پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

اس نے منزہ کی بنائی ہوئی پینٹنگز الماری سے باہر پھینکنا شروع کر دیا۔ پھر اس کے ذہن میں جیسے بہت ساری گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرا گئیں۔ اس نے بے یقینی سے فرش پر پڑی سنان کی پورٹریٹ کو دیکھا اور پھر کانپتے ہاتھوں سے اسے اُٹھا کر اپنی آنکھوں کے قریب کردیا جیسے اس بات کا یقین کررہی ہو کہ وہ چہرہ سنان ہی کا تھا ۔
” مطلب ۔۔۔ منزہ بھی ۔۔؟” وہ غیر یقینی سی حالت میں بڑبڑائی ۔
” کب سے ہورہا ہے یہ ؟” وہ آلتی پالتی مار کر فرش پر بیٹھ گئی ۔” میں ویران ہوں اور وہ محبتیں سمیٹ رہی ہے ؟نہیں منزہ علی ! نہیں ۔۔۔ یہ تمہارا مقدر نہیں ۔” اس نے نفرت و حقارت سے سوچا اور سنا ن کی پورٹریٹ پھاڑنے لگی ۔
” میں تمہیں سکون پذیر ہونے نہیں دوں گی ۔” اس نے فرش پر بکھرے پینٹنگ کے ٹکڑوں کو نفرت سے دیکھا ۔اس کی آنکھیں انگارہ ہورہی تھیں ۔ اس کا وجود جل رہا تھا ۔ وہ وہیں پر ٹانگیں پھیلا کر ایک بے سہارا بچے کی مانند رودی ۔ ” ایس بی ! تونے جا کر بہت بڑا نقصان کیا ہے میرا ۔۔۔ ” اس نے روتے ہوئے بڑی بے بسی سے سوچا تھا ۔ صبار قاسم کی محبت ہی حمائل اصغر کا کل اثاثہ تھی لیکن اب جب کہ وہ نہیں تھا اور گھٹنوں پر سررکھ کے رونے لگی ۔وہ بہت دل گرفتہ تھی ۔ صبار نے جا کر واقعی ویران کر دیا تھا اسے ۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
شام کا وقت تھا ۔ فون بج رہا تھا ۔ دینا باورچی خانے میں تھی ۔ برآمدے میں تخت پر بیٹھی پھوپھی نے فون اٹھا لیا ۔ تھوڑے سے توقف کے بعد دینا کو ان کی چیخ کی آواز سنائی دی ۔ وہ بدحواسی کے عالم میں برآمدے کی طرف بھاگ گئی ۔ پھوپھی کے ہاتھ سے ریسیور گر چکا تھا ۔ دینا کے قدم جیسے زمین میں دھنس گئے ۔ اس نے خالی نظروں سے پھوپھی کو دیکھا وہ رو رہی تھیں ۔ دینا کو اپنے سر سے دوپٹہ گرتا محسوس ہوا۔وہ وہیں پر بیٹھتی چلی گئی ۔
٭…٭…٭





” یعنی دونو ں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ۔” وہ کمرے سے نکل آئی ۔” لیکن میں یہ آگ بجھا دوں گی منزہ علی ! اور جب یہ آگ بجھ جائے گی تو اس کی جگہ پانی ہو گا ۔ صرف اور صرف پانی ۔” اس نے قہقہہ لگایا ” آنکھوں سے بہنے والا پانی ۔۔۔” وہ امی سے بات کرنے ان کے کمرے میں گئی ۔
وہ الماری سے اپنے لیے کپڑے نکال رہی تھیں ۔ حمائل ان کے پاس گئی ۔
” امی جی ! بات کرنی ہے آپ سے ۔” اس کا انداز سنجیدہ تھا ۔
” ہاں کرلینا بات پہلے یہ بتاؤ کہ ان دونوں ڈریسز میں کون سا والا اچھا ہے ؟یہ میرون والا یا پھر بلیو والا ؟” انہوں نے ہینگرز میں لٹکے کپڑے حمائل کو دکھاتے ہوئے پوچھا ۔
” امی جی ! “حمائل نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔you never listen to me” ” وہ ناراض ہو گئی۔
” oh my darling! ” کپڑے واپس الماری میں لٹکا کے وہ حمائل کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ “ہماری compaign کی ممبرز کے لیے مسز قاسم نے اپنے گھر پر ڈنر پارٹی ارینج کی ہے ۔ ہمارے پراجیکٹ کو بلوچستان میں بہت پذیرائی ملی ہے ۔ا س لیے ۔” انہوں نے تفصیل پیش کر دی ۔” لیکن خیر تم کہو! کیا بات ہے َ؟”
