پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

رات کا کھانا کھالینے کے بعد سب ہال میں جمع تھے اور حسب معمول بڑے ابا کو قہوے کی طلب ہورہی تھی۔” دینا بیٹا ! قہوہ بنے گا ناں۔۔۔؟ روز مرہ کی طرح انہوں نے دینا کو پکارا تھا اور وہ مسکراتی ہوئی اٹھی تھی ۔” بڑے ابا جب مجھے ” دینا” کہہ کے بلاتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔ اہم ہونے کا احساس ہوتا ہے مجھے۔۔۔۔اور ایک خاص اور الگ نام تو ان کو دیا جاتا ہے جو ” اہم ” ہوتے ہیں ۔” اس نے باورچی خانے کے اندر داخل ہو کر بلب آن کیا اور چولہے کی سمت بڑھ گئی ۔
” عرینہ واقعی خوش قسمت ہے ایف ۔اے میں وہ اتنے اچھے نمبروں سے پاس ہوگئی اور اب اس کو علی بھائی جیسا اچھا انسان بھی مل گیا ۔” اس نے کیتلی میں ابلتے پانی کو دیکھا ۔ عرینہ اس سے صرف دو ماہ چھوٹی تھی ۔ وہ اس کی بہت اچھی دوست بھی تھی ۔ دونوں ایک ساتھ پڑھی بھی تھیں اور آج عرینہ کی منگنی ہو گئی تو دینا واقعی بے حد خوش تھی ۔ اچھا گھر، اچھا خاندان اور ایک اچھا انسان مل گیا اسے ۔ علی پڑھا لکھا تو تھا پر ملازمت کی بجائے وہ زمینوں کی دیکھ بھا ل کرتا تھا ۔
قہوہ بن گیا ۔ وہ ٹرے میں پیالیاں اور تھرموس رکھنے لگی کہ اچانک بجلی چلی گئی ۔” افوہ۔۔۔” وہ بڑ بڑائی اور ٹرے اٹھا کر دروازے کی سمت بڑھ گئی ۔ ” مرینہ ! موم بتی جلا ؤ ۔۔۔۔” تاریکی میں اسے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔ وہ دروازے میں کھڑی ٹرے پکڑی رہی۔ ” کہاں مر گئی ہے یہ مرینہ؟” وہ بڑبڑائی تھی اور دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی وہ تاریکی میں راستہ تلاش کرنے لگی کہ اچانک کسی مردانہ ہاتھ نے اس کی کلائی کو مضبوطی سے پکڑا اور وہ ڈر کے مارے چیخ بھی نہیں سکی ۔ انتہائی خوف کے سبب اس کا دل دھڑکنابھی بھول گیا تھا ۔
” دینا تم جانتی ہو ۔۔۔۔؟ وہ اس کے کان میں بولا تھا اور دینا ایک لمحے کے اند ر اندر اس آواز کو پہچان گئی تھی ۔ صبح شام یہی آواز تو گونجتی اس گھر میں ۔۔۔” آپ نے ڈرا دیا مجھے ۔۔۔۔۔”وہ اپنی کلائی چھڑانے لگی ۔
” وہی تو کرنے آیا ہوں ۔” اس کی آواز میں شرارت تھی ۔
” کیا مطلب ؟ وہ جھنجلائی۔
” میں چلا جاؤں گا تو تم کسی اور کے بارے میں ہرگز مت سوچنا۔ سمجھ گئی ناں ؟
اس نے دینا کی کلائی پہ اپنی گرفت ڈھیلی کی ۔
سوچوں کا کیا ؟ وہ کبھی بھی گھس آتی ہیں ذہن میں ۔۔۔ چاہے وہ سوچیں آپ کی ہوں یا کسی اور کی ۔۔۔ بڑی شائستگی ، بڑی نرمی ، بڑی ادا سے ادا کیا گیا وہ جملہ کتنا صحیح اور سچ تھا! وہ لڑکی بچپن سے ہی ایسی تھی لا جواب کر دینے والی ، ذہین اور ایک خاص سوچ رکھنے والی ۔۔۔ وہ دھیرے سے مسکراتا تھا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے لائیٹر کو آن کرکے اس نے دینا کا چہرہ دیکھا تھا ۔ ” تم بے شک بے مثال ہو ۔۔۔” اصغر کے دل نے دینا کو دل کی گہرائیوں سے سراہا تھا اور دینا روشنی دیکھتے ہی باورچی خانے سے نکلی تھی ۔۔ اصغر اپنا پیغام اسے دے چکا تھا اور وہ جانتا تھا اس وقت اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا ہوگا ۔۔۔
٭…٭…٭





وہ اپنے سامنے پڑی فائل سے سر اٹھا ہی رہا تھا کہ اس کے آفس میں کچھ دیر پہلے موجود خاتون تیزی سے باہر آ گئی تھی ۔ صبار نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا وہ جا چکی تھی ۔ ” پر کیوں ؟” وہ حیران تھا ۔ شاید وہ اس کی مصروفیت سے اکتا گئی تھی ۔ ” پریوں جاہلوں کی طرح چلے جانے کی کیا تک بنتی ہے؟ اس کو اب غصہ آرہا تھا ۔۔” حمائل ۔۔۔” اس کے کان میں کسی نے وہ نام دہرایا جس کے بارے میں وہ کچھ دیر پہلے سوچ رہا تھا ۔
