پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

” یاد دلانے کا شکریہ ۔” اس کا لہجہ سخت تھا ۔
” تمہیں کیا ہوگیا ہے بیٹا ؟ ” وہ اس کے نزدیک آگئے۔
” Nothing ” مختصر سا جواب دے کر وہ کمرے کی طرف جانے لگی ۔
” حمائل بیٹا ! انہوں نے اسے پیچھے سے آواز دی ۔ وہ رک گئی ۔
” مجھے نیند آرہی ہے ۔ سونے جارہی ہوں میں”بنا پیچھے مڑ ے و ہ بے تاثر آواز میں بولی اور کمرے کے اندر چلی گئی ۔وہ بے بسی سے اسے جاتا دیکھتے رہے ۔”
حمائل کی بے رخی اور اس کا سخت لہجہ ان کے لیے بے انتہا تکلیف دہ تھا لیکن یہ بات وہ اپنی بیٹی کو سمجھا نہ سکے ۔ کیوں کہ وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھی۔”
” وہ بوجھل قدم اٹھاتے اپنی کمرے کے اندر چلے گئے ۔
٭…٭…٭





اس رات کوئی نہیں سویا تھا ۔بڑی ماں کو گہرا صدمہ پہنچا تھا، اس لیے اماں اور فیروز بھائی انہیں ہسپتال لے کر گئے تھے ۔
” پھوپھا جی اور فیروز بھائی کل پوری رات ڈھونڈتے رہے ہیں ان کو ۔پھر کچھ پتہ نہ چلا” ۔ مرینہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ فیروز بھائی تھانے میں رپورٹ درج کروانا چاہتے تھے ۔ لیکن اماں اور پھوپھا جی نے ان کو منع کردیا کہ جن کو نہیں پتا انہیں بھی معلوم پڑ جائے گا۔” دینا خاموشی سے مرینہ کی باتیں سنتی رہی ۔ ۔
میں حیران ہو ں کہاں جا سکتے ہیں وہ ۔ اتنی تلاش کے باوجود بھی نہیں ملے ۔”
” جنہیں ملنا ہوتا ہے بنا تلاش کیے بھی مل جاتے ہیں ۔”
آپ کو یقین ہوتا ہے کہ ایسا ہوا ہے ۔؟ ” مجھے تو خواب لگ رہا ہے ۔” مرینہ کی آواز آنسوؤں سے بھر گئی ۔
” یقین نہ کرنے سے حقیقت بدل تو نہیں جاتی ۔ مجھے پہلی بار لیزا پرترس آرہا ہے ۔”
” ترس کے لائق لیز ا نہیں ، عرینہ ہے ۔” وہ مرینہ کے پاس سے اٹھ کر باہر آگئی ۔
” تمہیں یوں چلے جانا تھا ہماری زندگیوں سے ؟”
” جاتے وقت تم نے ایک بھی بار ہمارے بارے میں نہیں سوچا ؟ ” اس اذیت کے بارے میں ، جس سے ہم ابھی گزر رہے ہیں ۔” وہ صحن کی طرف چلی گئی ۔”
” وہ انسان جو تم سے بے انتہا محبت کرتا ہے، تم نے جا کر ظلم کیا ہے اس پر ۔”
” اس کی نظروں میں علی کا چہر ہ گھوم گیا اور اس کے آنسو۔ ” دینا کے سینے میں ایک درد سا اٹھا ۔
” اپنے مرے ہوئے باپ کی عزت اچھا ل کر تم اپنی زندگی بنانے گئی ہو ۔۔عرینہ حمید!لیکن تم سکون کو ترسو گی، اپنی بیوہ ماں کا بھی خیال نہیں کیا تم نے ۔” وہ آم کے پیڑ کے نیچے زمین پر بیٹھ گئی ۔
” تمہاری ماں ہسپتال میں پڑی صدمے سے دوچار ہے ۔ تم ایسے کیسے جاسکتی ہو ہم سب کو چھوڑ کر ؟” وہ رونے لگی اور تمھار ااکلوتا بھائی جو سات سمند رپار اسی یقین کے ساتھ بیٹھا ہے کہ یہاں ہم اس کی عزت کو پلو سے باندھے اس کی حفاظت کررہے ہیں ۔”
” یہ تم نے کیا کردیا عرینہ ؟”
