پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

” بھائی !وہ گلابی چپل دکھائیں ذرا۔”
” یہ لیں ”
” قیمت ؟”
” پانچ سوروپے”
” اتنے مہنگے؟؟؟”
” اچھا مال ہے باجی! پہن کے تو دیکھیں ۔”
” تین سو روپیہ دے دیں ؟؟؟”
” نہیں۔ تین سو نہیں دے سکتا۔”
” کیوں نہیں دے سکتے ؟ پانچ سو کوئی اصلی قیمت تھوڑی ہے ؟ اور جوتا دیکھو دو سو کا لگتا ہے ۔ میں پھر بھی تین سو دے رہی ہوں ۔”
” پانچ سو میں لینا ہے تو لے لیں ورنہ میں واپس رکھ لیتا ہوں ۔کوئی اور لے لے گا ۔”
” واپس کون رکھنے دے گا تجھے ؟میں ہی لوں گی یہ جوتے ۔” اس نے جوتوں کا ڈبہ بغل میں دبا یا ۔
” پہلے کبھی دکان کا منہ دیکھا ہے آپ نے ؟یہ کیا کررہی ہیں ۔ دکان دار کو غصہ آ گیا ۔
” تین سو میں دے دو ۔” وہ بہ ضد تھی ۔
” پانچ سو سے ایک روپیہ کم نہیں لوں گا “۔ ڈبہ واپس کریں ۔
” نہیں دوں گی “۔
” عرینہ واپس کردو ۔” لیز ا نے اس کے ہاتھ سے ڈبہ لینا چاہا ۔
“میں نہیں دوں گی ۔” وہ اپنی با ت پر اڑی رہی ۔
” واپس کر دیں بجیا ۔” مرینہ نے اس کے ہاتھ سے ڈبہ لے کر کاؤنٹر پررکھا ۔
” جھوٹے ، دھوکے با ز، لٹیرے ، دونمبر جوتے بیچتا ہے الو کا پٹھا ۔” وہ اب گالیاں دینے پر اتر آئی تھی ۔ لیزا اور مرینہ اس کو چپ کروانے کی ناکام کوشش کررہی تھیں۔
” میری توبہ ہے عرینہ! تیرے ساتھ آئندہ کبھی شاپنگ کرنے نہیں جاؤں گی۔ ” واپسی پر لیزا نے شکوہ کیا ۔
” یہ تو شکرہے تم دونوں نے بروقت قابو میں کر کے رکشے میں بٹھا دیا ورنہ آپ کسی اور دکان میں گھس کر شور مچاتیں ۔” عرینہ نے یاددلیا تو وہ مسکرائی ۔
گھر پہنچ کر عرینہ نے اپنا بیگ دینا کی طرف اچھا ل دیا ۔
” لے دینو! دیکھ اپنے جوتے” اس کی آنکھوں میں ایک شریر سی چمک تھی ۔
” شکریہ ۔” دینا نے مسکراتے ہوئے بیگ کھولا اور جوتے نکال لیے ۔
” اماں کو دکھاتی ہوں ۔” وہ اماں کے کمرے کی طرف چلی گئی ۔





” ہیں ؟ بجیا! وہ ڈبہ ؟ “مرینہ حیرت سے دیدے پھاڑے کبھی عرینہ تو کبھی جوتوں کی طرف دیکھتی ۔
” وہ خالی تھا ۔” عرینہ مسکرائی ۔
” تو نے بچالیا میری بلورانی ! اس نے مرینہ کو گلے سے لگا لیا ۔”
” میں نے بچا لیا ؟ کیسے ؟” مرینہ حیرت سے ڈوبی ہوئی تھی ۔
” تو نے وہ خالی ڈبہ کاؤنٹرپر رکھا ۔ اگر اس کھڑوس دکان دار تھماتی تو ہمارا پول کھل جاتا ” عرینہ نے آنکھ مارتے ہوئے مرینہ کو سمجھایا ۔
” تو آپ نے ۔۔۔؟مرینہ کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلارہ گیا۔
” زیادہ دماغ نہ لڑا میری بلی ! تجھے سمجھ نہیں آئے گی” ۔ مرینہ کے کندھے پر اپنا بازو جما کے اس نے سرگوشی کی ۔” دینو کو پتہ نہیں چلنا چاہیے ورنہ وہ یہ جوتے نہیں لے گی ۔” اس نے دھیرے سے مرینہ کے کان میں کہا۔
ایگزامز شروع ہوتے ہی وہ پڑھائی میں جت گئی تھی ۔ کسی بھی محرومی کااحساس لیے بغیر وہ دل کی گہرائیوں سے پڑھائی کرنے میں مصروف تھی ۔ سر اٹھانے اور کسی کے بارے میں سوچنے اور پریشان ہونے کی فرصت نہیں تھی اسے اور یہ اچھا تھا، وہ ان دنوں سکون سے تھی لیکن ایگزامز کے ختم ہوتے ہی چھٹیاں شروع ہو گئیں اور اس کے دماغ میں پھر سے نئی نئی پریشانیاں اور فکری جنم لینے لگیں ۔
٭…٭…٭
