پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے کھنکار کر کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن اس کو بات کرنے کے لیے کوئی موضوع نہیں مل رہا تھا ۔ یہ وہ لڑکیا ں تھیں جو بنا موضوع کے اتنی باتیں کرتیں ، اتنا بولتیں کے گھر والوں کے سروں میں درد کردیتی تھیں ۔
تم مجھ سے بات کرنے کے لیے موضوع ڈھونڈرہی ہو ؟پر جب نفرتیں اور دوریاں درمیان میں آجاتی ہیں تو۔۔۔ پھر ڈھونڈنے سے بھی موضوع نہیں ملتا اور تم میری وہی دوست ہو جس کو مجھ سے بات کرنے کے لیے کبھی کسی موضو ع کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ۔ ” کلاس میں کرسی پہ بے انتہا خاموش بیٹھی وہ سوچتی رہی۔” بدلتا وقت اپنے ساتھ ساتھ انسانوں کو کس قدر بدل جاتاہے ۔ ” اس نے تاسف سے سوچا تو اس کی آنکھوں میں اشک منڈلانے لگے۔ وہ دوسری طرف منہ کرکے دیکھنے لگی ” تم یہی کہنے کے لیے یہاں بیٹھی ہو ناں کہ تمہیں اپنے کیے کا پچھتاوا ہے ۔ پر سچ کہوں تو یہ سب کرنا تمھارا حق ہے میں جو مفت میں تمہارے گھر ، تمہاری چیزوں اور تمہارے رشتوں پر قابض ہو گئی ہوں اور میں اس کو تمہاری اعلیٰ ظرفی سمجھتی ہوں کہ جیسے بھی ہو ، بہر صورت تم میرے ناقابل برداشت وجود کو برداشت کرہی رہی ہو ۔ ” اپنی عمر اور تجربے سے قدرے بڑی سوچ رکھنے والی اور خاموشی سے درگزر کرنے والی منزہ علی نے فراخ دلی سے سوچا تھا ۔ اس وقت حمائل باوجود کوشش کے بھی اس زہر گھولتی خاموشی کو توڑ نہیں پائی ۔۔
٭…٭…٭





” ہاں تو بھئی ! ختم ہو گئے تمہارے بچپن کے دوستوں کے تذکرے؟ عرینہ نے دینا کو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ۔
” ہاں ۔ ” دینا نے مسکراتے ہوئے مختصر سا جواب دیا اور اپنے پلنگ پہ دراز ہو گئی پتا نہیں کیوں اس کو عرینہ کی تلخی پہ کبھی غصہ نہیں آیا ؟ بلکہ اس کو تو کبھی کسی کی تلخی پر غصہ نہیں آتا تھا ۔ غصے کا عنصر شاید اس کی ذات میں شامل ہی نہیں تھا ۔
” مجھے تو بھائی جان ہمیشہ بھکارن ہی بناتے تھے ۔ مجال ہے جو کھیل میں مجھے کوئی اچھا کردار ملتا ہو کبھی۔” عرینہ نے خفگی سے کہا ۔
” ہاں تو وہ شکل دیکھ کے کردار دیا کرتے تھے ناں ۔” مرینہ نے جھٹ سے کہا ۔
” تو تمہیں کون سا ملکہ بناتے تھے ؟تم بھی تو کسان کی ” بلی ” ہوتی تھی ۔” عرینہ نے مرینہ کو ٹوکا۔ دینا ان کی بحث پر خاموشی سے مُسکراتی رہی ۔ اس کو یہ دونوں بے دھڑک سی لڑکیا ں کتنی اچھی لگتی تھیں ۔ وقت بولتے رہنے والی اس کی بہن اور تا یا کی بیٹی اس کے لیے ایک دل چسپ فلم کی طرح تھیں جس سے وہ جب چاہتی مفت میں لُطف اندوز ہوتی۔
” عرینہ بجیا! ایک بات بولوں؟” تھوڑی دیر بعد مرینہ کی آواز ابھری ۔
” ہائے ہائے اتنی عزت ؟ اتنا احترام؟” عرینہ نے طنز کیا ۔
” آپ کو میری بہن ہونا چاہیے تھا ۔” عرینہ نے بات کہہ ڈالی ۔
” کیوں تمہیں میں اتنی اچھی لگتی ہوں؟” عرینہ اب غور اور دلچسپی سے مرینہ کو دیکھ رہی تھی ۔
” نہیں اصل میں آپ میری طرح بدتمیز ، اور گستاخ ہیں ۔ ” مرینہ کی اس بات سے عرینہ اچھل پڑی ” کمینی” مجھے نوازنے کے لیے کیا تجھے یہی القابات ملے تھے؟عرینہ اب اس کو ڈانٹ رہی تھی ۔ دینا نے کروٹ بدلی ۔ وہ دونوں جو پورا دن کام کرتے کرتے تھک گئیں تھیں اب لڑنے میں مصروف تھیں اور وہ جو پورا دن فارغ تھی اس کو نیند آرہی تھی ۔ اس نے آنکھیں بند کردیں ۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں بھی آرام سے اپنے اپنے بستروں میں سورہی تھیں ۔
٭…٭…٭
” امی جی ! میں ہوسٹل شفٹ ہونا چاہتا ہوں ۔” رات کا کھانا کھاتے ہوئے شہروز نے سنجید گی سے امی کی طرف دیکھا ۔
” کیوں؟ گھر میں سٹڈی نہیں کرسکتے کیا ؟ امی کے کچھ بولنے سے پہلے ابو بول پڑے تو شہروز نے ناگواری سے حمائل کی طرف دیکھا ۔” یہ فیٹی ماں جب بھی لاؤنج میں بیٹھتی ہے، تو ٹی وی کا والیم اتنا تیز کردیتی ہے کہ میں تو کیا پوری کالونی والے سنتے ہیں ۔
” تو کیوں میں ٹی وی نہیں دیکھوں گی کیا ؟ آپ چاہیں تو بے شک ہوسٹل شفٹ ہو جائیں ۔ ” حمائل نے سر د مہری سے کہا ۔
” چلو ایسا کرتے ہیں میں رشید سے کہتی ہوں تمہارے لیے اوپر کا کمرہ صاف کردے ۔ تم اوپر شفٹ ہو جانا۔” امی نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی ۔
