پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

چھت کا پنکھا دھیرے دھیرے چل رہا تھا ۔ باہر بہت گرمی پڑ رہی تھی۔ بچوں کو زبردستی سُلا کر وہ خودسخت بان والی چارپائی پر آکر لیٹی تھی ۔ ان دنوں وہ ذرا سا بھی کام کرکے بہت جلد تھک جاتی تھی۔ ایک طرف تین بچوں کی ذمہ داری دوسر ی طرف اس کی اپنی بگڑتی صحت… وہ کام کرتے کرتے ہلکان ہو جاتی تھی۔ لیکن فرار کا کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا اور سچ تو یہ تھا کہ اسے فرار سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا کیونکہ اس زندگی کا انتخاب اس نے خود کیا تھا ۔
جس چیرٹی ٹرسٹ کے بارے میں عصمت نے اس کو بتا یا تھا وہ کل صبح ہی فارم بھروانے گئی تھی لیکن وہاں پر بیوہ عورتوں کی بھیڑ … تو کیا یہ سب بھی میری طرح مجبور ہیں ؟ بیوہ عورتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار پر اس نے نظر دوڑاتے سوچا تھا ۔ صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام بھی ہو گئی لیکن اس کی باری نہیں آئی ۔ تھکن سے چور اسے شام کو گھر لوٹنا ہی پڑا اور پھر سارے راستے اسے بچوں کا خیا ل آرہا تھا۔ صبح گھر سے نکلتے وقت اس نے ملیحہ کو سمجھایا تو تھا کہ سکول سے لوٹنے کے بعد دیگچی میں پڑی دال گرم کرکے وہ خود بھی کھا لے اور خلیل اور شکیل کو بھی کھلائے مگر پھر بھی وہ فکر مند تھی ۔ “سکول سے تھکے ہوئے آئے ہوں گے اور کھا نا بھی ٹھیک طرح سے کھایا ہوگا کہ نہیں ؟ اور … دال تو ان تینوں کو بری لگتی ہے … پر میں کیا کرتی؟ اور تو کچھ تھا بھی نہیں گھر میں … راشن ختم ہوگیا سارا”… اس کے بعد اس نے رکشے سے اترتے ہوئے تاسف سے سوچا تھا اور تنگ گلیوں سے ہوتی ہوئی وہ اس ڈربے نما مکان کے اندر گئی تھی۔ خلیل اور شکیل کھیل رہے تھے اور ملیحہ چارپائی پر بیٹھی سکو ل کا کام کررہی تھی ۔ اس کو دیکھتے ہی تینوں دوڑ کر اس کے پاس آئے تھے اور اس نے مٹھی میں پکڑی تین ٹافیاں ایک ایک کر کے تینوں کو دے دی تھیں۔ یہ بچے میرے سگے نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان پہ دل دکھتا ہے میرا …کہ ان کا میرے علاوہ اور ہے ہی کون؟ پر میرا بھی تو ان کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے اس دنیا میں … ” اس نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے دیکھا کہ ٹافیاں دیکھ کر ان تینوں کے چہرے کس قدر کھل اٹھے تھے۔ ملیحہ اس کے لیے ٹھنڈے پانی کا گلاس بھر کر لائی تھی۔” یہ لیں پی لیں امی! ملیحہ نے اس کو پانی کا گلاس تھماتے ہوئے کہا۔ “ہمارے درمیان یہ رشتہ انسانیت کا ہے یا… ضرورت کا ؟” اس نے حیرانی سے سوچا اور چارپائی پر لیٹ گئی ۔” امی !آپ کے سر میں درد ہے ؟ دباؤں ؟” ملیحہ اس کے سرہانے کھڑی پوچھ رہی تھی ۔ ” نہیں بیٹا! تم اپنا کام کرو۔ میں ٹھیک ہوں۔” ملیحہ کو دھیمے سے جواب دے کر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ “میرے وجود کا کونسا حصہ اس وقت درد نہیں کر رہا ؟” اس نے حیرت سے سوچا تھا ۔” اور اب رات کا کھانا بھی بنانا پڑے گا … ” وہ بڑ بڑائی ۔ بچوں کو کھانا دینے کے بعد وہ خود کھانا کھانے بیٹھ گئی تھی مگر دن بھر کی تھکن کی وہ سے اس کے وجود میں جو درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں ان کی وجہ سے وہ کھانا نہیں کھا پا رہی تھی ۔ دو نوالے کھا کر وہ چارپائی پر آ کر لیٹی تھی اور رات بھر اس نے تھکن کے سبب کروٹ بھی نہیں بدلی تھی ۔ اگلے دن اس نے صبح سویرے فارم بھروانے کا ارادہ ترک کردیا تھا ۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے آگے قطار میں بے شمار عورتیں تھی اور اس کی اپنی باری آتے آتے دوپہرتو ہو ہی جاتی پھر وہ صبح وہاں جاکر کیوں خود کو فضو ل میں تھکائے اور گرمی بھی تو غصب کی تھی۔
بچے دوپہر کا کھاناکھاتے ہی سو گئے اور وہ چارپائی پر لیٹی تھی کہ عصمت کافون آگیا اور اس نے ایک ہی سانس میں کل کے دن کا حال اس کو سنایا ۔”چل آج میں تمہارے ساتھ چلوں گی ۔ تمہاری طبیعت بھی روز بروز بگڑتی جارہی ہے ۔ ہزار بار کہا ہے اپنا خیا ل رکھا کرو مگر تم سنتی ہی کہاں ہو؟” عصمت کے فضیحتے پھر سے شروع ہوگئے تھے اور وہ خاموشی سے سنتی رہی ۔ عصمت کافون بند ہو گیا تو اس نے اپنا موبائل سرہانے کے نیچے رکھا تھا ۔





