پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

” اس وقت؟ ” انہوں نے ٹائی ہٹا کر صوفے پررکھ دی ۔ حمائل لاؤنج کے دروازے میں خاموش کھڑی تھی۔و ہ اپنے باپ کے غیر ضروری سوالوں کے جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی تھی۔
” گیدرنگ ایوننگ کو ہے ۔ آپ کو کیا لگتا ہے مجھے دن کو جانا چاہیے ؟” اس نے کاٹ دار لہجے میں کہا ۔
میں نے ایسا تو نہیں کہا ۔” ان کا انداز بے نیاز سا تھا۔
” لیکن جلدی واپس آنے کی کوشش کرنا۔ ” انہوں نے حمائل کا چہرہ دیکھے بنا کہا۔
” یہ rulesآپ کے لیے بھی ہونے چاہئیں۔ ” اس نے سخت لہجے میں کہا ۔
حمائل ! امی نے اسے خاموش کرنے کی کوشش کی ۔
” ہر انسان کی اپنی proper limits ہوتی ہیں” ۔ ان کا لہجہ سر د تھا ۔ نہ جانے وہ کیوں اسے کریدنا چاہتے تھے ۔
” لیکن میری کوئی limits نہیں ۔” حمائل کی آواز اونچی ہو گئی ۔
” Stop itحمائل” ! امی چلائیں ۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم ؟
” وہی جو آپ نہیں کہہ سکتیں ۔” اس نے معنی خیز انداز میں کہااور ایک جھٹکے سے باہر نکل گئی ۔
” آئی ایم سوری ۔ وہ بس ذرا ۔۔۔” وہ ان کے پاس آکر بیٹھ گئیں ۔
” تم یہ مت بھولوکہ وہ تم سے زیادہ میری بیٹی ہے ۔” انہوں نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا لیا۔
” تمہیں اس کو ڈانٹنا نہیں چاہیے تھا ۔”
وہ آپ کے ساتھ بد تمیزی سے بات کر رہی تھی ۔” وہ نرم لہجے میں بولیں ۔
” اس کو کوئی مسئلہ درپیش ہے، وہ ڈسٹرب ہے ۔ لیکن میں وجہ نہیں سمجھ پا رہا ۔ ” انہوں نے آنکھیں بھینچ لیں۔
” اسے کوئی مسئلہ ہوتا تو وہ ڈسکس کرتی ۔ کسی بات کو وہ چھپاتی نہیں ۔”
” تم اس کے رویے سے اندازہ لگا لو ۔ ہر بات بولی تو نہیں جا سکتی ۔”
” آپ بلاوجہ فکر مند ہورہے ہیں ۔ ایسی کوئی بات نہیں وہ تو شروع ہی سے منہ پھٹ ہے ۔”
” میں آج بھی دل سے سوچتاہوں مرینہ ۔!انہوں نے آنکھیں کھول کر اپنی بیوی کو دیکھ کر متانت سے کہا اور پھر سے آنکھیں بند کر دیں۔
٭…٭…٭





بڑی پھوپھی کے گھر میں مہانوں کی آمد اور ان کی خاطر مدارت نے اسے اتنا مصروف رکھا کہ وہ اصغر یا مرینہ تو کیا اپنے بارے میں بھی سوچ نہ پاتی ۔ پھوپھی کے گھر میں ایک ہفتہ گزار کر اگر وہ جسمانی طور پر تھک گئی تھی تو ذہنی طور پر وہ پر سکون تھی ۔”یہاں مرینہ میرے سامنے نہیں ہوتی شاید اس لیے ۔۔۔” وہ یقین سے سوچ لیتی ۔
” میرا خیال ہے مجھے چلنا چاہیے ۔”صحن میں پڑی چارپائی پر فردوس بھابھی کے پاس بیٹھی وہ گوشت کاٹ رہی تھی ۔
” کیا مطلب چلنا چاہیے ؟” فردوس بھابھی نے ناراض ہو کر کہا ۔
” مطلب یہ کہ مہمان آنا بند ہو گئے ہیں ۔ میں یہاں پورا ایک ہفتہ رہی ہوں ۔پیچھے مرینہ بھی بستر پر پڑی ہے ۔اماں کو مشکل ہو گا کا م سنبھالنا ۔”
” لو بھئی ! عرینہ جو ہے گھر میں اور بڑی ممانی ۔”
” عرینہ کالج جاتی ہے او بڑی ماں تو پانچ منٹ سے زیادہ کھڑی نہیں رہ پاتیں ۔ ان کی تو طاقت جیسے ختم ہو گئی ہو۔ ” وہ اچانک اداس ہو گئی ۔