” اس کو میں نے بھیجا تھا ۔ ” وہ آئے گا تو میں کیا کہوں گی ۔” سردی کی شدت سے اس کا وجود سن ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی ٹانگیں سمیٹ لیں ۔
زندگی میں کچھ حقیقتوں کا یقین کر نا تکلیف دہ ہوتا ہے اور جب آپ یقین کرلیتے ہیں تو آپ کی تکلیف دوبالا ہو جاتی ہے، درداور بڑھ جاتا ہے ۔
٭…٭…٭
کمرے میں جاکر اس نے بنا لائٹ آن کیے اپنا ہینڈ بیگ اور سیل فون سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا ۔ منزہ بیڈ پر سور ہی تھی ۔ وہ بنا کپڑے تبدیل کیے کرسی پر جا کر بیٹھ گئی ۔
” زندگی میں پہلی بار عمل کے بجائے الفاظ پر یقین کیا ہے میں نے ۔ ” اس نے اپنی ٹانگیں سمیٹ کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی ۔ ” آپ کے ایکشن آپ کے words سے different ہیں لیکن میں آپ کےactions پر یقین نہیں کر سکتی ۔” اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے سوچا ۔ آپ چاہے جو بھی کریںBut you can’t regain my trust.. ” میرا بھروسہ توڑ کے آپ نے میرا آئیڈیل توڑا ہے ۔ میرا بے پنا ہ نقصان کیا ہے آپ نے ۔میں آپ کو معاف نہیں کرسکتی ۔ نہ اپنے لیے ۔ نہ امی جی کے لیے ۔” اس نے دل میں طے کیا۔ ” سچ تو یہ ہے کہ اب میں آپ پہ ٹرسٹ کرنا ہی نہیں چاہتی ۔” بلاوجہ اس کی بند آنکھوں میں پانی اتر آیا ۔
پانچ دن بعد بڑی ماں کو ہسپتال سے گھر لایا گیا ۔ وہ لاغر اور کمزور سی عورت کسی زاویے سے بڑی ماں نہیں لگ رہی تھیں ۔
دینا نے برآمدے میں ان کا بستر لگا دیا اور ان کے سرہانے جا کر بیٹھ گئی ۔ بہت دنوں بعد انہیں گھر میں دیکھ کر دینا کو سکون سا مل گیا تھا۔
” تم ذراپنے کمرے میں جاؤ۔ مجھے بھابھی سے ضروری بات کرنی ہے ۔” پھوپھا جی کو دیکھتے ہی اس نے دوپٹے کا پلو سر پر ڈال دیا اور بڑی ماں کے پاس سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
” بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی کچھ پتا نہیں چلا ان دونوں کا” ۔ اس نے پھوپھا کی آواز سنی ۔ وہ کمرے کے دروازے میں کھڑی ہو کر با ہر دیکھنے لگی ۔
” معاشرے میں جو عزت تھی ہماری، وہ خاک میں ملا دی آپ کی بیٹی نے ” وہ کرسی پر بیٹھ گئے ۔ ان کا لہجہ سخت اور آواز اونچی تھی۔ بڑی ماں کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے ۔
” غلطی کر دی ہم نے جو آپ کی بیٹی کو اپنایا ۔” ان کے لہجے میں حقارت تھی ۔
” پتا ہے لوگ کیا کہتے ہیں؟ سراج کی بہو ایک عیسائی کے ساتھ بھاگ گئی ہے ۔” بڑی ماں کی آنکھوں سے اشکو ں کی لڑیاں رواں تھیں ۔
” میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا ضرورت تھی اسے آگے پڑھانے کی ؟” ان کا لہجہ کاٹ دار تھا ۔ بڑی ماں کے آنسو ان کے چہرے کو تر کرنے لگے ۔
” جو عزت تھی وہ تو مٹی میں مل گئی ہے لیکن جو رہی سہی عزت ہے وہ میں کھونا نہیں چاہتا ۔ ” وہ کرسی سے اٹھ گئے ۔