عصمت نے اس چیرٹی ٹرسٹ کے بارے میں بتایا تھا کہ بیوہ عورتوں کو ہر مہینے معقول رقم مل جاتی ہے جس سے گھر کا خرچہ چلانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔بس آج وہ فارم بھروا لے گی اور۔پھر اس کو رقم مل جائے گی اور وہ گھر کے لئے راشن لے آئے گی ۔ بچے دال، ساگ کھاتے کھاتے تنگ آچکے تھے اور اس کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ ان کچھ اچھابنا لیتی ۔ صحت کی خرابی کی وجہ سے اس نے سکول سے چند مہینوں کی چھٹی لے لی تھی۔ گھر میں عجیب تنگی اور افلاس کا عالم تھا اور اب اس ٹرسٹ نے اس کی امید کی کرن کو نئے سرے سے روشن کر دیا تھا ۔” شکر ہے دنیا میں امیر لوگ ہیں ورنہ تو۔۔ غریب تو بھوکے مر جاتے۔” سخت رسیوں کی اسی چارپائی پر لیٹے لیٹے اس نے سوچا اور بے اختیا ر اس کی آنکھوں کے کونے بھیگ گئے وہ گھبرا کر اٹھی اور اپنی سیاہ چادر اوڑھ کر باہر جانے لگی پر باہر اتنی غضب کی دھوپ اور گرمی تھی کہ ایک انسان کو جلانے کیلئے کافی تھی ۔ اس نے اپنی سیاہ چادر ہٹا کر دیوار پرلگی کیل پر ٹانگ دی اور خود ظہر کی نماز کیلئے وضو کرنے چلی گئی ۔
” ٹھنڈے پانی کالمس انسا ن کے اندر کتنا حسین اور پرلطف سے احساس جگا دیتا ہے جب انسان کے اند ر کی دنیا ہر احساس سے عاری ہو ۔۔یہ پانی۔۔ ٹھنڈا پانی اللہ کی کتنی اچھی نعمت ہے ۔ اس سے آپ پاک ہوجاتے ہیں۔ آپ کا ہر گناہ دھل جاتا ہے جو آپ ماضی میں کر چکے ہوتے ہیں۔ گھٹیا سے گھٹیا ترین گنا ہ اور گری سے گری حرکت۔” وضو کرتے ہوئے اس نے سوچا اور آنکھیں بھر آئیں اپنے دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو دباتے ہوئے اٹھی تھی ان دنوں اس کے لیے اپنے بھاری بھر کم وجود کو ساتھ لیے پھرنا واقعی مشکل ہوگیا تھا ۔ چند قدم چل کر اس کی سانسیں پھول جاتی، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا اور اسی وجہ سے عصمت اس کیلئے بے حد فکر مندرہتی تھی۔
” میرے اللہ! آپ کا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے مولا! اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد اس نے اپنے دبلے ہاتھ اپنے نڈھال ، زرد رو اور قدرے تھکے ہوئے چہرے پر پھیر دیے ۔ یہ وہ عورت تھی جو سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی اللہ سے شکوے کرتی تھی ۔ اپنی قسمت سے شکایت ہوتی تھی اس کو ۔۔ اپنے رشتوں، اپنے بندھنوں کے مضبوط دھاگے کتنے کچے لگتے تھے اس کو ۔۔۔اور آج ۔۔ وہ تین یتیم بچوں کی ایسی کفالت کررہی تھی جن کے ساتھ اس کا رشتہ صرف ” سوتیلا” تھا۔ آج خالی ہاتھ اور تہی دامن ہو کے بھی وہ راضی بہ رضا اور مشکور تھی ۔ وہ دھیرے سے جائے نماز پر سے اٹھی اور اس کو تہ کرکے لکڑ ی کی چھوٹی سی اور قدرے میلی میز پر رکھ دیا اور برآمدے میں آکر بیٹھ گئی ۔
دھوپ اسی طرح تیز تھی پر جانا تو اس نے تھا ہی۔ دھوپ کم ہونے کے انتظار میں وہ شام تک تو نہیں بیٹھ سکتی تھی ۔ ایک بار پھر اس نے اپنی سیاہ چادر اٹھا کر اوڑھ لی اور گرمی کی پرواہ کیے بغیر گھر سے نکل گئی۔ گھر کا بیرونی دروازہ باہر سے بند کرکے وہ محلے کی تنگ گلیوں سے ہوتی ہوئی اپنے بھاری وجود کو گھسیٹتے ہوئے چلنے لگی ۔
عصمت کا گھر آدھے راستے میں ہی آجاتاتھا۔ اس کے گھر پہنچے پہنچتے وہ بے انتہا تھک چکی تھی۔ عصمت نے دیکھاو ہ بری طرح ہانپ رہی تھی اور موٹاپے کی طرف مائل وجود اس کے تیزی سے سانس لینے کی وجہ سے پورا ہل رہاتھا۔ ” یقینا یہ پیدل چل کر آئی ہے ۔” عصمت نے ہمدرد نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچا۔
عصمت! ایک گلاس پانی تو پلا دو بہن! لکڑی کی ایک پرانی کرسی پر بیٹھتے ہوئے وہ ہانپتے ہوئے بولی تو عصمت لپک کر ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس بھر کر لائی ۔ عصمت نے دیکھا وہ ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی گئی اور عجلت میں کچھ پانی اس کی سیاہ چادر پر بھی گرا تھا۔
اس نے مشکور نظروں سے عصمت کو دیکھتے ہوئے خالی گلاس اس کی طرف بڑھایا اور عصمت نے دیکھا کہ اس غضب کی گرمی میں پیدل چل کر آنے والی اس عورت کے چہرے پر شکایت و ناشکری کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ اس کے چہرے پر ایک قسم کی دائمی طمانیت تھی اور آنکھوں میں خفیف سے افسردگی ۔۔ جیسے اسے کسی چیز کے کھو جانے کا ملال ہو ۔۔ اور اب عصمت کو اس پہ بے پناہ ترس آرہا تھا۔ ناجانے کیوں یہ عورت اسے اپنی اپنی سی لگتی تھی۔ اس کے ساتھ سکول میں اور بھی کولیگز تھیں جن کے ساتھ اس کے بہت اچھے تعلقات تھے لیکن سامنے بیٹھی اس عورت میں ناجانے ایسا کیا تھا کہ وہ اس کی طرف کھنچی ہی چلی جاتی تھی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بڑی خاموشی اور صبر سے عصمت کی ہر ضروری اور غیر ضروری بات کو سن لیا کرتی تھی اور باقی لوگوں کی طرح اس کو ” زیادہ بولنے ” کا طعنہ نہیں دیا کرتی تھی ۔