” امی جی ! میں کہہ رہی تھی کہ بھائی کیلئے منزہ best ہے ۔” اس نے ہکلاتے ہوئے کہا ۔
” کیا ؟ امی نے حیرت سے حمائل کو دیکھا ۔” پر تم تو کہہ رہی تھی کہ ۔۔۔”
” امی جی! آپ بھی ناں ۔۔ عجیب ہیں ۔۔” حمائل نے ان کی بات کاٹ دی ۔
” اپنا دماغ نہیں چلاتیں آپ ۔ دیکھیں ناں ! منزہ کتنی caring ہے اور سب سے بڑ ھ کر آپ کی مرحوم بہن کی اکلوتی بیٹی ہے ۔” حمائل جانتی تھی کہ وہ اپنی بہن کے بارے میں ہمیشہ دل سے سوچتی تھیں اور اس وقت اپنی بات منوانے کا اکلوتا راستہ یہ تھا کہ وہ ان کے دل کو چھونے والی بات کہتی۔
” ہاں یہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔”
” تو بس پھر کیا ؟ جلدی جلدی شادی کی تیاریا ں شروع کر دیں۔”
” لیکن شہروز تو ابھی فورتھ ائیر کا ایگزام دے رہا ہے۔ ابھی تو اُس کا M.B.B.Sبھی کمپلیٹ نہیں ہوا۔”
” تو کیا ہوا؟شادی کے بعد کمپلیٹ کریں ناں۔۔۔”
” ٹھیک ہے۔ میں تمہارے ابو سے بات کرتی ہوں۔شہروز اور منزہ کی مرضی بھی تو معلوم کرنی ہے۔”
I am sure” وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔”
” Okay.Okay۔سوچ لیں گے اس پہ۔ فی الحال مجھے پارٹی میں جانا ہے۔”
وہ پھر سے الماری کھول کر کپڑے دیکھنے لگیں اور حمائیل سیٹی بجاتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
٭…٭…٭
ملک کے آدمیوں کی فائرنگ سے علی کی جان چلی گئی تھی۔ خون میں لت پت اُس کی لاش گھر لائی گئی۔
” ایسے کرتا ہے کوئی؟ اپنی جیت کی خبر کوئی ایسے گھر لاتا ہے؟ صبح اپنے پیروں سے چل کے جائیں اور شام کسی کے کندھوں پہ سوار ہوکر؟یہ انصاف تو نہیںہے۔” وہ علی کو جھنجھوڑ کر یہ سب پوچھنا چاہتی تھی لیکن اُس کے پیروں میں جان نہیں تھی۔اُس میں ہلنے کی بھی سکت باقی نہیںرہی تھی ۔اُس کی رگوں میں خون جم گیا تھا۔ اُس کا وجود سُن ہو گیا تھا۔
اصغر نے بڑھ کر اُسے اُٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ کسی بے جان وجود کی طرح آم کے پیڑ کے نیچے پڑی رہی۔
٭…٭…٭
” شہروز کی مرضی تو معلوم ہو گی۔ لیکن اب منزہ سے بھی تو پوچھنا ضروری ہے ناں” وہ اپنا ٹیبل لیمپ آف کر کے بولیں۔
” ہاں میں انتظار نہیں کر سکتا ۔” اُن کی آواز میں خوشی تھی۔ وہ بیڈ سے اُٹھ گئے۔
” طریقے سے بات کیجیے گا۔”
” تمہیں اگر یاد ہو تو میں تم سے پانچ سال بڑا ہوں۔” وہ شوخ لہجے میں بولے ۔”یہ کب بھول سکتی ہوں میں؟” وہ دوبارہ لیٹ گئیں ۔ وہ کمرے سے نکل گئے۔
” کاش تم آج زندہ ہوتی۔” اُنہوں نے حسرت بھری ایک گہری آہ بھر کر سوچا ۔” منزہ بیٹا کیا تم باہر آسکتی ہو؟ایک ضروری بات کرنی ہے۔” وہ کمرے کے دروازے میں کھڑے تھے۔ منزہ خاموشی سے ان کے پیچھے پیچھے لاؤنج کے صوفے پہ جا کے بیٹھ گئی۔
اُنہوں نے بنا ہچکچاہٹ کے اپنا مدعا کہہ ڈالا۔ منزہ خاموشی سے اُن کا منہ دیکھتی رہی۔” اپنے کیے ہوئے احسانوں کا اتنا بڑا بدلہ؟ ” اُس نے اضطراب کے عالم میں سوچا۔
