکھیں کھو ل دیں ۔
” دماغ والوں کی باتیں دل والوں کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔
” ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی مگر لیٹ گیا ۔
” کیوں کہ اس کا کوئی دماغ نہیں ہوتا ۔”
” میرے پاس دماغ ہیں ۔” اس کے لہجے میں ضد تھی ۔
” ثابت کردیں ۔” وہ متانت سے بولی ۔
” کیسے ؟ وہ جھنجلایا ۔
” یخنی پی کر ۔۔۔ ” وہ فیصلہ کن انداز میں بولی ۔
” تم بہت چالاک ہو ۔” وہ بے بس ہو گیا ۔
” نہیں ۔۔ دماغ والی ہوں ۔” وہ مسکرائی اور اصغر کو اٹھ کر بیٹھنے میں مدد دینے لگی ۔ وہ بیٹھ کر یخنی پینے لگا اور قدرے ناراضگی سے دینا کو دیکھتا رہا ۔
” آپ اور عرینہ میں یہی ایک مسئلہ ہے ۔”
” کیا ؟ ” وہ یخنی پیتے پیتے رک گیا اور نہ سمجھنے والے انداز میں دینا کو دیکھنے لگا ۔
” دماغ کی بجائے دل سے سوچتے ہو ۔”
” اور تمہارے لیے دماغ سے سوچنے لگتے ہیں ۔ ” اس نے جتایا ۔
” چھٹی کتنی ہے ؟ وہ بات بد ل کر دوسری طرف دیکھنے لگی ۔
” دو مہینے ۔۔۔ ” اس کا جواب مختصر تھا ۔
” ان دو مہینوں میں دماغ سے سوچنے کی مشق کرلیں ۔”
” اور اگر اتنے عرص میں تمہیں دل والا بنا دیا تو۔۔۔؟
” ایسا ممکن نہیں۔۔۔ ” وہ پر اعتماد انداز میں بولی ۔
” میں ممکن کردوں گا ۔ ” وہ فیصلہ کن انداز میں بولا اور خاموشی سے یخنی پینے لگا ۔
٭…٭…٭





شام کو لاؤنج میں بیٹھی وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی جب اس نے شہروز بھائی کی آواز سنی۔
” یہ لو پینٹنگ ٹرے ۔ میں تمہارے لیے لایا ہوں ۔” اس کی آواز حمائل اور منزہ کے مشترکہ کمرے کی طرف سے آرہی تھی ۔
” تھینک یو سو مچ۔” یہ آواز منزہ کی تھی ۔
حمائل ایک جھٹکے سے صوفے پر سے اٹھی ۔ ٹی وی آف کیے بغیر وہ اپنے والدین کے کمرے کی طرف گئی ۔ ایک خیال تھا جو کئی دنوں سے اس کے ذہن میں گردش کررہاتھا اور ابھی وہ امی جی سے اس بارے میں بات کرنے آئی تھی ۔
” Ammi Ji! I need to talk to you… ” وہ ان کے کمرے کے دروازے میں کھڑی رہی ۔ وہ کسی سے فو ن پر بات کررہی تھیں ۔ اس لیے انہوں نے اشارے سے حمائل کو اندر آ کر انتظار کرنے کا کہا ۔
” Ammi Ji! Its urgent… ” وہ منہ پھلا کر ایزی چئیر پر بیٹھ کر جھولنے لگی ۔
” اوکے ۔ مسز زاہد ! آئی وِل ٹاک ٹو یو لیٹر ۔” وہ فون بند کرتے ہوئے بولیں ۔
” یس ڈارلنگ !”فون بند ہوتے ہی وہ حمائل کے پاس آگئیں۔
” بھائی کی شادی کروا دیں ۔” وہ سیدھا اپنی بات پر آگئی ۔
” وہاٹ ؟ ڈو یو مین اٹ ؟” وہ بھنویں اچکا کر سوالیہ اندا میں حمائل کو دیکھنے لگیں ۔
” یس ۔ آئی مین اٹ۔”
” تم یہ بات کرنے آئی ہو ؟ ” انہیں اب بھی حمائل کی بات کا یقین نہیں آیا تھا ۔ وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو اتنا تو ضرور سمجھتی تھیں کہ وہ خود پرست لڑکی اپنے سوا کسی کے بارے میں نہیں سوچتی تھی لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ حمائل کو اب اپنے رشتوں کے کھو جانے کا ڈر تھا اس لیے وہ اب اپنے ساتھ ساتھ اوروں کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنے لگی تھی ۔