” جی بہتر!” شہروز سر جھکا کر خاموشی سے کھانا کھانے لگا اور حمائل سوتے وقت سوچتی رہی اب مجھے کوئی نہ کوئی توایسا چاہیے کہ جس سے میں لڑ سکوں ۔ اپنی نیگیٹو فیلنگز کو نکالنے کابھی تو کوئی راستہ ہونا چاہیے ۔” اس نے کروٹ بدلی ۔ ” اور یہ معافی مانگنا کس قدر مشکل کام ہے ۔ ” اس وقت اس نے دل میں طے کیا کہ وہ منزہ کو کبھی بے جاتنگ نہیں کرے گی ۔ معافی مانگنے کے مشکل اور قدرے شرم ناک تجربے سے بچنے کے لیے اس نے اپنے منفی جذبات کو بہر حال قابو کرنا ہی تھا اور وہ کافی حد تک اس کوشش میں کامیاب رہی تھی ، کیوں کہ وہ آئندہ کسی بھی صورت منزہ کو رلانا نہیں چاہتی تھی ۔
٭…٭…٭
عرینہ کو صبح سے بخار تھا اس لیے مرینہ اکیلے ہی باروچی خانے میں کھپ رہی تھی ۔ ” پتا نہیں یہ پھوپھیاں کب جائیں گی؟اور ایک تو ان کی روز روز کی فرمائشیں۔۔۔ اور پتا نہیں ان کے بغیر ان کے گھر کیسے چلتے ہوں گے ۔؟ہماری بڑی ماں تو کہیں نہیں جاتیں۔ ان کے بغیر گھر ہی کب چلتا ہے ؟ وہ تو ہمارے گھر کی ڈرائیور ہو جیسے۔۔۔۔”اس نے کڑھ کر سوچا۔
” لاؤ میں کیے دیتی ہوں ۔” دینا نے باورچی خانے میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔ مرینہ رائتہ بنارہی تھی ۔ دینا کی بات سن کر اس نے طنزیہ انداز میں دینا کو دیکھا ”نہیں ۔ آپ تو بڑی ماں کی لاڈلی ہیں۔ کام کے لیے ہم ہیں ناں۔آپ کے ملازم۔۔۔۔” اور اس کی بات پر دیناصرف مسکرا ئی اور کھانے کے برتن لے جانے لگی ۔
کھانے کے بعد چھوٹی پھوپھی نے گھر جانے کی ضد شروع کر دی اور سب کے بہت روکنے کے باوجود بھی وہ چلی گئیں۔ مرینہ نے خوشی سے ایک بلند قہقہ لگایا تھا اور بڑی پھوپھی کے جانے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگی اور آخر کار شام کی چائے پیتے ہی ان کے منہ سے گھر جانے کی بات نکل ہی گئی ۔ “بھابی! اب مجھے اجازت دیں۔” پر بڑی ماں اتنی آسانی سے کب ماننے والی تھیں ۔مرینہ کو سخت غصہ آ رہا تھا ” اب جب اتنے عرصے بعد ان کو اپنے گھر جانے کا خیال آہی گیا ہے تو بڑی ماں کو ان کو روکنے کی کیا ضرورت ہے ۔؟” خیر بہت دعاؤں کے بعد بڑی پھوپھی چلی ہی گئیں اور مرینہ عرینہ کو یہ خوش خبری سنانے جلدی جلدی سے کمرے کی سمت گئی تھی ۔
” ہائے اللہ جی ! لاکھ لاکھ شکر ہے ۔ چلی گئیں دونوں۔دس قسم کی چائے ، قہوہ بنانے سے جان چھوٹ گئی ۔ اس نے بآواز بلندکہا توعرینہ نے بستر سے سر نکا ل کر اس کو دیکھا۔” چلی گئیں؟” عرینہ کے لبوں پہ نڈھال سی مسکراہٹ تھی ۔ اس کا گلابی چہرہ تھکا ہو ا اور نڈھال تھا ۔۔۔
” ہاں ۔ کیوں نہ جاتیں؟ منت مانگی تھی میں نے دور کعت نفل پڑھنے کی”
مرینہ اس کے پا س آ کر بیٹھ گئی اس نے داد طلب نظروں سے عرینہ کو دیکھا جیسے پھوپھیوں کو اس نے گھر بھیجا ہو؟ عرینہ کے ہونٹو ں پر بکھری مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی ۔ اس کے سامنے بیٹھی وہ چلبلی سی لڑکی اس سے دو سال چھوٹی ہوکے بھی اس کی پکی دوست تھی ۔ اس کے ساتھ اس کی ہر شرارت میںشریک ، اس کی ہر شوخی کی ساتھی ۔۔۔۔ عرینہ کو دینا سے کہیں زیادہ مرینہ اچھی لگتی تھی ، شاید وہ اس کی طرح بے دھڑک اور شوخ تھی اس لیے ۔
٭…٭…٭
زندگی انتہائی پرسکون، پر اطمینان اور بے فکری سی تھی اور شاید انسان کا اپنا سکون بھی اس میں ہوتا ہے، جب وہ کسی اور کے آرام وسکون کی وجہ بنے۔ جب آپ کسی کے ساتھ لڑتے ہیں ، کسی کی بے سکونی کی وجہ بنتے ہیں تو آپ خود کبھی سکون سے نہیں رہ پاتے۔ آپ کے اندر بھی ایک جنگ جاری ہوتی ہے، جو آپ کو اطمینان سے رہنے نہیں دیتی، جو آپ کو بے چین کیے رکھتی ہے اور ان دنوں جب اس نے منزہ کو تنگ کرنا چھوڑ دیا تھا تو وہ خود بھی اطمینان سے رہ رہی تھی ۔وہ خود کوکس قدر ہلکا پھلکا اور مطمئن محسوس کررہی تھی۔ ” تو کیا میرا peace of mind منزہ کے peace of mind میں ہے ؟” اس نے تعجب سے سوچا۔
٭…٭…٭