” آج سے نہ میری بیوی بچے یہاں آئیں گے اور آپ لوگوں کو بھی وہاں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔” فیصلہ سنا کے جانے لگے ۔ بڑی ماں چھت کو گھورتی رہیں ۔ ان کے آنسو ان کے چہرے کو بھگوتے رہے۔ کمرے کے دروازے میں کھڑی دینا کا کلیجہ کٹ سا گیا ۔اس عورت کی یہ اوقات تو نہیں تھی۔
” زندگی بھر اس شخص نے بڑی ماں کے آگے احترام سے سر جھکایا ہے اور آج تمہاری وجہ سے۔۔۔” اس کی آنکھیں گر م پانی سے بھر گئیں ۔
” سراج بھائی صاحب۔” یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟” اماں کمرے سے نکل آئیں ۔
” بس فرحت !” انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اماں کو خاموش رہنے کا حکم دیا اور جانے لگے۔
” رشتہ داریاں ایسے نہیں توڑی جاتیں ۔” اماں چند قدم بڑھا کر ان کے پیچھے گئیں ۔
” آپ پہلے اپنی لڑکیوں کو عزت سے رہنا سکھائیں ۔رشتے داریاں بعد کی چیزیں ہیں ۔” ان کے لہجے میں نفرت و حقارت اور نجانے کیا کیا زہر بھرا تھا ۔ دینا نے دروازہ تھام لیا ۔
” آج وہ ہمارے کردار پر تھوک کے گئے ۔ عرینہ ! صرف تمہاری وجہ سے۔۔” وہ دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی رہی ۔اس کی طاقت جیسے اچانک کسی نے چھین لی تھی ۔
پھوپھا کے گھر سے جاتے ہی بڑی ماں کے منہ سے درد اور تکلیف بھری ایک چیخ نکلی تھی ۔اماں بھاگ کر ان کے پاس چلی گئیں ۔دینا نے ان کے اس جانا چاہا لیکن اس کے پیروں میں تو جان ہی نہیں تھی۔ اس نے قدم اٹھانا چاہا لیکن وہ بیٹھتی چلی گئی ۔
اس نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس دیں لیکن کافی دیر تک بڑی ماں کی تکلیف بھری چیخیں سنائی دیتی رہیں ۔ بڑی کوششوں سے جب اماں نے انہیں چپ کروایا، تب دینا نے اپنے کانوں سے انگلیاں ہٹا ئیں لیکن وقفے وقفے سے ابھرتی ان کی سسکیاں ۔۔۔دینا کو ہر بار اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
٭…٭…٭





اکیڈمی جاتے ہوئے اس نے صبار کو فون ملایا ۔
” ہیلو! ایس بی ۔ کہاں غائب ہے یار ؟ آج کیفے ٹیریا میں نہیں دیکھا تجھے ۔”
” میں آج یونیورسٹی نہیں گیا تھا ۔” صبار کی آواز مرجھائی ہوئی سی تھی ۔
” کیوں ۔؟
” یار! fever ہوگیا ہے مجھے ۔”
” اوہ اور تو نے بتایا تک نہیں ۔”
” نہیں یار ! اتنا fever بھی نہیں ۔ ٹھیک ہو جاؤں گا ۔”
” یہ کیا بات ہوئی ؟” تومجھے بتا تو دیتا ناں ۔۔” وہ ناراضی سے بولی ۔
” تو کیا کرتی جان کر ؟”
” میں تجھے دیکھنے آجاتی ۔”
” تو ابھی آجا ۔”
” اوکے آئی ایم کمنگ۔” اس نے فون بند کر کے ڈرائیور کو گاڑی دوسری طرف موڑنے کو کہا ۔
” تم سے ملنا باقی ہر کام سے زیادہ اہم ہے ۔ ” اس نے اطمینا ن سے سوچا تھا ۔
” راستے میں پھولوں کی دکان سے اس نے تازہ سرخ گلاب خریدے اور صبار سے ملنے چلی گئی۔
” ہیلو آنٹی ! ایس بی سے ملنے آئی ہوں ۔” وہ لان میں کھڑی مالی کو ہدایت دیتیں صبار کی ممی سے ملی۔
