من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

زینی کس حد تک بدل گئی تھی۔ یہ نفیسہ اور باقی گھر والوں کو اس کے گھر میں آنے کے چند دنوں کے اندر ہی پتہ چل گیا تھا۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے دھونے والی اور ہر اچھی بری چیز سے چند لمحوں میں خائف ہو جانے والی زینی کا اب کہیں کوئی وجود نہیں تھا۔ جسے وہ اب دیکھ رہے تھے وہ کوئی اور زینی تھی جس کی طاقت، اثر و رسوخ پر کبھی ان سب کو شبہ ہوتا اور کبھی انہیں اس پر رشک آتا۔ وہ پیسہ جس کے لیے وہ سب دن رات ترستے رہتے تھے اسی گھر میں وہ پیسہ اب کسی کا مسئلہ نہیں تھا یا کم از کم فی الحال کسی کو وہ مسئلہ نہیں لگ رہا تھا۔
زینی دن ڈھلے اٹھتی تیار ہوتی پھر گھر سے نکل جاتی اور رات گئے آتی یا گھر آتی ہی نہیں تھی اور جب وہ گھر آتی تو گھر کا فون اور اس کا سیل فون مسلسل بجتے رہتے۔ گیٹ کے باہر کوئی نہ کوئی گاڑی اس کے انتظار میں کھڑی رہتی۔ وہ بعض دفعہ گھر میں صرف لباس تبدیل کرنے آتی تھی۔ بعض دفعہ اس کے لیے بھی نہیں جوس کا ایک گلاس جو وہ صبح جاگ کر لیتی تھی وہ واحد خوراک تھی جو وہ روز باقاعدگی سے گھر میں لیتی تھی پھر اس کے بعد وہ باہر کیا کھاتی تھی کیا پیتی تھی۔ کچھ کھاتی پیتی بھی تھی یا نہیں نفیسہ کو کچھ پتا نہیں ہوتا تھا۔
ربیعہ اور سلمان دوبارہ کالج جانا شروع کر چکے تھے۔ زینی کا گھر والوں کو گھر میں لانے کے بعد ربیعہ سے اکیلے میں کبھی سامنا نہیں ہوا تھا۔ اگر کبھی سامنا ہوا بھی تو ربیعہ اس سے بات کیے بغیر ہٹ جاتی تھی۔ وہ ناراض تھی زینی جانتی تھی۔
اس کی ناراضی ٹھیک تھی زینی یہ بھی جانتی تھی جو کچھ ہوا زینی کو اس پر دکھ بھی تھا اور افسوس بھی۔
لیکن اس سب کے باوجود وہ ربیعہ کے ساتھ بیٹھ کر کسی پرانے ایشو کو ڈسکس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ ہر چیز ساتھ ساتھ دفن کرتی جا رہی تھی۔ یہ نہ کرتی تو زندہ رہنا اس کے لیے بے حد ناممکن ہو جاتا۔
فاران کے ساتھ کانٹریکٹ ختم ہونے کے باوجود زینی کے ماڈلنگ کیریر پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ پہلے سے زیادہ مصروف زیادہ مشہور ہو رہی تھی اور اس کی پہلی فلم کی ریلیز میں صرف کچھ وقت ہی باقی تھا۔ اس فلم کی کامیابی اسے سپر اسٹار بناتی اور اس کے ریٹس میں یک دم اضافہ ہو جاتا اور یہ وہ واحد چیز تھی جس سے زینی کو دلچسپی تھی۔ پیسہ اور صرف پیسہ۔
اس کے گھر میں پہلے فلم انڈسٹری سے منسلک لوگ آتے تھے مگر اپنے گھر والوں کو وہاں لے آنے کے بعد اس نے شوبز سے منسلک یا اپنے شناسا کسی بھی شخص کو گھر آنے سے روک دیا تھا۔ وہاں اس کی بہنیں اور اس کی بہن کی بچیاں تھیں اور وہ نہیں چاہتی تھی اس کی زندگی یا لائف اسٹائل کی وجہ سے ان میں سے کسی کے لیے کوئی مزید مسئلہ پیدا ہوا۔
٭٭٭