” دعوت نامہ آیا ہے تمہارے نام ۔۔” دینا ہاتھ میں پکڑے کارڈ کو ہوا میں لہراتی ہوئی کمرے میںداخل ہوئی ۔ عرینہ نے بستر سے سر نکال کر سوالیہ نظروں سیاس کو دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو ” میرے نام؟” اور اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی مرینہ اچھل کر اس کے پلنگ پر آ کر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی ۔ یوں ہی ہوتا تھا جب وہ کسی دل چسپ خبر کا حصہ نہ ہوتی تھی تو وہ اچھل کر عرینہ کے پلنگ پر آبیٹھتی تھی ۔” اللہ تمہیں کس نے بلایا ہے ؟ سٹوپڈ! میرے پیر کو کچل ڈالا تم نے ” عرینہ نے ناگواری سے اسے دیکھا اپنی ٹانگیں سمیٹ کر دینا کی طرف متوجہ ہو گئی ۔
” آپ کے اعمال نامے میں گالیاں تو کثرت سے لکھی ہوں گی مرینہ نے معصومیت سے کہا تو عرینہ نے غصیلی نظروں سے اسے گھورا ” اور تم جو خرگوش کی طرح اچھل کود کرتی ہو تو میں تمہیں تمغہ شجاعت سے نواز دوں ” یا نشان حیدر” سے؟”
” رہنے دیں ۔اپنے “تمغہ شجاعت اور نشانِ حیدر ” کو سنبھال کر رکھیں آپ ہی کے کام آئیں گے۔” مرینہ نے حاضر جوابی سے کہا اور عرینہ جیسے جل کررہ گئی ۔” تمہاری اس عیسائی دوست لیزا کے ہاں سے دعوت نامہ آیا ہے ” دینا نے حالات کی نزاکت کاجائزہ لیتے ہوئے جلدی سے کہا بہ ذاتِ خود اس کو ان دونوں کی بحث اوٹ پٹانگ باتوں میں بڑا مزا آتا تھا لیکن اس وقت وہ خود جو دلچسپ خبر لائی تھی ، ان دونوں کو سُنانا چاہتی تھی ۔
” لیزا۔۔۔ اچھا! دو مجھے” عرینہ اچھل کر بیٹھ گئی اور مرینہ اس کے تھوڑا اور قریب کھسک کر دعوت نامہ پڑھنے لگی۔” کریسٹینا ۔۔۔ یہ لیزا کی بہن کا نام ہے ، اور اس کی شادی جوزف کے ساتھ ہورہی ہے ۔ یہ لیزا کا کزن ہے۔” عرینہ نے چمکیلی آنکھوں سے دیکھا ۔ اس کے چہرے سے بیماری کے غائب ہوچکے تھے۔ دیناکو شک ہورہا تھا جیسے وہ سرے سے بیمار تھی ہی نہیں ۔
” دعوت نامہ آیا تو ہے ۔ تم نے بڑے جوش و خروش سے پڑ ھ بھی لیا لیکن بڑی ماں نے کہہ دیا ہے کہ عرینہ نہیں جاسکتی کیوں کہ وہ بیمار ہے ۔” دینا نے ” بیمار ” پر زور دے کر کہا توعرینہ کمبل کو مرینہ کے پلنگ پر پھینکتے ہوئے اٹھی ” میں ۔۔۔ ٹھیک ہوں اب۔”
” پر ۔۔۔۔ یہ بات بڑی ماں کو کون سمجھائے ؟ دینا کولہوں پر ہاتھ جما کے شوخ اندا ز میں بولی تو عرینہ مایوسی سے دوبارہ پلنگ پر بیٹھ گئی ۔
” تم اماں کو منا لوناں ۔” تمہاری بات مانیں گی۔” عرینہ نے سماجت کی ۔
” بھئی! انہوں نے تو صا ف صاف کہہ دیا کہ جب ایف ۔اے ختم ہو گیا ہے تو ایف ۔اے کے زمانے کے دوست سے دوستی نبھانے کی کیا ضرورت ؟دینا کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ عرینہ کو اب غصہ آرہا تھا ۔ اس نے بے بسی سے مرینہ کو دیکھا جو پہلے سے بجھی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
” کوشش کر کے تو دیکھیں ۔ شاید مان جائیں۔” مرینہ نے اس کو تسلی دی ۔ اس نے سنجیدگی سے دینا کو دیکھا۔
” تم ان کو منا لو ناں ۔ لیزا تمہاری بھی تو اتنی اچھی دوست تھی ۔” وہ زندگی میں شایدپہلی بار اتنی سنجیدگی اور شرافت کے ساتھ دینا سے کچھ مانگ رہی تھی اور اب دیناکو اسے چھیڑنے میں مزہ آرہا تھا۔” اتنی اچھی دوست ” تو خیر وہ میری نہیں تھی ۔ہاں کلاس فیلو تھی لیکن میں باقی کلاس فیلو ز میں سے کسی کے گھر شادیوں پر نہیں گئی اس لیے لیزا کی بہن کی شادی میں جانے کا میرا کوئی پروگرام نہیں ۔” دینا کے لہجے کی شرارت بھانپ کر عرینہ نے غصیلی نظروں بلکہ قدرے ناگواری سے اسے دیکھا اور سر پکڑ کربیٹھ گئی ۔ مرینہ بھی خاموشی سے اس کے پلنگ سے اٹھ گئی اور میز سے ناول کی کتاب اٹھا کر پڑھنے لگی ۔” بڑی ماں کو پولیس آفیسر ہونا چاہیے تھا ۔” اب ناول پڑھنے میں ذرا بھی مزہ نہیں آرہا تھا ” ہاں تو اب بھی تو وہ پولیس آفیسرسے کوئی کم نہیں ۔ صرف یونیفارم کی کمی ہے اور جو بڑی ماں پولیس کا یونی فارم پہن کر ہا تھ میں پولیس والی چھڑی لے کر گھر میں گھومے ۔” اپنی اس بچگانہ سی سوچ پہ وہ خو د ہی ہنسنے لگی ۔ دینا اور عرینہ نے تعجب سے اسے دیکھا تو وہ خجل سی ہو کر ناول پڑھنے لگی ۔
” میں خود جاکے اماں سے بات کرتی ہوں ۔” عرینہ پلنگ سے اٹھ گئی ۔
” ہاں ! ہاں کوشش کرنے میں کیا حرج ہے ؟ ” مرینہ نے ٹپ سے ناول کی کتاب بند کر دی اور دل ہی دل میں بڑی اماں سے اجازت ملنے کی دعائیں مانگی ۔ وہ عرینہ کے پیچھے پیچھے کمرے سے نکل گئی ۔
