من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

عرب کے قبائل میں برسوں سے اگر کسی کے اصطبل کے گھوڑے اس طرح مرنے لگتے جس طرح سعود بن جابر کے اصطبل کے مر رہے تھے تو وہ کسی عجمی نسل کے ایسے آدمی کو اپنے اصطبل میں لا رکھتا جس کے پیٹ اور کمر پر برص کے داغ ہوتے اور اس کے علاوہ اس کے جسم پر کہیں اور برص نہ ہوتا۔ ایسا آدمی ڈھونڈنا اس لیے مشکل ہوتا تھا کیونکہ برص عام طور پر کسی بھی آدمی کے کمر اور پیٹ پر پہلے ظاہر نہیں ہوتا تھا اور اگر وہاں ظاہر ہوتا بھی تو ساتھ ہی ہاتھوں پیروں اور چہرے پر بھی نمودار ہونا شروع ہو جاتا۔
کرم علی ان لوگوں میں شامل تھا جن کے پیٹ اور پشت پر برص ظاہر ہونے کے بعد رک گیا تھا۔
سعود بن جابر کے لوگوں نے کویت میں ایسے کسی آدمی کی فوری طور پر تلاش شروع کر دی تھی اور یہ تلاش انہیں آصف بھٹہ کے پاس لے آئی تھی اس کی دکان سعود بن جابر کے ملکیتی علاقے کے ایک بازار میں تھی اور سعود بن جابر کے کسی ہر کارے کے استفسار پر اس نے انہیں کرم علی کے بارے میں بتایا تھا۔ وہ نہ بتاتا اگر اسے بھاری انعام میں دلچسپی نہ ہوتی جو سعود بن جابر کے لوگ ایسے کسی آدمی کے بار ے میں اطلاع پہنچانے پر دینے کا اعلان کر رہے تھے۔ آصف کو یہ یقین نہیں تھا کہ کرم کی پشت پر یا جسم کے کسی اور حصے پر برص تھا یا نہیں مگر اس نے کرم علی کے پیٹ پر برص کے داغ بہت عرصے پہلے دیکھے تھے اور وہ اس کے ذہن میں تھے۔ کرم علی نے تب کوئی کریٹ اٹھا کر رکھتے ہوئے اپنے چہرے اور گردن کا پسینہ اپنی قمیص کا دامن اٹھا کر صاف کیا تھا۔ اور اسے احساس بھی نہیں ہوا تھا کہ آصف بھٹہ کی نظر اس کے پیٹ کے اس حصے پر پڑ گئی تھی جہاں برص تھا۔
اور اب اس واقعہ کے دو سال بعد آصف بھٹہ نے بڑے آرام سے اس کے بارے میں سعود بن جابر کے آدمیوں کو بتا دیا تھا اور وہ خوش قسمت تھا کہ کرم علی کی پشت پر بھی برص نکل آیا تھا۔ اگر نہ نکلتا تو آصف اس رقم سے محروم رہ جاتا جو اس نے کرم کے بارے میں اطلاع دے کر حاصل کی تھی۔
کرم علی کو وہاں لانے کے بعد اس ہفتے کوئی گھوڑا نہیں مرا تھا۔ صدیوں پرانا استعمال ہونے والا ٹوٹکا اب بھی کار گر ثابت ہوا تھا۔ کرم علی ہی وہ آدمی تھا۔ جو سعود کے گھوڑوں کو بچا سکتا تھا اور اس بار وہ ہزار دینار، سعود کے کسی گھوڑے کو کسی ممکنہ موت سے بچانے کے لیے کرم علی کی اجرت یا انعام تھا۔
کرم علی منہ کھولے شیخ سعود بن جابر کی باتیں سنتا رہا تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ اسے سعود بن جابر کی باتیں ایک من گھڑت قصہ لگ رہا تھا۔ مگر یہ بات سعود کو کہنے کا مطلب ہوتا کہ وہ اسے جھوٹا کہتا اور وہ کم از کم اتنا احمق نہیں تھا۔
اس نے زندگی میں کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ برص کا وہ مرض جسے وہ ساری عمر چھپاتا پھرا تھا اسے کسی شیخ کے پاس اس کے گھوڑوں کی زندگی بچانے کے لیے لے آئے گا۔




شیخ سعود بن جابر اب اپنے شراب کے گلاس کو دوبارہ بھر رہا تھا۔
”میں تمہارا بہت احسان مند ہوں۔ تمہاری وجہ سے میرے گھوڑے مرنا بند ہو گئے ہیں۔ اس ہفتہ کوئی گھوڑا نہیں مرا اس بدو نے کہا تھا کہ اگر اس ہفتہ گھوڑے ٹھیک رہے تو پھر تب تک انہیں کچھ نہیں ہو گا جب تک تم یہاں رہو گے۔”
”لیکن میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔”
کرم علی نے فوراً کہا۔ سعود اس کے جملے پر فوراً سے پیشتر پلٹا۔