“ہیلو بیٹا ! ” چلو تم مل لو صبار سے ۔ وہ اپنے بیڈروم میں ہے ۔ میں چائے بجھواتی ہوں ۔ ” ان کی بات سن کر حمائل گھر کے اندرونی حصے کی جانب چلی گئی ۔
” ہائے ۔” اس نے صبار کے کمرے کے اندر جھانکا ۔
” ہائے ۔ کم ان !” وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔
” These are for you! ” اس نے پھول صبارکو تھما دیے ۔
” Thanks.. ” اس نے پھولوں کو سونگھ کر سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا ۔
” How are you now? ” حمائل ایک کرسی گھسیٹ کر صبار کے بیڈ کے نزدیک بیٹھ گئی۔
” felling much better… ” اس نے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا یا۔
” تو اس simple سے سوٹ میں بھی بہت پیاری لگ رہی ہے ۔”
” Oh!, Thanks ” اس نے اپنے سراپے پر ایک نگاہ ڈالی اور تھوڑی خجل سی ہو کر بولی ۔”
اکیڈمی جارہی تھی ۔نہیں گئی ۔یہاں آگئی ۔”
” تو سچ میں بہت پیاری لگ رہی ہے ۔” صبار نے دل سے اس کی تعریف کی ۔
” بس ایک کمی ہے ۔”
” کیا؟” حمائل نے سوالیہ انداز میں صبار کو دیکھا ۔
” come closer ” صبار نے اسے ہاتھ کے اشارے سے پاس آنے کا کہا ۔ حمائل جھجھکتی صبار کے بالکل نزدیک ہو گئی ۔ صبار نے ہاتھ بڑھا کر اس کی چوٹی کھول دی ۔
” یہ کھلے اچھے لگنے ہیں ۔” وہ اس کے کان میں بولا ۔ حمائل گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی ۔ وہ ہنسنے لگا ۔
” “May I come in ? کمرے کے دروازے میں ممی کھڑی تھیں ۔
” yes . Mummy!!! ” ” صبار سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ۔ حمائل تھوڑی پیچھے ہو کر بیٹھ گئی ۔
” بہو پیاری ہے میری ۔” وہ دوسری کرسی پر بیٹھ گئیں ۔ صبار اور حمائل نے حیرت سے ان کو دیکھا ۔
” ممی ! صبار نے ناراضی سے اپنی ماں کو دیکھا ۔
you were spying? ”
” no بیٹا ! وہ ہنسنے لگیں ۔ ”
آئی ایم سوری ! میں حمائل کے ساتھ تھوڑی دیر بیٹھنا چاہتی تھی ۔ you know! It was not intentionally ” انہوں نے صبار کو اور پھر حمائل کو دیکھ کر اپنی صفائی دی ۔
” That’s very bad ” صبار نے بحث کی ۔حمائل خاموش رہی ۔
” آئی ایم سوری ۔” ان کی آنکھوں میں شرارت کی چمک تھی ۔
” Anyways. your choice is a good one ”
” ٰI have to go حمائل جلد ی سے اٹھ گئی ۔
” اتنی جلدی ؟ صبار اداس ہو گیا ۔
” بس ۔ مجھے جانا ہے ۔ بائے ۔ ” وہ تیزی سے کمرے سے باہرنکل گئی ۔
” بیٹا ! چائے تو پی کے جاتی ۔” صبار کی ممی نے آواز دی ۔حمائل بھاگ کر گھر سے نکل گئی ۔
ایک خوبصورت سے احساس نے اس کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا ۔۔” تم مجھے مکمل کردو گے ۔ میری ذات کی محرومیوں کو، میر ی کمیوں کو پُر کردوگے ۔” اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بڑی امید سے سوچا ۔
٭…٭…٭