” اچھابھئی ! چلی جانا لیکن آج نہیں کل۔” فردوس بھابھی نے طے کیا ۔
” ابھی عصر کا وقت ہے ۔ ابھی بھی جا سکتی ہوں ۔ کوئی دور تھوڑی ہے ۔” وہ چارپائی سے اٹھ گئی ۔
” نا بھئی آج تو تم نہیں جاسکتیں ۔” فردوس بھابھی اس کے پیچھے باورچی خانے تک آگئیں۔
” اچھا ٹھیک ہے ۔ میں نہیں جاتی آج ۔” وہ چولہے میں آگ جلانے لگی۔
٭…٭…٭
” ویلکم !ویلکم ! مائی لیڈی ۔” اس کو دیکھتے ہی صبار اس کی جانب بڑھ گیا ۔
” تھینک یو !” اس نے صبار کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا ۔
” یہ میرے لیے ؟” صبار حمائل کے ہاتھ میں پھول دیکھ کر مسکرایا ۔
No! these are for uncle.” ” اس نے ایک نازو ادا کے ساتھ کہا اور اپنے باقی دوستوں کی جانب بڑھ گئی ۔
” تم سب لوگ آگئے ہوتو چلو میں تم لوگوں کو ڈیڈی سے ملواتا ہوں ۔”
صبار کے ڈیڈی سے ملنے کے بعد وہ کافی دیر تک گپ شپ کرتے رہے ۔” پارٹی ختم ہونے کے بعد بھی وہ سب صبار کے ساتھ اس کے کمرے میں بیٹھے مطیع کے دلچسپ لطیفوں سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔”
” Let’s play a game. ” تابندہ اپنی گود میں پڑے کشن پہ بازو جماتے ہوئے بولی ۔
میٹ کے بورنگ جوکس سننے سے اچھا ہے کوئی گیم کھیلی جائے ۔”
” ہماری باتیں سننے کے لیے ہمارے جیسا Taste ہونا چاہیے۔ ” مطیع جھٹ سے بو ل پڑا ۔ تابندہ نے ناگواری سے اسے گھورا لیکن خاموش رہی ۔”
” ہاں ۔ چلو Truth and dare گیم کھیلتے ہیں۔” افصہ صوفے سے اٹھی۔ حمائل کی نظریں بے اختیار وال کلاک کی طرف اٹھ گئیں ۔ ساڑھے دس بج رہے ہیں۔ وہ صوفے سے اٹھی ۔
” پہلے سیٹنگ تو کر لو ۔” اس نے کمرے کے درمیان میں پڑی میز کے گرد کرسیاں رکھ دیں۔”
” کامل نے کوکا کولا کی خالی بوتل اٹھا کر میز کے اوپررکھ دی ۔ گیم شروع ہو گیا ۔
” تو آج بہت پیاری لگ رہی ہے ۔ یہ شاید میں تجھے نہ بتا پاؤں ۔” صبار نے بوتل گھماتے ہوئے حمائل کو دیکھ کر سوچا۔
بوتل کا سرا تابندہ کی طرف تھا ۔” تو تو بہت بولتی ہے ناں ۔چل آج کوئی ایسی بات کہہ دے ۔ جو تو نے کبھی نہ بولی ہو ۔ ” صبار نے تابندہ سے پوچھا ۔
” ریڈیو پہ میوزک، نیوز سب چلتا ہے ۔ ” مطیع نے تابندہ کے بولنے سے پہلے جھٹ سے کہہ دیا۔
” مجھے یہ کہناہے کہ ۔۔۔” تابندہ ہکلاتے ہوئے بولی ۔
” OMG!تابو! تو بولتے ہوئے جھجک رہی ہے ؟” حمائل نے حیرانگی سے کہا۔
” کہ۔۔۔ میٹ ! میں جو بھی بولتی ہوں یا کرتی ہوں It’s all just for fun… ” تابندہ نے مطیع کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
” I don’t actually mean it! “تابندہ بولتی گئی ۔
” بس کر یار!بس کر۔۔۔ تیرا دیوداس صدمے سے مر جائے گا۔”
مطیع نے اسے چھیڑا وہ جواباًمسکرادی ۔
گیم پھر سے شروع ہو گیا ۔ کامل نے بوتل گھمائی۔ بوتل کاسرا صبار کی طرف تھا ۔
” میں dare لیتا ہوں ۔ ” صبار کرسی سے اٹھا ۔
” چل ! ماہی کیلئے ایک سونگ گا لے ۔” کامل نے حکم دیا ۔
