من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

زینی کو اگر سلطان نہ ملتا تو وہ فلم انڈسٹری میں آنے والی ہر نئی ہیروئن کی طرح اوپر نیچے ایک کے بعد ایک غلطیاں کرتی اور پھر شاید ان غلطیوں کی وجہ سے چند سالوں میں فلم انڈسٹری سے نکل بھی جاتی مگر سلطان کی شکل میں اسے جیسے فلم انڈسٹری میں ایک ”گاڈ فادر” مل گیا تھا۔ گاڈ فادر یا گرو؟
زینی کبھی یہ طے نہیں کر سکی کہ وہ سلطان کو کیا درجہ دے۔ اس کے رابطوں اور اثر و رسوخ پر حیران ہو یا اس کی چالوں اور ذہانت پر عش عش کرے۔ اس ذہن کے ساتھ وہ کسی بھی شعبے میں ہوتا اسی درجے میں ہوتا جس درجے پر اسے فلم انڈسٹری نے رکھا تھا مگر دوسرے کسی شعبے میں وہ کچھ بھی کر لیتا، اس کی شناخت اس کا ”جسم” ہوتا، اس کا ذہن نہیں۔ اس کی شناخت صرف اس کا تیسری جنس ہونا ہوتا۔
اور اتنا شاطر ہونے کے باوجود سطان بنیادی طور پر برا آدمی نہیں تھا۔ اس کے اندر وہ مکاری نہیں تھی جو شوبز کی ہیروئنوں کے سیکریٹری میں ہوتی تھی۔ زینی کو بعض دفعہ نشا کی بے وقوفی پر حیرت ہوتی۔ اس نے کس طرح سلطان جیسے آدمی کو گنوا دیا تھا اور اس نے کئی بار اس کا اظہار سلطان سے کیا بھی مگر سلطان جواب میں کچھ نہیں کہتا تھا۔
اس نے نشا کا کام چھوڑنے کے بعد نشا کے یا اس کی زندگی کے بارے میں زینی سے کبھی کچھ نہیں کہا تھا۔ کوئی برائی، کوئی راز، اس کی زبان پر کچھ نہیں آیا تھا۔ اور زینی اس کی اس بات کی قدر کرتی تھی اور اس کا سلطان پر اعتماد اس لیے بھی بڑھتا گیا تھا کیونکہ اسے یقین تھا کہ کل کو وہ اگر اسے چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا تو وہ وہاں جا کر نشا کی طرح اس کے بارے میں بھی کسی سے کوئی بات نہیں کرے گا۔
زینی اور سلطان کے درمیان پہلا اختلاف سفیر خان کے حوالے سے ہوا تھا۔ زینی اپنی پہلی فلم میں اس کے ساتھ کام کر رہی تھی مگر اسے سفیر کی شکل سے بھی نفرت تھی کہ وہ پانی کی طرح شراب پینے کا عادی تھا اور اکثر سیٹ پر بھی شراب کے نشے میں دھت رہتا اور زینی اسے ناپسند کرتی تھی… یہ بات سفیر خان سے زیادہ دن چھپی نہیں رہی تھی۔ وہ اس کی فلمی پارٹیز میں اس کے مدعو کرنے کے باوجود نہیں آئی تھی۔ وہ اس کے ساتھ آؤٹنگ کے لیے نہ جاتی۔ اس کی موجودگی میں ایک بے تاثر چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھی رہتی۔ وہ تبریز پاشا کی پسند پر اس فلم میں نہ ہوتی تو اس رویے پر سفیر خان اب تک اسے فلم سے نکلوا چکا ہوتا یا پھر بقول اس کے ، زینی کا دماغ ساتویں آسمان سے زمین پر آچکا ہوتا۔
لیکن وہ تبریز پاشا کی ہیروئن تھی اور فی الحال سفیر خان کو ناکوں چنے چبوا رہی تھی اور سفیر اس احساس کے ساتھ اکیلا نہیں تھا۔ انور حبیب بھی زینی کے بارے میں یہی سب کچھ محسوس کرتا تھا۔ زینی کا رویہ اس کے ساتھ بھی ایسی ہی بے اعتنائی لیے ہوئے تھا جو سفیر خان کے ساتھ رکھتی تھی لیکن انور حبیب، سفیر خان کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا تھا۔
اس کی ابتدائی پیش قدمی کو روکنے پر انور حبیب نے اسے دھمکایا تھا کہ وہ تبریز پاشا سے اسے فلم سے نکالنے کے لیے کہے گا۔ اس سے بڑی دھمکی وہ فلم انڈسٹری میں آنے والی کسی نئی ہیروئن کو نہیں دے سکتا تھا۔ زینی نے اس کے جواب میں اسے تبریز پاشا کا نمبر فون پر ملا کر دے دیا تھا۔
یہ انور حبیب کے منہ پر چانٹا مارنے کے مترادف تھا کم از کم انور حبیب نے یہی محسوس کیا تھا۔