شام ڈھل چکی تھی ۔ وہ اس غضب کی سردی میں اپنے سمٹے ہوئے وجود کے ساتھ سیڑھیوں میں بیٹھا تھا ۔ اس کی سیاہ گرم چادر اس کے کندھوں پر بڑی لاپروائی سے پڑی تھی۔
تھوڑی حیرت ، تھوڑی بے یقینی اور تھوڑی تکلیف سی تھی ۔ عرینہ کی آواز کسی آوارہ گیت کی طرح اس کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔ وہ آنکھیں بند کرلیتا ۔ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا۔ رونے لگتا پر وہ آواز بند نہیں ہوتی تھی ۔وہ بہت بولنے والی لڑکی اس کی زندگی سے جا کر بھی اس کے کانوں میں سرگوشیاں کررہی تھی ۔
” تم ایسی تو نہیں تھی ۔” اس نے اس غیر موجود لڑکی کو مخاطب کیا ۔ پھر اسے یاد آیا وہ انہی سیڑھیوں میں اس کے بہت قریب نزدیک بیٹھی تھی ۔ ” یہ صحیح نہیں ہے ۔” وہ اس کے کان میں بول رہی تھی۔” جو تم نے میرے ساتھ کیا، وہ صحیح ہے ؟”اس کے انداز میں بے بسی تھی۔
” میں اپنے فرائض نہیں جانتی ۔” آواز پھرسے بول پڑی ۔
علی کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔
” انتظار کریں ۔” اس کے کانوں میں وہ سریلی آواز پھرسے لہرائی ۔
” کہاں تک انتظار کروں ؟ کب تک انتظار کروں ؟ تم مجھے مدت تو بتا کر جاتیں ۔ تب سے انتظار کررہا ہوں۔ آج بھی منتظر ہوں ۔” اس نے اپنی ہتھیلیوں سے آنسو ،خشک کیے ۔” سب کہتے ہیں تم مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہو۔ ” آنسو کا ایک قطرہ گال تک بہ گیا ۔” سب کہتے ہیں تم نے دھوکہ دیا مجھے تم دھوکے باز تو نہیں لگتی تھیں ۔ پھراسے یاد آیا وہ دھوکہ دینے میں بڑی ماہر تھی ۔ وہ بے بسی سے رونے لگا ۔” کاش اس رات میں تمہیں اپنا لیتا ۔ کاش میں تمہیں جانے نہ دیتا ۔ تم جیسی بھی تھیں میں تمہیں اپنی محبت سے بدل دیتا۔ ” وہ گھٹنوں پہ سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کے رو دیا ۔
٭…٭…٭
وقت بڑی تیزی سے دوڑ رہا تھا ۔ بالکل اصطبل سے بھاگے ہوئے گھوڑے کی طرح۔تیزچلتی ہوئی ہوا یا پھر سمند کی سر کش اور طوفانی لہروں کی طرح ۔ اسی یک رنگی سے بنا کسی تبدیلی کے، دو برس بیت گئے ۔ مگر زندگیوں میں تبدیلی تو آتی ہے چوری چوری ،چپکے چپکے ،دھیرے دھیرے،دبے پاؤں ۔
” یار ڈیڈی چاہتے ہیں میں بزنس جوائن کرلوں ۔” صبار نے بجھے ہوئے انداز میں کہا ۔
” تو کر لے ناں جوائن ۔ پرابلم کیا ہے ؟” مطیع منہ بھر کرکھاتے ہوئے بولا ۔
” جاپان جانا پڑے گا ۔” صبار نے بے دلی سے کہا ۔اس کے پاس کھڑی حمائل کھڑی ہی رہ گئی ۔
” وہاٹ ؟” you mean تو ہم سب کو چھوڑ کر چلا جائے گا ؟” تابندہ کھاتے کھاتے رک گئی ۔
” ڈیڈی یہی چاہتے ہیں ۔”صبار نے نظریں جھکا لیں ۔ اس وقت و ہ حمائل کی طرف دیکھنا نہیں چاہتا تھا ۔
” تو چلا جائے گا ایس بی ؟” افصہ اداس ہو گئی ۔
” ابھی نہیں یار!ایگزامز کے بعد جاؤں گا ۔” صبار جھنجھلایا ۔
” اب تم سب ایسے نہ بیٹھو ۔” اس نے سب کے اداس چہروں کو دیکھا ۔
” ماہی ! تو تو ایسے behave نہ کر ناں یار!”
