پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

کمرے کی لائٹ آف تھی ۔ کھڑکی میں سے ہلکی ہلکی چاندنی جھانک رہی تھی ۔ وہ لائٹ آن کرنے کو بڑھا لیکن اس کے قدم رُک گئے ۔ اس نے دبی دبی سسکیاں سنیں ۔ وہ د بے قدموں سے سسکیوں کی طرف بڑھتا چلا گیا ۔
وہ کھڑکی کے پاس بچھے جائے نماز پہ بیٹھی رو رہی تھی ۔ اس کے ہاتھ دعا کو اٹھے ہوئے تھے ۔ کھڑکی میں جھانکنے والی چاندنی اس کے چہرے کو پُر نور بنا رہی تھی ۔ گلابی رنگ کا دوپٹہ بڑے دھیان سے اس کے سر کو ڈھانپے ہوئے تھا ۔ اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو موتیوں کی مانند پھسل پھسل کر اس کے چہرے کو تر کررہے تھے ۔
سنان اس کے قریب ہی فرش پر بیٹھ گیا ۔
چاند کی صاف و شفاف روشنی میں وہ آسمان کے چوڑے سینے سے اتارے گئے چاند کی مانند حسین لگ رہی تھی ۔
” اس وقت تم ستاروں کی معصوم سی روشنی سے بنائی گئی کسی حسین سی پری کی مانند لگ رہی ہو۔” سنان نے حمائل کے گورے چہرے کو چاند کی روشنی میں بہ غور دیکھا ۔ ” تم تو ایک نو خیز قیامت ہو حمائل ! نہ جانے میں اتنے عرصے تمھاری ذات میں چھپی اس قیامت سے کیوں بے خبررہا ؟ وہ حیرت سے سوچتارہا ۔ پھر بے اختیار اس کا ہاتھ اٹھ گیا ۔ وہ غیر ارادی طور پر حمائل کے آنسو پونچھنے لگا ۔ حمائل جو اس کی موجودگی بے خبر آنسو بہا رہی تھی نے چونک کر سنان کو دیکھا ۔ وہ اس کے بہت قریب بیٹھا اس کے آنسو پونچھ رہا تھا ۔
” تمہاری آنکھوں کی یہ گہرائی ۔۔۔ ” حمائل کا دل ڈوبنے لگا ۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور تیز ی سے واش روم کے اندر گئی ۔
” میں آج تک حیران ہوں کہ اس عورت نے ہم پر الزام کیوں لگایا ؟ میں اس کی وجہ نہ جان پایا لیکن اب میں ان کا مشکور ہوں ۔ یہ الگ بات ہے کہ منزہ کے گال پر رنگ لگتے دیکھ کر میں اس سے محبت کرنے لگا تھا لیکن سچ کہوں تو اس میں کمال اس کا نہیں بلکہ اس حسین منظر کا تھا اور اگر اس کی جگہ تم ہوتی تو وہ منظر کہیں زیادہ حسین لگتا ۔ ” سنان نے بڑی فراخ دلی سے سوچا اور بیڈ پر دراز ہو گیا ۔
وہ سہمی ہوئی واش روم سے نکل آئی ۔ اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا وہ سمٹی ہوئی صوفے پر لیٹ گئی۔ وہ سنان کے قریب جاتی گھبرا جاتی تھی ۔اس کی آنکھوں کی گہرائی دیکھ کر حمائل کا دل ڈوبنے لگتا ۔ وہ چندلمحوں کیلئے بھی سنان کے قریب نہ بیٹھ پاتی تھی اور پھر۔۔کھڑکی میں جھانکتی صبار قاسم کی مسکراتی آنکھیں ۔۔۔و ہ سہم کر سنان سے دور ہٹ جاتی تھی ۔
” اور اگر تمھیں اصلیت کا پتہ چل گیا تو ؟یہ سوچ کر وہ اپنا تھوک بھی نہ نگل پاتی ۔ اس کا دل دھڑکنا بند کردیا اور اس کے وجود پر سانپ رینگنے لگتے ۔وہ کالے سانپ … اس کو ڈسنے لگتے اور پھروہ بے بسی سے سسکنے لگتی ۔
٭…٭…٭





شام ڈھل چکی تھی ۔ وہ مرینہ ساتھ ٹیرس پر بیٹھا تھا ۔
” ٹیومر کافی بڑا ہے ۔ ڈاکٹر آپریشن تجویز کررہے ہیں ۔”
” آپ کا کیا خیال ہے ؟”
” آپریشن سے یا تو ٹیومر بالکل ختم ہو جاتا ہے یا پور ی باڈی کے پیرا لائزڈ ہونے کے بھی چانسز ہیں ۔” وہ دھیرے سے بولا ۔