” چلو ۔ چلیں ۔” عصمت نے اپنی چادر اوڑھتے ہوئے کہا اور وہ تھکے سے اندا ز میں کرسی کے بازوؤں کو اپنے ہاتھوں سے دباتی ہوئی اٹھی تھی۔
عصمت کے گھر سے ٹرسٹ سنٹر تک کا راستہ انہوں نے رکشے میں طے کیا تھا کیونکہ وہ اس سخت گرمی میں عصمت کو پیدل چلنے کا عذاب نہیں دینا چاہتی تھی۔
عصمت کے اصرار کے باوجودرکشے کا کرایہ اس نے خود ادا کیا تھا ، حالانکہ اس نے سوچا تھا کہ واپسی میں ان پیسوں سے بچوں کیلئے کچھ کھانے کو لے لے گی۔ ” کیا معلوم کہ وظیفہ ملے یا نہ ملے؟” رکشے سے اترتے ہوئے اس نے سوچا تھا ۔
٭…٭…٭





شام ڈھل چکی تھی اور رات اپنی سیا ہی ہر طرف پھیلا چکی تھی ۔ مرینہ رات کا کھانا کھاتے ہی اپنے پلنگ پرآکر سو گئی تھی۔ کن اکھیوں سے اس کے سوئے ہوئے چہرے کا جائزہ لے کر وہ خاموشی سے اپنے کمرے سے با ہر آ گئی۔ با ہر مکمل خاموشی تھی۔ یقینا اماں بھی سو چکی تھیں لیکن اس وقت اس کے علاوہ کوئی اور بھی تھا جو جاگ رہا تھا۔ دینا بھاری بھاری قدم اٹھاتی سیڑھیاں چڑھنے لگی وہ جانتی تھی اسے کیوں بلایا گیا ہے ؟اسے معلوم تھا کہ وہ اس کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کرے گا ۔ شاید وہ نرمی سے اس کو سمجھائے یا پھر سختی سے ۔۔۔ وہ کچھ نہیں جانتی تھی ، پر اس کو صرف اتنا پتہ تھا کہ اصغر چاہے کچھ بھی کرے وہ اپنے فیصلے پرڈٹی رہے گی وہ اپنا فیصلہ نہیں بدلے گی۔
دوسری چھت پہ پہنچ کر اس نے دیکھا ایک سایہ بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ وہ خاموش قدموں سے آگے بڑھ گئی ۔ وہ اب جنگلہ پکڑے کھڑا تھا ۔ وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پررک گئی ۔ وہ اس کی موجودگی کا احساس کیے بغیر مضبوطی سے جنگلہ پکڑے کھڑا تھا۔ دینا نے گلا صاف کیا تاکہ وہ اس کی موجودگی کو محسوس کرلے لیکن دوسری جانب سے انتہائی سر د مہری برتی گئی تھی ۔ وہ اسی انداز سے جنگلہ پکڑے بدستور دوسری جانب دیکھتا رہا ۔ دینا کے وجود میں ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔
٭…٭…٭
کل وہ جس جگہ سے انتہائی بھیڑ کی وجہ سے خالی ہاتھ لوٹی تھی آج وہ جگہ بالکل خالی تھی۔ اس قدیم طرز کی عمارت کے لمبے سے برآمدے میں کل عورتوں کی ایک نا ختم ہونے والی قطارکھڑی تھی۔ برآمدے میں جگہ نہ ہونے کے سبب کچھ عورتیں اس تپتی دھوپ میں سامنے کے اس بڑے میدان میں کھڑی تھیں پر اس وقت وہاں پر کوئی نہیں تھا۔ اس عمارت میں کل جس کمرے میں عورتوں کے فارمز بھروائے جارہے تھے اس وقت اس کو خاکی رنگ کا ایک بڑا سا تالا لگا ہوا تھا ۔
” یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے ۔ ہم نے یقینا دیر کر دی ۔ دیکھو یہ تو سہ پہر ہونے والی ہے۔” عصمت نے اس خاموش عمارت پر نگاہیں دوڑاتے ہوئے کہا اور وہ مایوسی کی انتہائی حد تک پہنچ چکی تھی۔ “کل کا سار ا دن دھوپ میں جلتی رہی آج کا دن بھی یونہی گزرجاتا تو کیا جاتا میرا؟ تھوڑے سے پیسے تو مل جاتے ۔بچوں کے لیے کچھ اچھا لے لیتی۔ مجھے بھی ضرورت سے زیادہ سستی ہورہی ہے ۔ “اس نے خود کو دل ہی دل میں ڈانٹا تھا ۔”
” چلو ۔کسی سے پوچھ لیتے ہیں ۔” عصمت واپس جانے کو مڑی اور وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتی گئی۔
” بھائی ! یہاں پر عورتیں فارمز بھروانے آرہی تھیں ۔ ہم آئے ہیں ، تھوڑی سی دیر ہوگئی ۔” ہاتھ میں فائل پکڑے درمیانی عمر والا ایک آدمی اس عمارت کے کسی کونے سے نمودار ہوا تو عصمت نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا ۔
” جی ۔ جی جی۔۔ وہ تو بارہ بجتے ہی سب عورتیں فارمز بھروا کے جا چکی ہیں۔” اس آدمی نے معلومات فراہم کیں ۔ حمائل کے دل پر ہتھوڑے برسنے لگے ۔ اچانک اس کو اپنی امید کی کرن بجتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
” کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ہمیں ابھی کیا کرنا چاہیے؟” عصمت نے ہمت کرکے اس آدمی سے پھر سے سوال کیا ۔
” جی ۔ آپ اس ساتھ والی بلڈنگ سے پتا کر لیں ۔ ویسے سر ابھی آفس کے کاموں میں بزی ہوں گے ۔ خیر آپ کوشش کرلیں ۔” وہ آدمی کہتے ہی جانے کو مڑا۔ حمائل کی نظریں بے اختیار ساتھ والی اس بلند اور جدید طرز کی عمارت کی طرف اٹھ گئیں ۔
“چلو۔” عصمت کی آواز پہ وہ چونکی اور اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے و ہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی ۔
٭…٭…٭