” حمائل؟؟؟” وہ بڑ بڑایا اور اپنی کرسی سے اٹھ کر وہ تیزی سے باہر آیا تھا۔ اس کا دل زندگی میں پہلی بار اتنا زور سے دھڑک رہا تھا ۔ وہ دیوانوں کی طرح اسما کے پاس آگیا تھا جو کہ اس کی سیکرٹری تھی۔
” اسما! وہ لیڈی کہاں چلی گئی ؟”
” آئی ڈونٹ نو سر !” اسماء کاؤنٹر پر پڑے کاغذات میں سے کچھ ڈھونڈرہی تھی اور اپنے باس کی آواز سن کر وہ سیدھی کھڑی ہو کر مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ ہو گئی۔
” اوکے ۔ کال سکیورٹی ٹو سٹاپ ہر” صبار کی اس بات سے اسما نے تعجب سے اس کی جانب دیکھا اور ریسیور اٹھا کر کان سے لگا کر بات کرنے لگی ۔
” وہ اپنا موبائل فون آفس کی میز پر چھوڑ آیا تھا ۔ اپنا فون لینے وہ واپس آفس کی طرف گیا تھا ۔ ” یہ کون تھی جو اس طرح بغیر بتائے چلی گئی؟ میر ا دل نہیں مانتا کہ یہ حمائل اصغر ہو سکتی ہے ۔ تو اگر یہ حمائل اصغر نہیں تھی تو پھر چلی کیوں گئی ؟ َِ؟ وہ نہیں جانتی تھی کہ میں اسے پہچان لوں۔
لیکن وہ یہاں آئی کیوں تھی ؟ صرف چند ہزار روپے کے وظیفے کے حصو ل کے لیے َ؟؟؟ذہن میں سوالات کی بھر مار تھی ۔ ایک کے بعد ایک سوال۔۔۔ جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ الجھتے ذہن کے ساتھ میز کی جانب بڑھا اور اپنا موبائل اٹھا کر اس نے پینٹ کی جیب میں رکھا ہی تھا کہ انٹر کام کی گھنٹی بج اٹھی ۔ اس نے لپک کر ریسیور اٹھایا تھا ” ہاں اسما کچھ پتا چلا ؟ کھڑے کھڑے اس نے پوچھا تھا ۔
نو سر وہ جا چکی ہے ۔ اسما کے لہجے سے مایوسی ٹپک رہی تھی ۔ ” اوہو ۔ بٹ آئی وانٹ ہر ایڈریس۔” وہ تھکے سے انداز میں کرسی پرگرا تھا ۔ وہ اب مکمل مایوس ہو چکا تھا ۔ اتنے بڑے شہر میں وہ ” حمائل” نامی لڑکی کو کیسے ڈھونڈے گا ؟ اس نام کی ہزاروں لڑکیا ں ہو ں گی پھر کس کس کے گھر جا کے وہ اسے پوچھے گا کہ اس کے آفس سے بنا بتائے چلے آنے کی یہ عجیب و غریب حرکت کس نے کی ؟
” سر ایک راستہ ہے ہمارے پاس۔۔۔” اسما کی آواز ابھری تھی۔
” کیا ؟ ” وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔
٭…٭…٭
اماں کے کمرے میں بڑی پھوپھی کا بستر لگانے کے بعد وہ دیر تک بڑی ماں کا سر دبانے میں مصروف تھی۔ ” ہر کا م اتنے سلیقے سے کرتی ہے ۔ حتیٰ کہ سر اتنا اچھا دباتی ہے کہ درد کہیں غائب ہو جاتا ہے۔” تبسم آنکھیں بند کیے سوچتی رہیں۔” ویسے مجھے اس بات سے بڑی حیرانی ہورہی ہے کہ صالحہ کی نظر عرینہ کی بجائے اس کی طرف کیوں نہیں اٹھی ؟ پر خیر اچھا ہے ۔ بیٹی کا رشتہ اچھی جگہ ہو گیا ۔ اور اصغر کے لیے دینا ہی بہتر ہے۔ سلجھی ہوئی اورسلیقہ مند ۔۔۔ وہ دھیمے سے مسکرائیں اور اپنی خوابیدہ آنکھوں کو نیم وا کر کے انہوں نے دینا کے اطمینان اور مگن چہرے کو غورسے دیکھا۔ وہ لڑکی اپنا ہر کام لگن اور محبت سے کرتی تھی ۔تبسم کو اس پر بے پناہ پیار آرہا تھا ۔ وہ پورے دل سے اس کا ہر کام کردیا کرتی تھی، اس وقت جب سب گھر والے سونے کی تیاری کررہے تھے ، وہ ان کا سر دبانے میں مصروف تھی ۔ اچانک ان کو احساس ہوا کہ وہ کافی دیر سے اس کا سر دبا رہی ہے ۔” بس بیٹا! ،مجھے آرام آگیا ہے ۔ اب جا کے سوجاؤ۔” انہوں نے نرمی سے کہا اور دینا دھیرے سے ان کے پلنگ سے اتر کر کمرے سے باہر آگئی ۔