” یس ماں ! میں یہی بات کرنے آئی ہوں ۔ اس میں اتنا حیران ہونے والی کون سی بات ہے ؟ ” وہ جھنجھلائی۔
” تم نے کوئی لڑکی پسند کی ہے کیا ؟”
” آئی تھنک ایف از دی بیسٹ۔”
” وہاٹ ؟ ایف؟” وہ نہ سمجھتے ہوئے بولیں ۔
” فار گاڈ سیک امی جی! آئی مین افصہ ۔”
” اوہ!!! ۔۔وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں ۔
لیکن شہروز سے بھی تو پوچھنا ہے ناں ۔؟”
” آئی ایم شیور جو آپ پسند کریں گی وہی ان کی پسند ہو گی۔” وہ نہیں چاہتی تھی کہ امی شہروز بھائی سے بات کرلیں اور وہ منزہ کا نام لے لیں ۔
” ہاں ۔ I know لیکن۔۔۔” وہ جھجھکیں ۔
” امی جی ! آئی تھنک یو شوڈ ٹیک دی رسک ۔ ایند ٹرسٹ می ! بھائی آپ کی پسند کو ریجکٹ نہیں کریں گے ۔” اس نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں سمجھانے کی کوشش کی ۔ وہ خاموشی سے حمائل کو دیکھتی رہیں ۔ ” بیلیو مِی ! سب ٹھیک ہو گا ۔ آپ ایک سٹیپ تو لیں ناں ۔ ” وہ ان کی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔ آپ سوچیں ناں اس بارے میں ۔ اس کی آنکھوں میں سوال تھا ۔
” یس بیٹا ! میں سوچوں گی ۔” انہوں نے اثبات میں سر ہلایا ۔
” تھینک یو سو مچ امی جی !” اس نے ان کاہاتھ چوما ۔ وہ جواباً مسکرائیں ۔ حمائل اٹھ کر با ہر جانے لگی ۔ کمرے کے دروازے میں کھڑی منزہ جلدی سے وہاں سے ہٹ گئی ۔ وہ خالہ سے شاید کچھ کہنے آئی تھی لیکن فی الحال اسے کچھ یاد نہیں رہا تھا ۔نہ جانے وہ کیوں بے چین سی ہو گئی تھی ؟وہ بڑی خاموشی سے اپنے کمرے کے اندر گئی تھی ۔
٭…٭…٭
وہ برآمدے میں کرسی پر بیٹھا شام کی چائے پی رہا تھا ۔اس سے ذرا فاصلے پر چارپائی پر بیٹھی اماں تسبیح پڑھ رہی تھیں اور ان کے پاس بیٹھی چھوٹی ماں مرینہ کیلئے سوئیڑبن رہی تھیں ۔
” اے بلی !ادھر آ جاؤ ۔” اس نے باورچی خانے کی طرف جاتی مرینہ کو پکارا۔اس نے اصغر کی طرف دیکھا اور باورچی خانے کے اندر چلی گئی۔
” جلدی آؤ ۔ کوئی چیز دکھانی ہے تمہیں ۔” اس نے چائے کی پیالی خالی کر کے سامنے میز پر رکھ دی ۔ وہ بسکٹ کھاتے ہوئے باروچی خانے سے نکلی اور اصغر کے پاس والی کرسی پر آکر بیٹھ گئی ۔
” جی بتائیں اب ۔ کیا دکھانا ہے ؟ ایک پورا بسکٹ منہ میں ڈا لتے ہوئے وہ بولی ۔
” تم کھاتی بہت ہو ۔” اصغر نے اسے چھیڑا ۔
” مطلب کی بات کریں ۔” وہ بسکٹ کھاتے ہوئے بے نیازی سے بولی ۔
” اوہ ۔۔۔ تو اب تم صرف مطلب کی بات سنو گی؟
” جی ہاں ۔ میں فضول باتیں بالکل نہیں سنتی ۔ اس لیے آپ جلد ی سے دکھائیں ناں وہ چیز۔۔۔”
” اچھا ۔۔ تو پھر ۔۔” اصغر نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا ۔