٭…٭…٭
سورج غروب ہو چکا تھا ۔ امی لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں اور ان کے پاس ہی دوسرے صوفے پر بیٹھے ابو وقفے وقفے سے ٹی وی کی طرف دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتے اور صوفے کی پشت پر اپنا سر ٹکا دیتے ۔ حمائل پانی پینے کچن کی طرف جارہی تھی ۔” حمائل بیٹا ! بیٹا میری الماری سے ” کلیات اقبال” لے آؤ ۔ ” ابو نے صوفے کی پشت سے سر اٹھا کر حمائل کو دیکھا اور وہ ان کے کمرے کی سمت چلتی گئی ۔
” کتنا سکون اور خاموشی ہے کہاں ۔” کمرے کی کھڑکیاں بند تھیں اور ان پہ پردے پڑے ہوئے تھے ۔ بے شکن بیڈ پر سر مئی رنگ کی بیڈ شیٹ بچھی ہوئی تھی اور فرش پر بچھا ہوا بیش قیمت قالین ۔۔۔ باہر کے ماحول سے بے نیاز اپنے والدین کا یہ کمرہ حمائل کو ہمیشہ سے اچھا لگتا تھا ۔ شاید اس لیے کہ یہ امی سے زیادہ ابو کا کمرہ لگتا تھا ، ان کی طرح پرسکون ، خاموش اور بے نیاز سا ۔۔۔ اس کو اپنے باپ سے بے پناہ پیار تھا اور ہ ان کو اپنا آئیڈیل مانتی تھی ۔
لائٹ آن کر کے اس نے الماری کے پٹ کھولے دیے اور ” کلیات اقبال” ڈھونڈنے لگی۔” ابو جی ! ۔ یہاں پر نہیں ہے ” وہ ان کو آواز دیتے ہوئے رک۔ بالکل سامنے گہرے نیلے رنگ کی ڈائری کے نیچے مطلوبہ کتاب پڑی تھی ۔ کتاب کو اٹھاتے اٹھاتے اس نے اس ڈائری کا بہ غور جائزہ لیا تھا ۔یہ ڈائری پچھلی شام کو اس نے ابو کے ہاتھ میں تب دیکھی تھی جب وہ سٹڈی میں جانے کیلئے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے ۔
” ابو جی اس میں کیا لکھتے ہوں گے ؟ ” تجسس کی ایک لہر اس کے وجود میں دوڑ گئی ۔ اس کا باپ اس کا آئیڈیل تھا اور وہ اپنے آئیڈیل کے بارے میں وہ کچھ جاننا چاہتی تھی جو ہ نہیں جانتی تھی ۔ ان کا بزرگانہ پہلو تو ہمیشہ سے ان کے سامنے تھا لیکن کیا ان کی ذات کا کوئی گوشہ ایسا ہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتی؟ جو وہ صرف خود تک محدود رکھتے ہیں ؟ ڈائری کو اپنے اوورکوٹ کے نیچے بغل میں دبا کر وہ” کلیات اقبال ” اٹھا کر کمرے سے نکل گئی اور ابو کو کتاب دے کروہ جلد ی سے اپنے کمرے میں گئی ۔ منزہ با ہر لان میں تھی ۔ اس نے کمرے کا دروازہ اند ر سے بند کیا اور جلد ی سے ڈائری کھولنے لگی ۔ ڈائری نئی تھی۔ شروع کے تین صفحوں پہ ابو کے ہاتھوں کی لکھا ئی تھی، جو اس نے پہچان لی ۔ وہ ڈائری پڑھتی گئی اور ساتھ ساتھ اس کے دماغ پر بجلیاں گرتی گئیں۔” ابو جی!!!” تعجب، بے یقینی اور حیرانگی سے اس نے منہ سے نکلا۔ اس کی آنکھوں میں جیسے کسی نے مرچیں ڈال دی ہوں ۔اس نے اپنی آنکھوں کو بھینچا۔ اسے لگا و ہ خواب دیکھ رہی ہے ۔
٭…٭…٭





” یہ بچیاں پڑھتی ہیں ؟” پھوپھی جی اماں اور چھوٹی ماں کے ساتھ برآمدے میں بیٹھی باتیں کررہی تھیں ۔ عرینہ ہمت کر کے ان کی سمت بڑھ گئی ۔
” ہاں پڑھتی ہیں ۔ ماشااللہ دینا اور عرینہ نے تو ایف۔اے کرلیا اور مرنیہ نے کالج میں داخلہ لیا ہے ۔ اگلے مہینے اس کا کالج کھل رہا ہے ۔” اماں نے تفصیلاً اسے جواب دیا۔ عرینہ ان سے کچھ فاصلے پر خاموش کھڑی رہی ۔
” تو ان دونوں کو آگے پڑھا رہی ہو کہ نہیں؟ بس ایف ۔اے تک کافی ہے ۔ ویسے بھی لڑکیوں کو گھر داری میں دل لگانا چاہیے ۔ عرینہ کے بارے میں تو صالحہ کی بھی یہی رائے ہے۔” اماں نے حسب معمول تفصیل بتا دی تو پھوپھی جی نے سر ہلانے پر اکتفا کیا اور خاموش رہیں ۔ عرینہ نے ہکلاتے ہوئے ان کو پکارا ” اماں !” تو انہوں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پوری طرح مڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوئیں ۔ ” ہائے ” مجھے اپنی ماں سے اتنا ڈرکیوں لگتا ہے ؟” اس نے سہم کر سوچا۔” تم اٹھ گئی ؟ کیسی طبیعت ہے اب تمہاری ؟ ” انہوں نے نرمی سے پوچھا ۔ ” میری طبعیت بہتر ہے اب۔” اس نے دھیرے سے جواب دیا ۔
” اب پھر سے اپنی مستیاں اور بد پرہیزیاں نہ شروع کرو ،ایسا نہ ہو پھر سے بیمار ہو جاؤ۔ بہت پیلی ہورہی ہو۔” انہوں نے تاکید کی ” دینا سے کہہ دینا گرم دودھ کا ایک گلاس دے جائے تمہیں ۔” عرینہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔ ” جی بہتر ” اور اب اس میں حوصلہ نہیں تھا کہ وہ ان سے اجازت مانگ لیتی ۔” اجازت تو کسی صورت نہیں ملے گی لیکن دیکھتی ہوں بے عزتی کس انداز سے ہوتی ہے ؟” اس نے سوچا اور بات شروع کی ۔” اماں میں آپ سے اجازت لینے آئی ہوں ۔