ڈیتھ بھی ہو سکتی ہے ۔”
” آپ میرے ساتھ وعدہ کریں آپ بجیا کو کچھ نہیں ہونے دیں گے ۔” مرینہ کی آواز میں التجاء تھی اصغر خاموش رہا ۔
” بولیں ناں ۔” مرینہ نے اسے جھنجھوڑا لیکن وہ کسی بے جان مورتی کی مانند خاموش رہا ۔ اس میں کچھ بولنے کی سکت ہی نہیں تھی ۔
اس رات و ہ ٹیرس پر بیٹھ کر بچوں کی طرح روئے تھے ۔
٭…٭…٭
وہ کافی دیر سے وارڈ روب میں اپنی گرے کلر کی شرٹ ڈھونڈرہا تھا پر اسے نہیں مل رہی تھی ۔
” تم سائیڈ پہ ہو جاؤ ۔ میں ڈھونڈ لیتی ہوں ۔ ” حمائل اس کے پاس آتے ہوئے بولی ۔
” اور اگر میں یہیں کھڑا رہوں تو؟ ” سنان شوخ انداز میں بولا۔
” تو پھر شام تک یہیں کھڑے رہو ۔ آفس نہ جاؤ۔ حمائل بے نیازی سے بولی اور ڈریسنگ روم سے باہر جانے لگی ۔ سنان نے بڑھ کر اس کا بازو تھا م لیا ۔
” میں آفس نہیں جاتا ۔ تم بھی یونیورسٹی نہ جاؤ۔ ” اس کی آنکھوں میں شوخی تھی ۔ حمائل نے نظریں جھکالیں ۔ سنان کا چہر ہ دیکھ کر وہ بے چین ہو جاتی تھی ۔ اسے صبار یا د آنے لگتا ۔ پھر صبار اور سنان ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے تھے ۔ ان کے چہرے گڈ مڈ ہو جاتے تھے اور حمائل کے لیے ان میں فرق کرنا ناممکن ہو جاتا تھا۔ صبا رکا سنجیدہ چہرہ سنان کی سنجیدگی کے پیچھے چھپ جاتا تھا ، اس کی مسکراتی آنکھیں سنا ن کی گہری آنکھوں کے پیچھے کہیں گم ہو جاتی تھیں اور حمائل صبار کو روکنے کی کوشش کرتی لیکن ماضی حال کے پردے کے پیچھے اپنا منہ چھپا لیتا تھا ۔ پھرجو ماضی وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا اور جوحال تھا وہ باقی رہ جاتا تھا اور حمائل اصغر کو ہر بار یوں محسوس ہوتا ، جیسے اس کی بند مٹھی سے کوئی چیز پھسل گئی ہو ۔
” دیر ہورہی ہے ۔مجھے یونیورسٹی جانا ہے ۔” حمائل نے جھنجلا کر خود کو سنان کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی ۔ سنان اپنی گہری نگاہوں سے اس کا جائز ہ لیتا رہا ۔
زرد رنگ کے چوڑی دار پاجامے کے ساتھ سب رنگ کی لمبی قمیض پہنے وہ بہت بھلی لگ رہی تھی ۔ سبز کناروں والا پیلا دوپٹہ بڑی بے اعتنائی سے اس کے کندھوں پر پڑا تھا ۔
” تم میری قربت سے ایسے گھبراتی ہو جیسے میں ایک اجنبی ہوں ۔ لیکن آ ج کی رات میں اپنے اور تمہارے بیچ کی ہر دوری ، ہر فاصلے ، ہر تکلف کو مٹادوں گا ۔” اپنے بیچ کی ان بے جا حدوں کو مٹا کر تمھیں اپنے وجود کا حصہ بنالوں گا ۔ ” سنان نے حمائل کی جھکی پلکوں کو دیکھ کر پُر امید انداز میں سوچا اور اس کے بازو پہ اپنی گرفت ڈھیلی کر دی ۔
حمائل تیزی سے باہر نکل گئی ۔ سنان کافی دیر تک یونہی مسکراتا رہا اور پھر گنگناتا ہوا باہر نکل گیا ۔
منزہ کو کراچی ایک ایگزیبیشن میں جاناتھا ۔ شہروز بھی کراچی کسی کا م سے جارہا تھا سو دونوں ایک ساتھ نکل گئے ۔