” آپ نے بلایا تھا مجھے ۔۔۔میں آگئی ہوں۔” وہ نرم لہجے میں بولی پر وہ سایہ بدستور جنگلہ پکڑے دوسری جانب دیکھتا رہا۔ دینا کا دل اب زور زور سے دھڑکنے لگا تھا ۔ اسے پہلی بار اپنے سامنے کھڑے اس انسان سے ڈر لگنے لگا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے دل سے یہ دعا کی تھی کہ کاش و ہ اس شخص سے کہیں دور چلی جائے اور پھر وہ کبھی بھی اس سے نہ ملے ۔ اس کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ اصغر حمید کی قربت اس کے لیے مسرت نہیں تکلیف ،خوف اور بے چینی کا باعث تھی ۔
” تو اب یہ کب تک منہ موڑے کھڑا رہے گا ؟” اس نے بے زاری سے سوچا۔ آپ نے مجھے کیوں۔۔؟” اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ ایک جھٹکے سے اس کی طرف مڑا اور اس کی بات کاٹ کے دھاڑا تھا ۔ ” تم جانتی ہو اچھی طرح۔۔۔کہ میں نے کیوں بلایا ہے تمہیں ۔۔؟” اصغر کے اس قدر تیز لہجے سے خوفزدہ ہو کر وہ چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اب اس کا دل اتنی تیز ی سے دھڑک رہا تھا کہ سے گمان ہورہا تھا کہ اس کا دل اس کے سینے سے باہر نکل آئے گا۔ وہ اب خوف سے کانپ رہی تھی ۔ اسے امید نہیں تھی وہ ایسے لہجے میں اس سے بات کرے گا۔ بچپن سے لے کر جوانی تک کے عرصے میں اصغر نے کبھی ایسے لہجے میں اس سے بات نہیں کی تھی۔ اسے اب شک ہو رہاتھا کہ سامنے کھڑا یہ شخص اصغر حمید ہے یا کوئی اور۔۔۔؟
وہ اور عصمت اس بلند بلڈنگ کے اندر پہنچ گئیں تو لابی میں درمیانی عمر کی ایک فیشن ایبل خاتون جس کے بال اس کے کاندھوں پر لا پرواہی سے بکھرے ہوئے تھے، صوفے پہ بیٹھی ایک میگزین پڑھنے میں غرق تھی اور سامنے کاؤنٹرپہ ایک پرکشش سی لڑکی ریسیور کان سے لگائے باتیں کررہی تھی۔
حمائل سہمی سہمی عصمت کے پیچھے کاؤنٹر پر چلی گئی ۔ عصمت نے ہمت کرکے کاؤنٹرپر بیٹھی لڑکی کواپنے مسئلے کے بارے میں بتایا ۔
” جنہیں اس وظیفے کے لیے اپلائی کرنا تھا وہ بارہ بجے سے پہلے پہلے فارم بھروا کر جا چکی ہیں ۔ سر ابھی اپنے آفس میں بزی ہیں۔” کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی نے عصمت کو جواب دیا اور اپنے سامنے ایک فائل کھسکا کر اس پر جھک گئی ۔
” آپ پلیز ان سے بات کرلیں ۔ کچھ کرلیں ۔ یہ میری دوست ہے۔ حمائل۔۔۔اور یہ اس وظیفے کی اصل حقدار ہے۔” عصمت نے آگے بڑھ کر دلیری سے اس لڑکی کو پھر سے کہا اور اس لڑکی کی نظر سیدھی حمائل کی طرف اٹھی تھی، پر حمائل اس کی نظروں سے بچنا چاہتی تھی۔ اسے کوئی شوق نہیں تھا کہ کوئی اس پر ترس کھائے ، اس کو خیرات دے اور درحقیقت اس کو بذات خود اس وظیفے کی طلب نہیں تھی پر اس کے ذمے وہ تین معصوم بچے تھے اور وہ ان کو بھوکا مارنا نہیں چاہتی تھی۔ خود وہ بھوکا مرنے کو بھی تیا ر تھی اور وہ خود کو اس کا حق دارسمجھتی تھی ۔
” اس کے شوہر کو مرے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ۔یہ ماں بھی ۔۔۔” اس لڑکی کو خاموشی سے حمائل کی جانب متوجہ دیکھ کر عصمت پھر سے بول اٹھی لیکن حمائل نے ہکلاتے ہوئے اس کی بات کاٹی تھی۔” چھوڑو عصمت! چلو چلیں ۔۔۔” وہ اس کا بازو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی ۔
وہ چاہتی تھی کہ جلد از جلد وہاں سے بھاگ جائے ۔ وہ کسی کی ہمدردیاں نہیں لینا چاہتی تھی لیکن عصمت نے غصیلی نگاہوں سے اسے گھورا اور وہ مجبوراً خاموش کھڑی رہی ۔ عصمت نے اپنی ادھوری بات مکمل کر لی۔
” یہ ماں بننے والی ہے” ۔کاؤنٹر پر بیٹھی وہ لڑکی اب حمائل کو ہمدردانہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ، جو اپنی شرمندگی اور ندامت سے لڑ رہی تھی ۔ آنکھیں جھکائے دم سادھے وہ شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ۔
” اوکے ۔ میں سر سے بات کرتی ہوں “۔ حمائل پہ ایک گہری اور ہمدردانہ نگاہ ڈال کر وہ لڑکی بولی اور ریسیور اٹھا کر بات کرنے لگی۔” وہ بزی ہیں”۔ ریسیور کریڈل پر رکھ کر اس نے ان کو بتایا ۔ “اب تھوڑی دیر انتظار کرلیں۔ وہ فارغ ہوتے ہی آپ کو بلاتے ہیں۔ ” لڑکی کی بات سن کر عصمت اور حمائل لابی میں پڑے صوفے پر بیٹھ گئیں ۔ کچھ دیر پہلے یہیں پر بیٹھی خاتون اب جا چکی تھی۔
٭…٭…٭
وہ جھکے سر اور کانپتے وجود کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی ۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے ؟ کیا کہے؟ اصغر کو کیا جواب دے؟ پر وہ تو فیصلہ کر چکی تھی اور اب بس اسے کچھ بھی نہیں بولناتھا ۔ اصغر اس پر ہنسے یا اس کے سامنے روئے ۔ اس کی منتیں کرے پر اس نے فیصلہ نہیں بدلنا تھا ، یہ اس نے اپنے دل میں طے کیا تھا ۔