”کیوں؟ یہاں کیا پریشانی ہے تمہیں؟ سب کچھ تو مل رہا ہے تمہیں، جو نہیں مل رہا وہ بھی بتا دو میں وہ بھی دے دوں گا۔” سعود اس بار سنجیدہ تھا۔
”تمہیں کسی دوست سے ملنا ہو وہ یہاں آجائے گا۔ پاکستان فون پر بات کرنا ہے وہ بھی یہاں سے کر سکتے ہو پاکستان پیسے بھجوانا چاہتے ہو ولید کو بتا دو۔ وہ بھجوا دے گا۔ تمہارے خاندان کو کوئی مسئلہ ہوا تو ولید اسے بھی حل کر دے گا۔ کوئی شراب، کوئی عورت چاہیے ولید تمہیں وہ بھی مہیا کر دے گا۔ تفریح کا کوئی اور سامان چاہیے وہ بھی مل جائے گا۔ صرف تمہیں یہاں سے باہر نہیں جانا، ویسے تو کوئی تمہیں یہاں سے باہر جانے بھی نہیں دے گا۔”
سعود نے بے حد صاف لفظوں میں اس سے کہا۔ کرم علی دم سادھے اس کی بات سنتا رہا پھر اس نے کہا۔
”اور مجھے کب تک یہاں رہنا ہو گا؟” سعود بن جابر اس کے سوال پر کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا پھر اس نے شراب کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
”جب تک تم زندہ ہو یا جب تک تمہارا برص جسم کے کسی دوسرے حصے پر آنا نہیں شروع ہو جاتا۔”
”ہر ہفتے گھوڑوں کو کچھ نہ ہونے کی صورت میں تمہیں ایک ہزار دینار ملیں گے تم اس رقم کو جیسے چاہو خرچ کرو۔ تمہارے باقی سارے اخراجات میرے ذمہ ہیں۔” سعود بن جابر نے کہا کرم علی کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس کا احسان مند ہو یا اس سے نفرت کرے، اس کی آزادی چھین کر اسے پیسہ دے رہا تھا۔ اور وہ پیسہ پاکستان میں اس کے گھر والوں کی زندگیاں بدل دینے والا تھا۔ مگر وہ اس کی زندگی بھی بدل دینے والا تھا۔
کرم علی کا دل چاہا وہ کچھ دیر کے لئے چلائے، شور مچائے ہنگامہ کرے۔ سعود بن جابر کو جتنی شدید اس کی ضرورت تھی وہ اسے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ مگر پھر اسے لگا کہ اس کا شور مچانا بے کار ہے۔ وہ اس ملک میں کیا کر سکتا تھا جو اس کا اپنا نہیں تھا۔ وہ اس وقت تک ماؤف ذہن کے ساتھ سعود بن جابر کے سامنے بیٹھا رہا جب تک اس نے اسے اپنے پاس سے چلے جانے کے لیے نہیں کہا۔
اس رات بھی وہ سو نہیں سکا جاگتا رہا، باری باری ان سب چہروں کو یاد کرتا رہا جنہیں اب وہ کبھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ماں باپ بہن بھائیوں کے چہرے اور عارفہ کا چہرہ اس نے سوچنے کی کوشش کی تھی کہ کیا اس سے کوئی گناہ ہوا تھا کیا اس نے کسی کا دل دکھایا تھا؟ کوئی دھوکا؟ کوئی جھوٹ؟ کوئی فریب؟
اسے کچھ یاد نہیں آرہا تھا۔ اسے واقعی کچھ یاد نہیں آرہا تھا۔ کرم علی نے زندگی میں واقعی کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔ البتہ اسے ہر وہ تکلیف ضرور یاد تھی جو دوسرے اسے پہنچاتے رہے تھے۔ پھر وہ کون سا گناہ تھا جو کرم علی کو وہاں لے آیا تھا وہ جتنا سوچتا جیسے پاگل ہونے لگتا… اسے بار بار سال پہلے اس لانچ میں مر جانے والے جذام زدہ اس لڑکے کی لاش یاد آتی جسے اس کی آنکھوں کے سامنے سمندر میں پھینک دیا گیا تھا اس کا گناہ یہ تھا کہ اس نے یہ ہونے دیا تھا ۔ لیکن وہ اس وقت بے بس تھا۔ چاہتا بھی تو کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ آج بے بس ہے۔
اگلے دن وہ اصطبل اور اس ولا سے باہر نکلنے کے راستے ڈھونڈتا رہا۔ اسے احساس ہوا یہ بھی بے حد دشوار تھا۔ اصطبل کے دو تین ملازم سائے کی طرح اس کے ساتھ لگے رہتے تھے، وہ وہاں سے کسی بھی طرح بھاگ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اگلے دن ولید کو کویت میں اپنے کچھ پاکستانی دوستوں کے ایڈریس اور فون نمبر دے کر کہا کہ وہ ان سے ملنا چاہتا تھا۔