” مجھے کبھی اندازہ ہی نہیں ہوا حمائل ! کہ تم سنان سے محبت کرتی ہو ۔ میرا بنایا ہوا پورٹریٹ تم نے پھاڑ دیا تو مین نے سوچا کہ شاید تمہیں یونہی بُرا لگا ہو گا ۔ نہ جانے سنان کے لیے تمہاری فیلنگ کو میں محسوس کیوں نہ کر پائی ؟ شہروز کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتی منزہ نے مسکراتی حمائل کو بڑی محبت سے سنان کی ٹائی درست کرتے دیکھ کر سوچا ۔
” تمہاری شاد ی بھی اتنی ایمرجنسی میں ہوئی تھی کہ مجھے وہ سب خواب ہی لگ رہا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ یہ واقعی سچ ہے ۔ تمہاری شاد ی کو پانچ مہینے گزر گئے اور تم کتنی خوش ہو ۔ ” اس نے دیکھا وہ دونو ں ہنستے بولتے گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ منزہ دوسری طرف دیکھنے لگی اور پھر ان کی گاڑی گیٹ سے نکل گئی ۔
٭…٭…٭
میری بیٹی کو سہار ا دینا ۔اسے کبھی بے سہارا مت ہونے دینا۔اس نے اپنے دبلے ہاتھوں میں اصغر کا ہاتھ تھام لیا ۔” میں نہ رہی تب بھی اسے میری کمی محسوس نہ ہونے دینا ۔”
” نہیں جا رہی تم کہیں بھی ۔ ایسے کیسے جاسکتی ہو ؟” وہ رونے لگا۔
” پہلے بھی روکا تھا آپ نے ۔ پر میں چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔ اس بار بھی جاوئں گی تو روک نہیں پاؤ گے ۔
” تم بالکل نہیں بدلی ۔آج بھی تم وہی ہو ۔
” دماغ والے نہیں بدلا کرتے ۔” دینا نے سپاٹ لہجے میں کہا تو اصغر کی آنکھوں سے اشکوں کے گہرے سمندر بہ گئے۔
٭…٭…٭
رات کے بارہ بج رہے تھے ۔ وہ سٹڈی میں بیٹھی پڑھ رہی تھی جب سنان سٹڈی میں داخل ہو ا۔ حمائل اسے نظر انداز کر کے پڑھتی رہی ۔
” بہت لیٹ ہوگیا ہے ۔سونا نہیں ہے تم نے ؟ ” وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے بولا۔
” میرے ٹیسٹ ہوررہے ہیں ۔ مجھے پڑھنا ہے ۔” اس کے انداز میں بے رخی تھی ۔ سنان خاموشی کے ساتھ سٹڈی سے نکل گیا ۔ اس کے جاتے ہی حمائل نے کتاب بند کر دی ۔اپنی یہ بے رخی اور بے اعتنائی اس کے لیے تکلیف دہ تھی لیکن وہ سنان کے پاس جانے سے ڈرتی تھی ۔” اور اگرو ہ میری اصلیت جان گیا تو ؟” یہ سوچ کر وہ روح تک کانپ جاتی تھی ۔
کرسی سے اٹھ کر وہ بے چینی سے ٹہلنے لگی ۔ وہ سکون کو ترس رہی تھی ۔
لیکن اس کا سکون پذیر ہونا ناممکن تھا ۔
اس نے دوبارہ کر سی پر بیٹھ کر اپنی ڈائری کھو ل دی جس میں ایک لمبے عرصے سے اس نے کچھ نہیں لکھا تھا لیکن آج تو اس کا پیالہ دل بھر آیا تھا ۔ اس نے ڈائری میں لکھنا شروع کر دیا ۔ پانچ مہینوں پہلے گزری گرمی کی وہ شام اس کی نگاہوں میں گھوم گئی جب وہ اپنے کمرے سے نکل کر لان کی سمت گئی تھی ۔ جہاں پھوپھو جی اور زیبا پھوپھو بیٹھی چائے پی رہی تھیں وہ بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی ۔
” اماں ! اگلے مہینے عدالت میں پیشی ہے میری ۔ وکیل کو مزید دس ہزار دینے ہیں ۔ کہاں سے آئیں گے ؟” زیبا پھوپھو فکر مند ی سے بولیں ۔ حمائل جانتی تھی کہ وہ اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ کوئی مقدمہ لڑرہی ہیں ۔
” میں کیا کروں ؟ اصغر سے بھی اب مزید مانگنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں، سلیم بھی تھک گیا ہے۔” پھوپھو جی نے خالی پیالی میز پر رکھ دی ۔