” آج میں نے بہت عرصے بعد تمہیں دیکھ لیا جوتوں کی دکان پر ۔” وہ اپنی پلنگ پر ٹانگیں پھیلاتے ہوئے لیٹا تھا ۔
“تم اس دکان دار کے ساتھ لڑ رہی تھی ۔ میں دکان کے مردانہ حصے میں بیٹھا تمہیں لڑتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اور تم اگر مجھے وہاں دیکھ لیتی تو یقینا تمہاری بولتی بند ہو جاتی ۔ ” اس نے کروٹ بدلی ۔
” تم واقعی بہت بولتی ہو ۔” وہ مسکرایا۔ ” تم نے کاؤنٹرپر خالی ڈبہ چھوڑ دیاتھا ۔ جوتے تم چرا کے لے گئیں اور دکاندار کو اندازہ تک نہ ہوا ۔
” وہ ہنسنے لگا ۔ ” پھر جب وہ ڈبہ واپس رکھنے لگا تب اسے اندازہ ہو کہ تم نے کیا کھیل کھیلا ہے ؟” وہ اب زور زور سے ہنسنے لگا ۔” پھر تو وہ بے چارہ بہت چیخا لیکن تم چلی گئی تھیں ۔ میں وہیں بیٹھا پورا منظر دیکھ رہا تھا۔مجھے اس دکاندارپر بہت ترس آیا اور میں نے اس کو جوتوں کی قیمت ادا کر دی ۔”
اس نے پھر سے کروٹ بدلی ۔ اس رات وہ بہت زیادہ ہنسا تھا ۔
” میں نے جب اس دکاندار کو بتایا کہ تم میری بیوی ہو اس لیے تمہارے جوتوں کی قیمت بھی میں ادا کروں گا تو اس نے کس قدر حیرت سے مجھے دیکھ کر پوچھاتھا ۔
” تم کیسے قابو کرتے ہو اس کو ؟ وہ پھر ہنسنے لگا ۔ لیکن میں اسے کیا بتاتا کہ میں نہیں میری محبت تمہیں قابو کرلیتی ہے ۔ ” اس نے آنکھیں بند کردیں اور سو گیا ۔
٭…٭…٭
آنکھ کھلتے ہی اس نے وال کلاک میں وقت دیکھا ،بارہ بج رہے تھے ۔ جلدی سے اٹھ کر اس نے منہ دھویا اور کچن کی طرف چلی گئی ۔ اس کو سخت بھوک لگی تھی۔
” مجھے بھوک لگی ہے ۔” کچن کے دروازے میں کھڑی وہ کسی معصوم بچے کی مانند بھوک کی شکایت کررہی تھی۔
” وہ تو لگنی ہی تھی ۔” کچن میں سٹول پر بیٹھا شہروز دوپہر کا کھانا بنانے میں منزہ کی مدد کررہا تھا ۔
” Where are the servants? ” اس نے فریج سے بوتل نکا ل کر کھڑے کھڑے پانی پی لیا ۔
” فوتگی ہوئی ہے ان کے گھر میں ۔” اس بار منزہ نے جواب دیا ۔
” اسی لیے تو میں کہتی ہوں کہ ایک ہی فیملی کے دو دو، تین تین لوگوں کوہائیر نہ کریں ۔ سب ایک ساتھ چھٹی پر جاتے ہیں ۔ اس کے اندا ز میں حقارت تھی ۔
“اینی ویز مجھے اپنا بریک فاسٹ دس منٹ میں ریڈی چاہیے ۔”اس نے دو ٹوک اندا ز میں کہا اور کچن سے باہر چلی گئی ۔
” منزہ کے ہاتھ پیاز کاٹتے کاٹتے رک گئے ۔ وہ سٹول سے اٹھ کر حمائل کے لیے ناشتہ بنانے لگی ۔
تھوڑی دیر بعد اس نے ٹرے میں جوس کاایک گلاس ، د و ابلے ہوئے انڈے ، نمک ،مرچ اور پراٹھا رکھا اور کچن سے نکل گئی ۔ اس نے خاموشی سے ٹرے حمائل کے سامنے میز پر رکھی جولاؤنج میں بیٹھی ٹی وی پر کوئی انگریزی فلم دیکھ رہی تھی ۔
” اس کھیل کو سٹارٹ تم نے کیا ہے تواینڈ میں کروں گی منزہ علی ! تم دوسروں کی چیزیں ہتھیانے میں ماہر ہو لیکن اس بار میں تمہیں جیتنے نہیں دوں گی ۔” ناشتے کی ٹرے اپنے آگے کھسکاتے ہوئے اس نے نفرت اور حقارت سے سوچا ۔
” تمہیں یاد ہے بچپن میں ہم نے خالہ سے انڈہ کھانے کی ضد کی تھی ۔ فریج میں ایک ہی انڈہ تھا جو انہوں نے ہمارے لیے ابا ل کر آدھاآدھا ہم دونوں کو دیا تھا اورپھرہمیں ایک دوسرے سے انڈے کی سفیدی اور زردی بدلتے دیکھ کر وہ کتنی ہنسی تھیں کہ کیا بھائی چارہ ہے ۔” اس نے حمائل کو انڈے کی زردی کھاتے اور سفیدی واپس پلیٹ میں رکھتے دیکھ کر سوچا ۔
