پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

” میں تجھے نہیں دے رہی ۔میری بلی کو اگر یہ پسند ہے تو میں کیسے نہ اس کو یہ دوں ؟ ”
” لیکن یہ تمہیں تحفے میں ملا ہے ۔”
” اور اب میں اس کو تحفے میں دے رہی ہوں ۔ ” عرینہ نے لاکٹ کا ڈبہ مرینہ کے ہاتھ پر رکھا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
” تھینک یو !” مرینہ نے اچھل کر عرینہ کو گلے لگا لیا اور پھر اٹھ کر لاکٹ اپنی الماری میں رکھا تھا ۔
تمہاری یہ بے رخی تمہیں کہیں لے نہ ڈوبے ۔” دینا نے تاسف سے سوچا اور اس رات سب کے سوجانے کے بعد عرینہ خاموشی سے اٹھ کر مرینہ کی الماری کے پاس آئی تھی ۔ الماری کھول کر اس نے وہ لاکٹ نکالا تھا ۔ تھوڑی دیر ہلکی سی روشنی میں اسے دیکھنے کے بعد اس نے دل سے لگا یا تھا اور پھر واپس ڈبے میں بند کر کے الماری میں رکھا تھا ۔
٭…٭…٭





اتنے ہنگامے کے بعد تو ہ کالج جانا ہی نہیں چاہتی تھی لیکن خالہ کا دل رکھنے کے لیے وہ کالج جانے کو تیار ہو گئی تھی ۔ جو دو پینٹنگز وہ اس نمائش کے لیے لے جانا چاہتی تھی وہ پورے گھر میں ڈھونڈنے سے نہیں ملیں ۔
” تم کوئی اور پینٹنگز لے جاؤ بیٹا ! تمہاری تو ساری پینٹنگز بہت اچھی ہیں ۔ ” خالہ کے انداز میں ندامت تھی۔ وہ واقعی بہت شرمندہ تھیں ۔ مجبوراً منزہ نے اپنی تین پینٹنگز اٹھا لیں اور خالہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔
” ہماری سو سائٹی ممبر مسز کلشو م کے گھر دعوت ہے ۔ میں آج وہاں جارہی ہوں ۔ لیکن پہلے تمہیں ڈراپ کر دوں گی ۔” مرینہ نے راستے میں اسے بتایا، وہ جواباً خاموش رہی۔
” ہماری سوسائٹی ہیڈ کے ساتھ آج میٹنگ بھی ہے ۔ میری واپسی دیر سے ہو گی ۔” انہوں نے کہا، و ہ خاموش رہی ۔
” حمائل کادوست صبار۔ا س کی مدر ہماری ہیڈ ہیں ۔” انہوں نے تفصیل بتا ئی ۔ وہ بہ دستور خاموش رہی تھی۔
” واپسی میں مجھے دیر ہو جائے گی ۔ بیٹا! تم حمائل کے ساتھ آجانا” ۔خالہ کی اس بات پر منزہ نے نگاہ اٹھا کر انہیں دیکھا۔
” وہ منہ پھٹ ہے بیٹا !لیکن دل کی بری نہیں ہے ۔ یہ تو تم جانتی ہو ۔” وہ حمائل کی صفائی میں بولیں تو منزہ نے ان سے نظریں ہٹا کر سوچا ۔ ” جن کی زبانیں ہر وقت زہر اگلتی ہوں ان کے دلوں میںزہر کیسے جمع ہو سکتا ہے خالہ ؟”لیکن وہ خاموش رہی ۔ اس کم ہمت لڑکی کے لیے ایسی بات سوچنا بھی بہت بڑی بہادری تھی ۔
” آپ فکر نہ کریں ۔ میں واپسی میں حمائل کے ساتھ آجاؤں گی ۔” گاڑی سے اترتے وقت اس نے کہا ۔
” تم بہو اس عورت کی پرچھائی ہو جو میری بہن اور تمہاری ماں تھی ۔ میری بجیا ۔۔۔۔ جس کے چہرے سے کبھی میں اس کی خوشی یا اداسی کا اندازہ نہ لگا پاتی ۔ جس کا چہرہ ہمیشہ راضی بہ رضا رہتا تھا ۔بالکل تمہاری طرح ۔۔۔۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے جیسے وہ تمہارے روپ میں میرے سامنے کھڑی ہے۔ تم ہو بہو اس کی تصویر ہو ۔ لیکن میری بیٹی، وہ کس پہ گئی ہے ؟” اور اچانک ان کا دماغ برسوں پہلے کسی بھولے بسرے کردار کو یاد کرنے لگا ۔
” عرینہ بجیا” ان کی ریڑھ کی ہڈ ی میں ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔
انہوں نے آنکھیں بھینچ لیں ۔ وہ دو مختلف ذہنیت اور فطرت والی ان کی دو بڑی بہنیں آج کس روپ میں اس کے سامنے کھڑی تھیں؟۔ وہ جو بہت صاف گو تھی کس قدر خاموشی سے ان سب کی زندگیوں میں زہر گھول کر چلی گئی اور دوسری جس قدر خاموش تھی اس سے کہیں زیادہ خاموشی سے وہ ان سب کی خاطر قربان ہوئی تھی ۔ان کا دم گھٹنے لگا ۔ انہوں نے جلدی سے گاڑی کے شیشے کھول دیے ۔ اس واقعے کو گزرے اکیس سال ہو گئے تھے لیکن کچھ زخم جب ایک لمحے میں ہرے ہو جائیں تو کافی دیر تک تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭
” تم یہ لاکٹ پہن کے نہیں جانا کل آپا کی شادی میں ۔ علی بھائی نے دیکھ لیا تو ان کو بہت برا لگے گا۔” دینا نے مرینہ کے ہاتھ سے لال رنگ کا ڈبہ لیتے ہوئے واپس الماری میں رکھا اور خود کپڑے بدلنے غسل خانے کے اندر چلی گئی ۔
” تو پھر اس لاکٹ کا میں کیا کروں؟ کھانے کی چیز بھی تو نہیں ہے کہ کھا جاؤں ۔” اس کا چہرہ اچانک بجھ سا گیا تھا ۔
بھئی! میں تو اپنے ہوٹل کے مالک سے کہوں گی کہ مجھے اگر گفٹ دینا ہے تو کھانا پیک کروا کے میرے لیے بھجوایا کرو۔ ” اس نے بڑے مزے سے سوچا اور بال کنگھی کرنے لگی ۔
٭…٭…٭
وہ بڑی بے دلی سے میم رقیہ کی جانب بڑھ گئی تھی جو ایک سٹال کے باہر کھڑی کسی فیشن ایبل خاتون سے محوِ گفتگو تھیں ۔
” میں ان سے کہہ دوں گی کہ میری بیسٹ پینٹنگز کھو گئی ہیں ۔” اس نے سوچا تو بے اختیار اسے اپنی آنکھوں میں نمی اترتی محسوس ہوئی ۔ غصے اور بے بسی کے ملے جلے احساس سے دوچار ہوتی ہوئی وہ میم رقیہ کے سامنے کھڑی تھی اور خلاف ِتوقع انہوں نے اس کی تینوں پینٹنگز کو بے حد سراہا ۔
٭…٭…٭
وہ تینوں خوب بن ٹھن کر گھر سے نکلی تھیں ۔ دینا ہمیشہ کی طرح بے نیاز تھی ۔ عرینہ کو سردی کا احساس ہورہا تھا۔ اس کے سینے میں تو جیسے برف پگھل رہی ہو اوروہ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی قطرہ قطرہ کر کے اس کے دل پر گررہا ہو۔ وہ بڑی پھوپھی کے گھر جارہی تھی یعنی علی کے گھر، اس نے جھرجھری لی تھی ۔ اسے واقعی ٹھنڈ سی لگنے لگی تھی اور مرینہ کو تو کسی کے گھر جانے کی خوشی تھی، اور نہ جوش۔ اس کو تو بس ڈھولک بجاناتھا، ناچنا تھا ، گانا تھا۔بہت ساری سہیلیوں سے ملنا تھا اور سب سے بڑھ کر اچھے اچھے کھانے کھانے کا شوق تھا۔
” بڑی ماں آئیں گی؟” مرینہ کو اچانک خیال آیا ۔
” نہیں ۔ اماں نہیں آسکیں گی کیوں کہ ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔” عرینہ نے جواب دیا ۔
” شکر ہے ۔ورنہ وہ تو ہر شادی بیا ہ میں سی سی ٹی وی کیمرہ کی طرح ہم پرنظر رکھتی ہیں ۔” مرینہ شکر بجا لائی تو دینا نے آنکھیں نکال کر اسے گھورا تھا ۔
” اور اماں ؟” مرینہ نے جلد ی سے بات بدل دی ۔
” وہ شام کو آئیں گی۔ ” دینا نے مختصراً جواب دیا تھا ۔وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔ نہ جانے وہ کس الجھی ہوئی ڈوری کو سلجھانے میں مگن تھی؟