” کوئی جلدی نہیں ہے تم آرام سے سوچ کر اپنا فیصلہ ہمیں بتادو ۔ہم تمہاری مرضی کی قدر کریں گے۔” اُنہوں نے اُس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرکر کہا اور اُٹھ کر کمرے کی سمت چل دیئے۔
تھوڑی دیر صوفے پر بیٹھے رہنے کے بعد کمرے کی بجائے لان کی طرف چلی گئی
” کانٹ “کہتاہے میں اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو توڑ ڈالوں گا اور میں بھی اسی نظریے کی followerہوں۔” حمائل نے کھڑکی میں کھڑے ہو کر لان میں بے چینی سے ٹہلتی منزہ کو دیکھ کر سوچا۔
” بیٹا! قربانی دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا اور کسی کے احسان کا بدلہ اُتارنا کبھی نہ بھولنا۔” امی جان کی نرم آواز نے اُس کے کان میں سر گوشی کی۔ وہ ٹہلتے ٹہلتے تھک چکی تھی۔ وہ لان میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔
” میں نہیں جانتی کہ یہ قربانی کا وقت ہے یا پھر احسان اُتارنے کی گھڑی ۔۔۔؟لیکن امی !چاہے یہ جو بھی ہومیں تیار ہوں۔” وہ بُڑبُڑائی ۔کرسی سے اُٹھ کر وہ گھر کے اندرونی حصے کی جانب چل دی۔ وہ فیصلہ لے چکی تھی۔ اگلی صبح اُس نے خالو کو اپنافیصلہ سنا دیا۔
٭…٭…٭
علی کی موت کے ایک ہفتے بعد اُس نے ایک کمزور سی بچی کو جنم دیا جس کا نام مرینہ نے منزہ رکھا تھا۔
اسلام آباد جاتے وقت اصغر اور مرینہ نے دینا اور پھوپھی کو بھی ساتھ لے جانے کی ضد کی لیکن اُس نے تو کہیں نہ جانے کی قسم کھا رکھی تھی۔
پورے دو مہینے بعد اصغر نے فون کر کے اپنی بیٹی کی پیدائش کی خبر اُسے دی تھی اور اُس کی آنکھوں میں بلاوجہ نمی اُتری تھی۔” میری یتیم بچی کی قسمت اچھی کرنا میرے خدایا” اُس نے دل ہی دل میں دعا مانگی تھی۔
٭…٭…٭





منزہ سے زیادہ حمائل شادی کی تیاریوں میں حصہ لے رہی تھی ۔ اسے اپنے بھائی کی شادی سے کہیں زیادہ منزہ کو رُلانے کا جوش تھا۔ لیکن وہ کوشش کے باوجود منزہ کا چہرہ اور اُس کے تاثرات نہ پڑھ پائی تھی بلکہ اُس کے اس وار کا اثر سنان پر پڑ گیا تھا۔ وہ حد سے زیادہ سنجیدہ نظر آنے لگا تھا اور شادی کی تیاریوں میں وہ کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔
منزہ کو مطمئن اور سنان کو اُداس دیکھ کر حمائل جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئی۔وہ تو منزہ کو اُداس دیکھنا چاہتی تھی یہ جانے بغیر کہ منزہ ہمیشہ کی طرح آج بھی قانع تھی اور صابر۔۔۔
٭…٭…٭
فیروز بھائی چاہے جیسے بھی تھے لیکن وہ منزہ سے بہت پیار کرتے تھے ۔ اُس سے ملنے روز آتے تھے ۔ اُس کے لئے ڈھیر سارے کھلونے لاتے تھے ۔ اور جب وہ اپنی تھوتھلی زبان سے انہیں ”ابا” کہتی تو وہ بے اختیار اُس کا ماتھا چھوم لیتے اور اس کے لیے دنیا دل سے اُن کی مشکور تھی ۔ ” میری یتیم بیٹی کو آپ نے اپنائیت دے کر خوشی دی ہے ۔ اللہ آپ کو خوشیاں دے ۔ وہ اپنی بیٹی کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر فیروز بھائی کو دل ہی دل میں دعائیں دیتی ۔
شہروز کے پہلو میں بیٹھی گہرے سُر خ رنگ کا عروسی لباس پہنے وہ بے حد بھلی لگ رہی تھی ۔