” تم بہت بدل گئی ہو حمائل! لیکن تمہیں آج بھی سفیدی پسند نہیں ۔ تم آج بھی صرف زردی کھاتی ہو ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ تم نے مجھے سفیدی دینا چھوڑ دیا ۔” وہ اچانک اداس ہو گئی ۔ لاؤنج میں اپنے بے وجہ کھڑ ے ہونے کا احساس ہوتے ہی وہ واپس کچن کی طرف چلی گئی ۔ اس کی آنکھیںدھندلانے لگی تھیں۔ اب اس پتھر دل حمائل کوبچپن کی دوستی یاد دلانا فضول تھا ۔
” تم یہاں بیٹھے میری مدد کررہے ہو لیکن میری مانو تو چلے جاؤ ۔مجھے ڈر لگتا ہے تمہاری بہن کے غصے سے اور تمہاری یہ توجہ مجھے مزید ڈرا دیتی ہے ۔” اس نے پریشان ہو کر سوچا۔ کچن میں سٹول پر بیٹھا شہروز اس کی مددکر کے اس کی پریشانی بڑھا رہا تھا ۔
اس کے امتحان شروع ہو گئے تھے لیکن وہ ایک لفظ بھی نہ پڑھ پائی ۔ ابا کی طبیعت یوں بھی ناساز تھی لیکن اپنی تین دکانوں میں سے دو دکانوں سے چوری کی خبر نے ان کو مکمل طور پر بستر سے لگا دیا تھا۔ انہیں ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔وہ دل کے مریض تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے نڈھال ہو جایا کرتے تھے اور اب تو بھاری رقم کا نقصان ہو ا تھا ۔ گھر کا ماحول بھی بڑا خاموش اور اداس سا تھا ۔ اس کا دل ان دنوں بھرے پیالے کی مانند بھرسا گیا تھا ۔ دماغ ادھر اُدھر کی بہت سی باتوں میں بٹا ہوا تھا ۔ اس لیے وہ کتاب کھول کے بیٹھ جاتی لیکن پڑھ نہیں پاتی ۔
٭…٭…٭





” ایف کو لاء کرنے کا بھوت سوار ہے ۔ کامی جیالوجی پڑھنا چاہتا ہے اور باقی تین تو اپنے پیرنٹس کا بزنس سنبھالیں گے ۔” ٹیبل لیمپ آف کر کے وہ لیٹ گئی ۔
” اور میں ۔۔۔” او گاڈ! آئی ول سٹڈی پلان ۔ ایک پر مسرت سے احساس نے اس کو گھیرے میں لے لیا۔” پر نہ جانے ہم سب اسی طرح مل بیٹھ سکیں گے یا نہیں ؟” اس خیال نے اچانک اسے اداس کر دیا ۔ اس نے بے چین ہو کر کروٹ بدلی اور آنکھیں بند کردیں ۔ کافی دیر تک وہ سو نہ پائی اور پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگی تھی ۔
اگلی صبح وہ صبح سویرے اٹھی تھی کیوں کہ آج اس کا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا ۔
” تم تیا ر ہو گئی ہو یونیورسٹی کے لیے ؟” وہ ڈائیننگ روم کے اندر چلی گئی تو امی نے اس سے پوچھا ۔
” ٰI am ready and I am very happy… !Yes ” وہ ان کے سینے سے لگ کر اُ ن کا گال چومتے ہوئے بولی ۔
” چلو ۔۔ بیٹھو پھر ۔۔۔ ناشتہ کرو ۔۔” انہوں نے اس کے گلاس میں جوس ڈالتے ہوئے کہا ۔
” اپنے ابو جی کی لاڈلی اگر اپنی امی جی کے گلے لگ کر اپنی خوشی کا اظہارکرتی ہے اور اپنے ابو جی کو مکمل طور پر نظر اندا ز کرتی ہے تو ۔۔۔ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ تو غلط ہوتاہے ۔ ” انہوں نے اخبار پڑھتے ہوئے نگاہیں اٹھا کر اپنی اکلوتی بیٹی کے مسکراتے ہوئے چہرے کودیکھ کر تاسف سے سوچا ۔