” کاش یہ راستہ دس منٹ کے بجائے تیس ، چالیس منٹ کا تو ہوتا تو میں کچھ سوچ پاتی کہ آخر کیا کرنا ہے؟”اس نے گلی کی نکڑ پر مڑتے ہوئے سوچا۔ بڑی پھوپھی کا گھر دائیں ہاتھ کی گلی میں تھا ۔اسے اتنی جلدی پہنچ جانے کا افسوس تھا ۔ اس نے بہر حال اپنے وعدوں کو پورا کرنا تھا لیکن اس کے ذہن کو فی الحال کوئی ترکیب نہیں سوجھی تھی ۔
٭…٭…٭
اپنے سٹال کی طرف جاتے ہوئے اس کی نظر جس سٹال پر پڑی تھی اس کے سامنے وہ رک گئی ۔ اسی سٹال میں حمائل اپنی کلاس فیلو زوبیہ کے ساتھ بیٹھی ہنس بول رہی تھی ۔
” مجھے حیرت ہورہی ہے حمائل اصغر !کہ تم نے پینٹنگ جیسا فضول شوق کب سے اپنا لیا؟” میں حیران ہوں کہ یہ تم ہو حمائل ؟ جو زوبیہ کے ساتھ اتنی ہنس بول رہی ہو ۔۔۔ وہ زوبیہ جو ہماری کلاس کی سب سے بیسٹ آرٹسٹ ہے اور جس کے ساتھ کلاس میں کبھی تم بات تک نہیں کرتیں کیوں کہ بہ قول تمہارے وہ تمہارے ٹائپ کی نہیں ہے ۔” اس نے وہیں پر کھڑے کھڑے سوچا اور پھر اپنی سٹال کی طرف چلی گئی ۔ “کسی انسان کے قول و فعل میں اتنا تضاد کیسے ہو سکتا ہے ؟ ” اس نے حیرت سے سوچا تھا ۔ جو لڑکی میری بچپن کی بہترین سہیلی ہو، اس کو آج سمجھنے میں اتنی دقت کیوں ہورہی ہے مجھے؟” حمائل کے اس عجیب سے رویے نے اسے واقعی سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔آج اسے واقعی لگ رہا تھا وہ حمائل سے نفرت کرنے لگے گی لیکن اگلے لمحے اس نے خودکو ٹوکا کیوں کہ وہ جانتی تھی حمائل دل کی بڑی سچی ہے ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ جذباتی ہے ۔” چھوٹی چھوٹی باتوں پر شور مچانے کی عادت تو تمہیں بچپن سے ہے ۔” بیگ سے اپنی پینٹنگز نکال کر اس نے سوچا ۔
٭…٭…٭
شام اپنا سرمئی آنچل ہر طرف پھیلا چکی تھی ۔ موسم خوش گوار تھا ۔ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکوں نے مہندی کی اس تقریب میں سُر سابکھیر دیا تھا ۔ وہ نیلے آسماں تلے بیٹھا تارے گن رہا تھا ۔ کچھ بے زار سا، کچھ پرشوق سا۔۔۔ وہ دس منٹ سے وہاں بیٹھا اس کا انتظار کررہا تھا۔ وہ جانتا تھا دینا اسے لے کر آئے گی اسی وجہ سے وہ بڑے ہی صبر سے سیڑھیوں میں ٹانگیں پھیلائے بیٹھا اس کے آنے کا انتظار کررہا تھا ۔
دلہن کو لڑکیوں کے ہجوم نے گھیرا ہوا تھا ۔ کچھ لڑکیا ں دلہن کے بالکل قریب بیٹھی اسے چھیڑرہی تھیں اور کچھ لڑکیاں نیچے بچھی چٹائی پر بیٹھی گانے گارہی تھیں ۔ سب کے بیچ میں بیٹھی مرینہ بڑی تیزی سے ڈھولک پر ہاتھ چلا رہی تھی او ر ساتھ ساتھ اپنی بے سری سی آوا ز میں گا بھی رہی تھی ۔ اس کے پاس بیٹھی عرینہ بھی گانے میں شریک تھی ۔ سب لڑکیوں کے اس طرح مل کر گانے کی آواز پر کچھ یوں گمان ہوتا تھا جیسے شام کے وقت کسی بڑے بزرگ کے مزار پر چڑیاں چہچہاتی ہوں ۔
” آؤ میرے ساتھ ۔۔۔” اس کے پاس آ کر دینا نے اسے بازو سے پکڑ کر کہا ۔
” کہاں ؟” وہ جھنجلائی ۔ وہ اتنی اچھی محفل چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتی تھی ۔
” فردوس بھابھی کہہ رہی ہیں اوپر کے کمروں میں بستر لگا دو مہمانوں کیلئے ۔” دینا نے صاف جھوٹ بولا۔
” تو تو لگا ناں ۔ میں یہاں بستر لگانے نہیں آئی ۔” اس نے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کی لیکن دینا کی گرفت مضبوط تھی ۔