” یہ رہی وہ چیز۔۔۔” اس کے ہاتھ میں گلابی رنگ کی ائیر رنگز کا ایک پیکٹ تھا ۔
” اوہ !ائیر رنگز۔۔۔” اس نے اچھل کر اصغر کے ہاتھ سے پیکٹ لے لیا ۔
” تھینک یو سو مچ۔” وہ پیکٹ کھولنے لگی ۔
” ویلکم ۔” وہ مسکرایا ۔
” آپ کو میں کیسے یاد رہی ؟”
” تم مجھے کیسے یاد نہ رہتیں ؟ اپنی پالتو بلیاں سب کو پیاری ہوتی ہیں ۔”
” صرف میرے لیے لائے ہیں ؟”
” ہاں ۔ کیوں کہ میںجانتا تھا یہ صرف تم پر اچھی لگیں گی ۔” اصغر نے کن اکھیوں سے دروازے میں کھڑی دینا کو دیکھ کر مسکرایاکر کہا ۔
” تم ایسی سیدھی سادی اچھی لگتی ہو، بلکہ سچ کہوں تو تم مجھے ہر روپ میں مکمل لگتی ہو۔ تمہاری ذات جس طرح مکمل اور بناوٹ سے پا ک ہے ، تمہارا روپ بھی ویسا ہی بناوٹوں اور سنگھار سے پاک لگتا ہے ۔ تم مضبوط ارادوں والی لڑکی ہو اور تم عارضی بناؤ سنگھار سے بے نیاز ہی اچھی لگتی ہو ۔” اصغر نے گندمی رنگت اور سوچتی سوچتی آنکھوں والی دینا کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں سراہا ۔
” یہ دیکھیں اماں ! کتنی پیاری بالیاں ہیں ۔” مرینہ خوشی خوشی اپنی بالیا ں اماں کو دکھانے لگی۔
٭…٭…٭
وہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی اپنا پسندیدہ سیریل دیکھ رہی تھیں، جب حمائل آکر ان کے پہلو میں بیٹھ گئیں۔
” امی جی! آپ نے سوچا اس بارے میں ؟” حمائل نے ان کے کندھے پر بازو جما کر ان سے پوچھا ۔
” جی بیٹا !سوچ لیا ۔” ان کی توجہ سیرئیل سے ہٹ گئی ۔
” ویسے میں کہہ رہی تھی کہ اپنی منزہ کے بارے میں کیا خیال ہے” ؟ وہ پوری طرح حمائل کی طرف مڑ گئیں۔
” وہاٹ ؟” حمائل کی پیشانی پر شکنیں بن گئیں ۔وہ ایسا تو کچھ نہیں چاہتی تھی ۔ وہ تو اپنے بھائی کو منزہ علی سے بچانا چاہتی تھی ۔اس کیلئے تو یہ تصور کرنا بھی تکلیف دہ تھاکہ منزہ اس کی بھابھی بن کر اس کے اکلوتے بھائی کی محبتوں پر قبضہ جما کر بیٹھ جائے ۔
” کیوں ؟Isn’t she a perfect match ..??????— ”
ان کی اس بات سے حمائل کولگا جیسے ڈور اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہو ۔ اس نے خالی الذہنی کے عالم میں اپنی ماں کی طرف دیکھا ۔
” وہ تو بالکل میری بیٹیوں جیسی ہے ۔” اپنی ماں کے منہ سے منزہ کی تعریف سن کر جیسے حمائل کے تن بدن میں آگ بھڑک اٹھی تھی ۔
” لیکن امی جی !بیٹیاں جب بہوئیں بن جاتی ہیں تو پتا ہے کیا ہوتا ہے ؟” وہ صوفے پر سے اٹھی۔