” ہمار ے رویے ہمیں ایک دوسرے سے کتنا دور کردیتے ہیں اور ہمیں اندازہ تک نہیں ہو پاتا ۔ اب تم خلیج کے اس پار اور میں اس پار ہوں ۔ میں تم سے تمہاری ناراضی کی وجہ کیسے پوچھوں اور تمہاری آوا ز کیسے سنوں؟ میری بیٹی تم کب میرے پاس آکے میرے گلے لگو گی ؟برسوں ہو گئے ۔ تمہاری اس ناراضی کو، پر میں وجہ نہیں سمجھ پایا ۔” انہوں نے اپنی نگاہیں پھر سے جھکالیں، وہ پھر سے بے چین ہو گئے تھے ۔
نہ جانے کیا ہو گیا تھا سب کو ۔سبھی کہہ رہے تھے کہ ابا فوت ہو گئے ہیں ۔ وہ بے یقینی سے سب کو دیکھ رہی تھی ۔ ابا صحن میں پڑی چارپائی پر سفید لباس میں آنکھیں بند کیے لیٹے تھے ۔ دینا ان کے سرہانے بیٹھی تھی ۔مرینہ دینا کے پیروں میں بیٹھی رو رہی تھی ۔ چھوٹی ماں اور بڑی پھوپھی دوسری چارپائی پر بیٹھی رو رہی تھیں اور اماں۔۔۔ وہ کہاں تھیں ؟ عرینہ نے بد حواسی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا وہ وہاں تھیں۔ جائے نماز پر۔۔۔ اسے یا د آیا وہ وہیں بیٹھ کر ابا کی صحت یابی کی دعا مانگتی تھیں اور ابھی بھی وہیں بیٹھی بڑی خالہ کے سینے میں سر چھپا ئے بلک بلک کر رو رہی تھیں ۔
” یہ سب کیوں رو رہے ہیں ؟” و ہ بے یقینی کے انداز میں بڑ بڑائی ۔
” کچھ نہیں ہوا ابا کو ۔۔۔ زندہ ہیں میرے ابا” ۔۔۔ اس نے جلد ی سے کہا۔
” دینو! بتا ناں اباکو کچھ نہیں ہوا ۔ یہ ۔۔۔یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں” اس نے دیناکے پاس جا کر اسے زور زور سے جھنجھوڑا تھا۔ دینا کے گالوں پر اشکوں کی لڑیاں رواں تھیں ۔
اصغر کو خبر کردو” بڑے پھوپھا نے علی سے کہا ۔ عرینہ کی خالی نگاہوں نے اس کی طرف دیکھا ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے اسے اس بات کا یقین ہی نہیں تو پھر وہ کیسے روئے ۔؟ اسے یہ لو گ جھوٹے لگ رہے تھے یا شاید خواب تھا ۔
” کہاں ہیں میرے بھائی ؟ میرے بڑے بھائی ۔۔۔ میرے پیارے بھائی ۔۔۔” چھوٹی پھوپھی دھاڑیں مارتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی تھیں ۔ ان کی چیخوں نے عرینہ کو جگا دیا، اس نے دیکھا کہ وہ ابا کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگانا چاہ رہی تھیں لیکن وہ نہیں اٹھ رہے تھے ۔سب کی اتنی چیخوں میں وہ کتنے آرام سے سور ہے تھے جیسے اب وہ اس دنیا میں نہ رہے ہوں ۔ اس کی آنکھ سے آنسو کا قطرہ گرا پھر وہ زور زور سے رونے لگی تھی ۔ وہ اس قدر روئی کہ نڈھال ہو کر زمین پر گر گئی ۔اس کے بعد اسے کچھ پتہ نہ تھا ۔
٭…٭…٭
وہ فائن آرٹس کالج کے سامنے کھڑی بڑے خفیف سے انداز میں مسکرارہی تھی ۔ اس کی اس خواہش کی تکمیل ان دو فرشتوں کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی ۔ جو تب اسے اپنی بیٹی بنا کر اپنے گھر لائے تھے ، جب اس کی بیوہ ماں دماغ میں رسولی کے باعث ہسپتال میں بے سدھ پڑی تھی اور پھر کچھ عرصے بعد اپنی ماں کی موت کے باعث بے سہارا ہو کر وہ مستقل طور پر ان کے گھر آکر رہنے لگی تھی ۔
” آپ دونوں نے تو مجھے وہاں تک پہنچا دیا جہاں تک جانے کامیں نے تصور بھی نہیں کیا تھا اور ان سب کے بدلے حمائل کے چھوٹے موٹے غصے کو برداشت کرنا کوئی بڑی بات تو نہیں ” اس نے بڑی اپنائیت سے سوچاتھا ۔
٭…٭…٭
وہ صحن میں پڑی چارپائی پر بڑی ماں کے پاس بیٹھ ان کا سر دبا رہی تھی ۔اماں پا س میں پڑی دوسری چارپائی پر بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھیں اور برآمدے میں بچھی چٹائی پر بڑی اور چھوٹی پھوپھو پڑوسی عورتوں کے پاس بیٹھی ہاتھوں میں پارے لیے تلاوت کررہی تھیں۔