” اٹھو۔” دینا نے زور سے اسے ہلایا تو وہ مجبوراً اٹھ گئی ۔
دینا کو اور برا بھلا کہتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے چل دی ۔
اندھیرا چھا چکا تھا ۔ اس نے سر اٹھاکر دیکھا لیکن چاند بھی کہیں نظر نہیں آ رہا تھا ۔
” تجھے گھرداری کا اگر اتنا شوق ہے تو مجھے کیوں گھسیٹ لائی ہے ؟” وہ سخت برہم تھی ۔
” گھرداری سکھانے کے لیے ۔” دینا مسکرائی ۔
” ٹارچ تو لے آتی ناں۔ بہت اندھیرا ہے یہاں۔” اس نے آہستہ سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کہا ۔
” اس کی ضرورت نہیں ہے ۔” دینا کا انداز عجیب تھا ۔
” جاہل” !وہ غصہ تھی ۔ دینا جواب میں خاموش رہی ۔
اوپر جا کر دینا اس کو ایک سیاہ سائے کے پاس چھو ڑ کر واپس نیچے جانے لگی
”تو ۔۔۔ کہاں جارہی ہے ؟”وہ گھبرا گئی ۔





” نیچے ۔۔۔۔” وہ مڑے بغیر بولی ۔” اور ۔۔۔ بستر؟ ” اس نے ہکلا کر پوچھا ۔
” لگ گیا ۔” دینا کے انداز میں شرارت تھی ۔ اور اس سے پہلے کہ وہ بھی بھاگ کر دینا کے ہمراہ نیچے جاتی ، کسی مردانہ ہاتھ نے بڑی مضبوطی سے اس کا بازو تھام لیا تھا ۔ س کے دل کی ہر دھڑکن ایک لمحے کو ساکت ہو گئی اور پھر ہر دھڑکن ایک الگ سرگا رہی تھی ۔ اس کے دل کے باغ میں جیسے بہت سے مور ایک ساتھ ناچنے لگے تھے ۔
علی نے کھینچ کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا ۔” ادھر بیٹھو ۔ بالکل آرام سے۔” اس کا لہجہ سخت تھا۔ وہ ڈر گئی ۔ کافی دیر تک سر جھکائے وہ خاموش بیٹھی رہی ۔
” بہت بولتی ہو تم ۔ میں جانتا ہوں لیکن میرے سامنے تمہاری بولتی کیوں بند ہو جاتی ہے ؟” وہ اب بھی سنجیدہ تھا ۔ عرینہ خاموش رہی ۔
” میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ جانتی ہو تم ؟” وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دھیرے سے بولا ۔
” مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔”
” کیوں ؟ کس سے ؟”
” آپ سے ۔”
” میں جن بھوت نہیں ہوں ۔ تمہاری طرح کا انسان ہوں ۔”
” مجھے جانے دیں ۔”
” کھا نہیں جاؤں گا تمہیں، تھوڑی دیر بیٹھی رہو۔”
” یہ صحیح نہیں ہے ۔”
” تو پھر کیا صحیح ہے ؟ تم بتاؤ۔”
” میں نہیں جانتی ۔”
“یہ میرا حق ہے ۔”
” میں اپنے فرائض نہیں جانتی ”
” تم بے وقوف ہو ۔”
” شاید ہاں ۔۔۔۔ لیکن ابھی مجھے جانا ہے ۔” وہ اپنا ہاتھ چھڑاکر اس سے الگ ہو گئی ۔ وہ تڑپ کررہ گیا ۔ “یہ ظلم ہے ۔” وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔
” انتظار کریں۔” وہ تیزی سے نیچے جانے لگی ۔
وہ دوبارہ وہیں پر بے جان سا بیٹھ گیا ۔
وہ بے حد تھک چکی تھی ۔ صبح سے لے کر دوپہر دوبجے تک سٹال میں ہر آنے والے کو خو ش آمدیدکہہ کر اس سے مسکر اکر بات کرنا قطعی آسان نہیں تھا ۔ وہ سیدھی گاڑ ی میں آکر بیٹھ گئی تھی ۔
” منزہ بی بی ! حمائل بی بی تو ابھی تک نہیں آئیں۔ ” اس کے گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور نے کہا۔
” میں بلاتی ہوں ۔ وہ ” مجبوراً گاڑ ی سے اتر کر واپس سٹالز کی طرف چلی گئی ۔
“تم نے مجھے تھکا دیا ہے حمائل !جسمانی طور پر بھی اور ذہنی طور پر بھی ۔۔۔” اس نے قدرے بے بسی سے سوچا تھا اور بوجھل قدم بڑھاتی اسی سٹال کی طرف گئی جہاں حمائل صبح سے بیٹھی تھی ۔