بالآخر اس نے حمائل کی طرف دیکھ ہی لیا ۔وہ سرجھکائے خاموش کھری تھی ۔ صبار کی بات سن کر وہ تیزی کے ساتھ کیفے ٹیریا سے نکل گئی ۔
” ماہی ! لِسن ۔۔۔ پلیز لِسن ٹو می۔” صبار حمائل کو پکارتا ہوا س کے پیچھے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی تابندہ پاس بیٹھے مطیع کے کندھے پر سررکھ کے زور زور سے رونے لگی ۔ مطیع ہکا بکا اسے روتا ہوا دیکھتا رہا ۔
میں اپنے جبر کی اور کیا مثال دوں فراز؟
وہ میرے کندھے پر سررکھ کے روئے کسی اور کے لیے
مطیع نے اپنے خاص مزاحیہ انداز میں کہا ۔ تابندہ نے ناگواری سے اسے دیکھا اور کرسی سے اٹھ کر پیر پٹختی ہوئی وہا ں سے چل دی ۔
٭…٭…٭
رات کے کھانے کے بعد وہ بڑی ماں کو دوادینے گئی ۔ تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھ کر وہ اپنے کمرے میں آگئی ۔آج ڈاکٹر نے مرینہ کے پاؤں سے پلستر اتروا دیا تھا ۔ وہ پلنگ پر ٹانگیں پھیلائے لیٹی تھی ۔
” کیا سوچ رہی ہو ؟” دینا اس کے پاس جاکر بیٹھ گئی ۔
” نجانے کہاں ہو ں گی وہ اس وقت ؟” مرینہ نے چھت کو گھورتے ہوئے کہا ۔
” کون ؟”
” عرینہ بجیا ۔”
” تمہیں اس کی یا د آرہی ہے ناں ؟”
” وہ دوست تھیں میری۔”
” وہ ہم سے ہر رشتہ توڑ کر گئی ہے ۔”
” مجھے کبھی اندازہ نہیں ہوا کہ وہ شمعون میں دلچسپی لیتی ہیں ۔”
” تم شمعون سے ملی ہو؟”
” ہاں ”
” کب؟
” پہلی بار کرسٹینا کی شادی میں ۔”
” تم نے مجھے کبھی بتایا کیوں نہیں ؟”
” انہوں نے منع کیا تھا ۔”
” کس نے۔”
” عرینہ بجیا نے ۔”
” اور تم پھر بھی کہتی ہو کہ وہ شمعون میں دل چسپی نہیں لیتی تھی ؟” دینا کا لہجہ سخت ہو گیا ۔
” شمعون کو میں نے دیکھا تھا وہ عرینہ بجیا کو بہت غور سے دیکھا کرتا تھا ۔ ان کے ساتھ باتیں بڑھانے کی کوشش کرتا تھا لیکن عرینہ بجیا کو میں دیکھتی تھی وہ شمعون کی طرف کبھی دیکھتی بھی نہیں تھیں ۔
” تمہیں اتنا پتا تھا اور تم نے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا؟” دینا اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگی ۔
” میں نے کہا ناں عرینہ بجیا کی طرف سے کچھ نہیں تھا ۔”
” اگر ایسی بات ہے تو وہ اس کے ساتھ کیوں غائب ہو گئی ؟
” مجھے نہیں معلوم ۔۔۔۔ ” مرینہ کا دل چاہا و ہ پھوٹ پھوٹ کررودے ۔ جتنا وہ عرینہ کو جانتی تھی تو اسے اتنا تو یقین تھا کہ عرینہ ایس کوئی حرکت نہیں کرسکتی لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ وہ بھاگ گئی تھی شمعون کے ساتھ۔” تم نے بہت بڑی بے وقوفی کی ہے مرینہ !” دینا نے اسے ملامت کیا ۔
” عرینہ بجیا ایسی نہیں تھیں۔ آپ سمجھتی کیوں نہیں ؟ وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتیں ۔” وہ رونے لگی ۔ جس سچ کا یقین اسے نہیں تھا وہ چاہتی تھی دینا بھی اس سچ کو جھٹلا دے ۔
” لیکن وہ ایسا کر چکی ہے ۔” دینا کی آواز اونچی ہو گئی ۔
” تم یہ بات مان لو کہ تمہاری عرینہ بجیا گھر سے بھاگ چکی ہے ایک عیسائی لڑکے کے ساتھ۔” دینا کی آواز میں بے پناہ زہر تھا ۔” آنکھیں بند کرنے اور حقیقت سے انکار کر دینے سے حقیقت بدل نہیں جاتی ۔ تم مجھے بتاؤ تم اس حقیقت کو کیوں نہیں مان رہیں ؟” تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے سب کچھ ۔ ” دینا اس کے پاس بیٹھ گئی ۔