” میری سلائی سے بھی اتنی رقم تو نہیں ملتی ورنہ میں کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتی ۔”حمائل جو خاموشی سے ماں بیٹی کی گفتگو سن رہی تھی یک دم بول پڑی ۔
” آپ فکر نہ کریں میں آپ کے لیے رقم کا بندوبست کرلوں گی لیکن ایک شرط پر ۔۔۔ وہ معنی خیز انداز میں بولی ۔
” کیسی شرط ؟ دونوں ماں بیٹی یک زبان ہو کر بولیں اور پھر حمائل نے ان کو اپنا پلان سمجھایا تھا ۔
” نا بیٹا ! میں ایسا نہیں کر سکتی ۔” پھوپھی جی ماننے پر راضی نہیں تھیں ۔
” اماں ! تمھیں کیا مسئلہ ہے ؟” زیبا پھوپھو نے ناگواری سے اپنی ماں کو دیکھا ۔
” میں اصغر کی عزت نہیں اُچھال سکتی” پھوپھی جی نے نفی میں سر ہلایا اور کرسی سے اُٹھنے لگیں۔
” اس میں اصغر کی عزت اُچھالنے والی کیا بات ہے ؟ اسے اگر وہ پسند ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے اور اس میں بُرا کیا ہے؟” زیبا پھپھو نے اپنی ماں کو دوبارہ کرسی پر بٹھایا ۔” اور ویسے بھی سب میں بولوں گی لیکن اگر تم سے کوئی کچھ پوچھے تو تم میری ہاں میں ہاں ملانا۔” زیبا پھپھو نے التجا عیہ نظروں اپنی ماں کو دیکھا ۔” اماں !میرے لیے ہاں کر دو۔”
اور پھر بڑی منتوں سماجتوں کے بعد پھوپھی جی مان گئی تھیں۔
” ٹھیک ہے۔ رقم میں آپ کو تب دوں گی جب میرا کام ہو جائے گا۔” اُس نے معنی خیز انداز میں کہا اور کرسی سے اُٹھ گئی۔” سنان سے محبت مجھے نہیں منزہ کو ہے لیکن اُس سے شادی میں کروں گی ۔ کیوں کہ مجھے منزہ سے وہ جنگ جیتی ہے جو برسوں پہلے میری ماں ہار چکی تھی۔” وہ گھر کے اندرونی حصے کی طرف جاتے ہوئے سوچتی رہی۔” میرے باپ نے شادی میری ماں سے کی اور محبت وہ منزہ علی کی ماں سے کریں یہ میں برداشت نہیں کر سکتی ۔ مجھے منزہ سے اُن آنسوؤں کا بدلہ لینا ہے جو ابو کی ڈائری پڑھ کر میری آنکھوں بہے تھے۔” وہ اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر لیٹ گئی۔
” مجھے نفرت ہے اپنے باپ سے ، منزہ علی اور اُس کی ماں سے ۔۔۔” اُس نے نفرت بھری ایک پھریری لی اور آنکھیں بند کر دیں۔ اُسے پتا ہی نہیں چلا تھا اور وہ سو گئی تھی۔
تین ناریل اُس کے سامنے پڑے تھے اُس نے پہلا ناریل توڑ دیا تو اس میں سے پھولوں کی پنکھڑیاں گرنے لگیں۔ اُس نے مسکراتے ہوئے دوسرے ناریل کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ابو کی آواز آئی ۔” “بیٹا ! ناریل کو بند ہی رہنے دو۔” لیکن حما ئل نے اُن کی آواز کو نظر انداز کرکے وہ دوسرا ناریل توڑ دیا پر وہ اندر سے بالکل خالی تھا۔ اُس نے تیسرے ناریل کی طرف ہاتھ بڑھایا۔” اسے مت کھولو بیٹا!” ابو نے اس کا ہاتھ روک لیا ۔ حمائل نے اُن کا ہاتھ جھٹک دیا اور ناریل توڑنے لگی ۔ پھر اُس نے دیکھا ناریل سے کالے کالے سانپ نکل رہے تھے۔ بے شمار سانپ اُس کے وجود پہ رینگنے لگے۔ اُس کو ڈسنے لگے۔





وہ ہڑبڑا کر اُٹھ گئی۔ بہت ہی خوفناک خواب تھا ۔ اُس کا جسم پسینے میں شرابور تھا اور وہ خوف کے مارے کانپ رہی تھی ۔