” اوہ ۔۔۔” وہ بے دھیانی میں ایک ماڈرن عمر رسیدہ خاتون سے ٹکرائی ۔
” او ! مائی گاڈ!! ۔۔۔” اس خاتون کے ہاتھ سے پینٹنگز کی فریم گرتے ہی اس کے منہ سے بے اختیار نکلا
” آئی ایم سوری آنٹی ! میں ابھی اٹھا دیتی ہوں ۔” منزہ بہت شرمندہ تھی ۔ وہ جلد ی سے جھکی اور اس خاتون کے ہاتھ سے گری پینٹنگز اٹھانے لگی ۔ پہلی پینٹنگ اٹھا کر اس نے اس خاتون کو تھما دی لیکن دوسری پینٹنگ دیکھتے ہی اس کے دماغ میں جیسے دھماکہ ہوا تھا ۔ وہ چند لمحو ں میں اپنی پینٹنگ کو خالی نظروں سے دیکھتی رہی ۔ ” یہ یہاں کیسے”؟ اس کے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ خود اس کے کانوں نے بھی نہیں سنے۔
” وہی سیاہ کناروں والا فریم ، وہی Sunset” ” والی پینٹنگ یہ سب ایک اتفاق نہیں ۔ یہ تو ایک سوچی ہوئی ترکیب ، ایک سازش ہے ۔ ” اس نے وہ فریم اس خاتون کو تھما دیا جو ” تھینکس ” بولتی ہوئی آگے بڑھ گئی، لیکن منزہ علی کا ذہن بس ایک ہی جگہ پر اٹکا ہوا تھا ۔
” خالہ کہتی ہیں تم دل کی بری نہیں ہو حمائل !لیکن سچ کہوں تو تم دل کی صاف بھی نہیںہو ۔۔۔۔ ” وہ بے دھیانی میں نہ جانے کس طرف جارہی تھی ۔
” صبح تمھارا وہ غصہ ۔۔۔ اور اب یہ سب ۔۔ میں حیران ہوں کہ یہ سب تم کیوں کررہی ہو ؟ وہ بھار ی بھاری قدم اٹھاتی چل رہی تھی ۔
” اور نہ جانے وہ دوسری پینٹنگ اس نے کس کو دی ہو گی ؟آنکھوں میں اترتے ہوئے وہ آنسوؤں کے قطرے یا پھر آگ کے انگارے ۔۔۔ وہ سخت غصہ تھی لیکن وہ اپنی بے بسی بھی جانتی تھی ۔
” انکل بلا رہے ہیں حمائل” ! سامنے سے آتی حمائل کو اس نے آواز دی تواس نے اسے مکمل نظر انداز کیا اور زوبیہ کے ساتھ ہنستی بولتی آگے بڑھ گئی ۔ منزہ نے اپنی ہتھیلی سے ان بے بس اشکوں کو صاف کیا اور حمائل کے پیچھے پیچھے چل دی ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے حمائل کے بے نیاز چہرے کو دیکھا۔
” تم حمائل اصغر نہیں ہو سکتیں ۔” یہ سوچتے ہی اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔ اس نے اپنی آنکھیں بھینچ لیں ۔
عرینہ کو علی بھائی کے پاس لے جا کر وہ کافی دیر صحن کے ایک تاریک گوشے میں جہاں اخروٹ کا گھنا درخت تھا ، کھڑی رہی ۔ اچانک اصغر حمید نے اسے بے کل کر دیا تھا ۔ وہ نہ جانے اس وقت کیا کررہے ہوں گے ۔؟” اس کی آنکھوں سے بے اختیار گرم آنسوؤں کی ایک لڑی بہہ گئی ۔کوئی رابطہ ، کوئی بات چیت نہیں تھی ان دونوں کے بیچ میں، بس ایک بے نام سا انتظار تھا جو وہ کیے جارہی تھی ۔ نہ چاہ کر بھی۔۔۔ ” محبت سے غم اور اداسی ضرور پیدا ہو گی ۔ وہ محبت ہی نہیں جو اداس نہ کرے ۔” اشفاق احمد کا یہ قول اس نے کہیں پڑھا تھا ۔
اپنے اشکوں کو دوپٹے کے پلوسے صاف کرتے ہوئے وہ گاتی لڑکیوں کی سمت چلی گئی اور اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر وہ چٹائی پر بیٹھ گئی ۔اب وہ مطمئن تھی کیوں کہ وہ جان چکی تھی کہ اسے اصغر سے سچی محبت ہے اور اس محبت کی خاطر اس کا انتظار کرنا کوئی بڑی بات تو نہ تھی ۔