زینی سے اس کی نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ ویسے بھی فلم میں کام کرنے والی عورتوں کو ”عورت” نہیں سمجھتا تھا اور اس پر ایسی عورتیں اگر اس طرح کے نخرے دکھاتیں جو زینی دکھا رہی تھی تو کم از کم انور حبیب کے لیے یہ سب ناقابل برداشت تھا۔ مگر سفیر خان کی طرح وہ بھی تبریز پاشا کی وجہ سے مجبور تھا۔
وہ نہ فلم چھوڑ سکتا تھا نہ زینی کو فلم سے کٹ کروا سکتا تھا مگر اس نے تبریز پاشا کے سامنے زینی کے خلاف زہر اگلنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور دوسری طرف وہ زینی کو شوٹنگ کے دوران تنگ کرنے لگا۔ زینی کے لیے غیر مہذب سے غیر مہذب ترین لباس اس کے کہنے پر تیار کیے گئے۔ کوریو گرافر اس کے کہنے پر بے حد قابل اعتراض ڈانس اس سے کرواتا اور انور حبیب کیمرہ مین سے کہہ کر بے حد نامناسب اینگلز سے زینی کو مختلف سین میں شوٹ کرتا رہا۔
پہلی دونوں چیزوں کوزینی نے فوراً محسوس کر لیا تھا۔ صرف تیسری چیز ایسی تھی جس کے بارے میں اسے کبھی اندازہ نہیں ہو سکا۔ اگر انور حبیب اور سفیر خان پہلی ہی فلم میں اسے ناپسند کرنے لگے تھے تو خود زینی بھی ان دونوں سے نفرت کرنے لگی تھی۔ یہ صرف تبریزپاشا تھا جو فی الحال اس کے لیے اچھا خاصا سوفٹ کارنر رکھتا تھا مگر یہ سوفٹ کارنر وہ انڈسٹری میں آنے والی ہر اس نئی ہیروئن کے لیے رکھتا تھا جس کے ساتھ اس کے تعلقات ہوتے۔
جس دن وہ اس کے دل سے اترتیں۔ وہ نرم گوشہ بھی اس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا پھر انڈسٹری کے غلیظ ترین مردوں کی ٹاپ لسٹ میں وہ سب سے اوپر کھڑا نظر آتا۔ کم از کم فلمی ہیروئنوں کی ”زبان” اور ”نظر” میں۔
اور سلطان فی الحال زینی کے ساتھ سفیر اور انور حبیب کے معاملے پر خوش نہیں تھا۔ انڈسٹری میں زینی کے رویے اور مستقبل کے بارے میں پہلے ہی باتیں ہونے لگی تھیں۔ افواہیں پھیل رہی تھیں اور خدشات کا اظہار ہونے لگا تھا اور ان سب کا ذریعہ سفیر اور انور حبیب تھے جو نہ صرف دوسرے پروڈیوسرز کو زینی کو اپنی فلم میں کاسٹ کرنے سے منع کر رہے تھے بلکہ دھمکانے کی حد تک منع کر رہے تھے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک ایسا کرتا تو شاید زینی کے لیے اتنا نقصان دہ نہ ہوتا لیکن اگر انڈسٹری کا اکلوتا سپر اسٹار اور کامیاب ترین ڈائریکٹر اس طرح مشترکہ حریف بن جائیں تو حالات واقعی سنگین ہو سکتے تھے۔ اور سلطان کو اس کا اچھی طرح اندازہ تھا جو زینی کو نہیں تھا۔
اسے یہ پتا نہیں تھا کہ پہلی فلم میں بننے والا امیج لوگوں کے ذہنوں سے مٹانا بے حد مشکل ہوتا ہے اور انور حبیب انتقاماً جس انداز میں اسے ایکسپوز کر رہا تھا وہ زینی کے لیے پبلک اور میڈیا کی تنقید اور اعتراضات کے سیلاب کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اور ہیروئن پر ایسی تنقید کا مطلب فلم کے فلاپ ہونے کی صورت میں نکلتا تھا۔
وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اتنی بڑی فلم کے فلاپ ہونے کی صورت میں زینی پر پبلک اور میڈیا کی تنقید کی بھر مار ہوتے ہی تبریز پاشا اپنی اگلی کسی فلم میں اسے نہیں لیتا۔
وہ اپنی ہیروئنوں کے امیج کے بارے میں بڑا حساس تھا۔ ایک خوبصورت سیدھی سادھی ، بھولی بھالی ہیروئن پاشا پروڈکشنز کی فلموں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی اور انور حبیب زینی کے اس امیج کو بگاڑنے پر تلا ہوا تھا جو اس کے خیال میں اسے مزید شہرت اور مقبولیت دے سکتا تھا۔