وہ اُٹھ کرنہانے چلی گئی ۔ ٹھنڈے پانی نے اُس کے ذہن سے ڈر اور خوف کا احساس مٹا دیا ۔ نہانے کے بعد وہ کمرے سے نکلی۔
ڈائننگ روم سے آوازیں آرہی تھیں ۔سب کھانا کھا رہے تھے۔ وہ باہر جا کر بے چینی سے لان میں ٹہلنے لگی۔ اُس نے اتنا اچانک فیصلہ لیا تھا کہ اُسے کچھ سوچنے کی مہلت بھی نہیں ملی تھی۔ اُس کے ذہن پہ منزہ علی سوار تھی۔ وہ اُس کے چہرے سے اطمینان اور آسودگی کا تاثر مٹا دینا چاہتی تھی اور اس کے لئے اُس نے بہت کوششیں کی تھیں لیکن وہ منزہ کو رُلا نہ سکی اور اب وہ ایک آخری بازی کھیلنا چاہتی تھی۔ ایک ایسا وار کرنا چاہتی تھی جس سے منزہ علی ایسے ٹوٹے کہ پھر دوبارہ کبھی نہ جڑ سکے۔
” پر اس آخری بازی کے لئے مجھے اپنی پہلی محبت قربان کرنی ہوگی ۔ وہ محبت جو میری زندگی کا حاصل ہے۔” اُس نے ٹہلتے ہوئے اضطراب سے سوچا تھا۔ اُس رات وہ صبار قاسم کو یاد کر کے بہت مضطرب، بہت بے چین ہوئی تھی۔اُس رات لان میں ٹہلتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے لگائے گئے ہر گلاب کی پنکھڑیوں کو مروڑ ڈالا تھا بالکل صبار قاسم کی محبت کر طرح۔۔۔
اُس رات اُس نے خود کو یہ بات سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی ” مجھے یہ سیدھی سی بات سمجھ کیوں نہیں آتی؟کہ اگر میں نے ایس بی کو چھوڑ دیا تو میں خالی ہو جاؤں گی۔” لیکن اگلے لمحے اُس کو منزہ یاد آجاتی اور اس چہرے کی آسودگی ۔۔۔پھر حمائل کو کچھ یاد نہ رہا۔ پھر وہ جلنے لگی۔ ایک آگ میں جلنے لگی جو پانی سے بجھنے والی نہیں تھی ورنہ وہ رو رو کر اپنے آنسوؤں سے اُس آگ کو بجھا دیتی۔
آدھی رات تک وہ خود سے لڑتی رہی اور پھر کوئی بھی فیصلہ لئے بغیر وہ بوجھل سے قدموں کے ساتھ کمرے میں واپس آئی تھی۔
اگلے دن بھی اس کی خود کے ساتھ جنگ جاری رہی۔” نہیں ۔نہیں میں ایس بی کو نہیں چھوڑ سکتی۔ اُسے چھوڑ دوں گی تو خود کو کھو دوں گی ۔ نفرتوں کے بدلے محبتوں کا سودا نہیں کیا جاتا۔” اُس نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔ پھر وہ ڈریسنگ روم کے آئینے پہ چپکے گلاب کے پاس گئی تھی اور وہیں کھڑے کھڑے وہ بہت سارا روئی تھی۔ لیکن اگلے ہی لمحے اپنے موبائل میں شہروز کی بھیجی ہوئی تصویریں اور اُن میں منزہ علی کا مسکراتا چہرہ ۔۔۔حمائل پھر سے جلنے لگی تھی۔ وہ بھاگ کر کمرے سے نکل گئی۔
سنان کے کمرے میں جا کر اُس نے دروازہ اندر سے لاک کر دیا ۔وہ واش روم میں تھا۔ حمائل اُس کے بیڈ پہ بیٹھ کے کوئی کتاب پڑھنے لگی۔” میں اس آخری بازی کے بدلے اپنی پہلی محبت کا سودا کرنے کو تیار ہوں۔ بس مجھے تمھیں ہرانا ہے۔” اُس نے نفرت سے سوچا تھا۔ وہ جانتی تھی شہروز اور منزہ آج گھر واپس آرہے ہیں اور یہی صحیح وقت تھا منزہ پر وار کرنے کا۔۔۔سنان سے نکاح کے بعد اُس نے زیباپھپھو کو دس ہزار دے دیئے جو اس نے امی سے شاپنگ کے بہانے لئے تھے لیکن یہ آخری بازی کھیل کر بھی وہ مطمئن نہیں تھی۔