” چل اٹھ ۔ گھر چلتے ہیں ۔ ” تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ عرینہ نے آکر اس کے کند ھے کو زور سے ہلایا۔
” کیوں ؟ لیکن ۔۔۔۔” دینا کچھ بھی نہیں سمجھ پارہی تھی ۔ وہ تو عرینہ کو علی بھائی کے پاس چھوڑ کر آئی تھی ۔ وہ چاہتی تھی کہ عرینہ اس شخص کے جذبات کی قدرکرے، لیکن یہ کیا ؟ اس کے چہرے پر تو کوئی تاثر ہی نہیں تھا۔
” مجھے نہیں رہنا یہاں ۔ مرینہ سے کہہ دے ۔ چلتے ہیں ۔” عرینہ جانے پر مصر تھی ۔
” اچھامیں ماں کو بتا کر آتی ہوں ۔” دینا نے ہارمان لی ۔
” نہیں بھابھی ! میں آپ کو جانے نہیں دوں گی ۔” نجانے مسرورہ کس سمت سے آگئی تھی ؟ عرینہ کی بے زاری عروج کو پہنچ گئی۔
” اوہ میرے خدا! پوری دنیا میں اس عجوبے کو کیا میر ی ہی نند بننا تھا ؟” اس نے گہری سانس لی۔
” میرے سر میں درد ہورہا ہے” ۔ اس نے جھوٹ بولا اور اس سے پہلے کہ مسرورہ کچھ کہتی دینا آگے آئی ۔
” چلو ۔ فیروز بھائی ہمارے ساتھ جارہے ہیں ۔ اماں رات یہیں رہیں گی”۔
” ابھی کچھ دیر پہلے میں آخری سیڑھی پر بیٹھا تم سے بات کررہا تھا اور ابھی میں سب سے پہلی سیڑھی پر بیٹھا تمہیں جاتا دیکھ رہا ہوں ۔ تم جب ہمیشہ کیلئے اس گھر میں آؤ گی تب شاید میں تمہیں آتے ہوئے نہ دیکھ پاؤں لیکن میں ہر مہینے کی سترہ تاریخ کو شام کے وقت تمہیں انہی سیڑھیوں میں بٹھا کر اپنی محبت کا اظہار کروں گا اور تب تم مجھے انتظار کرنے کا نہیں کہو گی ۔” وہ سیڑھیوں میں بیٹھا پر امید انداز میں سوچ رہا تھا ۔ وہ بھاری کام کا پیلا جوڑا پہنے گل صد برگ کا پھول لگ رہی تھی ۔
” مجھے یہ کھٹا میٹھا سا احساس کیوں ہورہا ہے؟ محبت کیا اس ٹھنڈے سے احساس کو کہتے ہیں جو میرے دل میں ابھی ہے ؟مجھے لگ رہا ہے جیسے میرے دل میں کیلشیئم کی گولی گھل رہی ہو ۔مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے شاید ۔۔۔ اس بات کا مجھے پتا ہونہ ہو لیکن اگرمیں تھوڑی دیر بھی یہاں رکتی تو ان دونوں چڑیلوں کو پتا چل جاتا۔ تو بہ ہے یہ دونوں تو میری جان عذاب میں ڈال دیں گی ۔ بس یہ طے ہے کہ میں ان دونوں کو نہیں بتاؤں گی ۔” گھر کے دروازے سے نکلتے ہوئے اس نے دل میں فیصلہ کر لیا اور مطمئن ہو گئی ۔
٭…٭…٭





” اس ہیسٹوریکل نوٹ کو سنبھال کر رکھ دو پہلے ۔” حمائل نے الماری کھول کر اپنے پرس میں پانچ ہزار کا نوٹ رکھ دیا اور پھر ڈریسنگ روم میں موجود فل سائز مرر میں خود کو دیکھ کروہ مسکرائی ۔
” واو ماہی ڈارلنگ ! یو آر ونڈر فل ۔” اس نے خود سے کہا اور آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی ۔
” she deserves all this ” وہ بڑبڑائی اور واش روم کے اندر جاتی منزہ نے بڑی بے بسی سے سوچا تھا ۔
” میں تمہاری ان نا انصافیوں کی وجہ سے خالہ، خالو اور شہروز کی اچھائیوں کو اگنور نہیں کر سکتی ۔ میں اتنی کم ظرف نہیں ہوں کہ تمہارے گھر میں رہ کر تمہارے مقابلے میں کھڑی ہو جاؤں ۔ کاش! تم مجھے ایسا کرنے پر مجبور بھی نہ کر و ۔ بے اختیار اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔
” خالہ کہتی ہیں کہ میں اگر تمہارے ساتھ کمرے میں خوش نہیں ہوں تو اوپر شفٹ ہو جاؤں لیکن حمائل ! مجھے جتنا میسر ہے وہ کافی ہے ۔ مجھے تمہارے گھر کی کسی بھی چیز پر قبضہ جمانے کا کوئی حق نہیں ۔ ” اشکوں کی لڑی ٹھوڑی تک بہ گئی ۔
٭…٭…٭
اس شام کے بعدوہ مرینہ کے پاس سے ہلتی تک نہ تھی ۔ ڈھولک بجاتے ، گاتے یا پھر کھانا کھا تے وقت وہ اسی کے پاس رہتی تھی ۔دینا پر اس کو بھروسہ نہیں رہا تھا ۔
” بڑی جھوٹی اور دھوکے باز ہے وہ عورت” وہ کڑھ کر سوچتی ۔ پوری شادی میں اس کی یہ بھی کوشش تھی کہ وہ مسرورہ کے سائے سے بچی رہے اور مرینہ واقعی مدد گار ثابت ہوئی تھی ۔
” تیری بکواس سے تو مسرورہ بھی تنگ آکر چلی جاتی لیکن خیر میری بلی، تیرا یہ میاؤں میاؤں ہی مجھے چوہوں سے بچائے گا” ۔ وہ مرینہ کا گال چو م کر کہتی ۔
٭…٭…٭
” نیند آتی ہے مجھے پاکستان سٹڈی کی کلاس میں ۔ بہت بور ہو جاتی ہوں ۔” افصہ نے کرسی پربیٹھتے ہوئے شکایت کی ۔
” نیند تو آئے گی ہی ۔ میم عائشہ جو اتنے پیار سے لوری سناتی ہیں” ۔ مطیع بھی آکر بیٹھ گیا ۔
” افوہ ! پھر آگیا دماغ خراب کرنے ۔ تو کب مرے گا میٹ !” تابندہ نے مطیع کو گھورا اور کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گئی ۔
” تیری مانگ میں سیندور لگا کے ۔” وہ حاضر جوابی سے بولا ۔
” شٹ اپ! میں پاگل نہیں ہوں جو تجھ سے شادی کرلوں ۔ ” وہ غصے سے بولی ۔
” تو کیوں اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے میٹ ؟” صبار نے مطیع کے کندھے پر ہاتھ مار کرکہا ۔
” اللہ کرے تو مر جائے میٹ” ! تابندہ نے بددعا دی ۔
” پھر تجھ سے شادی کو ن کرے گا ؟ ” وہ اسے تنگ کرنے پر تلا ہوا تھا ۔
” ہزاروں لڑکے ہیں ۔ کوئی نہ کوئی کرلے گا مجھ سے شادی۔” اس نے بھنویں اچکا کر کہا ۔
” یعنی اس دنیا میں میرے جیسے بدبخت اور بھی ہیں” ؟ مطیع کی اس بات پر تابندہ جیسے تڑ پ کررہ گئی تھی۔ اپنی کتاب اٹھا کر وہ کرسی سے اٹھی اور لائبریری کے کسی ویران گوشے میں بیٹھ کر آرام سے پڑھنے لگی۔
” لائبریرین از اینگری ۔” کامل نے آ کر اسے خبردی ۔
” کیوں ؟ ” مطیع انجان بن کر پوچھا ۔
” تم دونوں کی وجہ سے ۔” کامل نے سنجیدگی سے مطیع کی طرف دیکھا ۔
” وہ کہہ رہے ہیں پہلے لائبریری میں بیٹھنے کے ایٹیکٹس سیکھ لو ۔پھر آیا کرو”۔
” ایٹیکٹس تو سب کو پتا ہوتے ہیں، کوئی عمل نہیں کرتا” مطیع سر کھجاتا ہوا اٹھا اور شیلف میں کوئی کتاب ڈھونڈنے لگا۔
” پیار کا پہلا شہر۔ ” مطیع نے کتاب اٹھا کر تابندہ کے سامنے ٹیبل پررکھ دی ۔
” یہ پڑھ لو ۔ بڑی اچھی بک ہے ۔
” شٹ اپ میٹ !Go away from me… ” تابندہ بھی چلائی ۔
سب نے حیرت سے ان دونوں کی طرف دیکھا ۔ اگلے ہی لمحے لائبریرین غصے سے ہونٹ کاٹتا ان کے سامنے کھڑا تھا اور اس نے جتنے غصے سے مطیع اور تابندہ کو لائبریری سے با ہر نکالا تھا ۔ اس کو یاد کرکر کے سب ایک عرصے تک قہقہے لگاتے رہے تھے ۔
” پیارکے پہلے شہر میں ابھی تک قدم رکھا نہیں اور پیارکے آخری شہر تک پہنچ گئے ۔” مطیع کی اس بات پر تابندہ نے صرف غصے سے اس کی طرف گھورا تھا اور لان میں جاکر بیٹھ گئی تھی ۔