” آج کا پورا دن انتہائی مصروف رہا تھا ۔ وہ واقعی تھک چکی تھی ۔
” یہ کیا ؟ تم یہاں کیوں لیٹی ہو؟ کمر ے کے اندر آتے ہیں اس نے عرینہ کو اپنے پلنگ پر لیٹے پایا۔
” میں تمہارے ساتھ سوؤں گی ۔ ” عرینہ نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا۔
” کیوں؟؟؟ ” دینا نے تعجب سے اسے دیکھا۔
”آج مجھے تم پر پیا رآرہا ہے !” عرینہ کے لہجے میں شوخی تھی۔
” کیوں بھئی!آج ایسی کیا خاص بات ہوئی ہے ؟ دینا نے عرینہ کے ساتھ پلنگ پر اپنی جگہ بنالی اور کمبل کھینچ کر اس میں منہ چھپا لیا ۔
” آج تم نے میرے حصے کے سارے کام کرلیے ۔” عرینہ نے دینا کی طرف منہ کرکے کہا۔
تو اس میں نئی بات کون سی ہے ؟ وہ تو میں ہمیشہ کرتی ہوں ۔ کاہل لڑکی ! بڑی پھوپھی کی تو قسمت ماری گئی جو تمہیں بہو بنا لیا ۔” دینا بولی!
” ویسے ایک بات کہوں؟ دینا پوچھ رہی تھی ۔۔
” کیا؟” دینا اب مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ تھی ۔
تجھے میر ی جٹھانی ہونا چاہیے۔ مزہ آئے گا۔” عرینہ کے لہجے میں بے پناہ شوخی تھی۔
لیکن تمہارے جیٹھ صاحب تو شادی شدہ ہیں ۔بھئی! میں سوکن شوکن کے بکھیڑے نہیں پال سکتی۔ ہاں! اگر تم اپنا میاں مجھے دو تو پھر بات بن سکتی ہے ۔” دینا بھی مکمل شوخی پر اتر آئی تھی۔
” ہٹو۔ بے شرم ! تجھے اپنا میاں دے دوں تو خود کیا کنواری رہ جاؤں؟ ”
عرینہ نے اسے ٹہوکااور وہ کروٹ بدل کر لیٹ گئی ۔ اس کے لبوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ تھی۔ میں تم سے تمہارا میاں کیوں لے لوں؟ مجھے تو آج ہی کوئی ملا ہے ۔ اس کے لبوں پہ پھیلی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی ۔ اتنی تو مصروف رہی تھی وہ کہ سوچنے تک کی فرصت نہیں ملی تھی اور اب جو فارغ ہو کے بستر پہ آلیٹی تھی تو مسلسل ” اس ” کے بارے میں سوچے جارہی تھی ۔” یہ بھی عجیب بات ہے۔ آج سے پہلے کبھی ان پہ اتنا نہیں سوچا اور آج تو ان کی سوچیں سونے بھی نہیں دے رہیں۔”
اس کے وجود کی تھکن دور ہو چکی تھی اور آنکھیں۔۔۔ ان سے تو نیند نہ جانے کتنے میلوں دور بھاگ گئی تھی۔ ” ارے بھئی میں مسلسل ان ہی کو سوچے جارہی ہوں۔۔۔ تو کیا مجھے بھی ۔۔۔؟؟؟ اس نے تعجب سے سوچا اور مارے حیا کے اس کی آنکھیں بھینچ لیں اور جلد ی سے کمبل میں منہ چھپا لیا ۔
” دینو؟” اس کی آنکھ لگتے ہی عرینہ نے اسے پکارا۔
” ہاں۔ کیاہے؟ اس نے بیزاری سے اسے جواب دیا ۔
” مجھے نیند نہیں آرہی ۔” عرینہ کے لہجے میں معصومیت تھی۔
” نیند کیسے آئے گی تمہیں۔ آج منگنی جو ہو گئی ہے ۔آنکھوں میں علی بھائی کا چہرہ ہوگا۔ پراب میں کہاں سے لاؤں ان کو؟ اب آرام سے سو جاؤ۔کل چپکے سے کہیں ملوا لوں گی ان سے۔ اب چپ کر کے سو جاؤ ورنہ تو مرینہ ہم دونوں کو باہرنکا ل دے گی ۔ ” عرینہ کو ایک لمبی تقریر سنا کر اس نے پھر سے آنکھیں بند کردیں۔ عرینہ نے اس کی کمر پہ ہلکا سا مکا جمایااور کروٹ بدلی۔ نہ جانے وہ سو گئی تھی یا نہیں لیکن اس کے بعد اس کی کوئی آواز نہیں ابھری تھی۔
٭…٭…٭
سر ان کی دوست یہاں لابی میں بیٹھی ہوئی ہیں ۔ ہم ان سے مس حمائل کا ایڈریس لے سکتے ہیں۔
” ٹھیک ہے ۔ سینڈ ہر ٹو مائی آفس کویکلی۔” ریسیور کریڈل پرپٹخ کر اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لیا اور آنکھیں بند کردیں۔