” کچھ نہیں ہوا تھا ۔” مرینہ روتے ہوئے چیخی ۔
” علی بھائی اسے کھانے پر لے گئے تھے۔ اس نے ان کے ساتھ کوئی بات نہیں کی ۔ انہوں نے سونے کا لاکٹ دیا اسے ۔ وہ عرینہ نے تمہیں دے دیا ۔ گل آپا کی شادی میں ، میں اسے علی بھائی سے ملوانے لے گئی۔ وہاں سے وہ بھاگ چلی آئی ۔اب تم بتاؤ اسے اگر علی بھائی سے محبت ہوتی تو وہ ایسا کرتی؟” دینا کے الفاظ کا زہر مرینہ کے کانوں میں اُترتا چلا گیا ۔وہ بلک بلک کر رونے لگی ۔
” کل پھوپھا تھوک کے گئے ہیں ہم پہ آگے اور لوگ تھوکیں گے اور تم کہتی ہو عرینہ ایسی نہیں تھی۔ زندگی بھر سرجھکا کے چلنا پڑے گا ہمیں ۔ ہمارا دامن داغ دار ہوگیا ہے۔” دینا کمرے سے نکل گئی ۔ مرینہ دیر تک روتی رہی پھروہ اٹھی تھی ۔عرینہ کی الماری سے اس کے کپڑے نکال نکال کر اس نے باہر پھینکے تھے۔ اس کی کتابیں اس نے پھاڑ ڈالی تھیں لیکن اس کی یادکو وہ دل سے نہیں پھینک سکتی تھی ۔اس رات وہ اپنی دوست کو یاد کرکے ڈھیر سارا روئی تھی ۔
٭…٭…٭
اتوار کی شام کو سات بجے صبار کی فلائٹ تھی ۔ سب فلائٹ سے ایک گھنٹہ پہلے ائیر پورٹ پہنچ گئے۔
” تو جارہا ہے ؟” تابندہ اداسی سے بولی ۔وہ جتنی منہ پھٹ تھی اس سے کہیں زیادہ اس کا دل نرم تھا ۔وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پررو دیا کرتی تھی ۔
” نہیں ۔آرہا ۔ ” مطیع جھٹ سے بول پڑا ۔
” I ‘ll be missing you ” تابندہ صبار کو دیکھتے ہوئے افسردگی سے بولی ۔
” مدھو بالا بننے کی کوشش نہ کرو ۔ یہ دلیپ کمار نہیں ہے ۔” مطیع نے تابندہ کو چھیڑا ۔ تابندہ نے جواباً مطیع کوگھورا اور یک د م اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔وہ بے اختیاررونے لگی ۔
” اگر تو ایسے روئے گی تو میں شادی روک لو ں گا ۔ ” مطیع نے تابندہ کا بازو تھا م کر اسے چھیڑنے کی کوشش کی لیکن وہ خاموشی سے روتی گئی ۔
” تابو! بریو گرل ۔۔۔۔Don’t cry ” صبار نے آگے بڑھ کر اس کے آنسو پونچھ لیے ۔
” تیر ی سینڈل بہت یاد آئے گی ۔” صبار کی اس بات پر وہ ہنس پڑی ۔
” I ‘ll miss you so much ” صبار اقصہ کی جانب بڑھ گیا ۔
” I ‘ll miss you too ” افصہ نے اپنی بھیگی پلکوں کو خشک کرتے ہوئے کہا ۔ اس سے ذرا فاصلے پر حمائل سر جھکائے خاموش کھڑی تھی ۔ وہ ان سب سے اس طرح لا تعلق نظر آرہی تھی جیسے اس کا ان سب سے کوئی واسطہ نہ ہو ۔
حمائل سے وہ آخر میں ملنا چاہتا تھا ۔
” میں تم سب سے کانٹیکٹ کرتا رہوں گا ۔ ” کامی او رمطیع سے ملنے کے بعد وہ اپنے سب دوستوں سے مخاطب ہوا ۔
” مجھے ماہی سے بات کرنی ہے ۔” وہ جھجکتے ہوئے بولا :” اکیلے میں ۔”
” Let’s go پرائیویٹ میٹنگ ہے ۔” مطیع کے لہجے میں شرارت تھی ۔
صبار کو گڈ بائے کہہ کر سب دوست پارکنگ کی سمت چلے گئے ۔
” ماہی ! ہم پارکنگ میں تیرا wait کررہے ہیں ۔” کلام نے جاتے ہوئے حمائل سے کہا ۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!