” اوکے ۔! Maahi! It’s for you ” صبار نے اپنائیت سے حمائل کو دیکھا ۔ اس نے جلدی سے اپنی نگاہیں جھکا لیں ۔
وہ گانے لگا۔ ” میری قسمت کے ہر اک پنے پہ
میرے جیتے جی بعد مرنے کے
میرے ہر اک کل ہر اک لمحے میں
تو لکھ دے میرا اسے
ہر کہانی میں ، سارے قصوں میں
دل کی دنیا کے سچے رشتوں میں
زندگانی کے سارے حصوں میں
تو لکھ دے میرا اسے
اے خدا! اے خدا
جب بنا اس کا ہی بنا
” اوئے رانجھے۔! بس کر ۔۔۔۔ تیری ہی ہے ۔ کوئی اور بے وقوف اس کو آکے نہیں لے جائے گا ۔ ” مطیع نے مذاق اڑایا ۔
” wowایس بی ! you are supreb ” افصہ نے تعریف کی ۔
” جس کیلئے گایا وہ تو کچھ بولی ہی نہیں ۔” صبار کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا ۔
” وہ ابھی تک شاک میں ہے ۔” مطیع جلدی سے بولا ۔ سب ہنسنے لگے ۔
گیم شروع ہوا تو افصہ نے بوتل گھمائی ۔ بوتل کا سرا مطیع کی طرف تھا ۔
” یہ بتا کہ ۔۔۔Do you love somone? ” افصہ نے پوچھا ۔
” یہ کیسا سوال ہے ؟” مطیع ست پٹا گیا ۔
” short question ” صبار جلد ی سے بولا ۔
” نہیں ۔ میں اس کا جواب نہیں دوں گا ۔” مطیع بضد تھا ۔
” نہیں ۔ تجھے جواب دینا پڑے گا۔
” میں نہیں دوں گا ۔”
” تو cheating کررہا ہے ۔”
” چھوڑ ناں ایف !ہوگی کوئی اس کی طرح کی جوکر ۔” حمائل نے مذاق اڑایا ۔
” تیرے والے سے بہت بہتر ہے ۔” مطیع نے حمائل کو جواباً گھورا۔
” میٹ ! میں پوچھ رہی ہوں ہاں یا ناں ؟” افصہ نے دو ٹوک انداز میں پوچھا۔
” ہاں ! مطیع نے مختصراً کہا ۔
” wow ۔ کون ہے وہ ؟ حمائل کا اشتیاق بڑھ گیا ۔
” سوال صرف ہاں یا ناں کا تھا ۔” مطیع سنجیدہ ہو گیا ۔ سب حیرت سے اس کا منہ دیکھ رہے تھے اور بریک وقت سب کے ذہنوں میں یہی ایک سوال تھا ۔ کون ہوگی وہ ؟” لیکن مطیع کسی صورت نام بتانے پر راضی نہیں ہوا ۔
حمائل نے بوتل گھمائی ۔ بوتل کا سرا پھر سے مطیع کی طرف تھا ۔
” اب نام بتا دے اس فی میل جوکر کا ۔ ” حمائل کا انداز تحکمانہ تھا ۔
” یہ کیا ہے ؟ تم لوگ صرف میر ے پیچھے پڑے ہو ۔ ” مطیع بڑ بڑا کر اٹھ گیا ۔
” نام بتا ۔” تابندہ نے مطیع کا بازو پکڑ لیا ۔
گیم کے بیچ میں نہیں اٹھ سکتا تو ۔ ” وہ مجبوراً واپس بیٹھ گیا ۔
” بتا دے میٹ !پیار کیا تو ڈرنا کیا ۔” صبار نے اسے چھیڑا ۔ مطیع نے ایک نگاہ اپنے دوستوں پر ڈالی اور پھر آنکھیں جھکا کر دھیرے سے بولا” تابو” ۔
” وہاٹ ؟؟؟” سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔
” you stupid شکل دیکھی ہے اپنی گدھے !” تابندہ سینڈل اتار کر مطیع پر جھپٹ پڑی ۔
برگر کھا کھا کے کوفتہ بن گیا ہے اور میرا نام لیتا ہے ۔ ” تابندہ کے منہ میں جو آرہا تھا وہ بولے جارہی تھی ۔
” تابو !stop it” ” صبار نے تابندہ کو ہاتھ سے پکڑ کر زبردستی بٹھا دیا ۔
” مجھے تو تھپڑ پڑنے والے ہیں لیکن تجھے تو جوتے کھانے ہیں میرے یار! کیوں نہ ابھی سے رولیں؟ ” صبارنے جا کر مطیع کے کان میں کہا۔ وہ مظلوموں کی طرح سر جھکائے بیٹھارہا ۔
” تم سب ایسے نہ دیکھو مجھے” اس نے سر اٹھا کر سب کو دیکھا ۔