” یا اللہ! یہ حمائل نہ ہو ۔ یا للہ! یہ میری حمائل نہ ہو۔” زندگی میں پہلی بار شاید وہ دل کی گہرائیوں سے دعا مانگ رہا تھا ۔ ” میں جانتا ہوں یہ حمائل نہیںہو سکتی ۔ بھلا وہ اس وظیفے کے حصول کے لیے کیوں آئے گی؟؟؟…
میں جانتا ہوں یہ میری حمائل نہیں ہے ۔ پر میرے دل کو آرام کیوں نہیں ؟ مجھے ایک انجان خوف نے گھیرے میں کیوںلیا ہوا ہے ۔ یہ نام ہمیشہ میرے ہوش اڑا دیتا ہے ۔” وہ بے بس انداز میں سوچ رہا تھا ” اور جب تم مجھے مل جاؤ گی تو میں تمہیں یہ سب بتاؤں گا کہ کہاں کہاں اور کس کس وقت میں نے تمہیں کتنا یاد کیا؟ میں کتنا بے چین ہوں تمہیں یاد کر کے ؟ کتنا ڈر گیاتمہیں نہ پا کر ؟ اور تم صرف مسکرا دو گی ۔۔۔ تمہارے لیے شاید میری یہ بے قراری کوئی معنی نہ رکھتی ہوں۔۔۔ پرسوال یہ ہے کہ اس وقت تم ہو کہاں ؟اس نے پلکوں کو کسی بھاری بوجھ کی طرح آنکھوں سے اٹھایا ۔ ” کاش وہ مجھے مل جائے کاش ۔۔۔اسی طرح ہنستی مسکراتی حمائل۔۔۔” اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ملیں اورسیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔” کیا پتہ یہ حمائل ہی ہو اور صرف مجھے کنفیوز کرنے کے لیے یہاں آئی ہو وظیفے کے بہانے سے اور پھر بھاگ جانے کی یہ عجیب و غریب حرکت کی ہو۔۔۔ ورنہ تو پھر یہ کسی بھی حال میں میری ” حمائل” نہیں ہوسکتی۔ اس بات کا یقین ہے مجھے۔ ۔۔” وہ خود کو دلائل پیش کررہا کہ اس کے آفس کا دروازہ کھلا۔
” آپ نے بلایا مجھے؟ وہ دروازہ پکڑے کھڑ ی تھی۔
” جی آئیے ۔ اس نے مختصر سا جواب دیا ۔
” آپ حمائل کی دوست ہیں؟”
” ہاں ۔ پر وہ ہے کہاں ؟ وہ الٹا اس سے سوال پوچھنے لگی۔
” آپ ہمیں ان کا ایڈریس دے سکتی ہیں؟ اس کا سوال نظر انداز کر کے صبارنے ایک اور سوال کیا ۔
” جی۔” حیرانی اس کے چہرے سے ٹپک رہی تھی۔
” ٹھیک ہے۔” آپ اسما سے اپنا کا نٹیکٹ نمبر دے دیں ۔ ہم آپ سے رابطہ کریں گے ۔
” جی ۔” کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں وہ صبارکا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
” ٹھیک ہے ۔ آپ جاسکتی ہیں اور ہاں آپ کی دوست چلی گئی ہیں ۔”
” چلی گئی ہیں؟” اکیلے؟ وہ بڑ بڑاتی ہوئی کرسی سے اٹھنے لگی ۔
” ویسے آپ کی دوست کا فل نیم کیا ہے ؟ شاید فل نیم جان کر اسے معلوم ہو جائے کہ وہ اس کی حمائل تھی یا نہیں ؟
” حمائل اصغر” اس نام نے صبار کی سماعتوں پر پہاڑ گرا دیے تھے۔ یک دم اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ اسے اب کچھ بھی نہیں دِکھ رہا تھا حتی کہ اپنے سامنے کھڑی وہ خاتون بھی نہیں۔
” آپ جا سکتی ہیں ” عصمت نے اس کی سرگوشی سنی اور انتہائی تعجب کے عالم میں وہ آفس سے نکلی تھی ۔ کاؤنٹر پر بیٹھی اسما کو اپنا نمبر دینے کے بعد کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس بڑی عمارت سے نکلی تھی۔
” مجھے اس” حمائل” کی کبھی سمجھ نہیں آئے گی۔ بہت عجیب ہے یہ لڑکی ۔ عصمت نے رکشے میں بیٹھتے ہوئے سوچا۔
” یہ وہ نہیں ہو سکتی ۔ اس کے سبھی دوستوں کو میں جانتا ہوں ۔” وہ اب خود کو یقین نہ کرنے کی وجہ دے رہا تھا۔” چلویہ اس کی دوست ہو بھی گئی تو اتنا مجھے یقین ہے کہ وہ کسی وظیفے کے لیے نہیں آئی ہو گی۔” وہ کرسی پر سے اٹھا تھا اور آفس سے نکل گیا تھا ۔ اس کا پورا وجود کانپ رہاتھا ۔ وہ لڑ کھڑاتے قدموں سے کاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا ۔
” اسما! یہ دو لیڈیز چیرٹی فارم بھروانے آئی تھیں؟”
” یس سر!