وہ زینی کو اپنے قدموں پر گرا ہوا دیکھنا چاہتا تھا۔ اس سے ایک فلم ، ایک چانس کی بھیک مانگتے ہوئے۔ اس کی اکڑی ہوئی گردن، اس کا تنا ہوا جسم جیسے ہر وقت سفیر خان اور انور حبیب کو چیلنج کرتا محسوس ہوتا تھا۔
”تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔”
ہر بار پری زاد پر نظر پڑتے ہی ان کے ذہن میں صرف ایک جملہ گونجتا تھا۔
سلطان کو انڈسٹری میں زینی کے بارے میں کہی جانے والی ہر بات کی بھنک پڑ جاتی تھی۔ انڈسٹری کے لوگوں کے تبصرے، ان کی پیش گوئیاں وہ جیسے انڈسٹری کے ”کرسٹل بال” کو دیکھ کر کسی کا بھی مستقبل دیکھ سکتا تھا اور وہ زینی کے مستقبل میں بھی جھانکنے لگا تھا اور مستقبل کی وہ جھلک اسے خوفزدہ کر رہی تھی۔ زینی کے ساتھ گزارے جانے والے ہر دن کے بعد وہ زینی سے پہلے سے زیادہ قریب ہوتا جا رہا تھا۔ اور وہ ایک سیکریٹری سے زیادہ ایک دوست کی حیثیت سے زینی کے لیے پریشان ہوتا تھا۔ زینی کا مسئلہ کیا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔ اور شاید یہی وہ چیز تھی جو زینی کے بارے میں اسے پریشانی کا شکار کیے رہتی تھی۔
وہ انڈسٹری کی ہر ہیروئن کی ذہنی حالت اور جذباتی کیفیت سے واقف تھا۔ ان کے مسائل جانتا تھا، ان کے رد عمل کو پہلے سے بوجھ سکتا تھا۔ ان کی زبان سے نکلنے والے لفظوں سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ مگر پری زاد… پری زاد جیسی عورت اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ کبھی ا پنے ارادوں، اپنے خیالات کو اپنے فیصلوں کا اظہار وقت سے پہلے نہیں کرتی تھی۔ وہ جیسے ہر ایک کو تاریکی میں رکھ کر ہر فیصلہ کرنے اور ہر قدم اٹھانے کی عادی ہو گئی تھی۔
سلطان نے ایسی بے خوفی، ایسی دلیری اور ایسی جرأت انڈسٹری کی کسی عورت میں تو کیا کسی مرد میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ اور وہ جانتا تھا شوبز میں ان تین خصوصیات کے ساتھ آپ دوست نہیں بناتے، دشمن بناتے ہیں۔ اور ایسے دشمن جن کی تعداد کو کوئی نہیں پہچانتا زینی اندھیرے میں چل رہی تھی اور اندھیرے کے دشمن بنا رہی تھی۔ اور سلطان اسے ہر سمت سے محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں ہلکان ہوتا جا رہا تھا۔
”آپ کل سفیر کی پارٹی میں جا رہی ہیں؟”
زینی کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سلطان نے اس سے کہا۔ وہ کچھ دیر پہلے ہی باہر سے آئی تھی اور اب اپنے سینڈل اتار رہی تھی۔
”مجھے اس کیکڑے کی پارٹی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” زینی نے بے حد تھکے ہوئے انداز میں قدرے سرد مہری سے کہا۔
”پچھلی بار بھی آپ کے نہ جانے پر وہ ناراض ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اگلے تین دن کے سینز شوٹ کرواتے ہوئے اس نے آپ کو کتنا تنگ کیا ۔ یاد ہے آپ کو؟” سلطان نے اسے جیسے تنبیہہ کی۔
”میری یادداشت بہت اچھی ہے سلطان!” وہ اپنے کام میں مصروف سلطان کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
”پری جی! سفیر کی ضرورت ہے آپ کو۔ انڈسٹری میں پیئر بنانا ہے آپ کو آگے جانے کے لیے… اور سفیر سے زیادہ اچھا کون سا ہیرو مل سکتا ہے آپ کو جان دیتا ہے وہ آپ پر۔”
سلطان نے سمجھانے والے انداز میں اس سے کہا اور پھر نیچے کارپٹ پر بیٹھ کر ٹیبل پر رکھے زینی کے پاؤں دبانے لگا وہ اب سگریٹ سلگا رہی تھی۔