” ہا ں ہاں ! ایسے نہ دیکھو اسے ۔۔ پھولوں کے ہار پہنا دو اس کو ” تابندہ نے طنز کیا ۔
” میرا فی الحال شادی کا کوئی ارادہ نہیں ۔” مطیع کرسی سے اٹھتے ہوئے اپنے خاص انداز میں بوالا ۔
It’s twelve O’clock. I think we should leave now” ” افصہ اٹھتے ہوئے بولی اور اس کے ساتھ ہی سب اٹھ گئے ۔
” Thank God!بارہ بج گئے ۔ early جاتی تو انہیں لگتا کہ I’m obeying him.” ۔” حمائل نے اطمینان سے سوچا تھا ۔
٭…٭…٭





شام کے وقت وہ مسرورہ کے ساتھ چھت پر ٹہل رہی تھی ۔
” علی بھائی کے کمرے میں ہر چیز کتنے سلیقے سے پڑی ہے۔ ماشااللہ۔ لگتا ہی نہیں یہا ں کوئی رہتا ہے ۔” اس نے کمرے کے اندر جھانک کر کہا ۔
” اب تو وہ آپ کے ڈیرے پر جا کے سو جاتے ہیں ۔ تبھی ہر چیز سلیقے سے پڑی ہے ورنہ تو ۔۔ ” مسرورہ ٹہلتے ہوئے بولی ۔
” تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں ایک جیسے ہیں ۔ عرینہ کو ویسے بھی سلیقہ مند لوگوں سے چڑ ہے۔” یہ سوچ کر وہ یک لخت مسکرائی۔
” لگتا ہے اماں مجھے بلا رہی ہیں ۔” مسرورہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی ۔
” چلو ۔ تم جاؤ میں تھوڑی دیر ٹہل کے آتی ہوں ۔” وہ ٹہلتے ہوئے بولی ۔
” نجانے میری منزل کیا ہو ؟ مجھے تو راستوں کاانتخاب کرنا بھی نہیں آتا ۔”
اس نے آسمان پر دمکتے تاروں کے بیچ چمکتے چاند کو دیکھ کر اداسی سے سوچا ۔” میں چاند بن جاؤں ؟ جو دوسروں کو روشنی دیتا ہے ۔یا پھر کوئی اشارہ بن جاؤں جو صرف اپنے لیے چمکتا ہے ؟ “بدستور آسمان کو دیکھتے ہوئے وہ ٹہلتی رہی اور بے اختیار کسی کے ساتھ ٹکرا گئی۔
” اوہ !” وہ گھبرا گئی ۔
” آپ ؟ اس نے علی کو پہچان لیا ۔”
آپ تو ڈیرے پر جا کے سوتے ہیں ناں ؟ اس نے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے، لیکن وہ خاموشی ے سر جھکائے کھڑا رہا ۔
” کیا ہوا ۔؟ آپ خاموش کیوں ہیں ؟” اس نے تشویش ناک نگاہوں سے علی کو دیکھا ۔ علی کے کمرے میں سے آتی بلب کی روشنی میں اس نے دیکھا وہ رو رہے ہیں ۔ دینا کے وجود بھر میں ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔
” یہ خاموش کیوں ہیں ؟ کچھ بولتے کیوں نہیں ؟” اور یہ آنسو؟ اس کا دم گھٹنے لگا ۔
” بتائیں ناں علی بھائی ! کیا ہوا ؟” اس نے علی کو جھنجھوڑا ۔
” عرینہ ۔۔۔۔” وہ کوشش کے باوجود بو ل نہیں پایا ۔
” کیا ہوا عرینہ کو ؟ بتائیں ناں ۔” دینا نے علی کا بازو پکر کر اسے زور سے ہلایا ۔
” وہ کہیں غائب ہو گئی ہے ۔” وہ مٹی کے ڈھیر کی طرف نیچے بیٹھتا چلا گیا ۔
” کیا مطلب ؟ غائب ہو گئی ہے ؟ “وہ علی کے پاس بیٹھ کر بے یقینی سے بولی ۔
آپ کھل کر بات کیوں نہیں کرتے ؟ وہ جھنجلا گئی ۔ا س کا دل گھبرا رہا تھا ۔
” وہ آج اپنی عیسائی دوست کے گھر گئی تھی پر واپس نہیں آئی ۔ اس کی دوست کا منگیتر بھی غائب ہے ۔ وہ ایسے بول رہا تھا جیسے اس میں ذرا برابر طاقت نہ ہو ۔دینا کو اپنی سماعتوں پر پہاڑ گرتے محسوس ہوئے ۔ خالی الذہنی کے عالم میں اس نے بے یقینی سے علی کے سمٹے ہوئے وجود کو دیکھا ۔