” منزہ کو بہو بنانے سے پہلے آپ کو یہ سب معلوم ہونا چاہیے ۔ آپ کا ایک ہی بیٹا ہے اور اس کو اپنے کسی غلط فیصلے کی بھینٹ چڑھا کر آپ اپنا نقصان کر بیٹھیں گی۔ “یہ کہتے ہی وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اپنے کمرے کی سمت گئی تھی ۔ “کیوں سن لیتی ہوں میں یہ باتیں ؟” کچن کے دروازے میں سہمی سی کھڑی منزہ نے بے بسی سے سوچا ۔ “بہت اچھاانسان ہے وہ لیکن حمائل ! مجھے تمہارے بھائی میں کوئی انٹرسٹ نہیں ۔” اس نے وہیں کھڑے کھڑے سوچا ۔” وہ چاہے مجھے توجہ دے ، اہمیت دے لیکن میرے پاس اس کو دینے کے لیے کچھ نہیں کیوں کہ میرے پاس سوچنے اور فکر کرنے کے لیے اور بھی بہت سی باتیں ہیں ۔ وہ فریج کے پاس آگئی ۔ “نہ جانے تم کیوں مجھ سے اتنی نفرت کرتی ہو ؟ میں تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ میری منزل تمہارا بھائی نہیں ۔ ” فریج سے پانی کی ایک بوتل نکا ل کر وہ کھڑے کھڑے ہی کئی گھونٹ پی گئی ۔” میری شاید کوئی منزل ہی نہیں ۔” اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔
٭…٭…٭
شام گہری ہورہی تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔وہ آم کے پیڑ کے نیچے بچھی ہوئی چارپائی پر سمٹی ہوئی بیٹھی تھی ۔اس کے پاس ہی گود میں تکیہ رکھے اصغر بیٹھا تھا ۔
” پرسوں جانا ہے آپ نے ؟ وہ دھیرے سے بولی ۔ اصغر کو لگا وہ اس سے سوال نہیں پوچھ رہی بلکہ اسے یاد دلا رہی ہے ۔
” میں جانا نہیں چاہتا ۔” وہ بچوں کی طرح بولا ۔
” چاہتے تو ہم بہت کچھ نہیں لیکن پھر بھی ہم وہ کام کرتے ہیں ۔”
” تم حالات کو سمجھ کر ان کے مطابق ڈھلناجانتی ہو ۔ مجھ میں یہ خوبی نہیں ۔”
” ہونی چاہیے ۔” وہ متانت سے بولی ۔
” میں تمہاری طرح دماغ سے نہیں سوچ سکتا ۔ میں ایک مضبوط دل والا انسان ہوں ۔
” آپ مرد ہیں اور مرد کو اپنے رشتوں کی خاطر مضبوط بننا پڑتا ہے۔” وہ اس کو سمجھاتے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔
” اس لیے تو میں جانا نہیں چاہتا ۔ ” وہ تکیے پر اپنے بازو جما کے بولا ۔
” وقتی آرام و سکون کیلئے آپ اپنے مستقبل کو خراب نہیں کریں گے ۔”
تم تو حال میں جیتی ہو ۔ نہیں ؟” و ہ طنز کرنے لگا ۔ نہ جانے کیوں کبھی کبھی اس کا دل کرتا وہ ہر کسی کو لاجواب کرنے والی دینا کو لاجواب کردے اور آج تو وہ اسے لاجواب کر کے اسی کے پاس رہنا چاہتا تھا ۔
” میں اپنی نہیں آپ کی بات کررہی ہوں ۔”
” تمہارے اصول میرے لیے بدل کیوں جاتے ہیں ؟” وہ بے بس ہو گیا ۔
” کیوں کہ آپ مرد ہیں ۔” دینا کی اس بات سے وہ واقعی لاجواب تھا ۔ وہ خاموشی سے اسے تکتا رہا ۔ وہ دینا کے سامنے بے بس تھا۔ وہ ہر بار اس کی باتوں کو نہ چا ہ کر بھی مان لیتاتھا۔ کیوں کہ وہ دلائل ہی ایسے پیش کرتی تھی ۔وہ دماغ سے سوچتی تھی اور اصغر حمید ہمیشہ دل کی سنتا تھا۔ جذبات کو پوجتا تھا اور دل تو بنا دلیل کے ضدکرتا تھا ۔اسے تنگ کرتا تھا ، بے چین کرتا تھا اس لیے وہ دینا کے سامنے ہمیشہ لا جواب ہو جایا کرتا تھا ۔
” دینا !میں تمہارے بغیر ٹوٹ کر بکھر جایا کرتا ہوں ۔ تمہیں پتا ہے تمہاری باتیں مجھ میں عجیب توانائی بھر دیتی ہیں ۔ ” اس نے دینا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دیوانگی سے کہا ۔