” آر یو شور؟”
” یس سر!مس حمائل کے ہزبنڈ چند مہینے پہلے فوت ہو چکے ہیں اور وہ بہت بڑے فائنینشئل کرائیسس سے گزررہی ہیں ۔ ان کی دوست نے بتایا ۔” اسما نے تفصیل فراہم کیں۔ وہ جو یقین نہ کرنے کی وجہ مانگ رہا تھا ساری وجوہات اس کی امیدوں کے خلاف تھیں۔ نہ جانے کیوں اب اس کا دل مارے خوف کے دھڑکنا بھو ل گیا تھا ؟ اس کا دل کیاوہ اسما کو ایک طمانچہ دے مارے کہ ” حمائل ” صرف اس کی ہے ۔ وہ کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی ۔ اور اگر ہو بھی گئی تو اتنی مجبور کبھی نہیں ہو گی کہ چند ہزارروپے کے وظیفے کے لیے دفتروں کے چکر لگاتی رہے گی۔ اسما سے عصمت کا نمبر لے کر وہ باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھنے کی بجائے وہ پیدل چلنے لگا تھا۔ اسے کچھ معلو م نہیں تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے َ؟ وہ بس چلتا جارہا تھا ۔ اس وقت وہ اپنی جسمانی تھکن بھول چکا تھا ۔ اس کی روح میں در د کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ اس کا دماغ سن تھا ۔ اس کا ذہن ماؤف تھا اور اس کا دل ساکت ۔۔۔ اس کو یقین نہ کرنے کی وجہ چاہیے تھی۔ وہ جلد ی جلدی تحقیق کرکے اس سچ کو جان لینا چاہتا تھا کہ وہ ” حمائل ” اس کی حمائل” نہیں تھی لیکن اس کے اندر ایک گوشہ تھا جس میں ایک نامعلوم خوف کروٹیں بدل رہا تھا ۔ ” اگر یہ حمائل ہوئی تو ؟؟؟ اور آگے وہ سوچ نہیں پایا ۔ اس سے آگے اس کی سوچ ختم ہو چکی تھی،رک جاتی تھی۔
” وہ دیر تک سڑکوں پر بے مقصد پھرتارہا ۔ کئی دفعہ اس کا دل چاہا کہ وہ عصمت کا نمبر اپنے موبائل سے ڈیلیٹ کر دے لیکن اگلے لمحے اسے حمائل کا خیا ل آجاتا ۔ ۔۔ وہ پاگلوں کی طرح بگڑے حلیے میں فٹ پاتھ پر چل رہا تھا۔ اسے چین نہیں تھا ۔ وہ حمائل اصغر کے بارے میں جان لینا چاہتا تھا اور برسوں بعد جب آپ کسی جان سے بھی پیارے کا نام سن لیتے ہیں تو آپ پھر اس انسان سے ملنا چاہتے ہیں ۔ اس کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ آپ کو اس سے کتنی محبت ہے ؟ آپ اس کے بنا کتنے ادھورے رہیں؟ آپ اس انسان کو اس طرح دیکھ لینا چاہتے ہیں جس طرح آپ اسے چھوڑ کر گئے تھے۔ یہ حقیقت جانے بغیر کے بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدل جاتا ہے۔
اس کا دل کسی ضدی بچے کی طرح حمائل سے ملنے کی ضد کررہا تھا لیکن وہ بے بس تھا ۔اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ وہ کسی خاموش ویران جگہ جا کر چیخیں مارنا چاہتا تھا ۔ کسی صحرا میں بیٹھ کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کررونا چاہتا تھا۔
” وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور کسی معصوم بچے کی طرح آنسو قطرہ قطرہ اس کی آنکھوں سے گرنے لگے ۔ اس نے دھندلاتی آنکھوں سے دیکھا شام گہری ہو چکی تھی۔ مارکیٹ کی دکانیں روشن بلبوں کے سبب کسی نگینوں کی مانند چمک رہی تھیں۔ ” ڈیڈ انتظار کررہے ہوں گے۔” وہ فٹ پاتھ پر سے اٹھ کر چلنے لگا ۔ وہ گھر جانا چاہتا تھا لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا گھر کس طرف ہے ؟
٭…٭…٭