یہ سارا منظر بڑی خاموشی سے دیکھتی حمائل ہاتھ میں ایک کتاب تھامے لائبریری سے نکلی ۔ اس کے ہونٹوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ سجی ہوئی تھی ۔وہ انہی دوستوں میں ٹوٹا ہوا سکون پاتی تھی ۔اس کی زندگی کے چند حسین لمحے انہی کی بہ دولت تھے ۔ وہ سب کتنے پیارے تھے۔ وہ ان سب کے بیچ کس قدر خوش ہوتی تھی ۔تھوڑے سے وقت کیلئے ہی سہی، لیکن وہ منزہ کے بارے میں بھول جاتی تھی ۔اپنی زندگی کی محرومیاں اسے یاد نہ رہتیں ۔ اس کا دل کرتاوہ سب یوں ہی ہنسیں ، بولیں ، قہقہے لگائیں، ایک دوسرے سے لڑا کریں اور وہ ان سب کے بیچ خاموش بیٹھی رہے ۔ان سب کو سنے اور زندگی اسی طر ح ہنستے کھیلتے گزر جائے، بنا کسی منزہ علی کے بارے میں سوچتے ہوئے ۔
زندگی آہستہ آہستہ سانسیں لے کر چل رہی تھی ۔کسی مترنم آواز کی طرح ، ہوا میں لہراتی پتنگ کی طرح ، کسی خوبصورت گیت یا پھر حمائل اصغر کے پلکوں کی جنبش کی طرح ، کس قدر حسین تھی زندگی، کس قدر دلچسپ تھی زندگی کی کہانی ۔ کاش وہ اس کہانی سے منزہ علی کا کردار مٹا پاتی ۔ زندگی کے صاف و شفاف آئینے میں جو دراڑ تھی، وہ منزہ علی ہی تو تھی ۔
٭…٭…٭
” لو بھلا گورنمنٹ کالج سے یہاں تک تیس روپیہ؟ ” وہ مرینہ اور لیزا کے ہمراہ رکشے سے اتری۔ اماں اور دینا کو جوتے درکارتھے ۔ اس لیے کالج سے واپسی پر وہ جوتوں کی مارکیٹ جوتے خریدنے گئی تھی۔ رکشے والا تیس روپے مانگ رہا تھا اور وہ بیس سے زیادہ دینے پر وہ راضی نہیں تھی۔
” ہاں باجی ! اتنا ہی کرایہ ہے ۔”
” اے جی ! باجی بھی کہتے ہو اور جھوٹ بھی بولتے ہو؟”
” ماں قسم سچ کہہ رہا ہوں باجی ! تیس روپیہ بنتا ہے ۔”
” بیس سے تو ایک آنہ بھی زیادہ نہیں دوں گی ۔” دس روپے کے دو نوٹ رکشے والے کو تھما کر وہ جانے لگی۔
” اے باجی ! یہ غلط ہے ۔” رکشے والے نے پیچھے سے آواز دی ۔
” اے بجیا !دے دیں دس روپے اور ۔۔۔ تماشہ بنا رہا ہے ۔ ” مرینہ نے اس کے کان میں دھیرے سے کہا ۔
” تماشہ تو میں اس کا بنا دوں گی ۔” وہ آستینیں چڑھاتے ہوئے بولی ۔
” تو مجھے بتائے گا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ ابھی پورا بازار اکٹھا کر لوں گی ۔ یہ لوگ ہڈیاں توڑ کررکھ دیں گے تیری ۔ میری مان اور چلا جا یہاں سے ” اس نے آنکھیں نکال کر رکشے والے کو گھورا۔
” یہ تم اچھا نہیں کررہی باجی! رکشے والے نے بے بسی سے کہا۔
” تو نے ابھی تک بُرا دیکھا ہی کیا ہے ؟ میرے بھائی ! چلا جا ورنہ تو یہاں اپنی ہڈیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائے گا۔ ” اس نے اپنا سخت انداز برقرار رکھتے ہوئے کہا ۔
” اے باجی ! میری مزدوری مجھ سے نہ چھینو۔” وہ جانے پر راضی نہیں تھا اور وہ نہ دینے پر مصر تھی۔
” جاتا ہے کہ چلّاؤں ؟” اس نے دھمکی دی ،وہ بدستور کھڑا رہا ۔
” چور ۔۔۔چور ۔۔۔بچاؤ۔” وہ گلا پھاڑتے ہوئے چیخی تھی اور اس کے ساتھ مرینہ اور لیزا یوں ہی چیخنے لگی تھیں ۔
جس نے بھی چیخ سُنی تھی دوڑا آیا ۔ رکشے والا لاکھ چلّایا کسی نے اس کی ایک نہ سنی ۔ بے چارے کی ہڈی پسلی ایک کردی اور وہ لیزا کو آنکھ مارتی جوتوں کی دکان کے اند رچلی گئی ۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!