”وہ عورت نام کی ہر چیز پر جان دیتا ہے۔” زینی نے جیسے سلطان کی کہی ہوئی بات کا مذاق اڑایا۔
”میں نے آپ سے کہا ہے آپ کو پیئر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر ہیروئن کو پیئر بنانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے بغیر کامیابی نہیں ملتی۔”
”میں کسی کے ساتھ بھی پیئر بنا لوں گی مگر سفیر کے ساتھ نہیں۔” زینی نے جیسے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”سفیر اچھا آدمی ہے۔” سلطان یہ کہہ کر بے اختیار پچھتایا۔
زینی اس کی بات پر یک دم کھلکھلا کر ہنسی۔
”مجھے اچھے آدمی اچھے نہیں لگتے، یہ میرا مسئلہ ہے۔” اس نے جیسے سلطان کا مذاق اڑایا۔
”وہ بڑے مسئلے پیدا کرے گا آپ کے لیے پری جی! میں بتا رہا ہوں آپ کو۔” سلطان کو اس کا ہنسنا اس وقت اچھا نہیں لگا۔
”پوری انڈسٹری سفیر کی سنتی ہے اور انڈسٹری میں پہلے ہی ہر ایک کہنے لگا ہے کہ سفیر آپ کو ناپسند کرتا ہے، آپ کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا۔”
”تو اس میں جھوٹ کیا ہے، بالکل سچ ہے یہ۔ انڈسٹری کو سننا چاہیے اسے۔” زینی سگریٹ پیتے ہوئے اب بھی اتنی ہی غیر سنجیدہ تھی۔
”اور ایسی ہی باتیں انور حبیب بھی ہر ایک سے کہہ رہا ہے۔”
”کہنے دو۔”
”ان کے بغیر بننے والی انڈسٹری کی ہر فلم بی کلاس فلم سمجھی جاتی ہے اور بی کلاس فلموں کی کوئی ہیروئن کبھی سپر اسٹار نہیں بنتی۔” سلطان اب اسے ڈرانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”میں نے کب کہا کہ میں سپر اسٹار بننا چاہتی ہوں۔ میں صرف پیسہ کمانا چاہتی ہوں اور میں یہ جان چکی ہوں کہ وہ فلموں سے نہیں کمایا جاتا، کس طرح کمایا جاتاہے یہ بھی جانتی ہوں۔”
وہ صاف لفظوں میں اسے بتا رہی تھی کہ وہ کیا کرنے وہاں آئی تھی اور اس وقت اسے پہلی بار زینی احمق لگی۔
”آپ کا خیال ہے کہ آپ کی فلموں کی آمد کے بغیر اور سپر اسٹار کہلائے بغیر بھی مرد آپ کے آگے پیچھے اسی طرح پھیریں گے جس طرح آج کل پھر رہے ہیں؟ اگر آپ کا یہ خیال ہے تو یہ آپ کی بڑی غلط فہمی ہے۔ آج انڈسٹری اس لیے آپ کے لیے کھڑی ہے پری جی کہ ہر ایک کو لگ رہا ہے آپ کی پہلی فلم ہٹ ہو جائے گی اور اس کے بعد آپ ایک ہاٹ پراپرٹی بن جائیں گی۔ ہر ایک سپر اسٹار پری زاد کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش رکھتاہے تاکہ وہ لوگوں کوبتا سکے کہ اس نے انڈسٹری کی اس سپر اسٹار کے ساتھ وقت گزارا جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پاکستان کا ہر مرد پاگل ہو رہا ہے… فلاپ فلموں کی ہیروئنوں کے ساتھ انڈسٹری کے مرد کیا سلوک کرتے ہیں اس کا اندازہ آپ کو ابھی نہیں ہے اور اللہ نہ کرے آپ کو کبھی اندازہ ہو۔”
سلطان نے اس بار ہر لحاظ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا۔ زینی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ چپ چاپ سگریٹ کے کش لگاتی رہی۔
”پھر میں سفیر کو بتا دوں کہ آپ کل اس کی پارٹی میں آرہی ہیں؟” سلطان کو اس کی خاموشی سے جیسے کوئی امید بندھی۔
زینی نے سگریٹ کا آخری کش لیتے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے کو ایش ٹرے میں اچھال دیا اور سلطان کی طرف دیکھا۔
”نہیں، میں کل اشتیاق رندھاوا کی پارٹی میں جا رہی ہوں۔” وہ کہتے ہوئے اٹھ گئی۔ سلطان ایک لفظ نہیں کہہ سکا۔ اشتیاق رندھاوا پاکستان کا وزیر داخلہ تھا۔
*****




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!