” ہاں سب ٹھیک ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے ۔ تم اپنا بتاؤ” وہ چھت پر دھلے ہوئے کپڑ ے بچھا کے نیچے آئی تو بڑی ماں فون پر کسی سے بات کررہی تھی ۔ ” عرینہ کی منگنی پہ نہ آسکی لیکن اصغر کو رخصت کرنے ضروری آنا ہے تم نے ۔ ہاں ۔۔ وہ جارہا ہے ناں انگلینڈ ۔” دینا بڑی ماں کے پاس آکے بیٹھ گئی ۔” یہ یقیناً چھوٹی پھوپھی سے بات کررہی ہیں ۔”
” آج ہی آ رہی ہوں؟” یہ تو بہت اچھا ہوا۔ چلو ٹھیک ہے ۔ اللہ حافظ ” بڑی ماں نے ریسیور کریڈل پررکھ دیا ۔” چھوٹی پھوپی تھیں؟” اس نے پوچھا۔
” ہاں ۔۔ صابرہ تھی ۔ اصغر سے ملنے آرہی ہے ۔ شام تک پہنچ جائے گی۔” انہوں نے نرمی سے جواب دیا اور مسہری سے اٹھنے لگیں ۔
” تو وہ چلے جائیں گے ۔ مجھے خواب دکھا کر چلے جائیں گے پر۔۔میں کیوں خواب دیکھنے لگی؟ میں ۔۔۔ حقیقت پسند ہوں ۔ خوابوں میں رہنے والی نہیں ہوں۔ پھر کیوں میں ان کے خواب دیکھنے لگی ہوں ؟ شایدوہ ہمیشہ سے مجھے اپنے لگتے ہیں اس لیے؟” وہ چار پائی پر سے اٹھنے لگی۔
” بیٹا ! تم جا کے فرحت کے کمرے میں صابرہ کے سونے کا انتظام کرو۔ میں ذرا باورچی خانے کاکام سنبھال لوں۔ فرحت کی طبیعت آج کچھ بہتر نہیں ۔” بڑی ماں نے باورچی خانے کے اندر جاتے ہوئے کہا۔
” لیکن اماں کے کمرے میں پہلے سے بڑی پھوپھی کا بستر لگا ہوا ہے ۔” وہ اماں کے کمرے کی جانب بڑھتے بڑھتے رک گئی ۔
” تو پھر فرحت کے ساتھ والے کمرے میں لگوا لو بستر۔ عرینہ اور مرینہ کو ساتھ میں لگا لو کام پر۔۔۔اچھی طرح صفائی کروا دو اس کمرے کی ” یہ کہہ کر وہ باورچی خانے کے اندر چلی گئیں اور دینا اس کونے والے کمرے کی طرف چلی گئی ۔
” دینا بیٹا ! خبردار جو اکیلے کیا کام۔ جا کے پہلے ان دونوں کو بلاؤ سارا کام وہ دونوں کریں ۔ تم صرف بتا دیا کرو ان کو ۔” بڑی ماں نے باورچی خانے سے آواز لگای اوردینا مسکراتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب گئی تھی ۔۔
” توبہ ہے ۔ بڑی ماں کسی کی جان بخشے۔ پتہ نہیں ان کی بہو کا کیا حال ہوگا؟” دینا کے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ دونوں اپنے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ناول کی کتابوں کومیز پررکھ کر منہ بسورتی ہوئی اٹھنے لگیں۔
” سن لیا تم لوگوں نے۔” ؟ وہ مسکرائی ۔
” ہاں ۔ ہاں سن لیا ۔ اب جو آواز گھر بھر میں گونجتی ہو تو ہم بھی سنیں گے ناں؟۔ عرینہ سخت ناراض ہورہی تھی۔
”بس کرو دبد تمیز ! اب آؤ بھی ۔ اس نے عرینہ کو بازو سے پکڑ کر باہر کی طرف گھسیٹا۔”
”مجھے لگتا ہے ابا اماں کو چین سے لائے ہیں ۔ مجال ہے جو ایک لمحہ بھی آرام سے بیٹھنے دیتی ہو۔” عرینہ کی اس بات پہ دینا اور مرینہ دونوں نے قہقہہ لگایا تھا۔” چپ کرو بے شرم! ناول پڑھتے پڑھتے دماغ خراب ہو گیا ہے تم دونو ں ۔ حقیقت میں آؤ اور اس کمرے کی صفائی کر ڈالو۔” دینا نے عرینہ کو جھاڑو تھماتے ہوئے شوخ انداز میں کہا ۔
” بھاڑ میں جائے ایسی حقیقت۔” عرینہ اور مرینہ دونوں کو ہر قسم کے کام پر بے حد چڑ تھی اور اس وقت جب ان کوکمرے کی صفائی کاکہا گیا تو دونوں کا پارہ ساتویں آسمان تک پہنچ چکا تھا ۔
” ایسی بھی کوئی جگہ ہوگی جہاں ہمیں کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا؟” عرینہ نے حسرت سے کہا۔
” ہاں ۔ جنت میں ہم آرام سے بیٹھے رہیں گے۔ وہاں کوئی بڑی ماں ہم سے کام نہیں کروائیں گی۔ ” مرینہ نے جلد ی سے کہا۔