” کیا تم مجھے وجہ بتا سکتی ہو کہ تم نے یہ فیصلہ کیوں لیا ہے؟ اصغر نے چبا کر کہا تھا اس کے لہجے میں بے پناہ خشکی تھی۔ وہ شخص جو فطری طور پر انتہائی نرم خو اور شریف قسم کا انسان تھا اور دنیا اس کے بارے میں اکثر سوچتی تھی ” ان کو کبھی غصہ بھی آتا ہوگا ؟ اوروہ بھی کس پہ؟ اور اس بات کا اسے اندازہ تک نہیں تھا کہ وہ اس پہ غصہ کرے گا ۔ دینا نے اپنا جھکا سر اٹھا لیا ، وہ اس شخص کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ اصغر نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اگر تھا بھی۔۔ تو زندگی میں پہلی بار غصہ کرتے ہوئے وہ کیسا لگ رہا ہوگا ؟ دینا کو اس وقت یہ دیکھنے کی چاہ تھی۔ پر تاریکی میں وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ ” اچھا ہے جو مجھے ان کا چہرہ نہیں نظر آرہا۔۔ شکر ہے اللہ کا ! ورنہ ۔۔ ورنہ تو میں فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو جاتی۔۔ میں ۔۔ نا کبھی نہیں کہہ سکتی اس شخص کو ۔۔” اس نے آنکھیں بھنچتے ہوئے سوچا۔
” جواب چاہیے مجھے تمہارا۔” انتہائی سخت لہجے میں پوچھا گیا تھا ۔
میں آپ کو کوئی جواب نہیں دے سکتی ” اندھیرا نہ ہوتا تو وہ اصغر کو ایسا جواب کیسے دے پاتی ؟” اور زندگی میں کبھی کبھی تاریکی بھی آپ کو آپ کا راستہ بتاتی ہے ۔ ہمیشہ روشنی منزل تک نہیں لے جاتی۔۔۔۔۔اور بات اپنے اپنے نظریے کی بھی تو ہوتی ہے ۔۔ اس نے سکون سے سوچا۔
” عرینہ کے اس طرح چلے جانے سے میرے اور تمہارے رشتے کا کیا تعلق ہے ؟” اب وہ سیدھا اصل موضوع کی طرف آیا تھا ۔
” تعلق ہے میرا بھی اور آپ کا بھی ۔۔” دینا اس موضوع کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن جب سے وہ انگلینڈ سے آیا تھا گھر کا ماحول اسی مسئلے کی وجہ سے کشیدہ تھا ۔۔۔ وہ اپنے گھر کے مسائل کو ختم کردینا چاہتی تھی اور اسی لیے اس نے خود کو قربانی کے لیے پیش کردیا تھا پر یہاں تو سب کچھ الٹ رہا تھا ۔ اس کے فیصلے نے بھی سب کو اور خاص طور پر اصغر کو پریشان کیا ہوا تھا ۔ وہ حیران بھی تھی اور پریشان بھی ۔۔۔ پر اس نے اپنا فیصلہ نہیں بدلنا تھا ، چاہے کوئی راضی تھا یا نہیں ۔
٭…٭…٭





کافی دیر انتظار کے بعد بھی جب کوئی بلاوا نہیں آیا تو حمائل نے سہمے سے انداز میںعصمت کی طرف دیکھا تھا۔ ” چلو چلتے ہیں ۔” اسے اب الجھن ہو رہی تھی ۔” فضول میں رکشے کو یہاں تک آنے کا کرایہ دے دیا ۔ کم از کم آج شام کو تو بچے کچھ اچھا کھا لیتے اور اب خالی ہاتھ لوٹوں گی تو ان کو کیا جواب دوں گی ؟ اس نے جھنجھلا تے ہوئے سوچا تھا ۔
“تمہیں کیا جلدی ہے ؟” عصمت نے حمائل کو گھورا۔
“بچے پریشان ہورہے ہوں گے ” وہ دھیمے انداز سے بولی اور عصمت نے تعجب سے اس کو دیکھا۔
” مجھے نہیں لگتا تم ان بچوں کی سوتیلی ماں ہو۔” عصمت اب اس فیشن ایبل خاتون کا چھوڑا ہوا میگزین اٹھا کر اس کے اوراق پلٹنے لگی۔
” تم کیا جانو کہ میرے اندر کی ساری نفرتیں تو ختم ہو چکی ہیں ۔ یہ ایک چیز تھی جس سے میں ساری زندگی لوگوں کو نوازتی رہی ۔ سوتیلی ماں اپنے سوتیلے بچوں کو نفرت دیتی ہے پر وہ تو میرے پاس ہے ہی نہیں ۔۔۔ ختم ہو چکی ہے ۔ صرف محبت بچی ہے میر ے پاس ۔۔۔ اور اب ان بچوں کو میں یہ بچی ہوئی چیز ہی دے سکتی ہوں، پر یہ بات تم کیسے سمجھو ؟ ایک طویل سوچ کے بعد وہ پھر سے عصمت کی جانب متوجہ ہوئی جوکہ اس فیشن میگزین کو بڑے شوق سے دیکھ رہی تھی ۔
” عصمت؟” اس سے پہلے کہ حمائل مزید کچھ کہتی ، عصمت نے میگزین صوفے پررکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اچھا پتا کرتی ہوں ۔” کہہ کر وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھی ، کاؤنٹر پہ بیٹھی لڑکی سے کچھ کہا اور وہ ریسیور اٹھا کر بات کرنے لگی ۔
” اوکے آپ سر سے مل سکتی ہیں ۔” اس لڑکی نے عصمت کو بتایا اور عصمت جلد ی سے حمائل کی جانب بڑھی تھی ۔” چلو۔ بلا رہے ہیں تمہیں !” عصمت نے حمائل کو خبر دی تھی اور وہ تھکے سے انداز میں صوفے سے اٹھی تھی۔” اٹھتے وقت اس کی پیشانی پر کتنی شکنیں بن جاتی ہیں ۔” عصمت نے ہمدردی سے حمائل کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ حمائل اب اٹھ کر جانے لگی تھی جب عصمت نے اسے پکارا۔” حمائل ! پریشان نہ ہو۔ انشااللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔” حمائل کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر عصمت نے اسے دلاسا دیا تھا اور حمائل صرف خاموشی سے اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی تھی ۔” بعض دفعہ، بعض لوگوں کے ساتھ ہمارا کوئی خونی رشتہ نہیں ہوتا، وہ بس ہمارے ساتھ کسی دور کے تعلق سے جڑے رہتے ہیں ۔ وہ ہمارے اندر نہیں جھانکتے ، نہ ہمیں کریدنے کی کوشش کرتے ہیں ، نہ ہمارے بارے میں کھوجتے ہیں ۔ ہم ان کو اپنے آپ کا ، اپنی ذات کا جتنا حصہ دکھانا چاہیں ، دکھا دیں اور باقی حصّہ چُھپا لیں تو وہ ہماری ذات کے چھپے حصے کو دیکھ لینے کی جدوجہد کبھی نہیں کرتے ۔ وہ بس اس دور کے تعلق کو ہی کافی سمجھ کر ہم سے جڑے رہتے ہیں ۔ ہمارے لیے ہر وقت حاضررہتے ہیں ۔ ان کے لیے خونی رشتے کوئی معنی نہیں رکھتے وہ بس انسانیت کے رشتے سے ہمارے رشتہ دار ہوتے ہیں ، ہمارے اپنے ہوتے ہیں ۔” عصمت کے پاس سے آفس تک جاتے جاتے اس نے سوچا اور آفس کا دروازہ کھولنے لگی ۔
٭…٭…٭
” عرینہ کا یوں چلے جانا پورے خاندان کا مسئلہ ہے صرف تمھار ا نہیں ۔ اس لیے اس بارے میں اکیلے کوئی فیصلہ لینے کا تمہیں کوئی حق نہیں ”
” حق نہیں فرض ہے ۔۔
” وہ ہم سے سارے رشتے توڑ کے گئی ہے ”
” پر میں اس کے چھوڑے ہوئے رشتوں کو نبھاؤں گی ” اصغر کو اتنی سختی سے جواب دینا بڑا مشکل تھا۔۔۔پر وہاں ایک اجڑے خاندان کی بات تھی ۔ عزت کی بات تھی ۔ دینا سعید صرف ایک محبت کی خاطر باقی سبھی رشتوں اور خاندان کو اجڑتا نہیں دیکھ سکتی تھی، یہ اس کی فطرت کے خلاف تھا ۔
” اور مرینہ سے شادی کی بات۔۔۔میں ایسے نہیں کر سکتا ۔
” وہ محبت کرتی ہے آپ سے۔۔ قدر کریں اس کی محبت کی ۔” وہ اب سمجھا رہی تھی اصغر کو ۔” محبت تو میں بھی کرتا ہوں تم سے ۔ پھر تم قدر کیوں نہیں کرتی میری محبت کی ؟” اصغر کی اس بات سے وہ سٹپٹا گئی تھی۔ وہ وہاں سے کہیں بھاگ جانا چاہتی تھی ۔ اب وہ اس سے کیا چاہتا تھا َ؟ کیوں کرید رہا تھا وہ اس کو ؟ اس گھر میں پریشانی کو ختم کرنے کیلئے ہی تو وہ ایسا فیصلہ کر چکی تھی ۔سبھی رشتوں کو پھر سے جوڑنے کی کوشش ہی تو کی تھی اس نے ۔۔۔ پھر سب کے حقوق کی ادائیگی کرتے کرتے اس سے اصغر حمید کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو گئی تو کیا ہوا؟ قصور اس کا تھوڑی تھا؟ وہ سب کا بھلا سوچنے والی ، اس نے اس معاملے میں بھی اپنی ذات کو نظر انداز کر دیا تھا اور ہمیشہ کیطرح اور اگر وہ خود سے پوچھتی تو یقیناوہ یہ فیصلہ نہ کرتی ۔ دل تو اس کا بھی تھا ۔کتنی آسانی سے اس نے سوچا تھا ، اصغر اس کا ہو جائے گا پر قربانی دینے کے وقت اس نے اپنی محبت نہیں ، خاندان کی عزت کو ترجیح دی تھی ۔
” دینااپنا فیصلہ واپس لے لو۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ، ایسا مت کرو پلیز” وہ سایہ دھیرے دھیرے اس کی جانب قدم بڑھا رہا تھا اور دینا کا دل اس کے حلق تک آگیا تھا ۔ وہ اس کی منتیں کرے اور وہ نا” کہے۔ بے انتہا مشکل تھا ۔ میرے لیے آپ کی خوشی سے زیادہ اس خاندان کی عزت اور خوشی عزیز ہے ۔ اور رہی بات آپ کی، تو آپ مرینہ سے شادی کرلیں، خوشی بھی ملے کی اطمینان بھی۔ سراب کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیں ۔ محبت وہیں سے ملتی ہے جہاں ہم ڈھونڈتے ہیں ۔” وہ واپس جانے کو مڑی تھی ۔” میں محبت تمہارے پاس ڈھونڈ رہا ہوں ۔ نہیں مل رہی مجھے۔۔۔۔ وہ چند قدم مزید اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا۔”بات اپنی اپنی سوچ اور نظریے کی ہوتی ہے۔” سپاٹ لہجے میں جواب دے کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی سیڑھیوں کی جانب چل پڑی تھی ۔ اصغر سے اتنی لمبی اور سنجیدہ گفتگو اس سے پہلے زندگی میں کبھی نہیں ہو ئی تھی ۔ وہ اس سے محبت مانگ رہا تھاپر وہ اس کو محبت نہیں دے سکتی تھی کیونکہ وہاں خاندان کی عزت کیلئے ، رشتوں کی نبھا کیلئے قربانی کی ضرورت تھی اور۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی اس کی چھوٹی بہن اصغر سے محبت کرتی ہے وہ کیسے اس کو اپنا سکتی تھی ؟ مرینہ دنیا بھر میں واحد دلچسپی تھی دینا سعید کے لیے۔۔۔۔میری گڑیا ! میری دوست!اس نے ان کو تمہارے حصے میں ڈال دیا ۔ کمرے میں داخل ہو کر وہ مرینہ کے پلنگ کے پاس گئی تھی اور اپنی سوئی ہوئی بہن کے گال کا بوسہ لے کر وہ اپنے پلنگ پہ دراز ہو ئی تھی ۔اس رات اس کی آنکھوں میں خوابوں کی بجائے ماضی کے واقعات اترنے لگے ۔
٭…٭…٭
کل کا پورا دن اور پھر آج بارہ بجے تک وہ ٹرسٹ کے کاموں میں مصروف تھا اور بے حد تھکا ہواتھا لیکن وہ جانتا تھا اس کوآرام کرنے کے لیے ایک بھی لمحہ میسر نہیں تھا ۔ آفس میں داخل ہوتے ہی اس نے میز پہ کئی فائلز دیکھیں ۔ ان کو پڑھ کر سائن بھی کرنا تھا اور پھر اسما سے کل کے کن کی میٹنگز کی لسٹ بھی لینی تھی ۔