شادی میں شہروز اور منزہ کے دوستوں کے علاوہ ابو کے دوست ، امی کی سہیلیاں اور حمائل کے دوست بھی مدعو تھے۔ ملتان کی پھوپھی جی اور اُن کی طلاق یافتہ بیٹی زیبا بھی اس شادی میں شریک تھیں۔
”تم اتنی مطمئن کیسے ہو سکتی ہو؟ حمائل نے منزہ کے راضی بہ ر ضا چہرے کو دیکھ کر حیرت سے سوچا تھا۔
” سن ماہی! اِفصہ اُسے کھینچ کر ایک طرف لے گئی ۔ ” ایس بی نے کال کیا تھا۔مجھے اُس نے تجھ سے کانٹیکٹ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن تو نہ اُسے فیس بک پہ reply کرتی ہے اور نہ اُس کا کال اٹینڈ کرتی ہے ۔ مسئلہ کیا ہے؟”
Idiot تو دیکھتی نہیں میرے بھائی کی شادی ہے۔ بزی تھی میں۔۔۔ فری ہو کے کال کر لوں گی اُسے ۔ حمائل نے افصہ کو ٹالتے ہوئے کہا۔
”ہاں تو بہت بزی رہنے لگی ہے ۔ ہم سے ملنے بھی نہیں آتی اب۔ افصہ نے شکوہ کیا”۔
”shut up یار! تو اپنے گلے شکوے بند کردے ۔ بور ہو رہی ہوں میں”۔
حمائل نے ناگواری سے کہا اور سب سے الگ تھلگ بیٹھے سنان کی طرف چل دی” اسے ہو کیا گیا ہے؟ افصہ تابندہ کے پاس جاکر بیٹھ گئی ۔ ”
” کچھ نہیں ہو ایار !شادی کا گھرہے بزی ہے۔”
” لیکن ایس بی ۔۔۔”
”اُس سے بات کرلوں گی ۔پریشان نہ ہو۔” تابندہ نے افصہ کے کندھے پہ اپنا بازو جمایا ۔” ماہی پہلے کی طرح اُس سے باقاعدہ کا نٹیکٹ تو نہیں رکھ سکتی ناں ۔ ایس بی کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے ۔” تابندہ سمجھ داری سے بولی۔
” تو ایسے بات نہ کر ۔ ایسے لگتا ہے جیسے بڑی عورت سے بات کررہی ہوں ۔”
افصہ نے تابندہ کو کہنی ماری تو وہ ہنسنے لگی ۔
نکاح کے وقت سنان کی آنکھ سے بہتاوہ موٹاسا آنسو سوائے حمائل کے اور کسی نے نہیں دیکھا تھا اور حمائل کو یہ دیکھ کر سخت غصہ آیا تھا کہ سنان کے برعکس منزہ پرسکون اور مطمئن تھی ۔
” آئی ایم سوری سنان! یہ لڑائی میری ہے اور میدان جنگ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون معصوم ہے اور کون گناہ گار ؟ اس لیے اس جنگ میں اگر تمھارے ارمانوں کا خون ہوا ہو تو اس کا مجھے افسو س ضرورہے لیکن پچھتاوا کوئی نہیں کیوں کہ مجھے تو منزہ علی سے اس جنگ کا بدلہ لینا ہے ۔جو برسوں پہلے میری ماں ہار چکی تھی لیکن میں ہارنے والوں میں سے نہیں ہوں کیوں کہ میں ” کانٹ ” کا نظریہ رکھتی ہوں ۔ ” ایک طویل سوچ کے بعد اس نے سرجھٹک دیا اور مسکراتی ہوئی دولہا ، دلہن کے پاس چلی گئی ۔
٭…٭…٭
منزہ کے سکول کی چھٹیاں تھیں اور وہ حمائل سے ملنے کی ضد کررہی تھی ۔ مجبوراً اسے ہار ماننا پڑا۔
پھوپھی کو فیروز بھائی کے گھر چھوڑ کر وہ منزہ کو لے کر اسلام آباد چلی گئی ۔
٭…٭…٭
شہروز اور منزہ کے ہنی مون پر جانے کے بعد گھر بالکل خالی سا پڑ گیا تھا ۔ اس لیے امی نے پھوپھی جی اور زیبا کو زبر دستی روکے رکھا ۔” بس اب تو پورے خاندان میں یہی ہیں ۔ بڑوں کا سایہ سرپہ ہونا بہت بڑی خوش قسمتی ہوتی ہے ۔ ان کا نظریہ تھا ۔ حمائل کو بھی بھاری بھر کم وجود والی پھوپھی بہت دل چسپ لگتی اور وہ اتنی جلدی ان کی واپسی کے حق میں نہ تھی حالاںکہ ان کی خشک مزاج بیٹی کی باتیں وہ بہ مشکل ہضم کر پاتی تھی ۔ لیکن پھر بھی حمائل ان دنوں پر سکون تھی ۔ کیوںکہ منزہ گھر پر نہیں تھی ۔
