من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

”کون ہے سلمان؟”
نفیسہ نے سلمان کو دروازہ کھول کر کھڑے دیکھا۔ سلمان جواب دینے کے بجائے سامنے سے ہٹ گیا۔ زینی اندر آگئی۔ صحن کے تخت پر بیٹھی نفیسہ گود میں رکھی پلیٹ سے روٹی کا لقمہ لیتے لیتے رک گئیں۔ انہوں نے پلٹ کر اسے دیکھا انہوں نے پلیٹ کو گود سے ہٹا کر تخت پررکھ دیا۔ کئی ماہ پہلے کی طرح زینی کو دیکھ کر غصے سے پاگل نہیں ہوئی تھیں وہ اس بار۔
زینی کچھ دیر چپ چاپ شکست خوردہ انداز میں صحن میں کھڑی رہی۔ پھر ایک بھی لفظ کہے بغیر نفیسہ کے قدموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اس نے ماں کی گود میں منہ چھپاتے ہوئے رونا شروع کر دیا۔
ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔”تم نے بڑا ظلم کیا ہم سب پر زینی کتنا سمجھایا تھا انہوں نے تمہیں کتنا کہا تھا انہوں نے، لیکن تم نے ان کی بات نہیں مانی اب دیکھو کس حال میں ہو تم؟” زینی نے سراٹھا کر ماں کو نہیں دیکھا وہ ماں کے پاس صرف رونے آئی تھی۔ ماں کے پاس ہر کوئی رونے ہی آتا ہے۔
وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ نفیسہ بھی رونے لگیں وہ جانتی تھیں زینی، ضیاء کے کتنے قریب تھی۔ وہ ابو کی بیٹی تھی ماں کی کچھ نہیں۔ وہ جانتی تھیں باپ کی موت نے اس پر کیا اثر کیا ہو گا وہ نہیں جانتی تھیں وہ اس رات ان کی گود میں باپ کے لیے آنسو بہانے نہیں آئی تھی۔ وہ جس چیز کے لیے رو رہی تھی وہ نفیسہ جان جاتیں تو وہ جان سے جاتیں۔
”اب کیا فائدہ رونے کا زینی! اب کچھ واپس تو نہیں آئے گا۔ چپ ہو جاؤ اب۔” نفیسہ نے بالآخر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے دلاسا دینے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بہت دیر تک روتی رہی۔
زہرہ اور ربیعہ صحن سے آنے والی آوازیں سن کر باہر نکل آئی تھیں۔ زہرہ زینی کو اس طرح روتے دیکھ کر خود بھی رونے لگی تھی۔ مگر ربیعہ صرف چند لمحے رکی تھی وہاں پھر وہ واپس کمرے میں چلی گئی۔ زینی کے آنسوؤں اور مگر مچھ کے آنسوؤں میں اسے کوئی فرق محسوس نہیں ہوا تھا۔
”وہ بہت ناراض تھے تم سے میں نے انہیں زندگی میں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ تمہارے گھر گئے تھے تمہیں لینے۔ مگر جب انہیں پتہ چلا کہ تم ملائشیا چلی گئی تو بہت صدمہ ہوا تھا انہیں، بہت برا بھلا کہا انہوں نے اس رات واپس آکر یہ بھی کہا کہ وہ دوبارہ اب کبھی تمہاری شکل نہیں دیکھیں گے… یہ بھی کہا کہ وہ مر بھی جائیں تو ہم تمہیں ان کے جنازے میں شریک نہ ہونے دیں انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ حرام رزق کھانے اور پہننے لگ گئی ہے۔ اس حالت میں میرے پاس آئے گی تو میری روح کو تکلیف ہو گی۔ اسی رات انہیں رات کے پچھلے پہر ہارٹ اٹیک ہوا اور چند گھنٹوں میں وہ ختم ہو گئے۔”
نفیسہ آنکھوں کو دوپٹے کے پلو سے صاف کرتی ہوئی اس کو بتا رہی تھیں۔ وہ سب نہ بھی بتاتیں وہ جانتی تھی باپ اس سے ناراض تھا ورنہ یہ کیسے ہوتا کہ اس کے خواب میں ہی نہ آتا۔ ایک بار بھی نہیں اور ضیاء کی خواہش پوری ہوئی تھی۔ وہ ان کے جنازے میں شرکت نہیں کر سکی تھی۔ ان کی رزق حرام کھانے والی چہیتی اولاد آخری بار ان کے پاس نہیں آسکی۔