اے سی کا ریموٹ اٹھا کر اس نے اے سی آن کیا اور کرسی پر بیٹھ گیا ۔ تھوڑے سے توقف کے بعد اس نے ایک فائل اپنے سامنے کھسکا لی اور اس کو پڑھنا شروع کیا ۔ وہ دو فائلز کو پڑھ کر سائن کر چکا تھا اور ابھی تیسری فائل کی تفصیلات پڑھنے میں مصروف تھا کہ انٹر کا م کی گھنٹی بجی۔ “جی اسما! لیکن اس وقت میں بہت بزی ہوں ۔ تم انہیں بٹھاؤ ، میں فار غ ہوتے ہی ان کو بلا لوں گا ۔” اس نے اپنی سیکرٹری کو جواب دے کر ریسیور کریڈل پر رکھا تھا ۔ وہ اس وقت واقعی تھکا ہوا تھا ۔ ٹرسٹ کے ساتھ ساتھ آفس کے کام اکیلے سنبھالنا واقعی مشکل تھا ۔ ڈیڈ نے اس کو پہلے سے سمجھایا تھا کہ وہ ٹرسٹ کا کام کسی با اعتماد انسان کے حوالے کر دے لیکن یہ ٹرسٹ اس نے اپنی ماں کے نام سے بنایا تھا اور اس کا ہر کام وہ خود اپنے ہاتھوں سے کر دینا چاہتا تھا اور یہ کام وہ بڑے شوق اور لگن سے کررہاتھا بالکل اس طرح جس طرح اس کی ماں اپنے N.G.O میں محنت اور لگن سے کام کرتی تھی ۔ لیکن اس وقت واقعی اس کو جھنجھلاہٹ کا احساس ہورہا تھا “یہ لوتھوڑی دیر پہلے آجاتیں تو جلدی سے ان کا کام بھی ہو جاتا اور مجھے بھی سانس لینے کو وقت مل جاتا ” اس کواب انتہائی بے زاری ہورہی تھی وہ پھر سے فائل پر جھکا تھا ۔ ان دنوں وہ کسی مشین کی طرح کام کرتا تھا اور اس حد تک تھک جاتا تھا کہ آدھی آدھی رات تک و ہ تھکن سے سو نہیں پاتا تھا ۔ مجھے اندازہ نہیں تھا پریکٹیکل لائف اس قدر بورنگ ہوگی۔ پوری لائف بچپن سے لے کر جوانی تک کا عرصہ بڑا بے فکر اور سنہرا ہوتا ہے ، مزے ہوتے ہیں ، مستیاں ہوتی ہیں ، دوست ہوتے ہیں اور ۔۔۔محبتیں ۔۔۔۔ ” وہ اکثر سوچتا اور اس کی آنکھوں میں ماضی کے سایے لہرانے لگتے۔” یہیں تو تھے سب۔۔۔۔نہ جانے کہاں چلے گئے؟ میرے بغیر کہاں ان کی زندگیا ں مکمل ہیں ؟ “کسی دور میں جو دوست اس کے لیے خوشی کا باعث تھے، ان دنوں ان کے بارے میں سوچ کر وہ واقعی دکھی ہو جاتا تھا ۔ دوستوں کے بغیر اس کی زندگی خالی تھی ، بے رنگ تھی ، بے مزہ تھی ۔
وہ آخری فائل پر جھکا ہی تھا کہ انٹر کام کی گھنٹی پھر سے بجی ۔
” سر ! مس حمائل کافی دیر سے آپ کا انتظار کررہی ہیں ۔”
” اوکے ۔ سینڈ ہر ٹو مائی آفس۔” اپنی سیکرٹری کے منہ سے جو نام اس نے ابھی ابھی سنا تھا اس کو وہ صدیوں بعدبھی نہیں بھول سکتا تھا۔
” میں جانتا ہوں یہ تم نہیں ہو سکتی لیکن تمہارے ہم نام سے مل لینے میں کیا حرج ہے ؟” تھوڑی دیر پہلے وہ بے زاری کی انتہا پر تھا ۔” حمائل کے نام نے اس کے اندر بے پناہ توانائی پیدا کر دی تھی ۔ “یہ” حمائل اصغر” نہیں ” حمائل” ہے ، تو پھر میں اتنا پر جوش کیوں ہوں ؟ یہ جان کر بھی کہ یہ ،وہ نہیں ہو سکتی ۔ اس کو اب خود پر حیرانی ہورہی تھی۔” پر نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے یہ نام اس کے علاوہ کسی او ر کا نہیں ہو سکتا۔” وہ بڑبڑایا اور سامنے میز پڑی فائل پہ ایک بار پھر جھک گیا ۔
٭…٭…٭
بڑی پھوپھی شروع ہی سے عرینہ میں گہری دلچسپی لیتی تھیں اور اس کی بڑی وجہ ان کا بیٹا علی تھا جو عرینہ کو پسند کرتا تھا اور اس سے شادی کا خواہش مند تھا۔
اس بار عید الفطر میں جب سب جمع تھے تو بڑی پھوپھی نے عرینہ کا باقاعدہ رشتہ مانگا تھا جس پر سبھی راضی تھے۔ عرینہ سے اس کی مرضی پوچھی گئی اور اس نے ” مجھے آپ کا ہر فیصلہ قبول ہے “کہہ کر بات ختم کر ڈالی۔
عید کے ایک ہفتے بعد اصغر کو انگلینڈ جانا تھا اس لیے اس کی موجودگی میں اس کی بہن کی منگنی علی سے طے ہو گئی اور اس موقع پر فرحت نے اپنے مرحوم شوہر کے بے پناہ یاد کیا تھا اور کئی بار ان کی پلکیں بھیگ گئیں۔ ان کی بیٹیاں دینا اور مرینہ بھی تو جوان تھیں ، خوب صورت تھیں اور عرینہ سے کہیں زیادہ سلجھی ہوئی اور فرماں بردار تھیں لیکن ان کی نند نے اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا اور فرحت کو اس بات کا دکھ تھا کہ جانے ان کی بیٹیاں اپنے گھروں کی خوشیاں دیکھ سکیں گی کہ نہیں ؟ ” سر پہ باپ کا سایہ نہیں ہوتا تو دنیا والے عزت نہیں دیتے ۔۔” انہوں نے تاسف سے سوچا اوراپنی بھیگی پلکیں خشک کرنے لگیں ۔