بڑی خالہ آج نہ جاتیں تو بڑی ماں کو تھوڑا حوصلہ مل جاتا لیکن ان کی اپنی بھی مجبوریاں ہیں ۔ اپنی چھبیس سالہ معذور بیٹی کو کس کے سہارے چھوڑ کے وہ چھوٹی بہن کے آنسو پونچھنے کویہاں بیٹھی رہتیں ؟
اس نے بڑی ماں کی بھیگی پلکوں کو دیکھ کر تاسف سے سوچا ۔
” وہ عورت جس کی رگ رگ میں زندگی تھی اب کس قدر مرجھا گئی ہے ۔ ” اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی ۔ یہاں بڑی ماں نڈھال تو وہاں عرینہ بخار میں تپ رہی ہے۔” اس نے ابھی ابھی مرینہ کو عرینہ کے پاس کمرے میں بھیجا تھا ۔ تین دن ہوئے اس کو کھانے پینے سے توبہ کئے ہوئے تھی ۔دینا اگر اسے زبردستی کھلانے لگی تو وہ اس کے سینے میں سر چُھپا کر رونا شروع کر دیتی تھی ۔
” میں آپ کے لیے پانی لاتی ہوں ۔” وہ چارپائی سے اٹھ کر باورچی خانے کی طرف جانے لگی جب اس نے آہٹ سنی ۔ کسی کے قدموں کی آہٹ جو بڑی شناسا سی تھی ۔
اس نے نگاہیں اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا ۔ سیاہ کرتا پاجامہ پہنے ایک بیگ کندھے سے لٹکائے دوسرا بیگ ہاتھ میں پکڑے ، دروازے میں کھڑا وہ اصغر حمید تھا ۔ دینا کے قدم غیر ارادی طور پر اس کی جانب اٹھنے لگے تھے ۔وہ اس کے قریب گئی تھی ۔اس کے چہرے پر افسردگی اور آنکھوں میں بے یقینی کے ساتھ ساتھ ملال بھی تھا ۔اس کی آنکھیں لال ہورہی تھیں ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ خوب روتا رہا ہو۔
دینا کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھ سے بیگ گر گیا ۔ اس نے جھک کر اصغر کے ہاتھ سے گرا ہوا بیگ اٹھا لیا ۔ آنسو پیتے پیتے اس کے گلے میں گرہ سی بن گئی تھی ۔ پورے گھر میں ایک وہی تو تھی جو سب کو سہارا دیے ہوئے تھی لیکن اب وہ آگیا تھا ۔ وہ اس کے کندھے پر سررکھ کر بہت سارا روئے گی ، اتنا روئے گی ۔ اتنے آنسو بہائے گی کہ اس کا گریبان تر کر دے گی ۔ اتنی دھاڑیں مار مار کر روئے گی کہ بڑی اماں اور عرینہ کو حیران کر دے گی ۔
” آئیں ۔ ” آنسوؤں کا ایک نمکین سمند ر وہ پی گئی تھی ۔
وہ اس کے پیچھے چلتا ہوا اماں کے پاس گیا تھا اور وہ اس کے سینے سے لگ کر بالکل بچوں کی طرح روئی تھیں۔ ان کی بے شمار آہیں اور سسکیاں وہ اپنے سینے میں جذب کر گیا تھا ۔ وہ خاموشی سے آنسو بہاتا رہا اور دینا کے گلے میں پڑی گرہ بڑھتی گئی ۔ اس کا گلا دکھنے لگا۔
” اپنے ابا کی تدفین کے بعد کیوں آئے تم اصغر؟ ہمارے آنسو پونچھنے ؟ یا پھر ہمیں مزید رلانے؟” وہ آم کے پیڑ کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی رہی ۔
” پوری زندگی ہمارے آنسو پونچھتے رہو گے تو بھی اس لمحے کا درد کم نہیں کر سکو گے جب بڑے ابا ہم سب کے روکنے کے باوجود بنا مڑے ہمیشہ کے لیے چلے گئے”۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔ ان قطرہ قطرہ آنسوؤں سے اس کا غم ہلکا ہونے والا نہیں تھا ۔ اس نے تو دھاڑیں مار مار کر ، ایڑیاں رگڑ رگڑ کے رونا تھا ۔
٭…٭…٭