” ایسا نہیں ہو سکتا ۔ ” ا س کو اپنے بولے ہوئے الفاظ سنائی نہیں دئیے آج زندگی میں پہلی بار اسے اپنی کہی بات پہ یقین نہیں تھا۔
” عرینہ غائب ہے ؟ اس نے خود سے پوچھا ۔ “نہیں ایسا نہیں ہو سکتا “۔ اتنا تو وہ عرینہ کو جانتی تھی کہ وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرسکتی ۔
” آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ۔ اس کے اندر اچانک توانائی آگئی تھی ۔
” بہت تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملی ۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے دینا؟ کیا ایسا ممکن ہے؟
وہ دینا کو دیکھ کر بے بسی سے رونے لگا۔ دینا کو لگا جیسے وہ خواب دیکھ رہی ہے پر و ہ آنسو۔۔۔۔ وہ حقیقت تھے ۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھی ۔
” مجھے جانا ہے ۔” وہ جانے لگی ۔
” بھائی اور ابا ڈھونڈنے گئے ہیں اسے۔ یہاں کسی کو نہیں پتا ۔۔۔ خاموشی سے جانا ۔ ” اس نے جاتے جاتے علی کی آواز سنی اور تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی ۔
” میں ڈھونڈ لاؤں گی عرینہ کو اور دکھاؤں گی سب کو کہ وہ سب غلط تھے۔ ” اس نے فیصلہ کیا اور خاموشی سے گھر سے نکل گئی ۔
٭…٭…٭
” کیا تو بھی میر ی طرح فرسٹریٹڈ ہے ؟ حمائل نے لاؤنج سے نکلتی تابندہ کو دیکھ کر حیرت سے سوچا۔ ” تیر اباپ بھی منافق ہے کیا ؟ اور تیرے گھر میں بھی کوئی منزہ علی رہتی ہے ؟ اس لیے تو ذرا سی بات پر میٹ سے لڑ پڑتی ہے ۔ اس نے سیاہ رنگ کی کار میں بیٹھی تابندہ کو دیکھ کر سوچا ۔ اپنی محرومیاں یا د کر کے وہ اچانک اداس ہو گئی ۔
” ہائے ۔poor mat.. ” تابندہ نے اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے سوچا ۔
” تو مجھے سب کے سامنے نہ کہتا تو میرا reaction بھی ایسا نہ ہوتا ۔Anyways I love you ” اس نے اپنائیت سے سوچا اور مسکرا دی۔
٭…٭…٭
تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتی وہ لیزا کے گھر تک پہنچ گئی ۔
” کیا کہوں گی اندر جا کر ؟” تھوڑی دیر دروازے میں کھڑے رہنے کے بعد وہ کچھ بھی سوچے بغیر لیزا کے گھر میں داخل ہوگئی ۔
برآمدہ تاریک تھا ۔ صرف ایک کمرے میں سے بلب کی روشنی جھانک رہی تھی ۔ دینا بھاری بھاری قدم اٹھاتی اس کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔ اندر سے آنے والی رونے کی آواز نے اس کے قدم جھکڑ لیے ۔
” تم یہ رونا بند کردو اور یہ لو پانی پی لو ۔ ” ایک جوان نسوانی آواز ابھری اور اس کے ساتھ چند دبی دبی ہچکیاں۔
” ممی ! آپ کیوں چپ بیٹھی ہیں ؟” وہ آواز جھنجلا گئی ۔
دینا نے بڑھ کر کمرے میں جھانکا ۔ لیزا پلنگ پر سمٹی ہوئی بیٹھی سسک رہی تھی ۔ اس کے پاس ایک عمر رسیدہ عورت بیٹھی تھی جو یقینا اس کی ماں تھی۔ ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھی بھاری بھر کم وجود والی عورت یقینا شمعون کی ماں تھی۔