” کیسی اجازت ؟” اماں نے تعجب سے اسے دیکھا۔” وہ۔۔۔ لیزا ۔۔۔۔ کی ۔۔۔”
” نہیں ۔ تم بالکل بھی نہیں جاؤ گی۔ صالحہ کو پتہ چلا تو الگ ناراض ہو گی ۔ ” اماں نے اس کی بات کاٹ کے تیزی سے کہا ۔
” ہائے ۔ ہائے ۔ توبہ ہے ۔ بڑی ماں گرجتی بہت ہیں ۔” باورچی خانے کے دروازے میں کھڑی مرینہ نے سوچا ” ہائے مرینہ ! تو مفت میں خو ش ہو رہی تھی ۔تیرے ارمان کا تو بڑی ماں نے گلا گھونٹ دیا ۔ تو کبھی کیس عیسائی کی شادی میں شریک نہیں ہوسکتی ۔” اس نے حسرت سے سوچا اور باورچی خانے کے اندر چلی گئی۔
” کوئی کہیں بھی نہیں جائے گا ۔ میں مفت میں صالحہ سے ناراضی نہیں مول سکتی ۔ وہ ضرور ناراض ہو گی اگر اسے خبر ہوئی تو ۔۔۔ ” اماں نے کڑک آواز میں اعلان کیا ۔” اماں !بڑی پھوپھی کے خبر ہو نہ ہو پڑوس کو ضرور خبر ہو جائے گی۔” عرینہ نے آہستہ سے کہا ۔ بڑی زبان چلنے لگی ہے تمہاری۔۔۔ اماں نے اسے گھورا۔ ” وہ توہمیشہ سے چلتی ہے ۔۔” وہ جلدی سے بولی اور اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑی دینا نے حیرت سے سوچا” یہ لڑکی پانی پوری زندگی میں کبھی ایک منٹ کیلئے خاموش بیٹھی ہو گی ۔؟
” جاؤ ابھی ۔ غیر مسلموں کے ساتھ میل جول رکھنا مجھے پسند نہیں ۔ اماں کے لہجے میں سختی تھی۔” ہاں ۔تو میں کون سا عیسائی بننے جارہی ہوں ۔؟ وہ بہ دستور کھڑی رہی ۔ عجیب بد زبان لڑکی ہے ۔” اماں بڑبڑائیں ۔” دفع ہو جاؤ ۔ پہلے سے زیادہ سختی اور خشکی سے کہاگیا تو وہ سہم کر اپنے کمرے کی طرف گئی ۔
” ملی اجازت ؟” سب کچھ جاننے کے باوجود دینا پوچھ بیٹھی ۔ وہ جانتی تھی عرینہ غصے کے وقت کچھ ایسا بو ل دیتی ہے جو واقعی ہنسا دینے والا ہوتا ہے ۔ بہ ذاتِ خود وہ عرینہ کی ہر الٹی سیدھی بات سے بڑی لطف اندوز ہوتی تھی ۔ ” کیوں کیا ہوا ؟ نہیں ملی کیا ؟” دینا نے خاموش دیکھ کر دوبارہ پوچھا ۔
” شکست و فتح نصیبوں سیتھ ولے اے میر!
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا ” عرینہ نے دینا کو دیکھ کر کہا اور پلنگ پر دراز ہو گئی ۔ ” کیوں؟ تم پھر کیوں لیٹ گئی ؟” دینا اس کے پاس آکے کھڑی ہوئی۔” ہم بیمار ہیں اور سورہے ہیں ۔ تب تک بیماررہیں گے جب تک لیزا کے گھر جانے کی اجازت نہیں ملے گی ۔ ” معنی خیز انداز میں کہہ کر اس نے بستر میں منہ چھپا لیا اور دینا تعجب اور حیرانی کے عالم میں کمرے سے نکل گئی ۔
٭…٭…٭
” نہیں ابو جی ایسے نہیں ہو سکتے۔۔۔”اس نے دیوانہ وار نفی میں سر ہلایا ۔ مگر اس کے سامنے پڑی ڈائری۔۔۔ اور اس میں لکھی باتیں ۔۔۔وہ اس کے باپ کی لکھائی تھی ۔ جو اسے خواب لگ رہا تھا وہ ایک روشن حقیقت تھی ۔ تو کیا اس کا آئیڈیل اتنا گھٹیا اور منافق ہو سکتا ہے ۔؟ وہ انسان جس کے بارے میں وہ سوچتی تھی کہ ” وہ دنیا کے سب سے بہترین باپ ہیں ،کیا وہ اس قدر گر بھی سکتے ہیں ؟” جن میں وہ کمیاں اور خامیاں ڈھونڈنے کی کوشش کر تی تو ناکا م ہو جاتی ۔” اگر میرے ابو ایسے ہیں تو۔۔۔ میں دنیا کے باقی انسانوں کو کیسے پہچانوں گی ؟ اچھے ، برے میں تمیز کیسے کروں گی ؟اسے اپنی جلتی آنکھوں میں ابلتے اشکوں پر کوئی قابو نہیں رہا تھا ۔ اس وقت اس کو حقیقت پر یقین نہ کرنے کی ایک وجہ چاہیے تھی ۔ ” کاش ابو آ پ ذرا سی گنجائش چھوڑ دیتے ۔۔۔” اس کے گال انگارہ ہورہے تھے ۔” آپ تو کہتے تھے دنیا کی سب سے پیاری اور حسین چیز میں ہوں ۔ ۔۔ پھر۔۔ میرے بارے میں آپ نے نہیں سوچا؟ آپ میرے آئیڈیل تھے ابو ! اور میری امی جی ۔۔ ان میں کیا کمی ہے ؟ کیا آپ کی زندگی میں ہمارے باوجود کوئی کمی رہ گئی ہے؟؟؟ آپ نے بہت ظلم کیا ہے ۔۔۔ ابو ! میں اپ کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔” آنکھوں کے ابلتے پانیوں کو اس نے آزادی سے بہنے دیا ۔ آج اس کی امیدوں کا جنازہ اٹھا تھا ۔ اس کو اپنا وجود بھڑکتے شعلوں کی مانند محسوس ہوا ۔ دنیا کا بہترین باپ اس دن اپنے رتبے سے گر چکا تھا ۔اس دن اس کو اپنا آپ یتیم اور اپنی ماں بیوہ معلوم ہوئی تھی اس نے کسی روٹھے ہوئے بچے کی طرح اپنی آنکھوں پہ بازو رکھا اور بلک بلک کے رونے لگی ۔