بہت دنوں بعد اسے صبار کا خیال آیا ۔ اس نے سائیڈ ٹیبل سے اپنا سیل فون اٹھا لیا ۔ شہروز بھائی کا میسج آیا تھا ۔
”فیٹی ما! میں تمہیں پکچرز بھیج رہا ہوں، وہ دیکھ لو۔”
وہ میسج پڑ ھ کر تصویریں دیکھنے لگی ۔ اس کے بھائی کے پہلو میں کھڑی منزہ علی مسکرا رہی تھی ۔ اس نے چہرے پر دوردور تک اداسی کاسایہ نہیں تھا ۔حمائل نے موبائل بیڈ پر پھینک دیا اور سرپکڑ کربیٹھ گئی ۔ وہ یہ لڑائی کسی بھی حال پر ہارنا نہیں چاہتی تھی ، اس نے بہ ہر صورت یہ جنگ جیتنی تھی اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیا ر تھی ۔
٭…٭…٭





مسلسل دو دنوں سے اس کے سر میں شدید درد ہورہا تھا ۔ سردرد کی گولی کھانے سے بھی در د میں کوئی کمی نہیںہوئی تھی ۔
صبح کے گیارہ بج رہے تھے ۔ وہ الماری سے منزہ کے لیے کپڑے نکا ل رہی تھی جب اچانک اس کا سر چکرایا اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی ۔
٭…٭…٭
شام کے پانج بج رہے تھے جب وہ کمرے سے نکلی ۔ ابو اور امی گھر پرنہیں تھے ۔پھوپھی جی اور زیبا پھوپھو باہر لان میں بیٹھی چائے پی رہی تھیں ۔
سنان کے کمرے میں جا کر وہ اس کے بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی ۔ وہ واش روم میں تھا ۔ حمائل ایک کتاب کھول کر پڑھنے لگی ۔
” چور ! کیا کررہی ہو میرے کمرے میں ؟، وہ واش روم سے با ہر آگیا ۔
” چور نہیں ڈاکو ہوں ۔ تجھے کڈ نیپ کرنے آئی ہوں ۔” اس نے کتاب بند کر دی ۔ وہ آکر اس کے پاس بیٹھ گیا ۔ اسے اپنے ماموں کی یہ بے دھڑک اور بے تکلف لڑکی بہت اچھی لگتی تھی ۔ وہ بنا اجازت اس کے کمرے میں آجاتی تھی ۔ اس کے آرام میں خلل ڈالتی تھی ۔ کبھی کبھی تو اس کو بے حد تنگ بھی کرتی تھی۔ پھر بھی سنان کو وہ اچھی لگتی تھی کیوں کہ وہ بہت صاف دل اور مخلص تھی ۔ وہ اتنی معاملہ فہم تھی کہ بھی اس کے چہرے پہ اداسی کے تاثرات دیکھتی تو سمجھ جاتی تھی کہ وہ اداس ہے اور اب توہ وہ اس کی بہت اچھی دوست بن گئی تھی ۔
دروازے پر پھر کسی نے زور سے کھٹکھٹایا ۔ حمائل کا دل بھی اسی دروازے کی مانند زو ر زور سے دھڑکنے لگا۔ سنان نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا ۔ ” یہ تو کھلا ہے ۔ کون اتنے زور سے کھٹکھٹارہا ہے ؟” وہ ناگواری سے بُڑ بُڑا اٹھا ۔ لیکن حمائل ایک جھٹکے سے اٹھی اور دروازے کے پاس پہنچ گئی ۔ اس نے دروازہ کھول دیا ۔سنان اس کے پیچھے پیچھے دروازے تک آگیا ۔
دروازے کے سامنے امی ، ابو ،پھوپھو زیبا، منزہ اور شہروز کھڑے تھے ۔
” تو تم آگئی منزہ علی !” حمائل کے وجود میں خوف کی ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔
اس نے باری باری سب کو دیکھا سب کے چہروں پر ایک سوال تھا ،حمائل نے نظریں جھکا لیں۔
” اصغر ! ہم نے کھڑکی میں سے دیکھ لیا ۔ ہم باہر بیٹھے تھے اور یہ دونوں اندر توبہ ۔۔۔توبہ ۔۔” زیبا پھوپھو کہ لہجہ کاٹ دار تھا ۔ ” اماں! تم بتاؤ ناں کہ میں سچ بول رہی ہوں ۔”