” جوزف گئے ہیں اسے ڈھونڈنے۔۔” لیزا کے سرہانے کھڑی کرسٹینا کو اس نے پہچان لیا ۔
” آپ سب ایسے کیوں بیٹھے ہیں ؟۔” مجھے یقین ہے جوزف اسے ڈھونڈ نکالیں گے ۔” کرسٹینا اپنی ساس کے پاس کرسی پر بیٹھ گئی ۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی ۔ دینا کا دل گھبرانے لگا ۔ اس کے قدم غیر ارادی طور پر کمرے کے اندر داخل ہوئے ۔
” لیزا!” دینا کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
” کرسٹینا دیکھتی ہی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ وہ دینا کو کالج کے زمانے سے جانتی تھی ۔ جب وہ بی اے کررہی تھی اور دینا ایف اے ۔
” دینا !تم ؟اس نے بے یقینی سے دینا کو دیکھا ۔ دینا خاموشی سے آگے بڑھ گئی ۔ اسے خود بھی اس حقیقت کا یقین نہیں تھا ۔
لیزا نے سر اٹھا کر دینا کو دیکھا اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر اس کے پاس گئی ۔ ” کیوں آئی ہو تم یہاں؟کیا کرنے آئی ہو ؟” لیزا کی آواز اونچی ہو گئی ۔
” عرینہ ۔۔۔۔ عرینہ کو لینے آئی ہوں ۔” اس کے لہجے میں اعتماد تھا ۔
” ابھی بھی تم لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ یہاں ہے ؟ بھاگ گئی ہے ۔وہ ۔۔۔ میرے منگیتر کے ساتھ ۔۔۔” آنسوؤں کی گہری لڑیاں آنکھوں سے ٹھوڑی تک بہ گئیں ۔
” بھروسہ کیا میں نے اس پر، لیکن وہ اس لائق ہی نہیں تھی ۔میں نے اسے دوست سمجھا ۔ شمعون سے ملوایا اسے لیکن اس نے کیا کیا ؟”
” جانتی ہو؟ بھاگ گئی اس کے ساتھ ۔۔” لیزا چیختے چیختے نڈھال سی دینا کے قدموں میں بیٹھ کر سسکنے لگی ۔
” یہ سچ نہیں ہے لیزا! عرینہ ایسا نہیں کر سکتی ۔ میں جانتی ہوں اسے ۔ تم بھی جانتی ہو ۔ دوست ہے وہ تمہاری۔” وہ لیزا کے پاس نیچے بیٹھ گئی ۔
” دوست ہے نہیں تھی ۔” لیزا کی آواز پھر سے اونچی ہو گئی ۔
” چار سال کی دوستی میں اعتماد تو ہونا چاہیے ۔” دینا نرم لہجے میں بولی ۔
” ہاں اعتماد ہی تو کیا تھا اس پر اور آج وہ مجھے برباد کر کے چلی گئی ۔توڑ دیا اس نے میرا اعتماد ۔”
” تم نے یہ کیسے مان لیا کہ اس نے تمہارا اعتماد توڑا ہے ؟”
“میں اگر گھر میں نہیں تھی تو کیوں آئی وہ یہاں ؟ وہ جانتی تھی گھر پر کوئی نہیں ہے پھر بھی وہ یہاں آئی ۔ خود کے ساتھ برا کیا میں نے ۔ اس پر بھروسہ کر کے خود کو برباد کر ڈالا میں نے۔” لیزا نے اپنے گھٹنوں پہ سررکھ دیا ۔
تم جاؤ یہاں سے ۔جاؤ۔” سر اٹھا کر اس نے دینا کو دیکھا ۔
” تم جس لڑکی کی تلاش میں آئی ہو ۔ وہ بھاگ گئی ہے ۔ اس کے لیے یہ بھی کوئی بات نہیں کہ وہ جس کے ساتھ بھاگی ہے وہ مسلمان نہیں، ایک عیسائی ہے ۔” لیزا اپنی جگہ سے اٹھ گئی ۔ دینا وہیں پہ بیٹھی رہی ۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ کبھی اٹھ نہیں پائے گی ۔
” اس کے لیے تو اس کے خاندان کی عزت کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔” لیزا کی باتیں پگھلے ہوئے سیسے کی مانند دینا کے کانوں میں اتررہی تھیں ۔ اس نے بے یقینی سے لیزا کو دیکھا ۔اس کے الفاظ تیروں کی مانند برس کر دینا کا سینہ چھلنی کررہے تھے ۔