دو دن بعد اس کا ایک دوست بے حد ہراساں انداز میں ایک گاڑی میں وہاں لایا گیا اور پھر ایک اور اردو بولنے والا کویتی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ کرم علی کو ولید پہلے ہی بتا چکا تھا کہ اسے اپنے کسی دوست سے اس ساری صورت حال کا ذکر نہیں کرنا ورنہ اس کے دوست کو بھی اس کی طرح ولا سے باہر نہیں نکلنے دیا جائے گا۔
کرم علی پھر بھی کسی نہ کسی طرح اپنے دوست کو اپنی حالت اور مصیبت کے بارے میں بتانا چاہتا تھا شاید وہ کچھ کر سکتا شاید ایمبسی کچھ کر سکتی، شاید حکومت پاکستان کچھ کر پاتی لیکن اردو جاننے والے اس کویتی کی موجودگی میں وہ اپنے دوست سے کیا کہتا۔ وہ دونوں صرف ایک دوسرے کا اور ایک دوسرے کے گھر والوں کا حال احوال دریافت کرتے رہے۔ اس کے دوست کو اس کویتی کی اس کے پاس موجودگی کھٹک رہی تھی۔ مگر اس کویتی نے اپنا تعارف کرم علی کے دوست کے طور پر کروایا تھا اور کرم علی نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بات پر سر ہلا کر تائید کی تھی۔
”میرے لئے بھی یہیں اصطبل میں کہیں کام دیکھو۔” اس کے دوست نے اس سے کہا۔
کرم کا جی چاہا وہ اس سے کہے کہ وہ بہت خوش قسمت ہے جو اس اصطبل میں نہیں ہے۔ ”ہاں میں دیکھوں گا۔” کرم نے سر ہلاکر اس سے کہا۔ ایک گھنٹہ کی ملاقات میں کرم علی کا ذہن مکمل طور پر کہیں نہ کہیں بھٹکتا رہا تھا۔
اسے بار بار خیال آرہا تھا کہ اس کا وہ دوست یا اس کے باقی دوستوں میں سے کوئی بھی اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ وہ سب چھوٹے لوگ تھے جن کے وجود سے ان کے خاندانوں کے چولہے جلتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کویت میں غیر قانونی طور پر رہ رہے تھے اور جو قانونی طور پر آتے تھے، وہ اپنے کفیل کے ہاتھوں خوار ہو رہے تھے۔ ان میں سے کوئی اس کے لیے کیا کرتا۔ کون پولیس اسٹیشن جا کر شیخ سعود بن جابر کے خلاف حبس بے جا کی رپورٹ درج کروا سکتا تھا اور رپورٹ درج ہو بھی جاتی تو وہ کویت سے ڈی پورٹ ہو جاتا اس کا کفیل اسے زبردستی واپس بھجوا دیتا اور سعود بن جابر کے ولا سے پھر بھی کرم علی برآمد ہوتا نہ ہوتا لیکن ایک خاندان کے لوگوں کی زندگیاں اور رزق ضرور کرم علی کی وجہ سے جاتا۔
وہ کسی دوست سے پہلی اور آخری ملاقات تھی جو اس نے وہاں کی تھی۔ اس نے دوبارہ کسی سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور کسی میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ کوئی سعود بن جابر کے ولا میں کرم علی سے ملنے آتا یا ہو سکتا ہے کوئی ملنے آیا بھی ہو مگر اس کو پتہ نہ چلا ہو۔
اصطبل میں دوسرے ہفتے بھی کوئی گھوڑا نہیں مرا۔ کرم علی کو ایک ہزار دینار اور دیے گئے۔ اس کے پاس اب دو ہزار دینار تھے اور ان دو ہزار دیناروں کے لیے اسے کسی قسم کی محنت نہیں کرنا پڑی تھی۔ اس نے پچھلے چار سالوں میں کبھی کویت میں دو ہفتوں میں دو ہزار دینار نہیں کمائے تھے۔ وہ کئی گھنٹے ان دیناروں کو ہاتھ میں پکڑے بیٹھا رہا۔ وہ ایک عمر قید کاٹنے والے کو ملنے والا معاوضہ تھا۔
اگلے دن وہ دو ہزار دینار اس نے ا پنے گھر والوں کو پاکستان بھجوا دیے تھے۔ اس نے پچھلے ہفتوں میں دو بار ان سے فون پر بات کی تھی۔ اس فون کے دوران بھی وہ کویتی اس کے پاس بیٹھا رہا۔
اس نے دو ہی بار فون پر عارفہ سے بات کی تھی۔ اس وقت پہلی بار اس کا دل چاہا وہ اس سے کہے کہ وہ اس کا انتظار نہ کرے۔ اسے اب واپس نہیں آنا تھا مگر وہ اس سے یہ نہیں کہہ سکا۔ وہ اتنی محبت اور گرم جوشی کے ساتھ اس کا حال احوال پوچھتی رہی تھی کہ وہ اس سے سچ نہیں بول سکا۔