نعیم کو لگ رہا تھا اس کا دل جیسے رک جائے گا۔ پولیس اس کے سامنے اس کی دکان کے سامان کو نکال نکال کر پھینک رہی تھی۔ اچھرہ میں کرائے پر لی ہوئی کپڑے کی یہ دکان وہ پچھلے پندرہ سال سے چلا رہا تھا۔ آج تک کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا اور ایک ہفتہ پہلے یک دم ہی اس کی دکان کے مالک نے اس سے دکان خالی کرنے کے لیے کہتے ہوئے کہا کہ اس نے دکان کسی کو بیچ دی ہے۔
نعیم کے سر پر جیسے آسمان گر پڑا تھا۔ اس طرح کیسے وہ اچانک دکان بیچ سکتا تھا؟ اس نے دکان خالی کرنے سے انکار کرتے ہوئے مالک سے کہا کہ وہ اس کے خلاف تاجروں کی یونین کے پاس جا کر شکایت کرے گا۔
مالک نے جواباً کہا کہ وہ اس کے خلاف کیس کرے گا۔ نعیم کیس کا سنتے ہی کورٹ سے سٹے آرڈر لے آیا۔ اس کا خیال تھا کچھ عرصہ یہ مسئلہ اسی طرح لٹکا رہے گا پھر دونوں پارٹیز کے درمیان مصالحت ہو جائے گی۔ وہ تب تک سکون کا سانس لے سکتا ہے۔
چار دن بعد ویسے بھی اس کی دوسری شادی ہونے والی تھی وہ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اپنی شادی کے انتظامات میں بھی مصروف تھا۔ مگر اب stay order کے دوسرے ہی دن پولیس کی ایک پارٹی وہاں آئی تھی اور انہوں نے اس سے اس بار دکان خالی کرنے کے لیے نہیں کہا انہوں نے یہ کام خود کرنا شروع کر دیا۔
کپڑے کے تھان اور کٹ پیسزکا ڈھیر دکان سے باہر پھینکنا شروع کرنے سے پہلے انہوں نے نعیم کے مزاحمت کرنے پر اس کی ٹھکائی کی تھی اور اس ٹھکائی کے نتیجے میں کوئی دوسرا دکان دار نعیم کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھا تھا۔
مختلف رنگوں اور پرنٹوں کے کپڑوں کا ڈھیر دکان سے باہر پوری سڑک پر پھیلا ہوا تھا۔ نعیم کا رزق اس کے سامنے مٹی میں مل رہا تھا۔
٭٭٭
سلطان سے زینی کی پہلی ملاقات اس دن ہوئی تھی جب وہ اپنی فلم کے پہلے سین کے لیے ڈریسنگ روم میں میک اپ کروا رہی تھی۔ وہ انڈسٹری کی سپر اسٹار نشا کا سیکرٹری تھا اور انڈسٹری میں کنگ میکر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ انڈسٹری کی ہر ہیروئن نشا سے زیادہ اس کے سیکرٹری سے خوف کھاتی تھی۔ وہ جوڑ توڑ کا ماہر تھا اور اس کے تعلقات انڈسٹری کے ہر پروڈیوسر کے ساتھ تھے… اگر کوئی اسے نہیں جانتا تھا تو وہ پری زاد تھی اور اگر وہ کسی کو جاننا چاہتا تھا تو وہ پری زاد تھی۔
میک اپ آرٹسٹ غفور اس کا میک رپ کر رہا تھا جب نشا یک دم دروازہ کھول کر سلطان کے ساتھ اندر آئی تھی۔ زینی کو اس کا یہ انداز بے حد برا لگا تھا۔ غفور میک اپ کرتے کرتے نشا کی طرف متوجہ ہو گیا اور اس نے بڑے مودب انداز میں نشا کو سلام کرتے ہوئے اس کا حال پوچھا۔
”جلدی کرو غفور! مجھے سین کروانا ہے ابھی۔”
زینی نے غفور کو ٹوکا، غفور ایک بار پھر تیزی سے اس کے چہرے پر ہاتھ چلانے لگا۔ سامنے لگے آئینے میں زینی نے نشا کی بے حد چبھنے والی نظروں کو محسوس کیا تھا جو مسلسل اس کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔
”تمہیں کسی نے یہ نہیں سکھایا کہ سینئرز کی عزت کیسے کی جاتی ہے؟” نشا نے بالآخر بے حد تیزی سے کہا۔
”اگر تمہیں کسی نے یہ نہیں سکھایا کہ کسی کے ڈریسنگ روم میں کیسے آتے ہیں تو کوئی مجھے کیسے سکھا سکتا ہے کہ کسی کی عزت کرنی ہے۔”
زینی نے سرد مہری کے ساتھ کہا۔ نشا نے بے حد تیکھی اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس سے کہا۔
”میں نے سوچا پاشا صاحب کی ”نئی ہیروئن” کا دیدار کر لوں۔ پتہ نہیں کتنے دن رہتی ہے یہاں۔ بڑا شوق ہے پاشا صاحب کو ”نئی ہیروئنوں” کا۔ شکل و صورت تو خیر ٹھیک ہی ہے تمہاری۔ پر غفور! بڑا کام کرنا پڑے گا تمہیں اس پر۔ اب ہر کوئی نشا تو نہیں ہوتا کہ میک اپ مین کو کچھ کرنا ہی نہ پڑے۔ کیوں سلطان؟”
نشا نے سلطان سے رائے لی اور اسی وقت زینی نے آئینے سے نشا کے عقب میں کھڑے اس منخنی سے آدمی کو دیکھا جس پر ایک نظر ڈالتے ہی کسی کو بھی اسی کی جنس کا اندازہ ہوجاتا۔ وہ ایک ہیجڑاتھا۔ زینی نے دوسری نظر اس پر نہیں ڈالی۔ وہ اسے اس قابل نظر نہیں آیا تھا۔
مگر زینی پر ایک نظر ہی سلطان کو تشویش میں مبتلا کر گئی تھی۔ وہ نشا کے کیرئیر کے لیے پچھلے بارہ سالوں میں پہلی بار فکر مند ہوا تھا۔
”بازار کے کس گھر سے ہو؟” نشا نے اب زینی سے پوچھا جس نے اس کے پچھلے تبصرے پر کچھ نہیں کہا تھا۔
”بازار سے نہیں ہوں میں۔” زینی نے اس بار غرا کر کہا۔ نشا کی وہاں موجودگی اب اسے بری طرح کھلنے لگی تھی۔
”اوہ… اچھا… پہلے ہی ڈیفنس چلی گئی… تو پھر بازار میں کون ہے؟ ماں، خالہ، نانی، بہن؟” نشا نے بڑے بھولپن سے کہا۔
”غفور! دروازہ کھول کر اسے باہر کا راستہ دکھاؤ، یہ راستہ بھول کر آئی ہے یہاں ۔” زینی نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے غفور سے سختی سے کہا اور جیسے غفور کے لیے پریشانی پیدا کر دی۔
”چار دن ہوئے ہیں انڈسٹری میں آئے اور خاندانی بننے لگیں۔ نشا نے بارہ سال میں تمہارے جیسی درجنوں ہیروئنوں کو ”آتے” اور ”جاتے” دیکھا ہے۔ ایک فلم سائن کی ہے، وہ فلاپ ہوئی تو عقل ٹھکانے آجائے گی تمہاری۔” نشا نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
”پچھلے ہفتے اس سال کے دوران تمہاری ساتویں فلم ریلیز ہو کر فلاپ ہوئی۔ تمہاری عقل ٹھکانے آگئی کیا؟”
زینی نے بے حد ٹھنڈے انداز میں اس سے کہا اور جیسے اسے چابک دے مارا۔ اس سے پہلے کہ نشا غصے سے آگ بگولہ ہو کر اسے کچھ کہتی، سلطان نے فوراً سے پیشتر مداخلت کی۔
”نشا جی… چلیں یہاں سے… ڈرائیور انتظار کر رہا ہے۔”
نشا کمرے سے نکلنے سے پہلے زینی کو پہلی بار ان گالیوں کا تحفہ پیش کر کے گئی تھی جو بعد میں وہ ہر روز سنتی رہی تھی اور وہ صرف پہلی بار تھا، جب وہ کسی عورت کی زبان سے اس طرح کے الفاظ سن کر کچھ دیر کے لیے سن ہو گئی تھی۔