یونیورسٹی میں اسے ایک مہینہ گزر گیا ۔ وہ بہت کم ہی اپنے دوستوں سے ملتی تھی ۔ کبھی کبھی فو ن پر بات ہو جاتی تو وہ اسے اپنے ڈیپارٹمنٹ آنے کا کہتے لیکن وہ چاہ کر بھی نہ جاپاتی حالاں کہ وہ سب اسے یاد بہت آتے تھے ۔
” ہیلو ماہی ! کیسی ہے تو؟”شام کے وقت جب وہ یوگا کلاس کیلئے جارہی تھی ، اسے صبار کا فون آیا تھا ۔
” ہائے ۔ایس بی ! میں ٹھیک ہوں ۔ تو بتا ۔” یک دم وہ جیسے کھل اٹھی ۔
” تم تو بالکل گم ہو گئی ہو یار!” صبار نے شکایت کی ۔
” ٹائم ہی نہیں ملتا ۔” وہ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔
” ٹائم نکالا کرو ناں ۔ آج ایف اور کامی آئے ہوئے تھے ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں تجھے بہت مس کیا ۔”
” اچھا ؟ آئی مس یو ٹو۔”
” تو بھی کبھی آجا ۔”
” Well I Shall try…. ”
” Must come… ”
” اوکے ۔”
” اینڈ لسن ! نیکسٹ تھرسڈے کو میر ا گولف میچ ہے ۔ ضرور آجانا باقی سب بھی آئیں گے ۔”
” اوکے ۔ اوکے ۔ آئی وِل کم ۔ ڈونٹ وری ۔ ابھی میں اکیڈمی پہنچ گئی ہوں ۔میر ی یوگا کلاس ہے ۔”
” اوکے ۔ سی یو ۔ بائے ۔” فون بند ہونے کے بعد وہ کافی دیر تک یونہی مسکراتی رہی ۔ اس کے دوست کتنے پیارے تھے ۔ یک دم اسے اہم ہونے کا احساس ہو اتھا ۔
شام ڈھل چکی تھی ۔ رات ہر طرف پھیل رہی تھی ۔ اس کے قدم غیر ارادی طور پر ہال کی طرف بڑھ گئے۔ اندر جا کر اس نے دیکھا پھوپھی جی کو نے میں پڑے تخت پر بچھی جائے نماز پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔بڑی پھوپھی پلنگ پہ ٹانگیں پھیلائے لیٹی تھیں ۔ ان کی آنکھیں بند تھیں ۔ شاید سور ہی تھیں، لیکن دینا کو لگا جیسے وہ اپنے اشکوں سے لڑرہی ہوں۔ اس نے چھوٹی پھوپھی کی طرف دیکھا جو اپنے پلنگ پہ لیٹی کسی گہری سوچ میں گم تھیں ۔ اور پھر اس نے اس آرام کرسی کی طرف دیکھا جہاں پر بڑے ابا بیٹھا کرتے تھے ۔ ” دینا بیٹا !قہوہ تو بنے گا ناں ؟” اس کے کان میں کسی شفیق آواز نے سرگوشی کی ۔ اس کا دم گھٹنے لگا ۔ وہ جلدی سے باہر نکل آئی ۔
” فرحت !” بڑی ماں کے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس نے ان کی کمزور سی آواز سنی ۔
” جی بھابھی !” اس نے اماں کی آواز سنی جو آج کل بڑی ماں کے کمرے میں آکر ان کے ساتھ سوتی تھیں ۔
” سعید کے بغیر پندرہ سال ۔۔ کیسے گزارے تم نے ؟ ان کی آواز میں ملال اور بے یقینی سی تھی ۔ دیناکا دل کٹ گیا ۔
” بھابھی !صبر کریں ۔ برداشت خود بخود آجاتا ہے ۔”
” وہی تو فرحت! وہ تو مشکل ہے ۔” بڑی ماں کی آواز آنسوؤں میں بھیگ گئی۔ دینا اپنی آنکھیں زور سے بھینچ کر اپنے کمرے کی سمت چلی گئی ۔
٭…٭…٭





جمعے کا دن تھا ۔ وہ یونیورسٹی کیلئے تیا ر ہو کر ناشتہ کرنے ڈائیننگ روم چلی گئی ۔
” گڈ مارننگ ! اس نے امی جی کا بوسہ لیا اور ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔
” یو آر لوکنگ ونڈر فل ۔” اس نے ان کی تعریف کی ۔
” رئیلی ؟ ” انہوں نے اپنی سکائی بلیو ساڑھی پر ایک نظر دوڑائی ۔
” یس !” اپنے گلاس میں جوس ڈالتے ہوئے کہا ۔” آپ کہیں جارہی ہیں ؟؟؟”