i hate my father” ” اس نے اپنی ڈائری میں لکھا اور کمرے کا دروازہ کھول کر لائٹ آف کردی اور بیڈ پر دراز ہو گئی۔
٭…٭…٭
بڑی ماں کسی صورت ماننے کو تیا رنہیں تھیں ۔ ان کو آزاد خیال اور گھومنے پھرنے والی لڑکیاں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں ۔” عور ت کو چاردیواری کے اندر شرافت سے بیٹھ کر گھر داری میں دلچسپی لینی چاہئے۔ یوں ہر کسی کے گھر منہ اٹھا کے چلے جانا شریفوں کی سرشت میں شامل نہیں ۔” انہوں نے اپنا نظریہ بیان کیا تھا لیکن دینا کے بہت منانے کے بعد آخر کار وہ مان گئیں۔ ” ٹھیک ہے ۔ لیکن یاتو تم جاؤ گی اس کے ساتھ ۔۔۔ یا سے کہہ دو اپنے ابا سے بات کر لے ۔ وہ چھوڑ آئیں گے ۔” انہوں نے فیصلہ کن انداز میں کہاتھا اور دینا عرینہ کو یہ خبر سنانے گئی تھی ۔
” اجازت مل تو گئی لیکن میں نہیں جارہی ۔اس لیے تمہیں بڑے ابا کے ساتھ جانا پڑے گا ۔” دینا کی اس بات سے عرینہ کے چہرے کا تبسم پھیکا پڑ گئی ۔” تو کیوں نہیں جارہی ؟ تجھے میرے ساتھ جانے میں مسئلہ ہے یا لیزا کے گھر جانے میں ؟ ” عرینہ اب اس نئے مسئلے سے جھنجلا گئی ۔
” لیزا کے گھر جانے میں ۔۔۔” دینا نے صاف گوئی سے کہا ۔
” لیکن کیوں ؟” عرینہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ دینا کو کیسے منائے ؟”
” میرے پاس تمہارے کیوں کا کوئی جواب نہیں ۔” دینا نے کسی صورت نہیں جانا۔ ” وہ آرمی چیف مان گئیں تو یہاں یہ بیگم الگ۔۔۔ ” عرینہ نے ناگواری سے دیناکو دیکھا ۔” بھاڑ میں جاؤ ۔ مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں۔
” شادی کل ہے ناں ؟” مرینہ اچھلتی کودتی کمرے میں داخل ہوئی ۔ اس کی باچھیں کھل رہی تھیں۔ہاں پر تو کیوں اتنی مسکراہٹیں بکھیر رہی ہے ؟ عرینہ سخت بے زار تھی ۔
” میں نے بڑے ابا سے بات کرلی ہے وہ مان گئے ۔ میں کل کے لیے ذرا کپڑے نکالوں۔ ” وہ اچھلتی ہوئی الماری کی سمت بڑھ گئی۔” لو پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ ۔۔۔” دینا بڑ بڑائی ۔
” ہاں ۔ تو تجھے کیا ؟ تجھ سے اچھا ہے میرا عبداللہ۔۔” عرینہ نے پلنگ سے کود کر مرینہ کا بوسہ لیا تھا اور پھر دونوں شادی میں جانے کی تیاریوں میں مصرو ف ہو گئیں۔ دینا نے ان دونوں کو خوشی سے گلے ملتے دیکھا تو اس کے لبوں پر پھیلی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی ۔ بڑی ماں سے بات کرنے کے بعد وہ بڑے ابا کے پاس گئی تھی اور پھر ان کو منا لیا تھا اور یہ بات عرینہ اورمرینہ میں سے کوئی نہیں جانتا تھا ۔
٭…٭…٭
ملازمہ اسے رات کے کھانے پر بلانے آئی تو اس نے ” مجھے بھوک نہیں ” کہہ کر اس کو واپس بھیجا تھا اور خود سرہانے میں منہ چھپائے وہ بے یقینی سے آنسو بہارہی تھی ۔ یقین ہر کسی پر نہیں کیا جاتا ۔کسی کسی پہ کیا جاتا ہے ان پہ جو آپ کے بہت قریب ہوتے ہیں ۔ آپ کے اپنے ہوتے ہیں ۔ آپ جانتے ہیں وہ آپ کا بھروسہ کبھی نہیں توڑیں گے اور آپ آنکھیں بند کرکے ان پر یقین کرتے ہیں لیکن۔۔۔ کبھی کبھی آپ کے بہت نزدیک ، آپ کے بہت اپنے لوگ آپ کو دھوکا دے جاتے ہیں ۔آپ کا یقین توڑ جاتے ہیں اور پھر آپ سوچتے ہیں کہ آپ نے اس پر یقین ہی کیوں کیا ؟” وہ بھی اسی بے یقینی کے عالم میں اپنے گرم گرم اشکوں سے سرہانہ بھگو رہی تھی ۔ لیکن وہاں تو الگ بات تھی۔ وہاں تو یقین نہ کرنے کا سوال ہیں پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ اس نے کسی غیر پر نہیں اپنے باپ پر یقین کیا تھا کسی مشہور شخصیت نہیں بلکہ اپنے باپ کو اپنا آئیڈیل بنایا تھا جن کے بارے میں وہ سب کچھ جانتی تھی ” مگر ان کی ذات کا یہ پہلو۔۔۔۔؟” وہ سسکنے لگی ۔ نہ جانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ انہوں نے اس کے یقین کا مذاق اڑایا تھااور ان کی اس منافقت کا پورا اثر صرف اسی پر پڑا تھا اور وہ بالکل حق بہ جانب تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی اس وقت امی اور شہروز بھائی کھانے کی میز پر ان کے ساتھ ہنس بول رہے ہوں گے ۔