اُسے یاد نہیں تھا اُس نے آخری بار نماز کب پڑھی تھی ؟لیکن اُسے اتنا یاد تھا کہ وہ اگر کبھی نمازپڑھنے لگی تو منزہ کو نماز پڑھتے دیکھ کر وہ اپنا ارادہ بدل دیتی تھی۔ لیکن اس وقت وہ جائے نماز پہ بیٹھی گڑگڑا رہی تھی۔ وہ رو رو کر اللہ سے دعائیں کر رہی تھی کہ سنان نے اس کے پاس آکر اس کے آنسو پونچھ لئے تھے۔ وہ اس کے قریب آنے لگا تھا اور حمائل اُس کے پاس جانے سے ڈرتی تھی۔





” آئی ایم سوری سنان ! مجھے تم سے محبت نہیں ہے میں نے تو زندگی میں ایک ہی محبت کی تھی۔ایس بی۔۔۔وہ میری پہلی محبت تھا جس کو میں نے اپنی آخری بازی میں ہار دیا۔ منزہ علی کا سکون برباد کرنے کے لئے میں نے تمھارا استعمال کیا۔” وہ لکھتے لکھتے تھک چکی تھی ۔اُس نے قلم ہاتھ سے رکھ دیا اور ڈائری بند کئے بغیر وہ کرسی سے اُٹھی۔
اُس رات اُس نے نیند کی دو گولیاں لیں اور ٹیرس پہ چلی گئی۔ سردی بہت تھی لیکن وہ ٹانگیں پھیلا کر کسی بے سہارا بچے کی مانند وہاںپر بیٹھ گئی اور آپ کی زندگی میں ایک موڑ ایسا بھی آتا ہے جب حالات آپ کے حسب منشاء ہوتے ہیں لیکن پھر بھی آپ مطمئن نہیں ہوتے۔ آپ کا ضمیر آپ کو مطمئن نہیں ہونے دیتااور حمائل اصغر کو بھی اس وقت اپنا آپ کچرے کا ڈھیر لگ رہا تھا۔ وہ بہت بے چین، بہت مضطرب تھی ۔ بہ مشکل اُٹھ کر وہ ٹہلنے لگی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے اس کے جسم پہ رونگٹے کھڑے کر دیئے لیکن وہ پھر بھی کافی دیر تک ٹیرس پہ ٹہلتی رہی۔ اس غضب کی سردی میں ننگے پیر ٹیرس پہ ٹہلنے سے اس کے پاؤں شل ہو گئے تھے ۔اس کا پورا وجود برف کی مانند ٹھنڈا تھا۔ اس نے اپنے بازو ریلنگ پہ ٹکا کر بڑی بے بسی سے سوچا” پوری زندگی اب ایسے گزرے گی؟” اُس کا دل ڈوبنے لگا۔ وو دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔ دھیرے دھیرے اُس پہ غنودگی طاری ہو گئی۔ اپنی حالت سے بے خبر جنوری کی وہ سرد ترین رات اُس نے کسی بے گھر انسان کی طرح وہیں پڑے پڑے گزاری تھی۔
٭…٭…٭
دینا سعید مر گئی تھی؟ کتنی ناقابل یقین بات تھی یہ۔۔۔۔وہ جو زندگی کو مناسب اصولوں کے تحت گزارتی تھی۔ جو ہر کام وقت پہ کرتی تھی، موت نے کتنا بے وقت آ لیا تھا اُسے۔ وہ جو ہر وقت ہر کسی کی خاطر قربان ہونے کو تیار تھی، وہ ایسے وقت پہ مرگئی جب وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔
اُ س پر سکتہ طاری تھا۔ اُس دن اصغر کو اپنے اندر کی طاقت ٹوٹتی بکھرتی محسوس ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
حمائل کی غیر موجودگی کا احساس کیے بغیر وہ کمرے سے نکل گیا۔ اُسے ایک بہت ہی اہم میٹنگ اٹینڈ کرنی تھی ۔ اسی لئے وہ ناشتہ کیے بغیر آفس چلا گیا۔ رات کو بھی وہ کھانا باہر کھا کر آیا تھا۔ وہ بہت تھک چکا تھا اس لئے سیدھا کمرے میں گیا لیکن حمائل کمرے میں نہیں تھی۔
” سٹڈی میں ہو گی۔” وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
حمائل سٹڈی میں نہیں تھی ۔ اُس کی ڈائری سٹڈی ٹیبل پہ کُھلی پڑی تھی۔ سنان غیر ارادی طور پر ڈائری پڑھنے لگا۔ اُس کے سر پر ایک ساتھ کئی پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ اُس کی آنکھوں سے جیسے انگارے پھوٹ رہے تھے۔ وہ اُس کوڈھونڈتے ڈھونڈتے ٹیرس پہ گیا اوروہاں وہ کسی بے جان وجود کی طرح پڑی مل گئی۔