ان کے شوہر کو مرے ہوئے مدت بیت چکی تھی اور اس لمبی مدت میں اس گھر کے ہر فرد نے ان کو عزت دی تھی ۔ ان کو اپنا سمجھا تھا ۔ ان کے شوہرکے نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی ہر ضرورت پوری کی تھی ۔ ان کی جٹھانی نے کبھی ان کو کسی چیزکا طعنہ نہیں دیا اور اصغر نے ان کو کبھی بیٹا نہ ہونے کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔ وہ انہی کی گود میں آکے سررکھ کر کچھ کھانے کی ضد کرتا اور وہ بڑی چاہت سے اس کے لیے وہی چیز بنا کر لاتیں اور اپنے ہاتھوں سے کھلاتیں ۔ اس گھر کے ہر فرد نے ان پر اور ان کی بیٹیوں پر بے پناہ احسانات کیے تھے۔۔ محبتیں، اپنائیت اور نجانے اور کیا کیا مقدس رشتے تھے ان کے اس گھر کے ہر فرد کے ساتھ۔ لیکن پھر بھی آج وہ دل سے ان کی خوشی میں شامل نہیں تھیں ۔ اپنی جوان بیٹیوں کے مستقبل کی فکر کا ان کو گھلائے جارہی تھی اور آج انہیں خوشی کی یہ محفل ذرا بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ دو جوان بیٹیوں کی بیوہ ماں کبھی خوشیاں منا سکتی ہے بھلا؟ انہوں نے سوچا تھا اور اپنی جٹھانی کے پاس سے اٹھ کر باورچی خانے کی سمت گئیں تھیں ۔ اب اشکوں کو روکنا ناممکن تھا ۔
٭…٭…٭
” مے آئی کم ان پلیز؟ آواز سپاٹ اور بے تاثر تھی۔۔۔۔۔ وہ سیاہ چادر اوڑھے ، اس کے آفس کا دروازہ پکڑے ہوئے کھڑی تھی ۔
” یس کم ان پلیز۔” فائل پہ جھکا وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولا تھا ۔ لیکن اس کی طرف دیکھے بنا بھی وہ یہ بات یقین سے کہہ سکتا تھا کہ صبح سے اب تک آنے والی عورتوں میں یہی ایک مہذب اور شائستہ لہجے والی خاتوں ہے۔ حالاں کہ زیادہ تر بیوہ عورتوں کے مزاجوں میں خشکی اور غصہ نمایاں ہوتا ہے جو کہ ” اس ” خاتون میں نہیں تھا ۔
وہ اپنی آخری فائل کی تفصیلات پڑھنے میں مصروف تھا ۔ بس چند منٹ میں اس آخری فائل کو نپٹا کے وہ اس خاتون کا مسئلہ بھی حل کر دے گا۔ ” پلیز سٹ ڈاؤن۔” اس بار پھر صبار نے اس کی جانب نہیں دیکھا تھا ۔ وہ جلدی جلدی فائلز کی مصیبت سے چھٹکارا پا کر ایک لمبی سانس بھرنا چاہتا تھا ۔
اب تقدیر نے کون سا کھیل کھیلنا ہے ؟ میں نے زندگی کی کہانی کو اپنے ہاتھوں سے لکھا ہے ۔ تمہارا کردار میں نے اُس وقت اپنی کہانی سے نکا ل دیا تھا جب میری زندگی میں ذوالکفل آگیا ۔ اور میں تمہیں اپنی آخری بازی میں ہار گئی۔ تم۔۔۔ جو کہ میری پہلی محبت تھے۔۔۔۔۔ اب جب تم لوٹ آئے ہو تو میں تمھارا کردار کہاں ڈالوں ؟ اس کے دل کی دھڑکنیں ساکت تھیں اور وہ یک ٹک سامنے کرسی پہ بیٹھے اس شخص کو دیکھ رہی تھی، جو کسی زمانے میں اس کا بہترین دوست ہوا کرتا تھا ۔
اس سے پہلے کہ وہ سر اُٹھا کر اس کو دیکھ کر پہچان جاتا وہ ایک جھٹکے سے باہر نکلی تھی اور انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ وہ اس بلندعمارت سے نکل کر فٹ پاتھ پر چلنے لگی تھی ۔ وہ تقریباً بھاگتی جارہی تھی اور اس وقت اسے یہ خیال تک نہیں رہا تھا کہ اس حالت میں اتنا تیز چلنا کتنا تکلیف دہ اور مشکل ہوتا ہے ۔
” تقدیر انسان کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ۔ آپ کو بار بار یہ احساس دلاتی ہے کہ ماضی میں آپ کیا تھے؟ آپ نے کیا کیا تھا؟ ماضی کی جھلکیاں آتی ہیں اور آپ کو تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہیں اور پھرآپ سانس بھی نہیں لے سکتے ” ۔وہ اب مزید تیز رفتاری سے چلی جارہی تھی ۔ اسے اب اپنی جسمانی تکلیف سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا ۔ اس کی روح تکلیف میں تھی ۔ اسے لگ رہا تھا ارد گرد کے لوگ اسی کو دیکھ رہے ہیں ۔ اسی پہ ہنس رہے ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ وہ صبار قاسم سے بھا گ کر جارہی ہے ۔ اس سے چھپ رہی ہے ۔ اور پھر و ہ بھاگنے لگی تھی ۔اس کی آنکھون سے موٹے موٹے آنسو گر کر اس کے گالوں کو تر کررہے تھے۔ کتنے برسوں بعد اس نے صبارقاسم کو دیکھا تھا ۔ جس کو نہ دیکھنے کی بے شمار دعائیں کی تھیں۔ ” جب میں تم سے الگ نہیں ہونا چاہتی تھی تو تم چلے گئے اور اب جب میں تمہیں دیکھنا نہیں چاہتی تو تم آگئے ۔۔۔ تم کیوں آئے صبار! میر ا سکون برباد کرنے تم کیوں آگئے ؟ آنسوؤں کی ایک لکیر تھی جو بہتی چلی جار ہی تھی اور حمائل اصغر دیوانہ وار تنگ گلیوں سے اس ڈربے نما مکان کی سمت بھاگتی چلی جارہی تھی ۔ ان تینوں بچوں میں پناہ لینے جارہی تھی ۔ وہ جانتی تھی وہ اس کو پنا ہ دیں گے… میں … چھپ جاؤں گی صبار سے …وہ مجھے نہیں ڈھونڈ پائے گا ” ۔ وہ دیوانہ وار سوچتی جارہی تھی۔ اب اس کی سانس پھولی ہوئی اور ہڈیاں ٹوٹ رہی تھیں۔۔ جسم اورروح دونوں انتہائی تکلیف میں تھے۔ گھر کا بیرونی دروازہ کھول کر وہ ایک جھٹکے سے اندر داخل ہوئی تھی وہ اپنی پناہ گا ہ میں پہنچ چکی تھی اور اب کوئی صبار قاسم اس کو نہیں ڈھونڈ سکتاتھا ۔ بچے جاگ چکے تھے ۔ اس کو گھر میں آتا دیکھ کر وہ تینوں اس کی سمت دوڑے تھے اور اس کو اپنی پناہ میں لیا تھا ۔ اب وہ محفوظ تھی ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!