٭…٭…٭
” اماں! آپ کیوں پریشان ہیں ؟ کیا بات ہے ؟” اس نے فکر مندی سے کہا ۔ اس کو اپنی خاموش ماں پر ترس آتا تھا ، ان سے ہم دردی تھی ۔ نجانے ان سے پیار تھا یا نہیں ؟ لیکن ان کو دیکھ کر اس کے دل میں ایک درد سا اٹھتا تھا بالکل اسی طرح جس طرح کبھی کسی یتیم یا بھکاری کو دیکھ کر اس کے دل میں اٹھتا تھا ، وہ عورت پیارو محبت کے لائق تھی یا نہیں ؟ لیکن ترس و ہم دردی کی ضرور لائق تھی ۔
” بس بیٹا ! مرینہ کی فکر کھائے جارہی ہے ۔ اس میں بچپنا بہت ہے ۔ زندگی کا کیا بھروسہ میں ہوں نہ ہوں۔ پھر اس کو کون سمجھائے گا؟” وہ زرد رو سی عورت جس کو اس نے بہت کم بولتے دیکھا تھا ۔ وہ عورت اس کی ماں تھی لیکن اس نے کبھی اپنی بیٹیوں کو سینے سے نہیں لگایاتھا ۔ دینا کا جی چاہا وہ انہیں جوا ب دے کہ جس طرح وہ اب ہے اسی طرح وہ پھر بھی ہوگی کیوں کہ اس کو کبھی بھی آپ نے نہیں بلکہ ہمیشہ بڑی ماں نے سمجھا ہے لیکن وہ چُپ رہی اور تھوڑی دیر کے توقف کے بعد اس نے اپنی رنجیدہ ماں کے سوکھے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے کہا ” اماں ! اس میں پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ۔ ابا کے ہوتے ہوئے آپ سوچتی ہوں گی زندگی کیسے گزرے گی ؟ پر ان کے بغیر بھی زندگی اچھے سے گزررہی ہے ۔ مرینہ کا لاڈ سب نے اٹھایا ہے ۔ کس نے بھی ابا کی کمی محسوس نہیں ہو نے دی ۔ زندگی جیسے بھی ہو گزر جاتی ہے اماں ! اوریہی تو زندگی کی خوبی ہے ۔ اب جو رک جاتی تو ہم کیا کر پاتے ؟ ” اپنی ماں کو سمجھاتے سمجھاتے وہ قطعاً یہ بھول گئی کہ وہ اپنی عمر اور تجربے سے کہیں زیادہ بڑی بڑی اور سمجھ داری والی باتیں کررہی ہے ۔” تم دونوں کو اچھے اچھے رشتے مل جائیں۔ اپنے گھر وں کی ہو جاؤ تو میں سکون سے مرسکوں۔” ان کی اس بات سے اچانک وہ مسکراتا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگ گیا ۔ اس کا سر چکرا گیا لیکن اس نے خود پر قابو رکھا ۔ یہاں پر اس شخص کا کہیں ذکر نہیں تھا جو کبھی کبھار فون کر کے بڑے ابا ، بڑی ماں ، اماں اور پھوپھی جی سے بات تو کر لیتا تھا لیکن اس نے ایک بار بھی دینا سے بات کرنے کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی ۔اس نے سر جھٹک کر اماں کو دیکھا ۔ فضول میں پریشان ہوتی ہیں آپ ۔” آپ یہ بار بار مرنے والی باتیں نہ کریں۔ کچھ بھی نہیں ہو گا آپ کو ” میرا پریشان ہونا فطری بات ہے ۔ تم دونوں کو زندگی گزارنے کے لیے ہم سفر کی ضرورت پڑے گی ۔عورت تنہا زندگی نہیں گزار سکتی بیٹا ! عورت کی مثال بیل کی طرح ہے اور مرد دیوا ر ہوتا ہے ۔ بیل دیوا ر کا سہارا لیتی ہے ورنہ تو زمین پر پڑی رہتی ہے ۔ عورت مر د کے بغیر بے قیمت ہے ، بے بس ہوتی ہے ۔ ” ان کی آواز بھرا ئی ہوئی تھی۔ دینا نے دیکھا ان کی خالی آنکھیں اشکوں سے بھری تھیں ۔ اس کا کلیجہ کٹ سا گیا ۔ اس خاموش عورت کے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ تھا لیکن سننے کو کوئی نہیں تھا ۔
٭…٭…٭





اس نے منزہ کے قدموں کی آواز پہچان لی لیکن سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ منزہ لائٹ آن کیے بغیر خاموشی سے آ کر اس کے نزدیک بیڈ پر دراز ہو گئی ۔ حمائل کو لگا کسی نے اسے دوزخ کے بھڑکتے شعلوں میں دھکیل دیا ہو۔ نہ جانے کتنے گھنٹوں تک وہ اس بھڑکتی آگ میں جلتی رہی۔اشک تو ابلتے پانیوں کی مانند آنکھوں میں امڈ آتے رہے ۔ اس نے اشکوں کو خشک کرنے یا ان کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ کم از کم آج کی رات تو اپنے آنسوؤں کو روکنے کی نہیں تھی ۔ اس کا بھروسہ اور یقین اور آئیڈیل ٹوٹا تھا ۔ کون جانے اس کا کتنا نقصان ہوا تھا ؟ پورے گھر پر چھائی ہوئی خاموشی سے اس بات کا پتا چل رہا تھا کہ سب سو چکے تھے اس کے نزدیک لیٹی منز ہ علی بھی ۔ جس کا چہرہ اندھیرے کی وجہ سے وہ نہیں دیکھ پارہی تھی ۔ آہستہ سے بیڈ سے اتر کر وہ دبے قدموں سٹڈی ٹیبل کے پاس آگئی ۔ نیلے رنگ کی ڈائری اٹھا کر وہ کمرے سے نکل گئی۔