سب حیران و پریشان زیبا پھوپھو کی باتیں سن رہے تھے ۔ کسی کو ہمت ہی نہیں ہوئی کچھ بولنے یا پوچھنے کی ۔
” ہاں ۔اصغر! زیبا سچ بول رہی ہے ۔ ” پھوپھو جی سر جھکائے دھیرے سے بولیں ۔
” یہ آپ لوگ کیا کررہے ہیں ؟ سنان جھنجلایا ۔
” ارے منحوس ! ہم سے پوچھتا ہے ؟ منہ کالا کر کے ہم سے پوچھتا ہے ؟” زیبا پھوپھو نے ایک تیز چانٹا سنان کے منہ پر رسید کر دیا ۔ وہ حیرت سے ان کو دیکھتا رہا ۔
” میں نے کیا کیا ؟” وہ ابھی بھی کچھ نہیں سمجھا تھا ۔
” امی جی ! یہ جھوٹ بول رہی ہیں ۔” حمائل بہ مشکل بو ل پائی ۔
” خاموش حرافہ ! میں جھوٹ بو ل رہی ہوں؟ ارے توتو منہ کالا کر رہی تھی اس کے ساتھ اور میں تیرے کرتوتوں سے پردہ اٹھایا تو میں ہی جھوٹی ؟ نہ جانے کب سے کر رہی ہو یہ سب؟” زیبا پھوپھو حقارت سے بولیں ۔
” زیبا! دھیرے ۔۔۔۔ ابو کی سرگوشی ابھری ۔
” نا اصغر نا۔ غلطی تیری ہے ۔ اگرتو اتنی آزادی نہ دیتا تو نہ عرینہ گھر سے بھاگتی اور نہ آج یہ۔۔۔”
” شٹ اپ۔ میری ماں کے خلاف اگر کسی نے ایک لفظ بھی زبان سے نکالا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔” سنان غرایا ۔
” آواز اونچی کرنے سے تیرا گناہ چھپ نہیں جائے گا ۔نام دے اپنے اس گناہ کو ۔ نکاح کر اس سے۔” زیبا پھوپھو اپنی بات پر ڈٹی رہیں ۔
” میں حمائل سے نکاح کرنے کو تیار ہوں ۔” سنان کا انداز فیصلہ کن تھا ۔
” حمائل نے سر اٹھا کر سنان کو دیکھا ۔ اس کا دل ڈوبنے لگا ۔ اس نے نظریں جھکالیں ۔
” شہروز ان دونوں کے نکا ح کا انتظام کردو۔” ابو کی آواز کسی کنویں سے آتی محسوس ہوئی ۔ ” ابھی جاؤ۔”
سب کچھ اتنا غیر یقینی اور اتنا ناقابل یقین تھا کہ کوشش کے باوجود بھی یقین نہیں آتا تھا۔ سب ایک دوسرے کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے خواب دیکھ رہے ہوں ۔
نکاح پڑھوایا گیا ۔ پھوپھی جی اس کا ہاتھ تھام کر اسے سنان کے کمرے میں لے گئی ۔ اسی لمحے اسے کھڑکیوں سے جھانکتی صبارکی مسکراتی آنکھیں نظر آئی تھیں ۔ اسی لمحے اسے اپنی مٹھی سے صبار کی محبت ریت کی مانند پھسلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
سنان کے کمرے میں داخل ہو کے وہ صوفے پر جا کے لیٹ گئی اور سنان کے قدموں کی آہٹ پہ بھی اس نے سر اٹھا کر اس کو نہیں دیکھا تھا ۔
” خالہ جان نے یہ لاکٹ دیا ہے مجھے۔ کہہ رہی تھیں کہ یہ میری اماں جان کا تھا ۔”
سنان اس کے سرہانے کھڑا تھا ۔
” تو میں کیا کروں ؟” حمائل کے انداز میں بے رخی تھی ۔
” یہ میں تمھیں پہنانا چاہتا ہوں ۔”
” مجھے سونا ہے ۔” اس نے آنکھیں بند کردیں ۔
” حمائل !” اس کا لہجہ التجائیہ تھا ۔
” ہوں ۔”
” آئی ایم سوری I was compelled to do so …. ”
” اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔سیچوایشن ہی کچھ ایسی تھی ۔” حمائل نے بے نیازی سے کہا اور کروٹ بدلی۔۔ سنان حیران و پریشان اسے دیکھتا رہا ۔ وہ اس کے دکھ سے واقف تھا ۔