تیسرے ہفتے بھی اصطبل کا کوئی گھوڑا نہیں مرا تھا شیخ سعود بن جابر نے اس ہفتے اپنے ولا میں ایک جشن کا اہتمام کیا تھا۔ کرام علی کو ایک ہزار کے بجائے دو ہزار دینار دیے گئے اور اس رات اس کے لیے ولا میں منگوائی ہوئی عورتوں میں سے ایک عورت اور شراب بھی بھجوائی گئی۔ سعود بن جابر اصطبل میں اس کی دل بستگی کا سامان کر رہا تھا۔ کرم علی نے دونوں چیزیں واپس بھجوا دیں وہ جب آزاد تھا تب بھی اسے ان دنوں چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اب تو وہ ایک غلام تھا۔
چوتھے ہفتے کرم علی نے دعا کی تھی کہ اس ہفتے گھوڑا مر جائے شاید اس طرح اس کو وہاں سے نجات مل جاتی اس نے سعود بن جابر سے یہ واقعی نہیں پوچھا تھا کہ اگر اس کی وہاں موجودگی میں بھی گھوڑے مرتے رہتے تو پھر کیا ہوتا۔ یقینا پھر اسے وہاں سے نجات مل جاتی۔ یک دم جیسے اسے ایک موہوم سی امید پیدا ہوئی تھی۔ چوتھے ہفتے بھی کسی گھوڑے کو کچھ نہیں ہوا تھا۔
اور اس ہفتے سعود بن جابر سے کرم علی کی دوبارہ ملاقات ہوئی سعود بن جابر پہلے سے بھی زیادہ گرم جوشی سے کرم سے ملا تھا اور اس بار اس نے وہی سوال کیا تھا جو پچھلے کئی دنوں سے اس کے ذہن میں بار بار آرہا تھا۔
”اگر میرے یہاں رہتے ہوئے بھی گھوڑے مرتے رہے تو… یا دوبارہ مرنے لگے تو…؟”
سعود بن جابر کے چہرے کی مسکراہٹ یک دم غائب ہوگئی۔ کرم علی جانتا تھا اس کا سوال غلط تھا اور نامناسب بھی مگر جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا تھا اس میں وہ کسی مناسب یا غیر مناسب چیز کی کیا پروا کرتا۔
”اس بدو نے کہا تھا کہ ایک برص زدہ آدمی کے آجانے سے یہ سلسلہ رک جائے گا اور یہ سلسلہ رک گیا اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ سلسلہ ایک بار رک گیا تو دوبارہ شروع نہیں ہو گا۔” سعود بن جابر نے بے حد جتانے والے انداز میں کہا۔
”لیکن اگر پھر ہونے لگا تو؟” کرم نے ایک بار پھر وہی سوال کیا۔ سعود بن جابر پلکیں جھپکائے بغیر بہت دیر تک اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”اس بدو نے کہا تھا کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکااور رکنے کے بعد دوبارہ شروع ہو گیا تو پھر اس برص زدہ آدمی کو مارنا پڑے گا۔”
کرم علی کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ اسے لگا سعود بن جابر نے اس کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ مگر اس سعود بن جابر کے چہرے پر مذاق کی کوئی رمق نظر نہ آئی۔ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
”اس لیے تم دعا کرو کہ یہ سلسلہ دوبارہ شروع نہ ہو۔” سعود بن جابر نے شراب کا اگلا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔ اب کرم علی کی سمجھ میں آگیا تھا کہ ایک برص زدہ آدمی کی تلاش اتنی راز داری سے کیوں کی گئی تھی۔ سعود بن جابر اخبار میں اشتہار دیتا تو سینکڑوں نہیں تو درجنوں لوگ اسے ان علامات کے ساتھ… کہیں بھی مل جاتے مگر اس کے ساتھ ہی اخبار کا یہ اشتہار بہت سے دوسرے لوگوں کی نظروں میں آتا اور بدوؤں کی یہ روایت کسی نہ کسی طرح منظر عام پرآجاتی۔ اور یہ منظر عام پر آجاتا تو اس کے لیے اس آدمی کو اس طرح غائب کرنا یا ضرورت پڑنے پر جان سے مار دینا آسان نہیں ہوتا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!