” میں تم سے محبت کرتا ہوں اور اس میں میرا اپنا کوئی کمال نہیں ۔ تم سے تو کوئی بھی محبت کرنے لگے گا ۔ تم الگ ہو دینا ! بہت الگ ہو ۔ ” دینا حیرت سے اصغر کو تکتی رہی ۔ اس نے اصغر کو کبھی اپنے احساسات کی اتنی کھل کر ترجمانی کرتے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔
” کاش میں تمہیں اپنے ساتھ لے جا سکتا ۔” اس کے لہجے میں حسرت تھی ۔
” تمہارے ساتھ ہونے سے مجھے مضبوطی کا احساس ہوتا ہے دینا ! تم نہ ہوتیں تو میں ابا کی موت اور اماں کی یہ حالت دیکھ کر کبھی جی نہ پاتا۔” وہ اب اس لڑکی کے سامنے بڑی آزادی سے اپنی کمزوریوں کا اظہار کررہا تھا ۔ جس کو تھوڑی دیر پہلے وہ لاجواب کرنے کے درپے تھا ۔
” اندر چلیں ۔ بارش شروع ہو گئی ۔ ” دینا چارپائی پر سے اٹھی ۔
” میرے ساتھ بھیگ جاؤ۔ ” وہ اس کا بازو پکر کر بولا ۔
دینا اند ر نہ جاسکی ۔ وہ وہیں پہ کھڑی اصغر حمید کے ساتھ بارش میں بھیگتی رہی ۔ نجانے کب اس کے بھیگے بال اس کے چہرے پر آگئے تھے اور اصغر نے اپنا ہاتھ بڑھا کر وہ بال اس کے کان کے پیچھے کر دئیے ۔ اپنے گال پر اس کا لمس محسوس کر تے ہی وہ بنا مڑے اند ر کی طرف بھاگی تھی ۔ کافی دیر تک وہ کمرے میں جانے کے بہ جائے برآمدے میں کھڑی رہی ۔ اس کا خاموش دل بولنے لگا تھا اور وہ اسے خاموش کرنے پر تلی ہوئی تھی ۔کیوں کہ وہ دل کی نہیں دماغ کی باتوں پر یقین رکھتی تھی ۔ وہ جانتی تھی اس کا دماغ جو بولتا ہے وہ درست ہوتا ہے ۔
اگلے دن صبح کے دس بجے لیزا عرینہ سے ملنے آئی تھی ۔ لیزا کے ساتھ دعا سلام کے بعد دینا چائے کا بندوبست کرنے باورچی خانے کی سمت چلی گئی ۔ یہ مرینہ بھی بڑی تیز ہے ۔ابھی تو بڑی خاموش بیٹھی لیزا کی باتیں سُن رہی ہے لیکن جب وہ جائے گی تو یہ اس کی نقلیں اتارے گی ۔ ” وہ چائے میں دودھ ڈالتے ہوئے مسکرائی ۔
” میرے بارے میں سوچ سوچ کرمُسکرا رہی ہو ؟” باورچی خانے کے اندر آکر وہ اس کے پاس کھڑا ہو گیا ۔
” آ پ سوچنے ہی کب دیتے ہیں ؟ وہ ٹرے میں پیالیاں رکھنے لگی ۔
” کیوں؟” وہ دینا کے ہاتھ سے بسکٹ کاڈبہ لے کر کھولنے لگا ۔
” ہر وقت حاضر جو ہوتے ہیں میری خدمت میں ۔” وہ تھرماس میں چائے ڈالنے لگی ۔
” چلا جاؤں گا کل ۔” اس نے بسکٹ کھاتے ہوئے دینا کو یاد دلایا۔ ”
” وہ کل دیکھا جائے گا لیکن فی الحال آپ یہ بسکٹ ختم نہ کریں ۔ یہ آپ کے لیے نہیں ہیں ۔” اس نے بسکٹ کا ڈبہ واپس اصغر کے ہاتھ سے لیا اور پلیٹ میں بسکٹ رکھنے لگی۔
” تم اتنی سخت دل کیوں ہو ؟ وہ ٹرے میں تھرماس رکھ کر جانے لگی تو اس کا ہاتھ تھام کر بولا ۔
” نہیں ۔ میر ادل سخت نہیں بلکہ خاموش ہے ۔ جیسے آپ کا دماغ ۔۔۔۔ ” اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ تھی۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!