” تم یہ ڈیزرو نہیں کرتی تھی ۔” اس نے تاسف سے سوچا اور لائٹ آف کر کے سونے کے لیے لیٹ گیا لیکن اسے نیند نہیں آئی ۔ بلکہ حمائل نے بھی پوری رات جاگ کے گزاری تھی ۔ اس رات تونہ کسی نے کھانا کھایا تھا اور نہ کوئی سویا تھا ۔
٭…٭…٭





اپنے سر میں رسولی کے بارے میں جان کر وہ اپنے لیے دکھی نہیں ہوئی بلکہ منزہ کو دیکھ دیکھ کر وہ اداس ہو جاتی تھی ۔رونے لگتی تھی ۔ اللہ سے دعائیں مانگنے لگتی تھی تو کبھی ڈاکٹر کی منتیں کرنے لگتی ۔
” میں مرنا نہیں چاہتی ۔” برسوں بعد وہ اس اندھیری شام میں اصغر کے ساتھ لا ن میں بیٹھی تھی۔
” تم نہیں مرو گی میں نے ملک کے سب سے اچھے ڈاکٹرسے اپائنٹمنٹ لی ہے ۔” اصغر نے اسے تسلی دی۔ “اور ویسے بھی یہ ٹیومراتنا بڑا نہیں ہے ۔”
دینا نے نگاہ اٹھا کر اس شخص کو دیکھا جو شاید آج بھی اس سے محبت کرتا تھا ۔وہ تاریکی میں اس کا چہرہ تو نہ دیکھ پائی لیکن جانتی تھی کہ وہ رو رہا ہے۔ دیناکے معاملے میں وہ ہمیشہ سے جذباتی تھی۔
٭…٭…٭
اگلے دن ایک چھوٹی سی تقریب میں حمائل اور سنان کی شادی کا اعلان کیا گیا ۔
امی اور ابو کے چند دوستوں کے علاوہ سنان کا بھی ایک دوست شامل تھا۔ حمائل نے اپنے کسی دوست کو نہیں بلایا تھا کیوں کہ اسے تو اس شادی کا یقین ہی نہیں تھا اور نہ وہ اپنے دوستوں کو بلا کے اس خوشی کو منانا چاہتی تھی۔
” اس کے لیے تو بہت کچھ سوچ رکھا تھا لیکن یہ کیا ہو گیا ؟ابو سوچ سوچ کر اداس ہو جاتے لیکن سنان جس قدر دل سے حمائل کاخیال رکھتا تھا یہ دیکھ کر وہ مطمئن ہو جاتے اور اس حقیقت سے و ہ قطعی بے خبر تھے کہ ان کی بیٹی اس شادی کو سرے سے مانتی ہی نہیں ۔ کیوں کہ سب کے سامنے سنان کے ساتھ ہنسنے بولنے والی حمائل کمرے کے اندراس سے اتنا دور رہتی جیسے کہ وہ بالکل اجنبی ہو ۔ اس کے دل میں صبار قاسم تھا اور اس کی زندگی میں سنا ن یوسف۔۔۔ ایک خواب تھا اور دوسرا حقیقت ۔ اور حمائل اصغر ان دونوں میں ایسے بٹ چکی تھی کہ اس کے لیے خو د کو جوڑنا ناممکن تھا ۔
” اگر میں مطمئن نہیں ہو ں تو تم کیوں پر سکون ہو منزہ علی ؟” وہ منزہ کے مطمئن چہرے کو دیکھ کر کڑھتی ۔
” منزہ کو دکھانے کے لیے وہ سنان کے قریب قریب رہتی ۔ اس کے ساتھ باتیں کرتی ، ہنستی اور اس کا بہت خیال رکھتی ۔ اپنا خالی پن اور سنان کے ساتھ اپنے رشتے کی کھوکھلاہٹ اس سے چھپاتی ۔ لیکن یہ سب کتنا مشکل اور کس قدر اذیت ناک تھا ۔خود کی خواہشات کو کچل کر خوش رہنے کی کوشش کرنا ۔۔۔ حمائل جانتی تھی کہ یہ بے وقوفی ہے ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ خود کودھوکہ دے رہی ہے لیکن منزہ کو بے سکون کرنے کا یہی ایک راستہ تھا۔ حمائل کو بہر حال وہ جنگ جیتنی تھی اور اس کے لیے تو وہ اپنے خوابوں تک کا خون کرنے کو تیارتھی۔
اتوار کا دن تھا ۔ پھوپھی جی اور زیبا پھوپھو کے جانے کے بعد امی بھی گھر سے نکل گئیں ۔ان کے جاتے ہی حمائل نے سنان سے شاپنگ کرنے کی ضد شروع کر دی جو اس نے جلد ہی مان لی ۔