” “how can you do this to me?وہ حلق کے بل چلایا۔تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟ سنان نے اُسے جھنجھوڑا ۔اُس نے بہ مشکل اپنے بھاری پیوٹے اُٹھا کر سنان کو دیکھا اور دوبارہ آنکھیں بند کر دیں۔” تم اتنی مکار اور جھوٹی ہو؟” سنان نے زور زور سے اُسے ہلایا۔” تمہیں منزہ کو ہرانا تھا اور اس کے لئے تم نے میرا استعمال کیا؟” وہ رونے لگا ۔کتنی ناقابل یقین حقیقت تھی وہ جو ہمیشہ مخلص تھی اور صاف گو۔۔۔اتنی دھوکے باز نکلی۔ یہ یقین کرنا تکلیف دہ تھا۔ وہ تو محبت کرنے لگا تھا اُس سے ۔ اُس لڑکی سے جو میرے سے اس کی ذات میں دل چسپی نہیں لیتی تھی۔سنان اُس کے لئے بس ایک مہرہ تھا۔جسے حمائل نے جب چاہا منزہ کے خلاف استعمال کیا۔ وہ اُسے بے وقوف بناتی رہی اور وہ بے وقوف بنتا رہا۔ لڑائی حمائل اصغر کی تھی لیکن اُس میں مراسنان یوسف تھا۔
” کیوں کیا تم نے ایسا؟” وہ بلند آواز میں چیخا۔حمائل نے آنکھیں کھول کر بولنے کی کوشش کی لیکن اُس کے پیوٹے بھاری تھے اور اُس کی زبان لڑکھڑارہی تھی۔
” ٹھیک ہے تمھیں ڈائیو ورس پیپرز مل جائیں گے” ۔ وہ اُٹھا اور تیزی سے سیڑھیاں اُترنے لگا۔
” یہ ہے سچائی۔ وہ بنا دروازے پہ دستک دیئے کمرے میں داخل ہوا اور حمائل کی ڈائری ماموں کی طرف اچھال دی۔ بنا اُن کی حیرت دیکھے وہ کمرے سے نکل گیا۔ بہت تیزی سے گھر نکل کر وہ بھاگنے لگا تھا۔ اُس رات وہ بے تحاشا بھاگا تھا۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا لیکن پھر بھی وہ بھاگتا جا رہا تھا اُن اپنوں سے دور۔۔۔ جنہوں نے اُسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ اُس لڑکی سے دور جس سے اُسے محبت تھی اور جس نے اُسے دھوکہ دیا تھا۔
بھاگتے بھاگتے اُس کی سانسیں پھول گئیں ۔اُس کا گلا خشک ہو گیا۔ لیکن وہ پھر بھی بھاگتا جا رہا تھا ۔ اُسے وہاں سے بہت دور جانا تھا جہاں اُس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔بھاگتے بھاگتے اُس کی ٹانگیں تھکنے لگیں۔ وہ دھڑام سے نیچے زمین پر گر گیا۔
قریب ہی کوئی ٹیپ ریکارڈ پہ گانا سُن رہا تھا۔
کوئی ہم دم نہ رہا،کوئی سہارانہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے، کوئی ہمارانہ رہا
شام تنہائی کی ہے آئے گی منزل کیسے؟
جو ہمیں راہ دکھائے، وہی تارہ نہ رہا
کوئی ہم دم۔۔۔۔۔۔
وہ دوبارہ اُٹھ کر سڑک کے کنارے بھاگنے لگا۔ اُس کے سامنے زندگی کی تاریک اور سنسان سڑک تھی جس پہ اُس نے موت تک بھاگناتھا۔
٭…٭…٭





” سچ تو یہ ہے بجیا! کہ ہم دونوں نے مل کر انہیں ویران کر دیا ۔ آپ نے ان کی زندگی سے جاکر اور میں نے ان کی زندگی میں آکر ۔۔۔محبت تو آپ دونوں کی تھی۔ میر ا کہانی میں کہیں ذکر ہی نہیں تھا۔ نہ جانے میری یہ یک طرفہ محبت کب تک ، کہاں تک لنگڑاتی پھرے گی؟” اصغر کی بھیگی پلکوں کو دیکھ کر اُس نے افسردگی سے سوچا تھا۔