” ہاں ۔ منزہ کو آرٹسٹ آف دی منتھ کا ایوارڈ مل رہا ہے ۔اس کے کالج جارہے ہیں ۔” امی جی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ابو جی بول پڑے ۔ جتنا زیاد وہ ان کو ایوائیڈ کررہی تھی، اتنا زیادہ وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
حمائل نے خاموشی سے منزہ کو گھورا ۔” زہر لگتی ہے مجھے یہ لڑکی” ۔ اس نے نفرت بھری ایک نگاہ منزہ پہ ڈالی اور جلد ی جلدی ناشتہ کرنے لگی ۔
” تم اتنی انجان کیوں بن رہی ہو ؟ کیوں یہ بھول رہی ہو کہ میں تمھارا باپ ہوں ؟ انہوں نے اسے دیر تک دیکھتے رہنے کے بعد اپنی نگاہیں جھکالیں ۔
” میرے پاس اب تین ہی ریلیشنز بچے ہیں ۔ ایک میرے دوست ، دوسری میری ماں اور تیسرا بھائی ۔ ۔ اور میں تمہیں ان سب کوکبھی مجھ سے چھیننے نہیں دوں گی ۔” وہ اور بھی جلدی جلدی کھانے لگی ۔
” منزہ ! آئی ہوپ تم ایک دن بڑی آرٹسٹ بن جاؤ گی ۔ ” یہ آواز اس کے بھائی شہروز کی تھی ۔ وہ بھی منزہ کو بہت اہمیت دیتا تھا ۔
He is my brother ” ” اسے گرمی لگنے لگی ۔
“آئی ہیٹ یو منزہ !” اس کے وجود کی رگ رگ پکاررہی تھی کہ اسے منزہ علی سے نفرت ہے لیکن اس کی زبان خاموش تھی ۔ اس نے بریڈ کا ایک بڑا سا ٹکڑا اٹھایا او بنا چبائے نگل لیا ۔اچانک وہ کھانسنے لگی ۔ اس کا چہرہ اور آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔امی نے جلد ی سے اسے پانی دیا ۔ ابو دوڑ کر اس کے پاس آگئے تھے ۔ اس کی کمر پر پڑا ان کا ہاتھ کسی انگارے کی مانند اس کو جلا رہا تھا ۔ اس نے دیکھا شہرو ز اور منزہ بڑی فکر مند ی سے اس کو دیکھ رہے تھے ۔ شہروز بھائی منزہ کے پاس والی کرسی پر ۔ حمائل نے پہلی بار نوٹس کیا ۔” وہ میرا بھائی ۔۔۔” وہ زو زور رسے کھانستی رہی ۔
“میرے نوٹس میں آئے بغیر تم نے میری بہت سی چیزیں ہتھیا لیں منزہ علی ! وہ جلنے لگی ۔ کھانستے کھانستے اس نے ابو جی کا ہاتھ اپنی کمر سے جھٹک دیااور ڈائیننگ روم سے نکل گئی ۔
کمرے کے اندر جا کر وہ بیڈ پر اوندھی لیٹ گئی ۔ اس کی آنکھوں سے آگ نکل رہی تھی ۔ اس نے اپنی آنکھیں بھینچ لیں لیکن ان میں مسلسل جلن ہوتی رہی ۔ جلدی سے واش روم جا کر اس نے آئینے میں دیکھا تھا ۔ اس کی آنکھیں خون ہوررہی تھیں ۔اس نے پانی سے بھری بالٹی اٹھا کر اپنے سر پرپانی ڈال دیا۔ وہ کپڑوں سمیت سر سے لے کر پاؤں تک بھیگ چکی تھی ۔ وہ واش روم سے نکل آئی ۔ اس کے گیلے لباس سے پانی رستا ہوا فرش پہ بچھے قالین میں جذب ہوتا گیا ۔
” کیا ہوا حمائل بیٹا ؟ آر یو اوکے ؟” امی جی نے کمرے میں داخل ہو کر بڑی فکر مندی سے اس کے گال کو چھوا ۔
” مجھے ۔۔۔گرمی لگ رہی ہے امی جی!” اس نے بڑی حسرت سے اپنی ماں کو دیکھا ۔
” نہیں بیٹا ! تمہیں سردی لگ رہی ہے ۔ انہوں نے دیکھا وہ کپکپا رہی تھی ۔
” تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ تم آج یونیورسٹی مت جاؤ۔ انہوں نے اس کی پیشانی کو آرام سے چھوا ۔
” جاؤ۔جا کر کپڑے بدل لو۔” وہ ڈریسنگ روم کے اندر کپڑے بدلنے چلی گئی ۔
کپڑے بدل کر جب وہ نکلی تو امی دودھ کا گلاس پکڑ ے کھڑی تھیں ۔
” امی جی !ڈونٹ گو پلیز۔ اس کو لٹا کر جب وہ جانے لگیں تو اس نے التجا کی ۔
” بیٹا ! منزہ کیلئے یہ ایک امپارٹنٹ دن ہے ۔ مجھے جانا پڑے گا”
انہوں نے اس کا ماتھا چوم کر اسے سمجھایا ۔
” امی جی پلیز !”