جب تک اس کے حواس بحال ہوئے۔ نشا اس کمرے سے جا چکی تھی۔ غفور بے حد نارمل انداز میں کام کر رہا تھا۔ یوں جیسے ان گالیوں میں کوئی خاص بات ہی نہیں تھی۔
٭٭٭
سلطان سے زینی کی دوسری ملاقات ایک ماہ بعد ہوئی تھی۔ وہ اس رات دیر سے گھر آئی تھی اور گھر کے اندر آتے ہی پورچ میں بیٹھے ایک آدمی کو دیکھ کر وہ چونک گئی جو اس کی گاڑی کو اندر آتے دیکھ کر اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا، وہ سلطان تھا۔
گاڑی سے اترتے ہی زینی نے اس سے پوچھا۔ ”تم یہاں… اس وقت کس لیے آئے ہو؟” اسے سوال کا جواب نہیں ملا۔ سلطان ہچکیاں لیتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔ تب پہلی بار زینی نے اس کے پھٹے ہوئے کپڑے اور اس کے چہرے پر زخموں کے نشان دیکھے۔
”اسے اندر لے جاؤ، کھانا کھلاؤ، کپڑے تبدیل کرواؤ پھر بات کرتی ہوں اس سے۔” زینی نے اپنے ڈرائیور سے کہا اور اند رچلی گئی۔
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہ جب کپڑے تبدیل کر کے شب خوابی کے لباس میں سگریٹ سلگائے لاؤنج میں آئی تو سلطان وہاں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ وہ کپڑے تبدیل کر چکا تھا اور اب قدرے پر سکون نظر آرہا تھا۔
زینی کو دیکھ کر وہ کپ لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
”بیٹھ جاؤ، کس نے مارا ہے تمہیں؟” زینی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”قسمت نے۔” اس کے جواب نے زینی کو چند لمحوں کے لیے حیران کر دیا۔ وہ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اسے دیکھنے لگی پھر اس نے مسکراتے ہوئے بڑے عجیب سے لہجے میں سلطان سے کہا۔
”قسمت مارے تو نشان چہرے پر نہیں، دل پر پڑتا ہے۔”
سلطان نے اپنے سینے کے بائیں جانب ہاتھ رکھتے ہوئے زینی سے کہا۔
”یہاں بھی پڑا ہے پری جی۔” زینی نے مسکراتے ہوئے اس بار کچھ کہنے کی بجائے سینٹر ٹیبل پر سگریٹ کی ڈبیا اور لائٹر اس کی طرف کھسکا دیا۔ سلطان نے ایک سگریٹ نکال لیا پھر بڑبڑانے لگا۔
”نشا نے مارا ہے اپنے ایڑھی والے جوتے سے پھر ملازموں سے پٹوایا پھر گھر سے باہر پھنکوا دیا مجھے۔ وہ کہتی ہے، میں نے اس کا پانچ لاکھ کا زیور چوری کر لیا۔”
زینی نے سگریٹ منہ سے ہٹاتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔
”تم نے چوری کیا؟”
”نہیں۔” سلطان نے بے ساختہ کہا۔ زینی ایش ٹرے میں راکھ جھاڑنے لگی۔ سلطان اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”آپ کو میری بات پر یقین نہیں آیا؟”
”نہیں۔” زینی نے اطمینان سے کہا۔
”میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے۔۔۔۔” زینی نے بے اختیار اس کی بات کاٹی۔
”تم قسم مت کھاؤ، قسم کھانے والا جھوٹا لگتا ہے مجھے۔” سلطان اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر بے اختیار ہنس پڑا۔ زینی نے چونک کر اسے دیکھا۔
”کیا ہوا؟”




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!