٭…٭…٭
اصغر کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ڈرائیور کی مدد سے وہ اُنہیں گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئیں۔ ہسپتال سے ہی شہروز کو فون کر کے اُنہوں نے بلایا تھا۔ لیکن اُس کے آنے سے پہلے ہی ڈاکٹر نے اُنہیں اصغر کی موت کی خبر دی تھی۔ اس کے بعد انہیں کچھ یاد نہیں تھا کہ کون آیا تھا؟ کون انہیں گھر لے آیا؟ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا۔ اُنہیں صرف حمائل کی چیخیں یاد تھیں جب وہ چلا چلا کے اُن سے پوچھ رہی تھی۔ امی جی ! یہ تو مجھے وضاحت دیئے بغیر مر گئے۔ آپ سے معافی مانگے بغیر چل بسے۔آپ نے ان کو روکا کیوں نہیں؟ یہ اتنی آسانی سے نہیں مر سکتے ۔ اُن کا دماغ ماؤف تھا اور ذہن خالی ۔۔۔۔۔اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ حمائل کیا کہہ رہی ہے؟
پہلے اُنہیں اصغر کی موت کا یقین نہیں تھا اور جب اُنہیں یقین آگیا تو برسوں پہلے اصغر کی دی ہوئی ائیر رنگز نکال کر اُنہوں نے آنکھوں سے لگا کر بہت روئی تھیں۔ الماری سے اصغر کی ڈائری نکال کر اُنہوں نے کھول دی ” مجھ پہ جو گزری سو گزری لیکن میں اپنے بچوں کو محبت کی اجازت دوں گا۔ ” ڈائری کے شروع میں لکھا شعر اُنہوں نے زیر لب دہرایا تو دل ایسے بھر آیا اور وہ اتنا روئیں کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
اپنے آنسو پونچھ کر وہ حمائل سے بات کرنے اس کے کمرے میں گئیں اور پھر اُنہوں برسوں پہلے اپنی یک طرفہ محبت کی کہانی حمائل کو سنائی تھی اور حمائل حیرت واضطراب کے عالم میں اُنہیں دیکھتی رہی۔
” اپنے شوہر کے دل میں کسی اور عورت کو برداشت کرنا واقعی مشکل ہے لیکن اصغر کے دل میں تو دینابجیا تھیں۔ وہ عورت جو میر ی خاطر قربان ہوئی تھی۔” اُنہوں نے حمائل کی آنکھوں میں اُترتی نمی کو دیکھا۔
” وہ آدھے تھے، ادھورے تھے،چاہے جیسے بھی تھے میرے شوہر تھے اور مجھے اُن سے محبت تھی ۔ وہ تو ایسے انسان تھے جو ہر قدم پر میرے ساتھ کھڑے رہے۔ مجھے یاد ہے جب میں بی ایس سی کے ایگزامز دے رہی تھی تب تم اور شہروز چھوٹے سے تھے ۔ میں پڑھائی کرتی تھی اور اتنے عرصے میں انہوں نے تم دونوں کو سنبھالا تھا۔” اُن کی آنکھوں سے ایک گہری لڑی بہ گئی ۔” میں تو جب کبھی کوئی اداس گانا بھی سنتی تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ کہیں میں اُداس تو نہیں ہوں؟ اور مجھے کیا چاہیے تھا۔۔۔؟ اُنہوں نے ہاتھوں کے پیالے منہ چھپایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ اپنی ماں کو اس قدر بے بسی سے روتے دیکھ کر حمائل بھی ایسا دل کھول کے روئی کہ کمرے کے دروازے میں کھڑی منزہ کو بھی رونا پڑا۔
٭…٭…٭
” میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تمھاری بیٹی کو اپنی اولاد کی طرح رکھوں گا” اُس نے منزہ کے سر پر ہاتھ رکھ کے سوچا تھا۔ دینا سے کیا ہوا ہر وعدہ وہ پورا کرتا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!