” میںجلدی آجاؤں گی ۔ ربیعہ سے کہتی ہوں وہ تمھارا خیا ل رکھے گی ۔” حمائل کو اپنے ہاتھ سے ایک اور رشتہ چھنتا ہوا محسوس ہوا ۔ اس کی آنکھیں گر م گرم آنسوؤں سے بھر گئیں ۔ اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا اور بلکنے لگی۔ میری امی ۔۔۔ میرے ابو ۔۔۔ منزہ علی چھین لے گی ان کو مجھ سے ۔۔۔” وہ زور زور سے روتی گئی اور میں اکیلی رہ جاؤں گی۔ ایسے ہی جیسے آج اکیلا چھوڑ دیا مجھے۔۔” اس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ دوڑ کرکھڑکی کے پا س آگئی اور کھڑکی پر پڑے پردے سرک کر وہ کھڑکی کے بند پٹ کھولنے لگی ۔
٭…٭…٭
بڑے ابا کے چالیسویں کے دوسرے دن پھوپھی جی واپس ملتان چلی گئیں ۔ان کے جاتے ہی بڑی ماں رونے لگی تھیں۔
” اب ایک بھی اپنی نگاہوں سے ہٹتا ہے تو دل بند ہونے لگتا ہے میرا ۔” انہوں نے دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو پونچھے ۔
” کل صابرہ واپس فیصل آباد چلی جائے گی ۔” ان کا دل گھبرانے لگا ۔
” صالحہ بھی جانے کی ضد کررہی ہے ۔بہت کہا ایک مہینہ اور رہ کر جاؤ لیکن اسے فردوس کے بچوں کی فکر رہتی ہے ۔” وہ پنکھا جھلنے لگیں۔ گھر خالی ہو جانے کا خیال انہیں ڈرا دیتا تھا ۔ پہلے جو پورے گھر کا انتظام سنبھالتی تھیں اب تو ایک بھی کام میں دل نہیں لگتا تھا ۔ اکیلے رہنے سے خوف کھاتی تھیں اس لیے ہر وقت کسی نہ کسی کو اپنے پاس بٹھائے رکھتیں ۔
” مجھے یقین نہیں آتا ابا کی موت نے اماں کو اتنا بد ل دیا ہے ۔” وہ خلاء کو تکتارہا ۔
” حادثات انسان کو بد ل دیتے ہیں ۔” چاند کی مدھم روشنی میں اس نے اپنی نگاہیں اصغر کے چہرے پر مرکوزرکھتے ہوئے کہا ۔
” پر میری ماں کمزور تو نہیں تھی ” اس کے لہجے میں ملال تھا ۔
” حادثات مضبوط انسانوں کو بھی بدل دیتے ہیں ۔ کمزور تو کبھی بھی ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ” اس کے لہجے میں اعتماد تھا ۔ اصغر نے پہلی بار اس کی طرف دیکھا ۔ وہ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھی ا س کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
” ان سارے حالات میں اگر تم میرے ساتھ نہ ہوتیں ناں توجانتی ہو کیا ہوتا ؟ ” وہ اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب لا کر بولا ۔
” کیا ہوتا؟”
” میں اس کھڑکی کے کانچ کی طرح ٹوٹ جاتا ۔ اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا جس کاکانچ پچھلی رات آندھی میں ٹوٹ گیا تھا ۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!