” میری سست اور کاہل بہنوں! جنت ناول پڑھنے سے نہیں ، نماز پڑھنے سے ملتی ہے اور اس سے تم دونوں دور بھاگتی ہو۔ خاک مل جائے گی جنت” دینا نے ان دونوں کو ٹہوکا۔
” یہ کیا ؟صفائی ابھی تک نہیں ہوئی ؟ عرینہ! تم اس کی ہم عمرہو اور تمہیں کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرنا نہیں آتا اور اسے دیکھو اتنی سلیقہ مند ہے ۔ صالحہ کی تو قسمت ہی خراب ہے ۔” بڑی ماں کمرے کے دروازے میں کھڑی ان پہ تپ رہی تھیں ۔ عرینہ کو بُرا بھلا کہہ کے وہ پیر پٹختی واپس باورچی خانہ کی سمت چلی گئیں۔
” ہم عمر ہیں ہم دینا کے ، پر ہم خیال ہیں ہم مرینہ کے ۔” عرینہ نے جھاڑو کا مائیک بنا کے کہا ۔
” واہ ۔ واہ۔۔۔ کیا کمال کا شعر ہے ۔” مرینہ نے روایتی انداز میں تعریف کی۔” بے وقوف !شعر نہیں مصرع۔۔۔” عرینہ نے اسے گھورا۔
٭…٭…٭
اس سے پہلے کبھی اس نے خود کو اتنا بے بس محسوس نہیں کیا تھا ۔ وہ اس سے دور ہوتی ، وہ اس سے رابطہ نہیں کرپاتا ، اس سے بات نہ ہو پاتی تو وہ کبھی بھی پریشان نہیں ہوتا تھا ۔ وہ اسے اپنے وجود کا حصہ لگتی تھی ۔ وہ اسے اپنے نس نس میں بسی معلوم ہوتی تھی ۔ اسے کھونے کا ڈر تو جیسے اس کو تھا ہی نہیں ۔اس لڑکی کا وجود ہی نہیں ۔ اس کی روح کو بھی وہ اپنا سمجھتا تھا ۔ اس نے کبھی اس کو خود سے الگ نہیں سمجھا تھا لیکن آج زندگی میں پہلی بار وہ اس کو خود سے الگ ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ آج اس کو احساس ہو ا تھا، وہ ایک الگ وجود الگ روح کی مالک تھی۔ آج اس کو پہلی بار اسے کھونے کا ڈر محسوس ہوا تھا۔ آج اس لڑکی کے ذکر نے صبار کو واقعی بے کل کر دیا تھا ۔اس سے پہلے وہ حمائل کو کبھی ڈھونڈنے اس لیے نہیں نکلا تھا کہ وہ اس کو خود سے جڑی معلوم ہوتی تھی لیکن آج اس سے الگ وجود ہونے کا احساس ہوتے ہی وہ اس کو ڈھونڈنے نکلا تھا پاگلوں اور دیوانوں ، کی طرح وہ اسے ڈھونڈ رہا تھا لیکن وہ یہ کب جانتا تھا کہ جسے وہ آج ڈھونڈ نے نکلا ہے اس کو وہ برسوں پہلے کھو چکا ہے ۔
٭…٭…٭
” اب اٹھ بھی جاؤ تم دونوں ۔” دینا نے عرینہ اور مرینہ پر سے کمبل ہٹاتے ہوئے کہا۔ وہ کافی دیر سے ان کو جگانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔
”یار دینو!سونے بھی دو اب ۔۔۔ میر ی تو ہڈیاں ٹوٹ رہی ہیں ۔”
عرینہ نے کمبل میں خود کو چھپا یا۔
” ہاں بجیا! سونے دو ناں ۔ میں بھی بہت تھکی ہوئی ہوں ۔” مرینہ نے کروٹ بدلتے ہوئے شکوہ کیا ۔
” کیوں بھئی !ایسا کیا کیا ہے تم دونوں نے،جو اتنی تھکی ہوئی ہو ؟” دینا ان کے سرہانے کھڑی پوچھ رہی تھی۔
” کل پورا دن جو کمرے کی صفائی کی ہے ہم نے۔ ” عرینہ نے کمبل میں سے سر نکا ل کر کہا اور پھر کمبل میں چھپ گئی ۔
” کیا؟ کیا ؟ وہ جو صفائی کے نام پہ تم دونوں نے کمرے کی حالت بگاڑ دی تھی ۔ اس سے تم دونوں تھک گئی ہو؟” دینا نے ان دونوں کے پلنگوں کے بیچ پڑی میز پر براجمان ہوتے ہوئے پوچھا ۔
” نہیں اٹھ رہی ناں تم دونوں؟ میں جا کے بڑی ماں کو بلاتی ہوں ۔ دیکھتی ہوں تم دونوں کیسے نہیں اٹھتیں؟” دینا نے دونوں کو دھمکی دی اور کمرے سے باہر جانے لگی۔
” خدا کیلئے ! پولیس انسپکٹر کو نہ بلائیں۔” مرینہ نے فریاد کی ۔
” پولیس انسپکٹر نہیں” آرمی چیف” عرینہ نے جلدی سے تصیح کی۔
” اب تو میں ان کو بلا کے ہی رہوں گی۔” دینا نے ان دونوں کی گھبراہٹ کا مزہ اٹھاتے ہوئے کہا اور کمرے سے نکل گئی ۔