” اونہہ۔ پندرہ منٹ کا تو راستہ ہے ۔ اماں نے ایسے ہی ابا کو ساتھ بھیج دیا ۔ اب ان کے سامنے سر جھکا کے شریفوں کی طرح چلنا۔۔۔۔حد ہوتی ہے ۔” وہ خاموشی سے ابا کے پیچھے پیچھے چلتی گئی ۔ مرینہ بھی خلاف معمول خاموش تھی ۔” میں دو بجے لینے آجاؤں گا ۔ ” ابا کی اس بات کا اس نے صرف ” جی بہتر ” میں جوا ب دیا ۔” مسرورہ جیسی لڑکیوں کی طرح ،جی ہاں ،اور ،جی نہیں ، میں جواب دینے سے جان نکلتی ہے میری ۔ اماں کہتی ہیں بڑی تابع دار بچی ہے ۔ بھاڑ میں جائے ایسی تابع داری۔۔۔ زہر لگتی ہے مجھے تو۔” اس نے مرینہ کو دیکھا ” اس کو دیکھو۔ کیسی شریف بنی ہے ۔” سیا ہ رنگ کی چادر اوڑھے وہ معصوم لگ رہی تھی ۔
” ابا انہیں چھوڑ کر واپس آگئے تھے ۔ عرینہ نے دیکھا لیزا کسی دراز قد اور گندمی رنگ والے سجیلے جوان باتیں کررہی تھی ۔ عرینہ کو دیکھ کر وہ اس جوان کو چھوڑ کر ان کی طرف دوڑی آئی ۔ عرینہ بڑی گرم جوشی سے اس سے گلے ملی تھی جبکہ مرینہ نے جھجکتے ہوئے صرف ہاتھ ملانے پر ہی اکتفا کیا ۔” کیوں ؟ دینا نہیں آئی؟” لیزا نے پوچھا تو عرینہ نے جلدی سے مرینہ کا تعارف کروایا ۔ ” چلو آو شمعو ن سے ملواتی ہوں۔” لیزا نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر کھینچا تھا ۔ شایدوہ مدافعت کرتی لیکن تب وہ شمعون کے سامنے کھڑی تھی ۔ مرینہ اس کے کندھے سے کندھا ملائے خاموش کھڑی تھی ۔ لیزانے بڑی بے تکلفی سے شمعون سے ان کا تعارف کروایا تھا ۔عرینہ پہلے سے جانتی تھی کہ شمعون لیز ا کا منگیتر اور اس کی بہن کا دیور ہے ،لیکن مرینہ کو یہ سن کر سخت دھچکا لگا تھا۔
” ہائے ۔ اس ہینڈ سم لڑکے کو پوری دنیا میں بس یہی کالی چڑیل ملی تھی کیا ؟” اس نے قدر ے ناگواری سے لیز ا کو دیکھا جو کہ شمعون کا بازو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی ۔ ” تم نے مجھے پہلے کبھی نہیں بتایا کہ تمہاری اتنی حسین سہلیاں بھی ہیں۔” شمعون کے لبوں پر گہری مسکراہٹ تھی ۔ لیزانے اس کی بات پر قہقہہ لگایا تھا، عرینہ مسکر ا کررہ گئی جب کہ مرینہ منہ بسورے کھڑی شمعون کی منگیتر کے بد صورت ہونے کا سوگ منا رہی تھی۔
” چلو تم ان کو بٹھاؤ ۔ ” شمعون کی اس بات پر لیزا ان کو لے کر ان کرسیوں کی جانب بڑھی تھی جہاں مہمان بیٹھے ہوئے تھے ۔ بٹھا کر وہ واپس لا ن گئی تھی جہاں شمعون اوراس کی ماں ہنس بول رہے تھے۔
” لیزا کا منگیتر ہینڈ سم ہے ناں ؟” عرینہ کی نگاہوں نے لیزا کا تعاقب کیا تھا ۔ مرینہ بھی اس طرف دیکھنے لگی ” ہاں ۔ بلکہ مزید بھی ہینڈ سم لگتا اگر یہ کالی چڑیل اس کے ساتھ چپکی نہ رہتی تو ۔۔۔ ” اس کی اس بات پر عرینہ مسکرانے لگی ۔ واقعی شمعون اور لیزا میں بہت بے تکلفی تھی ۔ ” ان دونوں کا رشتہ بھی اس طرح ہے جس طرح میرا اور علی ۔۔۔ کا ۔۔” اس نے بے اختیار سوچا اور میں نے احترام ہی کیا ہے ہمیشہ۔۔ کبھی جی بھر کر ان کو دیکھا بھی نہیں ۔۔۔” اس کی نگاہیں بہ دستور لیز اور شمعون کا طواف کررہی تھیں۔ ” یہ رشتہ ہمارے بڑوں نے جوڑا ہے ۔۔ اور میں ان کے فیصلوں کا احترام کرتی ہوں ۔” وہ مسلسل سوچتی جارہی تھی ۔زندگی میں پہلی بار شاید اتنی سے سوچ رہی تھی اور اس وقت جو اماں وہاں ہوتیں اور اس کی سوچ پڑھ لیتیں تو اس کے صدقے جاتیں ، اس کی بلائیں لیتیں ۔ اللہ کا شکر ادا کرتیں کہ ان کی اکلوتی مگر بد زبان بیٹی سمجھ دار ہو گئی ہے ۔” اگر مجھے اپنے بڑوں کافیصلہ منظور ہے تو پھر میں یہ سب سوچے کیوں جارہی ہوں ؟ مجھ میں اور لیز ا میں کچھ بھی ایک جیسا نہیں ۔ وہ ایک الگ مذہب کی لڑکی ہے تو پھر…مجھے اس پر رشک کیوں آتا ہے ؟ زندگی میں آزادی کیا بہت اہم ہوتی ہے ؟” لیزا ہماری طرح سر جھکا کے نہیں بلکہ بڑی بے تکلفی سے اپنے بڑوں سے بولتی ہے لیکن میرا دین اور میرا سماج اس سے الگ ہے تو پھر میں اپنا تجزیہ اس کے ساتھ کیوں کررہی ہوں ؟ میں کیوں خود کو اس کے ساتھ ملا رہی ہوں ؟ وقت کے تھوڑے سے حصے میں اس نے نہ جانے کتنا زیادہ سوچ لیا ۔ کچھ عجیب سا انداز تھا اس کے سوچنے کا ، وہ بہت عجیب سے احساس سے دوچارتھی ۔ تھوڑی دیر بعد لیزا مسکراتی ہوئی اس طرف آئی اور اس کے ساتھ اِدھر اُدھر کی باتوں میں مگن ہو کے وہ چند منٹ پہلے کے احساس کو بالکل بھول گئی ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!