بہت بار اسے ضیاء کی قبر پر جانے کا خیال آیا تھا مگر ہر بار ایک عجیب سی ندامت ملامت اس کے پاؤں پکڑ لیتی۔ اس میں باپ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی اور کم از کم اب اس حالت میں جب اس کا پورا وجود رزق حرام میں چھپا ہوا تھا۔
زینی تخت پر بیٹھی پلیٹ میں پڑی پیاز کے ساتھ وہ روٹی کھانے لگی جو نفیسہ نے چھوڑ دی تھی۔ نفیسہ اب بھی ضیاء کی باتیں بتا رہی تھیں اور وہ رزق حلال کھا رہی تھی۔ اس نے یاد کیا آخری بار کب اس نے کھانا کھاتے ہوئے اس کے ذائقے پر اتنا غور کیا تھا۔ یقینا وہ آخری بار اس گھر میں ہی ہوئی تھی۔ اس گھر سے نکلنے کے بعد نہیں۔
زہرہ نے پانی کا گلاس لا کر اس کے پاس رکھ دیا۔ زینی اب آخری لقمہ لے رہی تھی۔
”آپ ابھی تک یہیں ہیں آپا؟” زینی کو اس وقت پہلی بار زہرہ کی وہاں موجوگی کا احساس ہوا۔
”یہ تو کئی مہینوں سے یہیں ہے۔ تمہارے ابو کی وفات کے بعد نعیم اسے واپس لے کر ہی نہیں گیا۔ وہ دوسری شادی کرنے والا ہے۔ بچیاں اور زہرہ تب سے یہیں ہیں۔”
زہرہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی نفیسہ نے رنجیدگی سے کہا۔
”ربیعہ کی منگنی ٹوٹ گئی ہے۔”
زینی کو شاک لگا۔ ربیعہ ابھی تک باہر اس کے پاس نہیں آئی تھی وہ اب وجہ سمجھ سکتی تھی۔
”تمہیں کتنا روکا تھا، اس کے سسرال والوں نے تمہاری ماڈلنگ کی وجہ سے ہی یہ منگنی توڑی ہے۔” نفیسہ کے لہجے میں ملامت نہیں تھی۔ گِلہ تھا اور گِلہ ہونا بھی چاہیے تھا۔
”آپ لوگ اپنا سامان پیک کر لیں۔ میں آپ سب کو لینے آئی ہوں۔” نفیسہ نے چونک کر زینی کو دیکھا۔ اب وہ پانی پی رہی تھی۔
”میں تو یہ سمجھی کہ تم واپس آگئی ہو۔” زینی کو ماں کی سادگی پر بے ساختہ پیار آیا۔
”زندگی کے ہر موڑ پر واپسی کا موقع نہیں ملتا۔ پیچھے اب بچا کیا ہے جس کے لیے میں واپس آؤں۔” اس کی آواز میں نمی تھی۔
”آنا ہوتا تو جاتی کیوں؟ آپ لوگ ابھی میرے ساتھ چلیں صبح میرے ملازم آکر سامان لے جائیں گے۔”
اس نے نفیسہ سے کہا، اس سے پہلے کہ نفیسہ کچھ کہتی زہرہ اور سلمان اٹھ کھڑے ہوئے۔
نفیسہ نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔ انہوں نے جیسے باور کرا دیا تھا کہ ان کا فیصلہ کیا ہونا چاہیے تھا۔
بھوک اور ذلّت میں اگر ایک چیز کا انتخاب کرنے کا موقع ملے تو ہر شخص ذلّت ہی چنے گا۔ بھوک زندگی کو سالوں اور مہینوں سے انگلی کی پوروں پر لے آتی ہے۔
ان سب نے اس سے پہلے ”غربت” اور ”تنگ دستی” نہیں دیکھی تھی ضیاء کی موت نے ان دونوں سے روشناس کروایا، ان کی موت سے پہلے گھر میں جیسا بھی پکتا مگر دن میں تین بار کھانا پکتا ہر ایک کی ہر ایک ضرورت تاخیر سے ہی سہی مگر پوری ہو جاتی لیکن اب، اب اس گھر سے رزق نہیں گیا تھا رزق کی برکت چلی گئی تھی۔
نفیسہ نے کچھ نہیں کہا خاموشی سے سر جھکا دیا۔ یہ جیسے ہتھیار ڈالنے کے مترادف تھا۔ لیکن ربیعہ نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے یا کم از کم اس آسانی سے نہیں ڈالے تھے۔ وہ زہرہ کے سامان پیک کرنے کے لیے اندر آتے ہی غصے میں آگ بگولہ باہر صحن میں آگئی۔
”میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی امی اور کسی حرام کھانے والے کے گھر میں تو کبھی نہیں۔”
اس نے صحن میں آکر زینی کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے نفیسہ سے با آواز بلند کہا، زینی خاموش رہی اس کے پاس اس وقت کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔
”یہاں رہ کر بھی بہت سے مسئلے ہیں ربیعہ! تم تو اپنی آنکھوں سے گھر کا حال دیکھ رہی ہو زہرہ کی دو بچیاں بیمار پڑی ہیں اور علاج کے لیے پیسے نہیں اس کی بڑی بچی اسکول چھوڑ کر گھر میں بیٹھی ہے سلمان نے تعلیم چھوڑ دی ، تم نے تعلیم چھوڑ دی۔ پھر بھی گھر کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔”
”سب کچھ خراب ہے تو کوئی بات نہیں کل ٹھیک ہو جائے گا۔ ابو کی پنشن آنے لگے گی۔ میرا رزلٹ آجائے تو مجھے کوئی بہتر نوکری مل جائے گی ہمیں کسی کے ٹکڑوں پہ پلنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔”
وہ نفیسہ سے یوں بات کر رہی تھی جیسے زینی وہاں ہے ہی نہیں۔ زینی نے مداخلت نہیں کی وہ اس پلیٹ میں نمک مرچ کے ذرّات کو اپنی انگلی سے صاف کر کے اپنی پوریں چاٹتی رہی۔
”تمہیں اگر یہاں رہنا ہے تو رہو لیکن ہم میں سے تو کوئی یہاں نہیں رہے گا ہم سب زینی کے پاس جائیں گے وہ بہن ہے ہماری۔۔۔۔” زہرہ نے باہر نکل کر بڑی سختی سے ربیعہ سے کہا۔
”ابو کو کتنا دکھ ہوتا اگر یہ بات آپ ان کے سامنے کرتیں۔” ربیعہ نے پلٹ کر زہرہ سے کہا۔
”ابو ہوتے تو کوئی یہاں سے نہ جاتا لیکن اب ان حالات میں یہاں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں، تم نے رشتہ داروں کو آزما لیا ، محلے والوں کو دیکھ لیا، اب اور کس کو پرکھنا باقی ہے؟ میں یہاں بیٹھ کر اپنی بیٹیوں کو مرتے نہیں دیکھ سکتی۔ کوئی اور نہ بھی جائے میں تو زینی کے ساتھ جاؤں گی اور سلمان بھی ہمارے ساتھ جائے گا۔”
زہرہ نے علی الاعلان کہا۔ زینی پلیٹ کے اطراف میں لگی ہوئی معمولی سی نمک مرچ کو بھی اپنی انگلی سے صاف کرنے اور چاٹنے میں لگی تھی۔ یوں جیسے وہ صرف اسی کام کے لیے وہاں آئی ہو۔
ریبعہ نے نفیسہ کو دیکھا اور کہا۔
”مگر میں اور امی یہاں سے نہیں جائیں گے۔”
”ربیعہ! اب تم ضد مت کرو، پہلے اس کی ضد کی وجہ سے یہ دن دیکھنے کو ملا ہے۔ اب تمہاری ضد کوئی اور آفت لے کر آئے گی ہمارے لیے جب کوئی یہاں نہیں رہنا چاہتا تو تم اکیلے یہاں کیسے رہوگی؟” نفیسہ نے بالآخر کہا۔ ربیعہ نے بے یقینی سے ماں کو دیکھا۔
”آپ… آپ بھی یہاں نہیں رہیں گی؟”
”نہیں جہاں باقی جا رہے ہیں میں بھی وہیں جاؤں گی۔” نفیسہ نے مدھم آواز میں کہا۔ ربیعہ کچھ دیر کچھ بول نہیں سکی۔ پھر اس نے پہلی بار زینی کو دیکھا۔ وہ سر جھکائے آخری بار اپنی انگلی پلیٹ میں پھیر رہی تھی۔ پلیٹ اب بالکل صاف تھی اس میں کہیں نمک مرچ نہیں رہ گیا تھا۔ زینی نے ہاتھ بڑھا کر پانی کا گلاس اٹھا لیا۔ ربیعہ کو اس سے اس وقت بے تحاشا نفرت محسوس ہوئی۔ اسے وہ زندگی میں کبھی اتنی بدصورت نہیں لگی تھی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!