وہ ہنستی مسکراتی سنان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔ تھوڑی دیر کے لیے سہی لیکن منزہ تنہائی کا ذائقہ تو چکھتی۔ اور اس کے لیے وہ سنان کے قریب جانے کو بھی تیا رتھی ۔ حالاں کہ کمرے کے اندر وہ سنان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ پاتی تھی ۔ وہ اس سے نظریں چراتی ۔ اس سے دوررہتی اور اگروہ کبھی اسے دیکھنے لگتا تو وہ دوسری طرف دیکھنے لگتی ۔
٭…٭…٭
منزہ دادی جان کے ساتھ جانا چاہتی تھی ۔ اس لیے اصغر نے ڈرائیور کے ساتھ اسے لاہور بھیج دیا ۔ دینا کا علاج چل رہاتھا اس لیے وہ نہ جا سکی اور اس بات کا اسے بے حد ملال تھا ۔
” کب سوچا تھا کہ آؤں گی تو ایسے رک جاؤں گی ؟ وہ اپنے گھر کو یاد کر کے رنجیدہ ہوتی اور تب اصغر اور مرینہ بڑی مشکل سے اس کا دھیان کسی اور طرف لگا دیتے تھے ۔
٭…٭…٭
اس کا سکون برباد ہو گیا تھا ۔ اس کی زندگی خالی ہو گئی تھی اور اس کی نیندیں بھاگ گئی تھیں ۔ وہ کئی کئی راتوں تک سو نہیں پاتی تھی اسی لیے سنان کے علم میں لائے بغیر وہ سلیپنگ پلز لینے لگی تھی ۔ جو وہ سٹڈی میں چھپا کر رکھتی تھی ۔
” ایک بج رہا تھا جب وہ کلاس سے نکلی ۔
” ہائے ماہی ! بس ۔۔۔” اس نے تابندہ کی آواز سن لی ۔ نہ چاہ کر بھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔
” تھینکس گاڈ ! تو مل گئی ۔ بہت ڈھونڈا تجھے ۔ کہا ں تھی یار ؟”
تابندہ نے گلہ کیا ۔ ” تیر ا نمبر بھی ٹرائی کیا ۔مسلسل آف جارہا تھا ۔”
” نمبر چینج کر دیا میں نے ۔” حمائل بے نیازی سے بولی ۔
” نمبر چینج کر دیا اور بتایا بھی نہیں ؟
” بزی تھی میں ۔” حمائل دوسری طرف دیکھنے لگی ۔
” بہت بزی رہنے لگے ہو تم دونوں ۔ ایس ۔ بی بھی ۔۔۔”
” مجھے جانا ہے ۔” اس نے تابندہ کی بات کاٹ کرکہا ۔۔” سنان مجھے لینے آیا ہے ۔
” بڑااچھا کزن ملا ہے بھئی!”
” سنان ہزبینڈ ہے میرا ۔” وہ سپاٹ لہجے میں بولی
” ہزبینڈ ؟” تابندہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے حمائل کو دیکھنے لگی ۔you must be joking ” تابندہ نے اسے جھنجوڑا ۔
” مذاق نہیں ۔سچ ہے ۔” وہ جانے لگی ۔
” یہ ۔۔ میری اور میٹ کی انگیج منٹ کا کارڈ ہے ۔” تابندہ بہ مشکل بو ل پائی ۔
اس نے کانپتے ہاتھوں سے کارڈ حمائل کی طرف بڑھا دیا ۔
” سوری میں نہیں آ پاؤں گی ۔” حمائل تیزی سے سنان کی طرف چلی گئی ۔
کارڈ تابندہ کے ہاتھ سے گرچکا تھا ۔ وہ لان میں پڑے بینچ پر بیٹھ کر رونے لگی ۔ اس وقت اسے صبا رقاسم کی بہت یاد آرہی تھی ۔
٭…٭…٭
دادی کے ہوتے ہوئے تائی نے کبھی منزہ کا وجود برداشت نہیں کیا تو پھر ان کی موت کے بعد تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔
” میں کہتی ہوں اصغر کے پاس بھیج دیں اس لڑکی کو ۔ یہ میرا گھر ہے کوئی یتیم خانہ نہیں ۔ ” منزہ نے سنا کہ تائی کس قدر حقارت اور نفرت سے ” ابا ” سے کہ رہی تھیں ۔ پھر و ہ ابا سے ایک بھی سوال پوچھے بغیر اسلام آباد جانے پر راضی ہو ئی تھی۔ خالہ کے گھر میں حمائل تھی ۔ جس کے ساتھ اس کی گہری دوستی تھی او ر وہ جانتی تھی وہ وہاں جا کے خوش رہے گی کیوں کہ وہا ں رہ کر وہ امی جان کو دیکھنے ہسپتال بھی جا سکتی تھی ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!