وہ خالی الذہنی کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھ گئی ۔بے خیالی میں اس کی سیاہ چادر اس کے سر سے پھسل کر مٹی کے ڈھیر کی مانند نیچے گر گئی ۔
” جو اپنی عزت کرنا نہیں جانتی تھی اس کے پیچھے اپنی چادر چھوڑ جانا بے وقوفی ہے ۔” اس نے کسی کی آواز سنی ۔
اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کروہ باہر کی طرف بھاگی تھی ۔ کس قدر تکلیف دہ بات تھی ۔ وہ ایک پختہ یقین اور مضبوط ارادہ کرکے آئی تھی ۔ لیزا ٹوٹا ہوا اعتماد اور کچلی ہوئی عزت لے کر جارہی تھی ۔
” بھاگ گئی ہے وہ۔ میرے منگیتر کے ساتھ ۔” لیزا کی آواز اس کا تعاقب کررہی تھی ۔ وہ تیزی سے گھر کے دروازے سے نکل گئی ۔ ” وہ اس لائق ہی نہیں تھی ۔” اسے لیزا کی آواز سنائی دی ۔ اس نے اپنے کانوں کو ہاتھوں سے دبایا ۔” شمعون سے ملوایا اسے ۔” آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی ۔
” عرینہ شمعون سے ملی تھی ؟کب؟ اس نے کبھی یہ نہیں بتایا مجھے ۔” وہ تنگ و تاریک گلیوں میں بھاگتی جارہی۔
” کیوں آئی ہو یہاں ؟ اس پر بھروسہ کر کے خود کو برباد کر ڈالا ۔ ” لیزا کی نفرت بھری آواز ، اس کے آنسو، اس کی سسکیاں ۔۔دینا بھاگتی چلی گئی ۔” اس کے لیے تو اس کے خاندان کی عزت کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ” وہ دھڑام سے نیچے گر گئی ۔ اسے ٹھوکر لگی تھی یا لیزا کی اس بات نے اسے ڈس لیا تھا ؟ وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ بس اس کے سینے میں درد اٹھا ، درد کی شدت سے اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔ اور وہ وہیں پہ، اس ویران گلی میں ٹھنڈی زمین پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی تھی ۔
٭…٭…٭





پورا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔ وہ دبے قدموں لاوئج میں داخل ہو ئی ۔ لاؤنج کی کھڑکیوں سے پردے سرکے ہوئے تھے اور ان کے ذریعے چاندنی اندر جھانک رہی تھی ۔
” آگئیں تم ؟” لاؤنج میں بے چینی سے ٹہلتا ہوا سایہ اس کے پاس آگیا ۔
” ہاں ۔ اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا ۔
” بڑی دیر کر دی ۔” ان کی آواز میں فکر مندی کے ساتھ ساتھ نرمی کا عنصر بھی تھا ۔
” آپ کو میری چوکیدار ی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ میں بچی نہیں ہو ۔اپنی Timing جانتی ہوں ۔” اس کا لہجہ سخت تھا ۔
” اسے چوکیداری نہیں فکر مندی کہتے ہیں ۔” ان کے انداز میں در گزر اور نرمی تھی ۔
” کس مٹی کا بنا ہے یہ شخص؟” چاند کی مدھم روشنی میں اس نے انہیں بہ غور دیکھ کر سوچا ۔
” آپ کو میرے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ۔” اس نے خشک لہجے میں کہا اور دوسری طرف دیکھنے لگی ۔
” باپ ہو ں میں تمہارا ۔” آواز میں بے بسی تھی ۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!