تھوڑی دیر بعد وہ کمر ے میں دوبارہ آئی تو اس کے پیچھے پیچھے کوئی آرہا تھا ۔
” اوہو۔ آگئیں۔” مرینہ گھبراہٹ کے عالم میں بڑبڑائی اور عرینہ بالکل ساکت لیٹی رہی ۔ خوف اور گھبراہٹ کے وقت وہ ایسے ہی خاموشی سے کام لیا کرتی تھی اور اس کی اس حرکت سے اماں کو مزید غصہ آجاتا تھا ۔
” تم دونوں ابھی تک نہیں اٹھیں؟؟ ” دینا کی آواز ابھری ۔
” یہ کم بخت اماں کو مزید غصہ دلا رہی ہے ویسے تو ان کے سامنے آواز تک نہیں نکلتی اس کمینی کی۔” عرینہ کو اس وقت دینا پر سخت غصہ آرہا تھا ۔ اس کا دل چاہا وہ اٹھ کر دینا کاگلا دبوچ لے لیکن اماں کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں تھا ۔
” آؤ مسرورہ ! بیٹھو۔” یہ آواز دینا کی تھی ۔
” مسرورہ؟ ” اس وقت عرینہ سخت بے زار ہورہی تھی ۔ بڑی پھوپھی کی اس ” لاڈلی مسرورہ” سے اسے بے حد چڑ تھی۔ ” یا اللہ جی !اس کی کسر رہ گئی تھی کیا؟ اس نے کڑھ کر سوچا۔
” بھابی کہاں ہیں ؟” مسرورہ کی اس دھیمی آواز میں بات کرنے کے انداز پر عرینہ کس قدر چڑ جاتی تھی ۔ بالکل بلا وجہ او ر بے سبب اس کو مسرورہ سے نفرت تھی اور آپ کی زندگی میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپ کو اہمیت دیتے ہیں ، توجہ دیتے ہیں لیکن پھر بھی ان بے ضرر لوگوں سے آپ کو عجیب قسم کی چڑ ہوتی ہے۔ آپ کا دل کرتا ہے آپ ان لوگوں سے نہ ملیں اور اگر ملیں تو ایک آدھ تھپڑ ضرور رسید کردیں۔
” عرینہ؟ وہ تو سوئی ہوئی ہے ۔ کل پورا دن گھر کی صفائی کر کے بہت تھک چکی ہے۔ تمہیں بہت یا د کررہی تھی ۔ تمہیں ۔یہاں دیکھ کر بہت خوش ہو گی ” ۔
دینا نے صاف جھوٹ بولا ۔
” اب یہ بدتمیز لڑکی جھوٹ کیوں بول رہی ہے ؟ میں نے کب یاد کیا ہے اس ” مسرورہ کی بچی کو “؟ عرینہ کیلئے اب یوں لیٹے رہنا مشکل ہو چکا تھا ۔ کاس اس وقت میں اس کم بخت دینا کو کم از کم دس بیس تھپڑ رسید کر سکتی۔ ” اس وقت اس کی یہی خواہش تھی۔
” عرینہ! اٹھو مسرورہ آئی ہے ۔ تم کتنا یاد کررہی تھی اسے ۔” دینا عرینہ کو زور سے ہلایا اور اس کا دل چاہ وہ دینا کو کہہ دے کہ میں نے کب اس کو یاد کیا ہے ؟ لیکن چارو ناچار اسے اٹھنا ہی پڑا ۔
” اوہ ۔ السلام و علیکم کیسی ہو مسرورہ؟” عرینہ نے مسکرانے کی کوشش کی ” زندگی میں مجھے اگر کبھی کسی انسان کو الٹا لٹکانے کا موقع ملا تو وہ یہی مسرورہ ہو گی۔” اس نے کڑھ کر سوچا تھا۔
” میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں ؟”
” اوہ۔۔۔ تیر ا یہ دھیما دھیما لہجہ۔۔۔۔ میرا دل کرتا ہے میں تیرا گلا دبا دوں اس نے مسرورہ کو دیکھتے ہوئے سوچا ۔
” بہت سویرے سویرے نہیں آئی تم ؟” عرینہ جبراً مسکرائی ۔
” نہیں بھابی دس بج رہے ہیں ۔” مسرورہ نے بتایا ۔
” اوہو۔۔۔ اتنی دیر؟ دینا تم نے کیوں نہیں جگایا مجھے؟ وہ اب شرم سے پانی پانی ہورہی تھی اور مسرورہ کے پاس بیٹھی دینا اپنی مسکراہٹ دبانے میں مصروف تھی۔ وہ ۔۔۔ میں ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی بہانہ ڈھونڈتی ، دینا جلدی سے بول پڑی ” اصل میں یہ کل پورا دن گھر کی صفائی کرتی رہی ہے تو۔۔۔ تھک گئی ہے۔” دینا نے شرارت سے عرینہ کو دیکھا جو قہربھری نظر سے اسے دیکھ رہی تھی ۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!